نسوار تمباکو سے بنی ہوئی گہرے سبز رنگ کی ہلکی نشہ آور چیز ہے۔
نسوار کھانے والا ایک چٹکی کے برابر اپنے زیریں لب اور دانتوں کے درمیان دبا لیتا
ہےاور تمباکو کے نشے کا سرور لیتا ہے۔ نسوار بنانے کے لیے تمباکو کے خشک پتوں میں
حسب منشا چونا ، راکھ اور ایک خاص گوند ملا کر پتھر کی اوکھلی میں لکڑی کے موٹے
موصل سے کوٹ کوٹ کر پانی کے ہلکے چھینٹےدے کر تیارکی جاتی ہے۔ بڑے پیمانے پر
مشینوں سے بھی تیار کی جاتی ہے۔بنوں کی نسوار مشہور ہے جبکہ چار سدہ اور صوابی میں
بہترین تمباکو کاشت ہوتی ہے۔
سبز نسوار تیار کرنے کے لیے تمباکو کے پتوں کو سائے میں خشک کیا جاتا
ہے جبکہ کالی نسوار کے لیے تمباکو کے پتوں کو دھوپ میں سکھایا جاتا ہے۔ سونگھنے
والی لال نسوار بھی ہوتی ہے۔ مقصد سب کا ایک ہی ہے یعنی کہ کسی بھی طریقے سے نکوٹین
کو خون اور ماغ تک پہنچانا۔
گندا نشہ ہے کیونکہ اس کے
استعمال سے منہ میں بدبو اور انگلیاں گندی رہتی ہیں۔ کینسر کا باعث بھی ہے۔ یورپ
کے لوگ اس کے مضر اثرات اور گندی ہونے کے باعث اس کو ترک کرچکےہیں لیکن ہمارے لوگ اب تک
اس کے عادی ہیں ۔
نسوار چونکہ تمباکو سے بنتی
ہے اس لیے اس کے نقصانات بھی لازماً ہیں لیکن یہ بہت کم نسوار خوروں کو پتہ ہوتا
ہے۔ البتہ جو چیز اس میں تکلیف دہ ہے وہ نسوار خوروں کا جگہ جگہ تھوکنا ہے جس سے
دوسرے لوگ تنگ ہوتے ہیں۔ یہی حال پان کی پیک تھوکنے والوں کا ہے۔ نسوار افغانستان،
پاکستان، بھارت، ایران،تاجکستان، ترکمانستان اور کرغیزستان میں ہوتی ہے۔
نسوار خور اسے ایک ڈبی میں یا پڑیا میں ڈال کر جیب میں رکھتا ہے اور
حسب خواہش منہ میں ڈالتا رہتا ہے۔عام طور پر پٹھان اس کا سب سے زیادہ استعمال کرتے
ہیں، جبکہ پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی اس کا استعمال کافی ہے۔ سائنس نے اس کے
نقصانات بھی کافی بیان کیے ہیں۔ اکثر دوست سمجھتے ہوں گے کہ نسوار پشتونوں کی
ثقافت ہے اور اس کو پختون قوم نےایجاد کیا۔ یہ ایک غلط فہمی ہے۔ نسوار ابتدائی طور
پر امریکہ سے شروع ہوئی جس کا تذکرہ پندرویں صدی کی کتب میں ملتا ہے، اور یورپ میں
سترہویں صدی سے عام استعمال ہوا۔ یورپی ممالک میں سگریٹ نوشی پر پابندی کے باعث
حالیہ برسوں میں اضافہ ہوا ہے۔ عام طور پر اس کا استعمال ناک، سانس یا انگلی کے
ذریعے کیا جاتا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا اور کینیڈا میں ہونٹ کے نیچے رکھ کر
استعمال کرنے سے ہوئی۔ہیٹی کے مقامی لوگوں کی جانب سے 1496-1493میں کولمبس کی جانب
سے امریکہ دریافت کے سفر کے دوران ریمن پین نامی راہب نے ایسے ایجاد کیا۔ کولمبس
کے ساتھیوں نے یہاں دیکھا کہ مقامی ریڈ انڈینز ایک پودے کے پتوں کا رول بنا کر اس
کے اگلے سرےکو سلگا کر اس کا دھواں اندر کھینچتے ہیں اور یوں کولمبس نے باقی دنیا
کو بھی ٹوبیکو یعنی تمباکوسے متعارف کروایا۔ جب سے یہ پودا باقی دنیا میں متعارف
ہوا حضرت انسان ہر ہر طریقے سے اس کو اپنے جسم میں داخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سگریٹ، نسوار، پان، قوام وغیرہ۔
اصل میں تمباکو میں ایک کیمیکل ہوتا ہے جس کا نام ہے نکوٹین۔ اب آپ
نکوٹین کسی بھی ذریعے سے لیں، خواہ سگریٹ، یا نسوار یا پان کا تمباکو وغیرہ۔ خون
میں ملنے کے بعد چند سیکنڈ کے اندر اندر یہ نکوٹین آپ کے دماغ کے اعصاب تک پہنچ
جاتی ہے. نکوٹین کے اثر سے ہمارا دماغ ڈوپامائن (dopamine) نام کا ہارمون خارج کرتا ہے جس سے ہمیں بہت اچھا احساس ہوتا ہے۔
جب بھی دماغ ڈوپامائن چھوڑتا ہے تو ہمیں بہت مزا آتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہمیں کسی
کام کا اجر ملا ہے۔ یعنی دماغ کو یہ اشارہ جاتا ہے کہ اگر آپ سگریٹ پئیں یا نسوار
لیں یا پان کھائیں گے تو آپ دماغ محسوس کرے گا کہ آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ دماغ
یہ جان بوجھ کر نہیں کرتا بلکہ وہ ایسا وہ نکوٹین کے اثر کی وجہ سے کرتا ہے۔لیکن
جلد ہی دماغ کو نکوٹین کی ایسی لت لگ جاتی ہے کہ آپ بار بار اس کو لینے پر مجبور
ہو جاتے ہیں۔ یہ لت ٹھیک ویسی ہی ہوتی ہے، جیسے کسی منشیات کی لت، مثلاً ہیروئن۔
نکوٹین کا نشہ اس قدر طاری ہوتا ہے کہ وہ آپ کے رویّے کو کنٹرول کرنے لگتا ہے۔ نہ
لینے کی صورت میں جسم ٹوٹنا، چڑچڑا پن، کمزوری، بے چینی اور دیگر کئی مسائل کا
سامنا ہوتا ہے۔ دماغ کی ساری توجہ نکوٹین حاصل کرنے کی طرف لگ جاتی ہے اور پورا
جسم بیکار اور بے جان محسوس ہونے لگتا ہے۔
17 ویں صدی میں اس کی مصنوعات کے خلاف کچھ
حلقوں کی جانب سے تحریک اٹھی اور پوپ اربن
ہفتم کی جانب سے خریداری پر دھمکیاں دیں گئیں۔ روس میں اس کا استعمال 1643میں زار
مائیکل کی جانب سے کیا گیا ۔ ناک سے استعمال کی وجہ سے اس پر سزا مقرر کی گئی۔
فرانس میں بادشاہ لوئیس XIIIنے اس
پر حد مقرر کی جبکہ چین میں1638میں پوری طرح نسوار کی مصنوعات پھیل گئی۔
18ویں صدی تک نسوار کو پسند کرنے والوں میں نپولین بونا پاٹ ، کنگ
جارجIII کی ملکہ شارلٹ اور پوپ
بینیڈکٹ سمیت اشرافیہ اور ممتاز صارفین میں یہ رائج ہوچکا تھا۔
18 ویں صدی میں انگلش ڈاکٹر جان ہل نے نسوار کی کثرت استعمال سے
کینسر کا خدشہ ظاہر کیا۔ امریکہ میں پہلا وفاقی ٹیکس 1794ء میں اس لیے لگا کیونکہ
اسیے عیش و عشرت کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔اٹھارویں صدی میں جینٹل ویمن نامی میگزین
میں پرتگالی نسوار کی اقسام اور استعمال کے مشورے شائع ہوئے۔افریقہ کے کچھ علاقوں
میں یورپی ممالک کے افراد کی وجہ سے پھیلی اور دیہاتیوں نے ناک کے ذریعے استعمال
کیا ۔ہندوستان میں غیر ملکی کمپنیوں کی آمد کے ساتھ یہ مصنوعات بھی متعارف ہوئی
اور اس کا استعمال پاک و ہند میں پھیل گیا۔
نسوار کی تاریخی پس منظر اور اس
کی حقیقت آپ نے پڑھ لی ، اور اپ نے یہ بھی
معلوم کر لیا ہوگا کہ نسوار ایک گندی چیز ہے
استعمال کنندہ کے منہ سے بدبو آتی ہے جہاں پھینکاجاتا ہے وہ جگہ بھی گندی ہو جاتی
ہے ، اب ہم نے اسے شرعی طور پر دیکھنا ہے، وباللہ التوفیق
تو
جان لیجئے کہ اسلام ایک صاف ستھرا اور نفیس دین ہے جو اپنے ماننے والوں کو بھی
نظافت ونفاست کی تعلیم دیتا ہے۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: اِنَّ اﷲَ
يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ. البقره، 2: 222
بیشک اللہ کو پسند آتے ہیں توبہ کرنے والے اور پسند
آتے ہیں گندگی سے بچنے والے ۔
ایک
اور مقام پرارشاد باری تعالی ہے :
مَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيَجْعَلَ عَلَيْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّلٰـکِنْ
يُرِيْدُ لِيُطَهِّرَکُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَه عَلَيْکُمْ لَعَلَّکُمْ
تَشْکُرُوْنَ.
اﷲ نہیں چاہتا
کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے لیکن وہ (یہ) چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے
اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔ المائدة، 5: 6
اسلام
میں صفائی و ستھرائی کی اہمیت کا اندازہ آپ اس سے بھی لگا سکتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ...
عَنْ اَبِي مَالِکٍ الْاَشْعَرِيِّ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اﷲِ
الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ.رواه مسلم 1/203
، احمد بن حنبل 5/342
حضرت
ابو مالک اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا: پاکیزگی نصف ایمان ہے۔
یہی
وجہ ہے کہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر اس کام سے روکا جو نظافت و
نفاست کے خلاف ہو، لہسن اور پیاز حلال چیزوں میں سے ہیں لیکن اگر کسی کے منہ سے
لہسن اور پیاز کے بو آرہی ہو تو آپ ﷺ نے ایسے شخص کو مسجد میں آنے سے منع کر دیا ہے،
چناچہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
روایت کرتے ہیں کہ:
اَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ فِي غَزْوَة خَيْبَرَ
مَنْ اَکَلَ مِنْ هٰذِهِ الشَّجَرَة يَعْنِي الثُّومَ فَلَا يَقْرَبَنَّ
مَسْجِدَنَا. رواه البخاري
نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دوران
فرمایا کہ جو اس درخت یعنی لہسن سے کھائے وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے.
امام مسلم کی
روایت میں یہ اضافہ ہے
: حَتَّی يَذْهَبَ
رِيحُهَا يَعْنِي الثُّومَ. مسلم
جب تک اس کے منہ سے بدبو نہ چلی جائے۔
عن عَطَاءٌ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اﷲِ قَالَ قَالَ
النَّبِيُّ مَنْ اَکَلَ مِنْ هٰذِهِ الشَّجَرَة يُرِيدُ الثُّومَ فَلَا يَغْشَانَا
فِي مَسَاجِدِنَا. البخاری 1/292
عطاء کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
سنا کہ ،نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اس درخت میں سے
کھایا، اس سے مراد لہسن ہے، وہ ہم سے ہماری مسجد میں نہ ملے۔
قُلْتُ مَا يَعْنِي بِهِ قَالَ مَا اُرَهُ يَعْنِي إِلَّا نِيئَهُ
وَقَالَ مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ إِلَّا نَتْنَهُ.
