ہفتہ، 12 نومبر، 2016

خوف كي حالت میں نماز

خوف كى حالت ميں نماز ادا كرنے كا طريقہ كيا ہے ؟
الحمد للہ:
اول:
درج ذيل فرمان بارى تعالى كى بنا پر صلاۃ خوف مشروع ہے:
﴿ اور جب آپ ان ميں ہوں اور ان كے ليے نماز كھڑى كرو تو چاہيے كہ ان ميں سے ايك جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھيار ليے ہوئے كھڑى ہو، پھر جب يہ سجدہ كر چكيں تو يہ ہٹ كر تمہارے پيچھے آجائيں اور وہ دوسرى جماعت جس نے نماز ادا نہيں كى وہ آجائے اور آپ كے ساتھ نماز ادا كرے اور اپنے بچاؤ كے ليے ہتھيار اپنے ساتھ ليے ركھے، كافر تو يہ چاہتے ہيں كہ كسى طرح تم اپنے ہتھياروں اور اپنے سامان سے غافل ہو جاؤ تو وہ تم پر اچانك دھاوا بول ديں، ہاں اپنے ہتھيار اتار كر ركھنے ميں اس وقت تم پر كوئى گناہ نہيں جب كہ تمہيں تكليف ہو يا بارش كى وجہ سے يا بيمارى كے باعث، اور اپنے بچاؤ كى چيزيں ساتھ لئے رہو، يقينا اللہ تعالى نے منكروں كے ليے ذلت آميز عذاب تيار كر ركھا ہے ﴾النساء ( 102 ).
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى اپنے صحابہ كرام كو كئى بار مختلف طريقوں سے صلاۃ خوف پڑھائى ہے.
امام احمد رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
صلاۃ خوف كے متعلق چھ يا سات احاديث ثابت ہيں ان ميں سے جس طريقہ پر بھى صلاۃ خوف ادا كر لى جائے جائز ہے.
اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" نماز خوف كے اصل ميں چھ طريقے ہيں، اور بعض طريقے دوسرے سے زيادہ بليغ ہيں، انہوں نے قصہ ميں راويوں كے اختلاف كو ديكھا تو اسے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايك مستقل طريقہ بنا ديا، حالانكہ يہ راويوں كا اختلاف تھا " انتہى
حافظ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اور معتبر بھى يہى ہے.
صلاۃ خوف كا طريقہ شديد خوف اور دشمن كى جگہ مختلف ہونے كى صورت ميں مختلف ہو گا، كہ آيا دشمن قبلہ كى جانب ہے يا نہيں ؟
امام كو چاہيے كہ وہ حالت كى مناسبت اور مصلحت كو مد نظر ركھتے ہوئے جو طريقہ مناسب ہو اسے اختيار كرے، اور مصلحت يہ ہے كہ نماز كے ليے احتياط اور دشمن سے بچاؤ اور مكمل حفاظت ہو، حتى كہ دشمن مسلمانوں پر نماز كى حالت ميں اچانك حملہ نہ كرديں.
خطابى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" صلاۃ خوف كى كئى اقسام ہيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مختلف ايام ميں مختلف طريقوں اور اشكال ميں صلاۃ خوف ادا كى ہے، ان سب طريقوں ميں انہوں نے وہ طريقہ اختيار كيا جو نماز كے ليے زيادہ مناسب اور احوط ہو، اور دشمن سے بچاؤ ميں زيادہ بہتر " انتہى
ماخوذ از: شرح مسلم للنووى.
دوم:
صلاۃ خوف كى ابتدائى مشروعيت:
جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ہم نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى معيت ميں جھينہ قوم كے ساتھ غزوہ ميں حصہ ليا تو انہوں نے ہمارے ساتھ بہت شديد لڑائى لڑى، جب ہم نے ظہر كى نماز ادا كى تو مشرك كہنے لگے:
اگر ہم ان پر يكبارگى حملہ كرديں تو ہم ان كى جڑ كاٹ كر ركھ دينگے، چنانچہ جبريل امين عليہ السلام نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اس كى خبر كر دى، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں بتايا كہ:
وہ كہنے لگے: ابھى ان كى نماز كا وقت ہونے والا ہے يہ نماز انہيں اپنى اولاد سے بھے زيادہ محبوب ہے، چنانچہ جب نماز عصر كا وقت ہوا، جابر رضى اللہ تعالى كہتے ہيں: ہم نے دو صفيں بنائيں، اور حالت يہ تھى كہ مشرك ہمارى قبلہ والى جہت ميں تھے... پھر بيان كيا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں صلاۃ خوف پڑھائى "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 840 ).
سوم:
ہم ذيل ميں كچھ طريقے بيان كرتے ہيں:
پہلا طريقہ:
اگر دشمن قبلہ كى جہت ميں نہيں تو پھر لشكر كا امير اور قائد لشكر كو دو گروہوں ميں تقسيم كرے گا، ايك گروہ اس كے ساتھ نماز ادا كرے اور دوسرا دشمن كے مقابلہ ميں رہے، تا كہ وہ مسلمانوں پر حملہ نہ كر ديں، چنانچہ پہلے گروہ كو ايك ركعت پڑھائے اور جب دوسرى ركعت كے ليے اٹھے تو وہ خود نماز مكمل كر ليں، يعنى وہ انفرادى نماز كى نيت كرتے ہوئے دوسرى ركعت خود مكمل كر ليں، اور امام كھڑا رہے، پھر جب وہ نماز مكمل كر كے چلے جائيں اور دوسرےگروہ كى جگہ دشمن كے سامنے چلے جائيں، تو دشمن كے سامنے كھڑا دوسرا گروہ آكر امام كے ساتھ دوسرى ركعت ميں مل جائے، اس صورت ميں امام دوسرى ركعت پہلى ركعت سے لمبى ادا كرے گا تا كہ دوسرا گروہ اس كے ساتھ آكر مل سكے اور باقى مانندہ ركعت امام كے ساتھ ادا كرے پھر امام تشھد ميں بيٹھ جائے اور دوسرا گروہ سجدہ سے اٹھ كر دوسرى ركعت مكمل كرے اور امام كے ساتھ تشھدميں مل كر اكٹھے سلام پھير ديں.
يہ صورت اور طريقہ قرآن مجيد كى درج ذيل آيت كے موافق ہے:
﴿ اور جب آپ ان ميں ہوں اور ان كے ليے نماز كھڑى كرو تو چاہيے كہ ان ميں سے ايك جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھيار ليے ہوئے كھڑى ہو، پھر جب يہ سجدہ كر چكيں ( يعنى نماز مكمل كرليں ) تو يہ ہٹ كر تمہارے پيچھے آجائيں اور وہ دوسرى جماعت ( جو دشمن كے سامنے ہے ) جس نے نماز ادا نہيں كى وہ آجائے اور آپ كے ساتھ نماز ادا كرے اور اپنے بچاؤ كے ليے ہتھيار اپنے ساتھ ليے ركھے ﴾النساء ( 102 ).
ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 298 ) كچھ كمى و بيشى كے ساتھ
امام بخارى اور مسلم نے مالك عن يزيد بن رومان عن صالح بن حوات اور وہ ايك صحابى سے روايت كرتے ہيں كہ جو غزوہ ذات الرقاع ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ موجود تھے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں صلاۃ خوف اس طرح پڑھائى:
" ايك گروہ نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ صف بنائى اور ايك گروہ دشمن كے سامنے ڈٹا رہا، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے ساتھ نماز ميں كھڑے گروہ كو ايك ركعت پڑھائى اور پھر كھڑے رہے، اور پيچھے كھڑے صحابہ نے خود ہى نماز مكمل كى اور دشمن كے مقابلہ ميں چلے گئے، اور دوسرا گروہ جو دشمن كے سامنے تھا وہ آكر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ باقى مانندہ نماز ميں شامل ہو گيا، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بيٹھے رہے حتى كہ صحابہ نے خود نماز كى دوسرى ركعت مكمل كى اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كے ساتھ سلام پھيرا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 413 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 842 ).
مالك رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: نماز خوف كے متعلق ميں نے سب سے بہتر يہى سنا ہے.
دوسرى صورت اور طريقہ:
" اگر دشمن قبلہ كى جہت يعنى قبلہ رخ ہو تو امام لشكر كى دو صفيں بنائے اور سب كو اكٹھے نماز شروع كرائےگا، اور ركوع بھى سب كرينگے اور ركوع سے سب اكٹھے سر اٹھائينگے، ليكن جب سجدہ كرے تو پہلى صرف امام كے ساتھ پہلى صف سجدہ ميں جائے اور دوسرى صف پہرہ دينے كے ليے كھڑى رہے، اور جب امام پہلى صف كے ساتھ اٹھ كر كھڑا ہو جائے تو پچھلى صف سجدہ كرے اور جب كھڑے ہوں تو پچھلى صف آگے آ جائے اور پہلى صف پيچھے چلى جائے پھر امام ان سب كو دوسرى ركعت پڑھائے سب اكٹھے قيام اور ركوع كريں ليكن جب سجدہ ميں جائے تو پہلى صف سجدہ كرے جو كہ پہلى ركعت ميں پيچھے تھى اور جب تشھد ميں بيٹھ جائيں تو پچھلى صف سجدہ ميں جائے اور جب سب تشھد ميں بيٹھ جائيں تو امام سب كے ساتھ اكٹھى سلام پھيرے.
يہ صورت صرف اس وقت ممكن ہے جب دشمن قبلہ كى جہت ميں ہو"
ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 300 ).
امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں:
" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ صلاۃ خوف ادا كى چنانچہ ہم نے دو صفيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پيچھے بنائيں، اور دشمن ہمارى قبلہ والى جہت ميں تھا، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تكبير تحريمہ كہى اور ہم سب نے بھى تكبير تحريمہ كہى، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ركوع كيا اور ہم سب نے بھى ركوع كيا، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ركوع سے سر اٹھايا تو ہم سب نے بھى ركوع سے سر اٹھا ليا، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور آپ كے ساتھ پہلى صف والوں نے سجدہ كيا، ليكن پچھلى صف والے دشمن كے سامنے كھڑے رہے، اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سجدہ مكمل كر ليا اور آپ كے ساتھ والى صف كے لوگ كھڑے ہو گئے تو پچھلى صف والے لوگ سجدہ ميں چلے گئے اور سجدہ مكمل كر كے كھڑے ہوئے تو پھر پچھلى صف والے آگے اور اگلى صف والے لوگ پچھلى صف ميں آ گئے، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ركوع كيا اور ہم سب نے بھى ركوع كيا، پھر ركوع سے سر اٹھايا تو ہم سب نے بھى ركوع سے سر اٹھا ليا، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور آپ كے ساتھ والى صف جو پہلى ركعت ميں پيچھے تھى نے سجدہ كيا، اور پچھلى صف دشمن كے سامنے كھڑى رہى، اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے ساتھ والى صف نے سجدہ مكمل كيا تو پچھلى صف نے سجدہ كيا پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ نے سلام پھيرا تو ہم سب نے بھى سلام پھير ليا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 840 ).
تيسرا طريقہ اور صورت:
اگر شديد قسم كا خوف ہے اور امام كے ليے مسلمانوں كو نماز باجماعت كروانى ممكن نہ ہو، يہ گھمسام كى لڑائى اور دونوں صفوں كا آپس ميں شديد لڑائى كى صورت ميں ہو گا.
چنانچہ اس حالت ميں ہر مسلمان لڑائى كے دوران پيدل يا سوارى پر قبلہ رخ ہو كر يا بغير قبلہ رخ ہوئے ہى انفرادى حالت ميں ہى نماز ادا كرے گا، اور ركوع و سجود كے وقت جھكے گا ليكن سجدہ ركوع سے كچھ زيادہ نيچے ہو.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ اگر تم خوف كا شكار ہو تو پيدل يا سوار ہو كر ﴾البقرۃ ( 239 ).
سعدى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" رجالا " پيدل ، " او ركبانا " گھوڑوں اور اونٹوں اور باقى ہر قسم كى سوارى پر، اس حالت ميں قبلہ رخ ہونا لازم نہيں، چنانچہ خوف كى بنا پر معذور شخص كى يہ نماز ہو گى" انتہى
ديكھيں: تفسير السعدى ( 107 ).
امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اگر وہ اس سے زيادہ ہوں تو كھڑے اور سوار ہو كر نماز ادا كريں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 943 ).
حافظ رحمہ اللہ تعالى اس حديث كى شرح ميں لكھتے ہيں:
" اور اگر وہ اس سے زيادہ ہوں "
يعنى اگر دشمن زيادہ ہو، معنى يہ ہے كہ جب شديد قسم كا خوف ہو اور دشمن كى تعداد زيادہ ہو اور اس بنا پر منقسم ہونے كا خدشہ ہو تو اس وقت جس طرح ممكن ہو سكے نماز كى جائے، اور جن اركان كى ادائيگى كى قدرت نہ ہو تو اس كا اہتمام كرنا اور خيال ركھنا ترك كر ديا جائيگا، چنانچہ قيام سے ركوع، اور ركوع و سجود سے اشارہ كى طرف منتقل ہو جائينگے، جمہور علماء كرام كا يہى كہنا ہے " انتہى
اور طبرانى رحمہ اللہ تعالى نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ:
( جب وہ لڑائى ميں مشغول ہوں اور ايك دوسرے سے گھتم گتھا ہو جائيں، تو ذكر اور سر كے اشارہ سے نماز ادا ہو گى ).
اور امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے نافع رحمہ اللہ سے بيان كيا ہے كہ عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے نماز خوف كا طريقہ ذكر كيا اور پھر كہنے لگے:
" اگر خوف اس سے بھى زيادہ شديد ہو تو وہ پيدل كھڑے ہو كر نماز ادا كرينگے يا پھر سوارى پر ہى قبلہ رخ ہو كر، يا قبلہ رخ ہوئے بغير ہى "
نافع رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: ميرے خيال ميں عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ہى بيان كيا ہے.
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4535 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" حاصل يہ ہوا كہ ان كے اس قول: " اگر خوف اس سے بھى شديد ہو " ميں اختلاف ہے، آيا يہ مرفوع ہے يا ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما پر موقوف ہے ؟ ليكن راجح يہ ہے كہ يہ مرفوع ہے " انتہى
موطا كى شرح المنتقى ميں ہے كہ:
" ( اگر خوف اس سے بھى زيادہ شديد ہو " يعنى اتنا شديد خوف ہو كہ كسى ايك جگہ پر كھڑا ہونا ممكن نہ ہو، اور نہ ہى صف بنائى جاسكتى ہو، تو اس صورت ميں پيدل اپنے پاؤں پر ہى نماز ادا كرينگے، كيونكہ خوف كى دو قسميں ہيں:
ايك قسم ميں استقرار اور صف بنانى ممكن ہے، ليكن نماز ميں مشغول ہونے كى بنا پر خدشہ ہے كہ دشمن حملہ نہ كردے...
