جمعرات، 4 جنوری، 2018

سورۃ البقرۃ اور سورۃ آل عمران کا خلاصہ اور فضیلت

--------------------------
سورة بقرہ
نام ::  اس سورت کا مشہورنام بقرۃہے۔  بقرۃ کے معنی گائے کے ہیں چونکہ اس صورت کے آٹھویں رکوع میں گائے سے متعلق ایک قصہ بیان ہوا ہے اس لیے اسی مناسبت سے اس کا نام سورة البقرہ (یعنی وہ سورت جس میں گائے کا ذکر ہے) رکھا گیا۔
مقام نزول:: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہماکے فرمان کے مطابق مدینہ منورہ میں سب سے پہلے یہی ’’سورۂ بقرہ‘‘ نازل ہوئی ۔(اس سے مراد ہے کہ جس سورت کی آیات سب سے پہلے نازل ہوئیں۔)  (خازن، تفسیرسورۃ البقرۃ، ۱/۱۹)
آیات،کلمات اور حروف کی تعداد: اس سورت میں 40 رکوع،286آیتیں ،6121 کلمات اور25500 حروف ہیں۔ (خازن، تفسیرسورۃ البقرۃ، ۱/۱۹-۲۰)
فضیلت :: صحیح حدیثوں میں سورة بقرہ کی بہت کچھ فضیلت ثابت ہے۔ ایک حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے۔ ان لکل شیئ سناما  وان سنام القران سورة البقرۃ (مستدرک ص 259 ج 2 ۔ جامع ترمذی ص 111 ج 2 وانظر تفسیر ابن کثیر ص 32 ج 1) یعنی ہر چیز کا ایک اعلی حصہ ہوتا ہے اور قرآن مجید کا اعلی و برتر حصہ سورة بقرہ ہے۔
خلاصہ :: سورة بقرہ کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ اس کے دو حصے ہیں حصہ اول ابتداء سورت سے وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ (رکوع 23) تک ہے.  اور دوسرا حصہ وہاں سے سورت کے آخر تک۔
حصہ اول:   میں دو مضمون بیان کیے گئے ہیں۔ توحید اور رسالت۔ ابتدائے سورت سے وَلَاھُمْ یُنْصَرُوْنَ تک توحید اور وَاِذِ ابْتَلٰی اِبْرٰھٖمَ رَبُّہٗ سے حصہ اول کے آخر تک رسالت کا بیان ہے۔ گویا کہ پہلا حصہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی تشریح ہے۔
 دوسرے حصہ:  میں مسلمانوں کے ظاہر و باطن کی اصلاح کے طریقے اور اندرونی نظام کو درست کرنے کے لیے امور انتظامیہ بیان فرما کر مشرکین کے مقابلہ میں انہیں جہاد اور انفاق کا حکم دیا گیا ہے گویا کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی خاطر مشرکین سے جہاد کا حکم فرمایا گیا ہے۔
مضامین ::  سورۃ بقرۃ  قرآن پاک کی سب سے بڑی سورت ہے اور اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں بنی اسرائیل پر کئے گئے انعامات،ان انعامات کے مقابلے میں بنی اسرائیل کی ناشکری، بنی سرائیل کے جرائم جیسے بچھڑے کی پوجا کرنا، سرکشی اور عناد کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام    سے طرح طرح کے مطالبات کرنا،اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرنا،انبیاء کرام علیہم السلام کو ناحق شہید کرنا اور عہد توڑناوغیرہ،گائے ذبح کرنے کا واقعہ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود یہودیوں کے باطل عقائد و نظریات اور ان کی خباثتوں کو بیان کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو یہودیوں کی دھوکہ دہی سے آگاہ کیا گیا ہے۔
 سورت کی روح : دینی اور دنیوی لحاظ سے منظر ہو کر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی خاطر مشرکین سے جہاد کرو۔
 --------------------------------------
سورۃ ال عمران
نام :: اس سورت کے چوتھے رکوع میں آل عمران کا ذکر ہے۔ اس لیے اسی مناسبت سے اس کا نام سورة آل عمران رکھا گیا ہے۔
مقامِ نزول :: سورۂ آلِ عمران مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی ہے۔     (خازن، ال عمران، ۱/۲۲۸)
آیات،کلمات اور حروف کی تعداد:اس میں 20رکوع، 200 آیتیں ،3480 کلمات اور14520حروف ہیں۔ (خازن، ال عمران، ۱/۲۲۸)
 شان نزول :: مفسرین نے لکھا ہے کہ نجران کے نصاریٰ کا ایک وفد مدینہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا جو ان کے ساٹھ چیدہ آدمیوں پر مشتمل تھا،  یہ لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں جھگڑنے لگے، تو ان کی رد میں  سورة آل عمران کی ابتدائی اسی آیتیں نازل ہوئیں۔ (خازن۔ ج 1 ۔)
فضیلت ::  اس سورت کے مختلف فضائل بیان کئے گئے ہیں ، ان میں سے ۔
حضرت نواس بن سمعان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ قیامت کے دن قرآنِ مجید اور اس پر عمل کرنے والوں کو لایا جائے گا، ان کے آگے سورۂ بقرہ اور سورۂ آلِ عمران ہوں گی ، یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کریں گی۔ (مسلم، باب فضل قراء ۃ القرآن )

خلاصئہ مضامین ::  اس سورت میں مشرکین نصاریٰ کے شبہات کا ازالہ کیا گیا ہے۔ انہیں کچھ شبہات توحید کے بارے میں تھے اور کچھ رسالت کے بارے میں تو ان کا رد کیا گیا ہے . اور نصاری کو دعوت دی گئی ہے کہ  آخری پیغمبر آچکا ہے اس پر ایمان لاؤ اور اس کا لایا ہوا پیغام توحید مان لو اور حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم (علیہما السلام) کی عبادت اور پکار چھوڑ دو ۔ آخری پیغمبر کے ساتھ مل کر اشاعتِ توحید کی خاطر مشرکین سے جہاد کرو۔ اور سورة آل عمران میں چار مضامین بیان کیے گئے ہیں (1) توحید (2) رسالت (3) جہاد فی سبیل اللہ اور (4) انفاق فی سبیل اللہ .

کوئی تبصرے نہیں: