عَنْ
أَنَسٍؓ قَالَ : قَالَ (لِی) رَسُوْلُ اللّهﷺ
: ’’ یَا بُنَيَّ! إِنْ قَدَرْتَ أَنْ تُصْبِحَ وَ تُمْسِيَ، وَلَیْسَ فِیْ
قَلْبِکَ غِشٌّ لِأَحَدٍ، فَافْعَلْ، ثُمَّ قَالَ: ’’ یَا بُنَيَّ! وَ ذٰلِکَ
مِنْ سُنَّتِیْ، وَمَنْ أَحَبَّ سُنَّتِیْ فَقَدْ أَحَبَّنِیْ، وَمَنْ
أَحَبَّنِیْ کَانَ مَعِيَ فِیْ الْجَنّة ‘‘۔(
ترمذی، مشکوۃ/ص:۳۰/کتاب الاعتصام بالکتاب و
السنۃ/الفصل الثانی)
ترجمہ : حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رحمت ِ عالم صلی اللہ
علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’’اے میرے پیارے بیٹے! اگر تجھے اس با ت پر قدرت ہو
کہ تیری صبح اور شام(مراد زندگی کے تمام اوقات ہیں )اس طرح گذرے کہ تیرے دل میں
کسی کے لیے کینہ اور دغا نہ ہو تو ایسا ضرور کرنا۔‘‘ پھر فرمایا: ’’اے میرے پیارے
بیٹے !یہ (بھی) میری سنت میں سے ہے، اور جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے (در
حقیقت) مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میری معیت میں
ہوگا‘‘۔
تباعِ سنت علامتِ محبت
ہے : ’’سنت‘‘ لغت میں عادت کو
کہتے ہیں، لیکن شریعت میں ا س سے مراد وہ
چیز جو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و
سلم سے قولاً،فعلاًاو رتقریراً منقول ہونے
کے ساتھ قابل عمل ہو۔(کیوں کہ یہی تعریف حدیث کی بھی کی جاتی ہے۔لیکن حدیث اور سنت
میں بنیادی طور پر جو فرق بیان کیاگیاہے من جملہ ان میں ایک یہ ہے کہ ہرحدیث
کاقابل عمل ہونا ضروری نہیں، جب کہ سنت صرف و ہ ہے جو قابل عمل ہو، لہٰذا ہر سنت
حدیث تو ہے، لیکن ہر حدیث سنت نہیں۔) اورمختصر لفظوں میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاکیزہ طریقہ کا نام
سنت ہے ۔سنت سے محبت حضور صلی اللہ علیہ و
سلم سے محبت کی علامت ہے، تو اتباعِ سنت
سعادت ہے۔انسانیت کی سعادت محض اور محض اتباعِ سنت میں ہے، سعاد ت مند ہے وہ شخص
جسے اتباعِ سنت کی توفیق ملے، کیوں کہ اتباعِ سنت میں دارین کی کامیابی ہے، اور
سنت کی مخالفت میں دونوں جہاں میں شقاوت ہے، نیزاﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کی محبت کی سچی اور یقینی علامت بھی اتباعِ سنت ہی ہے ۔چنانچہ فرمایا: { قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ
یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ} (اٰل عمران : ۳۱)محبوبم! لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو
میری سنت کا اتباع کرو، اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا۔
معلوم
ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی محبوبیت اتباعِ سنت کے بغیر ممکن نہیں، او رجس وقت آدمی
سنت پر عمل کرتاہے اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوتاہے۔اسی لیے کہاگیا ہے: نقش
قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے راستےپھر جس طرح اتباعِ سنت
اللہ تعالیٰ کی محبت کی علامت ہے، اسی طرح اتباعِ سنت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی
بھی محبت کی علامت ہے، جس کاذکر اسی حدیث میں ہے: مَنْ
أَحَبَّ سُنَّتِیْ فَقَدْ أَحَبَّنِیْ‘‘ تو حاصل کلام یہ نکلا کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے
رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت اتباعِ سنت سے حاصل ہوتی ہے،اور جو
متبع سنت ہے وہ ا للہ تعالیٰ اور حضرت محمد مصطفی
صلی اللہ علیہ و سلم دونوں کے نزدیک محبوب ہے، ظاہر ہے کہ ایسا شخص دارین
میں خیر سے کیسے محروم رہ سکتا ہے؟ سنتیں دو قسم کی ہیں : ظاہری
اور باطنی :
حدیث
بالا میں اتباعِ سنت کی اہمیت اور اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے، اور سنت سے مراد
جیساکہ عرض کیاگیا:حضور صلی اللہ علیہ و
سلم کے اقوال ،افعال او راحوال ہیں، اور
ظاہر ہے کہ افعال و احوال جیسے ظاہری ہوتے ہیں ایسے ہی باطنی بھی ہوتے ہیں، اس لیے
ہمارے حضرت شیخ الزماں مولانا قمرالزماں فرماتے ہیں کہ اس حدیث شریف سے سنت کی دو
قسمیں معلوم ہوتی ہیں:
(۱) ظاہری ۔ (۲) باطنی۔ باطنی سنت کو پہلے بیا ن کیا، کیوں کہ عموماً اس
کی طرف توجہ کم ہوتی ہے، فرمایا: ’’ یَابُنَيَّ !‘‘ ’’اے میرے پیارے بیٹے !حضور
صلی اللہ علیہ و سلم کا اندازِ
تربیت دیکھئے، کس قدر شفقت و محبت آمیز ہے! صرف حکم نامہ پیش نہیں کیا، بلکہ پیار
سے عمل کی ترغیب دے کر اس پر عمل کرنے کا نتیجہ بھی بیان کیا، کیوں کہ جب انسان کے
سامنے کسی عمل کا عمدہ نتیجہ ہوتاہے تو اس عمل کے لیے وہ بآسانی اور بخوشی تیار
ہو جاتا ہے،چنانچہ فرمایا: اے میرے پیارے بیٹے! اگر ہو سکے تو اپنے د ل میں کسی کی
طرف سے کینہ (پوشیدہ دشمنی) مت رکھنا (کیوں کہ دل درست تو جسم درست) کہاگیاہے کہ
سینہ اگر کینہ سے پاک ہے تو وہ رحمت کا خزینہ ہے، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا حال یہی تھا، اسی لیے
فرمایا: اے میرے پیارے! یہ بھی میری سنت ہے، یہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی باطنی سنتوں میں سے ایک اہم سنت ہے،اپنی اور
معاشرہ کی اصلاح کے لیے اس سنت کو بھی عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔
شعر
ہے: کینہ نہ ہو
سینہ میں، کینہ نہیں اچھا ٭جس دل میں ہو
کینہ اس کا جینا نہیں اچھا
اورجیسے
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے سے دشمنی کرنے والوں کوبھی اللہ تعالیٰ کے لیے
سینے سے لگایا، ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم
کی اس سنت کو زندہ کریں۔حضور صلی
اللہ علیہ و سلم کی سنت سے محبت پر جنت میں معیت :
اس کے
بعد فرمایا: ’’وَمَنْ أَحَبَّ سُنَّتِیْ فَقَدْ أَحَبَّنِیْ‘‘جس نے میری سنت سے محبت کی یقینا اس نے مجھ سے محبت کی۔ مطلب یہ ہے
کہ میری چھوٹی ہوئی سنت کو زندہ کیا،یا مطلقاً میری سنت کااتباع کیاتو یہ مجھ سے
محبت کے بغیر ممکن نہیں، اس لیے میری سنت سے محبت کرنا مجھ سے محبت کرناہے:’’وَمَنْ
أَحَبَّنِیْ کَانَ مَعِيَ فِیْ الْجَنةِ‘‘ اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ یہاں دراصل
اتباعِ سنت پر جنت کی بشارت سنانا مقصود ہے۔ رہی
بات جنت میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہونے کی،تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس
متبع سنت کے لیے جنت میں اس کے اعمال کے مطابق جو درجہ ہوگا وہ اس میں ضرور داخل
ہوگا، اور ظاہر ہے جنت میں داخل ہونے والا یقیناً حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھی ہے،عام محاورہ
میں اسے معیت ہی سے تعبیر کیاجاتاہے۔مثلاً کسی بڑے ہوٹل میں دو شخص مقیم ہوں، جن
میں سے ایک فرسٹ کلاس روم میں ہو، اور دوسرا بالکل آخری درجہ کے روم میں ہو، لیکن
اس کے باوجود کہا یہ جاتاہے کہ یہ شخص فلاں ہوٹل میں ہمارے ساتھ رہا ہے، بس متبع
سنت کے لیے یہی صورت ِحال جنت میں
حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی معیت کی
ہوگی۔
بہر حال! یہ
بہت ہی عظیم دولت ہے، جسے مل جائے وہ بہت ہی خوش قسمت ہے، کیوںکہ جنت !پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی معیت !نورٌ علی نور۔واقعی
اس کی عظمت اور قدر وقیمت حضرات صحابہؓ نے سمجھی تھی،بلکہ اس عاجز کا ناقص خیال یہ
ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت
و معیت سے تو انہیں دنیا ہی میں جنت کا لطف آنے لگا تھا، اسی لیے ان کی عین خواہش
یہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی
معیت جنت میں بھی نصیب ہو۔
حضرت ربیعہ ؓ کا واقعہ :
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی ؓ ایک صحابی ہیں،جن کا شمار اہل صفہ میں ہوتاہے، سفر وحضر
میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے خادم تھے،
۶۳ ھ میں وفات پائی، آپ
عموماً رات حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اس نیت سے گذارا کرتے کہ تہجد کے
وقت وضو کا پانی یادیگر ضرورتوں کے لیے کوئی دقت پیش نہ آئے، رات میں جب
حضور صلی اللہ علیہ و سلم اٹھتے تو آپ فور اًوضو کا پانی اورضرورت کی
دیگرچیزیں لے کر حاضر ہو جاتے، ایک مرتبہ خوش ہو کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے
فرمایا: ’’مانگ لے آج جو چاہتا ہے؟‘‘ اس
موقع پر یاد رکھیے کہ مقربین بارگاہِ الٰہی پر کبھی کبھی ایسے احوال آتے ہیں جن
سے وہ محسوس کرتے ہیں کہ اس وقت رحمت ِحق متوجہ ہے،او رجو کچھ مانگا جائے گا امید
ہے ان شاء اللہ مل جائے گا، بظاہر ایسامعلوم ہوتا ہے کہ جس وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت کعبؓ کی خدمت سے متاثر ہوکر فرمایا کہ
’’سَلْ‘‘جس چیزکی چاہت ہو مانگ لو، غالباً وہ کوئی ایسی ہی گھڑی تھی۔ محب ِصادق کو
جب عرض رسانی کا موقع میسر ہوا تو بلا تردد عرض کر دیا:’’حضور! اور تو کوئی خواہش
اور تمنا نہیں ،صرف اتنا چاہتا ہوں کہ حضور! جنت میں آپ کی رفاقت اور معیت مل
جائے، بس یہی ایک آرزو ہے، آپ صلی اللہ
علیہ و سلم نے فرمایا: ’’کوئی اور خواہش
یافرمائش؟‘‘ حضور صلی اللہ علیہ و
سلم نے جب دوسری دفعہ موقع دیا تو پھر اسی
تمنا کو دہرایا، کیوں؟ اس لیے کہ کسی اور بات کی تمنا کا تصور بھی ان کے ذہن میں
نہ آیا، اور ان کے نزدیک یہی آرزو سب سے عظیم تھی، اس لیے عرض کیا: ’’نہیں ،
حضور !اور تو کوئی آرزو نہیں، بس، یہی تمنا ہے کہ جنت میں آپ کی معیت نصیب ہو
جائے‘‘ تب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’پھر کثرتِ سجود سے میری مدد کر۔‘‘
(مشکوٰۃ المصابیح/ ص:۸۴) معلوم ہوا جو بھی کثرتِ
سجود یعنی خلوصِ نیت اور اتباعِ سنت کے ساتھ نماز کا اہتمام کرے گا ان شاء اللہ
اسے بھی جنت میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم
کی معیت نصیب ہوگی۔ بہر حال! حضور
کی معیت بہت بڑی دولت ہے، یہ نعمت حضرات صحابہؓ کے علاوہ دنیا میں تو کسی کو نصیب
نہیں ہو سکی، البتہ آخرت اور جنت میں اوروں کوبھی نصیب ہو سکتی ہے، اوراس کے لیے
شرط یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و
سلم کی ہر ہر سنت سے محبت کریں،اور ان کا
اتباع کریں۔
اتباعِ سنت کی فضیلت : یہی کیا کم
فضیلت ہے کہ اتباعِ سنت سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت اور جنت میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی معیت نصیب ہوتی ہے، علاوہ ازیں کتاب و سنت میں اتباعِ سنت کے اور
بھی فضائل منقول ہیں،ایک حدیث میں ہے: ’’مَنْ حَفِظَ سُنَّتِیْ أَکْرَمهُ
الله تَعَالٰی بِأَرْبَعِ خِصَالٍ، اَلْمَحَبة فِیْ قُلُوْبِ الْبَرَرة، وَالهيبة
فِیْ قُلُوْبِ الْفَجَرَۃ،
وَالسَّعة فِی الرِّزْقِ، وَالثِّـقةُ فِیْ الدِّیْنِ‘‘۔
(شرح شریعۃ الإسلام/ص:۸،
للسید علی زادہ، از: فتاوٰی رحیمیہ/ج:۱۰/ص:۳۸۸)
جس نے
میری سنت کی حفاظت اور اطاعت و اتباع کیا،حق تعالیٰ چار باتوں سے اس کو نوازیں گے:
(۱) نیک لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت
پیدافرمادیں گے۔
(۲) بدکار لوگوں کے دلوں میں اس کی ہیبت ڈال دی
جائے گی۔
(۳) رزق میں برکت ہوگی۔
(۴) دین پر استقامت نصیب ہوگی۔
صاحبو! اگر ہم اتباعِ سنت کے ذریعہ حضور صلی اللہ علیہ
و سلم کے غلام بن جائیں تو اللہ تعالیٰ ہمیں ساری دنیا کا اِمام اور دنیا کو ہمارا
غلام بنا دے گا۔ سچ ہے کہ : مقتدی تو
نہیں ہرگز، تو ہے
دنیا کا امام تواگر آج بھی ہوجائے رحمت ِعالم کا غلام اس سے بھی اتباعِ
سنت کی اہمیت و فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
جو متبع سنت ہے وہ نبی
صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب ہے :الغرض! قرآن و حدیث سے
اتباعِ سنت کی بڑی اہمیت اورفضیلت ثابت ہوتی ہے، آج آنحضرت صلی اللہ علیہ و
سلم تو ہم میں اپنے ظاہری وجود کے ساتھ
موجود نہیں ہیں، مگر آپ صلی اللہ علیہ و
سلم کا روشن طریقہ اور نورانی سنتیں تو ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی
علامت یہی ہے کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات سے محبت کی جاتی ہے اِسی طرح رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات سے بھی محبت کی جائے، اورآپ صلی اللہ
علیہ و سلم کی سنتوں سے محبت کی جائے، جو
انوارات آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات
وحیات میں تھے وہ تو آج بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنتوں میں ہیں، لہٰذا سنتوں کی مخالفت نہ
کریں، جو جس قدر نبی صلی اللہ علیہ و سلم
کی سنت پر عمل کرے گا وہ اتنا ہی نبی صلی
اللہ علیہ و سلم سے قریب ہوگا، دنیا میں
دل و جان سے تو جنت میں جسم سے۔اﷲ پاک ساری زندگی ہمیں اور ہمارے اہل و عیال و
اقرباء بلکہ سبھی انسانوں کو سنت کی عظمت اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین۔ وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ
الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ یَا رَبِّ صَلِّ وَ سَلِّمْ دَائِماً أَبَدًاعَلٰی حَبِیْبِکَ
خَیْرِالْخَلْقِ کُلهم .
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں