پیر، 23 جنوری، 2017

امت مسلمہ کے مسائل اور اُن کاحل ۔

آج اگر امت مسلمہ کے مسائل و مشکلات کی بات کی جائے تو وہ ذاتی زندگی سے متعلق بھی ہیں اور اجتماعی نظم سے بھی انفرادی زندگیوں میں بھی بے شمار کو تاہیاں دیکھنے میں آرہی ہیں اور معاشرتی سطح پر بھی کمزوریاں بڑھتی چلی جارہی ہیں عوام کو بھی اپنی اصلاح کی فکر کرنی ہے اور حکمرانوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔ ان امور کی نشاندہی کی جائے جو ہمارے مسائل ومشکلات ،بگاڑ وفساد اور زوال وانحطاط کا اصل سبب ہیں۔ جب عوام وخواص ،رعایا اور حکمران ،فرد اور معاشرہ سب اپنی کمزوریوں اور ذمہ داریوں کا احساس وادراک کر کے ان اسباب کے ازالے کی فکر کریں گے تب کہیں بہتری کے آثار نمودار ہونا شروع ہوں گے۔ان شاءاللہ
ایمان محکم ،عمل ِ صالح ،خوف الٰہی اور فکرآخرت :
ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے اپنے معاشرے کی اصلاح کی اور کن بنیادوں پر صحابہ کرام کو کھڑا کیا کہ وہ زمانے کے مقتداءوپیشوا بن گئے۔ایک ایسا معاشرہ جو جہالت اور گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا ،جہاں قتل و غارتگری کا رواج تھا ، وہ لوگ راہ راست سے اس حد تک بھٹکے ہوئے تھے کہ کو ئی ان پر حکمرانی کرنے کے لئے تیار نہ تھا۔ ہمارے آقاﷺ نے اس معاشرے کا نقشہ ہی بدل دیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس معاشرے کو ایمان محکم ،عمل صالح ، خوفِ الٰہی اور فکرآخرت کی ایسی بنیادیں فراہم کیں کہ جن کی وجہ سے پورا معاشرہ یکسر بدل گیا وہ لوگ جو پہلے قاتل اور لٹیرے تھے وہ زمانے کے مقتداء اور پیشوا بن گئے۔ان کا معاشرہ جنت کا نمونہ بن گیا ،وہ قیصر وکسری ٰ جیسی عالمی طاقتوں سے ٹکرا کر فاتح ٹھہرے۔ ہمارے حکمرانوں کا معاملہ ہو یا عوام کا،انفرادی زندگیاں ہوں یا اجتماعی نظم یقین محکم کی قوت ،کردار وعمل کی طاقت، خوف الٰہی کا زاد ِ راہ اور فکرآخرت کی دولت سے ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر محروم ہوگئے۔جب ہمارے پاس ایمان ویقین کی بنیاد اور اخلاص پر مبنی جذبہ ہی نہیں ،کردار وعمل کے اعتبار سے ہم کمزور ہوگئے ، محاسبہ کی فکر سے آزاد ہوگئے ،مرنے کے بعد کی زندگی کو بھول بیٹھے تو یہ وہ پہلی اینٹ ہے جو غلط رکھ دی گئی اس اینٹ کو جب تک صحیح نہیں کیا جائے گا اور ان چار بنیادوں پر اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگی کو لانے کی کوشش نہیں کی جائے گی اس وقت تک اصلاحِ احوال کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
 وھن کی بیماری:
اس وقت امت مسلمہ مسائل و مشکلات کے جس گرداب میں پھنسی ہوئی ہے ،ہر طرف ظلم و ستم کی آندھیاں زوروں پر ہیں، ہر جگہ مسلمانوں کا لہو بہہ رہا ہے ،ہر آنے والا دن گزرے دن سے زیادہ مصائب و آلام لے کر طلوع ہوتا ہے ۔دشمن اہل ایمان کو کاٹ کھانے اور صفحہ ہستی سے مٹا ڈالنے کے لیے بھوکوں کی طرح امت مظلومہ پر ٹوٹا پڑ رہا ہے اس صورت حال سے نہ صرف یہ کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بہت پہلے خبردار کر دیا تھا بلکہ اس زوال و انحطاط کی وجہ بھی بتادی تھی کہ جب امت” وھن“ کی بیماری میں مبتلا ہو جائے گی یعنی دنیا سے محبت کرنے لگے گی اور موت کی ناپسندید گی کا شکار ہو جائے گی تو پھر اس قسم کے حالات سے دوچار ہو جائے گی اس وقت ہمیں امت مسلمہ میں یقین محکم ،عمل صالح ،خوفِ الہٰی اور فکر آخرت کا شعور اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی باقاعدہ مہم چلانے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے اجتماعی نظم اور اپنے دل ودماغ سے وھن کی بیماری کو یعنی دنیا کی محبت اور موت کی ناپسندیدگی کو ختم کردیں کیونکہ دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے، موت کی ناپسندیدگی بزدلی اور غیروں کی غلامی کا سبب بنتی ہے۔جب ہم اس بیماری سے نجات پاجائیں گے تو اس کے نتیجے میں بہت سی مشکلات پر قابو پانا آسان ہو جائے گا۔ان شااللہ
 اتحادو اتفاق کا فقدان:
اس وقت امت مسلمہ کے مسائل و مشکلات کی ایک بڑ ی وجہ اتحادواتفاق کا فقدان ہے۔ہمارے ہاں مذہبی بنیادوں پر ،مسلکی بنیادوں پر ،علاقائی بنیادوں پر اور لسانی بنیادوں پر نفرتوں کے ایسے بیج بوئے گئے ہیں کہ ان کی فصل اب بالکل تیار ہے۔دشمن نے ”لڑاؤ اور حکومت کرو“ پالیسی کے تحت ہمیں یوں آپس میں دست وگریباں کیا کہ ہمارے مابین دوریوں کی خلیج حائل ہو گئی اور امت کا شیرازہ بری طرح بکھر کر رہ گیا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصبیت کے جن کلموں کو بدبودار باتیں کہہ کر چھوڑنے کا حکم دیا تھا انہی چیزوں نے اس امت واحدہ کو بانٹ رکھا ہے۔ ہمارے مسلکی اختلافات مخالفت اور تشدد کی شکل اختیار کر جاتے ہیں اور پھر نہ ختم ہونے والے فساد اور انتشار کا دروازہ کھل جاتا ہے۔اگر آج مسلکی ہم آہنگی ،عصبیت کے خاتمے ،علاقائی اور لسانی تفریق کو مٹانے اور جدید و قدیم کی خلیج کو پاٹنے کی کوشش کی جائے کوئی وجہ نہیں کہ مسائل ومشکلات ہمیں یوں ہی گھیرے رکھیں اور اگر آج ہم نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر تک پھیلی ہوئی اسلامی دنیا کو اتحادو اتفاق کی لڑی میں پرونے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے پر آمادہ کر نے میں کامیاب ہو جائیں تو ہمارا مقدر یقیناً بدل سکتا ہے۔آج اگر یورپی یونین کی شکل میں یورپی ممالک کا بلاک موجود ہے ،افریقی ممالک آپس میں معاہدے کر کے ایک قوت بن سکتے ہیں ،سارک ممالک اکٹھے ہوسکتے ہیں تو اسلامی دنیا مشترکات پر اکھٹی ہو کر اپنا ایک بلاک بنا لینے کی ہمت کیوں نہیں کرتی ؟یا د رکھئے جب تک اس پہلو پر توجہ نہیں دی جائے گی اس وقت تک ہماری پریشانیاں کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی رہیں گی۔


تعلیم کی کمی:
امت مسلمہ کے مسائل کی ایک بڑی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔اور یہ بھی ایک ایسا سبب ہے جس کے ذمہ دار افراد بھی ہیں اور مسلمان معاشرے بھی ،عوام بھی ہیں اور حکمران بھی ایک ایسی امت جس کی پہلی وحی کا آغاز اقرا سے ہوتا ہے ،ایک ایسی امت جس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قل رب زدنی علماً  کا حکم ہوتا ہے،ایک ایسی امت جس کی شناخت اور پہچان ہی تعلیم وتعلمہے اگر وہ امت تعلیم کے میدان میں دنیا سے پیچھے رہ جائے تو اس پر افسوس کے اظہار کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے؟ مسلمانوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کے ذمہ دار جہاں حکمران ہیں کہ انہوں نے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام، تعلیمی سہولیات و ضروریات کی فراہمی ،اعلیٰ معیار کی درس گاہوں کے انتظام و انصرام ،تعلیم کے لیے معقول بجٹ مختص کرنے اور اپنی قوموں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر نے کے معاملے میں ہمیشہ مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا وہیں عوام نے بھی انفرادی طور پر اس معاملے میں افسوسناک حد تک تغافل برتا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی ہو یا جدید ایجادات، میڈیکل اور انجینئرنگ ہو یا کوئی دوسرا علم، ہم اپنے شاندار اور تابناک ماضی کے حوالے تو دیتے ہیں ،چند مسلمان سائنسدانوں کا تذکرہ تو کرتے ہیں لیکن کیا ہم نے سوچا کہ آج وہ بڑے بڑے سائنسدان کیوں جنم نہیں لیتے؟آج ہم ہر معاملے میں غیروں کے محتاج کیوں ہیں ؟ آج اسلامی دنیا میں شرح خواندگی اتنی کم کیوں ہے؟آج دنیا کی معیاری درسگاہیں اور رصد گاہیں عالم اسلام میں کیوں نہیں ؟یونیورسٹیز کی ریٹنگ میں اسلامی دنیا کے تعلیمی اداروں کا سراغ تک کیوں نہیں ملتا؟


ہمیں اس معاملے پر خوب سوچ وبچار کر کے اس کے تدارک کی حکمت عملی وضع کرنی ہوگی ورنہ مستقبل مزید تاریک سے تاریک تر ہوتا چلا جائے گا۔

سستی، کاہلی اور عیشی پرستی:
امت مسلمہ کے مسائل میں سے ایک اور بڑا مسئلہ ہماری اجتماعی او ر انفرادی سستی ،کاہلی اور عیش پرستی بھی ہے۔ ہم لوگ محنت سے جی چراتے ہیں ،کام کر نے سے جان چھڑاتے ہیں، ہمارے حکمرانوں کا شاہانہ طرزِزندگی ہو یا امراؤ وروساء کی عیش پرستی ،عوام کی سہل پسند ی ہو یا نوجوانوں کی عیش کوشی ان چیزوں نے نہ صرف یہ کہ ہمیں زوال و انحطاط سے دوچار کیا بلکہ دنیا کے سامنے تماشا بناکر رکھ دیا ہے۔ہمارے نوجوان شمشیر وسناں چھوڑ کر طاؤس ورباب کے دلدادہ ہو گئے،فحاشی وعریانی کے زہر نے ہماری پوری نسل کو کھوکھلا کر ڈالا ،لایعنی مشاغل اور فضولیات ولغویات میں انہماک نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ وہ لوگ جو ایمان کی دولت سے بھی محروم ہیں اور اللہ کی نصرت ومدد کا بھی ان سے کوئی وعدہ نہیں لیکن جب انہوں نے محنت کو اپنا شعار بنایا تو کامیابی وکامرانی ان کا مقدر بنتی چلی گئی اور ہم ہاتھوں پر ہاتھ دھر ے اچھے مستقبل کے انتظار میں بوڑھے ہوتے چلے گئے۔ ہمیں اس اجتماعی اور انفرادی کمزوری کا احساس بھی کر نا ہوگا اور اس معاملے پر قابو پانے کی کوشش بھی کرنی ہوگی۔

وسائل کا ضیاع اور اسراف:
جس طرح ہم وقت اور انسانی صلاحیتوں کو بے دریغ ضائع کرتے ہیں اس سے کہیں بڑھ کر ہم قدرتی وسائل کو بھی ضائع کررہے ہیں۔اللہ رب العزت کا خصوصی فضل و کرم ہے کہ عالمِ اسلام کے پاس ہر قسم کے وسائل کی فراوانی ہے،سیال سونے کے کنویں موجود ہیں ، معدنیات کے ذخائر موجود ہیں ،جغرافیائی اعتبار سے دیکھا جائے یازرعی لحاظ سے،معدنی اعتبار سے بات کی جائے یاموسمی اعتبار سے سب سے زیادہ وسائل اور ترقی کے مواقع عالم اسلام کے پاس ہیں لیکن ہم نے انہیں بروئے کار لانے اورمنصوبہ بندی سے برتنے کا اہتمام ہی نہیں کیا،اسلامی دنیا سے تیل دشمن نکال کر لے جاتے ہیں، ریکوڈک سے سونا نکالنے کا ٹھیکہ ہم کسی اور کو اونے پونے داموں میں دے دیتے ہیں،دریاؤں پر ڈیم بنانے کی ہمیں توفیق نہیں ہوتی،ہمیں تو و اعدو لھم مااستطعتم من قوة و من رباط الخیلکاحکم تھا لیکن ہم دشمن کے خلاف قوت جمع کرنا تو کجا اپنی ضرورت کے وسائل کو سلیقے سے برتنے کی توفیق سے بھی محروم ہیں اور پھر ستم بالائے ستم یہ کہ وسائل کے ضیاع کے ساتھ ساتھ اسراف جسے قرآن نے شیطان کے بھائیوں والا کام قرار دیا ہے اس کے مرتکب ہوتے ہیں۔ہمارے حکمرانوں کی بیگمات کے سونے اور زیورات کے قصے آپ نے سنے اور پڑھے ہوں گے اور شادی بیا ہ سے لے کر لباس و پوشاک تک اور موبائل فون سے لے کر پانی وبجلی کے استعمال تک عام لوگوں کے طرز عمل کا مشاہدہ بھی کیا ہوگا۔ وسائل کے بے دریغ ضیاع اور فضول خرچی و اسراف کی عادت میں ہم نے سب کو مات دے دی اور یہی وہ کمزوری ہے جس نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا اگر اس معاملے میں ہم سیدنا یوسف علیہ السلام والی حکمت عملی اپنائیں اور جس طرح انہوں نے دیانت ،کفایت شعاری اور منصوبہ بندی کے صرف تین گر اپنا کر پورے مصر کو قحط سالی میں ریلیف مہیا کیا ہم بھی ان تینوں چیزوں یعنی دیانتداری،کفایت شعاری اور بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے پورے عالم اسلام کے فقر وافلاس اور زوال وانحطاط کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔

کرپشن اور بد دیانتی:
کر پشن اور بد دیانتی ہمارے معاشرے کا ایسا ناسور ہے جس نے آج ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔حکمران ہو ں یا عوام جس کو جب ،جہاں اور جیسا موقع ملتا ہے وہ لوٹ کھسوٹ ،بددیانتی اور کرپشن سے خود کو نہیں بچاپا تا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شاید انہی حالات کے بارے میں پیشین گوئی فرمائی تھی کہ قرب قیامت میں دیانت وامانت کو اٹھا لیا جائے گا لوگ کہیں گے کہ فلاں قبیلے یا فلاں علاقے میں ایک شخص ہے جو بڑا امانت دار اور دیانت دار ہے۔ آج اگر ہماری ریاستیں،ہمارا معاشرہ، ہمارے ممالک ،ہمارے ادارے اور ہماری انفرادی زندگی کرپشن اور بد دیا نتی کی لعنت سے پاک ہو جائے تو دنیا کا نقشہ بدل سکتا ہے۔

ظلم وزیادتی اور ناانصافی:
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا مشہور قول ہے کہ معاشرے کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتے ہیں لیکن ظلم کے ساتھ باقی نہیں رہ سکتے۔ آج ہمارے ہا ں ظلم کی جو مختلف شکلیں رائج ہیں،ناانصافی کے جو افسوسناک مناظر دیکھنے میں آتے ہیں ان کی وجہ سے بھی امت مسائل و مشکلات کا شکار ہے۔ غیروں اور دشمن کے مظالم اور زیادتیاں تو اپنی جگہ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر طاقت ، قوت،دولت اور اثر رسوخ رکھنے والا دوسروں کو اپنے ظلم و زیادتی کا نشانہ بنارہا ہے ،انصاف اور مساوات کے تصورات معدوم ہوتے چلے جارہے ہیں ،جب تک ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر انصاف کی بالادستی اور نظامِ عدل کے نفاذ کیلئے کو شش نہیں کر یں گے اس وقت تک ہما رے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے چلے جائیں گے۔

احساس کمتری:
ہمارے مسائل کی ایک بڑی بنیاد احساس کمتری بھی ہے۔اس احساس کمتری کی وجہ سے مرعوبیت ،دوسروں کی غلامی اور حاشیہ نشینی ،بیرونی قوتوں کی مداخلت اور ڈکٹیشن قبول کرنے سے لے کر اپنی اقدار و روایا ت کو ترک کر کے دوسروں کی نقالی اور ان کی تہذیبوں کو فخر کے ساتھ اپنانے کی جو روش چل نکلی ہے اس سے بھی چھٹکارہ حاصل کر نا از حد ضروری ہے جب تک ہمیں سر اٹھا کر جینے کا ہنر نہیں آجاتا ،اپنی خود مختاری کی حفاظت کا سلیقہ نہیں آتا،اپنی اقدار وروایات پر ناز کر نے کی ہمت نہیں ہو تی اس وقت تک ہم کسی کو کیا الزام دے سکتے ہیں ؟

طبقاتی تفریق:
ہمارے مسائل و مشکلات کی ایک بڑی وجہ طبقاتی تفریق بھی ہے۔V.I.Pکلچر ،جا گیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام اور بیوروکریسی کی مختلف شکلیں اس طرح ہمارے اوپر مسلط ہیں کہ کبھی یوں محسوس ہونے لگتا ہے جیسے ہم نے طبقاتی اور معاشرتی اونچ نیچ اور ذات پات کے چکر میں ہندوؤں کو بھی مات دے دی ہو، ہمارے قواعد وضوابط اور قوانین ِ جزا و سزا ہر ایک کے لئے الگ الگ ہیں۔ امیر اور طاقتو ر ہر قسم کے قاعدے اور ضابطے سے مستثنیٰ ہے اور غریب ہر ظلم و زیادتی کا شکار ہیں حالانکہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورتحال کو سابقہ قوموں کی تباہی وبربادی کی بنیادی وجہ قرار دے کر اس سے اجتناب کا درس دیا تھا۔

ذرائع ابلاغ پر غیروں کا غلبہ:
اسی طرح ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ وہ کسی بھی شکل میں ہوں ان پر کسی نا کسی درجے میں غیروں کی چھاپ نظر آتی ہے۔اگرچہ میڈیا کے بعض ادارے اور کچھ افراد اپنی طرف سے اصلاح احوال کی کوششوں میں بھی مصروف عمل ہیں اور انفرادی طور پر کئی لوگ ایسے ہیں جنہیں اس شعبے میں امید کی کرن کہا جاسکتا ہے لیکن مجموعی طور پر جس طرح ذرائع ابلاغ فحاشی وعریانی پھیلانے،اپنی اقدار وروایات کو ختم کر کے غیروں کی تہذیب مسلط کرنے اور فکری حوالوں سے غلط فہمیاں اور گمراہی پھیلانے میں جو کردار ادا کررہے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں عالمی سطح پر میڈیا کی اسلام دشمن ،مسلم کش،اخلاق باختہ اور حیاسوز پالیسیوں کے تدارک کے لیے امت مسلمہ نے کبھی سنجیدگی سے نہیں سوچا نہ اس صورتحال کی تلافی کی کوئی سنجیدہ کوشش کی جس کا خمیازہ آج ہم سب کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔اس لیے ہم سب کو بالخصوص ہمارے حکمرانوں اور میڈیا سے وابستہ ہمارے مسلمان بھائیوں کو امت کو اس سنگین مشکل سے نجات دلانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

دوسروں کی اصلاح اور خود سے غفلت: 
یہ بھی ہمارا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ ہمارے ہا ں جو بھی امت مسلمہ کے مسائل ومشکلات کے اسباب کی نشاندہی کر کے ان کے تدارک اور امت کی اصلاح کا بیڑہ اٹھاتا ہے وہ ہمیشہ اصلاح کا عمل دوسروں سے شروع کرتا ہے اور خود کو بھول جاتا ہے۔عوام حکمرانوں کو کوستے ہیں اور حکمران عوام کو تمام خرابیوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔اگر ہم دیکھیں تو اس وقت ہمارے حکمرانوں اور عوام کا رخ اور ترجیحات ہی مختلف ہیں۔حکمران غیروں کے مقاصد کی تکمیل میں لگے ہیں اور انہیں عوامی مسائل ومشکلات سے نہ صرف یہ کہ کوئی سروکار نہیں بلکہ عوامی اضطراب کا احساس وادراک تک نہیں۔یہ اعتماد کا فقدان اور الزام تراشی کی روش صرف عوام اور حکمرانوں کے مابین ہی نہیں ہے بلکہ مختلف طبقات اور مختلف افراد بھی اس کا شکار ہیں بلکہ بحیثیت مجموعی ہم سب قول وفعل کے بدترین تضاد میں مبتلا ہیں اس لیے ہمیں سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنی ہو گی،معاشرے میں پھیلی تاریکیوں اور ظلمت شب کا شکوہ کرنے کی بجائے اپنے حصے کا چراغ جلانا ہوگا،اور امت کو اجتماعی ، انفردی ، حکومتی اور عوامی مسائل ومشکلات سے نجات دلانے کےلئے تن من دھن کی بازی لگانی ہو گی۔اللہ رب العزت ہمیں اس کی توفیق مرحمت فرمائے ۔آمین ۔