میں (عطاء) عرض گزار ہوا
کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ فرمایا کہ میرے خیال میں کچا لہسن مراد ہے۔ مخلد بن یزید نے
ابن جُریح سے روایت کی کہ اس کی بو مراد ہے۔
صحیح بخاري ، ، 1: 292
حضرت
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث کافی طویل ہے جس میں حضرت عمرفاروق رضی
اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت سی باتیں بتائیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے:
ايُهَا النَّاسُ تَاْکُلُونَ شَجَرَتَيْنِ لَا اَرَهُمَا إِلَّا
خَبِيثَتَيْنِ هَذَا الْبَصَلَ وَالثُّومَ لَقَدْ رَيْتُ رَسُولَ اﷲِ إِذَا وَجَدَ
رِيحَهُمَا مِنَ الرَّجُلِ فِي الْمَسْجِدِ اَمَرَ بِهِ فَاُخْرِجَ إِلَی
الْبَقِيعِ فَمَنْ اَکَلَهُمَا فَلْيُمِتْهُمَا طَبْخًا. رواه مسلم 1/
396
اے لوگو! تم لہسن اور پیاز کے درختوں سے کھاتے ہو، حالانکہ میں ان کو
خبیث سمجھتا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں جس
شخص کے منہ سے ان کی بدبو آتی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے حکم دیتے کہ وہ
مسجد سے نکل کر بقیع کے قبرستان کی طرف چلا جائے۔ لہٰذا جو شخص انہیں کھانا چاہے
وہ انہیں پکا کر ان کی بو ختم کر دے۔
عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ سَاَلَ رَجُلٌ اَنَسَ بْنَ مَالِکٍ مَا
سَمِعْتَ نَبِيَّ اﷲ يَقُولُ فِي الثُّومِ فَقَالَ قَالَ النَّبِيُّ مَنْ اَکَلَ
مِنْ هٰذِهِ الشَّجَرَة فَلَا يَقْرَبْنَا اَوْ لَا يُصَلِّيَنَّ مَعَنَا. رواه
البخاري 1/ 293
حضرت
عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت انس بن مالک رضی
اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے لہسن کے متعلق نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ
وسلم سے کیا سنا ہے؟ آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے بتایا کہ نبی کریم صلیٰ اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو اس درخت سے کھائے وہ ہمارے نزدیک نہ آئے نہ ہمارے
ساتھ نماز پڑھے۔
عَنْ اَبِي هُرَيْرَة قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ مَنْ اَکَلَ
مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَة فَـلَا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا وَلَا يُوْذِيَنَّا
بِرِيحِ الثُّومِ. رواه أحمد 1/394
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں حضور نبی اکرم
صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو اس درخت سے کھائے وہ ہماری مسجد کے قریب
آئے اور نہ ہمیں لہسن کی بو سے تکلیف دے۔
عَنْ جَابِرٍ قَالَ نَهَی رَسُولُ اﷲِ عَنْ اَکْلِ الْبَصَلِ
وَالْکُرَّاثِ فَغَلَبَتْنَا الْحَاجَة فَاَکَلْنَا مِنْهَا فَقَالَ مَنْ اَکَلَ
مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَة الْمُنْتِنَة فَـلَا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا فَإِنَّ
الْمَلَائِکَة تَاَذَّی مِمَّا يَتَاَذَّی مِنْهُ الْإِنْسُ. رواه مسلم 1/394 و
احمد 3/374
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں حضور نبی اکرم صلیٰ
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیاز اور گندنا کھانے سے منع فرمایا۔ ہم نے ضرورت سے مغلوب
ہو کر انہیں کھا لیا تو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو ان
بدبودار درختوں سے کھائے وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کیونکہ فرشتوں کو بھی ان
چیزوں سے تکلیف ہوتی ہے جن سے انسانوں کو تکلیف ہوتی ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسانوں کی طرح
فرشتوں کو بھی بدبو سے تکلیف ہوتی ہے۔ لہٰذا جو شخص اپنے منہ اور باقی جسم کی
صفائی کا خیال نہیں رکھتا وہ انسانوں کو تو تکلیف دینےکے ساتھ ساتھ فرشتوں کو بھی
تکلیف دیتا ہے .
آپ نے
مندرجہ بالا احادیث پڑھ لئے اور یہ اندازہ لگا لیا ہوگا کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے گندگی اور بو سے کس قدر نفرت کی ہے . اگر حلال چیز، جسے کھانے سے منہ میں
بو پیدا ہو، اسے کھا کر اپنی عبادت گاہ کی طرف آنے سے منع فرما دیا جبکہ لہسن یا
پیاز صحت کے لیے نقصان دہ بھی نہیں ہیں، ۔ اور جو حضرات نسوار لگاتے ہیں ان منہ سے
جو بد بو آتی ہے اللہ کی پناہ .
آپ نے نسوار
کی تاریخ پڑھ لی اور اس کی استعمال سے پیش
انے والے مضرات میں سے بدبو اور اس کا حکم احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی
میں پڑھ لیا ہے ۔ اج اس اخری قسط میں نسوار سے مزید پیش انے والے مضرات نظر قارئین
کرتا ہوں وباللہ التوفیق ۔
لیکن اس سے پہلے یہ یاد رہے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ
صرف نسوار کو نقطہ ہدف کیوں بنایاگیا ہے، ایسی کوئی بات نہیں سگریٹ اور پان وغیرہ سب کا یہی
حکم ہے چونکہ موضوع نسوار تھا اس لیے مضمون اسی کے نام ہوا ۔
میں نسوار کی مضرات کی بات کر رہا تھا کہ استعمال
کنندہ کی منہ سے جو بدبو آتی ہے شریعت میں اس کا حکم کیا ہوگا وہ اپ نے پڑھ لیا ہے
۔ اب مزید سنیں کہ کہ نسوار مضر صحت ہے اور اسراف و تبذیر ہے ابھی ہم ان دو عنوان پر شرعی نقطہ
نظر سے بات کریں گے ۔
(1) نسوار مضر صحت ہے ::
اس میں شک و شبہ نہیں کہ نسوار صحت كے ليے نقصاندہ
ہے، اور پھر اس سے كئى قسم كى گندى بيمارياں بھى پيدا ہوتى ہيں۔ ڈاکٹر حضرات کہتے ہیں کہ اس سے کنسر بھی
لاحق ہوسکتی ہے؛ اور دیگر امراض بھی جو موت كا باعث بن سكتى ہيں يا موت كےمقدمات
ميں شامل ہوتى ہيں۔ یوں سمجھ لیں کہ نسوار کا استعمال کنندہ اپنے اپ کو قتل کرنے
اور اپنے اپ کو ہلاک کرنا چاہتا ہے اور یہ شرعاً ممنوع ہے ۔ اللہ سبحانہ و تعالى
كا فرمان ہے: وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ۔ سورۃ النساء 29
(اپنی جانوں کو قتل نہ کرو)
اس کی تفسیر بعض مفسرین نے یوں فرمایا ہے کہ اس میں
خود کشی کی ممانعت بھی شامل ہے (معالم التنزیل صفحہ ٤١٨) چونکہ الفاظ میں عموم ہے
اس لیے آیت کا مفہوم سب کو شامل ہے۔ اور ایک دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۔ البقرۃ
195 ( اور تم اپنے آپ كو ہلاكت ميں مت
ڈالو ۔ )
پہلی آیت کریمہ میں ارشاد ہوا کہ اپنے آپ کو قتل مت
کرو جبکہ دوسرے آیت کریمہ میں ارشاد ہوا کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو ، جب یہ واضح ہے کہ نسوار ( سگرٹ وغیرہ) سے انسان
کو مہلک بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں تو گویا کہ ان کا استعمال کنندہ اپنے آپ کو جان
بوجھ کر ہلاکت میں ڈالنا چاہتا ہے اور یہ جائز نہیں ۔
ایک واقعہ
: میرا ایک دوست جو ہمارے ساتھ(1990) نائنٹیز
کے زمانے ایک جگہ کام کیا کرتا تھا پھر اس سے میری ملاقات تقریبا پندرہ سال بعد ہوئی ہم بہت ہی گرمجوشی کے ساتھ
ایک دوسرے کے ساتھ ملے دوران گفتگو میں نے ان سے اس کی جسمانی کمزوری کی سبب پوچھی
تو کہنے لگا ، کہ جناب مجھے تو نسوار لے دوبا تھا اللہ نے بچایا میں نے کہا وہ
کیسے اس نے بتا یا کہ مجھے منہ میں کنسر ہوا تھا یہا قطر میں علاج کیا پھر پاکستان
گیا وہاں علاج کیا اور اپنہ منہ دیکھاتے ہوئے کہا کہ میرا ادھا دھاڑ کاٹ دیا گیا
ہے میں ا س کا منہ دیکھتا رہا اوراسے تسلی دیتا رہا ، اللہ تعالی ہمیں ایسے
حالات سے بچائے .
اسی طرح بے شمار واقعات سامنے آتے ہیں اور آئے ہیں ۔ لہذا نسوار سگریٹ
اور ایسی دیگر اشیاء منہ، گلے، پھیپھڑوں، سینے وغیرہ کا کینسراور ٹی
بی جیسی مہلک بیماروں کا سبب بنتی ہیں۔ لہٰذا انہی وجوہات کی بنیاد پر نسوار ہو،
سگریٹ وغیرہ کو علماء محققین ناجائز قرار دے رہے ہیں کیونکہ
ان کا استعمال خود کشی کے مترادف ہے۔
(2) نسوار یا
سگریٹ کی استعمال پر پیسے خرچ کرنا اسراف تبذیر ہے :::
جس طرح نسوار یا سگریٹ وغیرہ
استعال انسان کے لیے مضر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس پر اپنا مال خرچ کرنا بے
جا خرچ کرنے کی مترادف ہے اور اسراف اور تبذیر ہے اور یہ بھی شرعا ممنوع ہے ،
جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے .
وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا 26 اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا
اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ ۭ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا 27
ترجمہ : اور مال کو بےجامت اڑاؤ، بلاشبہ مالوں
کو بےجا اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے.
تبذیر
کہتے ہیں، مال کے بےموقع یعنی محل معصیت میں خرچ کرنے کو. التبذیر انفاق فی غیر
حقہ (جصاص۔ عن ابن عباس (رض) وعبداللہ بن مسعود (رض) وقتادۃ (رض) التبذیر تفریق المال فی غیر الحل والمحل
(مدارک) تفسیر الماجدی
(الْمُبَذِّرِيْنَ ) سے مراد وہ لوگ ہیں ، جو اللہ کے دیئے ہوئے مال کو معصیت
کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کو استعمال نہیں کرتے ، عبداللہ بن
مسعود (رض) سے پوچھا گیا ، تبذیر کسے کہتے ہیں ، اس نے جواب دیا ، ” انفاق المال
فی غیر حقہ “۔ یعنی ناحق اور نامناسب طور پر دولت کو صرف کرنا ۔ تفسیر سراج البیان
خلاصہ کلام یہ
ہے کہ :
نسوار
یا سگریٹ پر اپنا مال خرچ کرنا اسراف اور تبذیر کی حکم میں
اتا ہے اور اسراف تبذیر سے قرآن کریم میں منع کیا گیا ہے ۔
لہذا
نسوار اور سگریٹ وغیرہ کا استعمال بالکل جائز نہیں ہے کیونکہ ان سے گندگی پھلتی ہے
اور خبیث اشیاء کی ضمن میں آتی ہیں اور اللہ تعالی نے ہمیں خبیث اشیاء سے منع
فرمایا ہے ارشاد باری تعالی ہے ۔
يَسْـــَٔلُوْنَكَ مَاذَآ اُحِلَّ لَهُمْ ۭقُلْ اُحِلَّ لَكُمُ
الطَّيِّبٰتُ . المائدہ 4
پوچھتے ہیں ان کے لیے کیا
چیز حلال ٹھہرائی گئی ہے۔ کہو تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال ٹھہرائی گئی ہیں.
آپ نے دیکھا ہوگا کہ خود
نسوار سگریٹ پینے والے انہیں گندگی سمجھتے ہیں ،اور یاد رہے کہ رسول اللہ ﷺ کی صفت قرآن میں ہوں بیان کہ گئی
ہے ، وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ
الْخَـبٰۗىِٕثَ . الاعراف
157
اور(آپ
ﷺ) ان کے لیے پاکیزہ چیزیں جائز بتاتا ہے اور ان پر
گندی چیزیں حرام کرتا ہے .
اس میں بھی شک نہیں
کہ نبی اکرمﷺ کے عہد میں نسوار سگریٹ کا وجود گرچہ نہیں پایاجاتا تھا لیکن
اشیاء کی حرمت وحلّت کے بارے میں اسلام نے جو عام اصول وضع فرمائے ہیں ان کی روسے
ہروہ چیز حرام قرارپاتی ہے جو انسانی جسم کے لیے نقصان دہ ہو ،یا وہ چیز بجائے خود
دولت کے تلف اور مال کی بربادی کا باعث بن سکتی ہو یا ا س کے استعمال سے دوسرے
انسان کو کسی قسم کے نقصان پہنچنے کا احتمال ہو ۔ آپ ﷺ
کا ارشاد گرامی ہے ، لا ضرر ولا ضرار
. رواه احمد
یعنی اسلامی نقطۂ نگاہ سے ہر ایسا کام ناجائز ٹہرتا ہے جس
کا نقصان اس کے کرنے والے کوخود اٹھانا پڑے یا اس کے مضر اثرات کسی دوسرے انسان
پراثرانداز ہورہے ہوں۔ ( یہ حدیث مسند احمد میں ہے )
نسوار ہو یا سگریٹ
جہاں استعمال کرنے والے کی صحت کے لیے مضراور ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کے لیے تکلیف
وایذا کا باعث بنتا ہے، وہاں وہ مال ودولت کی تباہی وبربادی کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔
آپ ﷺ کا ارشاد ہے (وَكَرِهَ (اللهُ ) لَكُمْ إِضَاعَةِ الْمَالَ) (متّفق عليه) ’’یعنی
اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف سے مال کے ضیاع کو ناپسند قراردیا ہے‘‘۔ بخاری و مسلم ۔
اور سگریٹ نوشی اور نسوار یقیناً اس شخص کے مال کی بربادی کا باعث ہے جو
اس کو استعمال کرتا ہے اور یہ ایک ایسا کا م ہے جسے اللہ رب العزّت ناپسندیدگی کی
نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
اس
میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ نسوار اور سگریٹ گندی چیزیں ہیں ، اس لیے عرب
علماء کے نزدیک یہ دونوں حرام ہیں ، ہمارے پاک و ہند کے علماء اسے سخت مکروہ قررا
دے رہے ہیں مگر یاد رہے کہ فقہاء کی اصطلاح میں مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہی ہے
۔
اب
میں دارالعلوم دیوبند کا ایک فتوی نظر
قارئین کرتا ہوں .
سوال : کیا سگریٹ، نسواراور چرس حرام ہیں؟ جب کہ چرس پینے والا ہوش
وہواس میں رہتاہے۔ براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔
جواب
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ھ):
2254=1455-10/1431
سگریٹ پینا سخت مکروہ ہے، نسوار اور چرس میں نشہ ہوتا ہے، پس ان کا استعمال بھی ناجائز ہے اور بعض لوگوں کو جو نشہ نہیں ہوتا وہ عادی ہوجانے کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے، جس طرح شراب کے عادی لوگوں کو بھی بسا اوقات بہت زیادہ نشہ نہیں ہوتا، مگر اس کی وجہ سے حرام ہونے کا حکم ساقط نہیں ہوتا، نیز ان جیسی چیزوں (سگریٹ، نسوار، چرس، شراب) سے اعضائے رئیسہ دل ودماغ پھیپھڑوں وغیرہ میں خطرناک امراض پیدا ہوتے ہیں یا پیدا ہونے کا اندیشہ غالب ہوتا ہے، اس لیے بھی ان چیزوں کے استعمال کا ناجائز و گناہ ہونا ظاہر ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم ... دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
سگریٹ پینا سخت مکروہ ہے، نسوار اور چرس میں نشہ ہوتا ہے، پس ان کا استعمال بھی ناجائز ہے اور بعض لوگوں کو جو نشہ نہیں ہوتا وہ عادی ہوجانے کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے، جس طرح شراب کے عادی لوگوں کو بھی بسا اوقات بہت زیادہ نشہ نہیں ہوتا، مگر اس کی وجہ سے حرام ہونے کا حکم ساقط نہیں ہوتا، نیز ان جیسی چیزوں (سگریٹ، نسوار، چرس، شراب) سے اعضائے رئیسہ دل ودماغ پھیپھڑوں وغیرہ میں خطرناک امراض پیدا ہوتے ہیں یا پیدا ہونے کا اندیشہ غالب ہوتا ہے، اس لیے بھی ان چیزوں کے استعمال کا ناجائز و گناہ ہونا ظاہر ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم ... دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
قارئین محترم میں اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے اللہ
کی حضور دعاگو ہوں کہ وہ ہمیں گندی چیزوں سے بچائے اور ہمیں اپنے حفظ و آمان میں
رکھے . آمین ثم آمین یا رب العلمین ، وآخر دعوانا أن الحمد
لله رب العلمين .
أخوكم
في الله : اكبر حسين اوركزئي حالا مقيم
بدولة قطر
29 جنوری 2019