بدھ، 30 جون، 2021

وضو تیمم غسل اور نماز کے ضروری مسائل

 وضو کے فرائض: وضو میں چار فرض ہیں، جن میں سے اگر ایک بھی چھوٹ جائے تووضو نہیں ہوگا۔1) پیشانی کے بالوں سے ٹھوڑی کے نیچے تک ، اور دونوں کان کی لو تک چہرا دھونا۔2) دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت دھونا۔3) چوتھائی سر کا مسح کرنا۔4) دونوں پاؤں ٹخنوں سمیت دھونا۔

وضو کی سنتیں: سنت چھوڑنے سے وضو تو ہوجاتا ہے مگر ثواب کم ملتا ہے۔ (1) نیت کرنا۔ (۲) شروع میں بِسْمِ اللّہِ پڑھنا۔ (۳) پہلے تین بار دونوں ہاتھ گٹوں تک دھونا۔ (۴) تین بار کلی کرنا۔ (۵) مسواک کرنا۔ (۶) تین بار ناک میں پانی ڈالنا۔ (۷) تین بار چہرا دھونا۔ (۸) تین بار کہنیوں سمیت دونوں بانھیں دھونا۔ (۹) سارے سر کا اور کانوں کا مسح کرنا۔ (۱۰) ڈاڑھی اور انگلیاں کا خلال کرنا۔ (۱۱) لگاتار اس طرح دھونا کہ پہلا حصہ خشک نہ ہو نے پائے کہ دوسرا حصہ دھل جائے۔ (۱۲) ترتیب وار دھونا کہ پہلے چہرہ دھوئیں، پھر کہنیوں سمیت ہاتھ دھوئیں، پھر سر کا مسح کریں، پھر پاؤں دھوئیں۔

وضو کے مستحبات: یعنی جن چیزوں کا کرنا باعث ثواب ہے۔ (1) قبلہ رخ ہوکر بیٹھنا۔ (۲) پاک اور اونچی جگہ پر بیٹھ کر وضو کرنا۔ (۳) داہنی طرف سے شروع کرنا۔ (۴) دوسرے سے حتی الامکان مدد نہ لینا۔ (۵) بچا ہوا پانی کھڑے ہوکر پینا۔

مکروہاتِ وضو: یعنی جن امور سے آپ کو حتی الامکان بچنا چاہئے۔ (1) ناپاک جگہ پر وضو کرنا۔ (۲) سیدھے ہاتھ سے ناک صا ف کرنا۔ (۳) پانی زیادہ بہانا۔ (۴) وضو کرتے وقت دنیا کی باتیں کرنا۔ (۵) خلافِ سنت وضو کرنا۔ (۶) زور سے چھپکے مارنا۔

نواقصِ وضو: یعنی جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔(1) پاخانہ یا پیشاب کرنا۔ (۲) ہوا خارج ہونا۔ (۳) بدن کے کسی حصہ سے خون یا پیپ نکل کر بہہ جانا۔ (۴) منہ بھر کے قے ہونا۔ (۵) ٹیک لگاکر یا لیٹ کر سوجا نا۔ (۶) نشہ میں مست یا بے ہوش ہوجانا۔ (۷) رکوع سجدہ والی نماز میں قہقہہ مارکر ہنسنا۔

غسل کے فرائض: غسل میں تین فرض ہیں، جن میں سے اگر ایک بھی چھوٹ جائے تو غسل نہیں ہوتا۔1) خوب حلق تک پانی سے منہ بھر کر کلّی کرنا۔2) ناک میں سانس کے ساتھ پانی چڑھانا جہاں تک نرم جگہ ہے۔3) تمام بدن پر اس طرح پانی بہانا کہ بال برابر بھی جگہ سوکھی نہ رہ جائے۔

غسل کی سنتیں: سنت چھوڑنے سے غسل تو ہوجاتا ہے مگر ثواب کم ملتا ہے۔(1) دونوں ہاتھ گٹوں تک دھونا۔ (۲) ظاہری ناپاکی دور کرنا اور استنجا کرنا۔ (۳) غسل کی نیت کرنا۔ (۴) وضو کرنا۔ (۵) بدن کو ملنا۔ (۶)سارےبدن پر تین بار پانی بہانا۔

غسل کے مکروہات: یعنی جن امور سے آپ کو حتی الامکان بچنا چاہئے۔ 1) پانی بہت زیادہ استعمال کرنا۔ (۲) اتنا کم پانی لینا کہ اچھی طرح غسل نہ کرسکیں۔3) ننگا ہونے کی حالت میں غسل کرتے وقت کسی سے بات چیت کرنا۔ 

تیمم کے فرائض اور طریقہ۔۔۔ تیمم میں تین فرض ہیں: 1) نیت کرنا۔2) دونوں ہاتھ مٹی پر مارکر پورے چہرے پر پھیرنا۔3) دونوں ہاتھ مٹی پر مارکر  کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں کو ملنا۔بیماری اور پانی نہ ملنے کی صورت میں وضو کی جگہ تیمم کرلینے کا حکم ہے۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ اوّل ناپاکی دور کرنے کی نیت کریں ۔ پھر پاک مٹی یا ایسی چیز پر جو مٹی کے حکم میں ہو  دونوں ہاتھ مارکر ایک بار اپنے چہرے پر پھیر لیں، پھر دوسری مرتبہ پاک مٹی پر ہاتھ مارکر دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت ملیں۔

پانچوں نمازوں کے اوقات۔۔۔ نمازِ فجر:صبح صادق سے  سورج کے طلوع ہونے تک۔۔۔ نمازِ ظہر: زوالِ آفتاب سے  نمازِ عصر کا وقت شروع ہونے تک۔۔۔ نمازِ عصر: جب ہر چیز کا سایہ اصلی سایہ کے علاوہ دو مثل ہوجائے تو ظہر کا وقت ختم ہوکرعصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے  اور غروبِ آفتاب تک رہتا ہے۔۔۔نمازِ مغرب: غروبِ آفتاب سے  تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک۔مغرب کی نماز کی ادائیگی میں زیادہ تاخیر کرنا مکروہ ہے۔۔۔نمازِ عشا: سورج چھپنے کے تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد سے صبح صادق تک۔آدھی رات کے بعد عشا کی نماز کے لئے مکروہ وقت شروع ہوجاتا ہے۔

پانچوں نمازوں کی رکعات۔۔۔ نمازِ فجر کی چار رکعات: پہلے دو سنتیں ، پھر دو فرض۔۔۔ نمازِ ظہر کی بارہ رکعات: پہلے چار سنتیں، پھر چار فرض، پھر دو سنتیں، پھر دو نفل۔۔۔نمازِ عصر کی آٹھ رکعات: پہلے چار سنتیں غیر مؤکدہ ، پھر چار فرض ۔۔۔ نمازِ مغرب کی سات رکعات: پہلے تین فرض، پھر دو سنتیں، پھر دو نفل۔۔۔ نمازِ عشا کی سترہ رکعات: پہلے چار سنتیں غیر مؤکدہ ، پھر چار فرض، پھر دو سنتیں،پھر دو نفل، پھر تین وتر، اور دو نفل۔ دن رات میں کل ۱۷ رکعات فرض، ۳ وتر، ۱۲ رکعات سنن مؤکدہ، ۸ رکعات سنن غیر مؤکدہ ہیں۔

