جمعہ، 18 اگست، 2017

ملکی سیاست عجیب چوراہے پر

ملکی سیاست عجیب چوراہے پر کھڑی ہے مفادپرستی عروج پر ہے ، حال ہی میں ملک کے وزیر اعظم کو ان کی عدم صدق اور عدم ایمانداری کی پاواش میں نااہل قرار دیا گیا حالانکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے ہر مسلمان صادق اور امین ہونا چاہئیے ۔
 قرآن كريم  میں عام مسلمانوں کو تقوٰی اور صادقین کے ساتھ رہنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے  ارشاد باری تعالی ہے    .
    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ۔ توبه 119
ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔
اس آیت میں سچائی کی اہمیت اور ضرورت بتانے کے لیے عامۃ المسلمین کو حکم فرمایا کہ تم اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔ اللہ سے ڈرنے کا حکم قرآن مجید میں جگہ جگہ وارد ہوا ہے۔ اس آیت میں تقویٰ حاصل ہونے کا ایک طریقہ بتادیا اور وہ یہ ہے کہ صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔ عربی میں صادق سچے کو کہتے ہیں اور سچائی کو صدق کہتے ہیں۔ دین اسلام میں صدق کی بہت بڑی اہمیت اور فضیلت ہے اور یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی ایمان، اقوال اور اعمال سب میں ضرورت ہے۔ اس کی ضد کذب یعنی جھوٹ ہے۔ جھوٹ سے دین اسلام کو بہت سخت نفرت ہے۔ اور اس کی شدید ممانعت ہے۔ مومن بندہ پر لازم ہے کہ ان وعدوں میں سچا ہو جو وہ مخلوق سے کرتا ہے۔ بندوں کے ساتھ جو رہنا سہنا ہو اس میں بھی سچائی کو سامنے رکھے۔ اگر سچائی پیش نظر نہ رہے تو جھوٹ بولے گا اور دھوکہ دے گا۔  یہ تو تمام مسلمانوں سے خطاب تھا   اور یہ حکمرانوں میں بدرجہ اولی ہونا چاہئیے  کیونکہ وہ مسلمانوں کے حکمران ہوتے ہیں انکی اقتداکی جاتی ہے   ،جب حکمران جھوٹے ہو ں صادق اور آمین نہ ہوں  تو انہیں نااہل قرار دیا جانا ضروری ہے یہی ہوا سابقہ وزیر اعظم کے ساتھ   اور تعجب یہ ہے کہ نااہل ہوتے ہی دہرنے شروع کئے گئے اور کہتے ہیں مجھے کیوں نکالا گیا   ۔
ان سے یہ کہا جائے کہ آپ صادق اور آمین نہیں   .
دوسری طرف غرب اور یورپ پرستی کا یہ حال ہے کہ دھرنوں اور احتجاجوں کے نام پر قوم کی بیٹیوں کو سڑکوں پر لایا گیا گانے بجانے ڈانس عام ہوتا رہا    انا للہ وانا الیہ راجعون ، پچھلے دنوں تشکر کے نام پر جو ہوا  سب نے دیکھا   اور اس میں ایک دلہن کی شرکت نے سب مسلمانوں کا سر شرم کے مارے جھکا دیا  ..
آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے قرب قیامت کی جو جو علامات ارشاد فرمائی ہیں ،معمولی غور وفکر سے دیکھا جائے تو وہ منظر قریب قریب اب ہمارے سامنے ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ ہمارا  دور کہیں وہی نہ ہو، نہیں تو وہ دور ہم سے کچھ زیادہ دور بھی نہیں ہے،
آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے :
عن موسیٰ بن ابی عیسیٰ المدینی، قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم ”کیف بکم اذا فسق فتیانکم وطغیٰ نساء کم؟ قالوا یا رسول اللّهٰ وان ذالک لکائن؟ قال نعم وأشد منه، کیف بکم اذا لم تأمروا بالمعروف وتنهوا عن المنکر؟ قالوا یا رسول اللّٰه وان ذلک لکائن؟ قال نعم واشد منه کیف بکم اذا رأیتم المنکر معروفًا والمعروف منکرًا“۔ (کتاب الرقائق، ابن مبارک ص:484)
ترجمہ: ”اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہارے نوجوان بدکار ہوجائیں گے، اور تمہاری لڑکیاں اور عورتیں تمام حدود پھلانگ جائیں گی، صحابہ کرام رضي الله عنهم نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اوراس سے بڑھ کر،اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا؟ جب نہ تم بھلائی کا حکم کروگے، نہ بُرائی سے منع کرو گے، صحابہ کرام رضي الله عنهم نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اوراس سے بھی بدتر، اس وقت تم پر کیا گزرے گی؟ جب تم برائی کو بھلائی اور بھلائی کو بُرائی سمجھنے لگوگے۔“
اور آج گانا بجانا ان جیسے محفلوں میں ایک فیشن بن چکا ہے  حالانکہ  نبی  کریم صلى الله عليه وسلم نے جن چیزوں کو ناجائز و حرام قرار دیاتھا،  آج ہم پوری قوت و طاقت سے ان کو حلال و جائز قرار دینے کے لئے کوشاں ہیں۔آقائے دوعالم صلى الله عليه وسلم تو فرماتے ہیں کہ : ”بعثت بکسر المزامیر“ (کنزالعمال ص:226، ج:15) میں آلاتِ لہو ولعب کو توڑنے اور گانے بجانے کو مٹانے کے لئے مبعوث کیاگیاہوں؛ مگر اسکے برعکس ابلیس  اور اس کے اعوانوں نے ہمیں اپنی مخصوص حکمت عملی اور عیاری سے نبی  کریم صلى الله عليه وسلم ، قرآن اور سنت کے مقابلہ میں لاکھڑاکردیا ہے  ، اسے  اس وقت کے نوجوان اور لیڈران جمہوریت کی حسن قرار دیتے ہیں  اللہ ہم سب کا  ناصر و حامی ہو اور وطن عزیز کہ شیطانی چالوں سے محفوظ رکھے   آمین   ثم آمین  ۔


اکبر حسین اورکزئی   حالا مقیم بدولةقطر