وَلَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ اَنِ اقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِيَارِكُمْ مَّا فَعَلُوْهُ اِلَّا قَلِيْلٌ مِّنْھُمْ ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ فَعَلُوْا مَا يُوْعَظُوْنَ بِهٖ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ وَاَشَدَّ تَثْبِيْتًا (66) وَّاِذًا لَّاٰتَيْنٰھُمْ مِّنْ لَّدُنَّآ اَجْرًا عَظِيْمًا (67) وَّلَهَدَيْنٰھُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًا (68)
ربط :
گزشتہ درس میں رسول خدا کی
اطاعت کی فرضیت کا تذکرہ تھا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کی مرضیات اور نامرضیات معلوم
کرنے کا واحد ذریعہ اللہ کے نبی اور رسول ہوتے ہیں ، لہٰذا ان کا اتباع ضروری ہے۔
اس کے بغیر نہ خدا کی رضا حاصل ہو سکتی ہے اور نہ انسان کامیاب ہو سکتا ہے۔ اور یہ
بھی بیان فرمایا تھا کہ رسول ﷺ کے فیصلوں پر ناخوش ہونا عدم ایمان کی علامت ہے
اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول
کی اطاعت کے فوائد بیان ہور ہے۔ اور ساتھ ساتھ منافقین کے غلط رویے کی مذمت بھی
ہے۔
ابتلامن اللہ
ارشاد ہوتا ہے (وَلَوْ
اَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ) اور اگر ہم لکھ دیتے یعنی ان منافقین پر فرض
کردیتے۔ کتب کا لغوی معنی لکھنا ہوتا ہے مگر مطلب یہ ہے کہ فرض قرار دیتے۔ جیسے
دوسرے مقام پر فرمایا (کتب علیکم القتال) تم پر لڑائی فرض کی گئی
ہے۔
یا (کتب علیکم
الصیام)
تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں۔
اسی طرح فرمایا کہ اگر ان پر فرض کردیا جاتا (اَنِ
اقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ) کہ اپنے آپ کو قتل کرو۔ یعنی خودکشی کرلو۔ جیسا
کہ بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا جب انھوں نے بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ تو موسیٰ
(علیہ السلام) نے ان سے کہا تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے
، لہٰذا اب اس کا ازالہ یہ ہے کہ اپنے رب سے توبہ کرو اور ( فاقتملوا
انفسکم ) یعنی اپنی جانوں کو ہلاک کرو۔
تو فرمایا اگر ہم تم پر بھی خودکشی فرض کردیتے (اَوِ
اخْرُجُوْا مِنْ دِيَارِكُمْ)یا اپنے گھروں سے نکل جانے کو ضروری قرار دیتے۔ (مَّا
فَعَلُوْهُ اِلَّا قَلِيْلٌ مِّنْھُمْ) تو وہ ایسا نہ
کرتے مگر ان میں سے بہت تھوڑے لوگ۔
مفسرین کرام اس آیت کی
تفسیر میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ(اَنِ
اقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ) سے مراد جہاد
ہے اور (اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ
دِيَارِكُمْ)سے
مراد ہجرت ہے۔ مگر یہ دونوں چیزیں منافقین کے لیے بھاری ہیں۔ وہ تو اللہ اور اس کے
رسول کے فیصلہ کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں وہ جہاد اور ہجرت جیسے مشکل امور
کیسے انجام دینگے ، حالانکہ اسلام نے انھیں فرض قرار دیا ہے اسی لیے فرمایا کہ اگر
اللہ تعالیٰ ان دو باتوں کا حکم دیتا ہے تو اس پر بہت قلیل تعداد عمل پیرا ہوتی۔
منافقین کی اس کمزوری کا
تذکرہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا(وَلَوْ اَنَّھُمْ
فَعَلُوْا مَا يُوْعَظُوْنَ بِهٖ) اگر یہ
لوگ ہمارے حکم کی تعمیل کرلیتے ہیں یعنی جس بات کی نصیحت کی جا رہی ہے۔ اسے کر
گزرتے ، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ، اپنے تمام معاملات رسول خدا کے پاس
لاتے ، قرآن و سنت کو اپنی آخری پناہ گاہ بنا لیتے ، تو فرمایا (لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ) یہ ان کے لیے بہتر ہوتا۔
یعنی اگر اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل پیرا ہوجاتے دنیا میں بھی کامیابی حاصل ہوتی
اور آخرت کی فلاح تو بہرحال یقینی ہے(وَاَشَدَّ تَثْبِيْتًا) اورحکم دین
کی تعمیل پر پختگی کی دلیل ہوتا۔
دنیا و آخرت کی کامیابی
فرمایا
اگر یہ لوگ احکام خداوندی پر عمل پیرا ہوجائیں (وَّاِذًا لَّاٰتَيْنٰھُمْ
مِّنْ لَّدُنَّآ اَجْرًا عَظِيْمًا) تو ہم انھیں اجر عظیم عطا کرتے۔ یعنی اگر
یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی تابعداری کرتے ، تقویٰ کی راہ اختیار کرتے
، ہر معاملہ میں شریعت سے راہنمائی حاصل کرتے اور تمام معاملات میں دین ہی کو مقدم
رکھتے تو آخرت میں اللہ تعالیٰ انھیں بہت بڑا صلہ عنایت فرماتے ۔ (وَّلَهَدَيْنٰھُمْ
صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًا )اور انھیں
دنیا میں صراط مستقیم کی طرف راہنمائی بھی حاصل ہوتی۔ مقصد یہ کہ تعمیل حکم کی
صورت میں انھیں دنیا میں صراط مستقیم حاصل ہوجاتا ، جس پر چل کر وہ کامیاب زندگی
گزار سکتے ، اور پھر آخرت میں اجر عظیم کے مستحق ہوتے۔ اس طرح دنیا اور آخرت دونوں
مقامات پر کامیاب و کامران ہوتے دوسرے مقام پر فرمایا ” والذین اھتدوا زادہم ہدیً “ جو کوئی ہدایت
کے راستے پر چل نکلتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہدایت میں اضافہ فرما دیتا ہے۔( صِرَاطًا
مُّسْتَقِيْم
)
ہر مومن کا مطلوب و مقصود ہے جس کے حصول کے لیے ہر نماز میں دعا کی جاتی ہے ” اہدنا
الصراط المستقیم “
اے
اللہ ! ہمیں صراط مستقیم پر چلا۔ جسے یہ چیز حاصل ہوجائے اس کے لیے بہت بڑی
کامیابی ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ صراط مستقیم اس شخص کو حاصل ہوتا ہے
جو اس کے احکام پر عمل پیرا ہوجاتا ہے۔