کوپی پیسٹ

ہفتہ، 14 جنوری، 2017

انسانیت کے تین دشمن ان سے حفاظت کی تدبیر

خطبہ جمعہ مسجد نبوی کا اردو ترجمہ 
خطیب : ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی۔ امام مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم 
ترجمہ: شفقت الرحمن مغل
******************************************
پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں اسی کے ہاتھ میں بھلائی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، وہ سب کے اعمال کی نگرانی کر رہا  ہے اور وہ سب کو اعمال کا پورا بدلہ دے گا وہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا، {وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا} اور اگر کوئی نیکی ہوئی تو وہ اسے بڑھا دیتا ہے اور اپنی طرف سے اجر عظیم عطا فرماتا ہے۔[النساء: 40]، میں اپنے رب کے فضلِ عظیم پر اسی کی تعریف اور شکر بجا لاتا ہوں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں وہی جاننے اور خبر رکھنے والا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی  جناب محمد  ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ بشیر و نذیر اور سراج منیر ہیں، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول جناب محمد   - جنہیں روشن کتاب دے کر بھیجا گیا  ان - پر ، ان کی آل اور صحابہ کرام پر درود  و سلام اور برکتیں نازل فرما  جن کے ذریعے اللہ تعالی نے دین کو غالب فرمایا اور شرک کو ذلیل و رسوا کیا۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
تقوی الہی اپناؤ ؛ اس کیلیے بڑھ چڑھ کر نیکیاں کرو  اور حرام کاموں سے بچو، تو تم اعلی درجات پا لو گے نیز تباہ کن نتائج سے بچ جاؤ گے۔
مسلمانو!
بیشک اللہ تعالی نے تم سے سچا وعدہ کیا ہے، وہ اپنے وعدے  کی خلاف ورزی نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی اس کے فیصلوں پر نظر ثانی کر سکتا ہے،  اللہ تعالی نے اپنے فرمانبردار بندوں سے دنیا میں اچھی زندگی کا وعدہ فرمایا  اور آخرت میں اچھے نتائج کا وعدہ دیا،  اللہ تعالی ان پر راضی ہو گا اور انہیں سرمدی جنتوں میں دائمی نعمتوں سے نوازے گا، انہیں انبیائے کرام اور نیک لوگوں کی رفاقت بھی ملے گی، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ} اور اگر بستی والے ایمان لاتے اور تقوی اپناتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے ضرور کھول دیتے۔[الأعراف: 96]
ایسے ہی فرمایا: {وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأَدْخَلْنَاهُمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ (65) وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ مِنْ رَبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ}  اگر اہل کتاب ایمان لے آتے اور تقوی  اختیار کر لیتے تو ہم ان سے ان کے گناہ زائل کر کے انہیں نعمتوں والے باغات میں داخل کرتے [65] اور اگر یہ لوگ تورات ،انجیل اور جو دوسری کتابیں ان پر انکے پروردگار کی طرف سے نازل ہوئی تھیں، ان پر عمل پیرا رہتے تو انکے اوپر سے بھی کھانے کو رزق برستا، اور پاؤں کے نیچے سے بھی ابلتا۔ [المائدة: 65، 66]
یعنی اگر وہ قرآن پر ایمان لے آتے  اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ساتھ میں اپنی کتابوں پر بھی بغیر کسی تحریف کے ایمان رکھتے  تو اللہ تعالی انہیں دنیا میں خوشحال زندگی سے نوازتا اور آخرت  میں ا نہیں نعمتوں والی جنت میں داخل فرماتا۔
اسی طرح نوح علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو ترغیب   دی تو اسے اللہ تعالی نے بیان کرتے ہوئے فرمایا: {فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا (10) يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا (11)وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا} تو میں[نوح] نے کہا: اپنے پروردگار سے بخشش طلب کرو؛ بیشک وہی بخشنے والا ہے [10] وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار بارش برسائے گا [11] نیز تمہاری دولت اور نرینہ اولاد کے ذریعے مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغات اور نہریں بہا دے گا۔[نوح: 11، 12]
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (بیشک اللہ تعالی فرماتا ہے: جو میرے کسی ولی سے دشمنی روا رکھے تو اس کے خلاف میں اعلانِ جنگ کرتا ہوں،  فرائض سے بڑھ کر میرا بندہ میرا قرب حاصل نہیں کر سکتا، میرا بندہ   تسلسل کے ساتھ نوافل کے ذریعے میرے قرب کی تلاش میں لگا رہتا ہے  یہاں تک میں ہی اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، اور جب میں  اس سے محبت کرنے لگوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، میں اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اور اگر  وہ مجھ سے مانگے تو میں اسے ضرور دوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو میں اسے ضرور پناہ دے دوں، مجھے اپنے کسی بھی کام کے کرنے میں اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا  مجھے موت سے ڈرنے والے مؤمن کی روح قبض کرنے میں ہوتا ہے، مجھے مؤمن کی ناگواری پسند نہیں) بخاری، اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ : اللہ تعالی اپنے لطف و کرم اور رحمت و قدرت کے ساتھ اپنے فرمانبردار بندوں کے امور چلاتا ہے، اور دنیا و آخرت میں ان کے لیے بہترین منصوبہ بندی فرماتا ہے۔
ہمارے پروردگار کا وعدہ سچا ہے، اس میں ذرہ برابر بھی خلاف ورزی نہیں ہو گی، فرمانِ باری تعالی ہے: {رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ} ہمارے پروردگار! بیشک تو ہی اس دن کیلیے لوگوں کو جمع کرنے والا جس میں کوئی شک نہیں ہے، بیشک اللہ تعالی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں فرماتا۔[آل عمران: 9]
اسی طرح فرمایا: {رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ}  ہمارے رب ! تو نے اپنے رسولوں (کی زبان) پر ہم سے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا فرما اور قیامت کے دن ہمیں رسوا نہ کرنا، بیشک تو اپنے وعدے کی خلاف ورزی  نہیں کرتا ۔[آل عمران: 194]
مومنوں سے آخرت کے متعلق بھی اللہ تعالی کے وعدے سچے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِنَ اللَّهِ أَكْبَرُ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ}  اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ایسے باغات کا وعدہ کر رکھا ہے جن میں نہریں جاری ہیں، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے نیز سدا بہار باغات میں پاکیزہ قیام گاہوں کا بھی (وعدہ کر رکھا ہے) اور اللہ کی خوشنودی تو ان سب نعمتوں  سے بڑھ کر ہوگی۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے ۔[التوبہ: 72]