ليكن خوف كى دوسرى قسم ميں نہ تو استقرار ممكن ہے اور نہ ہى صف بنانى ممكن ہے، مثلا دشمن سے بھاگنے والا شخص تو اس شخص سے مطلوب ہے كہ اس كے ليے جس طرح بھى ممكن ہو نماز ادا كر لے، چاہے پيدل يا سوارى پر اللہ تعالى كا فرمان ہے:
﴿ اگر تمہيں خوف ہو تو پھر پيدل يا سوار ہو كر ﴾. انتہى مختصرا
چہارم:
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى " الشرح الممتع " ميں لكھتے ہيں:
" اور ليكن اگر كوئى قائل يہ كہے كہ: اگر فرض كر ليا جائے كہ نماز خوف ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے جتنى صورتيں ثابت ہيں دور حاضر ميں ان كى تطبيق ممكن نہيں؛ كيونكہ جنگى وسائل اور اسلحہ بہت مختلف ہے ؟
اس كا جواب يہ ہے كہ:
اگر ايسے وقت ميں نماز ادا كرنے كى ضرورت پيش آ جائے جس ميں دشمن سے خطرہ ہو اور وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بتائے ہوئے طريقوں كے مطابق نماز ادا نہ كر سكيں تو وہ اس طريقہ كے مطابق نماز ادا كرينگے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بتائے ہوئے طريقوں ميں سب سے زيادہ قريب ہو، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ تم ميں جتنى استطاعت ہے اس كے مطابق اللہ تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرو ﴾التغابن ( 16 ).
ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 300 ).
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجوا

بدھ، 2 نومبر، 2016

بچوں پر کارٹون کے منفی اثرات



مفتی محمد عارف باللہ القاسمی
========================================
مختلف ٹی وی چینلوں پر بچوں کے پسندیدہ کاڑٹونس پیش کئے جاتے ہیں ، جن کو بچے بہت ہی شوق ورغبت سے دیکھتے ہیں اور والدین بھی انہیں ان کے دیکھنے سے روکنے کی عموما ضرورت محسوس نہیں کرتے؛ کیونکہ بظاہر انہیں ان میں کوئی خامی نظر نہیں آتی ، بلکہ انہیں ان میں بچوں کی تفریح طبع نظر آتی ہے ، اس لئے بہت سے والدین تفریح کی خاطربچوں کوکارٹون کے پروگرام  لگا کر دیتے ہیں، تاکہ ان کی تفریح ہوجائے؛ کیونکہشہری زندگی میں جہاں بڑے افرادشہری ماحول کی تنگی سے دوچار ہیں وہیں بچے اپنے گھروں میں محصور ہونے پر مجبور ہوچکے ہیں اور کھلی فضا میں دوستوں کے ساتھ کھیل وتفریح سے محروم ہوچکے ہیں ،ساتھ ہی تعلیمی میدان میں انقلاب نے بچوں پر بچپن ہی سے کتابوں کے بوجھ کو ڈال دیا ہے ، جس کی وجہ سے ان کی تفریح کی ضرورت اور بڑھ چکی ہے ، تاکہ وہ تھوڑی دیر کی تفریح سے ذہنی تکان کو دور کرسکیں۔ان حالات میں بچوں کے لئے کارٹونس کے پروگرام بہت ہی مقبول ہوئے ہیں اور اندرون خانہ ذہنی تفریح کے لئے ان کواختیار کیا گیا ہے ۔
لیکن عموما جو کارٹونس چینلوں پر پیش کئے جاتے ہیں ان کو بنا نے والے وہ لوگ ہیں جن کے عقیدے اور عمل میں کجی ہے اور وہ خدا ورسو ل کے احکام سے بیزار ہیںاس لئے وہ ان کارٹونس کے ذریعہ بچوں کو ایسے پیغامات دیتے ہیں جو اسلامی عقائد اور اسلامی اعمال کے بالکل خلاف ہوتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ فلم کے ذریعہ پیش کی جانے والی باتیں ذہن میں اچھی طرح بیٹھ جاتی ہیں اور بچوں کے صاف ذہن اس کو بہت ہی زیادہ قبول کرتے ہیں۔
کارٹونس کے ذریعہ سب سے زیادہ بچوں کے عقائد خراب ہوتے ہیں؛ کیونکہ اکثر کاڑٹونس میںباطل مذاہب کے عقائد کی ترجمانی ہوتی ہیں، مثلا : کسی میںجادو گروں کی جادوگری ، ان کے کرتب، اور ان کی اثر انگیزی کو دکھلایا جاتا ہے ،کسی میں یہ دکھلایا جاتا ہے کہ مشکل حالات میں کسی بت کی پوچا کرنے سے وہ مشکل دور گئی، کسی کارٹون میں درخت وغیرہ کو آفات وحوادث سے حفاظت کرنے والے کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے ، کسی میں صلیب اور بت وغیرہ کے ذریعہ قلبی طمانینیت اور راحت حاصل ہوتے ہوئے دکھایا جاتا ہے ،کسی میں گرجا گھر وںیا بت کدوں کو بتاکر ان میں ادا کئے جانے والے شرکیہ اعمال کو بتایا جاتا ہے اور اس کے پس منظر میں اس کے فوائد بھی دکھلائے جاتے ہیں، غرضیکہ غیر اسلامی کہانیاں اور غیر مسلموں کے باطل نظریات اور دیومالائی کہانیاں ان کاڑٹونس کے ذریعہ بیان کئے جاتے ہیں ، اور بچے ان کو دیکھ کر ان سے صرف واقف ہی نہیں ہوتے بلکہ اسلامی تعلیمات سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے ان نظریات وعقائد سے متاثر ہوتے ہیں اور پھر اسلامی عقائد وتعلیمات کے حوالے سے ان کے ذہن میں منفی رجحان پیدا ہوتا ہے ؛ کیونکہ بچوں میں اتنا شعورتو ہوتا نہیں کہ دو متضاد چیز وں میں حق وباطل کا امتیاز کر سکیں ۔ بلکہ ٹی وی کی اسکرین پر انہیں جو کچھ نظر آتا ہے وہ اس کو صحیح تصور کرتے ہیں اور اس سے متأثر ہوتے ہیںاور ان کے حوالے سے ان کے ذہن میں عظمت واحترام کا رجحان پیدا ہوتا ہے ۔
نیز بہت سے کاڑٹونس میں لڑنے جھگڑنے اور مار پیٹ کو دکھلایا جاتاہے ، ان سے بچوں میں تند خوئی اور سختی پیدا ہوتی ہے اور وہ اس طرح لڑنا اور مارپیٹ کرنا شروع کرتے ہیں؛ اسی طرح بہت سے کاڑٹونس میں بداخلاقی اور غیر پسندیدہ جرأت مندی کے مناظر ہوتے ہیں ، لباس وضع وقطع غیر اسلامی ہوتے ہیں، اکثر میں غیر اسلامی تہذیب اور کلچر کو دکھایا جاتا ہے ،بہت سے کاڑٹونس میں جرائم کرنے اور ان کے برے انجام سے بچنے کے مناظر ہوتے ہیں ، اپنے بڑوں اور والدین کی عظمت کے بجائے ان کے ساتھ مزاق اور بدتمیزی بھی بعض کاڑٹونس میں ہوتے ہیں، جنہیں بچے دیکھ کر ان کی تقلید کرتے ہیں ؛ کیونکہ بچوں میں فطری طور پرکسی کی تقلید کرنے اور کسی کی نقل اتارنے کا مزاج رکھا گیا ہے ، وہ جو دیکھتے ہیں اس کو صرف اپنے صاف ذہن میں بٹھاتے ہیں نہیں بلکہ ویسا کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے اس طرح کے کاڑٹونس سے ان میں عملی بے راہ روی اور بداخلاقی پیدا ہوتی ہے اور جرم کرنے کے جن طریقوں سے وہ واقف نہیں ہوتے ،ان کے ذریعہ وہ واقف ہوکر جرم کی راہ پر چل پڑ تے ہیں۔اور پھر جھوٹے بہانوں کے ذریعہ والدین کو اپنے برے اعمال سے ناواقف رکھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔اور اس طرح بد عملی اور جھوٹ کی راہ ان کے لئے آسان ہوجاتی ہے۔اور پھر ایسے ہی بچے جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں برے اخلاق واعمال اورجرائم اور ان کی تدبیریں ان کے ذہن میں اور بھی شکلوں میں پیدا ہونے لگتی ہیں، بالآخر شیطان ان کو اپنا لقمہ تر سمجھ کر ان سے ہر طرح کی برائی کرواتا ہے اور ان کو نیکی سے متنفر اور برائی کا دلدادہ بنادیتا ہے ۔
اس لئے والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کی تقلیدی نظروں کے سامنے اچھے اخلاق واعمال کے نمونے پیش کریںاوراسلامی شخصیات کے واقعات ان کو سنائیںاور ان کے ذہن دوماغ میں اسلامی عقائد واعمال کو بسائیں ،تاکہ وہ اچھے اخلاق کے پیکر بن سکیں اور مروجہ کاڑٹونس سے ان کو دور رکھیں تاکہ ان کے ذریعہ ان میں برے عقائد اور برے اعمال پیدا نہ ہوں۔ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تفریح کے نام پر بچے اپنے دین وایمان سے بدظن ہوجائیں ، اور دشمنان اسلام اپنے مشن میں کامیاب ہوجائیں ؛ کیونکہ ان کی کوشش اور تمنا یہی ہے کہ نئی نسل میں ایسی چیزوں کو عام کیا جائے کہ وہ غیر اسلامی اقدار اور نظریات کو بآسانی قبول کرسکیںاور ان کے پاس ایمان وکفر کے امتیاز کی صلاحیت نہ ہو ،اور اس مقصد کے حصول کے لئے وہ تعلیمی اور غیر تعلیمی اسباب وسائل کو مکمل استعمال کررہے ہیں ۔ اس لئے ہمیں ان سے ہوشیار رہتے ہوئے اپنے بچوں کی تربیت کرنی ہے ، تاکہ ہمار ا بچہ مسلمان باقی رہ سکے ۔
٭٭٭٭

منگل، 1 نومبر، 2016

موبائل فون کے آداب و احکام




                                                                     مفتی مفتی محمد عارف باللہ القاسمی
============================
موبائل فون موجودہ زمانہ میں ایک ضرورت اور پھر اسی کے ساتھ بہت سے شوق کی تکمیل اور بہت سی سہولیات کی فراہمی کا ذریعہ بن چکا ہے۔ایک مسلمان کو جہاں ہر چیز اسلامی تعلیم کے مطابق اختیار کرنی ہے اور استعمال کرنی ہیں وہیں اس کے بارے میں اسلامی تعلیم کا معلوم ہونا بھی ضروری ہے ، ذیل میں موبائل فون سے متعلق چند مسائل تحریر کئے جاتے ہیں:
گفتگو کی ابتداء’’ ہیلو‘‘ سے یا ’’سلام ‘‘سے ؟
اسلام نے بات چیت کی ابتداء سلام سے کرنے کی تعلیم دی ہے ، ارشاد نبوی ہے
السلام قبل الکلام( ترمذی:۲۶۹۹)
بات کرنے سے پہلے سلام کریں
لیکن موبائل کی دنیا میں ایک نئی شکل ’’ہیلو ‘‘ سے بات کی ابتداء مروج ہوچکی ہے، یہ لفظ انگریزوں کے یہاں متوجہ کرنے کے لئے مستعمل ہوتا ہے ، وہیں سے فون پر بھی مروج ہوگیا، ایک مسلمان کو حدیث نبوی کی تعلیم کے مطابق سلام سےبات کی ابتداء کرنی چاہئے اور لفظ’’ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ یا کم از کم’’ السلام علیکم ‘‘کہہ کر فون پر گفتگو کا آغاز کرنا چاہئے۔ اورچونکہ سلام کا جواب دینا واجب ہے ، اس لئے جس سے ہم رابطہ کر رہے ہیں اس کے سلام کے بعد سلام کا جواب ضرور دینا چاہئے ، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی ساتھ جانبین سے ایک دوسرے کو سلام کردیا جاتاہے، ایسی صورت میں دونوںپر واجب ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کے سلام کا جواب دیں۔ (رد المحتار: ۶؍۴۱۶)
نیز جب بات چیت مکمل ہوجائے تو پھر اخیر میں دوبارہ سلام اور اس کے جواب کا اہتمام کرنا چاہئے، کیونکہ فون پر بات بھی ایک قسم کی ملاقات ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے ملاقات کے اخیر میں بھی سلام کی تعلیم دی ہے ۔ارشاد نبوی ہے:
إذا دخلتم بيتا فسلموا على أهله، فإذا خرجتم فأودعوا أهله بسلام (شعب الایمان بیہقی: ۸۴۵۹)
’’جب تم گھر میں داخل ہوتو گھر والوں کو سلام کرو اور جب تم گھر سے نکلو تو گھر والوں کو سلام کے ذریعہ رخصت کرو‘‘
بہت سے لوگ کال کے اخیر میں ’’ اللہ حافظ‘‘ بھی کہتے ہیں، یہ جملہ ایک دعا ہے اور یہ دعا ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کو دی تھی،اور ایک دوسرے کو دعا دینا بھی شرعاً پسندیدہ ہے ، اس لئے کا ل کے اخیر میں اس کو کہنا اور پھر سلام کرکے کال منقطع کرنا درست ہے ، لیکن اس کو اس موقع پر لازم سمجھنا درست نہیں ہے،اسی طرح سلام کے متبادل کے طور پر اس کو بولنا اور اس کو بول کر اخیر میں سلام کی سنت کو چھوڑنا صحیح نہیں ہے ۔
سلام کے بعد تعارف:
سلام کے بعد فون کرنے والے کو چاہئے کہ وہ اپنا تعارف کرائے،تاکہ مخاطب پہچان جائے ، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کال وصول کرنے والا فون کرنے والے کو پہچان نہیں پاتا، جس کی وجہ سے بات کرنے میں الجھن ہوتی ہے۔
نیزکئی بار ایسا ہوتا ہے کہ اپنا تعارف نہ کراکر مخاطب سے اس کا تعارف پوچھا جاتا ہے ، اس سے مخاطب بسا اوقات خوف زدہ ہوتا ہے یا الجھن کا شکار ہوتا ہے اس سے بھی بچنا چاہئے؛کیونکہ کسی کو خوف زدہ کرنا یا الجھن کا شکار کرنا ایذاء رسانی ہے جو درست نہیں ہے ، اس لئےپہلے اپنا تعارف کراکر اگلی بات کرنی چاہئے، جیسا کہ’’استیذان ‘‘کے باب میں اسلام نے تعلیم دی ہے کہ کوئی کسی سے ملاقات کے لئے جائے تووہ اپنا نام بتاکر ملاقات کی اجازت چاہے۔
فون کرنے میں وقت کا خیال
بلاضرورت شدیدہ ایسے اوقات میں فون نہیں کرنا چاہئے جو اہم کاموں میں مشغولیت کا وقت ہے ،جیسے کے نماز کے اوقات وغیرہ،یا جس وقت عام طور پر لوگ آرام کرتے ہیں، کیونکہ اس سےبھی مخاطب کو تکلیف ہوتی ہے، اور ایذاء رسانی شرعا جائز نہیں ہے۔
اسی طرح زیادہ طویل گفتگو کرنے سے بھی گریز کرنا چاہئے، کیونکہ مخاطب کی مصروفیت میں اس سے خلل پڑنے سے یہ اس کے لئے باعث زحمت ہے ، اور اگر مصروفیت نہ بھی ہو تو بھی عموما فون پر طویل گفتگو بار گراں ہوتی ہے ، اور اس اعتبار سے بھی اس سے پرہیز کرنا چاہئے کہ بقول اطباء وما ہرین : فون پر طویل گفتگو انسانی صحت اور قوت سماعت کے لئے بہت مضر ہے ، اور جو چیز  انسانی صحت کے لئے جس قدر مضر ہو شریعت کی نظر میں اسی قدر ناپسندیدہ اور مذموم ہوتی ہے۔
بار بار فون کرنا ؟
’’کال رسیو‘‘  نہ کرنے کی صورت میں بار بار فون کرنے سے بہت گریز کرنا چاہئے، رسول اللہ ﷺ کی تعلیم ہے کہ اگر کوئی کسی سے ملاقات کے لئے جائے تو تین بار اجازت طلب کرنےکے بعد اگر اجازت نہ ملے تو واپس آجائے، عام طور پر فون کی گھنٹی اتنی دیر تک بجتی ہے جو تین بار اجازت لینے سے کہیں زیادہ ہے اس لئے اس تعلیم کی روشنی میں ایک مرتبہ فون کرنےکے بعد اگر رابطہ نہ ہو تو سمجھنا چاہئے کہ اس وقت مخاطب کی کسی مصروفیت کی وجہ سے ملاقات اور بات کی اجازت نہیں ہے ،اور پھر کسی دوسرےوقت کوشش کرنی چاہئے۔
اسی طرح فون کی گھنٹی بجنے کے بعد اگر کوئی فون کاٹ دیا جائے تو بھی بار بار فون نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ کال کا ریجیکٹ کرنا یہ علامت ہے کہ مخاطب اپنی مصروفیت کی وجہ سے بات کرنے کی حالت میں نہیں ہے؛ کیونکہ فون کی گھنٹی درحقیقت’’ ٹیلی فونک ملاقات‘‘ کی اجازت کی طلب ہے، اورقرآن کریم میں اللہ کا حکم ہے کہ اگر ملاقات کی اجازت نہ ملے تو واپس آجاؤ ، اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
وَإِنْ قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكَى لَكُمْ(نور:۲۸)
’’اور اگر تم سےلوٹ جانے کو کہا جائے تو تم لوٹ ہی جاؤ‘‘
میوزک یا گانے والے’’ رنگ ٹونس ‘‘یا’’ ہیلو ٹونس‘‘
موبائل فون کی گھنٹی(Ring Tone)  کا مقصدفون آنے کی اطلاع ہے اور یہ مقصدایک سادہ سی گھنٹی سے بھی حاصل ہوجاتا ہے ، لیکن بہت سے لوگ اس میں میوزک یا گانوں کے ٹونز لگاتے ہیں ، اس کو لگاناجائز نہیں ہے ؛ کیونکہ اسلام میں میوزک اور گانا سننا حرام ہے ،لیکن افسوس کہ آج یہ وبا اتنی عام ہوچکی ہے کہ اس گناہ کبیرہ کی قباحت دلوں سے نکل چکی ہے ، اور بہت سے نماز ی اور نیک صفت افراد بھی اس کو اپنے موبائل میں لگا لیتے ہیں،جس کا ایک برا نتیجہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ گانے ان نماز یوں کے ساتھ مسجد میں پہونچ جاتے ہیں اور کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ان کی مسجد میں موجودگی کہ دوران فون آتا ہے اور مسجد میں گانے کی آواز گونچ جاتی ہے، اور نمازیوں کی نماز میں خلل پڑنے کے ساتھ ساتھ مسجد کا تقدس پامال ہوتا ہے ۔
افسوس کی انتہاء اور ہم مسلمانوں کی بے حسی کا تویہ عالم ہے اس میوزک کے فتنہ سے حرمین شریفین اور اس کے مقدس مقامات کا تقدس بھی پامالی سے محفوظ نہیں ہے ،کئی لوگ اپنے گانوں والے رنگ ٹونس کے ساتھ ان جگہوں پر جاکر ان کی پاکیزہ فضاؤں کو گانوں یا میوزک کی آواز سے مکدر کردیتے ہیں۔ذرا سونچیں کہ جس نبی ﷺنے فرمایا کہ اللہ نے مجھے گانے بجانے اور میوزک کو مٹانے کے لئے بھیجا ہے ، ان کی سرزمین پر اس طرح کے رنگ ٹونس استعمال کرنا کس قدر حرماں نصیبی کی بات ہے۔
اسی طرح ایک بے لذت گناہ کبیرہ یہ عام ہوگیا ہے کہ لوگ اپنے ’’ ہیلو ٹون‘‘ کی جگہ گانے لگاتے ہیں، یہ تواور بھی زیادہ بدترین گناہ کا عمل ہے، اس کو لگانے والے دوسروں کو گانے سننے پر مجبور کرنےوالے ہیں ،بہت سی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ گانا سننے سے بچنے والے بھی ایسے افراد کو کال کرنے کی صورت میں گانا سننے پر مجبور ہوتے ہیں، اور گناہ کرنا شریعت کی نظر میں جتنا برا ہے گناہ کرنے پر راغب کرنا ، یا اس کا موقع فراہم کرنا یا اس پر مجبور کر نا اس سے بھی کہیں زیادہ برا عمل ہے ،اور حد درجہ حرام ہے۔ہاں چونکہ کال کرنے والے کا ارادہ گانا سننے کا نہیں ہے ، اس لئے وہ اس سے گنہگار نہ ہونگے، پھربھی ایسی صورت میں بہتریہ ہے کہ کال رسیو کرنے تک فون کو کان سے الگ رکھ لیاجائے اور جب رابطہ ہوجائے تو بات کرنے کے ساتھ ساتھ اس برائی سے روکنے کی کوشش اگرمناسب اور ممکن ہو تو ضرورکی جائے۔
موبائل فون میں آیات قرآنی ،اذان اورنعت کے رنگ ٹونس؟