مسئلہ: جمعہ کے دن ظہر کے وقت ظہر کی نماز کے بجائے نمازِ جمعہ (دو فرض امام کے ساتھ) ادا کی جائے گی۔ نمازِ جمعہ عورتوں پر فرض نہیں ہے لہذا وہ اس کی جگہ نمازِ ظہر ادا کریں۔اگر کسی شخص نے جمعہ کی نماز  امام کے ساتھ نہیں پڑھی تو اس کی جگہ نمازِ ظہر (چار رکعات) ادا کرے، ہاں اگر مسافر ہو تو دو رکعت ظہر کی ادا کرے۔نماز جمعہ کی ۱۴ رکعات اس طرح ہیں: پہلے ۴ سنتیں، پھر ۲ فرض، پھر ۴ سنتیں، پھر ۲ سنتیں، پھر ۲ نفل۔

مسئلہ: نفل اور غیر مؤکدہ سنتوں کا حکم یہ ہے کہ پڑھنے پر ثواب ملے گا، اور نہ پڑھنے پر کوئی گناہ نہیں، البتہ سنن مؤکدہ کو عذر کے بغیر نہیں چھوڑنا چاہئے کیونکہ احادیث میں ان کی خاص تاکید اور اہمیت وارد ہوئی ہے۔

نماز کے شرائط وفرائض اور واجبات۔۔۔ 

شرائطِ نماز: 1) بدن کا پاک ہونا۔2) کپڑوں کا پاک ہونا۔3) ستر کا چھپانا۔ مردوں کو ناف سے گھٹنوں تک، اور عورتوں کو چہرہ ، ہاتھوں اورقدموں کے علاوہ تمام بدن کا ڈھانکنا فرض ہے۔4) نماز پڑھنے کی جگہ کا پاک ہونا۔ 5) نماز کا وقت ہونا۔6) قبلہ کی طرف رخ کرنا۔ 7) نماز کی نیت کرنا۔

فرائض وارکانِ نماز:1) تکبیر تحریمہ۔ 2) قیام یعنی کھڑا ہوا۔3) قراء ت یعنی ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیتیں پڑھنا۔4) رکوع کرنا۔ 5) سجدہ کرنا۔6) قعدہ اخیرہ کرنا۔ 7) اپنے ارادہ سے نماز ختم کرنا (یعنی سلام پھیرنا) ۔۔۔اگر ان شرائط اور فرائض میں سے کوئی ایک چیز بھی جان کر یا بھول کر رہ جائے تو نماز ادا نہیں ہوگی۔

واجباتِ نماز: 1) الحمد پڑھنا۔ 2) الحمد کے ساتھ کوئی سورت ملانا۔3) فرضوں کی پہلی دو رکعت میں قراء ت کرنا۔4) الحمد کو سورت سے پہلے پڑھنا۔5) رکوع کرکے سیدھا کھڑا ہونا۔ 6) دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا ۔7) پہلا قعدہ کرنا۔ 8) التحیات پڑھنا۔9) لفظ سلام سے نماز ختم کرنا۔ 10) ظہر اور عصر میں قراء ت آہستہ پڑھنا۔11) امام کے لئے مغرب وعشاء کی پہلی دو رکعتوں، اور فجر وجمعہ وعیدین اور تراویح کی سب رکعتوں میں قراء ت بلند آواز سے پڑھنا۔۔۔ان مذکورہ واجبات میں سے اگر کوئی واجب بھول کر چھوٹ جائے تو سجدہ سہو کرنا واجب ہوگا۔ اور قصداً چھوڑدینے سے نماز دوبارہ پڑھنا واجب ہوتا ہے۔

نماز کی سنتیں: یہ امور نماز میں سنت ہیں، جن کے ترک کرنے پر نماز تو ادا ہوجائے گی مگر ثواب میں کمی ہوگی۔۔۔1) تکبیر تحریمہ کے وقت مردوں کو دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھانا اور عورتوں کو سینے تک اٹھانا۔2) مردوں کو ناف کے نیچے اور عورتوں کو سینے پر ہاتھ باندھنا۔2) ثنا یعنی سُبْحَانَکَ اللّهُمَّ آخر تک پڑھنا۔4) اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّيْطَانِ الرّجِيْم پڑھنا۔5) بِسْم اللّہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيْم پڑھنا۔6) ایک رکن سے دوسرے رکن کو منتقل ہونے کے وقت اللہ اکبر کہنا۔7) رکوع میں سُبْحَانَ رَبّیَ الْعَظِيْم کم از کم تین مرتبہ کہنا۔8) رکوع سے اٹھتے ہوئے سَمِعَ اللّہُ لِمَنْ حَمِدَہ اور رَبّنَا لَکَ الْحَمْدکہنا۔9) سجدہ میں کم از کم تین مرتبہ سُبْحَانَ رَبّیَ الاعْلیٰ کہنا۔10) دونوں سجدوں کے درمیان اور التحیات کے لئے مردوں کو بائیں پاؤں پر بیٹھنا اور سیدھا پاؤں کھڑا کرنا، اور عورتوں کو دونوں پاؤں سیدھی طرف نکال کر کولھوں پر بیٹھنا۔11) درود شریف پڑھنا۔12) درود کے بعد دعا پڑھنا۔13) سلام کے وقت دائیں اور بائیں طرف منہ پھیرنا۔14) سلام میں فرشتوں ، مقتدیوں اور نیک جنات جو حاضر ہیں ان کی نیت کرنا۔

نماز کے مستحبات: 1) اگر چادر اوڑھے ہو تو کانوں تک ہاتھ اٹھانے کے لئے مردوں کو چادر سے ہاتھ نکالنا۔2) جہاں تک ممکن ہو کھانسی کو روکنا۔3) جمائی آئے تو منہ بند کرلینا۔4) کھڑے ہونے کی حالت میں سجدہ کی جگہ اور رکوع میں قدموں پر اور سجدہ میں ناک پر اورقعدہ میں گود میں اور سلام کے وقت کاندھوں پر نظر رکھنا۔

مکروہاتِ نماز:یہ چیزیں نماز میں مکروہ ہیں۔۔۔ 1) کپڑا سمیٹنا۔2) جسم یا کپڑے سے کھیلنا۔3) انگلیاں چٹخانا۔4) دائیں یا بائیں طرف گردن موڑنا۔5) انگڑائی لینا۔6) مرد کو سجدہ میں کہنیوں سمیت کلائیاں زمین پر بچھانا۔7) سجدے میں (مردوں کے لئے) پیٹ کو رانوں سے ملانا۔8) بغیر عذر کے چاروں زانو(پالتی مارکر) بیٹھنا۔9) امام کا محراب کے اندر کھڑے ہوکر نماز پڑھانا۔10) صف سے علیحدہ تنہا کھڑا ہونا۔11) سامنے یا سر پر تصویر ہونا۔12) تصویر والے کپڑوں میں نماز پڑھنا۔13) کندھوں پر چادر یا کوئی کپڑا لٹکانا۔14) پیشاب یا پاخانہ یا زیادہ بھوک کا تقاضی ہوتے ہوئے نماز پڑھنا۔15)سر کھول کر نماز پڑھنا ۔ یہ کراہت مردوں کے لئے ہے۔خواتین کا پورے سر کو ڈھانکنا ضروری ہے۔16) آنکھیں بند کرکے نماز پڑھنا۔