مومنین  اپنی دنیاوی زندگی میں بھی اللہ تعالی کے وعدوں کی تکمیل کا مشاہدہ کرتے ہیں اور انہیں اللہ تعالی کی جانب سے مسلسل نعمتیں اور رحمتیں موصول ہوتی رہتی ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: {فَآتَاهُمُ اللَّهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْآخِرَةِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ}  تو اللہ نے انہیں دنیا میں بدلہ بھی دیا اور آخرت کا ثواب تو بہت ہی خوب ہے۔ اور ایسے ہی نیک عمل کرنے والوں کو اللہ محبوب رکھتا ہے [آل عمران: 148]
انہیں آخرت میں بھی وعدہ شدہ اجر و ثواب  اور ابدی نعمتیں ملیں گی، فرمانِ باری تعالی ہے: {أَفَمَنْ وَعَدْنَاهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيهِ كَمَنْ مَتَّعْنَاهُ مَتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْمُحْضَرِينَ} بھلا جسے ہم نے کوئی اچھا وعدہ دیا ہو اور وہ اسے پانے والا ہو، اس شخص کی طرح  ہو سکتا ہے جسے ہم نے دنیوی زندگی کا  سامان دے رکھا ہو پھر وہ قیامت کے دن پیش کیا جانے والا ہو ؟ [القصص: 61]
جس طرح اللہ تعالی نے اپنے فرمانبردار بندوں سے نعمتوں کا وعدہ کیا ہے بالکل اسی طرح نافرمان کافروں اور سرکش گناہگاروں کو وعید بھی سنائی ، انہیں عذاب اور عقاب سے  ڈرایا، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَهُمْ} اور جو کافر ہیں وہ چند روز فائدہ اٹھا لیں، وہ اس طرح کھاتے ہیں جیسے چوپائے  کھاتے ہیں اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ [محمد: 12]
اسی طرح فرمایا: {وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا} اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو اس کے لیے  جہنم کی آگ ہے اور ایسے لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے [الجن: 23]
ان کی دنیا کی زندگی بھی بد ترین زندگی ہے، اس کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى}  اور جو میری یاد سے منہ موڑے گا تو اس کی زندگی تنگ  ہو جائے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے۔ [طہ: 124] اور اگر انہیں دنیا مل بھی جائے تو بھی وہ بد ترین زندگی میں ہوتے ہیں۔
اسی طرح اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا: {فَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ}  ان لوگوں کے مال اور اولاد آپ کو تعجب میں نہ ڈالیں۔ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ انہی چیزوں کے ذریعہ انہیں دنیا کی زندگی میں سزا  دے اور جب ان کی جان نکلے تو اس وقت یہ کافر ہی ہوں [التوبہ: 55]
اور یہ ممکن ہے کہ انسان کسی ایسی آزمائش میں پھنس جائے جو انسان کو مفید چیزوں سے موڑ کر  نقصان دہ چیزوں میں مبتلا کر دے، آزمائش اور امتحان کے طور پر اسے نیکیوں سے موڑے، گناہوں کو خوبصورت بنا کر دکھائے؛ تا کہ اللہ تعالی اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنے والوں اور نفس پرستی سے بچنے والوں  کو ان لوگوں سے الگ کر دے جو نفس پرستی میں پڑ جائیں اور شیطان کے پیچھے چل پڑیں؛ تا کہ  اللہ تعالی ہدایت یافتہ لوگوں کو درجات سے نوازے اور ہوس پرستوں  کو کھائیوں میں گرا دے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ}  ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے یہاں تک کہ یہ معلوم  کر لیں کہ تم میں سے مجاہد کون ہیں اور صابر کون ؟ اور تمہارے احوال کی جانچ پڑتال کریں گے [محمد: 31]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:  {وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ}  اور جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم یقیناً انہیں اپنی راہیں دکھا دیتے  ہیں [العنكبوت: 69]
اس لیے انسان کا نفس ہی انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے اور شیطان اسی کے ذریعے ہی  انسان پر حملہ آور ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي}  نفس تو اکثر برائی پر اکساتا رہتا ہے مگر جس پر میرے پروردگار کی رحمت ہو۔ [يوسف: 53]
اسی طرح فرمایا: {وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ} اور جو شخص اپنے نفس کی حرص  سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔ [الحشر: 9]
نفس جس قدر جہالت اور ظلم سے متصف ہو گا انسان اسی قدر اللہ تعالی کے وعدوں کی تصدیق سے دور ہو گا، انسان کو استقامت اور راہِ اعتدال سے منحرف کر دے گا۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:  "جو شخص اپنی حقیقت اور فطرت سے آشنا ہو جائے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ  اس کا نفس ہر قسم کی برائی اور بدی کا منبع ہے، جبکہ اس میں ہر قسم کی خیر محض فضلِ الہی اور احسان کی وجہ سے ہے، اس میں نفس کا اپنا کوئی کمال نہیں، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَى مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا} اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی پاک صاف  نہ رہ سکتا تھا۔ [النور: 21]"انتہی
شریعت کے لائے ہوئے علمِ نافع سے جہالت کا خاتمہ ہوتا ہے، مسلمان کیلیے ضروری ہے کہ ہمیشہ اللہ تعالی کی جانب راغب رہے، اپنے نفس کی اصلاح کیلیے اللہ تعالی سے دعا مانگتا رہے، چنانچہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: "رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے: (اَللَّهُمَّ آتِ نَفْسِيْ تَقْوَاهَا وَزَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا، اَللَّهُمَّ إني أَعُوْذُ بِكَ  مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ، وَمِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ، وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ، وَمِنْ دَعْوَةٍ لَا يُسْتَجَابُ لَهَا"[ یا اللہ! میرے نفس کو تقوی عطا فرما، اور اس کا تزکیہ فرما تو ہی اس کا بہترین تزکیہ کرنے والا ہے، تو ہی تزکیہ کر سکتا ہے اور میرے نفس کا مولی ہے، یا اللہ! میں غیر مفید علم، خشوع سے عاری دل، سیر نہ ہونے والے نفس، اور مسترد ہو جانے والی دعا سے تیری پناہ چاہتا ہوں]) مسلم
اسی طرح ترمذی میں روایت ہے کہ نبی ﷺ نے عمران بن حصین  رضی اللہ عنہ کے والد کو دو جملے دعا کیلیے سکھائے تھے: (اَللَّهُمَّ أَلْهِمْنِيْ رُشْدِيْ وَأَعِذْنِيْ مِنْ شَرِّ نَفْسِيْ[یا اللہ! میری رہنمائی میرے دل میں ڈال دے اور مجھے میرے نفس کے شر سے محفوظ فرما دے])