عام طور پر بہت سے مسلمان اپنے دینی مزاج کی وجہ سے موبائل فونس میں قرآنی آیات ، اذان ،ذکر وتسبیح، دعائیں ، نعت یا لببیک اللہم لبیک  وغیرہ رنگ ٹونس کی جگہ لگاتے ہیں، گر چہ کہ اس کے لگانے میں دینی جذبہ اور اچھی نیت ہوتی ہے، لیکن دیگر کئی مفاسد کی وجہ سے یہ درست نہیں ہے ، کیوں کہ اس سے بہت سے موقعوں پر ان مقدس کلمات کے تقدس کا خیال رکھنا مشکل ہوجاتا ہے،مثلا انسان کبھی قضائے حاجت کی خاطر بیت الخلاء وغیرہ میں ہوتا ہے اور وہیں فون آجاتا ہے ، تو ان کلمات کا تقدس پامال ہوجاتا ہے۔
مزید یہ کہ فقہی کتابوں میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنی آیات ،اذکار وتسبیحات ، درود شریف اور ایسی نظمیں یا نعتیں جو ذکر اللہ پر مشتمل ہوں ان کو استعمال کرنے کے دو مقاصد ہوسکتے ہیں۔(۱) ذکر  (۲) اعلام واطلاع۔
اگر ان کو پہلے مقصد کے تحت لگایا گیا ہو کہ جب بھی فون آئے تو مقدس کلام اور ذکر اللہ کی آواز سننے کا موقع ملے اور جب تک فون رسیو نہ ہو اس وقت تک ذکر اور اچھے کلمات سنے جائیں تو اس مقصد کے تحت اس کا جائز ہونا معلوم تو ہوتا ہے لیکن اس میں چند خرابیاں ہیں جن سے بچنا ضروری ہے:
(۱پہلی خرابی تو یہ لازم آتی ہے کہ اچانک فون اٹھانے کی صورت میں قرآنی آیات درمیان میں کٹ جاتی ہیں جن سے ان آیات کی بے ادبی لاز م آتی ہے ، اس لئے اس مقصدکے تحت قرآنی آیات کا استعمال رنگ ٹون یا ہیلو ٹون میں جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہ عظمت قرآن کے قطعاً منافی ہےکہ قرآن تو تلاوت وتدبر کے لئے ہے۔
(۲دوسری خرابی یہ لازم آتی ہے کہ جس شخص کو فون کیا گیا وہ بسا اوقات بیت الخلاءیا اس جیسی جگہوں میں ہوتا ہے تو فون آنے پر ایسی حالت میں ایسی جگہ پر مقدس کلمات فون پر جاری ہونے میں ان کلمات کی بے ادبی ہوتی ہے۔ اس لئے مقدس کلمات کو ذکر کے مقصد سے بھی لگانا درست نہیں ہے۔
اور اگر ان کلمات کے لگانے کا مقصدمحض اعلام و اطلاع اور فون آنےکی خبر ہو(اور رنگ ٹون درحقیقت اسی مقصد کے لئے ہے) تو اس صورت میں بھی مذکورہ خرابیاں ہیں، ساتھ ہی مقدس کلمات کو عام دنیاوی مقاصد کے لئے استعمال کرنا درست نہیں ہے، جیسا فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر خریدار کو کپڑے کی عمد گی بتانے کے لئے تاجر نے کپڑا دکھاتے ہوئے’’ سبحان اللہ ‘‘کہا، یا درود شریف پڑھا ، اور مقصد صرف خریدار کو عمدہ گی سے آگاہ کرنا ہے تو یہ مکروہ ہے (در مختار: ۶؍۳۶۱)
بہر حال قرآنی آیات ، اذان ، ذکر وتسبیحات اورنعت اور مقدس کلمات کورنگ ٹون یا ہیلو ٹون کی جگہ لگانا درست نہیں ہے۔اس لئے عام سادہ سی رنگ ٹون رکھنا ہی مسئلہ کا صحیح حل ہے۔
اسکرین پر قرآنی آیات یا مقدس کلمات اور کعبہ کی تصویر رکھنا
موبائل کے اسکرین پر بہت سے لوگ قرآنی آیات ، دعائیں یا اسمائے حسنی میں سے کوئی اسم یا خانہ کعبہ وغیرہ رکھتے ہیں۔اس میں بھی محبت کا جذبہ ہوتا ہے، لیکن اسکرین پر ان کو رکھنے میں بعض اوقات ان کی بے حرمتی ہوجاتی ہے، مثلا بیت الخلاء میں اسکرین روشن ہوجاتا ہے، یا اسکرین روشن ہونے کی حالت میں کبھی نیچے کی جیب میں ہونے وجہ سے ان کی بے حرمتی کا شبہ ہوتا ہے، اس لئے ان چیز وں کی حرمت وتقدس کے پیش نظر ان کو اسکرین پر نہیں لگانا چاہئے۔
موبائل میں قرآن کریم اور دینی کتابیں
قرآن کریم یا دیگر جو چیز یں موبائل میں لوڈ کی جاتی ہیں وہ اس کی میموری میں الکٹرانک ذرات کی شکل میں موجود ہوتے ہیں اور غیر مرئی ہوتے ہیں، جب انہیں کھولا جاتا ہے تو اس وقت سسٹم ان ذرات کو مرئی شکل دے کر اسکرین پر لاتا ہے۔
اس اعتبار سے قرآن کریم ، یا دیگر دینی کتابوں کو موبائل میں رکھنا جائز ہے اور اس موبائل کے ساتھ بیت الخلاء میں جانابھی درست ہے، بشرطیکہ قرآن کریم کے صفحات اسکرین پر موجود نہ ہوں،البتہ ایسا موبائل بیت الخلاء میں لے جانے سے ممکنہ حد تک پر ہیز کرنا بہترہے، تاکہ بے ادبی کا شائبہ نہ ہو۔ (فتاوی الجامعۃ البنوریۃالعالمیۃ:  فتوی نمبر: ۴۲۱۵۷)
 قرآن کریم موبائل میں لوڈ کرنے سے پہلے قرآن کریم کے اس دیجیٹل نسخہ کے اغلاط سے محفوظ ہونے کی تحقیق بہت ضروری ہے ، انٹرنیٹ پرموبائل کے لئے کئی ایسے نسخے بھی ہیں جن میں کئی اغلاط ہیں یا جن کی پروگرامنگ کرنے والے باطل نظر یا ت کے حامل ہیں، اسی طرح قرآن کریم کے ترجموں کی بھی تحقیق ضروری ہے، بہت سے غلط ترجمے موجود ہیں حتی کہ ملعون قادیانی کے ترجمہ کا بھی انٹرنیٹ اور موبائل ورژن موجود ہے۔ اسلئے تحقیق ضروری ہے، تحقیق میں اس پروگرام پر لکھے گئے تبصروں (Comment) سےبھی مدد مل سکتی ہے۔
نیز جس موبائل میں قرآن کریم ہو اس کو بغیر وضوء یا حالت جنابت میں چھونا جائز ہے ،گرچہ کہ اس میں قرآن ہے، کیونکہ قرآن کا وجود اس میں غیر مرئی اور اس کے الکٹرانک منتشر غیرمرئی ذرات میں ہے،اور وہ قرآن کے حکم میں نہیں ہے ۔
ہاں اگر قرآن کے صفحات اسکرین پر موجود ہوں تو حالت جنابت میںیا بغیر وضوء اس اسکرین کو چھونا جائز نہیں ہے ، کیونکہ قرآنی آیات چاہے کاغذ پر لکھے ہوں یا شیشہ پر یا کسی اور چیز پران کو بلاوضو چھونا درست نہیں ہے۔فقہاء لکھتے ہیں:
 لایجوز له مس شیء مکتوب فیه شییء من القرآن من لوح او درهم او غیر ذلك اذا کان آية تامة(الجوهرةالنيرة: باب الحیض)
’’بے وضوء یا ناپاک انسان کے لئے کسی ایسی چیز کا چھونا جائز نہیں ہے جس میں قرآن کی کوئی آیت لکھی ہو، وہ کوئی تختی ہو یا درہم ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور چیز کو ، بشرطیکہ پوری آیت لکھی ہو‘‘
فون پر عورتوں سے گفتگو
عام حالات میں عورتوں کی آواز سننا اور ان سے بات کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس میں شہوت اور فتنہ نہ ہو ،لیکن اگر شہوت اور فتنہ ہو تو حرام ہے، فقہاء نے لکھا ہے:
سامع صوت المرأة إن كان يتلذذ به أو خاف على نفسه فتنة حرم عليه استماعه وإلا فلا (الموسوعۃ الفقہیۃ: ۲۵۔۲۴۶)
’’عورت کی آواز سننے والا اگر اس سے لذت لے رہا ہویا اس کو اپنے بارے میں فتنہ کا خوف ہو تو اس کے لئے اس کو سننا حرام ہے ورنہ نہیں‘‘
اس لئےفون پر کسی اجنبی عورت سے کوئی ضروری بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، لیکن موجودہ زمانہ میں ایک شکل لوگوں کے جیبوں کو خالی کرنے کے لئے کمپنیوں کی طرف سے مروج ہےجسے ’’فون ایند فرینڈ‘‘ کی سروس کا نام دیا جاتا ہے ،اس میں عورتوں سے دل لگی اور تفریح طبع کی باتیں کرنے کا موقع ملتا ہے ، بلکہ اس سروس کا مقصد ہی یہی ہے ،ظاہر سی بات ہے کہ اس میں لذت وشہوت ہی ہوتی ہے ،لذت وشہوت کے ساتھ کسی اجنبی عورت سے بات کرنایا اس کی بات سننا حرام ہے ، اس لئے یہ جائز نہیں ہے ۔
اسی طرح آج کل بہت سے نوجوان دینی مزاج رکھنے کی وجہ سے یا اپنے گھر کے دینی ماحول کی وجہ سے اپنی منگیتر سے ملاقات تو نہیں کرپاتے، لیکن اسے اپنی بیوی تصور کرتے ہوئے فون پر اس سے باتیں کرتے ہیں ، ظاہر سی بات ہے کہ یہ بات چیت بھی شہوت ولذت سے خالی نہیں ہوسکتی، اور منگیتر شریعت کی نظر میں اجنبی عورت کی طرح ہے ؛ کیونکہ منگنی درحقیقت ایک وعدہ نکاح ہے ، اس سے رشتہ قائم نہیں ہوتا، اور حرام لڑکی حلال نہیں ہوتی، اس لئے اس سے فون پر لذت وشہوت اورتفریح طبع کی بات کرنا ویسے ہی حرام ہے جیسے کسی اجنبی عورت سے حرام ہے۔بلکہ اس میں تو اوربھی نقصان ہے کہ بہت سی مرتبہ منگنی کے بعد رشتہ ازدواج قائم نہیں ہوپاتا،ایسی صورت میں ان دونوں کے درمیان ہونے والی باتیں بہت سی مرتبہ لڑکی کے لئے جان لیوا بن جاتی ہیں، اور بہت سی مرتبہ اس سے لڑکی اور اس کے اہل خانہ کا استیصال بھی کیا جاتا ہے۔
ٹاک ٹائم کالون
بہت سی موبائل کمپنیاں ٹاک ٹائم نہ ہونے کی صورت میں دس پانچ روپئے لون کے طور پر دیتی ہیں، یعنی ریچارچ کرائے بغیر کال کرنے کے لئے کچھ مدت کی سہولت مل جاتی ہے، اور ریچارج کرانے کے بعد وہ رقم وضع ہوجاتی ہے، عموما کمپنیاں کچھ بڑھ کر پیسے وضع کرتی ہیں، مثلا دس روپئے کے بدلے بارہ روپئے کمپنیاں وصول کرتی ہیں، اس سہولت سے فائدہ اٹھانا جائز ہے اور یہ سود کے زمرہ میں نہیں ہے، کیونکہ یہاں براہ راست دس روپئے کا بارہ روپئے سے تبادلہ نہیں ہے ،بلکہ ٹاک ٹائم کا بارہ روپئے سے تبادلہ ہے،اوردونوں کی جنس الگ ہے، جیسا کہ ریچارج کرنے میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ صارف جتنے کا ریچارج کرتا ہے اس کے اعتبار سے اس کو ٹاک ٹائم ملتا ہے۔ گویا صارف کی طرف سے ادا کردہ رقم کمپنی کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کی اجرت وعوض ہے ،اورسود ہونے کے لئے دونوں کا ہم جنس ہونا ضروری ہے ۔ اس لئے اداکردہ رقم اور بیلینس میں تفاوت سود کے زمرہ میں نہیں ہے۔
کیمرہ والا موبائل فون
کیمرہ ایک آلہ ہے، جس سے بہت سی غیر جاندار چیزوں کی تصویر لینے میںشرعاً کوئی حرج نہیں ہے ، اس لئے کیمرہ والا فون استعمال کرنا جائز ہے ، اور رہی بات موبائل کے کیمرہ سے انسان کی تصویر کشی کی، تو اس سلسلہ میں کئی اہل علم کی رائے ہے کہ اگر تصویر صرف کیمرہ یا موبائل کی میموری تک ہی محدود ہو ، اس کا باقاعدہ پیپرپر پرنٹ (Print)نہ لیاجائےتو اس پر حرام تصویر سازی کا حکم جاری نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کی حقیقت میموری میں منتشر الکٹرانک ذرات کی ہے ،جسے مشین کے ذریعہ اسکرین پر یکجا کردیا جاتا ہے ،اس لئے ان ہل علم کی رائے کے مطابق تصاویر کو موبائل میں برقرار رکھنے کی گنجائش ہے، تکملہ فتح الملہم میں عصر حاضر کے معروف محقق وفقیہ حضرت مفتی تقی عثمانی مدظلہ کا اسی جانب رجحان ہے ۔( تکملہ فتح الملہم: ۴؍۱۶۴)
تاہم کئی بلکہ اکثر اہل علم اس پر بھی تصویر سازی کی حرمت کے احکام جاری کرتے ہیں ،اور اسے بھی حرام کہتے ہیں، اس لئے اس سے احتراز یقینا بہتر اور افضل ہے۔
بہت سے لوگ حرمین شریفین کی زیارت کے وقت مقدس مقامات پر اپنی تصویر لیتے اور ویڈیو بناتے رہتے ہیں، یہ انتہائی نامناسب عمل ہے، اور اس مقام کے تقد س اور اس جگہ پر مطلوب خشوع اور تقوی کے بالکل خلاف ہے ، اس لئے اس سے مکمل اجتناب کرنا چاہئے اوروہاں کی یادوں کوموبائل یا کیمرہ میں محفوظ کرنے کے بجائے دلوں اور نگاہوں میں بساکر لانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔
اسلامی ایس ایم ایس کو مٹانا؟
اگر میسیج میں قرآن کریم ، احادیث اور اسلامی کلمات وغیرہ موصول ہوں اور ان کو مٹانے کی ضرورت درپیش ہوتو اس کے مٹانے میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے ؛کیونکہ میسیج کی تحریر کاغذ پر لکھی ہوئی تحریر کی طرح بھی نہیں ہے ،جن کو پھاڑنے میں بے ادبی کا شائبہ بھی ہوتا ہے ،جب کہ ضرورت کی صورت میں کاغذ پر سے بھی قرآنی آیات واحادیث کو مٹانے کی اجازت ہے ۔ درمختار میں ہے:
الکتب التی لا ینتفع بها یمحی عنها اسم الله وملائکته ورسوله ویحرق الباقی (درمختارعلی ہامش الرد: ۶۔۴۲۲)
’’وہ کتابیں جن سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتا ہو ان سے اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں کا نام مٹادیا جائے اور بقیہ کاغذ کو جلادیا جائے‘‘
اس لئے معتبر اسلامی ایس ایم ایس بھیجنا اور بوقت ضرورت اس کو مٹانا درست ہے، البتہ کسی میسیج کو دوسروں تک بھیجنے سے پہلے اس کے صحیح اور معتبر ہونے کی تحقیق ضروری ہے، بطورخاص جب کہ وہ بات قرآن وحدیث کی طرف منسوب ہو۔ کیونکہ کسی غلط بات کو اسلام کے نام پر پھیلانا یا کسی ایسی بات کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرناجو آپ نے نہیں کہی بہت ہی سنگین جرم ہے،اور آپ ﷺ نے ایسے لوگوں کے بارے میں جہنم کی وعید بیان فرمائی ہے(بخاری ، مسلم)
فحش اور جھوٹ پر مبنی ایس ایم ایس
سنجیدگی اور مذاق دونوں صورتوں میں جھوٹ بولنا اور لکھنا دونوں ناجائز اور ممنوع ہیں، لہذا جھوٹے ایس ایم ایس بھیجنا اور جھوٹ پر مشتمل لطیفے’اور’ جوکس‘‘ایس ایم ایس کرنا ناجائز ہے، اس لئےمسلمانوں کو اس سے ضرور بچنا چاہئے، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ وہ ہنسی مذاق میں جھوٹ بولنا اور جھگڑا کرنا چھوڑدے۔(مسند احمد: ۸۷۶۶)
اسی طرح فحش باتوں پر مشتمل ایس ایم ایس بھیجنا بھی بہت ہی براعمل ہے، اور ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن کریم میں یہ وعیدہے کہ جولوگ ایمان والوں کے بیچ بری باتوں کو پھیلانا چاہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میںددرناک عذاب ہے۔(نور: ۱۹)
کال ریکاڑڈ کرنا
موبائل فون پر ہونے والی گفتگو کو مخاطب کی اجازت کے بغیر ریکاڑڈ کرنا درست نہیں ہے ، یہ امانت داری کے خلاف ہے،کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب کوئی کسی سے کوئی بات کہے (جس کو مخفی رکھنا وہ پسند کرتا ہے)تو وہ بات اس کے پاس امانت ہے ۔ (ابوداؤد، ترمذی)
اور گفتگو کو ریکاڑڈ کرنے سے یہ امانت محفوظ نہ رہے گی، بلکہ دوسروں تک اس کا پہونچنا ممکن ہوجائے گا، اور یہ حقیقت ہے کہ عام طور پر انسانی مزاج ہے کہ اگر کسی کو یہ معلوم ہو کہ اس کی  باتیں ریکاڑڈ ہورہی ہیں تو وہ بات میں جس قدر محتاط ہوتا ہے عام حالات میں اتنا محتاط نہیں ہوتا۔ اس لئے بلاوجہ اور بلا اجازت کسی کی گفتگو کو ریکاڑڈ کرنا درست نہیں ہے ۔
ہاں اگر کسی اچھے مقصد سے کسی کی بات کو ریکاڑڈ کیا جائے اور اس میں اس بات کا اندازہ ہوکہ بولنے والے کو اگر اس کا علم بھی ہو تواس کو اس سے ناگواری نہیں ہوگی، اور اس سے اس کو کوئی ضرر نہ پہونچے گا تو پھر اس صورت میں اس کو ریکاڑڈ کرنے کی گنجائش ہے۔
کال بلاک کرنا
آج کل بہت سے ایسے پروگرام ہیں جن کے ذریعہ موبائل استعمال کنندگان اس بات پر قادر ہوتے ہیں کہ وہ جن لوگوں کی کال وصول کرنا نہیں چاہتے انہیں بلاک کردیتے ہیں، اس سےانہیں ان نمبرات سے کال موصول نہیں ہوتےہیں۔ شریعت میں اس کا جواز اور عدم جواز مقصد پر منحصر ہے، اگر کسی کی جانب سے بلاضرورت کال موصول ہوتے ہیں جو اس کے لئے خلل اور پریشانی کا باعث بنتے ہیں، یا کسی کی جانب سے موصول ہونے والے کال اس کے لئے کسی بھی اعتبار سے باعث مضرت ہوتے ہیں، تو ایسی صورت میں دفع مضرت کی خاطر کال کے وصول ہونے کو بند کرنا جائز ہے ؛ کیونکہ شریعت کا قاعدہ ہے : الضرر یزال،اور الحرج مدفوع۔
لیکن اگر یہ مقصد نہیں اور نہ ہی اس کی کال سے اس کو کوئی تکلیف ومضرت پہونچ رہی ہے جس کی کال کو بند کیا جارہا ہے،جیسا کہ بہت سے لوگ محض وہم وشک کی بنیاد پر اپنی اہلیہ کے والدین اور بھائیوں یا دیگر رشتہ داروں کی کال کو اپنی اہلیہ کے موبائل پریا اپنے موبائل پر بلاک کردیتے ہیں، یا کسی سے کوئی وعدہ یا معاملہ کرکے اس کی کال بلاک کردیتے ہیں تاکہ وہ رابطہ ہی نہ کرسکے، واضح سی بات ہے کہ اس مقصد سے بلاک کرنا دوسروں کے لئے باعث مضرت ہے اور ایذاءرسانی کا سبب ہے، اس لئے ایسی صورت میں جب کے کال وصول کرنے والے کو کال کرنے والے کی کال سے مضرت وتکلیف نہیں پہونچتی ہو، کال بلاک کرنا جائز نہیں ہے؛کیونکہ یہ قطع تعلقی ، بدگمانی اور باہمی نفرت وعداوت کا سبب ہونے کا ساتھ ساتھ دوسروں کے لئے باعث مضرت واہانت بھی ہے،اور یہ چیز یں شریعت میں ممنوع ہیں۔
اسی طرح بہت سے لوگ کسی سے کوئی معاملہ یا وعدہ کرنے کے بعد اس کو پورا نہیں کرنے کی صورت میں ان کی کال رسیو نہیں کرتے، یہ عمل بھی شریعت میں ممنوع ہے ؛ کیونکہ اس میں جہاں وعدہ خلافی اور عہد شکنی کا گناہ ہے وہیں یہ عمل دوسروں کے لئے حد درجہ تکلیف اور الجھن کا باعث بھی ہے ،اس لئے فون وصول نہ کرنے کے بجائے فون پرپیدا شدہ صورت حال کے مطابق بات چیت کرلینی چاہئے،تاکہ کسی کو الجھن وتکلیف نہ ہو۔
ویڈیو کال
ویڈیو کال میں کیمرہ کی مدد سے جانبین کی لائیوتصویرایک جانب سے دوسری جانب منتقل کی جاتی ہے ، اس میں ریکاڑڈنگ یا ویڈیو گرافی والی کیفیت عموما نہیں پائی جاتی ہے ، گویا اس میں ایک عکس دکھایا جاتا ہے جیسے انسان شیشے کے سامنےہو تو اس کا عکس شیشے میں نظر آتا ہے،اس لئے ویڈیو کال جائز ہے۔
اللہ تعالی اس ہمیں موبائل کے صحیح استعمال کی توفیق دے اور اس کے ذریعہ آنے والے تمام تر فتنوں سے ہماری اور پوری امت کی حفاظت فرمائے۔