جمعہ، 2 فروری، 2018

اصلاح معاشرہ کی ضرورت


اسلامي تعليمات كا بنيادي مقصد معاشرے كي اصلاح هے اور اصلاح بهي اس طرح كه تمام انسانوں کی مابین اخوت ھو ايك دوسري كا احترام هو اور امن و امان كي زندگي بسر كريں اور اس طرح بسر كريں كه اخلاق كا دامن هاتهـ سے نه چهوٹے اور آخرت كي لامتناهي زندگي كے لیے اخلاق و تقوى كے ساتهـ تياري كريں تا كه الله ان سے راضي هو اور یه بنيادي مقصد تب هي حاصل هوسكتا هے که هم الله تعالي كے حكم كے مطابق آپ صلى الله عليه وسل كے اسوه حسنه كي پيروي كريں اوريه معلوم كريں كه آپ صلى الله عليه وسلم نے معاشرے كی اصلاح كس طرح فرمائي تهي , اور يه عقيده ركهيں كه هميں اس دنيا ميں كسي دوسرے مفكر , مصلح اور فلسفي رهبر كي ضرورت نهيں هے كيونكه ايك مسلمان كے سامنے هر كام كي غايت الله تعالي كي رضا هے اور قرآن كريم ميں هميں واضح طورپر يه حكم هے كه الله كي رضا اور خوشنودي صرف رسول الله صلى الله عليه وسلم كي اطاعت اور پيروي هي سے حاصل هوسكتي هے , بلكه الله تبارك وتعالى نے هم سے يه وعده كيا هے كه اگر تم الله كے رسول كي پيروي كروگے تو الله تعالى تم سے محبت كرے گا , فكر كا مقام هے كه كسي مسلمان كے لیے اس بڑهكر اوركيا مرتبه هوسكتا هے كه خود الله تعالى اس سے محبت كرنے لگے, چنانچه ارشاد باری تعالي هے قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳۱﴾ ال عمران

(اے پیغمبرلوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میر پیروی کرو خدا بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کردیگا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے . ال عمران
اس آیت نے تمام دعوے داران محبت کے لئے ایک کسوٹی اور معیار مہیا کر دیا ہے کہ محبت الہی کا طالب اگر اتباع محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے یہ مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے تو پھر تو یقینا وہ کامیاب ہے اور اپنے دعوی میں سچا ہے ورنہ وہ جھوٹا بھی ہے اور اس مقصد کے حصول میں ناکام بھی رہے گا.
اس تمہید سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اصلاح معاشرہ کے لیے بھی ہمیں رسول صلى الله عليه وسلم کا ہی اتباع کرنا ہوگا اور آپ ہی کی بتائی ہوئی راہ پر چلنا ہوگا اور آپ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرنا ہوگا، ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے آخری رسول کی پوری زندگی کا ریکارڈ ہمارے اسلاف نے ہمارے لیے جمع کردیا ہے , معاشره كے اصلاح كے لیے آپ صلى الله عليه وسلم كي كاميابي دنيا كي تاريخ كا سب سے بڑا اور اهم واقعه هے, کیا اپ نھیں دیکھتے که عرب کے باشندے غير تعليم يافته اور مختلف ٹولیوں میں بٹے ہوئے تھے، جہالت و سرکشی نے انہیں ایسے اوصاف سے بھی محروم کردیا تھا کہ جو تمام انسانوں کے لیے تو کیا خود ان کے لیے ہی ایک پر امن معاشرہ مہیا کرتا , ايسے معاشرے ميں جهاں اندھيرے هي اندھيرے تھے الله ذوالجلال نے انهي ميں سے رسول بهيجا اور اس كي ذمه یہ کام لگایا کہ معاشرے کو برائیوں سے پاک کریں اور اس طرح اصلاح کریں کہ وہ دنیا کا مثالی معاشرہ بن جائے اور افراد معاشرہ دنیا کی بہترین افراد بن جائیں , جيسا كه ارشاد باري تعالي هے
ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۲﴾ الجمعة
وہی تو ہے جس نے ان پڑھوں میں انہی میں سے (محمد کو) پیغمبر بنا کر بھیجا جو ان کے سامنے اسکی آیتیں پڑھتے اور ان کو پاک کرتے اور انہیں (خدا کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں۔ اور اس سے پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے ۔
رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
دو بنیادی اصولوں پر عمل کیا، ایک تو یہ کہ آپ نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہی، جس پر آپ خود عمل نہ فرماتے ہوں،
دوم جو شريعت اور احكام آپ صلى الله علي وسلم پر الله كي طرف نازل هوۓ اس پر مكمل خود عمل كر ديكهايا اور بلا تفريق تمام معاشرے ميں پهلايا تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے قول و فعل میں کبھی تضاد نہ تھا، جو فرماتے تھے خود اس پر عمل فرماتے تھے۔
