منگل، 27 ستمبر، 2016

کامیابی کی ضمانت خواہشات نہیں حقائق ہیں

از قلم: مولاناسید ابوالحسن علی ندوی (شمارہ 537)
یہ ’’وأتواالبیوت من ابوابھا‘‘ ساری زندگی دین و دنیا سب پر حاوی ہے کہ اللہ نے اورفطرت انسانی نے، فطرت سلیم نے سالوں سال کے تجربے سے جو اصول مقرر کئے ہیں اور جو اس کے مداخل اور مخارج ہیں اگر کوئی شخص اس کا پابند نہ ہو، ان کا کوئی احترام نہ کرے وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا، اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتا۔ ایک شخص کہے کہ حروف تہجی کا جھگڑا عجیب ہے، ا،ب،ت کا کون جھگڑا مول لے کہ پہلے الف، ب، ت، پڑھے ہم براہ راست پڑھنا شروع کردیتے ہیں، تو وہ کتنا ہی ذہین ہو کبھی اس کو پڑھنا نہیں آئے گا۔ جو ا،ب،ت نہیں پہچانتایا،A,B,C,D نہیں پہچانتا وہ کبھی ایک سیکنڈ نہیں بول سکتا، آپ کسی وقت بھی تجربہ کرکے دیکھئے کہ آپ کے زمانے کا کوئی بقراط سقراط ہو جو پڑھا ہوا نہ ہوخواندہ نہ ہو، آپ اس کو ایک کتاب دیجئے اردو کی دیجئے یا انگریزی کی دیجئے یا عربی کی دیجئے یا یہیں کی کنڑزبان کی دے دیجئے اورکہئے کہ رات بھر نہیں آپ کو ایک مہینہ کی مہلت دی جاتی ہے آپ کے پاس کوئی دوسرا آدمی نہیں جائے گا،یہ کتاب ہے اور آپ ہیں، ہم آپ کو کمرے میں بند کردیتے ہیں تالہ لگا دیتے ہیں، کھانے پینے کا سب سامان کھڑکی سے ہم پہنچاتے ہیں اور وہاں پہلے سے موجود زندگی کی سب ضروریا ت ہیں، ایک مہینہ نہیں چھ مہینے آپ اس میں رہئے اور یہ صفحہ حل کردیجئے اس صفحہ کو آپ پڑھ دیجئے اور اس نے حروف تہجی نہیں پڑھے تو آپ یقین مانئے کہ جب وہ نکلے گا تو ویسے ہی جاہل ہوگاجیسے وہ داخل ہواتھا۔اس لئے کہ’’وأتوا البیوت من ابوابھا‘‘ پر اس نے عمل نہیں کیا، حروف تہجی بڑے حقیرہیں کیاحقیقت ہے، ا،ب، ت، بچوں کو پڑھایا جاتا ہے لیکن بڑے بڑے علامہ امام غزالیؒ، امام رازیؒ بھی محتاج تھے کہ حروف تہجی پڑھیں، پھر احیاء علوم الدین اور تفسیر رازی تک پہنچیں ،وہ احیاء علوم اور تفسیر رازی تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے اگر انہوں نے حروف تہجی نہ پڑھے ہوتے، ایسے ہی ہر فن ہر علم کا، ہر شعبہ کا ایک قانون ہے اس قانون پر چلنا ہوگا۔ یہ ہمارا علم اول تو مجرد علم ہے، مجرد علم کا حال بھی یہی ہے کہ بہت سی چیزیں تو اس میں مشترک ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری دنیا الگ ہے ان کی دنیا الگ، لیکن آپ دیکھیں گے تو زیادہ حصہ دنیاوی اور دینی تعلیم میں مشترک ہے، مثلاً درجہ بدرجہ پڑھنا، استاذ سے پڑھنا، محنت کرنا، استاذکا احترام کرنا۔
 علم دین کا امتیاز
کچھ چیزیں تو مشترک ہیں لیکن پھر اس کے بعد ایک سرحد ایسی آتی ہے، ایک ایسی لکیر آتی ہے جہاں سے ہماری سرحد الگ ہوجاتی ہے وہ کیا؟ مثلاً اللہ کی رضا کی طلب ہو، اخلاص ہو، دعاء ہو خدا سے کہ اے اللہ! ہم سے تو جو محنت ہو سکتی ہے ہم کریں گے اصل تو دینے والا ہے علم کا۔
حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کا شعر یاد کیجئے:
شکوت الی وکیع سوء حفظی
فاوصانی الی ترک المعاصی
بان العلم نور من الہ
ونور اللّٰہ لایعطی لعاصی
میں نے اپنے استاذ وکیع سے شکایت کی میرا حافظہ کمزور ہے، انہوں نے کہا کہ گناہوں سے اجتناب کرو، گناہوں سے دور رہو اس لئے کہ علم جو اللہ کا نور ہے اللہ کا نور نا فرمان کو نہیں دیاجاتا،یہاں سے سرحد الگ ہوجاتی ہے۔یہ ہمارا علم جو ہے جس علم کے طالب علم ہیں۔ یہ علم خاص آداب رکھتا ہے، یہ پہلوانی کا علم نہیں ہے کہ آدمی کہے کہ کون ہوتا ہے استاذ، کیا کتابوں کا ادب، کیا پرانی دقیانوسی باتیں کرتے ہو، اللہ نے ہمیں ذہن دیا ہے، حافظہ دیا ہے، محنت صحت ہماری اچھی ہے، ہم سب کرکے دکھادیں گے، نہیں ایسا نہیں بعض لوگ کم صلاحیت کے ساتھ ایسے کامیاب ہوگئے ہیں کہ دنیا میں ان کا ڈنکا بج گیا، مجھے یاد ہے کہ لاہور میں ایک صاحب تھے انہوں نے غلط لائن اختیار کی تھی اور کالج میں پڑھاتے تھے ان کی ذہانت اور معقولات میں ان کی دسترس مسلّم تھی یہاں تک کہ ڈاکٹر اقبال بھی ان کو مانتے تھے لیکن جو فیض ان سے پہنچنا چاہئے تھا، جو علوم و سنت کا اجرا ان سے ہونا چاہئے تھا اور جو اشاعت ہونی چاہئے تھی جو ان لوگوں میں بیٹھ کر خشیت پیدا ہونی چاہئے تھی وہ لوگوں میں پیدا نہیں ہوئی، کہنے لگے کہ مولوی حسین احمد مدنی توہمارے ساتھ تھے تو ان کا شمار غبی طالب علموں میں تھا وہ کچھ وہاں نمایاں نہ تھے، یہ بڑے نمایاں تھے ان سے کیا فیض پہنچا ذہانت کے باوجود؟ایسے ہی ایک صاحب کہنے لگے:ارے مولوی الیاس تو جب دیکھو نفلیں پڑھتے تھے، پڑھنے کے زمانے میں نفلیں پڑھتے تھے مولوی الیاس صاحب نے کیا کر دکھلایا، بڑے تجربے کی بات بتاتا ہوں تھوڑی صلاحیت سے وہ طریقہ اختیار کر کے ’’وأتواالبیوت من ابوابھا‘‘ پر عمل کرکے آدمی وہاں پہنچ سکتا ہے جہاں وہ لوگ جن کو اپنی ذہانت پر ناز ہے اور اپنے قوت مطالعہ پر اور محنت پر، وہ نہیں پہنچ سکتے، ان کے پڑھنے پڑھانے میں برکت نہیں ہوگی کہ لوگوں کو نفع پہنچے، علم کے ساتھ سنتوں کا اجراء ہو،بدعات کا محو ہو، معصتیوں سے نفرت پیدا ہو، طاعت میں رغبت پیدا ہو، نور آئے ،یہ بات پیدا نہیں ہوگی۔ یہ بات جب پیدا ہوگی کہ آدمی اس طریقہ پر عمل کرے جو استاد بتائے۔ ایک صاحب تھے بہت بڑے علامہ ، شام کے علامہ بیطار، کہنے لگے کہ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ہم لوگ اپنے استاد کے پاس نہیں جاسکے، بڑی سخت سردی تھی ،سردی شام میں ہوتی ہے، برف پڑتی ہے کہنے لگے: ہم مجبور ہوگئے، دوسرے وقت گئے تو کہنے لگے: کیوں نہیں آئے، ہم نے کہا سردی بہت تھی، اوپر سے ایک گھڑا پانی اور ڈال دیا کہنے لگے کہ یہ سردی ہے، کہنے لگے کہ ہم لوگوں نے برداشت کیا اور کوئی شکایت نہیں کی اور پھر جانے لگے اب وہ علامہ بیطار بن گئے، انہوں نے خود سنایا یا ایسے ہی ایک صاحب نے ان کے ہم عصروں میں سے سنایا، تو یہ اس زمانہ کا طریقہ تھا کہ استاد خدمت بھی لیتے تھے اور پڑھاتے بھی تھے اور پھر استاد استا د ہی نہیں ہوتا تھا ایک طرح کا پیر ہوتا تھا، اس کے پاس رہتے کہ نماز کیسے پڑھتا ہے، کیا خشوع و خضوع ہے، سنتوں کا کہاں تک اہتمام کرتا ہے، مسجدآتا ہے تو پہلا قدم کون سا رکھتا ہے، نکلتا ہے تو کون ساقدم نکالتا ہے، یہ باتیں سیکھتے تھے استادوں سے اور اب یہ باتیں کم ہوگئیں۔
بس وہی بات ہے کہ ’’ وأتواالبیوت من ابوابھا‘‘ کہ بیت علم میں باب علم سے داخل ہو، باب علم کیا ہے وہی قواعد و ضوابط پر چلنا، احترام کرنا، نظام کے ساتھ رہنا،مطالعہ دیکھنا، محنت کرنا۔
 بس چندباتیں ہی لمبا قصہ نہیں ہے، اگر ان پر عمل کیا جائے تو آج بھی اللہ کا قانون یہی ہے جو سیکڑوں ہزاروں برس پہلے تھا۔

ہفتہ، 24 ستمبر، 2016

اے نوجوان وطن

اے نو جوانانِ وطن

تحریر : مفتی محمد تقی عثمانی صاحب 
ایک زمانہ تھا جب کلام پاک کا تذکرہ اور احادیث نبوی کا درد ہمارے دلوں کو متاثرکرتا تھا اور جب ہمارے علماء کرام اسلام کی حقانیت اور اس کے دین فطرت ہونے کے شواہد و براہین کا ذکرکرتے تھے تو تمام مسلمان خواہ وہ جوان ہوں یا ضعیف ان ارشادات گرامی سے پوری دلجمعی اور پوری طمانیت کے ساتھ لطف اندوز ہوتے تھے۔ لیکن اسلام سے یہ محبت، پیغمبر اسلام سے یہ عقیدت اور اسلامی عقائد واصولوں سے یہ نسبت اب ایک داستان پارینہ معلوم ہوتی ہے اور ہماری نوجوان نسل مغربی علوم و فنون، مغربی تہذیب ومعاشرے اور غیر اسلامی تعلیمات وتحریکات کے چکر میں اس طرح پھنس چکی ہے کہ اب ہم اسلام کی سچی اور صداقت آمیز باتوں کو سننے اور اسلام کے فطری اور حقیقی جذبات کی پذیرائی کرنے کے بجائے ان کا مذاق اُڑانے لگے ہیں۔ ہمارے ذہنوں پر شکوک وشبہات کی گرد چھا چکی ہے اور اب ہم عقائد کو دلیلوں کی کسوٹی پر کسنے اور حقیقتوں کو فریب کے پیمانہ سے ناپنے میں کوئی عار اور تکلف محسوس نہیں کرتے آج کے مسلمان یہ نہیں جانتے کہ کہ تک لاکھوں کروڑوں مسلمانوں نے اسلامی نظام کے لئے کتنی عظیم قربانیاں دی تھیں۔ انہیں اس بات کا مطلق احساس نہیں کہ یہ قربانیاں موجودہ نسل سے مزید قربانیوں کی طالب ہیں۔ آج ہم سوشلزم، کمیونزم، مادیت اور لادینیت کے علمبردار بنے ہوئے ہیں اور اسلام کا نظام حق عدم اور نظام مساوات ہمیں ناقابل عمل، ناقابل بھروسہ اور ناقابل قبول نظر آتا ہے۔ آج اور کل کے مسلمانوں میں یہ بُعد اور تضاد بلا وجہ نہیں، یقینی طور پر اس کے متعدد اسباب ہیں اور ان میں سب سے اہم سبب یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اسلامی معاشرہ نہیں رہا۔ اب ہمارے ہاں نہ بزرگوں کا احترام ہے نہ والدین کی عزت، نہ بڑوں کا لحاظ ہے نہ چھوٹوں سے پیار۔ ایک ایک کرکے ہم اسلام کے تمام اعلیٰ اقدار اور اونچے اُصولوں کو فراموش کرچکے ہیں۔ اس لئے اگر ہمارے علماء کرام ہم کو دوبارہ اسلام کے نظام حیات، اسلام کے نظام اقتصادیات اور اسلام کے ضابطہ حیات کی طرف واپس لے جانا چاہیں تو ہمارے نوجوانوں کے ذہن اور فکر میں ان کی باتیں ہرگز نہیں آئیں گی۔ نوجوانوں اور علماء کے درمیان ایک بڑی خلیج حائل ہے۔ ایسی خلیج جو معلمین کو متعلمین سے، شاگردوں کو اساتذہ سے بچوں کو والدین سے اور چھوٹوں کو بڑوں سے متنفر کردیتی ہے۔ ان ناگفتہ بہ اور ناقابل بیان اور ناسازگار حالات کی اصلاح کے لئے ادارۂ جنگ نے نوجوان نسل کے نمائندوں کو علماء کرام کے روبرو لاکھڑا کیا اور اس بات کی کوشش کی کہ آج کی نوجوان نسل میں اسلام، پیغمبر اسلام، ارکان اسلام اور شعائر اسلامی کے بارے میں جو شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں ان کو افہام وتفہم کے جذبہ کے تحت دور کیا جائے۔ چنانچہ ہماری اس پہلی کوشش میں اسلامی مشاورتی کونسل کے رکن مولانا محمد تقی عثمانی اور نوجوان نسل کے پانچ نمائندوں کی بات چیت کی تفصیلات پیش کی جارہی ہیں جن میں اسلام اور حالات حاضرہ کے تعلق سے شکوک وشبہات اور شکایات کے مکمل اور مفصل ازالہ کی کوشش کی گئی ہے۔ جس کا سلسلہ ان شاء اللہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ اسلام کے عالمگیر اُصول آفاقی ہیں۔ اور اسلام کا پیغام ہر دور کے مسائل اور مشکلات کا فطری اور سائنسی حل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ہم اسلام کے بارے میں مشرق ومغرب کی تمام سازشوں کا اور تحریکوں کا قلع قمع کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اسلام کے بارے میں وقتاً فوقتاً پیدا کئے جانے والے معاملات کو اس کے صحیح تاریخی اور انسانی پس منظر پیش کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ اسلام ہی کی نہیں انسانیت کی بھی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ ہم نے محض اس اہم موضوع کے ساتھ انصاف کرنے کے لئے نوجوان نسل اور طلبہ برادری کے لئے ایک الگ اور مستقل سلسلہ مخصوص کیا جس کا مقصد یہ ہے کہ اسلام اور نظام اسلام کے بارے میں میں ہماری نوجوان نسل کے ذہن میں جو شکوک وشبہات جنم لے چکے ہیں یا آئندہ جنم لیں ان کو نوجوان اور علماء کرام کے باہمی مذاکروں اور مذاکرات کے ذریعہ دور کیا جائے اور آج کا یہ انٹرویو جیسا کہ اوپر مذکور ہوچکا ہے اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ ہمارے نوجوان ہماری اس سعی اور کاوش سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے شکوک وشبہات کے سلسلے میں ہمیں پوری طرح اعتماد میں لینے کی کوشش کریں گے اور اس سلسلے میں کسی قسم کے تردد اور ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیں گے۔ ہم یقین دلاتے ہیں کہ اس ضمن میں جو سوالات ارسال کئے جائیں گے خواہ اردو میں یا کسی اور زبان میں خواہ ان پر کسی کا نام تحریر ہو یا نہ ہو، پروگرام میں شامل کئے جائیں گے۔ اس سلسلے میں ٹیلیفون پر بھی سوالات نقل کرائے جا سکتے ہیں۔ یہ پروگرام صرف کراچی کے طلبہ تک ہی محدود نہیں ہوگا بلکہ اس میں ملک کے چاروں صوبوں کے نوجوان سرگرمی سے حصہ لیں گے۔ اس پروگرام میں جو طلبہ شریک ہونا چاہتے ہیں وہ ہمیں لکھیں ہم ان کو علماء کرام سے بات چیت کا موقع بھی دیں گے اور اس کے لئے تمام صوبوں کے طلبہ کا انتخاب کریں گے۔ اور ان پروگراموں کو قارئین کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ مگر چونکہ طلبہ لاکھوں کی تعداد میں ہیں اور ہر طالب علم اس میں براہ راست حصہ نہیں لے سکتا اس لئے وہ اس پروگرام میں شمولیت پروگرام کے ذریعہ کرسکتا ہے۔ اس لئے اپنے ذہنوں کے تمام شبہات اور شکوک کو لکھ کر ہمیں جلد ارسال کیجئے تاکہ ہم آئندہ ملاقات میں اس کا حل پیش کرسکیں۔ (ادارہ۔ اے نوجوانانِ وطن۔ روزنامہ جنگ، کراچی)
سوال: ہم نے یہ کتابوں میں پڑھا کہ اسلام ایک فطری مذہب ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ وہ ہر زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر اس کے برعکس ہم یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ دور میں انسان کی جو فطرت ہے وہ اسلام سے ہٹ اور لوگ اسلام سے ہٹ گئے ہیں۔
جواب: دیکھئے! جس چیز کا نام انسان کی فطرت ہے وہ زمانے کے بدلنے سے بدلا نہیں کرتی وہ ہمیشہ ایک ہی ہے۔ آپ کے ذہن میں جو اُلجھن ہے وہ دراصل فطرت کا صحیح مفہوم واضح نہ ہونے کی بناء پر ہے اس لئے پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ ’’فطرت‘‘ کسے کہتے ہیں؟ یہ دراصل عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہیں: پیدائش، پیدا کرنا، اور انسان کی کسی چیز کے فطری ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا تو جو جو چیزیں اس کی سرشت میں اس طرح داخل فرمادیں کہ وہ کسی بھی حالت میں اس سے الگ نہ ہوسکیں وہ اس کے فطری اُمور ہیں اور اسلام کے فطری دین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے جتنے عقائد ہیں، جتنی تعلیمات ہیں جتنے احکام ہیں وہ سارے کے سارے انسانی فطرت کے مطابق ہیں اور کوئی حکم بھی ایسا نہیں جو انسان کے فطری تقاضوں کی بالکلیہ نفی کرتا ہو۔ بلکہ اس کے تمام احکام میں انسانی فطرت کی پوری رعایت موجود ہے۔ مثلاً یہ انسان کی فطرت کا تقاضا ہے کہ اسے بھوک لگتی ہے، پیاس لگتی ہے وہ فطرتاً دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہتا ہے اور خاندانی نظام سے مربوط رہ کر زندگی گزارنا اس کا فطری تقاضا ہے، چنانچہ اسلام نے جتنے احکام دیئے وہ اس کے ان فطری اُمور کو مدنظر رکھ کر دیئے اور کوئی حکم ایسا نہیں دیا جو اس کے فطری تقاضوں کو بالکلیہ دبا کر رکھ دے۔
اس کے برعکس عیسائیت کو دیکھئے کہ اس میں ’’رہبانیت‘‘ کو قرب خداوندی کا ذریعہ بتایا گیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک بیوی بچوں، گھر بار اور معاشی کاروبار کو چھوڑ کر جنگل میں نہ جا بیٹھوگے اس وقت تک خدا کی خوشنودی نہیں مل سکتی اس حکم پر انسان اس وقت تک عمل نہیں کرسکتا جب تک وہ اپنے فطری تقاضوں کو بالکل کچل کر نہ رکھ دے۔ اسلام نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔
سوال: مولانا! لیکن موجودہ دور کے انسان کی فطرت تو بظاہر اسلام کے بہت سے احکام سے ہٹی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
جواب: میں اسی بات کو واضح کرنا چاہتا ہوں اور ابھی میری بات پوری نہیں ہوئی کہ فطرت تو زمانے کے بدلنے سے بدل ہی نہیں سکتی آپ کسی چیز کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ پہلے زمانے میں تو انسانی فطرت تھی، مگر آج نہیں رہی۔ کیونکہ انسانی طبیعت کا جو تقاضا زمانے کے بدلنے سے بدل جائے وہ اس کا فطری تقاضا ہوہی نہیں سکتا۔ بلکہ دراصل دو قسم کی غلط فہمیاں ہوتی ہیں جن سے انسان فطرت کو بدلا ہوا محسوس کرتا ہے، بعض اوقات تو وہ فطرت کے غلط معنی سمجھ کر اپنی بعض عادتوں کو فطرت قرار دے لیتا ہے، حالانکہ عادت اور فطرت میں بڑا فرق ہے، دوسرے بعض اوقات انسان کا فطری تقاضا تو ایک ہوتا ہے لیکن جب انسان اپنے ماحول سے یا فطرت کے خلاف متواتر عمل سے بری طرح متاثر ہوجاتا ہے تو اس کا وہ فطری تقاضا مغلوب ہوجاتا ہے اور اس کو یہ غلط فہمی لگ جاتی ہے کہ وہ فطرت کا تقاضا نہیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے والدین (یعنی ماحول) اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتا ہے۔
اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے کوئی انسان پیدا ہوتے ہیں کسی جنگل میں چھوڑ دیا جائے اور وہ جانوروں ہی کی سی عادتیں سیکھ لے اور انہی کے طور طریق اپنالے تو وہ انسانوں سے متنفر اور جانورں سے مانوس ہوجائے گا، اور تاریخ میں ایسے انسانوں کی مثالیں موجود ہیں کہ وہ جنگل کی زندگی کے اتنے عادی ہوگئے کہ انسانوں اور ان کی بستیوں سے بھاگتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کی فطرت بدل گئی اور بستی کے بجائے جنگل اور انسانوں کے بجائے جانوروں سے محبت ان کی فطرت بن گئی، بلکہ درحقیقت انسان ہونے کی حیثیت سے ان کی فطرت اب بھی وہی ہے البتہ ماحول کے متواتر اثرات نے فطرت کو مغلوب کرکے رکھ دیا۔
ایک اور مثال لیجئے! انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ رات کو سوئے اور صبح سویرے بیدار ہو، چنانچہ عام طور سے نومولود بچوں کو آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ کسی تربیت کے بغیر صبح سویرے بیدار ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ماحول سے عادت اس کے خلاف پڑی ہوئی ہو تو رفتہ رفتہ ان کی عادت بدل جاتی ہے اور فطری تقاضا مغلوب ہوجاتا ہے، وہ بھی دیر سے اُٹھنے لگتے ہیں۔
سوال: مولانا! یہاں ایک سوال یہ ہوسکتا ہے کہ اگر ایک شخص کی باڈی کنڈیشن اس قسم کی ہو کہ وہ رات کو دو بجے سوئے اور دن کے آٹھ بجے اُٹھے، اب اس عمل کے دوران اس کی نماز لامحالہ قضا ہوگی، وہ کیا کرے؟
جواب: یہ سوال قدرے غیر متعلق ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ کسی شخص کی باڈی کنڈیشن مستقل طور اس قسم کی ہوسکتی ہے ہاں اگر کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے وہ معذور ہو اور اپنی تمام ممکنہ کوششوں کے باوجود وہ صبح کو سویرے نہیں اُٹھ سکتا تو جب تک یہ معذوری باقی ہے اسلام کا حکم یہ ہوگا کہ جب بھی بیدار ہوجائو اسی وقت نماز پڑھ لو، لیکن تمام حالات میں سویرے اُٹھنے کی عادت ڈالو۔
سوال: مگر مولانا سوال یہ تھا کہ ایک شخص کی فطرت ہی یہ ہوگئی کہ وہ دیر سے اُٹھے پھر اسے جلدی بیدار ہونے کا حکم دینا خلافِ فطرت کیوں نہیں ہوا؟
جواب: یہاں آپ پھر ’’فطرت‘‘ اور ’’عادت‘‘ کو خلط ملط کر رہے ہیں میں اس کو دوسری طرح واضح کردوں۔ فطرت انسان کے ان تقاضوں کو کہتے ہیں جو بحیثیت نسل انسانی (Human Race) اس کی سرشت میں داخل ہوئی، یہ تقاضے تمام انسان میں یکساں ہوتے ہیں بدلتے نہیں۔ دوسری ایک چیز ہے جسے عادت کہتے ہیں اور جسے آپ انگریزی میں (Habit) کہتے ہیں وہ مختلف انسانوں کی مختلف ہوسکتی ہے اور اس میں تبدیلی بھی ممکن ہے اور اسلام نے یہ دعویٰ کبھی نہیں کیا کہ وہ ہر انسان کی ہر عادت کے مطابق ہوگا لہٰذا جو شخص دیر سے اُٹھنے کا عادی ہے اگر وہ کسی ناگزیر مجبوری کی وجہ سے ایسا کررہا ہے تو اس کی عادت فطرت انسانی کے خلاف ہے جسے بدلنا چاہیے۔
سوال: مولانا! یہ بات تو سمجھ میں آگئی لیکن اب ایک سوال ذہن میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اسلام فطری دین ہے تو اس کے بعض احکام پر عمل کرنے میں دشواری کیوں معلوم ہوتی ہے؟
جواب: دیکھئے! کسی فطری کام کے لئے یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ اس میں ذرہ برابر کوئی دشواری نہ ہو۔ مثال کے طور پر کمانا جو ہے وہ بھی انسان کی فطرت کا ایک تقاضا ہے کہ وہ اپنی مادی ضروریات کو حاصل کرے مگر اس مادی ضرورت کو حاصل کرنے کے لئے کچھ محنت کرنا پڑے گی، کچھ مشقت اُٹھانا پڑے گی۔ تو اس تکلیف اور مشقت کی وجہ سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ عمل فطرت کے خلاف ہے تو جو چیز فطرت کے مطابق ہوتی ہے خود اس کے حصول کے لئے بعض اوقات کچھ محنت اور مشقت کرنا پڑتی ہے تو اس کی پریکٹس کرنے میں متعلقہ دشواری بھی ہوتی ہے یہ دشواری فطرت کے خلاف نہیں، ہاں ایسی دشواری جو انسان کے لئے ناقابل برداشت ہو اور جس کو انسان اختیار نہ کرسکے اس کی طاقت سے باہر ہو تو اگر ایسی دشواری ہو تو کہا جائے گا کہ یہ اس کی فطرت کے خلاف دشواری ہے تو ایسی دشواری اسلام کے اندر دیکھنے میں نہیں آتی۔ اسلام نے جو احکام دیئے ہیں ان میں بعض اوقات تھوڑی بہت تکلیف بھی ہوگی، تھوڑی بہت محنت اور مشقت بھی برداشت کرنا پڑے گی۔ لیکن وہ محنت بذاتِ خود فطرت کا ایک جزء ہے اور اگر اس محنت کو انسان کی فطرت سے نکال دیا جائے تو انسان کچھ رہے گا ہی نہیں۔ البتہ محنت برداشت سے باہر نہیں ہوتی اور معمولی توجہ اور عادت ڈالنے سے آسان ہوجاتی ہے اس کے علاوہ غلطی کرنا بھی انسان کی فطرت میں ہے چنانچہ اسلام نے اس کی رعایت کی ہے کہ جب غلطی ہوجائے توبہ کرلو کوئی گرفت نہ ہوگی۔

سوال: ایک چیز ہے مولانا صاحب! اگر آپ نے جو تعلیم حاصل کی ریسرچ کیا اور خود بھی عمل کیا، اسلام کو فطری مذہب کے لحاظ سے پرکھا۔ اگر آپ کے فطرے تقاضوں کو سامنے رکھا جائے اور باقی تمام مذاہب کو سامنے رکھا جائے تو کیا آپ کے لحاظ سے جو چیزیں فطرت کے عین مطابق ہیں وہ چیزیں دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتیں اگر پائی جاتی ہیں تو وہ بھی فطری مذہب ہوئے۔
جواب: یہ بڑا اچھا سوال آپ نے کیا۔ اصل میں فطری مذہب ہونے کا مطلب میں آپ کو پہلے بتا چکا ہوں کہ اس کا کوئی حکم ایسا نہ ہو اس کا کوئی عقیدہ ایسا نہ ہو جو انسان کی فطری تقاضوں کے خلاف ہو اور انسان کے فطری تقاضوں کو ختم کرتا ہو۔ اب اگر فرض کیجئے کہ کوئی مذہب اپنایا جاتا ہے کہ جس کے بعض احکام ایسے ہیں جو انسان کی فطرت کے مطابق ہیں لیکن بعض احکام ایسے ہیں جو انسان کی فطرت کے خلاف ہیں تو پھر اس مذہب کو فطری نہیں کہا جائے گا مثال کے طور پر عیسائیت کے لے لیجئے کہ اس کے بہت سے احکام ایسے ہیں جو انسان کی فطرت کے مطابق ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اس کا ہر حکم انسان کی فطرت کے خلاف ہے لیکن بعض احکام ایسے ہیں جو فطرت کے خلاف ہیں مثلاً یہی کہ جتنا دنیا سے کٹ کر رہو گے جنگل میں جاکر بیٹھ جائو، کھانا کمانا چھوڑ دو، رہبانیت اختیار کرو تو اس کے بغیر خدا کا قرب حاصل نہیں ہوسکتا۔ تو یہ انسان کی فطرت کے خلاف ہے۔ (قطع کلامی معاف) عیسائی مذہب تو ویسے بھی ابھی نامکمل ہے۔ کیوں کہ انھوں نے دوسری دفعہ تشریف لانا ہے اس لیے ابھی تک مکمل نہیں ہوا؟
جواب: اس کے علاوہ یہ کہ انسان کا یہ فطری حق ہے کہ جس بات پر وہ عقیدہ رکھے وہ عقل کے خلاف نہیںہونا چاہیے لیکن عیسائیت آپ دیکھیں کہ ان کا سب سے بنیادی عقیدہ یہ ہے تین ایک کا اس پر اگر کہا جائے کہ عقل سے سمجھا جائے کہ تین اور ایک کیسے ایک ہوسکتے ہیں تین تو تین اور ایک تو ایک ہے تو وہ اس کا جواب نہیں دیتے کہ یہ ایک سربستہ راز ہے خدائی راز ہے اس کے اندر ہمیں سوچنے کی گنجایش نہیں عقل کا دروازہ وہاں پر بند ہے میں یہ نہیں کہتا کہ انسان کو اپنی زندگی کے ہر معاملے میں عقل سے رہنمائی مل سکتی ہے۔ میں اس کے بہت خلاف ہوں کہ ہر انسان کو ہر معاملہ میں عقل سے رہنمائی مل سکتی ہے لیکن یہ کہ اس کے جو بنیادی عقائد ہیں جس کے اوپراس کی زندگی کی عمارت کھڑی ہوگی ان بنیادی عقائد کے بارے میں اس کا فطری حق ہیکہ وہ اپنی عقل سے اس کو صحیح سمجھے اور اس کو عقل کے مطابق ثابت کرسکے۔

سوال: ایک چیز ہے مولانا صاحب آپ نے یہ جو کہا کہ عقل کی رہنمائی کوئی ضروری نہیں کہ ہر معاملہ میں ملے تو اگر عقل کی رہنمائی نہیں مل سکتی تو معلوم ہوا کہ وہ غیر فطری چیز ہے۔ کیوں کہ عقل اور فطرت میرے خیال سے دونوں لازم و ملزم چیز ہیں۔
جواب: نہیں یہ بہت اچھا سوال ہے میں اس کو ذرا تفصیل سے بیان کروں گا اور اس کو ذرا سمجھنے کی ضرورت ہے اور بہت ٹھنڈے دل سے کہ عقل اور فطرت دونوں ایک نہیں ہیں دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ بلکہ انسان کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ وہ ہر معاملہ میں عقل کی پیروی نہ کرے ہر معاملے میں عقل کے پیچھے نہ پڑے یہ بات آپ کو شاید ہی معلوم ہو۔ مگر میں اس کی تشریح کرتا ہوں۔ دیکھئے ان کے پاس علم کے جتنے بھی ذرایع ہیں وہ مختلف قسم کے ہیں۔ مثلاً ایک علم کا ذریعہ جو اس خمسہ میں پانچ حواس آنکھ سیکان ہے ناک ہے ہاتھ ہے وغیرہ اس کے ذریعہ ہم معلوم کرلیتے ہیں آنکھ سے دیکھ کر کان سے سن کر ناک سے سونگھ کر ہاتھ سے چھو کر معلوم کرلی۔ حواس خمسہ کا ایک مخصوص دایرہ ہے اور اس میں ہر ایک کی تقسیم کار ہے۔ اور ہر ایک کے کام بھی دوسرے سے مختلف ہیں۔ آنکھ دیکھ سکتی ہے سن نہیں سکتی۔ کان سن سکتا ہے دیکھ نہیں سکتا ۔ ہاتھ چھو سکتا ہے مگر اس سے چل نہیں سکتے۔ تو ان حواس کے مخصوص دائرے ہیں کہ جس کے اندر وہ کام کرتے ہیں۔ اس دائرے سے باہر وہ کام نہیں کرتے۔ پھر ان حواس خمسہ مجموعہ کا بھی ایک دائرہ ہے کہ اس سے آگے چل کر وہ خواس خمسہ کام نہیں دیں گے مثلاً یہ کہ اب میں آنکھ سے دیوار تک دیکھ سکتا ہوں دیوار کے پار میں ان حواس خمسہ کام نہیںلے سکتا۔ لیکن ان حواس خمسہ کے دائرے سے آگے کیے ہمیں ایک ذریعہ علم دیا گیا۔ اور وہ ہے عقل کہ جب ہمیں یہ دروازہ نظر آرہا ہے تو لازم ہماری عقل یہ رہنمائی کرے گی کہ اس دیوار کے ادھر کوئی جگہ موجود ہے کوئی زمین ہے کوئی کمرہ ہے کوئی صحن ہے اگرچہ ہم حواس سے وہ چیز معلوم نہیں کرسکتے۔ تو جہاں حواس خمسہ کا دائرہ ختم ہوتا ہے وہاں سے عقل کا دائر شروع ہوتا ہے۔
سوال: نہیں مولانا صاحب! ایک بات سنیں آپ نے ابھی کہا کہ ہمیں کسی چیز کو سمجھنے کے لیے عقل کی ضرورت نہیں۔
جواب: نہیں میں نے یہ بھی نہیں کہا۔ میں اپنی پوری بات واضح کردوں پھر آپ کہیں یعنی میں نے یہ عرض نہیں کیا کہ انسان کو سمجھنے کے لیے عقل کی ضرورت نہیں۔ نہ میں نے یہ کہا کہ حواس خمسہ کی ان سب میں سے کوئی بات نہیں ہیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ علم جو انسان کو حاصل ہوتا ہے علم نہ صرف حواس خمسہ سے حاصل ہوتا ہے نہ صرف عقل سے حاصل ہوسکتا ہے یعنی اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرلے جتنا بھی علم مجھے حاصل ہوگا وہ سارا عقل کی بنیاد پر ہوگا۔ تو وہ بھی غلط ہے اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ جتنا بھی علم مجھے حاصل ہوگا وہ صرف حواس خمسہ کی بناء پر حاصل ہوگا۔ تو یہ بھی غلط ہے بلکہ علم کے مختلف ذرایع انسان کے پاس ہیں۔ ایک ذریعہ حواس خمسہ ہیں کچھ باتیں ہمیں حواس خمسہ سے حاصل ہو تیہیں لیکن یہ حواس خمسہ سے جو باتیں حاصل ہوتی ہیں ان کا ایک محدود دائرہ ہے اس کے اندر وہ ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ اور ہمیں علم بخشتے ہیں۔ اس دائرے سے باہر جاکر حواس خمسہ ہمیں کام نہیں دیتے وہاں ہمیں ضرورت پڑتی ہے عقل کی۔ جہاں حواس خمسہ ختم ہوجاتے ہیں وہاں ہمیں عقل کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور ہم عقل سے بہت سی چیزیں معلوم کرتے ہیں۔ جو حواس خمسہ سے نہیںمعلوم کرسکتے تو عقل اس جگہ پر کام دیتی ہے جہاں حواس خمسہ کام کرتاچھوڑ دیتے ہیں، لیکن اب عقل کے ذریعہ آپ حواس خمسہ کی چیزیں معلوم کرنا چاہیں تو یہ نہیں ہوسکتا۔
سوال: یہ بات واضح نہ ہوسکی؟
جواب: مثلاً میں بتاؤں! یہ شربت ہے یہ سرخ رنگ کا ہے یہ علم ہمیں حاصل ہوا تو کس چیز سے حاصل ہوا آنکھ کے ذریعہ شربت کی سرخی کا علم ہوا۔ اب اگر کوئی شخص کہے کہ آنکھ تو کرلو بند اور اب عقل سے بتاؤ کہ اس کا رنگ سرخ ہے یا سبز ہے، آنکھ تو بند کرلیں اور صرف عقل سے اس کا رنگ معلوم کرنا چاہیں تو کبھی معلوم نہیں ہوسکتا۔
تو اس سے معلوم ہوا کہ ہر چیز کا علم عقل سے نہیں ہوسکتا بلکہ سب سے قریب ترین ذریعہ حواس ہے اس کے بعد دوسرا ذریعہ انسان کے پاس عقل ہے۔ جہاں عقل اور حواس خمسہ میں تضاد ہوجائے کہ حواس خمسہ ایک بات کہہ رہے ہیں اور عقل دوسری بات تو اس وقت آپ کیا کریں گے؟
سوال: یہ غیر فطری عمل ہے۔
جواب: تو ظاہر ہے کہ عقل نے جو نتیجہ نکالا وہ صحیح نہیں کیوں کہ حواس خمسہ جو علم دے رہے ہیں۔ وہ زیادہ یقینی ہے تو جہاں پر عقلوں میں لوگوں کے درمیان تفاوت ہوجاتا ہے کہ ایک شخص نے ایک نتیجہ نکالا اور دوسرے نے دوسرا نتیجہ تو اب جس نتیجہ کی حواس خمسہ تائید کرتے ہوں گے اس کو قبول کرلیا جائے گا۔ اور جس کی مخالفت کرتے ہوں گے اس کو ردّ کردیا جائے گا، لیکن حواس خمسہ کی رہنمائی جس طرح محدود ہے اسی طرح عقل کی رہنمائی بھی محدود ہے کہ وہ بھی ایک جگہ پر جاکر رک جاتی ہے۔ اور اس کا دائرہ ختم ہوجاتا ہے۔ وہاں دائرہ شروع ہوتا ہے وحی کا یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی ہدایت کا۔ جو کہ انبیاء کرام کے ذریعہ دی جاتی ہے تو یہ دائرہ جو شروع ہوتا ہے وہاں سے جہاں سے عقل کی پرواز ختم ہوجاتی ہے اور عقل کی پرواز ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نری اور صرف عقل کی بنیاد پر اس چیز کا ادراک نہیں کرسکتے۔ وہ ہمیں وحی کے ذریعہ بتائی جاتی ہے۔
سوال: اگر وہ حکم عقل کی سوچ کی بناء پر واضح ہو مگر وحی کا حکم اس سے بالکل متضاد ہو۔ اس وقت کیا کریں گے؟
جواب: وہ وحی نہیں ہوگی بلکہ کچھ اور ہوگا جس طرح میں نے بتایا کہ حواس خمسہ کے خلاف عقل کہہ رہی ہو تو آپ عقل کو چھوڑ دیں گے۔ کہیں گے کہ یہ عقل کا تقاضہ نہیں ہے۔ غلط نتیجہ نکالا۔ اسی طرح کوئی وحی کے نام سے ایسی بات پیش کرتا ہے جو عقل کے خلاف ہے تو عقل کے خلاف ہونے کی وجہ سے کہا جائے گا کہ وہ وحی ہے ہی نہیں وہ تو کچھ اور ہوگا جیسے کہ ابھی میں نے پہلے عرض کیا کہ تین ایک اور ایک تین گویا معمہ ہے کہ کہا جائے کہ تین کو ایک مان لیا اور ایک کو تین مانے کھلی ہوئی عقل کے خلاف ہے کوئی بھی عقل قبول نہیں کرسکتی۔ اس لیے کوئی یہ کہے کہ یہ وحی ہے تو وہ غلط کہتا ہے۔
لیکن ایک بات یاد رکھیے اور وہ یہ کہ وحی عقل کے خلاف تو نہیں ہوسکتی مگر یہی چیزوں پر مشتمل ہوسکتی ہے جو عقل کی پرواز سے باہر ہو وہ دو چیزوں میں فرق ہوتا ہے۔ ایک تو ہوتا ہے عقل کے خلاف ہونا اور ایک ہوتا ہے ماورائے عقل۔ دراصل دونوں میں خلط ملط کرنے سے ایک بہت بڑی غلط فہمی ہوتی ہے، عقل کے خلاف اس چیز کو کہیں گے کہ اس کے اتنے سے کوئی عقلی محال لازم آجائے اور عقل اس کے باطل ہونے پر دلیل دیتی ہو۔ اس کو خلاف عقل کہتے ہیں انگریزی میں Impossible کہتے ہیں اور ایک ہوتا ہے، ماورائے عقل یعنی عقل کے پاس اس کے باطل کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے، لیکن اس کو ثابت کرنے کے لیے بھی کوئی دلیل نہیں ہے اور اس کو اس کی نظیر نہیں ملتی، اس لیے اس کووہ اجنبی چیز محسوس ہوتی ہے اور حیرت انگیر بات لگتی ہے جسے آپ Improbable کہہ سکتے ہیں، چوں کہ عقل کو اس بات پر تجربہ نہیں ہوتا۔ اس واسطہ اس کو عجیب سے معلوم ہوتی ہے، اس لیے نہ اس کے پاس اس کے اثبات کا ذریعہ تو دونوں میں بہت فرق ہے Impossible الگ اور Improbable الگ۔ اب یہ ہوتا ہے کہ وحی کی طرف سے کوئی ایسی بات تو نہیں کہہ جاسکتی جو کہ Impossible ہو یعنی عقل کی دلیل کے خلاف لیکن ایسا ہوسکتا ہے کہ وحی مبین کوئی ایسی بات ہو جو کہImprobable یعنی عقل کی پرواز سے اوپر ہو اور وہ بالکل عین فطری بات ہے جس طرح پر کہ میں نے کہا کہ حواس خمسہ کے دائرہ کے بعد عقل کا دائرہ شروع ہوتا ہے کہ جس چیز کا حواس خمسہ ادراک نہیں کرسکتے، عقل اس کا ادراک کرسکتی ہے تو اسی طرح جس چیز کا عقل ادراک نہیں کرسکتی، اور اس کا دائرہ وہاں تک نہیں پہنچ سکتا، وہاں عقل سے نہیں پہنچا جاسکتا ہے اور وحی اس کا علم عطا کرتی ہے، اگرچہ وہ بعض اوقات اچنبھی معلوم ہوتی ہے، بعض اوقات حیرت انگیز معلوم ہوتی ہے اور بعض اوقات اجنبی سی لگتی ہے۔

مثال کے طور پر وحی نے ہمیں بتایا کہ اوپر آسمان ہے اب ہمارے حواس خمسہ تو آسمان کو نہیں دیکھتے اور عقل اس تک نہیں پہنچتی، ہمیں جو نظر آرہا ہے یہ تو آسمان نہیں ہے۔ ظاہر ہے یہ جدنگاہ ہے جو ہمیں نیلا نیلا نظر آتا ہے تو اس واسطے موجودہ بہت سے سائنس دان یہ کہتے ہیں کہ آسمان ہے ہی نہیں جو یہ کہہ دیتے ہیں کہ آسمان کا وجود نہیں ہے تو یہ بات نہیں ہے کہ آسمان کے نہ ہونے کے وجود پر کوئی دلیل قائم ہوگئی ہے کہ یعنی دلیل ان کو مل گئی ہے جس کی بناء پر وہ ثابت نہیں ہوا یا یہ کہ اس کی نفی پر کوئی دلیل قائم کردی ہو، ایسا نہیں ہوا تو اس واسطے اگر وحی یہ کہتی ہے کہ آسمان ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ صاحب ہمیں نظر نہیں آرہا، نہ آنکھوں سے نظر آتا ہے، نہ ہماری عقل کہتی ہے کہ یہ کوئی ضروری چیز ہے کہ آسمان ہو، لیکن ساتھ ہی عقل کے اعتبار سے وہ کوئی دلیل بھی ایسی قائم نہیں کرسکتے جس کی بناء پر یہ کہا جائے کہ آسمان موجود نہیں ہوسکتا، ممکن نہیںاور آسمان کا وجود Impossible ہے آسمان کا وجود نہیں ہے۔ ہاں یہ کہ ہماری اپروچ (پہنچ) وہاں نہیں ہوسکتی، ہوسکتا ہے کہ بعد میں اپروچ ہوجائے یہاں پر اس قسم کی کوئی بات ہے تو وہ حواس خمسہ یا عقل کے ماورا کوئی بات ہے، لیکن عقل اس کے عدم وجود پر کوئی دلیل نہ پیش کرسکی۔
سوال: کیا اسلام نے یہ بھی کہا ہے کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے۔
جواب: نہیں اسلام نے کچھ نہیں کیا، وحی نے کچھ نہیں کیا، کہ سورج زمیں کے گرد گھومتا ہے۔
سوال:لیکن احمد رضا خاں بریلوی نے ایک کتاب لکھی ہے میں نے پوری نہیں پڑھی مگر اس میں لکھا ہے کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے تو یقینا قرآن مجید ہی سے وہ آئیڈیا لیا ہوگا۔
جواب: اصل میں ایسا ہے کہ وحی میں صاف طور پر تو کچھ بھی نہیں ہے کیوں کہ قرآن مجید کا یہ موضوع نہیں ہے اس لیے قرآن مجید نے واضح طور پر یہ نہیں بتایا کہ زمین گھومتی ہے، چاند گھومتا ہے یا سورج گھومتا ہے، لیکن لوگوں نے کسی لفظ سے کچھ استنباط کیا، کس نے کچھ، اس میں اختلاف رائے کی گنجائش ہے، یہ کوئی عقیدہ کا مسئلہ نہیں، اس میں کوئی بھی تحقیق ہوگی وہ اسلام کے خلاف اور وحی کے خلاف نہ ہوگی، تو میں نے عرض کررہا تھا کہ وحی کے اندر Impossible تو نہیں ہوسکتا اور اگر کسی وحی میں کوئی Impossible کو وہ وحی نہیں ہے غلط ہے وہ دھوکہ ہے لیکن اگر کسی وحی کے اندر کوئی بات کہی جارہی ہے جوکہ Improbable تو ہے۔Impossible نہیںرہے تو محض اس بناء پر کہ وہ ہماری عقل میں نہیں آرہی ہے اور ہم اسے باور نہیں کرپارہے۔ یا وہ ہمیں نظر نہیں آرہا اس بناء پر ہم فیصلہ نہیں کرپاتے تو جس طرح کہ بہت سی باتیں عقل میں آتی ہیں مگر آنکھ سے نظر نہیں آتیں اس کے باوجود ہم اسے مانتے ہیں تو اسی طریقہ سے عقل سے ہم باور نہیں کر پاتے ہیں۔مگر وحی نے ہمیں بتادیا اور وہ Improbable کبھی نہیں ہیں تو اسے ہمیں تسلیم کرنا چاہیے اور وہ کوئی فطرت کے خلاف نہیں ہے۔ اسی میں مسئلہ آتا ہے آگے چل کر خیر اور شر کا کہ دنیا کے اندر کون سی چیز اچھی ہے، کون سی چیز بری ہے جو بنیاد ہے تمام مذاہب کی تو آپ اس کے اچھے اور برے ہونے کے بارے میں معلومات کا ذریعہ کیا ہوگا، کسی چیز کا اچھا ہونا یا برا ہونا نہ حواس خمسہ سے معلوم کرسکتے ہیں، دوسرا ذریعہ عقل کا ہوسکتا ہے کہ اس سے پتہ چلا سکتے کہ یہ اچھی چیز ہے یا بری، مگر وہ یقینی ذریعہ ہمیں اس لیے معلوم نہیں ہوتا کہ لوگوں کی عقل میں تفاوت ہے ایک شخص ایک چیز کو اچھا کہتا ہے اور دوسرا شخص دوسری چیز کو۔ ایک ایک چیز کو اچھا کہتا ہے، دوسرا اسی چیز کو برا کہتا ہے، اس بناء پر عقلوں میں تفاوت ہوتا ہے۔
مثلاً آپ دیکھئے کہ یہ زنا ہے(Adultery) اس کو موجودہ معاشرہ ۔۔۔۔۔۔کہہ رہا ہے کہ کوئی حرج نہیں، اگر دونوں آپس میں رضا مند ہوں تو کیا مضائقہ ہے اور بہت سے لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ بہت بری بات ہے۔ اور بہت خطرناک بات ہے۔ تو ایک شخص کی عقل رہنمائی کررہی ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں، ایک شخص کی عقل رہنمائی کررہی ہے، کہ حرج ہے تو اس لیے اگر ہم یہ فیصلہ کریں کہ ہر چیز کی خیر اور شر (اچھا اور برا) ہونے کے بارے میں عقل ہی فیصلہ کرے گی تو پھر اس کے نتیجہ میں کوئی متفقہ فارمولا کبھی پیدا نہیں ہوسکتا اور کسی انسان کی کوئی قدر اور ویلیو صحیح و سالم نہیں رہ سکتی۔ اب
میں آپ کو بتاؤں مثال کے طور پر کہ ایک ’’باطنی‘‘فرقہ گزرا ہے جو کہ ایک بہت بڑی سیاسی تحریک تھی، محمود غزنوی کے زمانہ میں اس کا ایک لیڈر ہے، اس کا نام ہے عبید اللہ بن حسن پیروانی، تو اس نے اپنے پیرووں کے نام ایک بہت بڑا خط لکھا، اس خط کے اندر لکھا کہ یہ مذہب کے نام پر لوگوں نے ڈھکوسلے بنا رکھے ہیں اور مذہب کے نام پر انسانوں کا استحصال کر رکھا ہے، اور خواہ مخواہ لوگوں کی زندگی کے اندر جو لذتیں ہیں جو راختیں ہیں، ان سے محروم کرنے کے لیے خدا اور رسول کا یہ چکر لگا رکھا ہے، سب چھوڑ دیئے میں کہتا ہوں کہ اس سے زیادہ حماقت کی بات کوئی اور نہیں ہوسکتی کہ ایک شخص کے پاس اس کے گھر کے اندر اس کی بہن موجود ہو اور وہ انتہائی خوب صورت اور حسین بھی ہے اور وہ اس کی طبیعت سے اور مزاج سے بھی واقف ہے بچپن سے وہ ساتھ پلے بڑھے ایک دوسرے کو وہ خوب جانتے ہیں، تو اس بہن کا تو اس نے ہاتھ پکڑا دیا دوسرے کو ایک اجنبی شخص کو جو نہ اس کے مزاج سے واقف ہے نہ یہ اس کے مزاج سے واقف، اس خوب صورت بہن کا ہاتھ تو دوسرے کو پکڑا دیا، اور جناب خود کہیں اور سے اٹھالیا جو نہ شکل و صورت کے اعتبار سے اس جیسی ہے اور نہ عادات و مزاج کے متعلق جانتی ہے، نہ اس کے طرز انداز کو پہچانتی ہے، اس سے زیادہ حماقت اور بے وقوفی کی بات میں نہیں سمجھتا کہ کیا ہوسکتی ہے کہ آدمی اپنے گھر کی تو دولت لٹا دے اور دوسروں کی دولت کے پیچھے پھرتا پھرے، تو اب یہ کہ آپ کہتے ہیں کہ بہن کے ساتھ ایسی حرکت کرنا بے حیائی و بے غیرتی کی بات ہے، میں کہتا ہوں کہ کیا بے حیائی کی بات ہے، اگر بہن وہ اپنے بھائی کے لیے بستر بچھا سکتی ہے، اس کے لیے آرام و راحت کا انتظام کرسکتی ہے، کھانا پکا سکتی ہے اور اس کی دوسری راحت کا بندوبست کرسکتی ہے تو اگر جنسی راحت پہنچادی تو اس میں کیا تکلیف ہوئی آپ کو بتایئے کیا تکلیف ہے۔ آپ کو تو یہ اس نے ایک بہت بڑا ایک مضمون لکھا اب آپ اس پر جو چاہیں تبصرہ کریں، لیکن میں ایک بات ضرور جانتا ہوں کہ اس کی اس دلیل کا جواب صرف عقل کی بنیاد پر کبھی نہیں دیا جاسکتا، کیوں کہ اس میں منطقی پہلو ہے تو خالص عقل کی بنیاد پر آپ جواب دینا چاہیں میں چیلنج کرتا ہوں پوری دنیا کو، کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ خالص عقل کی بنیاد پر کیا خرابی ہے اگر بہن بھائی ہاتھ ملا سکتے ہیں، جسم کا ایک حصہ دوسرے حصے سے مس کرسکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ وہ جنسی مخالطت۔۔۔۔۔نہیں کرسکتے، ہاتھ سے ہاتھ ٹکرا سکتا ہے تو بتایئے عقلی اعتبار سے کیا فرق ہے۔ آپ عقل کی بناء پر بتایئے کہ کس وجہ سے وہ ممنوع ہے اور یہ جائز ہے، ہاتھ ملانا جائز اور مباشرت جائز نہیں۔
خالص عقل کی بنیاد پر اس کی اس بات کا جواب نہیں دیا جاسکتا اور یہی وہ خالص عقل ہے کہ جب صرف اسی کی بنیاد پر انسان چلتا ہے تو یہاں تک پہنچ جاتاہے۔ اب یہ صدائے بازگشت بھی آپ نے سنی ہوگی کہ جرمنی کے اندر یہ تحریک چل رہی ہے کہ بہنوں کے ساتھ شادی وغیرہ کی جائے۔
سوال: مولانا صاحب آپ کی بات سے یہ چیز ثابت ہوئی کہ شر اور خیر کا فیصلہ عقل کی بنیاد پر نہیں ہوتا، مقصد آپ کا یہی ہے؟
جواب: جی وحی تو آتی ہے اسی جگہ پر جہاں پر عقل کی پرواز ختم ہورہی تھی، وحی نے آکر رہنمائی کردی تو اگر فرض کیجیے کہ وحی کی طرف سے انسان کے لیے کوئی حکم آتا ہے لیکن وہ انسان کی کسی لذت میں رکاوٹ ڈالتا ہے تو اس کی یہ کہہ کر ردّ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ عقل کے خلاف ہے کہ وہ لذت میں رکاوٹ ڈال رہا ہے، اس لیے کہ ہم انسان کی لذت کو کھلی چھٹی نہیں دے سکتے، اس واسطے کہ ہر انسان کو اس بات کی چھوٹ دے دی جائے کہ جتنی چاہو لذت حاصل کرلو، جس طرح چاہو حاصل کرو تو کبھی بھی معاشرے کے اندر کوئی انتظام قائم نہیں رہ سکتا ایک انار کی پھیلے گی، ایک افراتفری پھیلے گی اور فساد رونما ہوگا، اس لیے لذت پر کوئی نہ کوئی روک تو ہوگی لازماً اور لذت جو ہے اس پر روک عائد کون کرے، عقل کرے، عقل تو یہ کہہ رہی ہے ۔ حواس خمسہ کریں تو حواس خمسہ کس بات پر روک عائد کریں گے، عقل روک عائد نہیں کرسکتی اور حواس خمسہ بھی روک قائم نہیں کرسکتے۔ تو سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ وحی اس روک کو قائم کرنے والی ہے لہٰذا اگر وحی انسان کی کسی لذت پر روک اور ممانعت قائم کرتی ہے تو یہ فطرت کا عین تقاضہ ہے اور یہ انسان کی بہبود کا ایک تقاضہ ہے اس کی فلاح کا تقاضہ ہے اگر یہ روک قائم نہیں کی جائے گی تو زمین کے اندر ایک فساد برپا ہوگا اور اسی کو قرآن کریم نے ایک لفظ میں کہہ دیا قرآن کریم کی آیت ہے:
ترجمہ: کہ اگر حق یعنی وہ حق جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے۔ وہ اگر پیروی میں لگ جائے ان لوگوں کی خواہشاتِ نفس کی کہ جس طرف نفس اس حق کو لے جانا چاہے اس طرف لے جائے تو اس زمین اور آسمان میں فساد برپا ہوجائے گا اور یہ آسمان اور زمین باطل ہوجائیں گے اس لیے کہ ہر شخص اپنی لذت کے لیے آزاد ہے تو اپنی لذت کے لیے آزاد ہے تو اپنی لذت کے حصول کے لیے وہ کہتا ہے کہ می تمہاری چوری بھی کروں گا میں تمہارے یہاں ڈاکا ڈالوں گا میری لذت کی تسکین اس طرح ہوتی ہے تو اس لیے لذت پر روک عائد کرنا پڑے گی اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے اور وحی کے علاوہ کوئی روک عائد کرنے والا نہیں لہٰذا وحی کے ذریعہ روک تو عائد ہوگی اور وحی کے ذریعہ جو روک عائد ہورہی ہے اس کو فطرت کے خلاف کہنا بالکل غلط ہے بلکہ یہ عین فطرت کے مطابق ہے۔ ہاں فطرت کے تقاضے کے خلاف اس وقت ہوگا جب کہ اس کی لذت پر اس طرح روک عائد کی جائے کہ جو جائز فطری تقاضہ ہے وہ کبھی ختم ہوجائے مثال کے طور پر کہ انسان کے نفس میں غصہ کا تقاضہ ہے خواہشات نفس ہیں۔ جنسی تقاضے ہیں۔ اب اگر بالکل ان پر اس طرح رکاوٹ قائم کردے کہ ان خواہشات کا پیدا ہونا ہی دل میں جرم ہے تو وہ فطرت کے خلاف ہے کیوں کہ اس حکم نے اس فطری تقاضے کو بالکل کچل دیا لیکن جس میں آپ کو یہ بتادیا کہ اس حد کے اندر یہ خواہش پوری کردو تمہارے لیے جائز ہے اور تمہاری خواہش کو پوری کرنے کا دائرہ یہ ہے اس دائرے سے باہر نکلوگے تو تمہارے لیے ناجائز تو چوں کہ اس حکم نے اس کے فطری تقاضے کو کچلا نہیں اس لیے وہ اس کی فطرت کے عین مطابق۔
سوال: یہ بات تو سمجھ میں آگئی، لیکن ایک سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہم سے کوئی منکر خدا یہ پوچھتا ہے کہ خدا کے وجود کی کیا دلیل ہے؟ تو کیا اس کے جواب میں ہم یہ کہہ کر اس کو مطمئن کرسکتے ہیں کہ یہ عقل سے بلند چیز ہے؟
جواب: نہیں، ہرگز نہیں۔ خدا کا وجود تو ناقابل انکار عقل دلائل سے ثابت بھی ہے۔ خدا کا تصور خواہ ہماری عقل کے ادراک سے کتنا بلند ہوگیا اس کا وجود خالص عقلی دلائل سے ثابت ہے اور ہم اس کو عقلی دلائل سے ثابت کرسکتے ہیں۔
اور اگر کوئی شخص واقعتا سمجھنا چاہے تو عقلی دلائل ایسے موجود ہیں جس کا انکار ممکن نہیں یہ اور بات ہے کہ کوئی شخص سمجھنا ہی نہ چاہے یا اس کے دل میں عناد ہو یا یہ کہ وہ پہلے سے یہ تہیہ کیے بیٹھا ہو کہ اس مسئلے کو مجھے سمجھنا ہی نہیں تو اس کا تو کوئی انسان بھی حل نہیں پیش کرسکتا۔ ہم خدا کے وجود کے صرف اس بناء پر قائل نہیں کہ قرآن مجید میں آیا ہے یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے نہیں ہم خدا کے اس لیے قائل ہیں کہ خدا کا وجود ناقابل انکار عقلی دلائل سے ثابت ہے اور عقلی دلائل اس بات کی رہنمائی کرتے ہیں کہ خدا کے وجود کو تسلیم کیا جائے۔ فلسفیوں کے بات دور کی ہے ایک معمولی دیہاتی وہ بھی یہ کہتا ہے کہ جو چیز زمین پر ہوتی ہے وہ دلالت کرتی ہے اس بات کی کہ اس کا کوئی بنانے والا ہے۔ تو یہ سارا نظام جو ایک نظم طریقہ سے چل رہا ہے۔ ایک کارخانۂ حیات جو چل رہا ہے یہ بغیر کسی کے بنائے ہوئے نہیں چل سکتا۔ یہ اور اس طریقہ کے بے شمار دلائل یہ سمجھ لیجیے کہ جن لوگوں نے خدا کے وجود کے اوپر عقلی دلائل کی کتابیں لکھی ہیں تو انھوں نے ایک ہزار تک دلائل بیان کیے ہیں اور تمام کامدار خالص عقلی بنیادوں پر ہے۔ خدا کے وجود کا جہاں تک تعلق ہے کسی حدیث یا آیت کی بناء پر نہیں، بلکہ خالص عقل بھی ہماری رہنمائی کرتی ہے یہ ایک ماوراء العقل تو اس بناء پر کہ خدا کا وجود کہ ہم نے ان کو دیکھا نہیں لیکن اس بناء پر نہیں کہ انسان اس کو ثابت نہ کرسکے۔ جو شخص ہم سے خدا کے وجود کے بارے میں سمجھنا چاہے ہم اس کو عقل سے سمجھانے کے لیے تیار ہیں اس بحث کرنے کے لیے تیار ہیں اور اس کو ہر طرح سے مطمئن کرنے کے لیے تیار ہیں۔
سوال: قطع کلامی معاف، اگر آپ اس بات کو کسی مثال سے واضح کردیں تو زیادہ اچھا ہوگا۔
جواب اس کی مثال پیش کرتا ہوں۔ ایک دفعہ خدا کے وجود کے بارے میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی بحث تھی۔ دہریہ ہر زمانہ میں رہے ہیں تو کسی دہریہ سے کا وقت طے تھا۔ اس مقررہ وقت پر امام ابو حنیفہؒ پہنچ نہیں پائے تو دیر سے جب پہنچے تو جاکر کہا کہ میں آپ سے معذرت خواہ ہوں کہ وقت سے دیر ہوگئی لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ میں گھر سے نکال تو سامنے میرے ایک دریا پڑتا دریا کے اندر کوئی کشتی نہیں تھی۔ میں کافی دیر کھڑا رہا اور کوئی کشتی آنہیں رہی تھی۔ انتظار کرتا رہا۔ دریا کے سامنے کچھ درخت لگے ہوئے تھے اتنے میں تیز ہوائیں چلیں تو وہ درخت گرے اور ان درختوں میں چوں کہ شہتیر تھے اس لیے وہ دریا میں گرتے ہی پھٹے اور پھٹ کر پتا نہیں کیا شکل ہوئی کہ وہ تختوں کی شکل اختیار کر گئے اور میں ان تختوں پر بیٹھ گیا۔ ان تختوں نے تیرنا شروع کردیا اور اتفاق ایسا ہوا کہ ہوا کا رخ اسی طرف تھا تو میں اسی پر تیرتا تیرتا اسی طرف آگیا۔ کنارے پر جب پہنچا تو دیکھا کہ ایک گھوڑا جارہا تھا۔ میں نے اس کو پکڑلیا اور اس پر سوار ہو کر یہاں آرہا ہوں۔ اس طرح کی لمبی کہانی امام ابو حنیفہؒ نے ان کو سنانی شروع کردی۔ اس دہریہ نے کہا کہ آپ ہمارے سامنے کیا بچوں کی سی کہانی بیان کررہے ہیں کہ درخت آیا تختے بن گیا وغیرہ وغیرہ۔ امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا کہ اس میں عقل کے خلاف کیا بات ہے۔ درخت گر کر تختہ بن گیا اور خود بخود کشتی کی شکل اختیار کرلی اور ایک لوہا کہیں سے گرا اور اس کا چپو بن گیا تو اس میں حیرانی کی کون سی بات
ہے؟ اس دہریہ نے کہا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ درخت خود بخود گر کر تختہ بن جائے اور پھر خود بخود کشتی بن جائے۔ تو امام اعظم ابو حنیفہؒ نے فرمایا کہ اگر میری کہانی صحیح نہیں ہوسکتی تو یہ دنیا خود بخود نہیں بن سکتی۔ دنیا کی جو تعبیر آپ کرتے ہیں کہ یہ درحقیقت مادّہ تھا اور مادّہ ہوتے ہوتے کبھی کوئی چیز لکڑی بن گئی۔ کبھی لوہا بن گیا۔ کوئی درخت بن گیا اور کوئی کچھ اور چیز وغیرہ وغیرہ۔ اور بنا کسی بنانے والے کے ایسے خود بخود ہوگیا ۔ تو اگر میری بات نہیں ہوسکتی تو پھر یہ بھی نہیں ہوسکتی کہ دنیا خود بخود بن جائے۔ تو اس پر وہ دہریہ لاجواب ہو کر خاموش ہوگیا تو یہ ایک سیدھی سی بات نے جو ہر عام انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہوسکتی بے ترتیب سے بے ترتیب جس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ خود بخود بن گئی۔ لازماًاس کو کوئی بنانے والا ہوتا ہے۔ اب یہ پوری کائنات ہے ایک نظام ہے جو چل رہا ہے۔ سورج ایک خاص وقت پر نکلتا ہے اور خاص وقت پر غروب ہوتا ہے۔ چاند خاص وقت پر نکلتا ہے اور خاص وقت پر غروب ہوتا ہے۔
اور پھر اتنا عجیب و غریب نظام ہے کہ اس کی انتہا کو جائے تو کائنات سیاروں اور نظام شمس سے نیبولاس تک آگے چل کر یہ بات اتنی ہوجاتی ہے کہ انسان کی گنتی ختم ہوجاتی ہے۔ چھوٹانی کے جائیے تو ایک ذرّہ جو ہے ایک چھوٹا سا ذرّہ اس کے اندر پورا نظام شمسی قائم ہے اور اس کے اندر گردش ہورہی ہے تو یہ بغیر کسی کے بنائے پر نے بغیر کسی خالق کے ٭٭ کہ پیدا ہوجائے عقل تسلیم نہیں کرسکتی کہ وہ خود بخود ہورہا ہے۔ کوئی یقینا اس بنانے والا موجود ہے تو یہ ایک ایک چیز یہ دلالت کرتی ہے کہ خدا کا وجود ہے۔
سوال: تو کیا یہ چاند سورج ستارے ہیں یہ کیا خود بخود نہیں ہیں۔ کیا نیچر آف سائنس نہیں ہیں؟
جواب: خدا کے منکر یہی کہتے ہیں کہ یہ خود بخود چل رہا ہے۔ خود بخود ایک میکانکی طرز عمل ہے۔ جس کی بناء پر یہ نظام جاری ہے اول تو یہ ویسے ہی عقل کے خلاف بات ہے کہ خدا کے معنی ہیں ایک ایسی ہستی جو حکمت والی ہو، قدرت والی ہو، اس کو تو مانتے نہیں، اور مادّہ جو بے جان اور بے شعور ہے اس کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اس لیے خود بخود یہ سارا نظام کھڑا کردیا۔ یہ ویسے ہی عقل کے خلاف بات تھی یہ کائنات کی میکانکی تعبیر بھی۔
لیکن یہ تصور اصل میں انیسویں صدی کا تھا۔ جب آئن اسٹائن کی دوسری تھیوری آئی تو آئن اسٹائن نے آکر اس کے بخیے اکھیڑ دیئے اس میکانکی تصورِ حیات کے اور اب اس نے آکر یہ کہا کہ میلنزم تو اس کائنات میں ہے ہی نہیں۔ اس کی جو پوری تھیوری ہے اس سے اس کائنات سے میکنزم کی نفی ہوتی ہے اور ہر چیز دوسرے سے جدا ہے اس نے کہا کہ آپ سو سال سے اب تک جو میکنزم کی جھک مارتے رہے یہ سب لغویات ہے اور اس کے نتیجے میں اب نئی سائنس ابھری ہے بیسویں صدی کے اندر مشکل یہ ہے کہ ہمارے یہاں ہر چیز دیر سے پہنچتی ہے تو ہمارے یہاں اب وہ تصورات گردش کررہے ہیں جو انیسویں صدی میں تھے۔ بیسویں صدر کے تصورات صحیح طریقے سے ابھی تک چھائے نہیں ہوئے کتابوں میں لوگ پڑھ لیتے ہیں۔ ذہنوں میں وہی چیز چھاتی ہوئی ہے تو اکیسویں صدی کے تصورات میکانزم والے اب ختم ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید سائنس دانوں میں جو مشہور سائنس دان ہیں۔ بیسویں صدی کے وہ بیشتر خدا کے قائل ہیں۔ امریکا کے پہلے خلا باز جان گلسن کا ایک مضمون ریڈرز ڈائجسٹ میں چھپا تھا جو میں نے پڑھا اس میں اس نے لکھا کہ اس نے اوپر جاکر کیا دیکھا اور آخر یہ نتیجہ نکالا کہ خدا کا وجود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ یہ سارا نظام اور سسٹم چل رہا ہے۔ یہ بغیر کسی ذات کے نہیں چل سکتا۔ تو مطلب یہ ہے کہ بیسویں صدی کے آخر سائنس دان ہیں وہ خدا کے قائل ہیں اور بنیاد وہی ہے کہ میکانزم کی جو تھیوری تھی وہ ساری کی ساری اس صدی میں آئن اسٹائن کی بنیاد پر بالکل ختم ہوچکی۔ اب بالکل ٭رہی دوسرا کھڑا ہوگیا تو اس لیے ہمارے پاس عقلی دلائل خدا کے وجود پر اتنے موجود ہیں کہ اس سے پوری دنیا کو بھرسکتے ہیں۔
سوال: جناب مولانا صاحب آپ نے جو دلیل دی اس کی بنیاد پر ہم بھی یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہر چیز کو کوئی بنانے والا ہے تو پھر خدا کو کس نے بنایا؟
جواب: اس کا جواب تو بالکل کھلا ہوا ہے اور یہ بہت پرانا اعتراض ہے۔
جی ہاں! اعتراض تو پرانا ہے مگر اب تک موجود ہے اور بعض اوقات یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اعتراضات بہت شدت اختیار کرگئے ہیں جواب اس کا جواب کھلا ہوا موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ یوں چلتے جائیں کہ کائنات کو خدا نے بنایا۔ خدا کو کسی اور نے بنایا اور اس کے اوپر سوال ہوگا کہ اس کو کسی اور نے بنایا۔ اس طرح یہ سوال اوپر چلتا رہے گا یا تو یہ سلسلہ غیر متناہی طور پر چلتا رہے گا اور یہ ’’لاجگ‘‘ کا بنیادی مسئلہ ہے کہ غیر متناہی تسلسل نہیں ہوسکتا۔ یہ اصول مسلمہ ہے۔ تسلسل محال ہے بلکہ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی حد ماننا پڑے گی تو یہ تسلسل ہو نہیں سکتا یقینا کسی جگہ پر جاکر رکنا پڑے گا۔ یا تو یہ کہیے کہ یہ کروڑوں ذات، کروڑوں نہیں بلکہ اربوں کھربوں بلکہ اس سے بھی آگے جہاں تک گنتی ختم ہوجائے۔ یا تو یہ کہیے کہ یہ سب اصل ہیں کائنات کی اور ان سب کا کوئی بنانے والا نہیں ہے یا ایک خدا کے بارے میں کہہ دیجیے کہ اس کا کوئی بنانے والا نہیں ہے۔ تسلسل تو ہو نہیں سکتا۔ لازماً کہیں رُکنا پڑے گا اور جس جگہ پر رکیں گے۔ یا یہ کہیے کہ مادّہ کے جتنے لامحدود ذرات پائے جارہے ہیں وہ سارے کے سارے خود پیدا ہوگئے ہیں یا ایک خدا کے بارے میں کہہ دیجیے اور ظاہر ہے کہ خدا کے بارے میں یہ کہنا اس واسطے صحیح ہوگا کہ جب ہم کسی ذات کے لیے یہ تصور کریں گے کہ اس نے ساری کائنات کو پیدا کیا تو ظاہر ہے کہ اس کی قدرت وسیع ہوگی۔ اس کا علم وسیع ہوگا ۔ اس کی حکمت وسیع ہوگی۔ اس کی ہر چیز کو وسیع ماننا پڑے گا۔ لہٰذا اس کے لیے یہ باور کرلینا کہ اس نے یہ چیزیں پیدا کری ہیں تو عقل اس کے خلاف نہیں جاتی۔ کھربوں بے جان ذرات جن کے بارے میں ہم آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ ان میں نہ عقل ہے نہ شعور ان کے بارے میں یہ دعویٰ کرنا کہ کائنات کا یہ مستحکم نظام انھوں نے بنادیا ہے پرلے درجے کی حماقت ہے۔
سوال: آپ نے آسمان کا کہا تو آسمان کی تعریف کیا ہے۔ نظر کے لحاظ سے آسمان کی تعریف کیا ہوگی؟
جواب: آسمان کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ ایک جسم ہے جس کی کوئی بلندی کی مقدار شریعت نے نہیں بتائی بلکہ ایک جسم ہے جو کہ زمین پر محیط ہے اوپر کی طرف ہے اورکائنات کا جز ہے۔
سوال: یہ انسان جو دوسرے سیارات میں جاتا ہے یعنی ایک سیارے سے دوسرے سیارے کی طرف تو کیا آسمان کو پار کر کے جاتا ہے۔
جواب: نہیں ایک سیارے سے دوسرے سیارے کی طرف جانے کے لیے آسمان سے چار جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
سوال: اچھا مولانا : وجود خدا کی یہ عقلی دلیل تو واضح ہوگئی اب ایک بات اور بتایئے کہ معجزہ کی حقیقت کیا ہے؟
جواب: معجزہ دراصل انبیاء علیہم السلام کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے، یہ کوئی حیرت انگیز کا زمانہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کی سچائی کو ظاہر کرنے کے لیے ظاہری اسباب کے بغیر ظاہر فرماتے ہیں۔ یہ معجزات عقلی طور پر ناممکن تو نہیں ہوتے، لیکن حیرت انگیز اور ماورائے عقلی ضرور ہوتے ہیں۔
سوال: بعض ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو کہ فی الوقت انسانوں کو سمجھ میں نہ آتیں۔ جیسے کہ ایک جاہل آدمی ہے اس کے سامنے دو چیزیں ملادی جائیں کہ اس سے وہ چیز بدل جائے یا رنگ بدل جائے جیسا کہ تیز اب میں میٹھا سوڈا ڈال دیا جائے تو رنگ بدل جاتا ہے تو اس کے نزدیک وہ معجزہ ہوگا جب کہ میںجاننا ہوں کہ یہ تیزاب کی تاثیر ہے اور میرے نزدیک وہ معجزہ نہیں ہے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کچھ کام کررہے ہیں جو ہم نہیں سمجھتے اس لیے ہم کہہ دیتے ہیں کہ وہ معجزہ ہے اور بعد میں ہم سمجھنے لگتے ہیں تو وہ معجزہ نہیں لگتا ہوسکتا ہے کہ بعد میں وہ کام ہم کرسکیں تو یہ انسان کی عقل پر انحصار کرتا ہے جو نہ سمجھ میں آئے اس کو معجزہ کہتا ہے جیسے جنوں کے وجود کو فی الحال ہم سائنس کے طریقے سے ثابت نہیں کرسکے یعنی ہماری سائنس نے اسٹویٹ ٹیکنالوجی میں اتنی ترقی نہیں کی کہ ان کے جم کو ہم ریکارڈ کرسکیں تو جب ہم ان کے جسموں کو ریکارڈ کرسکیں گے تو پھر ہمارے لیے معجزہ نہیں رہیں گے۔
جواب: آپ نے ٭ ٹھیک کہا مابعد فرق اتنا ہے کہ معجزہ جو ہے وہ ظاہری اسباب کے ذریعے ہونے کے بجائے خالص اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہوتا ہے۔ معجزہ اس عمل کو کہتے ہیں جو عام عادت کے خلاف جو اور براہ راست اللہ تعالیٰ نے کسی ظاہری سبب کو واسطہ بنائے بغیر کوئی کام کسی نبی کے ہاتھ کرکے دکھا دیا ہو۔
سوال: تو پھر ہم لوگ عام طور پر جو کہتے ہیں کہ آپ نے معجزہ دکھادیا تو یہ غلط بولتے ہیں۔
جواب: یہ محاورہ بولتے ہیں حقیقت میں معجزہ نہیں ہوتا۔
سوال: جناب نبی سے کوئی بات ناممکن ہوجائے تو معجزہ اور کسی اولیا سے سرزد ہوجائے تو کرامت ہے لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بعض اوقات کسی عام آدمی سے کوئی ناممکن بات ہوجائے یعنی جسے عقل سلیم نہ تسلیم کرتی ہو تو اس کو کیا کہیں گے اس کو ہم محاورتاً تو معجزہ کہتے ہیں لیکن اس کو اصطلاحی الفاظ ہیں کیا کہا جائے گا۔ جو اگر وہ کسی سچے مسلمان آدمی سے سرزد ہوجائے تو اسے بھی کرامت ہی کہیں گے۔ معجزہ میں یہ ہوتا ہے کہ ظاہری اسباب کے واسطے سے ماورا ہوتا ہے لیکن ناممکن نہیں ہوتا مثلاً آگ جلاتی ہے اور یہ اس کا عام دستورہے لیکن اگر کسی وقت اس کے اندر سے یہ خاصیت ختم ہوجائے تو وہ مختلف طریقوں سے ختم ہوسکتی ہے۔ ایک شخص وہ مادّہ نکالیتا ہے جس سے آگ اس پر اثر نہیں کرتی تو اس کو آگ نہیں جلائے گی اگر یہی کام اللہ تعالیٰ محض اپنی قدرت سے بغیر کسی ظاہری سبب کے کسی نبی کے لیے کوئیں گپور کا ہے اگر کسی دیہاتی کے سامنے آپ یہ کہیں گے کہ ایک دماغ بنالیا ہے اس قسم کا کہ وہ خود بخود کرلیتا ہے تو وہ کہے گا کہ پاگل پن کی بات ہے اس واسطہ کے اس کے ذہن میں اس بات کا تصور نہیں آسکتا وہ اس کو ناممکن سمجھتا ہے حالانکہ ناممکن نہیں تھا اسی بناپر تو ہوگیا بعض دفعہ انسان کا ذہن کسی چیز کے لیے تیار نہیں ہوتا تو وہ اس کو ناممکن اور حیرت انگیز تصور کرتا ہے۔ میں نے خود امریکا میں دیکھا کہ رات کو ایک شخص دس بجے بنک گیا بنک بند ہونے کے بعد اور اس کا اکاؤنٹ اس بنک میں ہے اور اس کو دس ہزار پانچ سو ستر روپے پچھتّر پیسے چاہئیں اس نے اتنے پیسے اس کارڈ میں لکھ دیئے اس نے ایک کمپوٹر میں ڈال دیئے وہ کارڈ اس مشین میں جائے گاپہلے یہ چیک کرے گا کہ اس کا اکاؤنٹ ہے اس کے بعد وہ یہ دیکھے گا کہ اس اکاؤنٹ میں انتی رقم موجود ہے یا نہیں اور پھر وہ دستخط چیک کرے گا اور اس کے بعد وہ کوڈ نمبر چیک کرے گا جو کہ اس کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں اس کے بعد وہ پیسے نکالے گا اور اس کی ریز گاری کرائے گا اور اس کے بعد اسی تاریخ اور رقم کا اندراج کرکے اس شخص کو رقم اس سے مل جائے گی یہ تمام کام دو تین منٹ میں ہوگئے تو یہ عقل میں آنے والی بات نہیں تھی مگر ممکن تھی اسی لیے وجود میں آگئی یہ کام چوں کہ سائنٹفک ذرائع سے ہوا اس لیے یہ ٭ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ وزن اعمال کہ ہر عمل کا وزن ہورہا ہوگا۔ یا یہ کہ جتنے اعمال ہیں وہ ان کے پاس لکھے جارہے ہیں۔ پہلے لوگ یہ کہتے تھے کہ کس طرح لکھا جاسکتا ہے اور کس طرح محفوظ رہے گا۔ مگر موجود دور میں دیکھئے یہ ٹیپ ریکارڈر کے ذریعے تمام باتیں محفوظ ہورہی ہیں۔ ریکارڈ کو چھوڑ دیجیے ایسے کیمرے آگئے ہیں کہ آپ اٹھ کر چلے جائیں اور آدھ گھنٹہ تک آکر اسی جگہ سے سابقہ تصاویر اتار لیجیے ’’ہیٹ کی ریز سے ‘‘ تصویر بنالیتے ہیں اس سے امریکا میں ایک طیارہ پکڑا تو وہ کیسے ہوگیا ، ناممکن نہیں تھا پہلے Impossible لگتا تھا لیکن Impossible نہیں تھا Improbable تھا اب تو اس بات کی تحقیق ہورہی ہے اور شاید کامیاب بھی ہوجائیں کہ ہزار سال قبل آدمیوں کی آواز سن لیں کیوں کہ آواز فنا تو ہوتی نہیں فضا میں محفوظ رہتی ہے اب آواز تو آتی ہے مگر آپ اس کو جدا نہیں کرسکتے ایک دوسرے میں گڈمڈ ہے تو ناممکن نہیں ہے ہوسکتا ہے کہ کسی وقت واقع ہوجائے تو اگر یہ سب چیزیں سائنس کی ترقی سے ہوسکتی ہیں تو خدا اگر براہِ راست کرائے تو اس میں آخر کیا مضائقہ ہے خدا بغیر کسی واسطہ کے اپنی قدرت سے یہ کام کردے جس طرف ہم سائنس کے کرشمے سے رفتہ رفتہ جارہے ہیں تو اس میں آخر ہمارے پاس کیا ناممکن بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے بغیر کسی واسطے کے کرادیا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے یہ کہا تھا کہ یہ انیسویں صدی کا فلسفہ تھا میکانزم کا کہ جس کی وجہ سے انیسویں صدی کے سائنس والوں اور فلسفیوں نے معجزہ کا انکار کیا تھا چناںچہ جو ان کے خوشہ چیں تھے جنھوں نے پورے طریقے سے ان فلسفیوں کو پڑھا بھی نہیں تھا مثلاً سرسید صاحب وغیرہ تو ان حضرات نے ان معجزوں کی مخالفت کی مگر اب جو بیسویں صدی کا نظریہ آیا ہے سارے سائنس دان یہ کہتے ہیں کہ کوئی چیز لازم ذات نہیں کوئی چیز لازم ماہیت نہیں اور سب چیزیں ممکن ہوسکتی ہیں ہماری ان تک اپروچ نہیں جب اپروچ ہوجائے گی تو ان کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
سوال جناب مولانا صاحب یہ تو معجزہ کی توصیح ہے لیکن کیا انسان کو اپنی پلاننگ میں یا اپنے معاشرہ کی پلاننگ ہیں یا اکنامک پلاننگ یا فنانشل پلاننگ میں یا سوشل پلاننگ میں ٹیکنالوجی پلاننگ میں کیا اس کو معجزات کا انتظار کرنا چاہیے یا اس میں تمام مادّی اسباب کو اختیار کرنا چاہیے۔
جواب: بالکل نہیں اس کو کسی معجزہ کا انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ خالص مادّی اسباب اور ذرائع کو اختیار کرنا چاہیے اور ٹیکنالوجی کے ذریعہ حاصل کرنا چاہیے۔
سوال: بات سے بات نکلتی ہے میرے ذہن میں ایک سوال اور ہے۔ اور وہ یہ کہ ہمارے یہاں اکثر مسئلوں کو کفر اور ایمان کا مسئلہ بنایا لیاجاتا ہے، فلاں چیز کی تو کافر، فلاں چیز نہ کی تو مسلمان۔ اس طرح سرسید کو بھی کافر قرار دیا گیا، قائد اعظم کو بھی اس وجہ سے کافی لوگ مذہب سے بدظن ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: اس میں شک نہیں کہ کفر کے فتوؤں کے سلسلے میں ہمارے یہاں سخت بے احتیاطیاں ہوئی ہیں۔ اور بعض مشتعل مزاج کے قسم کے لوگوں نے ایسی باتوں پر کفر کا فتویٰ دے دیا جو درحقیقت موجب کفر نہیں تھیں اور اس سے فتویٰ کے وقار
کو بھی ٹھیس پہنچی، لیکن اس کی وجہ سے دین سے بدظن ہوتا ٹھیک نہیں اس طرز عمل کا الزام اسلام پر نہیں آتا اور لوگوں پر آتا ہے جنھوں نے یہ بے احتیاطی کی اب میں عرض کرتا ہوں کہ اسلام درحقیقت کچھ بنیادی حقیقتوں پر ایمان لانے کا نام ہے۔ اور اسلام کا واضح حکم موجود ہے کہ جب تک کوئی شخص ان بنیادی حقیقتوں میں سے کسی کو نہ جھٹلائے اسے کافر نہ کہو، بلکہ اگر کسی شخص نے کوئی ایسی بات کہی ہے جس میں ننانوے احتمال کفر کے اور ایک اسلام کا ہے، تب بھی اسے کافر کہنے کی اجازت نہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر کوئی شخص ان بنیادی حقیقتوں میں سے کسی ایک کو بھی تسلیم کرتے سے انکار کردے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ پھر اسے مسلمان کہنا بھی درست نہیں۔
سوال: آپ کا مطلب ہے کہ کسی کلمہ گو کو کافر نہیں کہنا چاہیے؟
جواب: نہیں۔ صرف کلمہ گو ہونا مسلمان ہونے کے لیے کافی نہیں ہے، بلکہ ان تمام بنیادی حقیقتوں پر ایمان رکھنا ضروری ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم یا سنت متواترہ کے ذریعے ہم تک پہنچائی ہیں۔ دراصل اس معاملے میں ہمارے یہاں افراط و تفریط ہوتی رہی ہے۔ جہاں بعض لوگوں نے دوسروں پر کفر کے غلط فتوے دیئے ہیں۔ وہاں بعض لوگوں نے یہ غلط پروپیگنڈہ بھی کیاکہ جو شخص کلمہ پڑھتا ہوا سے کافر نہ کہو۔ اسی پروپیگنڈے کی آڑ میں قادیانیوں نے عرصہ دراز تک بہت سے لوگوں کو غلط فہمی میں مبتلا رکھا۔ حالاں کہ اگر اس بات کو مان لیا جائے کہ کسی کلمہ گو کو کافر نہیں کہا جاسکت تو اس کا مطلب یہ ہوہے کہ اگر ایک شخص کلمہ تو پڑے لے، لیکن آخرت پر ایمان نہ رکھے، قرآن کو اللہ کی کتاب قرار نہ دے۔ دوسرے انبیاء علیہم السلام کی نبوت کا قائل نہ ہو، نماز ، روزہ، زکوٰۃ، حج کی فرضیت کو جھٹلائے، شراب سود، زنا اور اس طرح کے تمام کبائر کو حلال کہے تو وہ بھی صرف کلمہ پڑھ لینے کی وجہ سے مسلمان ہی قرار پائے۔ حالاں کہ اگر اس بات کو درست مان لیا جائے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ اسلام کوئی معین اور باقاعدہ دین نہیں ہے بلکہ معاذ اللہ ایک ڈھیلا ڈھالا جامہ ہے جس میں ہر طرح کے بڑے سے بڑے عقائد سما سکتے ہیں۔ لہٰذا بات دراصل وہی ہے کہ اسلام جن بنیادی حقیقتوں پر ایمان کانام ہے ان سب پر ایمان رکھنا مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے۔ جو شخص ان پر ایمان رکھتا ہوں اسے کافر کہنے کا کوئی جواز نہیں۔ خواہ فروعی مسائل میں اس سے کتنی غلطیاں ہوئی ہیں لیکن جو شخص ان بنیادی حقیقتوں کا یا ان میں سے کسی کا انکار کردے تو اسے کافر کہنا ضروری ہے اور یہ کوئی عیب کی بات نہیں۔
سوال: مولانا! آپ نے فرمایا تھا کہ اگر کسی شخص میں ننانوے احتمال کفر کے ہوں اور ایک احتمال اسلام کا ہو تو اسے کافر نہ کہنا چاہیے ہے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے اکثر اعمال اسلام کے مطابق ہوتے ہیں اور وہ اسلامی اخلاق سے بھی آراستہ ہوتے ہیں مگر ان کے ایک عقیدے کی خرابی کی وجہ سے انھیں کافر قرار دیدیا جاتا ہے یہ طرز عمل کیسے درست ہے؟
جواب: میں نے جو بات کہی تھی وہ یہ تھی کہ ’’اگر کسی شخص نے کوئی ایسی بات کہی ہے جس میں ننانوے احتمال کفر کے اور ایک اسلام کا ہے‘‘تو اسے کافر کہنے کا اجازت نہیں۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ ’’اگر کسی شخص کے ننانوے عقیدے اسلام کے مطابق ان ایک اسلام کے خلاف ہو‘‘ تو اسے کافر نہ کہا جائے۔ بلکہ جیسا کہ میں نے ابھی آپ سے کہا، اسلام نے جن بنیادی حقیقتوں پر ایمان لانے کو ضرور قرار دیا ہے ان سب پر ایمان لانا ہوگا، اُن میں سے کسی ایک کا بھی انکار کردیا تو وہ کفر ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ اگر ایک شخص کسی حکومت کے تمام قوانین کی عملاً پابندی کرتا ہے لیکن اس کے صرف ایک قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کے خلاف بغاوت کا ارتکاب کرتا ہے تو اگر اس کا یہ جرم بغاوت یقینی طور پر ثابت ہوجائے تب بھی وہ باغی قرار پائے گا اور محض اس بناء پر اس کا جرم ختم نہ ہوگا کہ اس نے باقی تمام قوانین کی پابندی کی ہے۔

سوال: اسی قسم کی ایک کھٹک بعض مرتبہ یہ پیدا ہوتی ہے کہ بہت سی غیر مسلم اقوام ایسی ہیں جو بظاہر بڑے اچھے کردار کی مالک نظر آتی ہیں، دیانت داری، ایک دوسرے کے مدد وغیرہ بہت سے کام اچھے کرتی ہیں، بلکہ بہت سے ایسے کام کرتی ہیں جن کا اسلام نے حکم دیا ہے۔ اس کے باوجود انھیں مسلمانوں کی طرح قابل تعریف کیوں نہیں سمجھا جاتا۔
جواب: اچھا کام تو کوئی بھی کرے اچھا ہی ہوتا ہے۔ اور غیر مسلموں کے بہت سے اچھے کاموں کی تعریف کی بھی جاتی ہے۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ آیا وہ اچھا کام انسان کے بحیثیت مجموعی قابل تعریف ہونے کے لیے کافی ہے یا نہیں؟ ابھی میں نے باغی کی مثال دی تھی کیا اگر وہ اپنی ذاتی زندگی میں سچا، امانت دار اور باکردار ہو تو اس کے ان اوصاف کی تعریف تو کی جائے گی لیکن اگر اس نے اس کے ساتھ بغاوت کا بھی ارتکاب کیا ہے تو اس پر ان اوصاف کے باوجود بغاوت کا مقدمہ تو چلے گا۔ اور اگر جرم ثابت ہوجائے تو سزائے موت دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح ایک مثال اور لیجیے۔ آپ ایک امتحان گاہ میں گئے اور سوالات کا پرچہ آپ کے سامنے آیا۔ اس پرچے میں جتنے سوالات لازمی تھے ان کا تو آپ نے جواب لکھا نہیں لیکن ان کی جگہ دوسرے موضوعات سے متعلق بڑی فاضلانہ بحثیں لکھ دیں وہ فاضلانہ بحثیں اپنی جگہ خواہ کتنی قابل تعریف ہوں لیکن ان کی بناء پر آپ کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اس لیے کہ آپ نے پرچے کے لازمی سوالات کا جواب نہیں دیا۔ سوال یہ ہے کہ جو بحثیں آپ نے لکھی ہیں وہ قابل تعریف ہیں یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ اپنی جگہ وہ قابل تعریف ہیں۔ لیکن ممتحن یہ کہے گا کہ اگر لازمی سوالات کو حل کرنے کے بعد یہ بحثیں لکھتے تو پرچہ بحیثیت مجموعی اچھا ہوتا۔ آپ اچھے نمبروں سے پاس ہوتے۔ لیکن جب آپ نے لازمی سوالات چھوڑ دیئے تو ساری بحثیں قابل تعریف ہونے کے باوجود کامیابی میں آپ کی مدد نہ کرسکیں اسی طرح انسان کا معاملہ ہے۔ یہ دنیا دراصل ایک امتحان گاہ ہے اور بنیادی عقائد ضروریہ پر ایمان اس امتحان کا لازمی سوال ہے۔ جس پر کامیابی موقوف ہے اس لازمی سوال کو حل کرنے کے بعد آپ جتنے اچھے کام کریں گے آپ کے درجے میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ لیکن اگر ایمان کے بغیر اچھے کام کیے تو وہ خواہ اپنی ذات میں کتنے قابل تعریف ہوں تنہا وہ انسان کے بحیثیت مجموعی اور قابل تعریف اور کامیاب ہونے کے لیے کافی نہیں انسان اللہ کا بندہ ہے۔ اس لیے اس کا سب سے پہلا فریضہ یہ ہے کہ وہ اللہ کو تنہا اپنا معبود قرار دے۔ اگر وہ یہ نہیں کرتا تو وہ اللہ کا باغی ہے اور اسے بحیثیت مجموعی دینوی زندگی کے اس امتحان میں کامیاب قرار نہیں دیا جاسکتا۔

سوال: اب ایک بات اور ہم عقلی طور پر قائل ہوگئے کہ اسلام دین فطرت ہے اس کے تمام عقائد اور تعلیمات ضروری ہیں لیکن آج ایک عام آدمی یہ دیکھتا ہے کہ جو لوگ صبح و شام اسلام کا نام لیتے ہیں خود ان کا عمل اسلام کے خلاف نظر آتا ہے وہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں ان کے قول و فعل میں تضاد ہے بہت سے لوگ اسلام کے نام پر اتنے فریب دے چکے ہیں کہ بعض لوگ پریشان ہو کر مذہب ہی سے متنفر ہونے لگتے ہیں۔ بہت سے علماء کرام میں بھی یہ بات نظر آتی ہے کہ ان کے قول و فعل میں تضاد ہے اس وجہ سے بعض لوگ ان سے بھی بھاگتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اسلام کی اشاعت اور ترقی میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے اس صورت حال کا کیا حال ہونا چاہیے؟
جواب: اس میں شک نہیں اور ہمیں کھلے دل سے یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ یہ صورت حال موجود ہے۔ اور اس کا پہلا اور بنیاد حل تو یہ ہی ہے کہ ہم سب اپنے اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر اپنے قول و فعل کے تضاد کا جائزہ لیں اسے دور کریں اور یہ سوچیں کہ ہم اپنی بداعمالیوں سے کس طرح ایک دین برحق کی اشاعت میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اور اپنے دنیا و آخرت کے انجام کو ذہن میں رکھ کر اپنی زندگیوں میں انقلاب پیدا کریں۔
لیکن اس کے ساتھ ہی میں پوری قوت سے یہ بات بھی عرض کردوں گا کہ اس صورت حال سے بد دل ہو کر دین کو چھوڑ بیٹھنا نہ صرف یہ کہ بالکل غلط طرز فکر ہے بلکہ اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ دراصل بہت بڑا شیطانی دھوکا ہے۔ کہ چوں کہ اسلام کا نام لینے والے پوری طرح اسلام پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ اس لیے اسلام ہی کو چھوڑ دو یا اگر بعض علما سے عملی غلطیاں ہوجاتی ہے تو علماء کی کوئی بات نہ مانوں میرے نزدیک یہ طرز فکر سنگین حد تک غلط اور خطرناک ہے۔ دیکھئے آج ہمیں اپنے گرد و پیش میں دھوکا ہی دھوکا نظر آتا ہے۔ بازار میں کوئی چیز خالص نہیں ملتی، ہر جگہ ملاوٹ کا بازار گرم ہے، لیکن دھوکا فریب کی اس گرم بازاری میں آج تک کوئی شخص ایسا نہیں سنا گیا کہ اس نے دھوکے سے تنگ آکر سارے کاروبار کو چھوڑ دیاہو۔ مثلاً گندم خالص نہیں ملتا، آٹا خالص نہیں ملتا، تو کیا لوگوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ چوں کہ یہ چیزیں خالص نہیں ملتیں اس لیے آئندہ ہم بھوسہ کھایا کریں گے؟ یا کھانا ہی چھوڑ دیں گے؟
ڈاکٹر مخلص نہیں ملتے تو کیا لوگوں نے علاج کرانا بالکل ترک کردیا ہے؟ ہسپتال میں دوائیں خالص نہیں ملتیں تو کیا ہسپتالوں کی طرف جانا چھوڑ دیا ہے؟ ظاہر ہے کہ ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے بلکہ آج اس ملاوٹ کے زمانے میں بھی جو شخص چیز اور مخلص انسان کی تلاش کرنا چاہتا ہے۔ اسی تھوڑی بہت جدوجہد سے گوہر مطلوب مل ہی جاتا ہے۔ اور یہ باتیں تھوڑی بہت جستجو سے معلوم ہوجاتی ہیں کہ فلاں چکی پر آٹا اچھا ملتا ہے، فلاں دکان پر گوشت اچھا ہوتا ہے فلاں آدمی مصالحے خالص رکھتا ہے، فلاں دکان کی میٹھائی اچھی ہوتی ہے، فلاں ڈاکٹر بڑا ماہر اور بیماروں کا ہمدرد ہے فلاں ہسپتال کا انتظام بڑا اچھا ہے۔ آج سارے زندگی کاکاروبار اسی پر چل رہا ہے۔ اور جستجو کرکے انسان کبھی سو فیصد کبھی نوے فیصد یا اس کے لگ بھگ مطلوب چیز تلاش کرہی لیتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہی طرز عمل دین کے بارے میں کیوں اختیار نہیں کیا جاتا؟ مجھے اعتراف ہے کہ دین کے نام پر دھوکا دینے والے بھی موجود ہیں، لیکن یہ کہنا بالکل غلط اور گمراہ کن پروپیگنڈا ہے کہ دین کے مخلص خادموں سے دنیا خالی ہوگئی ہے۔ یقین رکھیے ایسا کبھی نہیں ہوسکتا، یہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ ہے کہ ہر زمانہ میں دین کے سچے اور مخلص خادم موجود رہیں گے لیکن بات صرف یہ ہے کہ جو لوگ اہل دین کی بے عملی کو دین سے فرار کا بہانہ بناتے ہیں ان کے ذہنوں میں دین کی اتنی بھی اہمیت نہیں ہے۔ جتنی آٹے، گوشت اور میٹھائی وغیرہ کی ہوسکتی ہے۔ وہ ملاوٹ کی اس دنیا میں خالص آٹے، خالص گوشت اور خالص میٹھائی ڈنڈھونے کے لیے جستجو کرتے ہیں لیکن دین کے لیے اتنی جستجو کرنے کو تیار نہیں اور سارا الزامزمانے کے اہل دین پر رکھ کر فارغ ہوجانا چاہتے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی یاد رکھیے کہ دین کے نام لیوا یا علماء کوئی مافوق الفطرت مخلوق نہیں۔ وہ بھی انسان ہیں اور اسی بناء اور اسی معاشرے کے افراد ہیں اس لیے غلطیاں کوتاہیاں ان سے بھی ہوسکتی ہیں۔ ان سے بھی گنا ہوسکتے ہیں۔ انھیں جانچنے کے لیے اگر آپ معصوم فرشتوں کا معیار لے کر آئیں گے تو یہ خود فریبی ہوگی۔ البتہدیکھنے کی بات یہ ضرور ہے کہ بحیثیت مجموعی وہ دین پر گامزن اور اس کے لیے مخص ہیں یا نہیں؟ اور ایسے لوگ آج اس گئے گذرے دور میں بھی ایک دو نہیں، بہت سے مل جائیں گے۔
سوال: مولانا صاحب! شہروں کی حد تک تو یہ بات درست ہے مگر دیہات میں ملنے مشکل ہیں۔
جواب: میرا خیال اس کے باکل برعکس یہ ہے کہ ایسے لوگ شہروں میں کم دیہاتوں میں زیادہ ہیں۔ ہمارے دیہات کی اکثریت اب تک ان بے شمار بلاؤں سے بحمد اللہ محفوظ ہے جو شہروں میں گھس آئی ہیں۔ اس لیے وہاں آپ کو زیادہ دین دار سادہ، مخلص اور پکے مسلمان مل سکتے ہیں۔ بہر حال!اہل دین کی جس صورت حال کی طرف آپ نے اشارہ کیا تھا وہ دین کو خیر آباد کہنے کی کسی طرح وجہ جواز نہیں بن سکتی، اور نہ یہ بہانہ درست ہے کہ مخلص علما موجود نہیں اس لیے ان کی طرف رجوع کرنے یا ان کی بات ماننے کا قصہ اب ختم ہوگیا ہے۔

پیر، 19 ستمبر، 2016

صحابہ کرام کی منفردانہ عظمت


مولانا حبیب الرحمان اعظمی

الصحابة فی القرآن

صحابہ جس مقدس جماعت کا نام ہے وہ امت کے عام افراد کی طرح نہیں ہے، بلکہ صحابہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور امت کے درمیان ایک مقدس واسطہ ہونے کی حیثیت سے ایک خاص مقام ومرتبہ کے مالک ہیں اورعام امت سے امتیاز رکھتے ہیں، انہیں یہ امتیاز الله اور اس کے رسول کی جانب سے عطا ہوا ہے ، ذیل میں اس امتیاز وخصوصیت کی تھوڑی سی تفصیل پیش کی جارہی ہے۔
﴿والسابقون الاولون من المھاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی الله عنہم ورضوا عنہ واعد لھم جنت تجری تحتھا الانھر خالدین فیھا ابدا ذلک الفوز العظیم﴾
جو مہاجرین او رانصار ( ایمان لانے میں سب سے ) سابق اورمقدم ہیں ( اور بقیہ امت میں ) جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں الله ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب الله سے راضی ہوئے ، الله نے ان سب کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، یہ بہت بڑی کام یابی ہے۔“
اس آیت میں صحابہ کرام کے دو طبقے بیان کیے گئے ۔ایک سابقین اولین کااور دوسرا بعد میں آنے والوں کا اور دونوں طبقوں کے متعلق یہ اعلان کر دیا گیا ہے کہ الله ان سے راضی اور وہ الله سے راضی ہیں اور ان کے لیے جنت کا مقام ودوام ہے ، سابقین اولین کون لوگ ہیں؟ اس پر بحث کرتے ہوئے علامہ ابن تیمیہ
لکھتے ہیں:
”ذھب جمھور العلماء الی ان السابقین فی قولہ تعالی: ﴿والسابقون الاولون من المھاجرین والانصار﴾ ھم ھؤلاء الذین انفقوا من قبل الفتح وقاتلوا واھل بیعة الرضوان کلھم منھم، وکانوا اکثرمن الف واربعمائة، وقد ذھب بعضھم الی ان السابقین الاولین ھم من صلی الی القبلتین وھذا ضعیف“
”جمہور علماء کے نزدیک سابقین اولین میں وہ صحابہ کرام داخل ہیں جنہوں نے قبل الفتح اپنی جان ومال کے ذریعہ جہاد کیا او راس صفت سے تمام اہل بیعت رضوان متصف ہیں، جن کی تعداد چودہ سو سے اوپر تھی، بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ سابقین اولین وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلہ کی جانب نماز ادا کی، مگر یہ قول ضعیف ہے۔“

اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر بیعت جہاد کرنے والے تمام صحابہ سابقین اولین میں داخل ہیں اور صحیح بخاری میں حضرت جابر
بن عبدالله سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”لا یدخل النار احد ممن بایع تحت الشجرة“ ”جن لوگوں نے درخت کے نیچے بیعت کی ان میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں داخل ہو گا۔“ اس آیت پاک سے صراحتاً ثابت ہوتا ہے کہ مہاجرین وانصار میں سے تمام سابقین اولین او ران کے بعد صحابیت کا شرف حاصل کرنے والے تمام صحابہ کرام دوامی طور پر جنتی ہیں، جن میں بلاریب خلفائے اربعہ بھی داخل ہیں۔

حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں” جو شخص قرآن پر ایمان رکھتا ہے جب اس کے علم میں یہ بات آگئی کہ الله تعالیٰ نے بعض بندوں کو دوامی طور پر جنتی فرمایا ہے تو اب ان کے حق میں جتنے بھی اعتراضات ہیں سب ساقط ہو گئے، کیوں کہ الله تعالیٰ عالم الغیب ہے، وہ خوب جانتا ہے فلاں بندہ سے فلاں وقت میں نیکی اور فلاں وقت میں گناہ صادر ہوگا، اس کے باوجود جب باری تعالیٰ یہ اطلاع دیتا ہے کہ میں نے اسے جنتی بنا دیا تو اسی کے ضمن میں اس بات کا اشارہ ہو گیا کہ اس کی تمام لغزشیں معاف کر دی گئیں، لہٰذا اب کسی شخص کا ان مغفور بندوں کے حق میں لعن وطعن کرنا جناب باری تعالیٰ پر اعتراض کرنے کے مرادف ہو گا، اس لیے ان پر اعتراض کرنے والا گویا یہ کہہ رہا ہے کہ یہ بندہ گنہ گار ہے، پھر الله تعالیٰ نے اسے کیسے جنتی بنا دیا؟ اور ظاہر ہے کہ الله تعالیٰ پر اعتراض کفر ہے۔
﴿ولکن الله حبب الیکم الإیمان وزینہ في قلوبکم وکرہ الیکم الکفر والفسوق والعصیان اولئک ھم الراشدون فضلا من الله ونعمة والله علیم حکیم﴾
”لیکن الله نے ایمان کو تمہارے لیے محبوب بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں مزین کر دیا اور کفر ، فسق اور نافرمانی کو تمہارے لیے ناپسند کر دیا، ایسے ہی لوگ الله کے فضل ونعمت سے ہدایت یافتہ ہیں اور الله خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔“
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ بلا استثناء تمام صحابہ کرام
کے دلوں میں ایمان کی محبت اور کفر اور فسق ونافرمانی سے نفرت وکراہیت منجانب الله راسخ کر دی گئی تھی اور لفظ الی سے مستفاد ہوتا ہے کہ یہ ایمان کی محبت اور کفر وغیرہ سے کراہیت انتہا درجے کوپہنچی ہوئی تھی، کیوں کہ ” الیٰ“ ‘ عربی میں انتہا اور غایت کا معنی بیان کرنے کے لیے وضع کیا گیا ہے ،نیزاسی آیت پاک سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرات صحابہٴ کرام سے جو لغزشیں صادر ہوئی ہیں وہ ضعف ایمان اور فسق وعصیان کو مستحسن سمجھتے ہوئے صادر نہیں ہوئی ہیں، بلکہ ان کا صدور بتقاضائے بشریت ہوا ہے ، اس لیے ان زلات اور لغزشوں کو بنیاد بنا کر ان کی شان میں لعن طعن کرنا اور ان کے بارے میں تنقید وتنقیص کا رویہ اختیار کرنا جہالت وزندقہ ہے۔
﴿والذین اٰمنوا وھاجروا وجاھدوا فی سبیل الله والذین آووا ونصروا اولئک ھم المؤمنون حقالھم مغفرة ورزق کریم﴾
”او رجو لوگ ایمان لائے او رہجرت کی اور الله کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے انہیں جگہ دی او ران کی مدد کی وہی ہیں سچے مسلمان، ان کے لیے مغفرت ہے او رباعزت رزق ہے۔“
اسی سورہ کے شروع میں ارشاد خدا وندی ہے
:﴿الذین یقیمون الصلوٰة ومما رزقناھم ینفقون اولئک ھم المومنون حقا لھم درجة عند ربھم ومغفرة ورزق کریم﴾
”وہ لوگ جو نماز کو قائم رکھتے ہیں اور ہم نے ان کو جوروزی دے رکھی ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں، وہی سچے مسلمان ہیں، ان کے واسطے درجے ہیں ان کے رب کے پاس او رمغفرت او رعزت کی روزی۔“
ان دونوں آیات سے معلوم ہوا کہ حضرات مہاجرین وانصار کے اعمال ظاہرہ نماز روزہ، حج، زکوٰة ، جہاد وغیرہ قطعی طور پر نفاق ومکر کی بنا پر نہیں تھے ان کا ایمان الله کے نزدیک متحقق وثابت تھا اس لیے حضرات صحابہ بالخصوص خلفائے ثلثہ کی جانب نفاق کی نسبت کرنا خدائے بزرگ وبرتر کے ساتھ معارضہ کرنا ہے۔
﴿محمد رسول الله والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم تراھم رکعا سجدا یبتغون فضلا من الله ورضوانا سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود ذلک مثلھم فی التوراة ومثلھم فی الانجیل کزرع اخرج شطأہ فآزرہ فاستغلظ فاستوی علی سوقہ یعجب الزراع لیغیظ بھم الکفار وعد الله الذین آمنوا وعملوا الصلحت منھم مغفرة واجراعظیما﴾
”محمد الله کے رسول ہیں او رجو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں مہربان ہیں ۔( اے مخاطب!) تو ان کو دیکھے گا کہ کبھی رکوع میں ہیں او رکبھی سجدے میں، ڈھونڈتے ہیں الله کے فضل او راس کی خوشی کو ان کی نشانی سجدوں کے اثر سے ان کے چہرے پر نمایاں ہے، یہ مثال ہے ان کی تورات میں او رانجیل میں ان کی مثال ہے جیسے کھیتی نے نکالا اپنا پٹھا، پھر اس کی کمر مضبوط کی پھر موٹا ہوا، پھر کھڑا ہو گیا اپنی جڑی پر بھلا لگتا ہے کھیتی والوں کو، تاکہ جلائے اس سے جی کافروں کا، وعدہ کیا ہے الله نے ان سے، جو یقین لائے ہیں او رکیے ہیں بھلے کام، معافی کا اور بڑے ثواب کا۔
امام قرطبی اور عامہٴ مفسرین کہتے ہیں کہ ﴿والذین معہ﴾ عام ہے۔ اس میں تمام صحابہٴ کرام داخل ہیں۔ اسآیت کریمہ میں تمام صحابہ کی عدالت ، ان کی پاک باطنی او رمدح وثنا خود مالک کائنات نے فرمائی ، ابو عروہ زبری کہتے ہیں کہ ایک دن امام مالک کی مجلس میں ایک شخص کے متعلق یہ ذکر آیا کہ وہ صحابہٴ کرام کو برا کہتا ہے ، امام مالک نے یہ آیت ﴿لیغیظ بھم الکفار﴾ تک تلاوت کی اور پھر فرمایا کہ جس شخص کے دل میں اصحاب رسول میں سے کسی کے متعلق غیظ ہو، وہ اس آیت کی زد میں ہے، یعنی اس کا ایمان خطرہ میں ہے، کیوں کہ آیت میں کسی صحابی سے غیظ، کفار کی علامت قرار دی گئی ہے۔
﴿للفقراء المھاجرین الذین اخرجوا من دیارھم واموالھم یبتغون فضلا من الله ورضوانا وینصرون الله ورسولہ اولئک ھم الصادقون، والذین تبوؤا الدار والایمان من قبلھم یحبون من ھاجر الیھم ولا یجدون فی صدورھم حاجة مما اتوا ویؤثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصة ومن یوق شح نفسہ فاولئک ھم المفحلون والذین جاؤا من بعدھم یقولون ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین امنوا ربنا انک رؤف رحیم﴾
”(اور مال غنیمت کا حق) ان مفلس مہاجرین کا ہے جو جدا کر دیے گئے ہیں اپنے گھروں سے او راپنے مالوں سے وہ الله کے فضل او ررضا مندی کے طالب ہیں اور وہ الله او ر اس کے رسول ( کے دین) کی مدد کرتے ہیں یہی لوگ ( ایمان کے) سچے ہیں اور ان لوگوں کا( بھی حق ہے) جو دارالاسلام میں او رایمان میں ان مہاجرین سے پہلے قرار پکڑے ہیں، جو ان کے پاس ہجرت کرکے آتا ہے اس سے یہ لوگ محبت کرتے ہیں او رمہاجرین کو جو کچھ ملتا ہے اس سے یہ انصار لوگ اپنے دلوں میں کوئی رشک نہیں پاتے اور (مہاجرین کو) اپنے سے مقدم رکھتے ہیں، اگرچہ ان پر فاقہ ہی ہو اور واقعی جو شخص طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا جائے ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ( او ران لوگوں کا بھی اس مال فیء میں حق ہے ) جو دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم کوبخش دے او رہمارے ان بھائیوں کو ( بھی) جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ آنے دیجیے ، اے ہمارے رب !آپ بڑے شفیق ورحیم ہیں۔“
ان آیات میں الله تعالیٰ نے عہد رسالت کے تمام موجود اور آئندہ آنے والے مسلمانوں کو تین طبقوں میں تقسیم کرکے ہر طبقہ کا الگ الگ ذکر کیا ہے ، پہلا مہاجرین کا طبقہ ہے، جنہوں نے محض الله اور اس کے رسول کے لیے ہجرت کی کسی دنیوی غرض کے لیے ان کی ہجرت نہیں تھی، جیسا کہ خود باری تعالیٰ ان کی شان میں فرماتے ہیں
﴿اولئک ھم الصادقون﴾ یعنی یہ حضرات اپنے قول ایمان او رفعل ہجرت میں سچے ہیں ۔ دوسرا طبقہ حضرات انصار کا ہے، جن کی صفات بیان کرتے ہوئے الله تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ مہاجرین سے محبت رکھتے ہیں او ران پر حسد نہیں کرتے ہیں ، ان صفات کے ذکر کے بعد فرمایا ﴿فاولئک ھم المفلحون﴾ یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ، تیسرا طبقہ ان مؤمنین کا ہے جو مہاجرین وانصار کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں اور اس بات کی بھی دعا کرتے ہیں کہ اے الله! ہمارے دلوں میں ان کی طرف سے کینہ وعداوت نہ ڈالیے، یقینا آپ مہربان اور رحمت کرنے والے ہیں ، لہٰذا اپنے فضل ورحمت سے ہماری دعا قبول کر لیجیے ، ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ فلاح پانے والے وہی لوگ ہیں جو حضرات مہاجرین سے محبت رکھتے ہیں اوران کی شان میں طعن وتشنیع نہیں کرتے، کیوں کہ طعن وتشنیع تقاضائے محبت کے خلاف ہے ، جس سے معلوم ہوا کہ خلفائے اربعہ جو مہاجرین اولین میں یقینی طور پر شامل ہیں ان کی محبت فلاح کی ضامن او ران سے بغض وعناد خسران کا سبب ہے ، اسی طرح تیسری آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو لوگ حضرات صحابہ کے لیے دعا خیر کرتے ہیں اور ان سے بغض وعناد کو برا سمجھتے ہوئے اس سے محفوظ رہنے کی بارگاہ خداوندی میں دعا کرتے ہیں، وہی زمرہٴ مؤمنین میں داخل ہیں، اس کے برعکس جو گروہ اس مقدس جماعت سے محبت کے بجائے عداوت رکھتا ہے او ران کے حق میں دعائے خیر کے بجائے لعن وطعن کی زبان دراز کرتا ہے وہ اہل اسلام کے زمرے سے خارج ہے، کیوں کہ ان آیات میں مستحقین غنیمت کے جن تین طبقوں کا الله تعالیٰ نے ذکر فرمایا یہ لعن طعن کرنے والے ان سے خارج ہیں۔
اس موقع پر بغرض اختصار ان پانچ آیات پر اکتفا کیا جارہا ہے، ورنہ قرآن مجید میں حضرات صحابہ کے فضائل ومزایا سے متعلق سینکڑوں آیات ہیں۔
الصحابة فی الحدیث
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے صحابہٴ کرام بالخصوص حضرات خلفائے ثلثہ ابوبکر، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی الله عنہم کے فضائل ومناقب اور مزایا وخصوصیات اس کثرت وشدت اور تواتر وتسلسل کے ساتھ بیان فرمائے ہیں کہ ان سب کو جمع کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے او رنہ اس موقع پر اس کی ضرورت ہے ، لہٰذا ان بے شمار احادیث میں سے چند کو یہاں نقل کیا جارہا ہے ، اس سلسلہ میں پہلے ان احادیث کو پیش کیا جائے گا جن سے پوری جماعت صحابہ کی منقبت وفضیلت ثابت ہوتی ہے، پھر خلفائے ثلثہ کے فضائل میں وارد احادیث ذکر کی جائیں گی۔
عن جابر قال قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ان الله اختار اصحابی علی الثقلین سوی النبیین والمرسلین ( رواہ البزار بسند رجالہ موثقون)
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرات انبیاء ومرسلین کے علاوہ الله تعالیٰ نے میرے اصحاب کو تمام انسانوں وجنات پر فضلیت دی ہے۔
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ جمیع حضرات صحابہ الله تعالیٰ کے منتخب وبرگزیدہ ہیں، نبیوں اور رسولوں کے بعد انسانوں او رجنات میں سے کوئی بھی ان کے مقام ومرتبہ کو نہیں پاسکتا۔
عن انس قال قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم اصحابی فی امتی کالملح فی الطعام لا یصلح الطعام الابالملح (مشکوة شریف)
”رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں میرے صحابہ کا مقام ایسا ہے جیسے کھانے میں نمک ، کہ کھانا بغیر نمک کے بہتر نہیں ہوتا۔“
اس ارشاد عالیہ کے ذریعہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے امت مسلمہ کے سامنے صحابہٴ کرام کی اہمیت ایک مثال کے ذریعہ سے واضح فرمائی ہے کہ جس طرح لذیذ سے لذیذ تر کھانا بے نمک کے پھیکا اور بے مزہ ہوتا ہے، بعینہ یہی حال امت کا ہے کہ اس کی صلاح وفلاح اور اس کا تمام شرف ومجد انہیں صحابہ کی مقدس جماعت کا مرہون منت ہے، اگر اس جماعت کو درمیان سے الگ کر دیا جائے تو امت کے سارے محاسن وفضائل بے حیثیت ہو جائیں گے۔
قال النبی صلی الله علیہ وسلم: خیر الناس قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم فلا ادری ذکر مرتین او ثلاثة (بخاری ومسلم وغیرہ)
”انسانوں میں سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھر ان کا جواس سے متصل ہیں ، پھر ان کا جو اس سے متصل ہیں ، راوی حدیث کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں رہا کہ متصل لوگوں کا ذکر دو مرتبہ فرمایا یا تین مرتبہ“

اگر نبی علیہ الصلوٰة والتسلیم نے ”ثم الذین یلونھم“ کو صرف دو مرتبہ ذکر کیا ہے تو دوسرا قرن ( زمانہ) صحابہ کا اور تیسرا تابعین کا ہے او راگر اس جملہ کو تین بار فرمایا ہے تو چوتھا دور تبع تابعین کا بھی اس میں شامل ہو گا، بہرحال اس ارشاد نبوی علی صاحبہا الصلوٰة والسلام سے متعین طور پر معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوی صلی الله علیہ وسلم کے بعد سب سے بہتر زمانہ صحابہ کرام کا ہے ، اصابہ کے مقدمہ میں حافظ ابن حجر عسقلانی
لکھتے ہیں:
”وتواتر عنہ صلی الله علیہ وسلم خیر الناس قرنی، ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم الخ“
جس سے معلوم ہو گیا کہ محدثین کے نزدیک یہ حدیث متواتر ہے، جس سے یقینی علم حاصل ہوتا ہے ، ان تینوں حدیثوں کے بعد وہ احادیث نقل کی جارہی ہیں جو خاص طور پر خلفائے ثلثہ کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں ۔
حضرت انس
روایت کرتے ہیں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”ابوبکر وعمر سیدا کھول اھل الجنة من الاولین والآخرین الا النبیین والمرسلین“ ( رواہ احمد والترمذی)
”حضرت صدیق وفاروق نبیوں اور رسولوں کے علاوہ درمیانی عمر کے تمام اگلے پچھلے جنتیوں کے سردار ہیں۔“
اس حدیث پاک سے صاف طور پر ثابت ہو گیا کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد صدیق اکبر وفاروق اعظم تمام لوگوں سے افضل ہیں ، یہی بات قرآن مجید اور دیگر احادیث نبویہ، آثار صحابہ وتابعین سے بھی ثابت ہے او راسی پر اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے، اسی بنا پر حضرت علی کرم الله وجہہ فرماتے تھے ”من فضلنی علی ابی بکر وعمر جلدتہ حد المفتری“ جو مجھے ابوبکر وعمر پر ترجیح او رفضیلت دے گا میں اس پر افترا پرداز کی حد ( سزا) جاری کروں گا۔ اسی معنی کی ایک اور روایت کتاب الآثار للامام ابی یوسف میں بھی ہے۔
ایک حدیث میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”اقتدوا من بعدی ابی بکر وعمر فانھما حبل الله الممدود، ومن تمسک بھم فقد تمسک بالعروة الوثقی، لا انفصال لھا“ ( رواہ الطبرانی)
”میرے بعد ابوبکر وعمر کی اقتدا کرو کیوں کہ یہ دونوں الله کی دراز شدہ رسی ہیں جس نے ان دونوں کو پکڑ لیا اس نے مضبوط حلقہ تھام لیا۔“
حبل الله سے مراد دین الہیٰ ہے ، چناں چہ قرآن مجید میں
﴿واعتصموا بحبل الله جمیعا﴾ میں اسی جانب اشارہ کیا گیا ہے ، یعنی سب لوگ مل کر الله کے دین کو قوت او رمضبوطی کے ساتھ پکڑ لو اور ﴿العروة الوثقی﴾ سے بھی دین خدا وندی ہی مراد ہے چناں چہ قرآن کا ارشاد ربانی ہے ﴿فقد استمسک بالعروة الوثقی﴾ اس نے مضبوط حلقہ یعنی دین اسلام کو تھام لیا، اس تفصیل وتحقیق سے معلوم ہو گیا کہ حضرات شیخین کا طریقہ معیار دین ہے او ران کے طریقے پر چلنا درحقیقت دین اسلام پر چلنا ہے۔
ایک موقع پر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ان الله جعل الحق علی لسان عمر وقلبہ“
(رواہ الترمذی واحمد)
”لاریب کہ الله تعالیٰ نے حق کو عمر کی زبان او ردل پر رکھ دیا ہے۔
بعض روایتوں میں ”جعل“ کے بجائے ” وضع“ کا لفظ ہے ، امام ترمذی
نے یہ روایت حضرت عبدالله بن عمر سے نقل کی ہے او رامام داؤد اور امام حاکم نے حضرت ابو ذر غفاری سے۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ ”کنا لا نبعد ان السکینة علی لسان عمر“ ہم صحابہ اس بات کو بعید نہیں سمجھتے تھے کہ عمر کی زبان لسان الغیب کی ترجمان ہے، چنا ں چہ 26 احکام شرعیہ کا آپ کے قول کے مطابق نازل ہونا اس حدیث کی صداقت پر خدائی شہادت ہے۔
لکل نبی رفیق ورفیقی فیھا عثمان ( رواہ الترمذی )
”ہر نبی کے لیے جنت میں ایک ساتھی ہے اور میرے جنت کے رفیق عثمان ہیں۔“
اس حدیث سے حضرت عثمان غنی
کا نہ صرف جنتی ہونا ثابت ہوتا ہے، بلکہ ان کی بلندی درجات پر بھی یہ حدیث دلالت کر رہی ہے۔
امام احمد اپنی مسند میں روایت کرتے ہیں کہ غزوہٴ تبوک کے موقع پر جب آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے لشکر کی تیاری اور سامان جنگ کی فراہمی کا کام شروع فرمایا تو حضرت عثمان غنی ایک ہزار اشرفی لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور آپ کی گود میں ڈال دیا ، راویٴ حدیث بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس وقت دیکھا کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم ( فرط مسرت سے) ان اشرفیوں کو الٹ پلٹ رہے تھے اور زبان وحی پر یہ الفاظ جاری تھے ”ماضر عثمان ماعمل بعد الیوم مرتین“ عثمان آج کے بعد جو کام بھی کریں گے وہ ان کے لیے مضرت رساں نہیں ہو گا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس جملہ کو بطور تاکید دو مرتبہ فرمایا۔

اس حدیث پاک میں حضرت عثمان غنی
کے صدقہ کی قبولیت کی بشارت کے ساتھ ان مخالفین اور ناقدین کے خیالات کی تردید بھی فرماد ی گئی ہے، جو مفسدین کی افترا پر دازیوں سے متاثر ہو کر یا اپنی کج روی کے زیر اثر حضرت عثمان ذی النورین ان تمام اتہامات سے پاک اور بری ہیں جو معاندین ان پر ناحق تھوپ رہے ہیں، لیکن بالفرض یہ باتیں اگر کسی حد تک ثابت بھی ہو جائیں تو آپ کی عظمت شان اور کثرت طاعت کی بنا پر کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گی۔
الله اور رسول کے ان فرمودات میں صحابہٴ کرام کے ایمان واخلاص اور فضائل ومناقب کی جوتصویر پیش کی گئی ہے اسے سامنے رکھتے ہوئے ان قدسی صفات جماعت کے مقام ومرتبہ کا اندازہ لگائیے، ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء

صحابہ کی تنقیص علمائے امت کی نظر میں
آیت کریمہ﴿محمد رسول الله والذین معہ﴾ الخ کی تفسیر کے ذیل میں معلوم ہو چکا ہے کہ امام مالک
نے ﴿لیغیظ بھم الکفار﴾ کے پیش نظر فرمایا کہ حضرات صحابہ سے بغض رکھنے والے اس آیت کی زد میں ہیں ، یعنی کافر ہیں۔ اب ذیل میں چند او رعلمائے محققین کے اقوال ملاحظہ کیجیے۔
امام ابوزُرعہ رازی متوفی264ھ کا فیصلہ:
اذا رأیت الرجال ینتقص احداً من اصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم فاعلم انہ زندیق، لان الرسول صلی الله علیہ وسلم عندناحق، والقرآن حق، وانما ادی الینا ھذا القرآن والسنن اصحاب رسول الله وانما یریدون ان یجرحوا شھودنا لیبطلوا الکتاب والسنة، والجرح بھم اولی وھم زنادقة“
”جب تم کسی کو دیکھو کہ وہ صحابہٴ کرام میں سے کسی کی تنقیص کر رہا ہے تو سمجھ لو کہ یہ زندیق ہے، اس لیے کہ ہمارے نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم برحق ہیں، قرآن برحق ہے اور قرآن وسنت کو ہم تک پہچانے والے یہی صحابہ ہیں ، تو یہ لوگ ہمارے شاہدوں کو مجروح کرنا چاہتے ہیں، تاکہ قرآن وسنت کو باطل ٹھہرا دیں۔ لہٰذا خود انہیں مجروح قرار دینا اولی ہے۔ (ایسا کرنے والے) زندیق ہیں“۔
اصطخری بیان کرتے ہیں کہ مجھے مخاطب کرتے ہوئے امام احمد بن حنبل
نے فرمایا:”یا ابا الحسن اذا رأیت احدا یذکر اصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم بسوء فاتھمہ علی الاسلام“
”اے ابولحسن! جب تم کسی کو دیکھو کہ وہ صحابہ کا ذکر برائی سے کرتا ہے تو اس کے اسلام کو مشکوک سمجھو۔“
عمدة المفسرین محقق ابن کثیر لکھتے ہیں:”یاویل من ابغضھم او سبھم او سب بعضھم… فاین ھؤلاء من الایمان بالقرآن اذا سبوا من رضی الله عنھم؟!“
”عذاب الیم ہے ان لوگوں کے لیے جو حضرات صحابہ سے یا ان میں بعض سے بغض رکھے یا انہیں برا بھلا کہے ایسے لوگوں کا ایمان بالقرآن سے کیا واسطہ جوان حضرات کو برا کہتے ہیں جن سے الله نے راضی ہونے کا اعلان کر دیا۔،،
علامہ ابن تیمیہ اپنی مشہور تصنیف الصارم المسلول میں لکھتے ہیں:
”وقال القاضی ابو یعلی: الذی علیہ الفقھاء فی سب الصحابة ان کان مستحلا لذلک کفر،وان لم یکن مستحلا فسق“
”قاضی ابو یعلی نے کہا ہے کہ اس پر تمام فقہاء متفق ہیں کہ جو شخص صحابہ کی برائی کو حلال وجائز سمجھتے ہوئے ان کی برائی کرے وہ کافر ہے او رجو حلال نہ سمجھتے ہوئے انہیں برا بھلا کہے وہ فاسق ہے“۔
علامہ ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں:
”ان من فضل علیا علی الثلاثة فمبتدع، وان انکر خلافة الصدیق او عمر رضی الله عنھما فھو کافر“
”جو حضرت علی کرم الله وجہہ کو خلفائے ثلاثہ ( صدیق اکبر
، فاروق اعظم او رعثمان غنی) پر فضیلت دے وہ بدعتی ہے او رجو شخص حضرت ابوبکریا حضرت عمر کی خلافت کا انکار کرے وہ کافر ہے“۔
فتاوی عالم گیری میں ہے
:”الرافضی اذ ا کان یسب الشیخین ویلعنھما، العیاذ بالله، فھو کافر، وان کان یفضل علیا کرم الله وجھہ علی ابی بکر رضی الله عنہ لا یکون کافرا الا انہ مبتدع“
”رافضی جب شیخین کو برا بھلا اور لعن طعن کرتا ہو تو کافر ہے او راگر حضرت علی کرم الله وجہہ کو حضرت ابوبکر پر فضیلت دیتا ہے تو کافر نہیں ہو گا، ہاں! اس صورت میں وہ بدعتی قرار پائے گا“۔

تمت

تربیتِ اَولاد


 اَز افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ

 بچوں کی پرورش سے متعلق احادیثِ نبویہ
 بچوں کی پرورش میں مصیبتیں جھیلنے اور دُودھ پلانے کی فضیلت
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اِرشاد فرمایا عورت اپنی حالتِ حمل سے لے کر بچہ جننے اور دُودھ چھڑانے تک فضیلت و ثواب میں ایسی ہے جیسے اِسلام کی راہ میں سرحد کی نگہبانی کرنے والا (جس میں ہر وقت وہ مجاہدہ کے لیے تیا ر رہتا ہے) اور اگر (عورت)اِس درمیان میں مر جائے تو اُس کو شہید کے برابر ثواب ملتا ہے۔
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ” جب عورت بچہ کو دُودھ پلاتی ہے تو ہر گھونٹ کے پلانے پر اُس کو ایسا اَجر ملتا ہے جیسے کسی جاندار کو زندگی دے دی پھر وہ جب دُودھ چھڑاتی ہے تو فرشتہ اُس کے کندھے پر (شاباشی سے ہاتھ ) مارتا ہے اور کہتا ہے کہ پچھلے گناہ سب معاف ہو گئے ،اَب آگے جو گناہ کا کام ہو گا وہ آئندہ لکھا جائے گا”اور اِس سے مراد گناہِ صغیرہ ہیں ،مگر گناہِ صغیرہ کا معاف ہو جانا کیا تھوڑی بات ہے۔

لڑکیوں کی پرورش کرنے کی فضیلت

٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اِرشاد فرمایا جس شخص کی تین لڑکیاں ہوں اور وہ اُن کو علم و اَدب سکھلائے اور اُن کی پرورش کرے اور اُن پر مہربانی کرے، اُس کیلیے ضرور جنت واجب ہو جاتی ہے ۔(بخاری )
فائدہ : چونکہ اَولاد سے طبعی محبت ہو تی ہے اِس لیے اِس حق کے بیان کرنے میں شریعت نے زیادہ اہتمام نہیں فرمایا اور لڑکیوں کو چونکہ حقیر سمجھتے تھے اِس لیے اُن کی تربیت کی فضیلت بیان فرمائی۔

حمل ساقط ہو جانے اور زچہ بچہ کے مر جانے کی فضیلت

٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اِرشاد فرمایا جو عورت کنوارے پَنے کی حالت میں یا حمل میں بچہ جننے کے وقت یا چلّے کے دنوں میں مر جائے اُس کو شہادت کا درجہ ملتا ہے۔ (بہشتی زیور )
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اِرشاد فرمایا جو حمل گر جائے وہ بھی اپنی ماں کو گھیسٹ کر جنت میں لے جائے گا جبکہ ثواب سمجھ کر صبر کرے۔ (بہشتی زیور )
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اِرشاد فرمایا جس عورت کے تین بچے مر جائیں اور وہ ثواب سمجھ کر صبر کرے تو جنت میں داخل ہو گی۔ ایک عورت بولی یا رسول اللہ !جس کے دو ہی بچے مرے ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دَو کا بھی یہی ثواب ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک صحابی نے ایک بچے کے مرنے کو پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اِس میں بھی بڑا ثواب بتلایا ۔
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عورتوں سے اِرشاد فرمایا کیا تم اِس بات پر راضی نہیں (یعنی راضی ہونا چاہیے ) کہ جب تم میں کوئی اپنے شوہر سے حاملہ ہوتی ہے اور وہ شوہر اِس سے راضی ہو تو اُس کو ایسا ثواب ملتا ہے جیسا کہ اللہ کی راہ میں روزہ رکھنے والے اور شب بیداری کرنے والے کو ملتا ہے ۔ اور جب اُس کو درد زِہ ہوتا ہے توآسمان اور زمین کے رہنے والوں کو اِس کی آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی راحت کا جو سامان مخفی رکھا گیا ہے اُس کی خبر نہیں ۔ پھر جب وہ بچہ جنتی ہے تو اُس کے دُودھ کا ایک گھونٹ بھی نہیں نکلتا اوراُس کی پستان سے ایک دفعہ بھی بچہ نہیں چوستا جس میں اُس کو ہر گھونٹ اور ہر چوسنے پر ایک نیکی نہ ملتی ہو (یعنی ہر مرتبہ نیکی ملتی ہے) اور اگر بچہ کے سبب اُس کو رات کو جاگنا پڑے تو اُس کو راہِ خدا میں ستر غلاموں کے آزاد کرنے کا اَجر ملتا ہے ۔ (کنز العمال )
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی، اُس کے ساتھ دو بچے تھے۔ ایک کو گود میں لے رکھا تھا دُوسرے کو اُنگلی سے پکڑے ہوئے تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھ کر اِرشاد فرمایا کہ یہ عورتیں پہلے پیٹ میں بچے کو رکھتی ہیں پھر جنتی ہیں پھر اِن کے ساتھ کس طرح محبت اور مہربانی کرتی ہیں ۔اگر ان کا برتاؤ شوہروں سے برا نہ ہوتا تو اِن میں جو نماز کی پابند ہوتی ہیں سیدھی جنت میں چلی جایا کرتیں ۔
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اِرشاد فرمایا جو عورت بیوہ ہو جائے اور خاندانی بھی ہو ،مالدار بھی ہو لیکن اُس نے اپنے بچوں کی خدمت اور پرورش میں لگ کر اپنا رنگ میلا کر دیا یہاں تک کہ وہ بچے یا تو بڑے ہو کر الگ رہنے لگے یا مر مرا گئے تو ایسی عورت جنت میں مجھ سے ایسی نزدیک ہو گی جیسے کلمہ والی اُنگلی اور بیچ کی اُنگلی۔
فائدہ : اِس سے مراد وہ عورت ہے جس کو نکاح کی خواہش قطعاً نہ ہو ورنہ بیوہ کو بھی نکاح کرنا ضروری ہے۔
 اَولاد کی اہمیت اور اُس کے فضائل
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ایسی عورت سے نکاح کرو جو محبت کرنے والی ہو اور بچے جنے والی ہو کیونکہ تمہاری زیادتی سے دُوسرے اُمتوں پر فخر کروں گا کہ میری اُمت اِتنی زیادہ ہے۔ (ابوداود و نسائی )
فائدہ : اَولاد کا ہونا بھی کتنا بڑا فائدہ ہے زندگی میں بھی کہ وہ سب سے بڑھ کر اپنے خدمت گزار اور مددگار اور فرمانبردار اور خیر خواہ ہوتے ہیں اور مرنے کے بعد اِس کے لیے دُعا ( اور ایصالِ ثواب بھی کرتے ہیں ) اور اگر آگے نسل چلی تو اُس کے دینی راستہ پر چلنے والے مدتوں تک رہتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی برابر اِس کو ثواب ملتا رہتا ہے اور قیامت میں بھی (بڑا فائدہ ہے )۔ اِسی طرح جو بچے بچپن میں مر گئے وہ اِس کو بخشوائیں گے۔ جو بالغ ہو کر نیک ہوئے وہ بھی (اپنے والدین کے لیے ) سفارش کریں گے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی تعداد بڑھتی ہے جس سے دُنیا میں بھی قوت بڑھتی ہے اور قیامت میں ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خوش ہو کر فخر فرمائیں گے۔ (حیاة المسلمین )
 حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اَولاد سے محبت
حق تعالیٰ نے اَولاد کی محبت والدین کے دِل میں پیدا کی ہے اَور یہ ایسی محبت ہے کہ جو مقدس ذاتیں محض حق تعالیٰ ہی کی محبت کے لیے مخصوص ہیں وہ بھی اِس محبت سے خالی نہیں ۔ چنانچہ سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حضراتِ حسنین سے ایسی محبت تھی کہ ایک بار آپ خطبہ پڑھ رہے تھے کہ اِتنے میں حضرات حسنین بچے تھے لڑکھڑاتے ہوئے مسجد میں آ گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اُن کا لڑکھڑانا دیکھ کر نہ رہا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے درمیانِ خطبہ ہی ممبر سے اُتر کر اُن کو گود میں اُٹھا لیا اور پھر خطبہ جاری فرمایا۔ اگر آج کوئی شیخ ایسا کرے تو جہلا اُس کی حرکت کو خلافِ وقار کہتے ہیں ۔ مگر وہ زبان سنبھالیں کیسا وقار لیے پھرتے ہیں آج کل لوگوں نے تکبر کا نام وقار اور خود داری رکھ لیا ہے۔اور وفات کے واقعات میں یہ ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے وصال کے وقت رنج و غم کا اظہار فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور زبان سے یہ بھی فرمایا کہ اے ابراہیم ہم کو تمہاری جدائی کا واقعی صدمہ ہے۔ الغرض اَولاد کی محبت سے ذواتِ قدسیہ بھی خالی نہیں ۔یہ تو حق تعالیٰ کی حکمت ہے کہ ہمارے اَندر اَولاد کی محبت پیدا کر دی اور اگر یہ داعی نہ ہوتا تو ہم اُن کے حقوق اَدا نہ کرسکتے۔ (الفیض الحسن ملحقہ حقوق الزوجین)

اَولاد کی محبت کیوں پیدا کی گئی ؟

بچے جو گوہ کا ڈھیر اور موت کی پوٹ ہیں ۔ اُن کی پرورش بغیر قلبی داعیہ (اور جذبہ) کے ہوہی نہیں سکتی۔ بچے تو ہر وقت اپنی خدمت کراتے ہیں، خود خدمت کے لائق نہیں اُن کی حرکتیں بھی مجنونانہ (پاگل پن کی سی ہوتیں ) ہیں مگر حق تعالیٰ نے ایسی محبت پیدا کر دی ہے کہ اُن کی مجنونانہ حرکت بھی بھلی معلوم ہوتی ہیں حتی کہ بعض دفعہ وہ کبھی خلاف تہذیب کام کرتے ہیں جس پر سزا دینا عقلاً ضروری ہوتا ہے مگر بچوں کے متعلق عقلمندوں میں اِختلاف ہو جاتا ہے، ایک کہتا ہے سزا دی جائے دُوسرا کہتا ہے نہیں بچے ہیں اِن سے ایسی غلطی ہو ہی جاتی ہے معاف کر دینا چاہیے۔ غرض اپنے بچوں کو تو کیوں نہ چاہیں، دُوسرے کے بچوں کو دیکھ کر پیار آتا ہے اور اُن کی حرکتیں اچھی معلوم ہوتی ہیں ۔ اگر یہ محبت کا تقاضا اور داعیہ نہ ہو تو راتوں کو جاگنا اور گوہ موت کرانا دشوار ہو جاتا۔ کسی غیر کی بچے کی خدمت کر کے دیکھو تو حقیقت معلوم ہو جائے گی۔ گو خدا کا خوف کر کے تم روزانہ اُس کی خدمت کر دو مگر دِل میں ناگواری ضرور ہو گی۔ غصّہ بھی آئے گا سوتیلی اَولاد کی خدمت اِس لیے گراں ہوتی ہے کہ اِس کے دِل میں اُن کی محبت نہیں ہوتی۔ چونکہ اَولاد کی محبت بغیر محبت کے دُشوار تھی اِس لیے حق تعالیٰ نے اولاد کی محبت والدین کے دِل میں ایسی پیدا کر دی کہ اَب وہ اُس کی خدمت کرنے پر مجبور ہیں ۔
 اَولاد کی تمنا
(لوگوں کو) اَولاد کی تمنا اِس لیے ہوتی ہے کہ نام باقی رہے گا (خاندان اور سلسلہ چلے گا )۔ تو نام کی حقیقت سن لیجئے کہ ایک مجمع میں جا کر ذرا لوگوں سے پوچھئے تو بہت سے لوگوں کو پردادا کا نام معلوم نہ ہو گا۔ جب خود اَولاد ہی کو اپنے پردادا کا نام معلوم نہیں تو دُوسروں کو خاک معلوم ہو گا؟ تو بتلائیے اَولاد والوں کا بھی نام کہاں رہا۔
صاحبو ! نام تو خدا کی فرمانبرداری سے چلتا ہے۔ خدا کی فرمانبرداری کرو اُ س سے نام چلے گا، اولاد سے نام نہیں چلا کرتا بلکہ اَولاد نالائق ہوئی تو اُلٹی بدنامی ہوتی ہے۔ اور نام چلا بھی تو نام چلنا ہی کیا چیز ہے جس کی تمنا کی جائے۔ یوں کسی کو طبعی طور پر اَولاد کی تمنا بھی ہو تو میں اُس کو برا نہیں کہتا کیونکہ اَولاد کی محبت اِنسان میں طبعی (فطری ) ہے چنانچہ بعض لوگ جنت میں بھی اَولاد کی تمنا کریں گے حالانکہ وہاں نام کا چلنا بھی مقصود نہ ہو گا۔ کیونکہ جنت کے رہنے والے کبھی ختم نہ ہوں گے بلکہ وہاں اِس تمنا کا منشاء (سبب )محض طبعی تقاضا ہو گا، تو میں اِس سے منع نہیں کرتا۔
مقصود صرف یہ ہے کہ اِس طبعی تقاضے کی وجہ سے عورت کی خطاء نکال لینا کہ تیرے اَولاد نہیں ہوتی یا لڑکیاں ہی ہوتی ہیں،بڑی غلطی ہے۔ اور اِس قسم کی غیر اِختیاری جرائم نکال کر اُن سے خفا ہونا اور اُن پر زیادتی کرنا ممنوع (اور ناجائز) حرام ہے اِس میں اُن بیچاریوں کی کیا خطاء ہے جو ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ (حقوق البیت ص ٣٩)
یہ تو نہایت سخت غلطی ہے مثلاً بعض لوگ بیوی سے کہتے ہیں کہ کمبخت تیرے کبھی اولاد ہی نہیں ہوتی تو اِس میں وہ بیچاری کیا کرے۔ اَولاد کا ہونا کسی کے اِختیار میں تھوڑی ہے بعض دفعہ بادشاہوں کے اَولاد نہیں ہوتی حالانکہ وہ ہر قسم کی مقوی غذائیں اور (حمل والی ) دوائیں بھی اِستعمال کرتے ہیں مگر پھر بھی خاک اَثر نہیں ہوتا۔ یہ تو محض اللہ تعالیٰ کے قبضہ و اِختیار کی بات ہے اِس میں عورتوں کا کیا قصور ہے۔
بعض مردوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ وہ بیوی سے اِس بات پر خفا ہوتے ہیں کہ کم بخت تیرے تو لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوتی ہیں ۔ سو اوّل تو اِس میں اُس کی کیا خطاء ہے۔ اطباء(ڈاکٹروں ) سے پوچھو تو وہ شاید اِس میں آپ ہی کا قصور بتلائیں ۔ دُوسرے یہ ناگواری کی بات بھی نہیں ۔

اگر اَولاد ذخیرۂ آخرت ہو تو بہت بڑی نعمت ہے

اگر اَولاد دین میں مدد دے تو سبحان اللہ (اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ) ایک بزرگ تھے وہ نکاح نہ کرتے تھے ایک مرتبہ سورہے تھے کہ اچانک چونک پڑے اور کہنے لگے جلدی کوئی لڑکی لاؤ(نکاح کرنا ہے ) ایک مخلص مرید حاضر تھے اُن کی ایک لڑکی کنواری تھی لا کر فوراً حاضر کی اُسی وقت نکاح ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بچہ دیا اور وہ مرگیا۔ بیوی سے کہا کہ جو میرا مطلب تھا وہ پورا ہو گیا اَب تجھ کو اِختیار ہے اگر تجھ کو دُنیا کی خواہش ہے تو میں تجھ کو آزاد کر دُوں کسی سے نکاح کر لے اور اگر اللہ کی یاد میں اپنی عمر ختم کرنا ہو تو یہاں رہو چونکہ وہ بیوی اُن کے پاس رہ چکی تھی اور صحبت کا اَثر اُس کے اندر آگیا تھا۔ اُس نے کہا کہ میں تو اَب کہیں نہیں جاؤں گی۔ چنانچہ دونوں میاں بیوی اللہ کے یاد میں رہے۔
اُن کے بعض خاص لوگوں نے پوچھا کہ حضرت یہ کیا بات ہے (اِتنی جلدی شادی کرنے کی کیا وجہ تھی حالانکہ پہلے آپ اِنکار فرماتے تھے ) فرمایا بات یہ تھی کہ میں سورہا تھا میں نے دیکھا کہ میدانِ محشر قائم ہے اور پلِ صراط پر لوگ گزر رہے ہیں ۔ ایک شخص کو دیکھا کہ اُس سے چلا نہیں جاتا لڑکھڑاتا ہوا چل رہا ہے اُسی وقت ایک بچہ آیا اور ہاتھ پکڑا آناً فاناً (یعنی فوراً) اُس کو لے گیا۔ میں نے دریافت کیا کہ یہ کون ہے؟ اِرشاد ہوا کہ اِس کا بچہ ہے جو بچپن میں مرگیا تھا یہاں اِس کا رہبر ہو گیا اِس کے بعد میری آنکھ کھل گئی مجھے خیال آیا کہ میں اِس فضیلت سے محروم نہ رہوں شاید بچہ ہی میری نجات کا ذریعہ ہو جائے اِس لیے میں نے نکاح کیا تھا اور میرا مقصود حاصل ہو گیا۔ (الدنیا ملحقہ دُنیا و آخرت ص ٩٨ )۔

بعض اَولاد وَبالِ جان اور عذاب کا ذریعہ ہوتی ہے

یاد رکھو! جس طرح اَولاد ہونا نعمت ہے اِسی طرح نہ ہونا بھی نعمت ہے بلکہ جس کے نہ ہوئی ہویا جس کے ہو کر مر گئی ہو اُس کو اَور بھی زیادہ شکر کرنا چاہیے۔
صاحبو ! آج کل کی تو اَولاد عموماً خداسے غافل رہنے والی ہوتی ہے۔ پس جس کے نہ ہو وہ شکر کرے کہ اللہ تعالیٰ نے سب فکروں سے آزاد کیا ہے اُن کو چاہیے کہ اطمینان سے اللہ تعالیٰ کو یاد کریں۔ بعض لوگوں کے لیے اَولاد عذابِ جان ہو جاتی ہے جیسے منافقین کے بارے میں اللہ تعالیٰ اِرشاد فرماتے ہیں :
وَلَا تُعْجِبْکَ اَمْوَالھُمْ وَلَا اَوْلَادھُمْ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ بِھَا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا (سورة توبہ)
”اے محمد ( صلی الله علیہ و آلہ وسلم ) آپ کو اِن کے مال اور اَولاد اچھے معلوم نہ ہوں اللہ تعالیٰ تو یہ چاہتے ہیں کہ اِن مالوں اور اَولادوں کی وجہ سے اُن کو اِس دُنیا میں عذاب دیں۔”
واقعی بعض لوگوں کے لیے اَولاد وَبالِ جان ہی ہو جاتی ہے۔ بچپن میں تو اُن کے پیشاب پاخانہ میں نمازیں برباد کرتے ہیں۔ جب بڑے ہو جاتے ہیں تو اُن کے لیے طرح طرح کی فکریں ہو جاتی ہیں کہ اِن کے لیے جائداد ہو روپیہ ہو اور گھر ہو خواہ دین رہے یا نہ رہے لیکن جس طرح بن پڑے گا اِن کے لیے دُنیا سمیٹیں گے اور ہر وقت اِسی دھُن میں رہیں گے۔ حلال و حرام میں بھی کچھ تمیز نہ کریں گے پس ایسی اَولاد کا نہ ہونا ہی نعمت ہے جن لوگوں کے اَولاد نہیں اُن پر خدا کی بڑی نعمت ہے اگر اَولاد ہوتی تو اُن کی کیا حالت ہوتی، واللہ اعلم
 

جن کی صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوں اُن کی تسلی کے لیے ضروری مضمون

حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ

حضرات! آپ کو خوب یاد ہو گا کہ حضرت خضر علیہ السلام نے جس لڑکے کو قتل کر دیا تھا اُس کے لیے اور اُس کے والدین کے لیے (اِس میں بڑی )مصلحت بھی تھی۔
روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس لڑکے کے قتل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُس کے والدین کو ایک لڑکی دی جس کی اَولاد میں انبیاء علیہم السلام پیدا ہوئے۔ تو بتلایئے اگر آگے لڑکا ہوتا اورویسا ہی ہوتا جیساوہ لڑکا تھا جسے حضرت خضر علیہ السلام نے مار ڈالا تھا تو آپ کیا کر لیتے۔
یہ خدا کی بہت بڑی مصلحت ہے کہ اُس نے آپ کو لڑکیاں دیں کیونکہ عموماً لڑکیاں خاندان کو بدنام نہیں کیا کرتیں اور وَالدین کی اِطاعت بھی خوب کرتی ہیں اَور لڑکے تو آج کل ایسے آزاد ہوتے ہیں کہ خدا کی پناہ ! اُن کے ہونے سے تو نہ ہونا ہی بھلا تھا۔اَب آج کل اگر حضرت خضر علیہ السلام ایسے کو نہیں مارتے تو اللہ میاں تو ذبح کرسکتے ہیں اَور اللہ کا پیدا نہ کرنا (یا پیدا کر کے موت دے دینا ) یہ بھی ایک گو نہ ذبح کرنے کے مثل ہے۔ اور جس کو اللہ تعالیٰ کچھ بھی اَولاد نہ دیں نہ لڑکا نہ لڑکی اُس کے لیے یہی مصلحت ہے کیونکہ بندوں کے مصلحتوں کو اُن سے زیادہ اللہ جانتے ہیں (دیکھیے آج ایک شخص بے فکری سے دین کے کام میں لگا ہوا ہے کیونکہ اُس کے اَولاد نہیں )۔

اَولاد کے پسِپشت مصیبتیں اور پریشانیاں

عورت کے لیے تو بچے کا ہونا سخت مصیبت ہے۔ لوگ کہا کرتے ہیں کہ عورت دوبارہ جنم لیتی ہے۔ مگر مرد کے لیے بھی کم مصیبت نہیں ہے کہ زچہ کی خبرگیری، گوند سونٹھ گھی وغیرہ کے لیے خرچ کی ضرورت ہوتی ہے اور بچہ صاحب جو تشریف لائے ہیں وہ مانند پھول اور پان کے ہیں (یعنی نہایت کمزور) ذراسے میں کملا جاتے ہیں۔ سرد ہو الگ گئی تو اَینٹھ گئے اور گرم ہوا لگ گئی (یعنی لُو لگ گئی) تو بھڑک اُٹھے۔ کبھی رونا شروع ہوا تو روئے ہی جاتے ہیں اور یہ پتا نہیں چلتا کہ کیوں رو تے ہیں ،بچہ حیوان بے زبان ہوتا ہے اپنا دُکھ بیان نہیں کر سکتا۔ علاج بھی قرائن اور قیاس سے (یعنی اَندازے سے) کیا جاتا ہے۔ کبھی یہ خیال ہوتا ہے کہ پیٹ میں درد ہے اِس واسطے روتا ہے لہٰذا گٹھی دی جاتی ہے اور کبھی خیال ہوتا ہے کہ کان میں درد ہے اس کے واسطے تمباکو کی پیک کان میں ڈلوائی جاتی ہے ،یہ تکلیفیں تو وہ ہیں جو معمولی سمجھی جاتی ہیں اِن کی تدبیریں عورتیں خود ہی کر لیتی ہیں۔
اور کبھی ایسی بیماریاں بچوں کو ہوتی ہیں کہ جو گھر والوں کو سمجھ میں نہیں آتیں اور بڑے بڑے قابل اور تجربہ کار حکیموں اور ڈاکٹروں کو تلاش کرنا پڑتا ہے اور ذرا سے بالشت بھر کے آدمی کے لیے ہزاروں روپیہ خرچ کرنا پڑتا ہے اُس وقت تارے نظر آتے ہیں (دماغ چکرا جاتے ہیں ) اور بے ساختہ آدمی کہہ اُٹھتا ہے کہ پہلی اَولاد ہوئی تو ہمیں مار دیا بھلے مانس اِس کا کیا قصور ہے تو ہی نے تو اِسے بلایا ہے۔
غرض کہیں ناک دُکھ رہی ہے کہیں آنکھ دُکھ رہی ہے ذرا ساجی اچھا ہوتا ہے تو اپنی جان میں بھی جان آ جاتی ہے اور جب اِس کی طبیعت خراب ہوتی ہے تو اپنی زندگی بھی تلخ ہو جاتی ہے۔” بین الرجاء والخوف” یعنی اُمید اور خوف کے درمیان کی زندگی کا لطف آتا ہے (اور درجات کی ترقی ہوتی ہے)۔
خیر خدا خدا کر کے لڑکا بڑا ہوا تو اَب اُس کی شادی ہوئی پھر اُس کی اولاد ہوئی پھر اُس کے اولاد ہوئی اَور سارا دھَندا اَز سرنو شروع ہوا۔ جن تکلیفوں سے خدا خدا کر کے کچھ نجات پائی تھی اَب پھر اُن کا آغاز ہوا۔ اگر اُس کی اولاد نہ ہوئی تو اُس کا غم کہ اَولاد کیوں نہیں ہوتی اور اگر ہوئی بھی تو وہ بھی سب سازو سامان لائی یعنی وہی گُوہ مُوت۔ یہ عیش و آرام ہے دُنیا کے، یہ اشغال ایسے ہیں کہ جن سے کوئی بھی خالی نہیں حتی کہ لوگوں کی طبیعتیں اِن سے ایسے مانوس ہو گئی ہیں کہ اگر یہ نہ ہوں تو طبیعت گھبراتی ہے کہ کوئی شغل نہیں۔(جاری ہے)
 اَولاد کی وجہ سے ہزاروں فکریں اور جھمیلے
اَولاد کے ساتھ ہزاروں فکریں لگی ہوئی ہیں آج کسی کان میں درد ہے کسی کے پیٹ میں درد ہے کوئی گر پڑا ہے کوئی گم ہو گیا ہے اور ماں باپ پریشان ہوتے ہیں تو ممکن ہے کہ خدا نے اِس کو اِسی لیے اَولاد نہیں دی کہ وہ اِس کو آزاد رکھنا چاہتے ہوں ۔
میرے بھائی ایک کہانی سناتے تھے کہ ایک شخص نے صاحبِ عیال (بال بچوں والے) سے پوچھا کہ تمہارے گھر خیریت ہے؟ تو بڑا خفا ہوا کہ میاں خیریت تمہارے یہاں ہو گی، مجھے بد دعا دیتے ہو؟ ہمارے یہاں خیریت کہاں ۔ ماشاء اللہ بیٹے بیٹیاں ہیں پھر اُن کے اَولاد ہے سارا گھر بچوں سے بھرا ہوا ہے، آج کسی کے کان میں درد ہے کسی کو دَست آ رہے ہیں کسی کی آنکھ دُکھ رہی ہے کوئی کھیل کُود میں چوٹ کھا کر رو رہا ہے۔ ایسے شخص کے یہاں خیریت ہو گی؟ خیریت تو اُس کے یہاں ہو گی جو منہوس ہو جس کے گھر میں کوئی بال بچہ نہ ہو، ہمارے یہاں خیریت کیوں ہوتی۔
واقعی بچوں کے ساتھ خیریت کہاں !بچپن میں اُن کے ساتھ اِس قسم کے رنج اور فکریں ہوتی ہیں اور جب وہ سیانے ہوئے تو اگر صالح (نیک) ہوئے تو خیر اور آج کل اِس کی بہت کمی ہے ورنہ پھر جیسا وہ ناک میں دم کرتے ہیں معلوم ہے۔ پھر ذرا اَور بڑے ہوئے جوان ہو گئے تو اُن کے نکاح کی فکر ہے۔ بڑی مصیبتوں سے نکاح بھی کر دیا تو اَب یہ غم ہے کہ اُس کے اَولاد نہیں ہوتی۔ اللہ اللہ کر کے تعویذ گنڈوں اور دواؤں سے اَولاد ہوئی تو بڑے میاں کی اِتنی عمر ہو گئی کہ پوتے بھی جوان ہو گئے۔ اَب بچہ اُن کو بات بات میں بیوقوف بناتا ہے اور اُن کی خدمت کرنے سے اُکتا تا ہے اور بیٹے پوتے منہ پر (سامنے ہی )کورِی (کھری کھری ) سناتے ہیں اور یہ بیچارے معذور ایک طرف پڑتے ہیں ، یہ اَولاد کا پھل ہے تو پھر خوامخواہ لوگ اِس کی تمنائیں کرتے ہیں ۔
 جن کے اَولاد نہ ہوتی ہو اُن کی تسلی کے لیے عجیب مضمون
میرے اُستاذ مولانا سیّد احمد صاحب دہلوی کے ماموں مولانا سیّد محبوب علی صاحب جعفری کے کوئی اَولاد نہیں ہوئی تھی۔ ایک دفعہ وہ غمگین بیٹھے تھے میرے اُستاد نے پوچھا اور یہ اُن کے لڑکپن کا زمانہ ہے کہ آپ غمگین کیوں ہیں ؟ کہا مجھے اِس کا رنج ہے کہ بڑھاپا آگیا اور میرے اَب تک اَولاد نہیں ہوئی۔ اُستادنے فرمایا سبحان اللہ !یہ خوشی کی بات ہے یا غم کی ؟ اُنہوں نے پوچھا یہ خوشی کی بات کیسے ہے؟ فرمایا یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے کہ آپ کے سلسلہ نسل (خاندان) میں آپ ہی اَصل مقصود ہیں اور آپ کے تمام آباء و اَجداد مقصود بالخیر یعنی ذریعہ ہیں بخلاف اَولاد وَالوں کے کہ وہ مقصود نہیں ہیں بلکہ اُن کو تو غم کے واسطے پیدا کیا گیا ہے۔
دیکھیے گیہوں دو قسم کے ہوتے ہیں ،ایک وہ جن کو کھانے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ دُوسرے وہ جو تخم کے لیے رکھے جاتے ہیں تو اِن دونوں میں مقصود وہ ہے جو کھانے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ کھیت بونے سے مقصود یہی گیہوں تھے اَور جس کو تخم (بیج) کے واسطے رکھتے ہیں وہ مقصود نہیں بلکہ واسطہ ہیں مقصود کے۔ اسی طرح جس کے اَولاد نہ ہو آدم علیہ السلام سے لے کر اِس وقت تک ساری نسل میں مقصود وہی تھا اور سب (آباء و اَجداد) اِس کے وسائل (ذرائع) تھے اور جن کے اَولاد ہوتی ہے وہ خود مقصود نہیں ہیں بلکہ تخم کے لیے رکھے گئے ہیں تو واقعی ہے تو یہ علمی مضمون۔بے اَولادوں کو اپنی حسرت اِس مضمون کو سوچ کر ٹالنی چاہیے۔
اَور اگر اِس سے بھی حسرت نہ جائے تو دُنیا کی حالت دیکھ کر تسلی کر لیا کریں کہ جن کے اَولاد ہے وہ کس مصیبت میں گرفتار ہیں ۔ اور اِس سے بھی تسلی نہ ہو تو یہ سمجھ لیں کہ جو خدا کو منظور ہے وہی میرے واسطے خیر ہے۔ نہ معلوم اَولاد ہوتی تو کیسی ہوتی۔ اور یہ بھی نہ کر سکے تو کم اَز کم یہ سمجھے کہ اَولاد نہ ہونے میں بیوی کی کیا خطاء ہے۔

جو اَولاد مر جائے اُس کا مر جانا ہی بہتر تھا

حضرت خضر اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ قرآن مجید میں مذکور ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے ایک بچہ کو قتل کر دیا تھا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ نے یہ کیا کیا کہ ایک بے گناہ بچہ کو مار ڈالا۔ اور حضرت خضر علیہ السلام نے پہلے ہی حضرت مو سیٰ علیہ السلام کو اپنے ساتھ رکھنے کی یہ شرط کر لی تھی کہ میرے کسی فعل پر اعتراض نہ کرنا اِس لیے اُنہوں نے فرمایا کہ میں نے تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا تم سے صبر نہ ہو سکے گا۔
اِس کے بعد اِس واقعہ کی یہ حکمت بیان فرمائی کہ اِس لڑکے والدین مؤمن ہیں اور لڑکا بڑا ہو کر کافر ہوتا۔ اور اُس کی محبت سے اُس کے ماں باپ بھی کافر ہو جاتے اِس لیے اِرادہ الٰہی یہ ہوا کہ اُس کا پہلے ہی خاتمہ کر دیا جائے اور اِس کے بدلے نیک اَولاد اُن کو ملے۔
اِس قصہ سے معلوم ہوا کہ جو بچے بچپن میں مر جاتے ہیں اُن کا مر جانا ہی بہتر ہوتا ہے۔ اِسی واسطے جو دیندار ہیں اُ ن کو اَولاد کے مر جانے کا غم تو ہوتا ہے لیکن پریشان نہیں ہوتے جو شخص اللہ تعالیٰ کو حکیم سمجھے گا وہ کسی واقعے سے پریشان نہ ہو گا۔ ہاں جس کی اُس پر نظر نہیں اُس پر اگر کوئی واقعہ ہوتا ہے مثلاً کوئی بچہ مر جاتا ہے اُس کو بڑا اُتار چڑھاؤ ہوتا ہے کہ اگر زندہ رہتا تو ایسا ہوتا۔ دِل کے اندر سے شعلے اُٹھتے ہیں اَرمان ہوتے ہیں ۔ حسرتیں ہوتی ہیں کہ ہائے ایسی لیاقت کا تھا ایسا تھا ویسا تھا۔
صاحبو ! تم کو کیا خبر کہ وہ کیسا تھا؟ غنیمت سمجھو اِسی میں مصلحت تھی ممکن ہے کہ بڑا ہو کر کافر ہوتا۔ اور تم کو کافر بنا دیتا۔ (الدنیا ملحقہ دُنیا و آخرت)

چھوٹے بچوں کی موت ہو جانے کے فوائد اور اُس کی حکمتیں

چھوٹے بچے کی موت میں ایک حکمت یہ ہے ا گر وہ پیشِ  نظر رہے تو چھوٹے بچوں کے مرنے پر غم کے ساتھ خوشی کا ایک پہلو سامنے ہو گا۔ لوگوں کو اَولاد کے بڑے ہونے کی خوشی محض اِس لیے ہے کہ اُن کا نفس یوں ہی چاہتا ہے ورنہ اُن کو کیا خبر کہ کہ بڑے ہو کر یہ کیسا ہو گا والدین کی راحت کا ذریعہ ہو گا یا وبالِ جان ہو گا۔ اور پھر وہ بڑے ہو کر مرے تو یہ خبر نہیں کہ وہ والدین کو آخرت میں کچھ نفع دے گا یا خود ہی سہارے کا محتاج ہو گا۔ اور بچپن میں مرنے والے بچے بہت کار آمد ہیں اُن میں یہ احتمال ہی نہیں کہ وہ آخرت میں نا معلوم کس حال میں ہوں گے کیونکہ غیر مکلف بچے یقیناً مغفورلہ بخشے بخشائے ہیں اور وہ آخرت میں والدین کے بہت کام آئیں گے۔
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے جنت میں جانے سے پہلے آخرت میں بھی بچے ہی رہیں گے اور اُن کی عادتیں بھی بچوں کی ہو گی یعنی وہی ضد کرنا اور اپنی بات پر اَڑ جانا پیچھے پڑ جانا لیکن یہ حالت جنت میں داخل ہونے سے پہلے ہو گی پھر جنت میں پہنچ کر باپ بیٹے سب برابر ایک قد کے ہو جائیں گے۔حدیث میں آیا ہے کہ بچے اَڑ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ سے کہیں گے کہ ہم جنت میں نہ جائیں گے جب تک ہمارے ماں باپ کو ہمارے حوالے نہ کیا جائے۔ ہم تو اُن کو ساتھ لے کر جنت میں جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اَیُّھَا الطِّفْلُ الْمُرَاغِمُ رَبَّہ اَدْخِلْ اَبَوَیْکَ کہ اے ضدی بچے اپنے خدا سے ضد کرنے والے جا اپنے والدین کو بھی جنت میں لے جا ،تویہ بے گناہ بچے اللہ تعالیٰ سے خود ہی بخشش کے لیے ضد کریں گے۔اور اگر بچہ بڑا ہو کر مر جائے تو حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ یاد کر کے دل کو سمجھا لو نہ معلوم اِس میں کیا حکمت ہو گی۔شاید اگر یہ زندہ رہتا تو دین کو بگاڑ لیتا یا دُنیا میں وبالِ  جان ہوتا۔ اِس کے بعد اَحادیث میں مصائب و حوادث کی جو تفصیل حکمتیں مذکور ہیں نیز اُن پر جو ثواب بتلایا گیا ہے اُن کو پیشِ  نظر رکھیں اِنشاء اللہ غم بہت کم ہو جائے گا۔
بس حاصل یہ ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ اَولاد دیں اُس کے لیے یہی اچھا ہے اور جس کو نہ دیں اُس کے لیے یہی اچھا ہے اَور اگر کسی کے بالکل ہی اَولاد نہ ہو تو یہ سمجھے کہ میرے لیے اِسی میں حکمت ہے، نہ معلوم اَولاد ہوتی تو کن کن مصیبتوں کا سامنا ہوتا۔اور جس کو اللہ تعالیٰ اَولاد دے کر چھین لیں اُس کے لیے اِس میں مصلحت ہے لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَمَا اَعْطٰی کا یہی مطلب ہے جو حدیث میں مصیبتوں کی تسلی کے لیے آیا ہے۔ اور یہی مطلب ہے اِنَّا لِلّٰہِ کا اور اس میں (مذکورہ تدبیر) و اعتقاد کو صبر کے پیدا کرنے میں بڑا دخل ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ کے مضمون کو صبر حاصل کرنے میں بہت بڑا دخل ہے یہی وہ مضمون ہے کہ جس کی وجہ سے حضرت اُم سلیم صحابیہ نے کامل صبر فرمایا اور اپنے شوہر کو بھی صابر بنایا۔ ( الاجر النبیل ملحقہ فضائل صبر و شکر)
 چھوٹی اَولاد کے مر جانے کے فضائل
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہؐ  نے فرمایا : جس شخص کے تین بچے مر گئے ہوں وہ اُس کے لیے جہنم کی آگ سے آڑ بن جائیں گے۔کسی نے عرض کیا یا رسول اللہؐ  کسی کے دو بچے مرے ہوں ؟ فرمایا وہ بھی۔ اِس پر کسی نے عرض کیا یا رسول اللہؐ  جس کا ایک ہی مرا ہو؟ فرمایا وہ بھی۔ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہؐ  جس کا ایک بھی نہ مرا ہو تو آپؐ  نے فرمایا اَنَا فَرَط لِّاُ مَّتِیْ وَلَنْ یُّصَابُوْا بِمِثْلِیْ میں اپنی اُمت کا آگے جا کر سامان کر نے والا ہوں اور میری موت جیسا حادثہ میری اُمت پر کوئی نہ آئے گا۔ اِس لیے اُن کے واسطے وفات کا صدمہ ہی مغفرت کے لیے کافی ہے۔ یعنی آگے جا کر اُمت کے لیے مغفرت کی کو شش وسفارش کروں گا۔
اِس پر شاید کوئی یہ کہے کہ جیسے بے اَولادوں کے لیے حضورؐ  کی وفات کافی ہے۔ ایسی ہی اَولادو والوں کے لیے بھی کافی تھی۔ پھر اَولاد کی شفاعت کی ضرورت کیا تھی۔
اِس کا جواب یہ ہے کہ ہم کو زیادہ تسلی کے لیے اِس کی ضرورت تھی، دو وجہ سے ایک یہ کہ رسول اللہؐ  تو اَدب و خوف کے ساتھ سفارش فرمائیں گے اور بچہ ضد کے ساتھ شفاعت کرے گا۔ یہ بچے جس طرح یہاں والدین (ماں باپ) سے ضد کر تے ہیں قیامت میں اللہ تعالیٰ سے بھی ضد اَور نازو نخرے کریں گے چنانچہ اَحادیث میں آتا ہے کہ بچہ جنت کے دروازے پر جا کر کھڑا ہو جائے گا اُس سے کہا جائے گا کہ اَندر جاؤ کہے گا نہیں جاتا۔ پوچھیں گے کیوں ؟ کہے گا جب تک ہمارے ماں باپ ہمارے ساتھ نہ ہوں گے اُس وقت تک ہم جنت میں نہیں جا سکتے۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اَیُّھَا الطِّفْلُ الْمُرَاغِمُ رَبَّہ اَدْخِلْ اَبَوَیْکَ الْجَنَّةَ اے اپنے پروردگار سے ضد کر نے والے بچے جا اپنے ماں باپ کو بھی جنت میں لے جا۔
دُوسرے عقلاً شفاعت کرنے والوں کی تعداد بڑھنے سے زیادہ قوت وتسلی ہوتی ہے اگر چہ حضورؐ  کو اِس کی ضرورت نہیں ۔ آپ تنہا ہی کافی ہیں ۔ مگر طبعاً (فطری طور پر) عدد بڑھنے سے تسلی زیادہ ہوتی ہے۔ (الجبر بالصبر فضائل صبر و شکر ص٣٣١)

ایک بزرگ کی حکایت

ایک بزرگ کی حکایت ہے کہ اُنہوں نے جوانی میں نکاح نہ کیا تھا اور بے نکاح رہنے ہی کی نیت کی تھی۔ ہر چند مریدوں نے عرض بھی کیا کہ شادی کر لیجئے مگر آپ نے منظور نہیں کیا۔ ایک دفعہ دو پہر کو سو کر اُٹھے تو اُسی وقت تقاضا کیا کہ میرا نکاح کر و۔ مریدوں نے فوراً اِس کی تکمیل کی۔ ایک مرید نے اپنی لڑکی سے نکاح کر دیا آپ نکاح کے حقوق اَدا کرتے رہے یہاں تک کہ ایک لڑکا بھی پیدا ہوا اَور کچھ دنوں کے بعد مر گیا۔ تو آپ نے فرمایا الحمد للہ مراد حاصل ہو گئی اور بیوی سے کہا کہ اَب مجھے تیری ضرورت نہیں میرا جو مقصود تھا پورا ہو گیا۔ اَب اگر نکاح کا لطف حاصل کرنا چاہے تو میں طلاق دے کر کسی جوان صالح سے نکاح کر دُوں اور اگر میرے پاس رہنا چاہے تو کھانے پینے کی تیرے واسطے کمی نہیں مگر حقوقِ نکاح کا مطالبہ نہ کرنا۔وہ لڑکی بھی نیک تھی اُس نے کہا مجھے تو صرف آپ کی خدمت مقصود ہے اور کچھ مطلوب نہیں ۔
خدام کو یہ بات سن کر حیرت ہوئی کہ پہلے تو اِس تقاضے سے نکاح کیا تھا اَور اَب طلاق دینے کو آمادہ ہو گئے۔ خدام نے (اُن بزرگ سے) اِس کا سبب پوچھا۔فرمایا کہ میں نے نکاح کا تقاضا کسی نفسانی ضرورت کی وجہ سے نہیں کیا تھا بلکہ اُس کی منشاء (سبب)یہ تھا کہ میں نے خواب دیکھا تھا کہ میدانِ قیامت برپا ہے اور لوگ پل صراط سے گزر رہے ہیں جو دوزخ کے اُوپر بچھا ہوا ہے۔ پھر میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ پل صراط سے گزرتے ہوئے اُس کے قدم ڈگمگائے اور قریب تھا کہ جہنم میں جا گرے کہ اچانک ایک بچہ نے آ کر اُس کو سنبھالا اور مضبوطی کے ساتھ اُس کا ہاتھ پکڑ کر بجلی کی طرح پل صراط سے پار لے گیا۔ میں نے فرشتوں سے پوچھا کہ یہ بچہ کون تھا کہا کہ اُسی شخص کا بیٹا تھا بچپن میں انتقال ہو گیا تھا آج اُس کا سفارشی ہو گیا۔ خواب سے بیدار ہو کر مجھے فکر ہوئی کہ میرے پاس آخرت کی اَور جائدادیں تو ہیں یعنی عبادتیں نماز روزہ وغیرہ مگر یہ جائداد نہیں اِس لیے میں نے چاہا کہ یہ جائداد بھی پاس ہونا چاہیے۔ چنانچہ نکاح ہوا اور بچہ پیدا ہو کر مرگیا تو اُن کا مقصود حاصل ہو گیا۔ ( الاجر النَبیل فضائل صبر و شکر)

ایک حدیثِ پاک کا مفہوم

حدیث میں آتا ہے کہ جب کسی مسلمان کا بچہ مرتا ہے تو ملائکہ اُس کی رُوح کو لے کر آسمان پر پہنچتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن سے اِرشاد فرماتے ہیں کہ تم نے میرے بندے کے بچہ کو لے لیا؟ وہ کہتے ہیں کہ اے اللہ ہاں ۔ پھر فرماتے ہیں کیا تم نے میرے بندے کے جگر گوشہ کو لے لیا؟ وہ کہتے ہیں کہ اے اللہ ہاں ۔پھر فرماتے ہیں میرے بندہ نے کیا کہا۔ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ اُس نے آپ کی حمد (یعنی آپ کا شکر اَدا کیا) اور صبر کیا۔اِس پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ گواہ رہو میں نے اپنے بندہ کو بخش دیا اور فرمایا اُس کے لیے جنت میں ایک محل تیار کرو اَور اُس کا نام ” بَیْتُ الْحَمْدْ” رکھو۔ یہ چھوٹوں کے مرنے پر وعدہ ہے جس سے ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ بچوں کے مرنے پر نعم البدل (یعنی اچھا بدلہ) عطا فرماتے ہیں یعنی مغفرت اور جنت کا محل۔ 
تمت