ہفتہ، 6 جنوری، 2018

موسیقی اور گانا بجانا قرآن وحدیث کی روشنی میں


تمام الوہیت کی تعریفیں اس ذات کے لیے جس نے انسان کی کامیابی اور اس کی دل کی تسکین کے لیے قرآن  نازل فرمایا ہے  چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے   ،    (أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ۔ سورہ رعد 28)
خبردار اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
جب دل مطمئن ہو تو روح خوش رہتی ہے ، تو معلوم ہوا کہ روح کی غذا  ذکر ہے ، نہ کہ موسیقی جو حضرات کہتے ہیں کہ روح کی غذا موسیقی ہے وہ غلطی پر ہیں بلکہ روح کی غذا ذکر اور قرآن کریم ہے   ۔  ایک شاعر کہتا ہے            ؔ 

       وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر   ---  اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر

اور جو لوگ کہتے ہیں موسیقی روح کی غذا ہے،  ان لوگوں سے پوچھا جائے اگر یہ غذا اتنی ہی اچھی ہے تو اس سے بور کیوں ہوتے ہیں ؟
ہر روز کوئی نیا گانا سن رہے ہوتے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ ہماری پسند بھی بدل جاتی ہے ، 
جب کہ قرآن پاک(جو اصل میں روح کی غذا ہے) کی تلاوت جو لوگ کرتے ہیں وہ لوگ بور کیوں نہیں ہوتے۔سورۃ فاتحہ کو ہی لے لیں جسے ہم ہر نماز میں پڑھتے ہیں مگر کبھی بھی روزانہ پڑھنے سے بور نہیں ہوتے ۔جب کہ ایک ہی گانے کو بار بار سنا جائے تو بور ہوجاتے ہیں ۔پھر کیا وجہ ہے ہم بور کیوں نہیں ہوتے قرآن پاک کی تلاوت سے اس کو پڑھنے سے چاہے نماز میں پڑھیں یا ویسے اس کو تلاوت کریں،  تو معلوم ہوا کہ روح کی غذا  موسیقی نہیں بلکہ اللہ کی ذکر ،تلات قرآن ہے  جس سے کبھی مسلمان بور نہیں ہوتا ۔
ہمارے ایک معزز دوست نے فیس بک پر ایک پوسٹ ڈالا ہے اور پوچھا ہے کہ اس پر روشنی ڈالی جائے ، ایک معزز دوست کا جوابا کہنا ہے کہ میں نے ابوداوود شریف میں پڑھا ہے ، جس میں میوزک کا جواز ثابت ہوتا ہے ۔ اس دوست کی خدمت میں ادب سے عرض کرتا ہوں کہ ابوداوود شریف کی وہ حدیث سند کی تصحیح کے ساتھ ہمارے ساتھ شیر کریں مشکور رہونگا ۔
ہمارے تحقیق کچھ یوں ہے اگر صحیح ہو تو اللہ کی مہربانی اس کا شکریہ اگر صحیح نہ ہو ا تو اللہ تعالی ہمیں معاف کرے آمین ۔
میوزک اور گانا بجانا دور حاضر کی نسلوں کے رگ وریشے میں رچ بس چکا ہے. کوئی گھر. دوکان. آفس. گلی بازار. گاڑی. بس. جہاز.... بلکہ کوئی کان بھی اس ملعون آواز سے محفوظ نہیں رہا.یہاں تک کہ موبائل فون کی گھنٹی سے مسجدوں میں بھی یہ شیطانی آوازیں سنائی دیتی ہیںبلکہ میڈیا کے وسائل پر بعض دینی پروگرام بھی اس احمق وفاجر کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیںجس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس گناہ کبیرہ کی قباحت کا تصور ہی ختم ہو چکا ہے. بلکہ شاید یہ طرز زندگی کا ایک اہم کردار بن چکا ہے
اس سے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی پیشین گوئی سچ ثابت ہو گئی ہے: «ليكونن من أمتي أقوام يستحلون الحر والحرير والخمر والمعازف... ويمسخ آخرين قردة وخنازير إلى يوم القيامة» (البخاري 5590، السلسلة الصحيحة للألباني 91).
ترجمہ: میری امت میں ایسے لوگ بھی آئیں گے جو ؛ زنا، ریشم، شراب، اور میوزک کو حلال سمجھیں گے... حدیث کے آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو قیامت تک کے لیے بندروں خنزیروں میں مسخ کر دیں گے.
تو وہ مسلمان جسے اپنی آخرت کی فکر ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ اس جرم عظیم کی حقیقت معلوم کرے.
ذیل میں قرآن وسنت کی روشنی میں میوزک گانے بجانے کی شرعی حیثیت بیان کی گئی ہے
قرآنِ کریم میں میوزک گانے کی مذمت:
 ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ } [سورة لقمان:6].
ترجمہ: اور کچھ لوگ بیہودگی کے آلات خریدتے ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے گمراہ کریں اور ان سے مذاق اڑائیں. انہیں لوگوں کے لیے رسوا کن عذاب ہے
عبدالله بن عباس، ابن عمر، ابن مسعود، الحسن البصري اور دوسرے صحابہ وتابعین فرماتے ہیں اس سے مراد گانا بجانا ہے. (تفسير ابن كثير).
 الله تعالى نے شیطان کو مہلت دیتے ہوئے فرمایا: {وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُم بِصَوْتِكَ} [سورة الإسراء:64].
ترجمہ: ان انسانوں میں سے جسے ممکن ہو گمراہ کر اپنی آواز سےامام مجاهد فرماتے ہیں کہ: شیطان کی آواز میوزک گانا بجانا ہے. (تفسیر طبری(.
 اللہ تعالی نے ہمیں شیطان کی پیروی سے منع فرمایا ہے ...ارشادِ باری تعالیٰ ہے
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّبِعوا خُطُو‌تِ الشَّيطـٰنِ ۚ وَمَن يَتَّبِع خُطُو‌تِ الشَّيطـٰنِ فَإِنَّهُ يَأمُرُ‌ بِالفَحشاءِ وَالمُنكَرِ‌......٢١ ...... سورة النور
"اے ایمان والو! شیطان کے قدم بقدم مت چلو جو شخص شیطان کے قدموں کی پیروی کرتا ہے تو وہ تو بے حیائی اور برے کاموں کا ہی حکم کرے گا۔"
فاحشة کے معنی بے حیائی کے ہیں۔ شیطان کے پاس بے حیائی کی طرف مائل کرنے کی بہت راہیں ہیں۔ فحش اخبارات ، ریڈیو، ٹی وی ، فلمی ڈراموں کے ذریعہ جو لوگ دن رات مسلم معاشرے میں بے حیائی پھیلا رہے ہیں اور گھر گھر اس کو پہنچا ر ہے ہیں، یہ سب شیطانی جال ہیں۔ اس آیت سے ما قبل وہ آیات ہیں جن میں حضرت عائشہپرلگائی تہمت کا ذکر ہے کہ "جن لوگوں نے آپ پر فحش کا الزام لگایا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس جھوٹی خبر کو صریح بے حیائی قرار دیا اور اسے دنیا و آخرت میں عذابِ الیم کا باعث قرار دیا ہے" لیکن جو لوگ ان آلات حرب کے چینل چلا نے والے اور ان اداروں کے ملازمین ہیں تو وہ اللہ کے ہاں کتنے بڑے مجرم ہیں جو آئندہ نسلوں کی تباہی کا سبب بھی بن رہے ہیں ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿أَفَمِن هـٰذَا الحَديثِ تَعجَبونَ ٥٩ وَتَضحَكونَ وَلا تَبكونَ ٦٠ وَأَنتُم سـٰمِدونَ ٦١...... سورة النجم
"پس کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو اور بطورِ مذاق ہنستے ہو اور روتے نہیں ہوبلکہ گانے گاتے ہو"
حضرت عبداللہ بن عباسفرماتے ہیں:«نداء السمود هو الغناء في لغة الحجر»یعنی حجر قبیلہ کی زبان میں سُمود سے مراد گانا ہے... حضرت عکرمہفرماتے ہیں: کفارِ مکہ کی بھی عاد ت تھی کہ وہ قرآن کریم سننے کی بجائے گانے گاتے تھے"
اورالله تعالى اپنے نیک بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتاٰ ہے: {وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا } [الفرقان: 72].
ترجمہ: اور وہ لوگ جھوٹ کی گواہی نہیں دیتے. اور بیہودہ باتوں سے کنارہ کشی کرتےتفسیر ابن كثير، قرطبي، اور طبري میں امام زین العابدین اور مجاهد کہتے ہیں کہ وہ لوگ میوزک گانا نہیں سنتے.
سنت نبوی میں میوزک گانے کی مذمت:
1:   سنن الترمذي میں جابر رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ((وإنما نهيت عن صوتين أحمقين فاجرين: صوت عند نغمة لهو ولعب ومزامير شيطان، وصوت عند مصيبة: خمش وجوه وشق جيوب ورنة »
ترجمہ: مجھے دو احمق اور بدکار آوازوں سے منع کیا گیا ہے: خوشی کے وقت گانے بجانے کا شیطانی نغمہ، اور کسی مصیبت پر آہ وبکا کرنا، چہرہ نوچنا اور گریباں چاک کرنا. (اسے ترمذي اور الألباني نے حسن قرار دیا ہے. صحيح الجامع 5194)
2:   مزید آپ صلى الله عليه و سلم نے فرمایا: « صوتان ملعونان، صوت مزمار عند نعمة، و صوت ويل عند مصيبة » 
ترجمہ: دو آوازیں ملعون ہیں: خوشی کے وقت میوزک کی آواز اور مصیبت کے وقت آہ وبکا. (حسن، السلسلة الصحيحة 427)
3:    رسول الله صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے: «ليكونن في هذه الأمة خسف، وقذف، ومسخ، وذلك إذا شربوا الخمور، واتخذوا القينات، وضربوا بالمعازف»
ترجمہ: اس امت میں جب شراب نوشی، گلوکاری اور میوزک گانے بجیں گے تو زمین میں دھنسنے، پتھروں کی بارش اور شکلیں بگڑنے کے عذاب نازل ہوں گے. (صحيح بمجموع طرقه، السلسلة الصحيحة 2203).
4: نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: «إن الله حرم على أمتي الخمر، والميسر، والمزر، والكوبة، والقنين...» 
ترجمہ: الله تعالى نے میری امت پر شراب، جوا اور ڈھول باجے جیسی چیزیں حرام کی ہیں. (صحيح، صحيح الجامع 1708)
5:   امام أبوداوود نافع سے روایت کرتے ہیں کہ: « سمع ابن عمر مزمارا، قال: فوضع أصبعيه على أذنيه، ونأى عن الطريق، وقال لي: يا نافع هل تسمع شيئا؟ قال: فقلت: لا ! قال: فرفع أصبعيه من أذنيه، وقال: كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم، فسمع مثل هذا! فصنع مثل هذا » 
ترجمہ: عبدالله بن عمر نے بانسری کی آواز سنی تو اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور بانسری کی آواز سے دور ہو گئے. جب ان کے غلام: نافع نے بتایا کہ آواز آنا بند ہو چکی ہے تو کانوں سے انگلیاں نکالیں. اور فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم كو ایسے ہی کرتے دیکھا. (حديث صحيح، صحيح أبي داوود 4116(
 إمام قرطبي فرماتے ہیں: اگر صرف بانسری کی آواز پر ایسا ردعمل ہے تو گانے بجانے کیسا ہیں؟ (الجامع لأحكام القرآن للقرطبي(.
بلکہ اگر امام قرطبی کے زمانہ کے گانوں کی یہ کیفیت ہے تو آج کے دور کے نہ صرف بیہودہ گانے بلکہ اس کے ساتھ فاحشہ گلوکاروں کی شیطانی ادائیں بھی؟؟؟ 
اللہ اور آخرت پر ایمان رکهنے والا مسلمان ایسی بیہودگی اور فحاشی کیسے سنتا دیکھتا ہے. بلکہ اس پر گھنٹوں جم کر بیٹھتا ہے؟؟؟
اور پھر بھی اس نبی کریم سے محبت کے دعوے جنہیں ایک لمحہ کے لیے بھی بانسری جیسی آواز سننا بھی برداشت نہ تهی.
معزز قارئين اکرام! غور کیجیے کہ آج ہم اس طرح کی قباحتوں میں پڑ کر کس قدر شیطان کے جال میں پھنس چکے ہیں.اللہ ہمیں معاف کریں آمین یا رب العالمین۔
                                اخوکم فی اللہ :  اکبر حسین اورکزئی


کوئی تبصرے نہیں: