منگل، 27 ستمبر، 2016

کامیابی کی ضمانت خواہشات نہیں حقائق ہیں

از قلم: مولاناسید ابوالحسن علی ندوی (شمارہ 537)
یہ ’’وأتواالبیوت من ابوابھا‘‘ ساری زندگی دین و دنیا سب پر حاوی ہے کہ اللہ نے اورفطرت انسانی نے، فطرت سلیم نے سالوں سال کے تجربے سے جو اصول مقرر کئے ہیں اور جو اس کے مداخل اور مخارج ہیں اگر کوئی شخص اس کا پابند نہ ہو، ان کا کوئی احترام نہ کرے وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا، اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتا۔ ایک شخص کہے کہ حروف تہجی کا جھگڑا عجیب ہے، ا،ب،ت کا کون جھگڑا مول لے کہ پہلے الف، ب، ت، پڑھے ہم براہ راست پڑھنا شروع کردیتے ہیں، تو وہ کتنا ہی ذہین ہو کبھی اس کو پڑھنا نہیں آئے گا۔ جو ا،ب،ت نہیں پہچانتایا،A,B,C,D نہیں پہچانتا وہ کبھی ایک سیکنڈ نہیں بول سکتا، آپ کسی وقت بھی تجربہ کرکے دیکھئے کہ آپ کے زمانے کا کوئی بقراط سقراط ہو جو پڑھا ہوا نہ ہوخواندہ نہ ہو، آپ اس کو ایک کتاب دیجئے اردو کی دیجئے یا انگریزی کی دیجئے یا عربی کی دیجئے یا یہیں کی کنڑزبان کی دے دیجئے اورکہئے کہ رات بھر نہیں آپ کو ایک مہینہ کی مہلت دی جاتی ہے آپ کے پاس کوئی دوسرا آدمی نہیں جائے گا،یہ کتاب ہے اور آپ ہیں، ہم آپ کو کمرے میں بند کردیتے ہیں تالہ لگا دیتے ہیں، کھانے پینے کا سب سامان کھڑکی سے ہم پہنچاتے ہیں اور وہاں پہلے سے موجود زندگی کی سب ضروریا ت ہیں، ایک مہینہ نہیں چھ مہینے آپ اس میں رہئے اور یہ صفحہ حل کردیجئے اس صفحہ کو آپ پڑھ دیجئے اور اس نے حروف تہجی نہیں پڑھے تو آپ یقین مانئے کہ جب وہ نکلے گا تو ویسے ہی جاہل ہوگاجیسے وہ داخل ہواتھا۔اس لئے کہ’’وأتوا البیوت من ابوابھا‘‘ پر اس نے عمل نہیں کیا، حروف تہجی بڑے حقیرہیں کیاحقیقت ہے، ا،ب، ت، بچوں کو پڑھایا جاتا ہے لیکن بڑے بڑے علامہ امام غزالیؒ، امام رازیؒ بھی محتاج تھے کہ حروف تہجی پڑھیں، پھر احیاء علوم الدین اور تفسیر رازی تک پہنچیں ،وہ احیاء علوم اور تفسیر رازی تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے اگر انہوں نے حروف تہجی نہ پڑھے ہوتے، ایسے ہی ہر فن ہر علم کا، ہر شعبہ کا ایک قانون ہے اس قانون پر چلنا ہوگا۔ یہ ہمارا علم اول تو مجرد علم ہے، مجرد علم کا حال بھی یہی ہے کہ بہت سی چیزیں تو اس میں مشترک ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری دنیا الگ ہے ان کی دنیا الگ، لیکن آپ دیکھیں گے تو زیادہ حصہ دنیاوی اور دینی تعلیم میں مشترک ہے، مثلاً درجہ بدرجہ پڑھنا، استاذ سے پڑھنا، محنت کرنا، استاذکا احترام کرنا۔
 علم دین کا امتیاز
کچھ چیزیں تو مشترک ہیں لیکن پھر اس کے بعد ایک سرحد ایسی آتی ہے، ایک ایسی لکیر آتی ہے جہاں سے ہماری سرحد الگ ہوجاتی ہے وہ کیا؟ مثلاً اللہ کی رضا کی طلب ہو، اخلاص ہو، دعاء ہو خدا سے کہ اے اللہ! ہم سے تو جو محنت ہو سکتی ہے ہم کریں گے اصل تو دینے والا ہے علم کا۔
حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کا شعر یاد کیجئے:
شکوت الی وکیع سوء حفظی
فاوصانی الی ترک المعاصی
بان العلم نور من الہ
ونور اللّٰہ لایعطی لعاصی
میں نے اپنے استاذ وکیع سے شکایت کی میرا حافظہ کمزور ہے، انہوں نے کہا کہ گناہوں سے اجتناب کرو، گناہوں سے دور رہو اس لئے کہ علم جو اللہ کا نور ہے اللہ کا نور نا فرمان کو نہیں دیاجاتا،یہاں سے سرحد الگ ہوجاتی ہے۔یہ ہمارا علم جو ہے جس علم کے طالب علم ہیں۔ یہ علم خاص آداب رکھتا ہے، یہ پہلوانی کا علم نہیں ہے کہ آدمی کہے کہ کون ہوتا ہے استاذ، کیا کتابوں کا ادب، کیا پرانی دقیانوسی باتیں کرتے ہو، اللہ نے ہمیں ذہن دیا ہے، حافظہ دیا ہے، محنت صحت ہماری اچھی ہے، ہم سب کرکے دکھادیں گے، نہیں ایسا نہیں بعض لوگ کم صلاحیت کے ساتھ ایسے کامیاب ہوگئے ہیں کہ دنیا میں ان کا ڈنکا بج گیا، مجھے یاد ہے کہ لاہور میں ایک صاحب تھے انہوں نے غلط لائن اختیار کی تھی اور کالج میں پڑھاتے تھے ان کی ذہانت اور معقولات میں ان کی دسترس مسلّم تھی یہاں تک کہ ڈاکٹر اقبال بھی ان کو مانتے تھے لیکن جو فیض ان سے پہنچنا چاہئے تھا، جو علوم و سنت کا اجرا ان سے ہونا چاہئے تھا اور جو اشاعت ہونی چاہئے تھی جو ان لوگوں میں بیٹھ کر خشیت پیدا ہونی چاہئے تھی وہ لوگوں میں پیدا نہیں ہوئی، کہنے لگے کہ مولوی حسین احمد مدنی توہمارے ساتھ تھے تو ان کا شمار غبی طالب علموں میں تھا وہ کچھ وہاں نمایاں نہ تھے، یہ بڑے نمایاں تھے ان سے کیا فیض پہنچا ذہانت کے باوجود؟ایسے ہی ایک صاحب کہنے لگے:ارے مولوی الیاس تو جب دیکھو نفلیں پڑھتے تھے، پڑھنے کے زمانے میں نفلیں پڑھتے تھے مولوی الیاس صاحب نے کیا کر دکھلایا، بڑے تجربے کی بات بتاتا ہوں تھوڑی صلاحیت سے وہ طریقہ اختیار کر کے ’’وأتواالبیوت من ابوابھا‘‘ پر عمل کرکے آدمی وہاں پہنچ سکتا ہے جہاں وہ لوگ جن کو اپنی ذہانت پر ناز ہے اور اپنے قوت مطالعہ پر اور محنت پر، وہ نہیں پہنچ سکتے، ان کے پڑھنے پڑھانے میں برکت نہیں ہوگی کہ لوگوں کو نفع پہنچے، علم کے ساتھ سنتوں کا اجراء ہو،بدعات کا محو ہو، معصتیوں سے نفرت پیدا ہو، طاعت میں رغبت پیدا ہو، نور آئے ،یہ بات پیدا نہیں ہوگی۔ یہ بات جب پیدا ہوگی کہ آدمی اس طریقہ پر عمل کرے جو استاد بتائے۔ ایک صاحب تھے بہت بڑے علامہ ، شام کے علامہ بیطار، کہنے لگے کہ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ہم لوگ اپنے استاد کے پاس نہیں جاسکے، بڑی سخت سردی تھی ،سردی شام میں ہوتی ہے، برف پڑتی ہے کہنے لگے: ہم مجبور ہوگئے، دوسرے وقت گئے تو کہنے لگے: کیوں نہیں آئے، ہم نے کہا سردی بہت تھی، اوپر سے ایک گھڑا پانی اور ڈال دیا کہنے لگے کہ یہ سردی ہے، کہنے لگے کہ ہم لوگوں نے برداشت کیا اور کوئی شکایت نہیں کی اور پھر جانے لگے اب وہ علامہ بیطار بن گئے، انہوں نے خود سنایا یا ایسے ہی ایک صاحب نے ان کے ہم عصروں میں سے سنایا، تو یہ اس زمانہ کا طریقہ تھا کہ استاد خدمت بھی لیتے تھے اور پڑھاتے بھی تھے اور پھر استاد استا د ہی نہیں ہوتا تھا ایک طرح کا پیر ہوتا تھا، اس کے پاس رہتے کہ نماز کیسے پڑھتا ہے، کیا خشوع و خضوع ہے، سنتوں کا کہاں تک اہتمام کرتا ہے، مسجدآتا ہے تو پہلا قدم کون سا رکھتا ہے، نکلتا ہے تو کون ساقدم نکالتا ہے، یہ باتیں سیکھتے تھے استادوں سے اور اب یہ باتیں کم ہوگئیں۔
بس وہی بات ہے کہ ’’ وأتواالبیوت من ابوابھا‘‘ کہ بیت علم میں باب علم سے داخل ہو، باب علم کیا ہے وہی قواعد و ضوابط پر چلنا، احترام کرنا، نظام کے ساتھ رہنا،مطالعہ دیکھنا، محنت کرنا۔
 بس چندباتیں ہی لمبا قصہ نہیں ہے، اگر ان پر عمل کیا جائے تو آج بھی اللہ کا قانون یہی ہے جو سیکڑوں ہزاروں برس پہلے تھا۔

کوئی تبصرے نہیں: