ہفتہ، 13 جنوری، 2018

علماء حق کی پہچان اور ان کا مقام


عَنْ أَبِیْ أُمَامة البَاهلِي قَالَ: ’’ ذُکِرَ لِرَسُوْلِ الله رَجُلاَنِ، أَحَدُهما عَابِدٌ وَ الآخَرُ عَالِمٌ، فَقَالَ رَسُوْلُ الله : ’’ فَضْلُ العَالِمِ عَلٰی العَابِدِ کَفَضْلِیْ عَلٰی أَدْنَاکُمْ‘‘ ، ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ الله : ’’إِنَّ الله وَ مَلاَئِکَته وَ أَهل السَّمَاوَاتِ وَ الأَرْضِ حَتّٰی النَّمْلة فِیْ جُحْرِها، وَ حَتّٰی الحُوْتِ لَیُصَلُّوْنَ عَلٰی مُعَلِّمِ النَّاسِ الخَیْرَ۔‘‘  (رواہ الترمذی، مشکوٰۃ/ص :۳۴/کتاب العلم/ الفصل الثانی )
ترجمہ  :   حضرت ابوامامہ باہلی ؓراوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا، جن میں سے ایک عابد (عبادت گزار )اور دوسراعالم تھا۔ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا گیا کہ ان دونوں میں سے کون افضل ہے ؟)آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا کہ ’’عالم کو عابد پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسے کہ میر ی فضیلت تم میں سے اس شخص پر جو تم میں سب سے ادنیٰ درجہ کا ہو‘‘  پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اور آسمان وزمین کی تمام مخلوق حتیٰ کہ چیونٹیا ں اپنے بلوں میں اور مچھلیا ں اس شخص کے لیے دعائِ خیر کرتی ہیں جو لوگوں کو خیر (علم دین ) کی تعلیم دیتاہے ۔

علماء حق کا وجود دنیا کی ضرورت : حق تعالیٰ نے اِس کائنات کو اپنی یاد اور عباـدت کے لیے سجایا ہے، دنیا کی یہ چمک دمک اور زیب و زینت در حقیقت اللہ تعالیٰ کی یاد اور عبادت ہی سے باقی ہے، جب دنیا میں اللہ تعالیٰ کی یاد اور عبادت کرنے والا کوئی باقی نہ رہے گاتو نظامِ عالم درہم برہم کردیا جائے گا کیوں کہ دنیا کا بھی یہ دستور اور اصول ہے کہ اگر کسی شہر میں باغیوں کی اکثر یت ہو جائے تو پھر اس شہرکو تباہ کردیا جاتاہے، اگرچہ حق تعالیٰ دنیا کے اس دستورکے مطابق اپنی رحمت ِکاملہ کی وجہ سے ایسا تو نہیں کرتے کہ جس علاقے میں اللہ تعالیٰ کے باغیوں کی اکثریت ہو جائے اسے تباہ کر دیں ، لیکن اگر دنیا کے سارے انسان اس کی بغاوت پر اُتر آئیں ، جیسا کہ قیامت سے قبل ہوگا، تو پھر چوں کہ انسان کا مقصد ِتخلیق ہی فوت ہوجائے گا، لہٰذا دنیا کو بھی تباہ کردیا جائے گا، جیسے آج ہم دیکھتے ہیں کہ اعلیٰ اور شاندار کاریں جو بڑے شوق سے خریدی جاتی ہیں ؛  مگر جب وہی عمدہ کاریں پرانی ہونے یا اکسیڈنٹ ہونے کی وجہ سے بوسیدہ ہو جاتی ہیں اور اپنا مقصد پورا نہیں کرتیں ، تو پھر ان کو کباڑ خانے میں ڈال دیا جاتاہے، یہی حال اس دنیا کا بھی ہو گاکہ جب اس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے گا تو اس دنیا کو بھی ختم کردیا جائے گا۔خلاصہ یہ ہے کہ کائنات اللہ تعالیٰ کی یاد اور عبادت کی وجہ سے قائم ہے،اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اس کی معرفت کے بغیر نہیں ہوسکتی، جب کہ معرفت علم کے بغیر ممکن نہیں ، اور علم علماء حق کے بغیر عموماًحاصل نہیں ہوتا،تو منطق کی زبان میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ دنیا بغیر عبادتِ الٰہی کے باقی نہیں رہ سکتی، اور عبادت معرفت ِ الٰہی کے بغیر صحیح نہیں ہو سکتی، اور معرفت علمِ الٰہی کے بغیر ممکن نہیں ، اور علم کا حصول علمائِ حق کے بغیر آسان نہیں ، تو نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بغیر علماء حق کے باقی نہیں رہ سکتی، اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالی کسی کے محتاج نہیں ، لیکن اس نے اس دنیا کو عالمِ اسباب بنا یا ہے، یہاں ہر چیز کا کوئی نہ کوئی سبب ہے، ہر معلول کی کوئی نہ کوئی علت ہے، ہر اثر کا کوئی مؤثر ہے، تو اس عالمِ اسباب میں تحت الاسباب یہ کہا جاسکتاہے کہ علماء نہ ہوں گے تو علم نہ ہوگا، علم نہ ہوگا تو اللہ تعالیٰ کی معرفت نہ ہوگی، اللہ تعالیٰ کی معرفت نہ ہوگی تو اس کی عبادت نہ ہوگی، اس کی عبادت نہ ہوگی تو دنیا کو ختم کرکے قیامت قائم کر دی جائے گی، اس لیے علمائِ حق کا وجود ہر جگہ، ہر علاقہ اور ہر زمانہ میں ہماری ایک دینی ضرورت کے علاوہ ہماری دنیوی ضرورت بھی ہے، دین ودنیا کے بقا اور تحفظ کے لیے علمائِ حق کا وجودانتہائی ضروری ہے ۔
علماء حق ملت کے بڑے محسن ہیں :  علماء حق کی اہمیت اور ان کے مرتبہ ومقام کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حق تعالیٰ نے انہیں کتابِ ہدایت، علومِ نبوت اور حفظ ِشریعت کے لیے بطورِ خاص منتخب فرمایا ہے، ارشاد باری ہے:{ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا} (فاطر:۳۲)       
’’پھر ہم نے کتاب کا وارث ان لوگوں کو بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے بطورِ خاص منتخب کیا۔‘‘
اور یہ بھی ظاہر ہے کہ کتاب اللہ اور علومِ نبوت کے بلا واسطہ وارث حضرات علماء ہیں ، جیسا کہ حدیث شریف میں بھی ارشاد ہے کہ’’ العُلَمَائُ وَرَثةُ الأَنْبِیَاء ‘‘  (ترمذی،  مشکوٰۃ :۳۲)حاصل اس کا یہ ہے کہ جن لوگو ں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن وسنت کے علوم کا مشغلہ اخلاص کے ساتھ نصیب فرمایا، یہ اس کی علامت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بر گزیدہ اور اولیاء ہیں ۔ (معارف القرآن/ ج:۷/ص:۳۴۷).
معلو م ہو ا کہ حق تعالیٰ نے حضراتِ علماء کو کتابِ ہدایت، علو مِ نبوت اور شریعت کی حفاظت کے لیے بطورِ خاص منتخب فرمایا ہے، یوں تو دین وایمان اور قرآن کی حفاظت کرنا ہر مسلمان پر فرض اور ضروری ہے، لیکن عموما علماء حق کے علاوہ اکثر لوگ اس سے غافل ہوتے ہیں ، الحمد للہ! علماء حق اپنی ذمہ داری کے مطابق دین وشر یعت کے ہمیشہ سے محافظ وخادم رہے ہیں ، اس اعتبار سے بھی علماء حق ساری امت اور ملت کے بہت بڑے محسن ہیں ، جیسے کسی بھی ملک کی سلامتی و حفاظت بظاہر سرحد پر موجود فوج سے ہوتی ہے ایسے ہی ملت کی سلامتی بظاہر علماء سے ہے، علماء ربانیین اللہ تعالیٰ کی فوج کے خوش نصیب سپاہی ہیں ، اور عاجز کا خیالِ ناقص تو یہ ہے کہ ملت ِاسلامیہ اور امت ِمحمدیہ کو آفتابِ رسالت کے غروب ہونے کے بعد دین حق کی روشنی اُن ہی علماء حق کے چراغ سے حاصل ہوئی ہے، لہٰذا ان کا وجود تا قیامت ملت کی نہایت اہم ضرورت ہے۔          
 دانائے رومؒ  فرماتے ہیں   :    چونکہ شد خورشید وما را کردہ داغ      ٭     چارہ نبود در مقامش جز چراغ          
یعنی جب سو رج غروب ہوگیا اور ہم کو اپنی جدائی کا داغ دے گیا، تو اب اس کی جگہ چراغ کے استعمال کے سوا چارہ ہی کیا ہے، رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ و سلم تو علم کے آفتاب وماہتاب ہیں ، تو علماء حق اس آفتابِ علم کے روشن چراغ ہیں ، آفتاب اور چراغ کی روشنی میں اگرچہ ظاہری طور پر زمین آسمان کا فرق ہے کہ انبیاء معصوم ہوتے ہیں اور علماء معصوم نہیں ، انبیاء عالمِ وحی ہوتے ہیں ؛ جب کہ علماء عالمِ شریعت ہو تے ہیں ، انبیائِ کرام اللہ تعالیٰ کے براہِ راست شاگرد ہو تے ہیں ؛ جب کہ علماء اللہ تعالیٰ کے شاگرد نہیں ؛ بلکہ انبیاء کے وارث ہوتے ہیں ، اسی لیے نبوی علوم کے انوار ایک ایسے روحانی تار کے ذریعہ ان کے قلوب تک پہنچتے ہیں ، جس کا ایک سرا حضو ر   صلی اللہ علیہ و سلم کے قلب ِاطہر میں ہے،تو دوسرا سرا  ان علماء کرام کے دلوں میں ہے، لہٰذا آفتابِ نبوت کے بعد اب یہی علمائِ حق اس  کے نائب اور علم نبوت کے ضامن اور محافظ ہیں ،جن سے نورِ ہدایت اور علم شریعت حاصل کیا جاسکتاہے۔
علماء حق کی خاص پہچان   :لیکن پہلے علماء حق کو بھی پہچانئے! علمائِ حق کی خاص پہچان قرآنِ کریم نے یہ بیان فرمائی ہے  : {إِنَّمَا یَخْشیٰ اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا} (فاطر: ۲۸)        علماء حق کی خاص پہچان یہ ہے کہ وہ خشیت ِباری کی صفت سے بطورِ خاص متصف ہوتے ہیں ، آیت کریمہ میں لفظ ِ ’’إِنَّمَا ‘‘کی وجہ سے آیت ِ کریمہ کے معنیٰ یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے علماء کے علاوہ اور کوئی نہیں ، کیوں کہ ’’إِنَّمَا ‘‘ حصر کے لیے آتاہے، مگر ابن عطیہؒ وغیرہ ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ لفظ ِ’’إِنَّمَا ‘‘جیسے حصر کے لیے آتاہے ایسے ہی کسی چیز کی خصوصیت بتانے کے لیے بھی آتاہے، اور یہاں یہی مراد ہے کہ خشیت ِ الٰہی کا وصف علماء کے علاوہ میں بھی ہوتاہے، لیکن علماء کا یہ وصف ِخاص ہے، اس کے بغیر محض مختلف قسم کے علوم وفنون پڑھنے؛ بلکہ ان میں مہارت حاصل کر لینے سے بھی کوئی شخص عنداللہ عالم نہیں بن سکتا۔ حضرت تھانویؒ فرماتے تھے کہ مولوی اُسی کو کہتے ہیں جو متقی بھی ہو، اور جو متقی نہیں ، جس میں خشیت باری نہیں وہ مولوی کیسا ؟مولانا جلال الدین رومی ؒ فرماتے ہیں : خشیت اللہ را نشان علم داں     آیت یخشی اللہ در قرآن بخواں  ،          اللہ تعالیٰ کے خوف کو علم کا نشان اور اس کی خاص پہچان اور شان سمجھو !کیوں کہ خودقرآنِ کریم نے آیت کریمہ  : {إِنَّمَا یَخْشیٰ اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا}میں اس کی گواہی دی ہے ۔ 
صاحبو! درحقیقت علم وہی ہے جس کے ساتھ خشیت ِالٰہی کا نور ہو، ورنہ وہ ’’إِنَّ مِنَ العِلْمِ لَجهلا ‘‘ کا مصداق ہوگا، اور ایسا علم نہ صرف بے سود ہے، بلکہ مضر بھی ہے، جو شخص جتنا بڑا عالم ہوگا وہ اتنا ہی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوگا، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم  سے بڑا کوئی عالم نہیں ، تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم  سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا بھی کوئی نہیں ،جیساکہ حدیث ِ پاک میں وارد ہے:  ’’ وَالله! إِنِّیْ لَأَخْشَاکُمْ لِله وَ أَتْقَاکُمْ له ۔‘‘ (متفق علیہ،  مشکوٰۃ ۲۷) خدا کی قسم! میں اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ خوف کرتا ہوں ، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد صحابہ، صلحاء اور علماء کا بھی یہی حال ہوتا ہے، وہی سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہوتے ہیں ، اسی لیے انہیں بارگاہِ الٰہی سے خشیت ِ الٰہی کا بطورِ انعام تمغہ (امتیازی اور اعزازی نشان) اور سند ملی ہے، چنانچہ فرمایا : {إِنَّمَا یَخْشیٰ اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا} یہ علمائِ حق کی سب سے بڑی خوبی اور خاص پہچان ہے ۔
ایک واقعہ   : یہی وجہ ہے کہ علماء حق کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے جہاں اُن کے علمی کمالات نظرآتے ہیں وہیں ان کے خوفِ الٰہی کے واقعات بھی ملتے ہیں ، مثلاً حضرت ربیع بن خثیم ؒ ایک جلیل القدر تابعی اور تاریخ اسلام کے عظیم رجالِ کاراور علماء حقانی و ربانی میں سے ہیں ، اور مشہور صحابی رسول صلی اللہ علیہ و سلم  سیدنا عبداللہ بن مسعودؓکے شاگرد ہیں ، حضرت ابن مسعود ؓ  اُنہیں دیکھ کر فرماتے تھے کہ ’’واللہ! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ کو دیکھتے تو ضرور آپ سے محبت فرماتے، آپؒ ایک دن اپنے استاد کے ساتھ دریائے فرات کے کنارے جارہے تھے، لب ِدریا لوہاروں کی بھٹیا ں تھیں ، جن سے آگ کے شعلے بلند ہورہے تھے، وہ دیکھ کر اُنہیں قرآنِ کریم کی ایک آیت یاد آگئی، جس میں ارشادہے: { إِذَا رَأَتْھُمْ مِنْ مَکَانٍ بَعِیْدٍ سَمِعُوْا لَھَا تَغَیُّظًا وَّ زَفِیْرًا} (الفرقان:۱۲) یعنی دوزخ جب ان جہنمیوں کو دور سے دیکھے گی تو وہ جہنمی اس کا جوش وخروش سنیں گے۔ ـاس پر انہیں دوزخ کا خطرناک منظر یاد آگیا، اور خوف زدہ ہو کربے ہوش ہو کر گرپڑے۔ (   تعلیقات رسالہ المسترشدین: ۱۲۴، از:’’کتابوں کی درسگاہ میں ‘‘: ۴۵) ان کا وہ حال ہوتاہے جو کسی شاعرنے یوں بیان کیا ہے: کبھی آہ لب سے نکل گئی،کبھی اشک آنکھ سے ڈھل گئے
یہ تمہارے غم کے چراغ ہیں ، کبھی بجھ گئے، کبھی جل گئے.
 علمائِ حق کی علامت   :   غرض اہل علم کی امتیازی شان اور علمائِ حق کی خاص پہچان خشیت ِالٰہی کے وصف سے متصف ہونا ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ یہ ایک ہی وصف علماء حق اُن تمام اوصاف کا جامع اور مجموعہ ہے جو امام غزالی ؒنے ’’علمائِ آخرت ‘‘کے عنوان میں بیان فرمائے ہیں ،نفع عام کے پیش نظر یہاں اُن کا نقل کرنا مناسب ہے، آپؒ فرماتے ہیں کہ علماء حق یا علماء آخرت کی چند علامات یہ ہیں :              
(۱)       وہ اپنے علم سے دنیا نہ کماتے ہوں ، کیوں کہ علم کا کم ازکم درجہ یہ ہے کہ دنیا کی فنائیت وحقارت کا احساس ہو، اور آخرت کی عظمت اور اس کا استحضار ہو۔        
(۲)      ان کے قول وعمل میں تعارض وٹکراؤ نہ ہو، ایسانہ ہو کہ دوسروں کو نیکی کا حکم دیں اور خود ہی اس پر عمل نہ کریں ، ارشادِ باری ہے:{ أَتَأْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ أَنْفُسَکُمْ وَ أَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ أَ فَلاَ تَعْقِلُوْنَ} (البقرۃ : ۴۴)          یہ کیا غضب ہے کہ اوروں کو تو نیک کاموں کا حکم کرتے ہو اور خود اپنی ہی خبر نہیں لیتے، حالانکہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو، کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے۔ حضرت سفیان ثوری ؒ کی روایت ہے کہ حضرت عمر ؓنے حضرت کعبؓ سے پوچھا کہ ’’مَن هم أَرْبَابُ الْعِلْمِ؟  ‘‘اہل علم اور علمائِ حق کون ہیں ؟  تو فرمایا: ’’ اَلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ بِمَا یَعْلَمُوْنَ‘‘جو اپنے علم پر عمل کرتے ہیں ،  (یعنی جن کے قول وعمل میں تعارض نہ ہو)پھر سوال فرمایا کہ ’’فَمَا أَخْرَجَ العِلْمَ مِنْ قُلُوْبِ العُلَمَاء؟‘‘  علماء کے دلوں سے علم کو کونسی چیز نکا ل دیتی ہے ؟ ’’قالَ: الطَّمَعُ‘‘(رواہ الترمذی،  مشکوٰۃ:۳۷) فرمایا :دنیا کا لالچ علم کو دلوں سے نکال دیتاہے۔
(۳)      ایسے علوم وامور میں اخلاص کے ساتھ مشغول ہوں جوآخرت میں کارآمد اور نفع بخش ہوں ، اور ایسے علوم وامور سے اجتناب واحتراز کریں جو آخرت کے اعتبار سے نفع بخش نہ ہوں ؛بلکہ نقصان دہ ہوں ۔          
(۴)      کھانے، پینے اور لباس کی نزاکتوں اور عمدگیوں کی طرف متوجہ نہ ہوں ؛ بلکہ ان چیزوں میں میانہ روی اختیارکریں ، اور بزرگوں کے سادہ طرزِ عمل کو اختیار کریں ۔      
(۵)      امراء وحکام سے حتی الامکان دور رہتے ہوں ،  اگران کے ساتھ کسی صحیح غرض سے تعلق ہو تو ٹھیک،  ورنہ ان کی چاپلوسی ہرگز نہ کریں ،ورنہ فتنہ میں مبتلا ہو نے کا شدید اندیشہ ہے۔     
(۶)اصلاحِ قلب اور اصلاحِ باطن کی بہت فکر اور اہتمام کریں ، اس کے بغیر نہ علم میں بصیر ت پیداہو سکتی ہے نہ برکت۔         
 (۷)خرافات،رسومات،بدعات اور معاصی سے بہت ہی زیادہ احتیاط اور اہتمام سے بچتے رہیں ، اور اگر کبھی بشریت کے تقاضے سے کوئی غلطی بھی ہو جائے تو فورا توبہ کی طرف متوجہ ہوں ، اور ظاہر بات ہے کہ مذکو رہ تمام اوصاف وعلامات خوفِ الٰہی کے بغیر مشکل ہیں ، اس لیے قرآنِ کریم نے علمائِ حق کا وہ بنیادی وصف بیان فرمایا جو دیگر اوصاف وعلامات کو شامل ہے۔
علماء حق کے لیے دنیا میں مقبولیت اورآخرت میں مغفرت ہے: ان علامات،صفات اور اوصاف سے جو علماء متصف ہیں وہی دراصل علماء خیر، علماء حق اور علماء آخرت ہیں ،کتاب وسنت میں ان کے بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں ، حاصل یہ ہے کہ ان کے لیے حق تعالیٰ کی جانب سے دنیا میں مخلوق کے درمیان مقبولیت و محبوبیت اور آخرت میں بے حساب مغفرت کا وعدہ ہے،  مثلاً مذکورہ حدیث میں آ پ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایاکہ علماء حق کی فضیلت عابدین پر ایسی ہے جیسی میری فضیلت تم میں سے ادنیٰ پر۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ جس طرح رحمت ِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم  کی عظمت و فضیلت کا اندازہ ایک ادنیٰ امتی کے مقابلہ میں نہیں لگایا جا سکتا، اسی طرح عالم کی فضیلت کا اندازہ عابد کے مقابلہ میں نہیں لگایا جاسکتا۔ (دونوں میں کوئی نسبت ہی نہیں ہے)            پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا کہ ’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتے اور آسمان وزمین کی تمام مخلوق حتیٰ کہ چیونٹیاں اور مچھلیاں بھی ان کے لیے دعائِ خیر کرتی ہیں ۔‘‘ کسی نے اس کا ترجمہ یوں کیاہے:مچھلیاں پانی میں ، ذرّے خاک میں ، برگ وشجر نیک عالم کو دعا دیتے ہیں ہرشام وسحرظاہر ہے کہ جب اتنی ساری مخلوق جن میں لا تعداد معصوم فرشتے بھی ہیں ایک عالمِ دین کے لیے دعائِ خیر اور دعائِ مغفرت کرتے ہیں ، تو پھران کی مغفرت کیوں نہ ہوگی، ضرور ہوگی، اور اس کی تائید دوسری احادیث ِمبارکہ سے بھی ہوتی ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے:    عَنْ سَخْبَرَة الأَزدِیؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ الله: ’’ مَنْ طَلَبَ العِلْمَ کَانَ کَفَّارَة لِمَا مَضیٰ۔‘‘ (رواہ الترمذی، مشکوٰۃ:۳۴ / الفصل الثانی)یعنی جس خوش نصیب نے (صدقِ نیت سے) علم طلب کیا تویہ طلب ِعلم اس عالم دین کے گذشتہ (صغیرہ )گناہوں کا کفارہ ہوگا۔علماء نے اس کا ایک مطلب یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اچھی نیت سے علم طلب کرنے والے علماء حق کو گناہوں سے بچنے کی اور گذشتہ گناہوں کا کفارہ اداکرنے کی توفیق عطا فرمائیں گے، اور پھر دنیا میں علماء حق کو حق تعالیٰ اپنی مخلوق میں مقبولیت عطا فرمائیں گے توآخرت میں مغفرت سے مالا مال فرمائیں گے، جیساکہ ایک حدیث قدسی ہے:        عَنْ ثَعْلَبة بْنِ الحَکَمِ الصَّحَابِيؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ الله : ’’ یَقُوْلُ الله عَزَّ وَ جَلَّ لِلْعُلَمَائِ یَوْمَ القِیَامة إِذَا قَعَدَ عَلیٰ کُرْسِیه لِفَصْلِ عِبَادِہٖ : ’’إِنِّیْ لَمْ أَجْعَلْ عِلْمِیْ وَ حِلْمِیْ فِیْکُمْ، إِلاَّ وَ أَنَا أُرِیْدُ أَنْ أَغْفِرَ لَکُمْ عَلیٰ مَا کَانَ فِیْکُمْ، وَ لاَ أُبَالِیْ۔‘‘ (رواہ الطبرانی فی الکبیر ورواتہ ثقات، کما فی الترغیب : ۱/ ۱۰۱)      
قیامت میں حق تعالیٰ اپنی (شان کے مطابق )کرسی ٔخاص پر تشریف فرما ہوں گے، پھر علماء سے خطاب کرتے ہو ئے ارشاد فرمائیں گے کہ ’’میں نے اپنے علم وحلم سے تمہیں اس لیے نوازا تھا کہ میں چاہتا تھا کہ تمہاری کوتاہیوں کے باوجود تم سے درگذرکروں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں ۔ (حدیث قدسی نمبر : ۱۳).
حضرت اِمام محمدؒ  کا واقعہ   : حضرت امام محمدؒکے متعلق منقول ہے کہ وفات کے بعد کسی نے اُنہیں خواب میں دیکھا تو پوچھا کہ’’ آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ؟‘‘ فرمایا :’’مجھ سے کہا گیا : ’’کیا چاہتے ہو ؟‘‘ تو میں نے عرض کیا : یا’’ اللہ! میں تو صرف معافی اور مغفرت طلب کرتاہوں بس !‘‘ ارشاد ہواکہ’’ اے محمد! اگر ہمیں تم کو عذاب دینا ہوتا تو یہ علم عطا نہ کرتے۔‘‘ صاحبو!جب خوابوں کی تعبیر کے علم پر سیدنا یوسف علیہ السلام کو دنیا کا تخت مل گیا تو اللہ تعالیٰ کی معرفت کے علم پر حضرات علماء کو جنت کا تخت کیوں نہ ملے گا، واقعی اگر علماء اپنے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ بیدار ہوجائیں اور مطلوبہ صفات سے متصف ہو جائیں تو پھر حق تعالیٰ اُنہیں دنیا میں مقبولیت اور آخرت میں مغفرت اورجنت سے نواز کر دارین میں سرخ روئی عطا فرمائیں گے۔اَللّٰہم اجعلنا منہم ۔            اخیر میں بارگاہِ الٰہی میں عرض ہے کہ اے اللہ ! دنیا میں علما ء حق کی صفات سے ہمیں اپنے کرم سے متصف فرماکر آخرت میں علماء حق میں شامل فرما لیجئے۔ آمین یا رب العالمین۔
( اَللهم صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کُلَّمَا ذَکَرَه الذَّاکِرُوْنَ، وَ کُلَّمَا غَفَلَ عَنْ ذِکْره الْغَافِلُوْنَ)

(بحوالہ گلدستہ حدیث بتغیر یسیر :  اکبر حسین اورکزئی )

کوئی تبصرے نہیں: