اتوار، 19 فروری، 2017

داڑھی کی شرعی حیثیت

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين ، نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين ، اما بعد 
اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق احسن انداز میں کی ہے اور داڑھی کے ذریعے اسے زینت بخشی ہے،داڑھی جہاں اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے، وہاں اسوۂ رسول ﷺ بھی ہے، یہ جہاں انسان کا فطرتی حسن ہے، وہاں اللہ کی شریعت بھی ہے ، داڑھی جہاں شعارِ اسلام ہے وہاں محبت رسول ﷺ کا تقاضا بھی ہے ، داڑھی جہاں مرد کے لیے ظاہری حسن وجمال ہے ، وہاں اس کے باطن کی تطہیر کا سبب بھی ہے ،یہ تمام شریعتوں کا متفقہ اسلامی مسئلہ ہے،یہ اسلامی تہذیب ہے ، یہ وہ اسلامی وقار اور ہیبت ہے جس سے مرد و عورت کے درمیان تمیز ہوتی ہے ،نیز اس سے مردوں اور ہیجڑوں کے درمیان امتیاز ہوتا ہے، یہ وہ دینی روپ ہے جس سے سلف صالحین اور فساق و فجار کے درمیان فرق ہوتا ہے ،یہ ایک فطرتی طریقہ ہے جو دلیل کا محتاج نہیں ،نفسانی خواہشات،رسم و رواج اور ماحول سے مرعوب ہو کر اللہ تعالیٰ کی زینت کو بدنمائی میں تبدیل کرنا بزدلی ہے ، اس سے انسان اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:
  (أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ) الجاثية :۲۳ کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشات کو اپنا الہ و معبود بنا لیا ہو؟‘‘ کا مصداق ٹھہرتا ہے۔
داڑھی منڈانا با لاجماع حرام ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی معصیت اور اس کی نعمتوں کی ناقدری ہے ، اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کی مخالفت ہے، یہ اللہ کی تخلیق کے حسن و جمال کی تخریب کاری اور کفار سے مشابہت ہے۔
داڑھی بڑھا کر اور مونچھیں کٹوا کر مشرکین کی مخالفت کرو :
۱ ۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خَالِفُوا المُشْرِكِينَ: وَفِّرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ . مشرکوں کی مخالفت کرو ،یعنی داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کاٹو۔‘‘ (صحیح بخاری:۲؍۸۷۵،ح:۵۸۹۲،صحیح مسلم:۱؍۱۲۹،ح:۲۵۹)
۲۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی روایت ان الفاظ میں بھی آتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى  (مونچھوں کو ختم کرو اور داڑھیوں کو بڑھاؤ۔‘‘(صحیح بخاری:۲؍۸۷۵،ح:۵۸۹۳)
۳۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث ان الفاظ سے بھی مروی ہے:
خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ أَحْفُوا الشَّوَارِبَ، وَأَوْفُوا اللِّحَى ۔ مشرکین کی مخالفت کرو،مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔‘‘(صحیح مسلم:۱؍۱۲۹،ح:۵۴؍۲۵۹)
داڑھی رکھنا اور مونچھیں کاٹنا حکم رسول ﷺہے:
۴ ۔ یہ الفاظ بھی ہیں: أَنَّهُ:أَمَرَ بِإِحْفَاءِ الشَّوَارِبِ، وَإِعْفَاءِ اللِّحْيَةِ ۔
آپﷺ نے مونچھیں کاٹنے اور داڑھیاں بڑھانے کا حکم دیا۔‘‘(صحیح مسلم:۱؍۱۲۹،ح:۵۳؍۲۵۹)
داڑھی بڑھا کر مجوسیوں کی مخالفت کرو:
۵۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:خذوا الشَّوَارِبَ، وَأَرْخُوا اللِّحَى خَالِفُوا الْمَجُوسَ ۔ ’’مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں لٹکاؤ،مجوسیوں کی مخالفت کرو۔‘‘)صحیح مسلم:۱؍۱۲۹،ح:۲۶۰(
امام ابوعوانہ رحمہ اللہ نے احادیث پر داڑھی کے وجوب کا باب قائم کیا ہے۔(صحیح ابی عوانہ:۱؍۱۳۴)
داڑھی منڈانا مجوسیوں کا کام ہے:
۶۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: إِنَّهُمْ يُوَفِّرُونَ سِبَالَهُمْ، وَيَحْلِقُونَ لِحَاهُمْ، فَخَالِفُوهُمْ
’’وہ مجوسی مونچھیں بڑھاتے اور داڑھیاں منڈاتے ہیں،تم ان کی مخالفت کرو۔‘‘(مصنف ابن ابي شيبه:۸؍۵۶۷۔۵۶۶،المعجم الاوسط للطبراني:۱۰۵۵۔۱۶۴۵،السنن الكبري للبيهقي:۱؍۱۵۱، شعب الايمان للبيهقي:۶۰۲۷،وسنده‘ صحيح(
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (۵۴۷۴) نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
اس کا راوی معقل بن عبیداللہ الجزری ’’موثق،حسن الحدیث‘‘ ہے،اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:بل هو عند الأكثرين صدوق لا بأس به ’’لیکن وہ اکثر محدثین کے نزدیک ’’صدوق، لا باس بہ‘‘ ہے۔‘‘(میزان الاعتدال للذہبی:۴؍۱۴۶)
شاہ ولی اللہ الدہلوی الحنفی لکھتے ہیں: وقصها أي اللحية سنة المجوس وفيه تغيير خلق الله
’’داڑھی کو منڈانا مجوسیوں کا طریقہ اور تخلیقِ الٰہی میں تبدیلی ہے۔‘‘)حجۃ اللہ البالغہ:۱؍۱۵۲(
داڑھی بڑھا کر اور مونچھیں کٹوا کر یہود ونصاریٰ کی مخالفت کرو :
۷۔ سیدنا ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ يَقُصُّونَ عَثَانِينَهُمْ وَيُوَفِّرُونَ سِبَالَهُمْ. قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” قُصُّوا سِبَالَكُمْ وَوَفِّرُوا عَثَانِينَكُمْ وَخَالِفُوا أَهْلَ الْكِتَابِ
ہم نے عرض کی ،اے اللہ کے رسول !اہلِ کتاب تو اپنی داڑھیاں کٹواتے اور مونچھیں بڑھاتے ہیں،آپﷺ نے فرمایا:تم اپنی مونچھیں کٹواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ اور اہلِ کتاب کی مخالفت کرو۔‘‘(مسند الامام احمد:۵؍۲۶۴۔۲۶۵،وسندہ حسن)
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’حسن‘‘ کہا ہے۔(فتح الباری:۱۰؍۳۵۴)
داڑھی فطرت اسلام ہے :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ، وَالسِّوَاكُ، وَاسْتِنْشَاقُ الْمَاءِ، وَقَصُّ الْأَظْفَارِ، وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ، وَنَتْفُ الْإِبِطِ، وَحَلْقُ الْعَانَةِ، وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ ” قَالَ زَكَرِيَّا: قَالَ مُصْعَبٌ: وَنَسِيتُ الْعَاشِرَةَ إِلَّا أَنْ تَكُونَ الْمَضْمَضَةَ
دس خصلتیں فطرتِ اسلامیہ میں سے ہیں: (۱) مونچھیں کاٹنا،(۲) داڑھی کو چھوڑ دینا ،(۳) مسواک کرنا، (۴) وضو کرتے وقت ناک میں پانی چڑھانا، (۵) ناخن کاٹنا، (۶) انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، (۷) بغل کے بال نوچنا، (۸) زیرِ ناف بال مونڈنا، (۹) استنجاء کرنا، راوی کا کہنا ہے کہ دسویں چیز مجھے بھول گئی ہے ،شاید کلی کرنا ہو۔‘‘(صحیح مسلم:۱؍۱۲۹،ح:۲۶۱)
داڑھی شعارِ اسلام ہے :
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ جَالِسًا، إِذْ جَاءَ شَدِيدُ سَوَادِ اللِّحْيَةِ
’’ایک دن نبی کریمﷺ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا جس کی داڑھی گہری سیاہ تھی۔۔۔۔اس کے چلے جانے کے بعد نبیﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا ،کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ شخص کون تھا ؟ عرض کی، نہیں!فرمایا:ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ ۔ ’’وہ جبریل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔‘‘(صحیح ابن حبان:۱۶۸،وسندہ صحیح)
رسول اللہ ﷺ کی داڑھی مبارک :
۱۔ سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ - رسول اللہ ﷺ کے سر کے اگلے بال اور داڑھی کے ( کچھ) بال سفید ہوگئے تھے،جب آپﷺ تیل لگاتے تو وہ سفیدی معلوم نہیں ہوتی تھی اور جب بال بکھرے ہوئے ہوتے تھے تو سفیدی ظاہر ہوتی تھی ، وَكَانَ كَثِيرَ شَعْرِ اللِّحْيَةِ ۔ آپکی داڑھی مبارک بہت گھنی تھی ،ایک شخص نے کہا کہ آپ کا چہرہ تلوار کی طرح تھا؟انہوں نے کہا، نہیں!بلکہ سورج اور چاند کی طرح تھا ،آپ کا چہرہ گول تھا،میں نے آپ کے کندھے کے پاس کبوتر کے انڈے کے برابر مہرِ نبوت دیکھی، جس کا رنگ جسم مبارک کے رنگ کے مشابہ تھا۔ (صحیح مسلم:۲۳۴۴)
۲۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلا بِالْقَصِيرِ، ضَخْمُ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ
’’رسول اللہ ﷺ کا قد مبارک نہ بڑا تھا نہ چھوٹا ، آپ کا سر مبارک بڑا اور داڑھی مبارک بھی بڑی تھی۔‘‘(مسند الامام احمد :۱؍۹۶،۱۲۷،وسندہ حسن) اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ (۲؍۶۰۲) نے ’’صحیح الاسناد‘‘ اور حافظ ذہبی نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
اس کے راوی عثمان بن مسلم بن ہُر مُز کو امام ابن حبان نے ’’ثقہ‘‘ کہا ہے، امام حاکم نے اس کی حدیث کی سند کی ’’تصحیح‘‘ کی ہے،یہ بھی توثیق ہے ،لہٰذا امام نسائی رحمہ اللہ کی جرح مردود ہے۔
۳۔ ہشام بن حبیش بن خویلد سے روایت ہے کہ :
امِّ معبد کہتی ہیں : وفي لحيته كثاثة .’’نبی کریم ﷺ کی داڑھی مبارک گھنی تھی ۔‘‘ (المستدرک للحاکم :۳؍۹،۱۱،وسندہ حسن)
اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے ’’صحیح الاسناد‘‘ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
۴۔ یزید الفارسی کہتے ہیں کہ :میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا تو اس کا ذکر ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کیا ،آپ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتےتھے،’’شیطان میری مشابہت اختیار کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ،جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا ،اس نے مجھے ہی دیکھا‘‘ تو اس شخص کی صفت بیان کرسکتا ہے ،جس کو تو نے خواب میں دیکھا ہے ؟کہا ،ہاں! درمیانے قد والا،گندمی رنگ سفیدی کی طرف مائل ،آنکھیں بڑی بڑی گویا کہ سرمہ ڈالا ہوا ہو ،خوبصو رت مسکراہٹ اور شکل، گول چہرہ  قَدْ مَلَأَتْ لِحْيَتُهُ، مِنْ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ قَدْ مَلَأَتْ نحرہ  داڑھی جو سینے کو بھرے ہوئے تھی ،ابن عباس رضی اللہ عنہ فرمانے لگے ،اگر تو جاگتے ہوئے آپ ﷺ کو دیکھتا تو ان صفات کے سوا اور صفات بیان نہیں کر سکتا تھا ۔‘‘ 
(طبقات ابن سعد:۱؍۴۱۷،مصنف ابن ابی شیبہ:۱۱؍۵۱۵،۵۶،مسند ابن ابی شیبہ: (الاتحاف:۸۵۰۷)،مسند الامام   احمد:۱؍۳۶۲۔۳۶۱،مسند ابی یعلیٰ: (الاتحاف:۵۸۰۸) الشمائل للترمذی:۳۹۳،ابن عساکر(السیرۃ النبویۃ:۱؍۲۳۰۔۲۲۹)،وسندہ حسن)
اس کا روای یزید الفارسی ’حسن الحدیث‘ ہے،اس کے بارے میں امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:لا بأس به ’’ اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ (الجرح والتعدیل:۹؍۲۹۴(
امام ترمذی رحمہ اللہ (۳۰۸۶) ،امام ابن حبان رحمہ اللہ (۴۳) اور امام حاکم رحمہ اللہ ۲؍۲۲۱،۳۳۰) نے اس کی ایک حدیث کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے ،یہ اس کی ’’توثیق‘‘ ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ ہیثمی اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :رجاله ثقات .اس کے راوی ثقہ ہیں۔‘‘(مجمع الزوائد:۸؍۲۷۲(
صحابہ کرام کی داڑھیاں :
کسی صحابئ رسول سے داڑھی منڈانا قطعی طور پر ثابت نہیں ہے، بلکہ وہ داڑھیاں رکھتے تھے ،جیسا کہ شرجیل بن مسلم بیان کرتے ہیں:
رَأَيْتُ خَمْسَةً مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُمُّونَ شَوَارِبَهُمْ وَيُعْفُونَ لِحَاهُمْ وَيَصُرُّونَهَا: أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ، وَالْحَجَّاجَ بْنَ عَامِرٍ الثُّمَالِيَّ، وَالْمِقْدَامَ بْنَ مَعْدِيكَرِبَ، وَعَبْدَ اللهِ بْنَ بُسْرٍ الْمَازِنِيَّ، وَعُتْبَةَ بْنَ عَبْدٍ السُّلَمِيَّ، كَانُوا يَقُمُّونَ مَعَ طَرَفِ الشَّفَةِ
’’ میں نے پانچ صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ مونچھوں کو کاٹتے تھے اور داڑھیوں کو بڑھاتے تھے اور ان کو رنگتے تھے ،سیدنا ابو امامہ الباہلی،سیدنا حجاج بن عامر الشمالی،سیدنا معدام بن معدی کرب،سیدنا عبداللہ بن بسر المازنی،سیدنا عتبہ بن عبد السلمی،وہ سب ہونٹ کے کنارے سے مونچھیں کاٹتے تھے۔‘‘ 
(المعجم الکبیر للطبرانی:۱۲،۳۲۱۸؍۲۶۲،مسند الشامین للطبرانی:۵۴۰،وسندہ حسن)حافظ ہیثمی فرماتے ہیں : واسناده جيد ’’اس کی سند جید ہے۔‘‘(مجمع الزوائد:۵؍۱۶۷)
فائدہ :حافظ ابن قیّم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وأما شعر اللحية ففيه منافع منها الزينة والوقار والهيبة ولهذا لا يرى على الصبيان والنساء من الهيبة والوقار ما يرى على ذوي اللحى ومنها التمييز بين الرجال والنساء
’’داڑھی کے کئی فوائد ہیں،مثلاً اس میں مرد کی زینت ہے اور اس کا وقار اور تعظیم ہے ،اس سے اس کی ہیبت ظاہر ہوتی ہے ،اس لیے بچوں اور عورتوں میں وہ ہیبت اور وقار دکھائی نہیں دیتا جو داڑھی والے مردوں میں موجود ہوتا ہے، نیز داڑھی سے مرد اور عورت کے درمیان فرق اور پہچان ہوتی ہے۔‘‘(التبیان فی اقسام القرآن:ص۲۳۱)
سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا
نبی کریم ﷺ داڑھی کو طول و عرض سے کاٹتے تھے۔‘‘ (جامع الترمذی :۲۷۶۲،شعب الایمان للبیہقی:۶۰۱۹)
تبصرہ: 
اس کی سند سخت ترین ’’ضعیف‘‘ ہے،اس کے راوی عمر بن ہارو ن بلخی کو امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ (الجرح والتعدیل :۶؍۱۴۱،وسندہ صحیح) نے ’’کذاب‘‘،امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ (الجرح والتعدیل:۶؍۱۴۱) نے ’’ضعیف الحدیث‘‘، امام نسائی رحمہ اللہ (الکامل لا بن عدی:۵؍۳۰) نے ’’متروک الحدیث‘‘اور امام دارقطنی رحمہ اللہ (الضعفاء والمتروکین:۳۶۸) نے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’یہ متروک ہے‘‘۔ (التقریب:۴۹۷۹(
حافظ منذری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:ضعفه الجمهور. ’’اسے جمہور نے ضعیف کہا ہے۔‘‘ (الترغیب والترہیب:۴؍۴۹۴)
حافظ ہیثمی کہتے ہیں:وقد ضعفه أكثرا لناس.’’اسے اکثر محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘(مجمع الزوائد:۱؍۲۷۳)
نیز کہتے ہیں: والغالب عليه الضعف ، وأثني عليه ان مهدي وغيره، ولكن ضعفه جماعةكثيرة.
’’اس پر ضعف غالب ہے ،امام ابن ِ مہدی وغیرہ نے اس کی تعریف کی ہے، لیکن اسے زیادہ محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘(مجمع الزوائد:۲؍۱۹۸) اس پر ابن مہدی کی تعریف ثابت نہیں ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ کی اس حدیث پر جرح نقل کی ہے۔ (جامع ترمذی: تحت حدیث:۲۷۶۲(
حافظ ابن الجوزی لکھتے ہیں: هذا الحديث لا يثبت عن رسول الله صلي الله عليه وسلم’’یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں۔‘‘(العلل المتناہیۃ:۲؍۱۹۷(
لہٰذا انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب(فیض الباری: ۴؍۳۸۰) کا اس کے راویوں کو ’’ثقہ‘‘ قرار دینا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔
جابر عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مُجَفَّلٌ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ فَقَالَ: ” عَلَى مَا شَوَّهَ أَحَدُكُمْ أَمْسِ؟ ” قَالَ: وَأَشَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى لِحْيَتِهِ وَرَأْسِهِ يَقُولُ: ” خُذْ مِنْ لِحْيَتِكَ وَرَأْسِكَ
’’نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا ،اس کا سر ور داڑھی پراگندہ تھی ،آپ نے فرمایا،کیوں تم میں سے کوئی ایک اپنے آپ کو بدنما بناتا ہے،آپ نے اپنی داڑھی اور سر مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا،اپنی داڑھی اور سر کے بالوں سے کاٹ۔‘‘(شعب الایمان للبیہقی:۶۰۲۰(
تبصرہ:اس کی سند سخت ترین’’ضعیف‘‘ ہے ،اس میں ابو مالک عبد الملک بن الحسین النخعی ’’متروک‘‘ راوی ہے۔(تقریب التہذیب:۸۳۳۷)حافظ ہیثمی کہتے ہیں:رواه  الطبراني في الأوسط عن شيخه موسي بن زكريّا التّستريّ وهو ضعيف.
اسے طبرانی نے اپنے شیخ موسیٰ بن زکریا تستری سے بیان کیا ہے اور وہ ضعیف ہے۔‘‘(مجمع الزوائد:۵؍۱۶۴)
خلاصہ کلام یہ ہے : کہ نبی کریم  ﷺ نے داڑھی رکھنے کا حکم فرمایا ہے  اور امر (حکم) وجوب کے لیے ہوتا ہے الا یہ کہ کوئی قرینہ سامنے ائے ۔    جب یہ ثابت ہوا کہ آپ ﷺ نے  داڑھی رکھنے کا حکم فرمایا ہے  اور امر (حکم) وجوب کے لیے ہے تو لا محالہ کہنا پڑیگا کہ داڑھی رکھنا واجب ہے  اور  اسے کاٹنے سے حکم رسول ﷺ کی مخالفت ہوگی  کیونکہ آپ  ﷺ سے بالکل ثابت نہیں کہ آپ  ﷺ نے اپنی زندگی میں کہیں ایک دفعہ بھی داڑھى(نعوذ بالله)  کاٹی ہو, اور اسی پر پوری  امت فقهاء , محدثين  , مفسرين  كا اجماع ہے ۔    اور جو رسول اللہ  ﷺ کی مخالفت کرتے ہیں اس ے بارے میں  ارشاد باری تعالی ہے  ۔
وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا      ١١٥؁ۧ سورة النساء
اور جو کوئی بعد اس کے کہ اس پر (راہ) ہدایت کھل چکی رسول کی مخالفت کرے گا اور مومنین کے راستہ کے علاوہ (کسی راستہ کی) پیروی کرے گا ہم اسے کرنے دیں گے جو کچھ وہ کرتا ہے اور پھر ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے ۔ اور وہ برا ٹھکانا ہے۔
نوٹ:  اس آیت میں دلیل ہے۔ کہ اجماع حجت ہے اس کی مخالفت جائز نہیں۔ جیسا کہ کتاب و سنت کی مخالفت جائز نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دونوں چیزیں۔ غیر سبیل المؤمنین اور مخالفت رسول کو ایک شرط سے مشروط کیا۔ اور اس کی سزا وعید شدید کی صورت میں ذکر کی۔ پس ان کی اتباع بھی موالات الرسول کی طرح ضروری ہے۔ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی (ہم اس کو پھیر دیں گے جدھر وہ پھرا) یعنی جس گمراہی کو اس نے اختیار کیا ہم وہی اس کو دے دیں گے۔ اور دنیا میں جس چیز کو اس نے چنا ہے۔ اس میں اس کو چھوڑ دیں گے۔
 شيخ الاسلام  امام حافظ ابن تیمیہ رحمه الله  لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا اجماع واجب الا تباع ہے ۔ بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا اجماع قوی ترحجت اور دوسری (غیر منصوص) حجتوں پر مقدم ہے ۔ (اقامۃ الدلیل : ص : ١٣٠: ج : ٣)
 حافظ ابن حجر عسقلانی (رح) لکھتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا اجماع حجت ہے ۔ (فتح الباری : ص ٢٦٦: ج : ٣)
جیسے ہم نے کہا کہ داڑھی رکھنا  آپ     سے ثابت ہے ،  اسی پر اجماع امت ہے  اس کے خلاف ثابت نہیں  ، چنانچہ خیر القرون میں صحابہ یا تابعین یا تبع تابعین میں سے کسی ایک محدث یا فقیہ یا عالم نے داڑھی کے عدم وجوب کا فتویٰ جاری نہیں فرمایا .
اور دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے. اِنَّ الَّذِيْنَ يُحَاۗدُّوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ كُبِتُوْا كَـمَا كُبِتَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ . سورة المجادلة
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے رہتے ہیں یہ خوار ہوں گے جیسے ان کے قبل کے لوگ خوار ہوچکے ہیں ۔
اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ھم سب کو سنت کے مطابق داڑھی رکھنے کی توفیق دے -آمین یا رب العالمین  ۔  

طالب دعاء  :  اکبر حسین اورکزئی   

بدھ، 1 فروری، 2017

اصلاح معاشرہ کی ضرورت

الحمد لله و الصلاة والسلام على سيدنا محمد وعلى آله وصحبه ومن والاه. وبعد:

اسلامي تعليمات كا بنيادي مقصد معاشرے كي اصلاح هے اور اصلاح بهي اس طرح كه تمام انسانوں کی مابین اخوت ھو ايك دوسري كا احترام هو اور امن و امان كي زندگي بسر كريں اور اس طرح بسر كريں كه اخلاق كا دامن هاتهـ سے نه چهوٹے اور آخرت كي لامتناهي زندگي كے لیے اخلاق و تقوى كے ساتهـ تياري كريں تا كه الله ان سے راضي هو اور یه بنيادي مقصد تب هي حاصل هوسكتا هے که هم الله تعالي كے حكم كے مطابق آپ صلى الله عليه وسل كے اسوه حسنه كي پيروي كريں اوريه معلوم كريں كه آپ صلى الله عليه وسلم نے معاشرے كی اصلاح كس طرح فرمائي تهي , اور يه عقيده ركهيں كه هميں اس دنيا ميں كسي دوسرے مفكر , مصلح اور فلسفي  رهبر كي ضرورت نهيں هے كيونكه ايك مسلمان كے سامنے هر كام كي غايت الله تعالي كي رضا هے اور قرآن كريم ميں هميں واضح طورپر يه حكم هے كه الله كي رضا اور خوشنودي صرف رسول الله صلى الله عليه وسلم كي اطاعت اور پيروي هي سے حاصل هوسكتي هے , بلكه الله تبارك وتعالى نے هم سے يه وعده كيا هے كه اگر تم الله كے رسول كي پيروي كروگے تو الله تعالى تم سے محبت كرے گا , فكر كا مقام هے كه كسي مسلمان كے لیے اس بڑهكر اوركيا مرتبه هوسكتا هے كه خود الله تعالى اس سے محبت كرنے لگے, چنانچه ارشاد باری تعالي هے قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳۱﴾ ال عمران

 (اے پیغمبرلوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میر پیروی کرو خدا بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کردیگا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے . ال عمران
اس آیت نے تمام دعوے داران محبت کے لئے ایک کسوٹی اور معیار مہیا کر دیا ہے کہ محبت الہٰی کا طالب اگر اتباع محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے یہ مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے تو پھر تو یقینا وہ کامیاب ہے اور اپنے دعوی میں سچا ہے ورنہ وہ جھوٹا بھی ہے اور اس مقصد کے حصول میں ناکام بھی رہے گا.
اس تمہید سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اصلاح معاشرہ کے لیے بھی ہمیں رسول صلى الله عليه وسلم کا ہی اتباع کرنا ہوگا اور آپ ہی کی بتائی ہوئی راہ پر چلنا ہوگا اور آپ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرنا ہوگا، ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے آخری رسول کی پوری زندگی کا ریکارڈ ہمارے اسلاف نے ہمارے لیے جمع کردیا ہے , معاشره كے اصلاح كے لیے آپ صلى الله عليه وسلم كي كاميابي دنيا كي تاريخ كا سب سے بڑا اور اهم واقعه هے, کیا اپ نھیں دیکھتے که  عرب کے باشندے غير تعليم يافته اور مختلف ٹولیوں میں بٹے ہوئے تھے، جہالت و سرکشی نے انہیں ایسے اوصاف سے بھی محروم کردیا تھا کہ جو تمام انسانوں کے لیے تو کیا خود ان کے لیے ہی ایک پر امن معاشرہ مہیا کرتا  , ايسے معاشرے ميں جهاں اندھيرے هي اندھيرے تھے الله ذوالجلال نے انهي ميں سے رسول بهيجا اور اس كي ذمه یہ کام لگایا کہ معاشرے کو برائیوں سے پاک کریں اور اس طرح اصلاح کریں کہ وہ دنیا کا مثالی معاشرہ بن جائے اور افراد معاشرہ دنیا کی بہترین افراد بن جائیں , جيسا كه ارشاد باري تعالي هے
ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۲﴾ الجمعة
 وہی تو ہے جس نے ان پڑھوں میں انہی میں سے (محمد کو) پیغمبر بنا کر بھیجا جو ان کے سامنے اسکی آیتیں پڑھتے اور ان کو پاک کرتے اور انہیں (خدا کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں۔ اور اس سے پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے ۔
 رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
دو بنیادی اصولوں پر عمل کیا، ایک تو یہ کہ آپ نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہی، جس پر آپ خود عمل نہ فرماتے ہوں،
دوم جو شريعت اور احكام آپ صلى الله علي وسلم  پر الله كي طرف نازل هوۓ اس پر مكمل خود عمل كر ديكهايا اور بلا تفريق تمام معاشرے ميں پهلايا تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے قول و فعل میں کبھی تضاد نہ تھا، جو فرماتے تھے خود اس پر عمل فرماتے تھے۔
اب يه بات روز روشن كي طرح واضح هوگئ كه معاشرے كي اصلاح كے ليے جو بهي كوشش كي جائے وه اس وقت تك كامياب هي نهيں هوسكتا جب تك اصلاح كرنے والا خود اس پر عمل نه كرتا هو , كيا آپ يه نهیں ديكهتے كه آج هماره معاشره كيوں مشكلات كا شكار هے هر طرف ناانصافي اور ظلم كا بازار گرم هے يهي وجه هے كه همارے حكمران كهتے كچهـ اور كرتے كچهـ هيں آئين كي بات تو كرتے هيں مگر اس پر خود انكا عمل نهيں , غريب كيلۓ قانون اور خود حكمرانون كيلۓ قانون واجب العمل نهيں لوگوں كو نصيحتين كرتے هيں روشنياں دكهاتے هيں محبت كا سبق پڑهاتے هيں خود غريبوں پر رحم سے عاري هيں, عقل و دانائي كي بنياد پر شاندار عمارتيں كهڑي كرتے هيں ليكن معاشرے پر ان كا كوئي اثر نهيں پڑتا  , يه هے هماره معاشره كيا اسلامي تعليمات يهي تهي ؟ آج هم کہاں کھڑے ہیں؟ كيا هم خود اس ناقص معاشرے كي ذمدار نهيں ؟  هم نے خود اپنے آپ كو اس هلاكت ميں ڈالا هے , ھمیں قرآن کریم نے اس بات سے منع كيا تھاكه هم خود اپنے آپ كو هلاكت ميں نه ڈاليں جيسا كه ارشاد باري تعالى هے .. ( وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ۚۖۛ  ) البقرة 195    ترجمہ: اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو   . البقرة .
احکام الٰہی کی رو سے انسان کو اپنے تئیں ہلاکت میں ڈالنا منع ہے، مگر ہم نے اﷲ اور رسول اور قرآن و سنت سے صرف نظر کرکے خود کو، اور پوری ملت پاکستانیہ کو اس راہ پر ڈالے رکھا جو صرف ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے، چنانچہ آج حال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہر قسم کے رذائل سرایت کرچکے ہیں، حد یہ ہے کہ عزت اور جان بھی اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں خطرے میں رہتی ہے،
ايك شاعر كهتا هے
اب درندو سے نه حيوانوں سے ڈر لگتا هے :   كيا زمانه هے كه انسانون سے ڈر لگتاهے
عزت نفس كسي شخص كي محفوظ نهيں  :    اب تو اپنے نهگبانوں سے ڈر لگتا هے
خونريزي كا يه عالم هے كه الله خير كرے :  اب مسلمانوں كو مسلماں سے ڈر لگتا هے  .
 اور ایسا بھی نہیں ہے کہ اصلاح معاشرہ کی کوشش نہ ہورہی ہو، سیاست دان اصلاح کی تلقین کرتے رہتے هيں ، وعظ و تبلیغ کا ایک سلسلہ ہے جو قیام پاکستان کے بعد سے برابر جاري ہے، مسجدوں کے امام ہر جمعہ کو لوگوں کو اچھا بننے کی تلقین بھی کرتے رہتے ہیں، لیکن ان تمام کوششوں کا بظاہر کوئی مثبت نتیجہ نظر نہیں آتا, اورغالباً اس کی بہت بڑی وجہ اس كے علاوه اور  کیاهوسكتا ہے كه هم جو كهتے هيں وه كرتے نهيں اور جس بات كا ترك كرنے كو كهتے هيں خود اسےچھوڑتے نهيں, اصلاح كا يه طريقه  سنت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم  کے خلاف ہے، اس لیے یه کبھی بر آور نہیں ہوسکتا۔  اسلام میں اصلاح معاشرہ اور پائیدار معاشرے کا ایک اھم بنیادی نکتہ یہ ہے كه آپ كے قول و فعل ميں تضاد نه هوں , ديكهئے  رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اوائل زندگی ہی سے سچائی اور راست بازی پر سختی کے ساتھ عمل کیا اور مسلمانوں کو جھوٹ سے بچنے کی تلقین کرتے رہے، خود آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا اور صحابه كرام کو بھی اس رذیل ترین فعل سے احتراز کرنے کی تاکید فرماتے رہے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ وصف بعثت سے قبل بھی اس قدر نمایاں تھا کہ کفار و مشرکین بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو صادق اور امین مانتے تھے۔ اسي ليے قرآن كريم نے هميں دعوت دي كه {  لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ   }  یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ( زندگي) میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے .  الاحزاب 21
قرآن كريم كي اس آيت كريمه نے واضح كرديا كه تمهاري لیے آپ صلى الله عليه وسلم كي زندگي ایك بهترين نمونه هے , مطلب كيا
اگر آپ حكمران هيں     :  تو تمهارے لیے  آپ صلى الله عليه وسلم كي زندگي ایك بهترين نمونه هے .
اگر آپ سپاه سالار هيں     :  تو تمهارے لیے  آپ صلى الله عليه وسلم كي زندگي ایك بهترين نمونه هے .
اگر آپ خطيب اور امام مسجد هيں : تو تمهارے لیے  آپ صلى الله عليه وسلم كي زندگي ایك بهترين نمونه هے .
اگر باپ هيں       :  تو تمهارے لیے  آپ صلى الله عليه وسلم كي زندگي ایك بهترين نمونه هے .
اگر آپ خاوند هيں     : تو تمهارے لیے  آپ صلى الله عليه وسلم كي زندگي ایك بهترين نمونه هے .
اگر آپ ايك عام انسان عام شهري هيں : تو تمهارے لیے  آپ صلى الله عليه وسلم كي زندگي ایك بهترين نمونه هے .
ليكن افسوس كے ساتهـ كهنا پڑ رها هے  كه آج هم دعوى اسلام كا كرتے هيں, تلاوت كلام پاك بهي كرتے هيں, قرآن كو الله كا كتاب بهي مانتے هيں, اور اسے مکمل الله کا قانون بھی مانتے ھیں اور یه بھی مانتے ھیں که ھماري اسلاف نے اسی کتاب الله پر فیصلے کیۓ ان کا ملکی نيظام بهي يهي قرآن تها ,  اورآج هم اپني مشكلات كا حل كسي اور نظام كے ترو تلاش كرتے هيں تو همارے قول اور فعل مين تضاد هے لهذا هميں صحيح معاشره هاتهـ نهيں آرها كل سے آج برا اور آج سے كل برا هوگا ,  اسي لئے  پاکستان کا معاشرہ کئی قسم کی برائیوں میں مبتلا ہے، ذخیرہ اندوزی، چیزوں میں ملاوٹ، ناپ تول میں کمی،  آپس ہی میں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش، لوٹ مار، ڈاکا، انسانوں کا اغوا اور قتل و غارت، وعدہ خلافی، خیانت اور بددیانتی، چغل خوری، بہتان اور غیبت، رشوت اور جوا اور سود،اب سوال یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح کیوں کر ہو؟
اس كا جواب اس كے علاوه اور كيا هوسكتا هے كه هم سب  اور بالخصوص سربراہان معاشرہ اپنے کردار کو درست کریں , اور ان گناهوں سے اجتناب كريں جسے هميں الله اور اس كے رسول صلى الله عليه وسلم ني منع فرمايا هے اور برائی کو چھوڑنے کی کوشش کریں تو معاشرہ بتدریج انشاءاﷲ اصلاح کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ آئیے اب رفعت خلق کی بلندی اخلاق کا تجربہ کرلیں اور اس حقیقت کو فراموش نہ کریں کہ صرف اخلاق کی اچھائی سے ہم معاشرے کی اصلاح کرسکتے ہیں اور پاکستان کو صحیح معنی میں پاکستان بناسکتے ہیں۔
دعا ہے کہ ا ﷲ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اور اپنے ملک کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمين
طالب دعاء : اكبر حسين اوركزئي