اب يه بات روز روشن كي طرح واضح هوگئ كه معاشرے كي اصلاح كے ليے جو بهي كوشش كي جائے وه اس وقت تك كامياب هي نهيں هوسكتا جب تك اصلاح كرنے والا خود اس پر عمل نه كرتا هو , كيا آپ يه نهیں ديكهتے كه آج هماره معاشره كيوں مشكلات كا شكار هے هر طرف ناانصافي اور ظلم كا بازار گرم هے يهي وجه هے كه همارے حكمران كهتے كچهـ اور كرتے كچهـ هيں آئين كي بات تو كرتے هيں مگر اس پر خود انكا عمل نهيں , غريب كيلۓ قانون اور خود حكمرانون كيلۓ قانون واجب العمل نهيں لوگوں كو نصيحتين كرتے هيں روشنياں دكهاتے هيں محبت كا سبق پڑهاتے هيں خود غريبوں پر رحم سے عاري هيں, عقل و دانائي كي بنياد پر شاندار عمارتيں كهڑي كرتے هيں ليكن معاشرے پر ان كا كوئي اثر نهيں پڑتا , يه هے هماره معاشره كيا اسلامي تعليمات يهي تهي ؟ آج هم کہاں کھڑے ہیں؟ كيا هم خود اس ناقص معاشرے كي ذمدار نهيں ؟ هم نے خود اپنے آپ كو اس هلاكت ميں ڈالا هے , ھمیں قرآن کریم نے اس بات سے منع كيا تھاكه هم خود اپنے آپ كو هلاكت ميں نه ڈاليں جيسا كه ارشاد باري تعالى هے .. ( وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ۚۖۛ ) البقرة 195 ترجمہ: اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو . البقرة .
احکام الہی کی رو سے انسان کو اپنے تئیں ہلاکت میں ڈالنا منع ہے، مگر ہم نے اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن و سنت سے صرف نظر کرکے خود کو، اور پوری ملت پاکستانیہ کو اس راہ پر ڈالے رکھا جو صرف ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے، چنانچہ آج حال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہر قسم کے رذائل سرایت کرچکے ہیں، حد یہ ہے کہ عزت اور جان بھی اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں خطرے میں رہتی ہے،
ايك شاعر كهتا هے
اب درندو سے نه حيوانوں سے ڈر لگتا هے
                          كيا زمانه هے كه انسانون سے ڈر لگتاهے
عزت نفس كسي شخص كي محفوظ نهيں
                        اب تو اپنے نهگبانوں سے ڈر لگتا هے
خونريزي كا يه عالم هے كه الله خير كرے
                        اب مسلمانوں كو مسلماں سے ڈر لگتا هے
اور ایسا بھی نہیں ہے کہ اصلاح معاشرہ کی کوشش نہ ہورہی ہو، سیاست دان اصلاح کی تلقین کرتے رہتے هيں ، وعظ و تبلیغ کا ایک سلسلہ ہے جو قیام پاکستان کے بعد سے برابر جاري ہے، مسجدوں کے امام ہر جمعہ کو لوگوں کو اچھا بننے کی تلقین بھی کرتے رہتے ہیں، لیکن ان تمام کوششوں کا بظاہر کوئی مثبت نتیجہ نظر نہیں آتا, اورغالباً اس کی بہت بڑی وجہ اس كے علاوه اور کیاهوسكتا ہے كه هم جو كهتے هيں وه كرتے نهيں اور جس بات كا ترك كرنے كو كهتے هيں خود اسےچھوڑتے نهيں, اصلاح كا يه طريقه سنت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف ہے، اس لیے یه کبھی بر آور نہیں ہوسکتا۔ اسلام میں اصلاح معاشرہ اور پائیدار معاشرے کا ایک اھم بنیادی نکتہ یہ ہے كه آپ كے قول و فعل ميں تضاد نه هوں , ديكهئے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اوائل زندگی ہی سے سچائی اور راست بازی پر سختی کے ساتھ عمل کیا اور مسلمانوں کو جھوٹ سے بچنے کی تلقین کرتے رہے، خود آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا اور صحابه كرام کو بھی اس رذیل ترین فعل سے احتراز کرنے کی تاکید فرماتے رہے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ وصف بعثت سے قبل بھی اس قدر نمایاں تھا کہ کفار و مشرکین بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو صادق اور امین مانتے تھے۔ اسي ليے قرآن كريم نے هميں دعوت دي كه { لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ } یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ( زندگي) میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے . الاحزاب 21
قرآن كريم كي اس آيت كريمه نے واضح كرديا كه تمهاري لیے آپ صلى الله عليه وسلم كي زندگي ایك بهترين نمونه هے , مطلب كيا
اگر آپ حكمران هيں : تو تمهارے لیے آپ صلى الله عليه وسلم كي زندگي ایك بهترين نمونه هے .
اگر آپ سپاه سالار هيں : تو تمهارے لیے آپ صلى الله عليه وسلم كي زندگي ایك بهترين نمونه هے .
اگر آپ خطيب اور امام مسجد هيں : تو تمهارے لیے آپ صلى الله عليه وسلم كي زندگي ایك بهترين نمونه هے .
اگر باپ هيں : تو تمهارے لیے آپ صلى الله عليه وسلم كي زندگي ایك بهترين نمونه هے .
اگر آپ خاوند هيں : تو تمهارے لیے آپ صلى الله عليه وسلم كي زندگي ایك بهترين نمونه هے .
اگر آپ ايك عام انسان عام شهري هيں : تو تمهارے لیے آپ صلى الله عليه وسلم كي زندگي ایك بهترين نمونه هے .
ليكن افسوس كے ساتهـ كهنا پڑ رها هے كه آج هم دعوى اسلام كا كرتے هيں, تلاوت كلام پاك بهي كرتے هيں, قرآن كو الله كا كتاب بهي مانتے هيں, اور اسے مکمل الله کا قانون بھی مانتے ھیں اور یه بھی مانتے ھیں که ھماري اسلاف نے اسی کتاب الله پر فیصلے کیۓ ان کا ملکی نظام بهي يهي قرآن تها , اورآج هم اپني مشكلات كا حل كسي اور نظام كے ترو تلاش كرتے هيں تو همارے قول اور فعل مين تضاد هے لهذا هميں صحيح معاشره هاتهـ نهيں آرها كل سے آج برا اور آج سے كل برا هوگا , اسي لئے پاکستان کا معاشرہ کئی قسم کی برائیوں میں مبتلا ہے، ذخیرہ اندوزی، چیزوں میں ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، آپس ہی میں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش، لوٹ مار، ڈاکا، انسانوں کا اغوا اور قتل و غارت، وعدہ خلافی، خیانت اور بددیانتی، چغل خوری، بہتان اور غیبت، رشوت اور جوا اور سود،اب سوال یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح کیوں کر ہو؟
اس كا جواب اس كے علاوه اور كيا هوسكتا هے كه هم سب اور بالخصوص سربراہان معاشرہ اپنے کردار کو درست کریں , اور ان گناهوں سے اجتناب كريں جسے هميں الله اور اس كے رسول صلى الله عليه وسلم نے منع فرمايا هے اور برائی کو چھوڑنے کی کوشش کریں تو معاشرہ بتدریج انشاءاﷲ اصلاح کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ آئیے اب رفعت خلق کی بلندی اخلاق کا تجربہ کرلیں اور اس حقیقت کو فراموش نہ کریں کہ صرف اخلاق کی اچھائی سے ہم معاشرے کی اصلاح کرسکتے ہیں اور پاکستان کو صحیح معنی میں پاکستان بناسکتے ہیں۔
دعا ہے کہ ا ﷲ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اور اپنے ملک کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمين
طالب دعاء : اكبر حسين اوركزئي

کوئی تبصرے نہیں: