عَنِ المُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍؓ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ
اللهﷺ یَقُوْلُ: ’’ وَالله مَا الدُّنْیَا فِیْ الآخِرَةِ إِلاَّ مِثْلُ مَا یَجْعَلُ أَحَدُکُمْ إِصْبَعه فِیْ
الیَمِّ، فَلْیَنْظُرْ بِمَ یَرْجِعُ۔‘‘(مسلم،
مشکوٰۃ المصابیح : ۴۳۹)
ترجمہ
: حضرت مستورد بن شدادؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رحمت ِ عالم صلی اللہ
علیہ و سلم سے سنا کہ دنیا کی مثال آخرت
کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے کہ تم میں سے کوئی اپنی ایک انگلی دریا میں ڈال کر
نکال لے، اور پھر دیکھے کہ پانی کی کتنی مقدار اس میں لگ کر آئی ہے۔
آخرت کی حقیقت : اللہ رب العزت نے جس
طرح اس عالمِ دنیا کو پیدا فرمایا جس میں ہم اور آپ اپنی زندگی گذار رہے ہیں اور
جس کو ہم اپنی آنکھوں اور کانوں وغیرہ حواس سے محسوس کرتے ہیں ، جس طرح یہ ایک
واقعی حقیقت ہے اسی طرح اللہ رب العزت نے اس عالمِ دنیا کے بعد عالمِ آخرت کو بھی
پیدا فرمایا ہے۔ آخرت سے مراد وہ زندگی ہے جو مرنے کے بعد دو بارہ اٹھائے جانے سے
شروع ہو کر کبھی ختم نہ ہوگی، اور اسی میں دنیوی زندگی کے اچھے برے اعمال کی جزا و
سزا دی جائے گی۔عالمِ دنیا کی طرح عالمِ آخرت بھی ایک واقعی اور یقینی حقیقت ہے،
جس پر ایمان ضروری ہے، قرآنِ کریم نے آخرت کو مختلف ناموں سے بیان کیا ہے، مثلاً
سورۂ ’’الحاقہ‘‘ میں اس کا ایک نام ’’الحاقۃ‘‘ ذکر کیا گیا، تو اس کا مطلب یہ ہے
کہ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے، اور اُسے قائم ہونا ہے، قرآن نے گویا اس لفظ سے
لوگوں کو یہ بتا دیا کہ آخرت کی بات یوں ہی نہیں ؛ بلکہ وہ ایک حقیقت ہے، اور ہر
حال میں واقع ہونے والی ہے، اس لیے آخرت کے سلسلہ میں کسی قسم کے تردّد اور شک
میں پڑ کر اسے نظر انداز نہ کیا جائے، اب رہی بات یہ کہ اس دنیوی زندگی میں ہمارا
آخرت کو نہ دیکھنا اور اُسے محسوس نہ کرنا، تو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیساکہ ماں کے
پیٹ میں ہونے کے زمانہ میں ہم اس دنیا کو نہ دیکھ سکتے تھے نہ محسوس کر سکتے تھے،
لیکن جب ہم ماں کے پیٹ سے منتقل ہو کر دنیا میں آئے، تو ہم نے اس دنیا اور اس کی
وہ تمام حیرت انگیز چیزوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، بلکہ ان کا مشاہدہ و تجربہ
کر لیا جن کا ہم ماں کے پیٹ میں تصو ّر بھی نہیں کر سکتے تھے، بالکل اسی طرح جب اس
عالمِ دنیا سے موت کے بعد منتقل ہو کر ہم عالمِ آخرت میں پہنچیں گے، تو وہاں کی
ان تمام حیرت انگیز چیزوں اور جنت و جہنم کو دیکھ لیں گے، جن کا اس وقت ہم تصو ّر
بھی نہیں کر سکتے، لیکن چوں کہ ان کی اطلاع اللہ رب العزت نے اپنی کتاب اور نبی
صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ ہمیں دی ہے
اور قرآنِ پاک کے بقول آخرت پر ایمان
اہل ایمان کی پہچان ہے:{ وَبِالآخِرَۃِ ھُمْ
یُوْقِنُوْنَ} (البقرۃ : ۴) اس لیے الحمدللہ ! ہم اہل ایمان آخرت پر یقین بھی رکھتے ہیں اور
فکر بھی کرتے ہیں ، اور علماء کہتے ہیں کہ فکر ِ آخرت درحقیقت چراغِ آخرت ہے؛ جو مومن ہی کے دل میں روشن ہوتا ہے۔
آخرت اور اس کی تمام چیزیں
دائمی ہیں : پھر
قرآنِ پاک نے دنیا اور آخرت کے متعلق ایک یقینی حقیقت یہ بیان فرمائی کہ ’’دنیا
اور اس کی ہر چیز فانی ہے۔‘‘ { کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ} (الرحمن : ۲۶)
بقولِ شاعر : ہر صبح طائرانِ خوش الحان ٭ کہتے ہیں : ’’کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا
فَانٍ‘‘
دنیا کی ہر چیز آنی جانی اور فانی ہے، اس کے برخلاف آخرت اور اس کی
ہرچیز غیر فانی اور دائمی ہے، بلکہ خود انسان بھی وہاں پہنچنے کے بعد غیر فانی بنا
دیا جائے گا، وہاں اس کو بھی کبھی ختم نہ ہونے والی زندگی دی جائے گی، اس مضمون کو
قرآنِ پاک نے مختلف مقامات پر بیان کیا ہے، چنانچہ ایک جگہ ارشاد ہے: { إِنَّمَا ھٰذِہِ
الْحَیوٰۃُ الدُّنْیاَ مَتَاعٌ وَ إِنَّ الآخِرَۃَ ھِيَ دَارُ الْقَرَارِ}
(المؤمن : ۳۹) ’’یہ
دنیوی زندگی (اور اس کا ساز و سامان) تو بس چند دِنوں کے استعمال کے لیے ہے اور
یقین جانوکہ آخرت ہی در اصل رہنے بسنے کا گھر ہے۔‘‘ تویہاں کی ہر چیز وقتی ہے اور وہاں کی ہر چیز
دائمی ہے۔ حدیث ِ مذکور میں آخرت کے
مقابلہ میں دنیوی زندگی کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
’’ وَ الله مَا الدُّنْیَا فِیْ الآخِرَۃ إِلاَّ مِثْلُ مَا یَجْعَلُ أَحَدُکُمْ إِصْبَعه فِیْ الیَمِّ،
فَلْیَنْظُرْ بِمَ یَرْجِعُ۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ دنیا کی فانی زندگی آخرت کے مقابلہ میں اتنی بھی
حقیقت و حیثیت نہیں رکھتی جتنا کہ دریا کے مقابلہ میں انگلی پر لگا ہوا پانی، اور
یہ مثال بھی صرف سمجھانے کے لیے دی ہے، ورنہ فی الحقیقت دنیا کی آخرت کے مقابلہ
میں کوئی حیثیت ہی نہیں ، وجہ یہ کہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، خواہ وہ نعمتیں
ہوں یا مصیبتیں ، وقتی، متناہی، محدود اور فانی ہیں ، جب کہ آخرت لا محدود، غیر
متناہی ، غیر فانی اور دائمی ہے،لہٰذا وہاں کی سزائیں اور مصیبتیں بھی دائمی ہوں
گی، اور جزائیں و نعمتیں بھی، چنانچہ قرآن نے شقی اور بدبخت لوگوں کے بارے میں جو
دنیا ہی کے طلبگار تھے ارشاد فرمایا ہے :{ فَأَمَّا الَّذِیْنَ
شَقُوْا فَفِیْ النَّارِ لَھُمْ فِیْھَا زَفِیْرٌ وَّ شَھِیْقٌ خٰلِدِیْنَ
فِیْھَا} (ھود : ۱۰۶)
جو لوگ شقی ہوں گے وہ دوزخ میں ہوں گے، جہاں ان کے چیخنے چلانے کی
آوازیں آئیں گی، یہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔دوسرے مقام پر فرمایا : { وَ مَاھُمْ بِخٰرِجِیْنَ
مِنَ النَّارِ} (البقرۃ : ۱۶۷) یہ لوگ کبھی بھی دوزخ سے نہ
نکلیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ وہاں
کافروں اور مجرموں کو جوسزا دی جائے گی وہ دائمی ہوگی، اسی طرح آخرت کے اُمید وار
مومنوں اور فرماں برداروں کو جو جزا دی جائے گی وہ بھی دائمی ہوگی۔ فرمایا : { وَ أَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِیْ الْجَنّۃِ خٰلِدِیْنَ
فِیْھَا} (ھود : ۱۰۸) جو
نیک بخت ہوں گے وہ جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ دوسرے
مقام پر فرمایا : { لاَ یَمَسُّھُمْ فِیْھَا نَصَبٌ وَّ مَا ھُمْ مِّنْھَا بِمُخْرَجِیْنَ}
(الحجر:۴۸) وہاں
ان کو نہ کوئی تھکن ہوگی، نہ وہاں سے کبھی وہ نکالے جائیں گے۔
آخرت کا یقین اور استحضار :ظاہر ہے کہ جب یہ حقیقت
ہے تو اب نقل و عقل دونوں کا تقاضہ یہ ہے کہ ہماری ساری توجہ و طلب اور فکر و کوشش
بس آخرت ہی کی بہتری کے لیے ہو، دنیا ضرورت پوری کرنے کی جگہ ہے، چاہت پوری کرنے
کی نہیں ، لہٰذا دنیا سے ہمارا تعلق بقدرِ ضرورت ہی ہو، ہم دنیا کے طلبگار بننے کے
بجائے آخرت کے اُمید وار بن جائیں ، لیکن بظاہر یہ اسی وقت آسان ہے جب آخرت کے
حقائق کا مکمل یقین اور ان کا استحضار نصیب ہو جائے، آج صورتِ حال یہ ہے کہ آخرت
کا کسی درجہ میں ہمیں یقین تو ہے؛ مگر اس کا استحضار و دھیان بہت کم ہے،اس لیے
آخرت کے بجائے دنیا کی طرف ہماری رغبت اور توجہ زیادہ ہے، جب کہ حضراتِ انبیاء،
صحابہؓ اور صلحاء کو یہ چیز میسر تھی،
جیساکہ قرآنِ کریم نے ان کے امتیازی وصف کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ { إِنَّا أَخْلَصْنٰھُمْ
بِخَالِصَۃٍ ذِکْرَ الدَّارِ} (ص : ۴۶)ہم نے ان کو ایک خاص وصف کے لیے چن لیا تھا، جو (آخرت کے) حقیقی گھر
کی یاد تھی۔ یعنی یہ لوگ آخرت پر یقین، اس کااستحضار اور اس کو یاد رکھتے
تھے۔ اس لیے ان کی ساری رغبتیں اور
دلچسپیاں آخرت کے ساتھ خاص ہو گئی تھیں ، دنیا کی رنگینیوں سے ان کا دل اُٹھ چکا
تھا۔
صاحبو ! یہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ
دِل میں آخرت کا یقین اور اس کا استحضار پیدا ہونے کے بعد کسی بھی انسان کے لیے
اس کی فکر اور تیاری کرنا، مراد گناہوں سے بچنا اور نیکیوں کا اہتمام کرنا آسان
ہو جاتا ہے۔
ایک عبرت ناک واقعہ :اس سلسلہ میں ایک نہایت
عبرت ناک واقعہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں حضرت عبید بن عمیرؒ مشہور تابعی گذرے ہیں ،
اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی فصیح زبان دی تھی، ان کی مجلس میں مشہور صحابی حضرت
عبداللہ بن عمرؓ بھی بیٹھا کرتے تھے، اور
ان کی دل پر اثر کرنے والی گفتگو سے پھوٹ پھوٹ کر روتے تھے، مکہ مکرمہ میں ایک
جوان عورت شادی شدہ تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے غیر معمولی حسن سے نوازا تھا، یہ حسن
بھی بڑی عجیب چیز ہے، بڑے بڑے بہادر، پہلوان اور سورما اس کے ایک نگاہِ غلط انداز
کے وار سے ڈھیر ہو کر مرغِ بسمل کی طرح تڑپنے لگتے ہیں ، وہ بہادر جو کسی کے داؤ
میں نہ آتا ہو بسا اوقات حسن کی بھولی سی نظرسے اس کے قلب و جگر کی حالت دگرگوں
ہو جاتی ہے، یہ خاتون ایک دِن آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھ رہی تھی، شوہر سے کہنے لگی:
’’کوئی شخص ایسا ہو سکتا ہے جو یہ چہرہ دیکھے اور اس پر فریفتہ نہ ہو؟‘‘ شوہر نے
کہا: ’’ہاں ، ایک شخص ہے، حضرت عبید بن عمیر!‘‘
اس عورت کو شرارت سوجھی، کہنے لگی:
’’اگر آپ مجھے اِجازت دیں تو ابھی میں انہیں بھی اسیر محبت بنائے دیتی ہوں
،‘‘ شوہر نے اِجازت دی، تو وہ حضرت عبید
بن عمیرؒکے پاس آئی اور کہا : ’’مجھے آپ سے تنہائی میں ایک ضروری مسئلہ پوچھنا
ہے،‘‘ حضرت عبید بن عمیرؒ مسجد ِحرام کے
ایک گوشے میں اس کے ساتھ الگ کھڑے ہو گئے، تو اس نے اپنے چہرے سے نقاب سرکایا، اور
اس کا چاند سا حسین چہرہ قیامت ڈھانے لگا، حضرت عبیدؒ نے اُسے بے پردہ دیکھ کر
فرمایا : ’’اللہ کی بندی! اللہ سے ڈر،‘‘ وہ کہنے لگی: ’’میں آپ پر فریفتہ ہو گئی
ہوں ،آپ میرے متعلق غور کر لیں ‘‘ … دعوتِ گناہ کی طرف اشارہ تھا؛ مگر حضرت عبیدؒ
اس کے جھانسے میں کب آنے والے تھے، فرمایا : ’’میں چند سوالات پوچھتا ہوں ، اگر
تونے ان کے صحیح جوابات دے دیے، تو میں تیری دعوت پر غور کر سکتا ہوں ‘‘ اس نے
ہامی بھر لی، تو فرمایا : ’’موت کا فرشتہ جب تیری روح قبض کرنے آجائے، اس وقت
تجھے یہ گناہ اچھا لگے گا؟‘‘ کہنے لگی : ’’ہرگز نہیں ‘‘ فرمایا : ’’جواب درست ہے۔‘‘ فرمایا : ’’جب
لوگوں کو قیامت کے دِن اعمال نامے پیش کیے جارہے ہوں گے، اور تجھے اپنے متعلق
معلوم نہ ہوگا کہ وہ دائیں ہاتھ میں ملے گا یا بائیں میں ؟ کیا اس وقت تجھے یہ
گناہ اچھا لگے گا؟‘‘ کہنے لگی : ’’ہرگز نہیں ‘‘
فرمایا : ’’جواب صحیح ہے۔‘‘
فرمایا :’’پل صراط عبور کرتے وقت تجھے اس گناہ کی خواہش ہوگی؟‘‘ کہنے لگی:
’’ہرگز نہیں ‘‘ فرمایا : ’’جواب درست ہے‘‘
پھر فرمایا : ’’جب تو آخرت میں اللہ کے
سامنے کھڑی ہوگی، اس وقت تجھے اس گناہ کی رغبت ہوگی؟‘‘ کہنے لگی: ’’بالکل نہیں
‘‘ اس پر آپؒ نے فرمایا : ’’ اللہ کی
بندی! اللہ سے ڈر اور فکر ِ آخرت کر!‘‘اس نصیحت سے اس عورت کے دل کی کائنات بدل
گئی، جب وہ گھر لوٹی تو حالت یہ تھی کہ دنیوی لذتیں اُسے بے حقیقت معلوم ہونے لگیں
، ساری رغبتیں آخرت کے ساتھ خاص ہو گئیں ، پہلے اس کی ہر رات شب ِ زفاف ہوا کرتی
تھی؛ مگر اب ہر رات شب ِ عبادت بن گئی۔ (کتاب الثقات للعجلی:۲/۱۱۹، از :’’کتابوں کی درسگاہ میں
‘‘ /ص:۵۳) .
کسی نے کیا خوب کہا ہے: فکر ِ دنیا کر کے دیکھا، فکر ِعقبیٰ کر کے
دیکھ ٭ سب کو اپنا کر کے دیکھا، رب کو اپنا کر کے دیکھ
توشۂ آخرت : خلاصہ یہ ہے کہ ایمان کے بعد انسان کی زندگی کو
ایمانی و عملی بنانے، یعنی زندگی کو سنوارنے اور فلاح کے مقام تک پہنچانے کے لیے
بنیادی طور پر اللہ کاڈر اور آخرت کا فکر نہایت ضروری ہے، خوفِ خدا اور فکر
ِعقبیٰ کی سچی اور یقینی کیفیت کے دل میں پیدا ہونے کے بعد کسی بھی انسان کے لیے
معاصی سے اجتناب اور اعمالِ صالحہ کا اہتمام آسان ہو جاتا ہے، اور یہی در اصل
توشۂ آخرت ہے، یعنی ایمانِ کامل، اعمالِ صالحہ، تقویٰ اور فکر ِعقبیٰ، آخرت میں
یہی چیز کام آنے والی ہے، اس لیے رحمت ِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت کو اپنے خطبات و مواعظ اور نصائح کے
ذریعہ اس کی طرف متوجہ فرماتے رہتے تھے، جیساکہ مشہور صحابی ٔ رسول سیدنا حنظلہ بن
الربیع رضی اللہ عنہ کی مشہور و معروف روایت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ رحمت ِ
عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی مجالسِ مقدسہ
کا خاص موضوع ایمان، اعمالِ صالحہ، خوفِ خدا اور فکر ِعقبیٰ ہی تھا، یہی وجہ ہے کہ
حضرات ِ صحابہؓ کی دلی کیفیت ان مضامین کو
سن کر یہ ہوتی گویا وہ دنیا میں نہیں ؛ آخرت میں ہیں ، اور احوالِ آخرت، جنت و
دوزخ ان کے بالکل سامنے ہیں ، یہ کیفیت اپنی حقیقت کے ساتھ آج ہمارے دلوں میں بھی
پیدا ہو جائے تو ہماری ساری رغبتیں دنیا سے ہٹ کر آخرت کے ساتھ ہو جائیں ، اور
دنیا سے زیادہ آخرت کی فکر پیدا ہو جائے، نیز اعمالِ صالحہ کی رغبت اور معاصی سے
نفرت پیدا ہو جائے۔اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے ہمیں توشۂ آخرت، یعنی ایمانِ کامل،
اعمالِ صالحہ، تقویٰ اور فکر ِ عقبیٰ کی دولت سے مالامال فرمائے۔ آمین یا رب
العالمین۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کُلَّمَا ذَکَرَہُ
الذَّاکِرُوْنَ، وَ کُلَّمَا غَفَلَ عَنْ ذِکْرِہِ الْغَافِلُوْنَ.
بحوالہ
گلدستہ حدیث بتغیر یسیر :
اکبر حسین اورکزئی
1 تبصرہ:
بہت اچھا
ایک تبصرہ شائع کریں