نماز پڑھنے کا طریقہ:  نماز پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ پاک کپڑے پہن کر پاک جگہ پر باوضو قبلہ کی طرف منہ کرکے اس طرح کھڑے ہوں کہ دونوں قدموں کے درمیان چار انگل یا اس کے قریب قریب فاصلہ رہے، اور نماز کی نیت کرکے دونوں ہاتھ کانوں کی لو تک اٹھائیں اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھ لیں۔ داہنا ہاتھ اوپر اور بایاں ہاتھ اس کے نیچے رہے، اور نظر سجدہ کی جگہ پر رکھیں۔نماز میں ادھر ادھر نہ دیکھیں۔ ادب سے کھڑے رہیں۔ صرف اللہ تعالی کی طرف دھیان رکھیں۔ ہاتھ باندھ کر ثنایعنی سُبْحَانَکَ اللّهمّ۔۔۔۔ آخر تک پڑھیں۔ پھر تعوذ یعنی اَعُوذُ بِالله مِنَ الشّيْطَانِ الرّجِيْم اور پھر تسمیہ یعنی بِسْمِ اللّہِ الرّحمٰنِ الرّحِيْم پڑھ کر الحمد شریف (سورۃ الفاتحہ) پڑھیں۔ الحمد شریف ختم کرکے آہستہ سے آمین کہیں۔ پھر کوئی سورت یا چند آیات پڑھیں۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر رکوع کے لئے جھکیں، رکوع میں دونوں ہاتھوں سے گھٹنوں کو پکڑ لیں۔ رکوع کی تسبیح یعنی سُبْحَانَ رَبّیَ الْعَظِيْم تین یا پانچ یا سات مرتبہ پڑھیں، پھر تسمیع یعنی سَمِعَ اللّه لِمَنْ حَمِدَہکہتے ہوئے سیدھے کھڑے ہوجائیں، اس کے بعد تحمید یعنی رَبّنَا لَکَ الْحَمْد پڑھیں، پھر تکبیر کہتے ہوئے سجدے میں اس طرح جائیں کہ پہلے دونوں گھٹنے زمین پر رکھیں، پھر دونوں ہاتھ رکھیں پھر دونوں ہاتھوں کے بیچ میں پہلے ناک ، پھر پیشانی زمین پر رکھیں، پھر سجدے کی تسبیح یعنی سُبْحَانَ رَبّیَ الاعْلیٰ تین یا پانچ یا سات مرتبہ پڑھیں۔ پھر تکبیر کہتے ہوئے اٹھیں اور بیٹھ جائیں۔ پھر تکبیر کہتے ہوئے دوسرے سجدہ میں جائیں اور اسی طرح سجدہ کریں جیسا ابھی بتایا، دونوں سجدوں تک ایک رکعت پوری ہوگئی۔

اب تکبیر یعنی اللہ اکبر کہتے ہوئے دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوجائیں، صرف بسم اللہ پڑھ کر الحمد شریف پڑھیں، اس کے بعد کوئی سورت یا چند آیات پڑھیں۔ پھر رکوع ، قومہ اور دونوں سجدے کرکے بیٹھ جائیں، اور پہلے تشہد یعنی التحیات پھر درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام پھیردیں، پہلے داہنی طرف پھر بائیں طرف۔ یہ دو رکعت نماز پوری ہوگئی۔

اگر تین یا چار رکعت والی نماز پڑھنی ہو تو دو رکعت پر بیٹھ کر صرف التحیات پڑھیں۔ اس کے بعد فوراً تکبیر (یعنی اللہ اکبر) کہتے ہوئے کھڑے ہوجائیں۔ بسم اللہ اور الحمد شریف پڑھ کر رکوع وسجدے کریں۔ اگر تین رکعت پڑھنا ہو تو بیٹھ کر التحیات درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دیں۔ اور اگر چار رکعت پڑھنا ہو تو تیسری رکعت پڑھ کر نہ بیٹھیں بلکہ تیسری رکعت کے دونوں سجدے کرکے سیدھے کھڑے ہوجائیں اور چوتھی رکعت یعنی بسم اللہ اور الحمد شریف پڑھ کر  رکوع اور سجدے کرکے بیٹھ جائیں اور التحیات پھر درود شریف اور دعا پڑھ کر دونوں طرف سلام پھیر دیں۔

مسئلہ: نفل نمازوں کی تیسری اور چوتھی رکعت میں بھی الحمد شریف کے بعد کوئی سورت یا چند آیات پڑھیں کیونکہ فرض نمازوں کے علاوہ ہر نماز کی ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد سورت یا چند آیات پڑھنا واجب ہے۔

مسئلہ: اگر امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں تو تکبیر تحریمہ کے بعد ثنا کے علاوہ کچھ نہ پڑھیں۔ تعوذ، تسمیہ، الحمد شریف اور سورت صرف امام پڑھے گا۔ اسی طرح دوسری، تیسری اور چوتھی رکعت میں بھی امام کے پیچھے خاموش کھڑے رہیں، ہاں رکوع سجدہ کی تسبیح اور التحیات ودرود شریف اور اس کے بعد والی دعا امام کے پیچھے بھی پڑھیں۔

مسئلہ: رکوع اس طرح کرنا چاہئے کہ کمر اور سر برابر رہیں یعنی سر نہ کمر سے اونچا رہے نہ نیچا ہوجائے اور دنوں ہاتھ پسلیوں سے علیحدہ رہیں اور گھٹنوں کو ہاتھوں کی انگلیاں سے پکڑ لیا جائے۔

مسئلہ: سجدہ اس طرح کرنا چاہئے کہ ہاتھوں کے پنجے زمین پر اس طرح رہیں کہ انگلیاں پھیلی ہوئی اور آپس میں ملی رہیں اور سب کا رخ قبلہ کی طرف ہو۔ اور کلائیاں زمین سے اونچی رہیں۔ پیٹ رانوں سے اور دونوں کہنیاں پسلیوں سے علیحدہ رہیں اور دونوں پاؤں کی انگلیاں اس طرح مڑی رہیں کہ ان کے سر قبلہ رخ ہوجائیں۔ عورتوں کے لئے پیٹ کو رانوں سے اور بازو کو بغل سے ملاکر رکھنا چاہئے۔

مسئلہ: رکوع سے اٹھتے وقت امام صرف سَمِعَ اللّہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہے اور جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو وہ صرف رَبّنَا لَکَ الْحَمْد کہے، اور جو تنہا پڑھے وہ ان دونوں کو کہے۔

مسئلہ: دونوں سجدوں کے درمیان اور التحیات و درود شریف پڑھتے وقت مردوں کے لئے بیٹھنے کا طریقہ یہ ہے کہ بایاں پاؤں بچھاکر اس پر بیٹھ جائیں اور دایاں پاؤں کھڑا رکھیں۔ دونوں گھٹنے قبلہ کی طرف رہیں۔ داہنے پاؤں کی انگلیاں اچھی طرح موڑ دیں کہ قبلہ رخ ہوجائیں اور دونوں ہاتھ رانوں پر اس طرح رکھیں کہ انگلیاں سیدھی رہیں۔ اور عورتوں کو دونوں پاؤں داہنی طرف نکال کر بیٹھنا چاہئے۔

وضاحت: نماز کی ادائیگی کے طریقہ سے متعلق مختلف فیہ مسائل میں ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے حضرت امام ابوحنیفہؒ اور علماء احناف کی قرآن وحدیث کی روشنی پر مبنی رائے کو اختیار کیا گیا ہے۔ ان مسائل کے دلائل کے لئے علماء احناف کی کتابوں کا مطالعہ کریں۔

مرتب: علامہ   ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی



جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو اکٹھے پڑھنے کا حکم

بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو اکٹھے پڑھنے کا حکم
نماز کی وقت پر ادائیگی سے متعلق آیات قرآنیہ اور متواتر احادیث کی روشنی میں مفسرین، محدثین، فقہاء وعلماء کرام کا اتفاق ہے کہ فرض نماز کو اس کے متعین اور مقرر وقت پر پڑھنا فرض ہے اور بلا عذر شرعی مقرر وقت سے تقدیم وتاخیر کرنا گناہ کبیرہ ہے۔
نماز کو وقت پر پڑھنے سے متعلق چند آیات:
اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا . سورة النساء  
بے شک نماز اہل ایمان پر فرض ہے جس کا وقت مقرر ہے۔(سورۃ النساء ۱۰۳)
حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ - نمازوں کی حفاظت کرو۔(سورۃ البقرۃ ۲۳۸)
 مفسر قرآن علامہ ابن کثیر ؒ اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ وقت پر نمازوں کو ادا کرنے کی حفاظت کا حکم فرماتے ہیں۔
وَالَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ یُحَافِظُوْنَؕ اور وہ لوگ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں (سورۃالمعارج۳۴) 
مفسر قرآن ابن کثیر ؒ اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ وہ لوگ نماز کے اوقات، ارکان، واجبات اور مستحبات کی حفاظت کرتے ہیں۔
فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَۙ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَۙ .
سو ان نمازیوں کے لئے بڑی خرابی ہے جو اپنی نماز میں کاہلی کرتے ہیں۔ (سورۃ الماعون۴ و ۵)
مفسرین نے تحریرکیا ہے کہ وقت پر نماز کی ادائیگی نہ کرنا اس آیت کی وعید میں داخل ہے۔
قرآن کریم (سورۃ النساء آیت ۱۰۲)میں نماز خوف کی کیفیت اور اس کے اصول وآداب بیان کئے گئے ہیں۔ متعدد احادیث میں نماز خوف کی کیفیت بیان کی گئی ہے جن سے واضح ہوتا ہے کہ میدان جنگ میں اور عین جنگ کے وقت صرف نماز کی کیفیت میں تخفیف کی گنجائش ہے لیکن وقت کو نظر انداز کرنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ امکانی حد تک وقت کی پابندی ضروری ہے۔ معلوم ہوا کہ اگر کفار سے جنگ ہورہی ہو اور اس وقت ذرا سی کاہلی بھی شکست کا سبب بن سکتی ہے تو اس موقع پر بھی دونمازوں کو جمع کرکے یعنی ایک کا وقت ختم ہونے کے بعد یا دوسرے کا وقت داخل ہونے سے قبل پڑھنا جائز نہیں ہے بلکہ نماز کو وقت پر ادا کیا جائے گا ، ورنہ وقت کے نکلنے کے بعد اسکی قضا کرنی ہوگی جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے غزوۂ احزاب کے موقع پر وقت پر ادائیگی نہ کرنے پر نماز کی قضا کی تھی۔
نماز کو وقت پر پڑھنے سے متعلق چند احادیث نبویہ :
نماز کے اوقات سے متعلق متعدد احادیث کتب حدیث میں موجود ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے دریافت کیا کہ کونسا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندیدہ ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: نماز کے وقت میں نماز پڑھنا۔ انہوں نے عرض کیا اس کے بعد کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ماں باپ کی خدمت کرنا۔ انہوں نے پھر عرض کیا کہ اس کے بعد کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
اسی طرح حضرت جبرئیل علیہ السلام کی امامت والی حدیث متعدد صحابۂ کرام سے مروی ہے جس میں مذکور ہے کہ ۲ روز حضرت جبرئیل علیہ السلام نے امامت فرماکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کو نماز پڑھائی۔ پہلے دن ہر نماز اول وقت میں پڑھائی اور دوسرے دن آخر وقت میں پڑھائی، پھر فرمایا کہ ہر نماز کا وقت ان دونوں وقتوں کے درمیان ہے۔ (ابوداود، ترمذی)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  ہمیشہ نماز کو وقت پر ادا فرماتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوۂ احزاب میں ایک روز شدت جنگ کی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز عصر فوت ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے غروب آفتاب کے بعد اس کی قضا پڑھی اور کفار کے خلاف سخت الفاظ میں بددعا فرمائی کہ ان لوگوں نے ہمیں نماز عصر سے مشغول رکھا، اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔ (صحیح بخاری باب غزوہ الخندق، صحیح مسلم)
غور فرمائیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے طائف کے سفر میں جب کہ آپ کو لہولہان کردیا گیا تھا، فرشتہ نے آپ کے سامنے حاضر ہوکر ان کو کچلنے کی پیش کش بھی کی مگر رحمۃ للعالمین نے ان کے لئے ہدایت کی ہی دعا فرمائی، مگر غزوۂ احزاب میں کفار کی مزاحمت کی وجہ سے نماز کے قضا ہوجانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس قدر صدمہ پہنچا کہ ان کے خلاف سخت سے سخت الفاظ میں بددعا فرمائی۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے بغیر کسی عذر کے دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھا اس نے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا۔ (ترمذی باب ما جاء فی الجمع بین الصلاتین)
اس حدیث کے ایک راوی کو امام ترمذیؒ نے ضعیف کہا ہے، تاہم قرآن وحدیث کے دیگر نصوص سے اس حدیث کے مضمون کی تایید ہوتی ہے۔ نیز امام حاکم ؒ نے ان کو حسن وقوی تسلیم کیا ہے۔
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد مروی ہے کہ نماز میں کوتاہی یہ ہے کہ ایک نماز کو دوسرے نماز کے وقت تک مؤخر کردیا جائے۔ (صحیح مسلم باب قضاء الصلاۃ الفائتہ)
جمع بین الصلاتین:
قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ہر نماز کو اس کے وقت پر ہی ادا کرناچاہیے۔ یہی شریعت اسلامیہ میں مطلوب ہے، پوری زندگی اسی پر عمل کرنا چاہئے اور اسی کی دعوت دوسروں کو دینی چاہئے۔ لیکن اگر کوئی شخص سفر یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے دو نمازوں کو اکٹھا کرنا چاہے تو اس سلسلہ میں فقہاء وعلماء کرام کا اختلاف ہے۔ فقہاء وعلماء کرام کی ایک جماعت نے سفر یا موسلادھار بارش کی وجہ سے ظہر وعصر میں جمع تقدیم وجمع تاخیر اسی طرح مغرب وعشاء میں جمع تقدیم وجمع تاخیر کی اجازت دی ہے۔ لیکن فقہاء وعلماء کرام کی دوسری جماعت نے احادیث نبویہ کی روشنی میں حقیقی جمع کی اجازت نہیں دی ہے۔ ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے مشہور تابعی وفقیہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی بھی یہی رائے ہے۔ ہندوپاک کے علماء کا بھی یہی موقف ہے۔ فقہاء وعلماء کی یہ جماعت‘ اُن احادیث کو جن میں جمع بین الصلاتین کا ذکر آیا ہے، ظاہری جمع پر محمول کرتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ظہر کی نماز آخری وقت میں اور عصر کی نماز اوّل وقت میں ادا کی جائے، مثلاً ظہر کا وقت ایک بجے سے چار بجے تک ہے اور عصر کا وقت چار بجے سے غروب آفتاب تک تو ظہر کو چار بجے سے کچھ قبل اور عصر کو چار بجے پڑھا جائے۔ اس صورت میں ہر نماز اپنے اپنے وقت کے اندر ادا ہوگی، لیکن صورت وعمل کے لحاظ سے دونوں نمازیں اکٹھی ادا ہوں گی، اسی طرح مغرب کی نماز آخری وقت میں اور عشاء کی نماز اوّل وقت میں پڑھی جائے، اس کو جمع ظاہری یا جمع صوری یا جمع عملی کہا جاتا ہے۔ اس طرح تمام احادیث پر عمل بھی ہوجائے گا اور قرآن وحدیث کا اصل مطلوب ومقصود (یعنی نمازکی وقت پر ادائیگی) بھی ادا ہوجائے گا۔
مؤخر الذکر قول چند اسباب کی وجہ سے زیادہ راجح ہے۔
نماز کے اوقات کی تحدید قطعی فرض ہے جو قرآن کریم کی بعض آیات ومتعدد متواتر احادیث سے ثابت ہے اور پوری امت کا اس پر اجماع ہے۔ جمع بین الصلاتین دو نمازوں کو اکٹھی پڑھنے سے متعلق احادیث اخبار آحاد ہیں۔ قرآنی آیات اور متواتر احادیث کا اگر بظاہر تعارض خبر آحاد سے ہو تو خبر آحاد میں تاویل کرنی چاہئے، لہذا ان اخبار آحاد کو جمع ظاہری (یعنی نماز ظہر کو آخر وقت میں اور نماز عصر کو اوّل وقت میں ادا کیا جائے) پر محمول کیا جانا چاہئے تاکہ کسی طرح کا تعارض بھی نہ رہے اور تمام احادیث پر عمل بھی ہوجائے۔بعض احادیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے زندگی میں حقیقی جمع بین الصلاتین صرف دو بار حج کے موقع پر کیا ہے:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو بے وقت نماز پڑھتے نہیں دیکھا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ہمیشہ وقت پر نماز پڑھتے تھے) مگر (حجۃ الوداع میں) مغرب وعشاء کو مزدلفہ میں اکٹھے پڑھا (یعنی عشاء کے وقت میں مغرب وعشاء اکٹھی پڑھیں)۔ (صحیح بخاری، کتاب الحج، من یصلی الفجر بجمع۔۔۔۔ صحیح مسلم)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہمیشہ نماز وقت پر پڑھتے تھے لیکن (حجۃ الوداع میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عرفات میں ظہر وعصر کو ظہر کے وقت میں جمع کرکے پڑھا اور مزدلفہ میں مغرب وعشاء کو عشاء کے وقت میں جمع کرکے پڑھا۔ (نسائی)
حجاج کرام کے لئے عرفات (مسجد نمرہ) میں ظہروعصر کی حقیقی جمع اور مزدلفہ میں مغرب وعشاء کی حقیقی جمع متواتر احادیث سے ثابت ہے اور پوری امت کا اس پر اجماع ہے، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے عرفات اور مزدلفہ کے علاوہ کبھی بھی حقیقی جمع کی صورت میں دو نمازوں کا اکٹھا کرکے نہیں پڑھا جیساکہ احادیث بالا میں مذکور ہے۔
بعض احادیث کے الفاظ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھنے سے متعلق احادیث کا تعلق جمع ظاہری سے ہے، مثلاً:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   سفر میں ظہر کو مؤخر اور عصر کو مقدم کرتے تھے، مغرب کو مؤخر اور عشاء کو مقدم کرتے تھے۔ (مسند امام احمد، طحاوی، مستدرک حاکم)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (ایک سفر میں )غروبِ شفق سے قبل سواری سے اترے، مغرب کی نماز پڑھی پھر انتظار کیا، غروب شفق کے بعد عشاء کی نماز ادا کی پھر فرمایا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کو جب (سفر میں) جلدی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اسی طرح عمل فرماتے جیسے میں نے کیا ہے۔ (ابوداود، باب الجمع بین الصلاتین ۔ دار قطنی)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہمراہ غزوۂ تبوک کے سفر میں نکلے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  ظہر وعصر کو اس طرح جمع کرتے، ظہر کو آخری وقت میں اور عصر کو اول وقت میں پڑھتے۔ (طبرانی اوسط)
حضرت ابو عثمان نہدی ؒ فرماتے ہیں کہ وہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کوفہ سے مکہ مکرمہ سفر حج پر جارہے تھے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ظہر وعصر کو اس طرح جمع کرتے کہ ظہر کو مؤخر کرتے اور عصر کو مقدم کرتے پھر دونوں کو اکٹھا ادا کرتے، مغرب کو مؤخر کرتے اور عشاء کو مقدم کرتے، پھر دونوں کو اکٹھا ادا کرتے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ باب من قال یجمع المسافر بین الصلاتین)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے مدینہ منورہ میں ظہر وعصر کو ملاکر پڑھا، حالانکہ یہ کسی خطرہ یا سفر کی حالت نہ تھی۔ حضرت ابو الزبیر ؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعیدؒ سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسا کیوں کیا؟ حضرت سعید ؒ نے جواب دیا کہ میں نے بھی یہ بات حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھی تھی تو انہوں نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا مقصد تھا کہ لوگ تنگی میں مبتلا نہ ہوں۔ (صحیح مسلم، الجمع بین الصلاتین فی الحضر)
اس حدیث میں جمع بین الصلاتین سے مراد ظاہری جمع ہے یعنی ظہر کو اس کے آخر وقت میں اور عصر کو اس کے اول وقت میں پڑھا۔ محدثین کرام حتی کہ علامہ شوکانی ؒ نے بھی اس حدیث سے جمع صوری ہی مراد لیا ہے۔ ان تمام احادیث سے واضح طور پر معلوم ہوا ہے کہ ظاہری جمع جائز ہے، لیکن حقیقی جمع صرف دو جگہوں پر ہے۔ حدیث کے پورے ذخیرہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے عمل سے صرف اُنہی دو نمازوں کے جمع کرنے کا ثبوت ملتا ہے جن کے اوقات آپس میں ملتے ہیں اور درمیان میں مکروہ وقت بھی نہیں ہے، جن کی وجہ سے ظاہری جمع پر عمل ہوسکتا ہے اور وہ صرف ظہر وعصر یا مغرب وعشاء کی نمازیں ہیں۔ باقی جن نمازوں کے اوقات باہم متصل نہیں ہیں، جیسے فجر وظہر یا اوقات تو متصل ہیں لیکن درمیان میں مکروہ وقت ہے جیسے عصر ومغرب یا عشاء وفجر کہ نصف شب کے بعد عشاء کا مکروہ وقت شروع ہوجاتا ہے۔ اگر حقیقی جمع جائز ہوتی تو پھر ظہر و عصر یا مغرب وعشاء کے ساتھ ہی خاص نہ ہوتی بلکہ عشاء وفجر یا فجر وظہر میں حقیقی جمع جائز ہوتی، اور اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے، معلوم ہوا کہ جن احادیث میں سفر وغیرہ کی وجہ سے دو نمازوں کے اکٹھے پڑھنے کا ذکر ہے اس سے مراد ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو اس کے اوّل وقت میں ادا کرنا ہے۔
بعض احادیث میں آتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے بعض دفعہ سفر یا خوف یا بارش کے عذر کے بغیر بھی دو نمازوں کو اکٹھا کرکے پڑھا۔ اگر دو نمازوں کی حقیقی جمع جائز ہوتی تو ان احادیث کی وجہ سے بغیر کسی عذر کے بھی دو نمازوں کو حقیقی جمع کرکے پڑھنا جائز ہوتا، حالانکہ اہل سنت والجماعت میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے ۔ معلوم ہوا کہ اس طرح کی احادیث سے مرادایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو اس کے اوّل وقت میں ادا کرنا ہے۔ غزوۂ تبوک کے طویل سفر میں یہی صورتِ عمل تھی کہ سفر بہت طویل تھا، موسم سخت گرم تھا، طہارت ووضو کے لئے پانی کی قلت تھی، اسلامی فوج کی تعداد تقریباً تیس ہزار تھی اتنے بڑے لشکر کا ان مذکورہ حالات میں باربار اترنا اور سوارہونا انتہائی مشکل تھا، اس لئے ظاہری جمع پر عمل کیا گیا یعنی ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو اس کے اوّل وقت میں ادا کیا گیا۔
غرضیکہ نماز کو وقت پر ہی ادا کرنا چاہئے سوائے ۹ ذی الحجہ کو مسجد نمرہ (عرفات) میں ظہر وعصر کی ادائیگی ظہر کے وقت میں اور مزدلفہ میں مغرب وعشاء کی ادائیگی عشاء کے وقت میں، لیکن اگر کوئی عذر شرعی ہے مثلاً سفر میں ہیں اور بار بار رکنا دشواری کا سبب ہے تو دو نمازیں ظاہری جمع کرکے ادا کرلی جائیں یعنی ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو اس کے اوّل وقت میں ادا کرلیا جائے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو وقت پر نماز کا اہتمام کرنے والا بنائے اور نماز میں کوتاہی کو تمام شکلوں سے حفاظت فرمائے، آمین۔
تحرير: علامہ محمد نجیب قاسمی سنبھلی ( بتغیر یسیر)

جمعرات، 24 جون، 2021

بعثت رسول کا مقصد

الحمد لله وكفى والصلاة والسلام على النبي المصطفى  وعلى آله وصحبه ومن اقتفى هديه ثم أمّا بعد.

ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر جناب محمد رسول اللہ ﷺ تک جتنےبھی نبی یا رسول اس جہاں فانی میں مبعوث ہوئے ان سب کی بعثت کا مقصد ایک اللہ کی عبادت کی دعوت رہا،اور اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کے سنہری کڑی کو جناب محمد ﷺ پر ختم کیا ،اور آپ کی بعثت کا مقصد بھی دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی طرح دعوت توحیدہی رہا،آپ ﷺنے انسانوں کو انسانوں کی عبادت و غلامی سے نجات دلا کر اللہ واحد و قہار کی واحدانیت اور کبریائی سے آشنا کرکے اُن کی جبینوں کو خالق و مالک حقیقی کے در پر جھکایا،لوگوں کے سامنے ان کے حقیقی رب کا تصور پیش کیا اور ان کو اس بات سے آگاہ کیا کہ ایک اللہ کے عبادت میں ہی ان کی دنیا و آخرت کی کامیابی مضمر ہے،دعوت دین کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ کو ان کی جائے پیدائش سے نکالا گیا، اڑھائی برس تک شعب ابی طالب میں محصور رکھا گیا، اُن کی ایسی آزمائش کی گئی کہ چشمِ فلک کے بھی آنسو نکل آئے۔ رحمۃللعالمینﷺ کو نازیبا کلمات کہے گئے، آپﷺ کو گالیاں دی گئیں، طائف کے بازاروں میں آپﷺ کے ابریشم سے بھی نازک جسمِ اطہر کو پتھروں سے مضروب کیا گیا اور جب نبی رحمت ﷺ ایک لمحے کے لیے کسی درخت کے سائے تلے آرام کے لیے رکتے تو آوارگان طائف پھر جسمِ اطہر کو تختۂ مشق ستم بنانے لگتے۔ غیراللہ کی نفی اوربت پرستی کے خلاف اعلان ِ بغاوت کرنے اور دعوتِ الی الحق دینے کی وجہ سے آپﷺکے اعزہ اور رفقائے کار کو وحشت ناک مصائب کی بھٹی میں جھونکا گیا۔دعوت دین میں آپ ﷺ کو انتہائی اندوہ ناک اور صبر آزما اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا اور ایسی ایسی اذیتیں جن کے محض تصور سے ہی انسان کا دل کانپ اٹھتا ہے۔

آپ ﷺ جس مقصد کے لئے کائنات میں نبی و رسول بنا کر بھیجے گئے آپ نے اس فريضہ نبوت کو کما حقہ ادا کیا اور بالکلی عرب میں چراغ توحید کو روشن کیا،اور تمام عرب کے دل میں توحید جب رچ بس گیا تو اللہ کے حکم سے رفیق اعلیٰ سے جا ملے،دن و رات گردش کرتے رہیں،آبادیاں بڑھتی رہیں اور تدریج با تدریج لو گوں کے دلوں میں ایک اللہ کا تصور توباقی رہا مگر عمل کے میدان میں لوگ شرک ،بدعت اور ضلالت و گمراہی کے دلدل میں پھنستے چلے گئے یہاں تک کے آپ ﷺ کی بعثت کا جو اصل مقصد تھا لوگوں نے فراش کر کے آپ ﷺ کی ذات مبارکہ کو ہی الوہیت کے صف میں لا کر کھڑا کردیا،اور لبیک یا رسول اللہ،اغثنی یا رسول اللہ کے نارے بلند ہونے لگے اورمحبت رسول کے نام پر امت میں مختلف انواع و اقسام کے شرکیات نے رواج پا لیا اور کہیں لا علمی تو کہیں جان بوجھ کر لوگوں نے ان شرکیات و بدعات کو ہی اصل دین سمجھ لیا۔

ذیل میں ہم ان شاء اللہ کتاب و سنت کی روشنی میں اللہ کے رسول ﷺ کی بعثت کے بعض مقاصد کا تذکرہ کر رہیں ہیں ۔

پہلا مقصد : ایک اللہ کی عبادت کی دعوت : اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ساری کائنات کے انسانوں اور جنوں کے لئے نبی اور رسول بنا کر مبعوث ،آپ کی بعثت جس زمانے میں ہوئی وہ زمانہ اور اس زمانے کے لوگ شرک اور ضلالت و گمراہی کے اندھیروں میں سرگرداں پھر رہے تھے،لہذا اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے آپ کو کلمہ لا الہ اللہ کی دعوت کا حکم دیا کہ لوگو کو اس بات سے آگاہ کر دیں کہ وہ جنکی بھی عبادتیں کر رہیں ہیں یہ سب کے سب باطل اور منگھڑت معبود ہیں ،ان کا حقیقی معبود ایک ہے اور وہ اللہ کی ذات ہے،اللہ تعالیٰ نے بعثت کے اس مقصد کو قرآن مجید میں بیان کیا اور فرمایا کہ { وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولا أَنْ اُعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ } ترجمہ : ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو ( سورۃ النحل /36) اور طاغوت کا اطلاق شریعت کی اصطلاح میں ہر اس چیز پر ہے جس کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جائے یا ہو و چیز ہے جو اپنی عبادت کے طرف دعوت دے، اللہ تعالیٰ نے عقیدہ توحید کی دعوت کے لئے تمام انبیاء کے بعثت کا مقصد بتایا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ {وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِنْ دُونِ الرَّحْمَانِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ}ترجمہ : اور ہمارے ان نبیوں سے پوچھو !جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا کہ ہم نے سوائے رحمٰن کے اور معبود مقرر کئے تھے جن کی عبادت کی جائے؟۔

دوسرا مقصد : تبشیر و انذار : نبی ﷺ کی بعثت کا ایک مقصد یہ ہیکہ جو لوگ دعوت توحید کو قبول کر کے اللہ اور اس کے رسول کے بیان کر دہ ضوابط کے مطابق زندگی گزاریں تو ان کو آپ ﷺ اللہ کی نعمتوں والی جنت کی خوشخبری سنائیں،اور اس کے بر عکس جو لوگ آپ کی دعوت قبول نہ کریں اوراپنی نفسانی خواہشات کے مطابق زندگی گزارکرشرکیات و خرافات میں مبتلا رہیں ان کو آپ اللہ کے تیار کردہ عذاب سے ڈرائیں جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے {وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ }ترجمہ : ہم تو اپنے رسولوں کو صرف اس لئے بھیجتے ہیں کہ وہ خوشخبریاں سنادیں اور ڈرادیں (سورۃ الکھف/56) مزید اللہ تعالیٰ نے آپ کی بعثت کے اس مقصد کو بیان کیا کہ {رُسُلا مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لأَلا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا

ترجمہ : ہم نے انہیں رسول بنایا ہے خوشخبریاں سنانے والے اور آگاہ کرنے والے تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر رہ نہ جائے اللہ تعالیٰ بڑٓ غالب اور بڑا با حکمت ہے۔( سورۃ النساء/165)۔

تیسرا مقصد : لوگوں کو زندگی کےبنیادی اختلاف سے نکالنے اور رضائے الہٰی کے مطابق زندگی گزارنے کی رہنمائی: اللہ کے رسول ﷺ کی بعثت کا ایک مقصد یہ بھی ہیکہ آپ نے لوگوں کے اصول زندگی میں پائے جانے والے تمام تر اختلافات کا حل وحی الہٰی کی روشنی میں پیش کیا، اور ان کو یہ بتایا کہ ان کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف ایک اللہ کی عبادت ہو اور اس عبادت کے ذریعہ رضاالہیٰ مقصود ہونی چاہئے،جیساکہ جب ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی میں غور و فکر کریں تو اس بات کا علم ہو جائیگا کہ صحابہ کرام کی زندگی کے ہر لمحات جہاں توحید و سنت کی اتباع تھی وہیں وہ نفوس قدسیہ صرف اور صرف رضائے الہٰی کے متلاشی تھے ،اللہ تعالیٰ نے آپ کی بعثت کے اس مقصد کی وضاحت اپنی کلام مزید میں یو ں بیان کیا کہ {وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلا لِتُبَيِّنَ لَهُمْ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ}

ترجمہ : اس کتاب کو ہم نے آپ پر اس لئے اتارا ہے کہ آپ ان کے لئے ہر اس چیز کو واضح کر دیں جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں اور یہ ایمان داروں کے لئے راہنمائی اور رحمت ہے۔(سورۃ النحل/64)۔

چوتھا مقصد : لوگوں کی تعلیم اور ان کا تزکیہ نفس :آپ ﷺ کی بعثت کا ایک اہم مقصد یہ ہیکہ اللہ رب العالمین نےجہاں آپ کو امام اعظم بنا کر مبعوث کیا وہیں آپ ﷺ کو معلم اعظم بنایا اور آپ نے لوگوں کو کتاب و حکمت کی تعلیم دی،ان تمام اعمال کی نشاندہی کی جو اللہ تعالیٰ سے قریب کرنے والی ہیں،وہیں آپ ﷺ نے ان تمام اعمال سے امت کو آگاہ کی اجو اللہ تعالیٰ سے دور اور جہنم کے قریب کرنے والی ہے،آپ نے لوگوں کو کتاب و حکمت کی تعلیم دی ،اور آپ ﷺ نے کتاب و حکمت کی تعلیم کے ذریعہ لوگوں کے اندر پائے جانے والے میل کچیل سے ان کے نفس کا تزکیہ کیا اور تاریخ اس بات کی شاہد ہیکہ اس تزکیہ نفس کی وجہ سے جو قوم تاریخ کے اوراق میں سب سے پچھڑی ہوئی اور پسماندہ اور غیر مہذب تصور کی جاتی تھی وہی قوم تاریخ کے پارینہ اوراق میں دینی اور معاشرتی طور پر سب سے کامیاب لکھی گئی،اللہ تعالیٰ نے آپ کی بعثت کے اس مقصد کو قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا کہ {هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الأُمِّيِّينَ رَسُولا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمْ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ

ترجمہ : وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے،یقینا ی اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔(سورۃ الجمعۃ /2)۔

پانچواں مقصد : اقامت دین،اختلاف سے روکنے اور اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کے لئے: اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو اور بالخصوص ہمارے نبی ﷺ کو یہ ایک عظیم مشن دیکر بھیجا کہ آپ اللہ کی وحدانیت پر دین کا قیام کریں لوگوں کو اس دین کی دعوت دیں،اس دین پر مکمل عمل کرنے کی تلقین کریں،اور لوگوں کو ان کے دینی و معاشرتی تمام تر معاملات میں ہر طرح کے اختلافات سے دور رہنے کی تلقین کریں،اور جب آپسی اختلاف ہو جائے تو اللہ کی وحی کے ذریعہ فیصلہ کرکے ان اختلافات کا حل کریں کیونکہ اللہ کی وحی کے علاوہ کہیں اور سے فیصلہ کرنا طاغوت کی حاکمیت قبول کرنا ہے اور شریعت نے اسے شرک اکبر سے تعبیر کیا ہے،بعثت کی اس مقصد کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں بیان کیا کہ{شَرَعَ لَكُمْ مِنْ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ} ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کر دیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دی تھا اور جو (بذریعہ وحی)ہم نے تیری طرف بھیج دی ،اور جس کی تاکید ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام ) کو دیا تھ اکہ اس دین کو قائک رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا جس چیز کی طرف آپ انہیں بلا رہے ہیں وہ تو(ان) مشرکین پر گراں گزرتی ہے اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بناتا ہے اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرے وہ اس کی صحیح رہنمائی کرتا ہے۔(سورۃ الشوری/13)۔مزید آپ ﷺ کی بعثت کا یہ مقصد قرآن مجید ایک اور آیت کریمہ سے ہوتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے{إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ وَلا تَكُنْ لِلْخَائِنِينَ خَصِيمًا

ترجمہ : یقینا ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ تم لوگوں میں اس چیز کے مطابق فیصلہ کرو جس سے اللہ نے تم کو شناسا کیا ہے اور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو۔(سورۃ النساء/105)۔

چھٹا مقصدلوگ آپ کی سیرت طیبہ کو اپنے لئے اسوہ اور نمونہ سمجھیں : آپ ﷺ کی بعثت کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہیکہ ہر مسلمان اپنی زندگی کے تمام تر مراحل میں آپ کو اپنے لئے اسوہ و نمونہ سمجھے اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر آپ کی سیرت طیبہ کی روشنی میں عمل پیرا ہو،کیونکہ آپ کی اتباع میں ہی دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرا نی مضمر ہے،کیونکہ آپ کی اتباع و تابعداری در حقیقت اللہ کی اتباع و تابع داری ہے،لہذا ہر مسلمان کو اس بات کا عمل ہونا چاہئے کہ اس کائنات کے اندر اگر کوئی ذات ہمارے لئے اسوہ و نمونہ ہو سکتی ہے اور کسی کی اتباع و تابعداری کی جاسکتی ہے تو وہ صرف اور صرف اللہ کے رسولﷺ کی ذات مبارکہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بعثت کی اس مقصد کو اپنی کتاب عزیز میں یوں بیان کیا کہ {لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا}

ترجمہ : یقینا تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے،ہر اس شخص کے لئےجو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔ (سورۃ الأحزاب:21)۔

ساتواں مقصد : بندوں پر اقامت حجت کے لئے:اللہ رب العالمین نے نبی اکرم ﷺکو ساری کائنات کے لئے اپنا آخری نبی و رسول بنا کر مبعوث کیا ب آپ کے بعد کوئی نبی یا رسول اس کائنات میں قیامت تک نہیں آنے والا اور اگر کسی نے اپنی نبوت و رسالت کا دعوہ بھی کیا تو وہ کائنات کا سب سے بڑا کذاب و دجال شمار کیا جائے گا،اللہ کے رسول ﷺ کی بعثت کا ایک اہم مقصد یہ ہیکہ آپ کو بھیج کراللہ تعالیٰ نے اتمام حجت کر دیا تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ {لَوْلا أَرْسَلْتَ إلَيْنَا رَسُولاً فَنَتَّبِعَ آياتكَ مِن قَبْلِ أَن نَّذِلَّ ونَخْزَى

ترجمہ : اے ہمارے پروردگار تونے ہمارے پاس اپنا رسول کیوں نہ بھیجا؟ کہ ہم تیری آیتوں کی تابعداری کرتے اس سے پہلے کہ ہم ذلیل و رسوا ہوتے۔(سورۃ طہ/134)،اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی ایک دوسری آیت کریمہ میں بعثت کی اس مقصد کو یوں واضح کیا کہ {رُسُلا مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لأَلا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا} ترجمہ : ہم نے انہیں رسول بنایا ہے خوشخبریاں سنانے والے اور آگاہ کرنے والے تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر رہ نہ جائے اللہ تعالیٰ بڑٓ غالب اور بڑا با حکمت ہے۔( سورۃ النساء/165)۔

یہ وہ بعض مقاصد ہیں جن کےبر آوری کے لئے اللہ کے رسول ﷺ کو اللہ تعالیٰ ے نبوت و رسالت دیکر پوری کائنات کی طرف بھیجا ،اور افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑھتا ہیکہ آج امت اسلامیہ کی اکثریت نبی ﷺ کی بعثت کےاہم مقاصد کو بھول چکی ہے،جس کا سب سے بڑا خسارہ آج ہم نبی کائنات کے نام پر ہونے والے بدعات و خرافات کو دیکھتے ہیں۔۔
اللہ تعالی ٰ ہم سب کو کتاب و سنت کی صحیح سمجھ دے  اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔ آمین

شیخ اکبر حسین اورکزئی 

جمعرات، 17 جون، 2021

سورۃ القمر آیت نمبر 17

 وَلَقَدۡ يَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّكۡرِ فَهَلۡ مِنۡ مُّدَّكِرٍ ۞

ترجمہ:   اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے ؟

تفسير :: ( ی س ر ) الیسر کے معنی آسانی ار سہولت کے ہیں یہ عسر کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے ۔ اور سختی نہیں چاہتا ۔ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق 7] خدا عنقریب تنگی کے بعد کشائش بخشے گا ۔ وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف 88] بلکہ اس سے نرم بات کہیں گے ۔ فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات 3] پھر نر می سے چلتی ہیں ۔ تیسر کذا واستیسرکے معنی آسان ہو نیکے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ [ البقرة 196] اگر رستے میں روک لئے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو کردو ۔ فَاقْرَؤُا ما تَيَسَّرَ مِنْهُ [ المزمل 20] تو جتنا آسانی سے ہو سکے پڑھ لیا کرو ۔ اسی سے الیسرت المرءۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی عورت کے سہولت سے بچہ جننے کے ہیں ۔ یسرت کذا کے معنی کسی کام آسان اور سہل کردینے کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ [ القمر 17] اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ۔ فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ مریم 97] اے پیغمبر یہ قران تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ہے ۔ الیسری اسم بمعنی یسر قرآن پاک میں ہے : فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرى[ اللیل 7] اس کو ہم آسان طریقے کی توفیقی دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرى [ اللیل 10] اسے سختی میں پہنچا ئنگے ۔ میں عسریٰ کے ساتھ تیسیر کا لفظ بطور تحکم لایا گیا ہے جس طرح کہ آیت : ۔ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذابٍ أَلِيمٍ [ آل عمران 21] میں عذاب کے متعلق بشارت کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ الیسیر والمیسور سہل اور آسان قرآن پاک میں ہے : ۔ فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً

اخوکم فی اللہ : اکبر حسین اورکزئی راونڈا افریقہ

18 جون 2021