لہذا اگر نفس شرعی علم اور عمل صالح کے ذریعے پاکیزہ نہ بنے تو انسان پر جہالت اور ظلم کا راج ہوتا ہے، نفس ہوس کے ساتھ مل کر انسان سے اللہ تعالی کے وعدوں کی تکذیب کرواتا ہے، جس کی بنا پر نفس شہوت پرست بن جاتا ہے اور خسارہ، عذاب، ذلت اور رسوائی کی دلدل میں دھنس جاتا ہے، اور دونوں جہانوں میں نامراد ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ} اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر محض اپنی خواہش کے پیچھے لگا ہوا ہو۔ اور اللہ تعالی ایسے ظالموں  کو ہدایت نہیں دیتا۔ [القصص: 50]
اس کے بر عکس اگر نفس کا تزکیہ ہو ، علمِ نافع اور عملِ صالح کے ذریعے نفس پاکیزہ ہو جائے تو انسان اللہ تعالی کے وعدوں کو سچا مانتا ہے اور مطمئن ہو کر اپنے پروردگار  سے تعلق بناتا ہے، اسے موت کے وقت بھی عزت افزائی کی خوشخبری دی جاتی ہے، اسی کے متعلق فرمانِ باری تعالی ہے: {يَاأَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ (27)ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً (28) فَادْخُلِي فِي عِبَادِي (29) وَادْخُلِي جَنَّتِي} اے اطمینان پانے والی روح [27] اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی، وہ تجھ سے راضی  [29] میرے بندوں میں داخل ہو جا [30] اور میری جنت میں داخل ہو جا۔ [الفجر: 27 - 30]
بھلائی کے تمام راستے بند کرنے والا، برائیوں کی طرف دعوت دینے والا انسان کا ازلی دشمن - اللہ کی پناہ -شیطان مردود  اور پلید ہے اللہ تعالی نے شیطان کو مکلف لوگوں کیلیے آزمائش بنایا ؛ لہذا شیطان کے پیچھے چلنے والا شخص بد ترین مقام پر ہو گا اور شیطان کی نافرمانی کرنے والا بلند ترین مقام پر فائز ہو گا۔
شیطان انسان کو گمراہ کر کے لذت اور سرور محسوس کرتا ہے، اسے اللہ تعالی کے وعدوں اور وعیدوں کو جھٹلانے کی دعوت دیتا ہے، وہ اس کے سامنے حرام چیزوں کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے، فرائض اور مستحبات سے روکنا شیطان کا مشغلہ ہے، وہ انسان کو سبز باغ دکھا کر دھوکا دیتا ہے اور وسوسے ڈال کر اسے گمراہ کرتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ} شیطان یقیناً تمہارا دشمن ہے۔ لہذا اسے دشمن ہی سمجھو۔ وہ تو اپنے پیرو کاروں کو صرف اس لئے بلاتا ہے تا کہ وہ  دوزخی بن جائیں [فاطر: 6]
اللہ تعالی نے جہنم میں شیطان کا اپنے چیلوں سے خطاب ذکر کرتے ہوئے فرمایا: {وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلَّا أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ مَا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنْتُمْ بِمُصْرِخِيَّ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِنْ قَبْلُ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ} اور جب (تمام امور کا) فیصلہ  چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا : "اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ سچا تھا اور میں نے بھی تم سے ایک وعدہ کیا تھا جس کی میں نے تم سے خلاف ورزی کی۔ اور میرا تم پر کچھ زور نہ تھا بجز اس کے کہ میں نے تمہیں (اپنی طرف) بلایا تو تم نے میری بات مان لی۔ لہذا (آج) مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ  ہی کو کرو۔ (آج) نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری کر سکتے ہو۔ اس سے پہلے جو تم مجھے اللہ کا شریک بناتے رہے ہو میں اس کا انکار کرتا ہوں۔ ایسے ظالموں کے لئے یقیناً درد ناک عذاب ہے " [ابراہیم: 22]
شیطان اولادِ آدم کو گمراہ کرنے کیلیے سات انداز اپناتا ہے: [1]سب سے پہلے شیطان -اللہ کی پناہ-کفر کی دعوت دیتا ہے ، اگر انسان پہلے داؤ پر ہی اس کی دعوت قبول کر لے تو شیطان کا ہدف پورا ہو جاتا ہے اور شیطان اسے اپنی رذیل جماعت میں شامل کر لیتا ہے، [2]لیکن اگر انسان اس کی بات نہ مانے تو پھر اسے بدعت کی دعوت دیتا ہے ، اگر انسان سنت نبوی اور کتاب و سنت پر کار بند رہتے ہوئے بدعات سے بچ جائے [3]تو شیطان اسے کبیرہ گناہوں کی دعوت دیتا ہے اور اس کیلیے کبیرہ گناہ خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے، پھر اسے توبہ نہیں کرنے دیتا ، اس پر انسان کبیرہ گناہوں کا دلدادہ بن جاتا ہے اور وہ مکمل طور پر گناہوں کی جکڑ میں آ  کر ہلاک ہو جاتا ہے،[4]اگر انسان کبیرہ گناہوں کی دعوت بھی قبول نہ کرے تو شیطان صغیرہ گناہوں کی دعوت دیتے ہوئے صغیرہ گناہوں کو معمولی بنا کر پیش کرتا ہے؛ چنانچہ انسان کے صغیرہ گناہوں پر اصرار  اور تکرار کے باعث صغیرہ بھی کبیرہ کے برابر ہو جاتے ہیں اور انسان ہلاک ہو جاتا ہے؛ کیونکہ انسان ان گناہوں سے توبہ نہیں کرتا۔ [5]انسان اگر صغیرہ گناہوں سے بھی بچ جائے تو شیطان مباح چیزوں میں مگن رکھ کر دیگر نیکیوں سے دور رکھتا ، اسے مباح چیزوں میں اتنا مشغول کر دیتا ہے کہ آخرت اور نیکیوں کیلیے جد و جہد کا وقت ہی نہیں ملتا،  [6]اگر اس داؤ سے بھی انسان بچ نکلے تو انسان سے افضل کام چھڑوا کر غیر افضل کام کرواتا ہے تا کہ انسان کے اخروی اجر و ثواب میں کمی واقع ہو؛ کیونکہ نیکیوں کا ثواب یکساں نہیں ہوتا ، اور [7]اگر انسان اس مکاری سے بھی بچنے میں کامیاب ہو جائے تو شیطان اپنا لاؤ لشکر تکلیف دینے کیلیے مومن کے پیچھے لگا دیتا ہے ، جو کہ مومن کو انواع و اقسام کی تکلیفیں پہنچاتے ہیں۔
انسان ہمیشہ شیطان کے شر سے تحفظ اور نجات کیلیے اللہ تعالی کی پناہ مانگے، دائمی طور پر اللہ تعالی کا ذکر کرے، نماز با جماعت کا اہتمام کرے؛ یہ اعمال شیطان سے تحفظ کیلیے قلعہ، جائے پناہ اور حرزِ جان کا مقام رکھتے ہیں، اسی طرح اللہ تعالی پر توکل اور شیطان  کے خلاف دائمی جد و جہد، اسی طرح ظلم  سے اجتناب بھی باعث نجات اعمال ہیں۔
فرمانِ باری تعالی ہے: { وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ}  پھر اگر کسی وقت تمہیں کوئی شیطانی وسوسہ  آنے لگے تو اللہ کی پناہ  مانگو۔ وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ [فصلت: 36]
راہِ حق ،استقامت  اور نیکی کے راستے میں یہ عمل بھی رکاوٹ  بن سکتا ہے کہ دنیا سے محبت اور آخرت کے مقابلے میں دنیا پر راضی ہو جائیں، دنیا داری میں حلال و حرام کا فرق مٹا دیں، دنیا میں اتنے مگن ہو جائیں کہ آخرت بھول جائیں، فرمانِ باری تعالی ہے: {إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ (7) أُولَئِكَ مَأْوَاهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ} جو لوگ ہم سے ملاقات کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی  پر ہی راضی اور مطمئن ہوگئے ہیں اور وہ لوگ جو ہماری قدرت کے نشانوں سے غافل ہیں [7] یہی لوگ ہیں ان  کے کرتوتوں کی وجہ سے ان کا ٹھکانا آگ ہے۔[يونس: 7، 8]
اسی طرح فرمایا: {أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ} کیا تم آخرت کے مقابلے میں دنیاوی زندگی پر راضی ہو گئے ہو! دنیا کی زندگی تو آخرت کے مقابلے میں معمولی ترین ہے۔[التوبہ: 38]
حقیقت میں دنیا بھی انسان کی دشمن ہے، یہی وجہ ہے کہ جب انسان کے دل پر دنیا کی محبت غالب ہو جائے تو انسان دنیا داری میں مشغول ہو جاتا ہے اور آخرت کیلیے کوئی کام نہیں کرتا اور تباہ ہو جاتا ہے، اس دھرتی کے اکثر لوگ دنیا کو ہی ترجیح دیتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: {بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (16) وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى} بلکہ تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو [16] حالانکہ آخرت کی زندگی بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔[الأعلى: 16، 17]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے: {وَوَيْلٌ لِلْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدٍ (2) الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا أُولَئِكَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ} اور کافروں کے لئے سخت عذاب (کی وجہ) سے تباہی ہے [2] جو آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے اور اس میں (اپنی خواہشوں کے مطابق) ٹیڑھ پیدا  کرنا چاہتے ہیں۔ یہی لوگ گمراہی میں دور تک نکل گئے ہیں [ابراہیم: 2، 3]
دنیا کے شر  و ضرر سے نجات اور بچاؤ ایسے طریقے سے دنیا کمانے پر ملے گا جو کہ شرعی طور پر جائز ہو اور اللہ تعالی کی طرف سے حلال کردہ چیزوں کو بغیر اسراف اور فضول خرچی کے استعمال کریں، اللہ تعالی کی مخلوق پر تکبر اور گھمنڈ مت کریں، ان پر نخوت اور غرور نہ جمائیں، اپنی قوت  کے بل بوتے پر حقوق العباد پامال مت کریں۔
یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ  دنیا فانی اور دھوکے والی ہے، یہاں حالات تہ و بالا ہوتے رہتے ہیں، اگر یہ حقیقت ہمیشہ یاد رہے تو اس کی وجہ سے دلوں کی اصلاح ہوتی ہے۔
جیسے کہ مستورد فہری  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: (آخرت کے مقابلے میں دنیا صرف اتنی سی ہے کہ تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈالے اور دیکھے کہ انگلی پر کتنا پانی ساتھ آتا ہے) احمد، ترمذی، ابن ماجہ اور ابن حبان نے اسے روایت کیا ہے۔
انسان کو ہمیشہ دنیا کے شر اور انجام بد سے چوکنا رہنا چاہیے، اور یہ بات کبھی ذہن میں نہ آئے کہ تمہیں یہ دنیا تمہارے  علم یا کسی خوبی کی وجہ سے ملی ہے! جیسے قارون نے اسی طرح کا دھوکا کھایا  تو اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ وہ آپ کو معلوم ہے۔
دنیا کے بارے میں ایک اہم بات جسے پورا کرنا ہر شخص کی ذمہ داری ہے ، وہ یہ ہے کہ دنیاوی مال و متاع میں سے حقوق اللہ اور حقوق العباد  پورے کریں  جیسے کہ :  زکاۃ کی ادائیگی، اہل خانہ اور اولاد کے اخراجات، مہمان نوازی، کمزوروں کی مدد، رفاہِ عامہ کے کاموں میں  تعاون، ان سب کیلیے اخلاص ہونا اور ریاکاری سے دوری لازمی امر ہے،  ان کاموں کے بدلے میں شہرت، ناموری، کلمات تشکر کچھ بھی مطلوب نہ ہو؛ کیونکہ ریا کاری سے عمل برباد ہو جاتا ہے۔
بڑے بڑے صحابہ کرام بھی دولت مند تھے، لیکن اس کے با وجود وہ دنیا سے انتہائی بے رغبت تھے، ابو سلیمان کے مطابق: عثمان اور عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما اللہ تعالی کی اس دھرتی پر اللہ تعالی کے خزانچیوں میں سے خزانچی تھے، وہ اللہ کی اطاعت میں خرچ کرتے ، ان کا اللہ تعالی کے ساتھ گہرا دلی معاملہ تھا۔
ایک حدیث ہے کہ : (دنیا سے بے نیاز ہو جاؤ اللہ تعالی تم سے محبت کرے گا، اور لوگوں کے پاس جو کچھ سے اس سے بے نیاز ہو جاؤ تو لوگ تم سے محبت کریں گےابن ماجہ نے اسے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ لوگوں کے مال سے بے نیاز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں پر لوٹ مار نہ کرے اور نہ ہی ان کے حقوق غصب کر کے ان پر ظلم ڈھائے، ان کو حاصل نعمتوں کے زائل ہونے کی تمنا نہ کرے، لوگوں کی دولت پر لالچ بھری آنکھوں سے مت دیکھے،  اور اس کیلیے دست درازی مت کرے۔
سب سے زیادہ قابل ستائش زُہد یہ ہے کہ دنیا میں تکبر نہ کرے، اس کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: {تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ}  یہ آخرت کا گھر تو ہم نے ان لوگوں کے لئے مخصوص کر دیا ہے جو زمین میں بڑائی  یا فساد  نہیں چاہتے اور (بہتر) انجام تو پرہیز گاروں کیلیے ہے۔ [القصص: 83]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین  ﷺ کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے،  میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ تعالی سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو ۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں  اللہ کیلیے ہیں وہی میرا پروردگار ہے، دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں اسی کیلیے تعریفیں ہیں، اس کے اچھے اچھے نام ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، ہم اس کی بلند و بالا صفات  کے ذریعے اسی کی ثنا خوانی کرتے ہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد ﷺ اس کے  بندے  اور چنیدہ رسول ہیں، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد ، انکی  آل ، اور متقی صحابہ کرام پر رحمت ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
کما حقُّہ تقوی اختیار کرو ، اور مضبوط دین کو اچھی طرح تھام لو۔
اللہ کے بندو!
اللہ تعالی کا فرمان ہے: {يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ} لوگو ! اللہ کا وعدہ سچا ہے لہذا تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ ہی اللہ کے بارے میں وہ دھوکا باز  (شیطان) تمہیں دھوکا دینے پائے۔  [فاطر: 5]
اور ایک حدیث میں ہے کہ: (عقل مند وہ ہے جو اپنے آپ کو پہچان لے اور موت کے بعد کی تیاری کرے، عاجز وہ ہے  جو ہوس پرستی میں ڈوبا رہے اور اللہ تعالی سے امید لگائے رکھے)
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعا منقول ہے کہ : فرشتہ دل میں احساس پیدا کرتا ہے جو کہ اللہ کے وعدوں اور حق کی تصدیق پر مشتمل ہوتا ہے، اور بسا اوقات شیطان دل میں منفی احساس پیدا کرتا ہے جو کہ اللہ کے وعدوں اور حق کی تکذیب پر مشتمل ہوتا ہے۔
مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے نفس کا مسلسل محاسبہ کرے اور اسے صراطِ مستقیم پر گامزن رکھے، نفس کو شیطانی مکاریوں اور ہتھکنڈوں سے بچاتے ہوئے ہوس پرستی سے بھی دور رکھے، نیز دنیا کے دھوکے میں نہ آنے دے؛ کیونکہ دنیاوی فائدے سب عارضی ہیں۔
اللہ کے بندو!
 }إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا{ یقیناً اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو[الأحزاب: 56]
اور آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ: (جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا)
اس لیے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود  و سلام پڑھو۔
اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، وسلم تسليما كثيراً۔
یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا،  یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان ، علی اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا،  تابعین کرام اور قیامت تک انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہو جا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت و کرم اور جود و سخا کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا رب العالمین!
یا اللہ اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! کفر اور کافروں کو ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! شرک اور مشرکوں کو ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! بدعات کو رسوا فرما، یا اللہ! بدعات کو رسوا فرما، یا اللہ! رسول اللہ ﷺ کے دین سے متصادم بدعات کو قیامت تک کیلیے ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! بدعات کو رسوا فرما دے، کسی بھی اعتبار سے ان کا بول بالا نہ ہونے دے، یا رب العالمین! یا اللہ! تجھ سے اور تیرے نبی ﷺ سے عداوت رکھنے والے بدعتی لوگوں میں پھوٹ ڈال دے، یا اللہ! انہیں روزِ قیامت تک کیلیے ذلیل و رسوا فرما دے، یا ذو الجلال والاکرام! یا شدید العقاب! یا سریع الحساب!
یا اللہ! ہم تجھ سے ہدایت، تقوی، عفت اور تونگری کا سوال کرتے ہیں۔
یا اللہ! تمام معاملات کا انجام ہمارے لیے بہتر فرما، اور ہمیں دنیاوی رسوائی اور اخروی عذاب سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کی مغفرت فرما، یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کی مغفرت فرما، یا اللہ! ان کی قبروں کو منور اور کشادہ فرما، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ! ان کی حسنات میں اضافہ فرما، ان کی خطاؤں کو معاف فرما۔
یا اللہ! تو ہمارے اگلے پچھلے، خفیہ اعلانیہ، اور جنہیں تو ہم سے بہتر جانتا ہے سب گناہ معاف فرما دے، تو ہی ترقی و تنزلی دینے والا ہے ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔
یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے ہر قول و فعل کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہم جہنم اور اس کے قریب کرنے والے ہر قول و فعل  سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔
یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان ، شیطانی چیلوں ، لشکروں، اور شیطان کے ہمنواؤں سے محفوظ فرما، یا رب العالمین!  یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان ، شیطانی چیلوں ، لشکروں، اور شیطان کے ہمنواؤں سے محفوظ فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ہمیں ہمارے نفسوں اور بد اعمالیوں کے شر سے محفوظ فرما، یا اللہ! تمام مسلمانوں کو ان کے نفسوں اور بد اعمالیوں کے شر سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! یا ذو الجلال وا لاکرام! یا ارحم الراحمین! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے ہر قول و فعل کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہم جہنم اور اس کے قریب کرنے والے ہر قول و فعل  سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔
یا اللہ! خادم حرمین شریفین  کو تیری مرضی کے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! انہیں تیری مرضی کے مطابق توفیق عطا فرما، یا اللہ! ان کی تمام تر کاوشیں تیری رضا کیلیے مختص فرما ، یا رب العالمین!  یا اللہ! ان کی ہر اچھے کام کیلیے مدد فرما، یا اللہ! ان کے ذریعے اپنے دین کو غالب فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! انہیں صحت و عافیت سے نواز، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔یا اللہ! ان کے دونوں نائبوں کو تیری مرضی اور تیری رہنمائی کے مطابق ایسے کام کرنے کی توفیق عطا فرما جن میں اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی ہو۔
یا اللہ! ہماری سرحدوں کو محفوظ بنا، ہماری سر زمین کی حفاظت فرما، یا رب العالمین! یا ذو الجلال و الاکرام! یا اللہ! ہمارے فوجیوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! انہیں صحیح سمت میں گامزن فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! مسلمانوں میں الفت ڈال دے، یا اللہ! فتنوں کا خاتمہ فرما دے، یا اللہ! مسلم خطوں میں بپا فتنوں کا خاتمہ فرما دے۔
یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی شام میں مدد فرما،  یا اللہ! ظالموں کے خلاف ان کی مدد فرما، یا اللہ! ظالموں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! ظالموں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! ظالموں پر اپنی پکڑ ، عذاب اور غضب نازل فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! شام میں مسلمانوں پر ظلم کرنے والے لوگوں پر اپنی پکڑ نازل فرما، اسی طرح پوری دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر ان کے دین کی وجہ سے ظلم ڈھانے والوں پر اپنی پکڑ نازل فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے تجھ سے اور تیرے نبی ﷺ سے عدوات رکھنے والے بدعتی لوگوں کی اجتماعیت توڑ دے، یا ذو الجلال و الاکرام! یا اللہ! یمن کے فتنے کا خاتمہ فرما دے، یا اللہ! یمن کے فتنے کا خاتمہ ایسے فرما  کہ جس میں اسلام کی بالا دستی ہو،  یا اللہ! یمن کے فتنے کا خاتمہ ایسے فرما دے جس میں مسلمانوں کیلیے عافیت ہو۔
یا اللہ! بے لباس مسلمانوں کو لباس مہیا فرما، دہشت زدہ مسلمانوں کو امن عطا فرما، بے گھر افراد کو رہنے کیلیے جگہ مہیا فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! تمام مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! تمام مسلمان اور مومن مرد و خواتین کے معاملات سنوار دے۔
اللہ کے بندو!
}إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ { اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو [النحل: 90]
اور نماز قائم کرو، بیشک نماز مومنوں کے ذمہ وقت مقررہ پر فرض ہے۔
درود و سلام ہوں ہمارے نبی محمد -ﷺ- ، آپ کی آل اور تمام صحابہ کرام پر۔