جمعرات، 21 ستمبر، 2017

گدھی کے دودھ پینے کا حکم

الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:
کچھ دن پہلے فیس بک پر ایک ویڈیو  دیکھی  جس میں یہ سنا کہ گدھی کا دودھ پینے میں فائدے ہیں ۔۔
میں نے ذاتی طورپر اسے توجہ نہیں دی کیونکہ اج کل لوگوں کو ان جیسے بیانات اور فتوے اچھے لگتے ہیں قال اللہ و قال رسول اس پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں ( نعوذ باللہ من ذالک )  مگر ایک دوست نے اس سلسلے میں استفسار کیا تو یہ چند سطور آپ حضرات کے سامنے حاضر ہیں.  و باللہ التوفیق .
اصل جواب سمجھنے سے پہلےایک بات زہن  میں رہے کہ  حلت اور حرمت ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ جن کا تعلق انسان کے ذوق اور مزاج کے ساتھ ہو،
جسے انسانی ذوق چاہے اس کو حلال اور جسے چاہے حرام سمجھ لے، بلکہ یہ آسمانی شریعت ہے جس کا خالق کائنات نے اپنے بندوں کو مُکلف بنایا ہے۔ اس لئے حلال وہی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یا   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر حلال کر دیا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَذَا حَلَالٌ وَهَذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ
ترجمہ:'' اور جن چیزوں کے بارے میں تمہاری زبانیں جھوٹا دعویٰ کرتی ہیں ان کے بارے میں یوں نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تاکہ تم اللہ پر جھوٹا افتراء کرو، بلاشبہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پائیں گے .(سورۃ نحل  116)
دوسری بات یہ زہن نشین  رکھیں کہ حلال جانورں  سے انتفاع جائز ہے،  اور حرام جانوروں سے  انتفاع حرام ہے یعنی  جو جانور حرام ہیں ان کا دودھ بھی حرام ہوگا   گھریلو گدھے  کو حدیث میں حرام قرار دیا گیا ہے .
عن  أنس بن مالك رضي الله عنه قال: ( لما كان يوم خيبر أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم أبا طلحة فنادى: إن الله ورسوله ينهيانكم عن لحوم الحمر الأهلية, فإنها رجس ) متفق عليه.
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ جھنگ خیبر کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابا طلحہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ سب کو آواز دیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے گھریلو گدھوں کے گوشت سے  آپ سب کومنع فرماتے ہیں (یعنی اسے حرام قرار دیا) کیونکہ وہ نجس ہیں  . بخاری و مسلم  .
 یہ حدیث  حضرت انس رضی اللہ عنہ کے علاوہ    تقریبا    چودہ  صحابہ کرام  اورسے بھی مروی ہے   جن کے اسماء گرامی یہ ہیں   .
حديث عن أبي هريرة رضي الله عنه، وعن أبي ثعلبة، وعن جابر، وعن البراء بن عازب، وعن عبد الله بن عمر، وعن عبد الله بن عمرو بن العاص، وعن علي بن أبي طالب، وعن العرباض بن سارية، وعن المقدام بن معدي كرب، وعن الحكم بن عمرو الغفاري، وعن خالد بن الوليد، وعن زاهر الأسلمي وغيره،  یہ سب حضرات  گھریلو گدھے کو حرام ہونے پر حدیث آپ ﷺ سے روایت کرتے ہیں . اور تمام جمہور علماء کا یہ مذہب ہے کہ گھریلو گدھا  ہمیشہ کے لیے حرام ہے   . لہذا گدھے  کا گوشت اور دودھ   دونوں حرام ہے       .اور بعض حضرات کایہ  کہنا کہ علاج کے لیے  مفید ہے    یہ تاثر بھی صحیح نہیں    کیونکہ حرام چیز پر علاج درست نہیں ، اور حرام چیز پر علاج سے آنحضرت ﷺ نے منع فرمایا ہے    ..    
عن أَبِي الدَّرْدَاءِ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( إِنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ الدَّاءَ وَالدَّوَاءَ ، وَجَعَلَ لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءً ، فَتَدَاوَوْا وَلَا تَدَاوَوْا بِحَرَامٍ ) .صححه الألباني في "صحيح الجامع" (1762)
حضرت ابو درداء سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یقیناً اللہ تعالی نے بیماری اور اس کا علاج پیدا کیا ہے، لہذا تم اپنا علاج کراؤ اور حرام چیزوں سے اپنا علاج مت کراؤ۔ اس حدیث کی تصحیح شیخ البانی  نے صحیح الجامع میں کی ہے  . 
خلاصہ یہ کہ گدھی کا جس طرح گوشت حرام ہے اسی طرح اس کا دودھ پنا جائز نہیں ہے   ، مظاهر حق شرح مشكاة جلد 4 حديث 34
تنبیہگدھی کے  دودھ کے بارے میں   روزنامہ پاکستان میں ایک خبر     بتاریخ  : 27 نومبر 2015  

گدھی کے دودھ کا ایسا فائدہ سامنے آگیا کہ جان کر آپ کا دل بھی کرے گا ابھی۔۔۔

روزنامہ  پاکستان   27 نومبر 2015
روم ( نیوز ڈیسک) ہمارے ہاں گدھی کا دودھ پینے کا تصور بھی محال سمجھا جاتا ہے لیکن یورپ نے اسے شفا ہی شفا قرار دے دیا ہے، اور یورپی ماہرین نے گدھی کے دودھ کے درجنوں دیگر فوائد گنوانے کے بعد اسے ننھے بچوں کے لئے بھی ماں کے دودھ کا بہترین نعم البدل قرار دے دیا ہے۔ 
یورپ میں کی گئی متعدد حالیہ تحقیقات میں بتایا گیا ہے کہ جو بچے ماں کا دودھ نہیں پی سکتے، اور کسی الرجی کی بنا پر گائے یا بکری کا دودھ بھی نہیں پی سکتے، ان کے لئے سب سے اچھا نعم البدل گدھی کا دودھ ہے۔ یورپی ماہرین کا کہنا ہے کہ گدھی کا دودھ بریسٹ ملک سے کافی حد تک ملتی جلتی چیز ہے۔ اس میں گائے کے دودھ کی نسبت کہیں زیادہ پروٹین اور وٹامن پائے جاتے ہیں جبکہ سیچوریٹڈ چکنائی کی مقدار کم ہوتی ہے۔
اطالوی تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ بریسٹ ملک میں پائی جانے والی کیسین پروٹین کی دو قسمیں گدھی کے دودھ میں بھی پائی جاتی ہیں جبکہ یہ قدرتی جراثیم کش مادے لائسوزائم سے بھی بھرپور ہوتا ہے، جو کہ بریسٹ ملک میں بھی پایا جاتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بچوں کے لئے بریسٹ ملک کے متبادل کے طور پر عموماً گائے کا دودھ یا اس سے بنی اشیاءاستعمال کی جاتی ہیں لیکن کچھ بچوں کو گائے کے دودھ یا بکری کے دودھ سے بھی الرجی ہوتی ہے، لہٰذا ان کے لئے گدھی کا دودھ ہی واحد حل ہے۔ 
سائنسی جریدے ’جرنل آف پیڈیاٹرکس‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بھی گدھی کے دودھ کو بچوں کے لئے ڈیری مصنوعات کا متبادل قرار دیا گیا ہے۔ یورپ میں ہونے والی ان تحقیقات کے بعد گدھی کے دودھ کی مانگ میں حیرت انگیز اضافہ ہورہا ہے۔ یہ صورتحال ان غریب اور پسماندہ ممالک کے لئے بھی اچھی خبر ہے کہ جہاں گدھے بکثرت پائے جاتے ہیں اور ان کی کوئی وقعت بھی نہیں ہے۔( بحوالہ روزنامہ پاکستان  )
قارئین کرام  اب ایک طرف اللہ تعالی اور اس کے  رسول ﷺ کا حکم ہے  کہ گھریلو گدھے حرام ہیں  اور حرام جانور کا دودھ بھی حرام ہوتا ہے  دوسری طرف  مغربی تحقیق ہے کہ گدھی کے دودھ میں فوائد ہیں اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے ،کہ آپ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے تابدار ہیں یا مغربی یہود کے ؟
لیکن یاد رکھئے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مقابلے میں کسی اور کا حکم ماننا اسلام نہیں ،   اور کسی مسلمان کے لیے اس بات کی گنجائش  نہیں کہ  اللہ اور رسول ﷺ جو حکم کرےاور وہ اس میں چون  و چرا کرے     ارشاد باری تعالی ہے  ....
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا. الاحزاب 36
ترجمہ: اور کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کے لیے اس کی گنجائش نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا حکم دے دیں تو انہیں اپنے کام میں اختیار باقی رہے اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے سو وہ صریح گمراہی میں پڑگیا۔ سورۃ احزاب 36
اس آیت کریمہ سے واضح طور پر معلوم ہوگیا کہ کسی بھی مومن مرد اور عورت کے لیے یہ گنجائش نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے کوئی حکم آجائے تو اس کے کرنے نہ کرنے کا اختیار باقی رہے، جو حکم مل جائے اس پر عمل کرنا ہی کرنا ہے، اسلام سراپا فرمانبرداری کا نام ہے، یہ جو آج کل لوگوں کا طریقہ ہے کہ مسلمانی کے دعویدار بھی ہیں لیکن احکام شرعیہ پر عمل کرنے کو تیار نہیں، یہ اہل ایمان کا طریقہ نہیں، جب قرآن حدیث کی کوئی بات سامنے آتی ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ آج کل اس پر عمل نہیں ہوسکتا (العیاذ باللہ) معاشرت اور معاملات اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں قصداً و ارادۃً قرآن حدیث کے خلاف چلتے ہیں یہ سراسر بےدینی ہے، جیسا کہ آیت کریمہ کے ختم پر فرمایا : (وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا) (اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے سو وہ کھلی ہوئی گمراہی میں جاپڑا) . تفسير انوارالبيان
اور آخر میں اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں سیدھی راہ پر چلائے  اور گمراہیوں سے اپنے حفظ و آمان میں رکھے  آمین  . وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين.   والله أعلم 

تحریر:  اکبر حسین اورکزئی حالا مقیم  بدولۃ قطر   21 ستمبر 2017 

اتوار، 3 ستمبر، 2017

قربانی کی ابتداء


حلال جانور کو بہ نیتِ تقرب ذبح کرنے کی تارِیخ حضرت آدَم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل وقابیل کی قربانی سے ہی شروع ہوجاتی ہے، یہ سب سے پہلی قربانی تھی، حق تعالیٰ جلَّ شانُہ کا اِرشاد ہے: ”وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ م اِذْقَرَّ بَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ“۔(۱)
ترجمہ:۔”اور آپ اہلِ کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طور پر پڑھ کر سنا دیجیے، جب ان میں سے ہرایک نے اللہ کے لیے کچھ نیاز پیش کی تو ان میں سے ایک کی نیاز مقبول ہوگئی، اور دُوسرے کی قبول نہیں کی گئی“۔
علامہ اِبن کثیر رحمہ اللہ نے اِس آیت کے تحت حضرت اِبن عباس رَضی اللہ عنہ سے رِوایت نقل کی ہے کہ ہابیل نے مینڈھے کی قربانی کی اور قابیل نے کھیت کی پیداوار میں سے کچھ غلہ صدقہ کرکے قربانی پیش کی، اُس زمانے کے دستور کے موافق آسمانی آگ نازل ہوئی اور ہابیل کے مینڈھے کو کھا لیا، قابیل کی قربانی کو چھوڑ دِیا۔(۲)
اِس سے معلوم ہوا کہ قربانی کا عبادت ہونا حضرت آدَم علیہ السلام کے زمانے سے ہے اور اس کی حقیقت تقریباً ہرملت میں رہی؛ البتہ اس کی خاص شان اور پہچان حضرت اِبراہیم و حضرت اِسماعیل علیہما السلام کے واقعہ سے ہوئی، اور اسی کی یادگار کے طور پراُمتِ محمدیہ پر قربانی کو واجب قرار دیا گیا۔
قربانی کی حقیقت قرآنِ کریم کی روشنی میں
قرآنِ کریم میں تقریباً نصف دَرجن آیاتِ مبارکہ میں قربانی کی حقیقت ، حکمت اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ سورة حج میں ہے:
۱-۲: وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ فَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْھَا صَوَآفَّ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ط کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰھَا لَکُمْ لَعْلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ(۳۶) لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْط کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ ط وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ(۳۷)“․(۳)
ترجمہ:۔”اور ہم نے تمہارے لیے قربانی کے اُونٹوں کو عبادتِ اِلٰہی کی نشانی اور یادگار مقرر کیا ہے، ان میں تمہارے لیے اور بھی فائدے ہیں، سو تم اُن کو نحر کرتے وقت قطار میں کھڑا کرکے اُن پر اللہ کا نام لیا کرو اور پھر جب وہ اپنے پہلو پر گر پڑیں تو اُن کے گوشت میں سے تم خود بھی کھانا چاہو تو کھاوٴ اور فقیر کو بھی کھلاوٴ، خواہ وہ صبر سے بیٹھنے والا ہو یا سوال کرتا پھرتا ہو، جس طرح ہم نے اِن جانوروں کی قربانی کا حال بیان کیا، اِسی طرح اُن کو تمہارا تابع دار بنایا؛ تاکہ تم شکر بجالاوٴ! اللہ تعالیٰ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا؛ بلکہ اس کے پاس تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے لیے اِس طرح مسخر کردِیا ہے؛ تاکہ تم اس احسان پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کرو کہ اس نے تم کو قربانی کی صحیح راہ بتائی، اور اے پیغمبر! مخلصین کو خوش خبری سنا دیجیے“۔
سورة حج ہی میں دوسرے مقام پر اسے شعائر اللہ میں سے قرار دیتے ہوئے اس کی عظمت بتائی گئی اورقربانی کی تعظیم کو دل میں پائے جانے والے تقویٰ خداوندی کا مظہر قرار دِیا ہے۔
۳:- وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ(۳۲)“۔(۴)
ترجمہ:”اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور یادگاروں کا پورا احترام قائم رَکھے تو ان شعائر کا یہ احترام دِلوں کی پرہیزگاری سے ہواکرتا ہے“۔
سابق انبیاء کرام علیہم السلام کی شریعتوں میں قربانی کا تسلسل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت تک پہنچتاہے، جس کا طریقہ یہ تھا کہ قربانی ذبح کی جاتی اور وقت کے نبی علیہ السلام دُعا مانگتے اور آسمان سے خاص کیفیت کی آگ اُترتی اور اُسے کھاجاتی جسے قبولیت کی علامت سمجھا جاتا تھا، قرآنِ کریم میں ہے:
۴:- اَلَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ عَھِدَ اِلَیْنَآ اَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُوْلٍ حَتّیٰ یَاْتِیَنَا بِقُرْبَانٍ تَاْکُلُہُ النَّارُ“۔(۵)
ترجمہ:۔”یہ لوگ ایسے ہیں جو یوں کہتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں حکم دے رکھاہے کہ ہم کسی رسول کی اُس وقت تک تصدیق نہ کریں؛ جب تک وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے کہ اُس کو آگ کھاجائے“۔
قربانی کی تارِیخ پہلے اِنسان ہی سے شروع ہوجاتی ہے:
۵:-وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ م اِذْقَرَّ بَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ“۔(۶)
ترجمہ:۔”اور آپ اہل کتاب کو آدَم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طور پر پڑھ کر سنا دیجئے، جب اُن میں سے ہرایک نے اللہ کے لیے کچھ نیاز پیش کی تو اُن میں سے ایک کی نیاز مقبول ہوگئی، اور دُوسرے کی قبول نہیں کی گئی“۔
۶:- قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۱۶۲)“(۷)
آیت بالا کے تحت امام جصاص رَازی لکھتے ہیں:
”ونسکی: الاضحیة، لانہا تسمی نسکاً، وکذلک کل ذبیحة علی وجہ القرابة إلی اللّٰہ تعالیٰ فہی نسک، قال اللّٰہ تعالی: ففدیة من صیام و صدقة و نسک“۔(۸)
ترجمہ:۔”نسک“ سے مراد قربانی ہے؛اس لیے کہ اُس کا نام ”نسک“ بھی ہے، اِسی طرح ہر وہ جانور جو اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کیا جائے وہ ”نسک“ کہلاتا ہے، ا رشادِ بارِی تعالیٰ ہے: ”فَفِدْیَةٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُکٍ“۔(۹)
قربانی کے اس حکم کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور انداز سے نماز کے تتمے کے طور پر یوں ذِکر فرمایا”فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ“ اِبن کثیر اِس آیت کے تحت رَقمطراز ہیں:
”قال ابن عباس وعطاء ومجاہد وعکرمة والحسن: یعنی بذلک نحر البدن ونحوہا، وکذا قال قتادة ومحمد بن کعب القرظی، والضحاک والربیع وعطاء الخراسانی والحکم وإسماعیل بن أبی خالد وغیر واحد من السلف“۔(۱۰)
”حضرت اِبن عباس رَضی اللہ عنہما، حضرت عطاء، مجاہد، عکرمہ رحمہم اللہ سمیت متعدد مفسرین فرماتے ہیں کہ ”وانحر“ سے اُونٹ کا ”نحر“ ہی مطلوب ہے جو قربانی کے لیے جانے والے جانور میں سے بڑا جانور ہے“۔
اِس سے فقہاء نے مسئلہ بھی اخذ فرمایا ہے کہ عید الاضحی پڑھنے وَالے لوگوں پر لازم ہے کہ وہ نماز عید پہلے ادا کرلیں، اس کے بعد قربانی کریں، جن لوگوں پر عید کی نماز فرض ہے، اگر اُنہوں نے عید سے پہلے قربانی کردِی تو اُن کی قربانی نہیں ہوگی۔
۸:- لِّیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَةِ الْاَنْعَامِ فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَ(۲۸)“۔ (۱۱)
ترجمہ:۔”تاکہ یہ سب آنے وَالے اپنے اپنے فائدوں کی غرض سے پہنچ جائیں اور تاکہ قربانی کے مقررَہ دِنوں میں خدا کا نام لیں جو خدانے ان کو عطاء کیے ہیں، سوائے اُمت محمدیہ! تم ان قربانیوں میں سے خود بھی کھانا چاہو تو کھاوٴ اور مصیبت زدہ محتاج کو کھلاوٴ“۔
اِس آیت میں بھی قربانی ہی کا ذِکر ہے۔ ہرقوم میں نسک اور قربانی رَکھی گئی، جس کا بنیادِی مقصد خالق کائنات کی یاد، اس کے احکام کی بجاآورِی اس جذبے کے ساتھ کہ یہ سب کچھ اللہ کی عطا اور دین ہے، یہاں بھی اِنسان کی قلبی کیفیت کا ایسا اِنقلاب مقصود ہے کہ وہ مال ومتاع کو اپنا نہ سمجھے؛ بلکہ دِل وجان سے اس عقیدے کی مشق کرے کہ حق تعالیٰ ہی اس کا حقیقی مالک ہے، گویا قربانی کا عمل فتنہٴ مال سے حفاظت کا دَرس دیتا ہے۔
۹:-” وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَةِ الْاَنْعَامِ۔“(۱۲)
ترجمہ:۔”اور ہم نے ہر اُمت کے لیے اس غرض سے قربانی کرنا مقرر کیا تھا کہ وہ ان چوپایوں کی قسم کے مخصوص جانوروں کو قربان کرتے وَقت اللہ کا نام لیا کریں، جو اللہ نے ان کو عطا کیے تھے“۔
قربانی احادِیث مبارکہ کی روشنی میں
۱:- عن عائشة رضی اللہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما عمل ابن آدم من عمل یوم النحر احب الی اللّٰہ من اہراق الدم وانہ اتی یوم القیامة بقرونہا واشعارہا وظلافہا وان الدم لیقع من اللّٰہ بمکان قبل ان یقع بالارض فطیبوا بہا نفسا“۔(۱۳)
ترجمہ:۔”حضرت عائشہ رَضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اِبن آدم (اِنسان) نے قربانی کے دِن کوئی ایسا عمل نہیں کیا، جو اللہ کے نزدِیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے زیادَہ پسندیدہ ہو، اور قیامت کے دِن وہ ذبح کیا ہوا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اورقربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوجاتا ہے، لہٰذا تم اس کی وَجہ سے (قربانی کرکے) اپنے دِلوں کو خوش کرو“۔
۲:- عن زید بن ارقم رضی اللہ عنہ قال: قال أصحاب رسول اللّٰہ: یا رسول اللّٰہ! ما ہذہ الأضاحی؟ قال: سنة أبیکم إبراہیم علیہ السلام، قالوا: فما لنا فیہا یا رسول اللّٰہ؟ قال: بکل شعرة حسنة، قالوا: فالصوف؟ یا رسول اللّٰہ! قال: بکل شعرة من الصوف حسنة“۔(۱۴)
ترجمہ:۔”حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ راوِی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رَضی اللہ عنہم نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے؟ فرمایا: تمہارے باپ اِبراہیم علیہ السلام کا طریقہ (یعنی اُن کی سنت) ہے، صحابہ نے عرض کیا کہ پھر اس میں ہمارے لیے کیا (اجر وثواب) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا: (جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی، اُنہوں نے عرض کیا کہ (دُنبہ وَغیرہ اگر ذبح کریں تو اُن کی) اُون (میں کیا ثواب ہے؟) فرمایا: کہ اُون کے ہربال کے بدلے ایک نیکی“۔
۳:- عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی یوم اضحیٰ: ما عمل آدمی فی ہذا الیوم افضل من دم یہراق إلا أن یکون رحماً توصل“۔(۱۵)
ترجمہ:۔”حضرت اِبن عباس سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم نے عید الاضحی کے دِن اِرشاد فرمایا: آج کے دِن کسی آدمی نے خون بہانے سے زیادَہ افضل عمل نہیں کیا، ہاں! اگر کسی رِشتہ دار کے ساتھ حسن سلوک اس سے بڑھ کر ہو تو ہو“۔
۴:- عن أبی سعید رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یا فاطمة! قومی إلی أضحیتک فاشہدیہا، فإن لک بأول قطرة تقطر من دمہا أن یغفرلک ما سلف من ذنوبکقالت: یا رسول اللّٰہ! ألنا خاصة أہلَ البیت أو لنا وللمسلمین؟ قال: بل لنا وللمسلمین“۔
ترجمہ:۔”حضرت ابو سعید رَضی اللہ عنہ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی بیٹی حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے) فرمایا: اے فاطمہ! اُٹھو اور اپنی قربانی کے پاس رہو (یعنی اپنی قربانی کے ذبح ہوتے وقت قریب موجود رہو) کیونکہ اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے کے ساتھ ہی تمہارے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے، حضرت فاطمہ رَضی اللہ عنہا نے عرض کیا! اللہ کے رسول! یہ فضیلت ہم اہل بیت کے ساتھ مخصوص ہے یا عام مسلمانوں کے لیے بھی ہے؟ آپ … نے فرمایا ہمارے لیے بھی ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے بھی“۔
۵:- عن علی رضی اللہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: یا فاطمة! قومی فاشہدی ضحیتک، فإن لک بأول قطرة تقطر من دمہا مغفرة لکل ذنب، ما انہ یجاء بلحمہا ودمہا توضع فی میزانک سبعین ضعفا۔ قال ابو سعید: یا رسول اللّٰہ! ہذا لآل محمد خاصة، فانہم اہل لما خصوا بہ من الخیر، و للمسلمین عامة؟ قال: لآل محمد خاصة، وللمسلمین عامة“۔(۱۶)
ترجمہ:۔”حضرت علی رَضی اللہ عنہ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم نے (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے) فرمایا: اے فاطمہ! اُٹھو اور اپنی قربانی کے پاس (ذبح کے وقت) موجود رہو؛ اِس لیے کہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی تمہارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے، یہ قربانی کا جانور قیامت کے دِن اپنے گوشت اور خون کے ساتھ لایا جائے گا اور تمہارے ترازو میں ستر گنا (زیادہ) کرکے رَکھا جائے گا، حضرت ابوسعید نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ فضیلت خاندانِ نبوت کے ساتھ خاص ہے جو کسی بھی خیر کے ساتھ مخصوص ہونے کے حق دار ہیں یا تمام مسلمانوں کے لیے ہے؟ فرمایا: یہ فضیلت آلِ محمد کے لیے خصوصاً اور عموماً تمام مسلمانوں کے لیے بھی ہے“۔
۶:-”عن علی رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: یا أیہا الناس! ضحوا واحتسبوا بدمائہا، فان الدم وإن وقع فی الأرض، فإنہ یقع فی حرز اللّٰہ عز وجل۔“(۱۷)
ترجمہ:۔”حضرت علی رَضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! تم قربانی کرو اور ان قربانیوں کے خون پر اجر وثواب کی اُمید رَکھو؛ اِس لیے کہ (اُن کا) خون اگرچہ زمین پر گرتا ہے؛ لیکن وہ اللہ کے حفظ وامان میں چلاجاتاہے“۔
۷:- عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما انفقت الورق فی شییٴٍ حب إلی اللّٰہ من نحر ینحر فی یوم عید“۔(۱۸)
ترجمہ:۔”حضرت اِبن عباس رَضی اللہ عنہ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا: چاندی (یا کوئی بھی مال) کسی ایسی چیز میں خرچ نہیں کیا گیا جو اللہ کے نزدِیک اُس اُونٹ سے پسندیدہ ہو جو عید کے دِن ذبح کیا گیا“۔
۸:- عن ابی ہریرة رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من وجد سعة لان یضحی فلم یضح، فلایحضر مصلانا“۔(۱۹)
ترجمہ:۔”حضرت ابو ہریرہ رَضی اللہ عنہ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قربانی کرنے کی گنجائش رَکھتا ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہمارِی عیدگاہ میں نہ آئے“۔
۹:- عن حسین بن علی رضی اللہ عنہما قال:قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من ضحی طیبة نفسہ محتسباً لاضحیتہ کانت لہ حجاباً من النار۔“(۲۰)
ترجمہ:۔”حضرت حسین بن علی رَضی اللہ عنہ سے مروِی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا: جو شخص خوش دِلی کے ساتھ اجر وثواب کی اُمید رَکھتے ہوئے قربانی کرے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے رُکاوَٹ بن جائے گی“۔
قربانی کافلسفہ
”والثانی: یوم ذبح ابراہیم ولدہ اسماعیل علیہما السلام، وانعام اللّٰہ علیہما: بان فداہ بذبح عظیم، اذ فیہ تذکر حال ائمة الملة الحنیفیة والاعتبار بہم فی بذل المہج، والاموال فی طاعة اللّٰہ، وقوة الصبر، وفیہ تشبہ بالحاج، وتنویہ بہم، وشوق لماہم فیہ ولذلک سن التکبیر“۔(۲۱)
ترجمہ:۔”اور دُوسرا (عید الاضحی) وہ دِن ہے کہ جس میں حضرت اِبراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اِسماعیل علیہ السلام کے ذبح (کااِرادہ کیا)، اور اللہ کا اُن پر اِنعام ہوا کہ حضرت اِسماعیل علیہ السلام کے بدلے عظیم ذبیحہ (جنتی مینڈھا) عطا فرمایا؛ اِس لیے کہ اس میں ملت اِبراہیمی کے ائمہ کے حالات کی یاد دِہانی ہے، اللہ کی اِطاعت میں اُن کے جان ومال کو خرچ کرنے اور اِنتہائی دَرجہ صبر کرنے کے وَاقعہ سے لوگوں کو عبرت دِلانا مقصود ہے، نیز اس میں حاجیوں کے ساتھ مشابہت ہے اور ان کی عظمت ہے اور جس کام میں وہ مشغول ہیں اُس میں اُن کو رَغبت دِلانا ہے، یہی وَجہ ہے کہ تکبیرات (تشریق) کو مسنون کیا گیا ہے“۔
قربانی کی حقیقت
مندرجہ بالا آیات واحادِیث کی روشنی میں قربانی کی حقیقت معلوم ہوئی، اس کو مختصر الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو یوں کہا جاسکتا ہے:
۱:- قربانی سنت اِبراہیمی کی یادگار ہے۔
۲:- قربانی کی ایک صورَت ہے اور ایک رُوح ہے، صورَت تو جانور کا ذبح کرنا ہے، اور اس کی حقیقت اِیثارِ نفس کا جذبہ پیدا کرنا ہے اور تقرب اِلی اللہ ہے۔(۲۲)
اصل میں قربانی کی حقیقت تو یہ تھی کہ عاشق خود اپنی جان کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرتا؛ مگر خدا تعالیٰ کی رحمت دیکھئے، ان کو یہ گوارا نہ ہوا؛ اِس لیے حکم دِیاکہ تم جانور کو ذبح کرو ہم یہی سمجھیں گے کہ تم نے خود اپنے آپ کو قربان کردِیا۔ اِس وَاقعہ (ذبح اِسماعیل علیہ السلام) سے معلوم ہوا کہ ذبح کا اصل مقصد جان کو پیش کرنا ہے؛ چنانچہ اس سے اِنسان میں جاں سپارِی اور جاں نثارِی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اوریہی اس کی رُوح ہے تو یہ رُوح صدقہ سے کیسے حاصل ہوگی؟ کیونکہ قربانی کی رُوح تو جان دینا ہے اور صدقہ کی رُوح مال دینا ہے، نیز صدقہ کے لیے کوئی دِن مقرر نہیں؛ مگر اس کے لیے ایک خاص دِن مقرر کیا گیا ہے اور اس کا نام بھی یوم النحر اور یوم الاضحی رکھا گیا ہے۔(۲۳)
قربانی کی اصل حکمت و فلسفہ
حضرت شاہ وَلی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”والسر فی الہدی التشبة بفعل سیدنا إبراہیم علیہ السلام فیما قصد من ذبح ولدہ فی ذلک المکان طاعةً لربہ، وتوجہاً إلیہ، والتذکر لنعمة اللّٰہ بہ وبأبیہم إسماعیل علیہ السلام، وفعل مثل ہذا الفعل فی ہذا الوقت والزمان ینبہ والنفس ایّ تنبہ وإنما وجب علی المتمتع والقارن شکراً لنعمة اللّٰہ حیث وضع عنہم أمر الجاہلیة فی تلک المسئلة۔“(۲۴)
ترجمہ:”(حج کے موقع پر) ہدی میں حکمت یہ ہے کہ اس میں حضرت اِبراہیم علیہ السلام کے ساتھ مشابہت ہے، اُنہوں نے اپنے رَب کے حکم بجا آورِی اور اس کی طرف توجہ کی نیت سے اس جگہ اپنے بیٹے حضرت اِسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنا چاہا تھا، اللہ تعالیٰ نے حضرت اِسماعیل علیہ السلام پر جو اِنعامات کیے ہیں، اُن کی یاد دہانی ہوتی ہے، اور حج تمتع و قران کرنے والے پر یہ ہدی واجب ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا شکرادا ہو کہ اس نے معاملے میں جاہلیت کے وبال کو دُور کردِیا“۔
قربانی کا حکم
قربانی کی دو قسمیں ہیں: ایک واجب، دوسری مستحب۔
اگر کوئی آدمی، عاقل، بالغ آزاد، مقیم، مسلمان اور مال دار ہو تو اس پر قربانی کرنا واجب ہے، اور قربانی نہ کرنے کی وجہ سے وہ گنہگار ہوگا۔
اگر کوئی مسلمان سفر میں ہو یا فقیر وغریب ہو یا محتاج ہو اور قربانی کرے تو یہ مستحب ہے۔ جس طرح زکوٰة صاحب نصاب مسلمان پر الگ الگ لازم ہوتی ہے، اِسی طرح قربانی بھی ہر صاحب نصاب پر الگ الگ لازم ہوگی؛ چنانچہ ایک قربانی ایک گھرانے کی طرف سے کافی ہونے کا خیال دُرست نہیں ہے اور ہر مال دَار مقیم مسلمان شخص پر قربانی اس کے اپنے نفس اور ذَات پر وَاجب ہوتی ہے؛ اِس لیے پورے گھر، خاندان یا کنبے کی طرف سے ایک آدمی کی قربانی کافی نہیں ہوگی؛ بلکہ ہر صاحب نصاب پر الگ الگ قربانی لازم ہوگی، ورنہ سب لوگ گنہگار ہوں گے، ہاں مردوں کے اِیصالِ ثواب کے لیے ایک قربانی کئی افراد کے ثواب کی نیت سے کرسکتے ہیں۔
مردوں کے اِیصالِ ثواب کے لیے یا زندہ لوگوں کو ثواب پہنچانے کے لیے قربانی کرنا جائز ہے، اگر کسی آدمی نے قربانی کی نذر مانی یا فقیرنے قربانی کی نیت سے جانور خریدا تو اُن پر قربانی واجب ہے۔
وجوبِ قربانی کی شرائط
کسی شخص پر قربانی اُس وقت واجب ہوتی ہے، جب اس میں چھ شرائط پائی جائیں: اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو قربانی کا وجوب ساقط ہوجائے گا اور قربانی وَاجب نہ رہے گی۔
۱- عاقل ہونا، کسی پاگل، مجنون وَغیرہ پر قربانی وَاجب نہیں۔
۲- بالغ ہونا، نابالغ پر قربانی نہیں خواہ مال دَار ہی ہو، اگر کوئی ایامِ قربانی میں بالغ ہوا اور مال دار ہے تو اُس پر قربانی واجب ہے۔
۳- آزاد ہونا، غلام پر قربانی نہیں۔
۴- مقیم ہونا، مسافر پر قربانی وَاجب نہیں۔ ہاں! اگر مسافر مال دَار ہے اور قربانی کرتا ہے تو ا س کوقربانی کرنے کا ثواب ضرور ملے گا۔
۵- مسلمان ہونا، غیر مسلم پر (خواہ کسی مذہب کا ہو) قربانی واجب نہیں۔ ہاں اگر کوئی غیرمسلم ایامِ قربانی میں مسلمان ہوگیا اور وہ صاحبِ نصاب ہو تو اُس پر بھی قربانی واجب ہے۔
۶- صاحب نصاب ہونا، لہٰذا فقیر پر قربانی واجب نہیں؛ لیکن اگر فقیر اپنی خوشی سے قربانی کرے تو اسے ثواب ملے گا۔ اگر کسی آدمی کے پاس نصاب کی مقدار رقم موجود ہو؛ مگر اُس پر اِتنا قرض ہو جو اگر وہ ادَا کرے تو اس کو صاحب نصاب ہونے سے نکال دے، ایسے شخص پر قربانی واجب نہیں، خلاصہ یہ ہے کہ ہر عاقل، بالغ، آزاد، مقیم، مسلمان اور صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے۔
وجوبِ قربانی کا نصاب
قربانی ہر اُس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان پر واجب ہوتی ہے جو نصاب کا مالک ہو یا اس کی ملکیت میں ضرورتِ اصلیہ سے زائد اِتنا سامان ہو جس کی مالیت نصاب تک پہنچتی ہو اور اس کے برابر ہو، نصاب سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس ساڑھے سات تولہ صرف سونا یا ساڑھے باوَن تولہ چاندی یا اُس کی قیمت کے برابر نقد رَقم ہو یا ضرورَتِ اصلیہ سے زائد اِتنا سامان ہو جس کی قیمت ساڑھے باوَن تولہ چاندی کے برابر ہو۔
وَاضح رہے کہ ضرورتِ اصلیہ سے مراد وہ ضرورت ہے جو اِنسان کی جان یا اس کی عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے ضروری ہو، اُس ضرورت کے پورا نہ ہونے کی صورت میں جان جانے یا ہتک آبرو کا اندیشہ ہو، مثلاً کھا نا، پینا، رہائش کا مکان، پہننے کے کپڑے، اہل صنعت و حرفت کے اوزار، سفر کی گاڑِی، سوارِی وَغیرہ، نیز اس کے لیے اُصول یہ ہے کہ جس پر صدقہ فطر واجب ہے اُس پر قربانی بھی واجب ہے یعنی نصاب کے مال کا تجارَت کے لیے ہونا یا اُس پر سال گزرنا ضروری نہیں؛ چونکہ نصاب کے لیے ضرورَتِ اصلیہ سے زائد مال کا اعتبار ہوتا ہے؛ اِس لیے یاد رکھنا چاہیے کہ بڑی بڑی دیگیں، بڑے فرش، شامیانے، ریڈیو، ٹیپ رِیکارڈر، عام رِیکارڈر، ٹیلی وِیژن، وِی سی آر یہ ضرورت میں دَاخل نہیں، اگر ان کی قیمتیں نصاب تک پہنچ جائیں تو بھی ایسے شخص پر قربانی واجب ہوگی۔
اگر کسی کے پاس مالِ تجارت، مثلاً: شیئرز، جیولری کا کام، فریج، گاڑیاں، پنکھے وَغیرہ کسی طرح کا مال ہو اور بقدرِ نصاب یا اس سے زیادَہ ہو تو اُس پر بھی قربانی وَاجب ہے۔ اگر کوئی فقیر آدمی قربانی کے ایام میں سے کسی دِن بھی صاحب نصاب ہوگیا تو اُس پر قربانی وَاجب ہوجائے گی۔ اگر کوئی صاحب نصاب کافر قربانی کے ایام میں مسلمان ہوجائے تو اُس پر قربانی لازم ہوگی۔ اگر عورَت صاحب نصاب ہو تو اُس پر بھی قربانی وَاجب ہے، بیوی کی قربانی شوہر پر لازم نہیں، اگر بیوی کی اِجازت سے کرلے تو ہوجائے گی۔
بعض لوگ نام بدل کر قربانی کرتے رہتے ہیں، باوجود یہ کہ دونوں میاں بیوی صاحب نصاب ہوتے ہیں، مثلاً: ایک سال شوہر کے نام سے، دوسرے سال بیوی کے نام سے، تو اس سے قربانی ادا نہیں ہوتی؛ بلکہ ہر صاحب نصاب میاں، بیوی پر علیحدہ علیحدہ قربانی ہوتی ہے۔
اگر بیوی کا مہر موٴجل (یعنی اُدھار) ہے جو شوہر نے ابھی تک نہیں دِیا اور وہ نصاب کے برابر ہے تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے۔ اور اگر مہر معجل (یعنی فورِی طور پر نقد) ہے اور نصاب کے برابر یا اُس سے زیادَہ ہے تو اس پر بھی قربانی وَاجب ہے۔ اگر مشترک کارُوبار کی مالیت تقسیم کے بعد ہرایک کو بقدرِ نصاب یا اُس سے زائد پہنچتی ہو تو سب پر زکوٰة واجب ہوگی۔ اگر کاشت کار، کسان کے پاس ہل چلانے اور دُوسری ضرورَت سے زائد اِتنے جانور ہوں جو بقدرِ نصاب ہوں تو اُس پر قربانی ہوگی اور اگروہ جانور نصاب کی مقدار کے برابر نہ ہوں تو واجب نہ ہوگی۔ اگر کسی کے پاس کتب خانہ ہے اور مطالعہ کے لیے کتب رکھی ہیں تو اگر وہ خود تعلیم یافتہ نہیں اور کتابوں کی قیمت نصاب تک پہنچی ہوئی ہے تو اُس پر قربانی واجب ہے اور اگر صورَتِ مذکورَہ میں وہ تعلیم یافتہ ہے تو قربانی وَاجب نہیں ہوگی۔ ہر سرکارِی وغیر سرکارِی ملازم جس کی تنخواہ اِخراجات نکالنے کے بعد نصاب کے بقدر یا اس سے زائد بچ جائے تو اس پر قربانی واجب ہے۔
$ $ $
حوالہ جات
(۱) المائدہ:۱۸۳ (۲) تفسیر ابن کثیر ۲/۵۱۸، مکتبہ فاروقیہ پشاور                        (۳) الحج:۳۶۔۳۷         (۴) الحج:۳۲
(۵) آل عمران:۳۸۱            (۶) المائدة:۲۷                                                           (۷) انعام:۱۶۲            (۸) البقرة:۱۹۶
(۹) احکام القرآن ۳/۳۶      (۱۰) ابن کثیر، ۶/۵۵۶، مکتبہ فاروقیہ پشاور                           (۱۱) الحج:۸۳               (۱۲)الحج:۳۴
(۱۳) مشکوٰة المصابیح              (۱۴) مشکوٰة:۱۲۹          (۱۵)الترغیب والترہیب:۲/۷۷۲    (۱۶) الترغیب والترہیب:۲/۲۷۷۔۲۷۸
(۱۷)ایضاً:۲۷۸                  (۱۸)ایضاً                    (۱۹)ایضاً                                   (۲۰)ایضاً   
(۲۱)حجة اللہ البالغة،:۲/۱۰۰(۲۲)سنت حضرت خلیل ،قاری طیب ص:۹                              (۲۳)ایضاً،ص:۱۶        (۲۴)حجة اللہ البالغة، ابواب الحج، ۲/۶۸
$ $ $