اتوار، 1 جنوری، 2017

ملت اسلامیہ شدید اضطراب اور بے چین سے گزر رہی ہے

قاری سید اسحاق گورا
اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ اس وقت ملت اسلامیہ شدید اضطراب اور بے چینی سے گزر رہی ہے؟ یہ ایک دل میں گردش کرنے والا سوال ہے۔
پہلی بات: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے: وقت قریب ہے جب تمھارے اوپر دوسری قومیں اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکے کسی پیالے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کیا مطلب؟ یہ کیا فرمایا جارہاہے؟ ہماری حالت اتنی بری ہوجائے گی؟ لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟ اس طرح کے بے شمار سوالات ہر صحابی کے ذہن میں پیدا ہورہے تھے۔ آخرکار ایک صحابی نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا: یا رسول اللہ! ’’کیا ہماری یہ حالت اس لئے ہوگی کہ ہم تعداد میں بہت کم رہ جائیں گے‘‘؟ لیکن بصارتِ نبوی تو کچھ اور ہی دیکھ رہی تھی۔ ارشاد ہوا ’’نہیں بلکہ اس وقت تم لوگ تعداد میں بہت زیادہ ہوگے لیکن تم لوگ سیلاب کے جھاگ اور خس و خاشاک کی طرح ہوجاؤگے اللہ تعالیٰ تمھارے دشمنوں کے دلوں سے تمھارا رعب نکال دے گا‘‘۔ زبانِ نبوت سے یہ الفاظ ادا ہورہے تھے اور صحابۂ کرامؓ حیرت و استعجاب کے سمندر میں ڈوبے جارہے تھے، عقل ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ آخر یہ کیا فرمایا جارہاہے؟ اگر بیان کرنے والا کوئی اور ہوتا تو اسے جھوٹا اور غیر معتبر کہہ دیاجاتا۔ لیکن اس وقت تو یہ بھی ممکن نہ تھا۔ بیان کرنے والا صرف سچا نہیں بلکہ خود اپنی ذات میں کائنات کا ایک عظیم ترین سچ تھا اور تمام سچائیوں او رصداقتوں کا حوالہ تھا۔ ایسا سچ جس کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والا خود مشکوک ہوجائے، جس کو سچ نہ سمجھنے والا پوری کائنات کی نظر میں سب سے بڑا جھوٹا قرار پائے۔ ہم لوگ سیلاب میں بہنے والے جھاگ اور خس و خاشاک کی طرح بے شمار ہونے کے باوجود اتنے حقیر ہوجائیں گے؟ جھاگ چاہے کتنا ہی ہو، ہے تو بہرحال جھاگ ہی۔ ایک چھوٹا سا پتھر بھی اس پر پھینکو تو اس جھاگ کا سینہ چاک کرتا ہوا پانی تک پہنچ جاتاہے۔ اسی طرح سیلاب کے ساتھ بہہ کر آنے والے کوڑے کرکٹ کی حیثیت کی ہوتی ہے۔ پانی اسے جدھر چاہتاہے لے جاتاہے اور وہ پانی کے ذروں کے آگے دم مارنے کی بھی ہمت نہیں رکھتا۔ لیکن اگلے ہی لمحہ نبیوں کے سرتاج محسن انسانیت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لفظ میں ان تمام اعتراضات کو ختم فرمادیا۔ ارشاد ہوا! ’’اس وقت اللہ تعالیٰ تمھارے دلوں میں ’وہن‘ پیدا فرمادے گا‘‘۔ مجلس میں موجود ہر شخص سمجھ گیا کہ مستقبل میں اس خطرناک صورتِ حال کی جڑ یہی وہن بنے گی۔ لیکن آخر وہن ہے کیا؟ ایک صحابی نے ہمت کرکے تعجب آمیز لہجے میں بڑی بے چینی کے ساتھ سوال کیا، اللہ کے رسول یہ وہن کیاہوتاہے؟ رسولِ کائنات نے ارشاد فرمایا ’’دنیا کی محبت اور موت کی ناپسندیدگی‘‘ رسول کائنات کی زبان مبارک سے ہونے والی ’وہن‘ کی اس تشریح نے ہر اعتراض کوختم کردیا۔ بے چینی دور ہوگئی۔ ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کا طوفان ٹھنڈا ہوگیا۔ مستقبل میں پیدا ہونے والے خطرناک حالات کا سرا ہاتھ آگیا۔ شکوک واعتراضات کی ہر گتھی سلجھ گئی۔ موت کو محبوب ترین شئے سمجھنا تو ہماری اصل پہچان ہے۔ ہم موت سے بھاگتے نہیں، اس کے انتظارمیں رہتے ہیں کہ کب موت ہمیں اپنی آغوش میں لے اور ہم اپنے رب کے پاس پہنچ جائیں۔ روح اپنی اصل منزل تک جاپہنچے، چند روزہ زندگی کی اس قید سے رہائی ملے۔ یہی جذبہ تو ہماری کامیابی کا راز ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب یہ جذبہ ہی ختم ہوجائے گا توپھر ہم پر جو مصیبت بھی آئے وہ کم ہے۔ ہم کتنے ہی بے وقار، بے حیثیت اور بے وقعت ہوجائیں، کوئی تعجب کی بات نہیں۔ اس طرح کے بہت سے خیالات کے ذہن میں آنے سے صحابۂ کرامؓ نے یک گونہ اطمینان محسوس کیا۔ یہ ایک چونکادینے والی حدیث ہے اس حدیث میں اللہ کے رسول نے امت کے اس مرض کی نشاندہی فرمائی ہے، جو مرض قوموں کے جسم کو اندر سے چاٹ کر ختم کردیتاہے اور ہڈی اور کھال کے سوا کچھ نہیں چھوڑتا۔ ظاہری طور پر وہ ایک جسم ہوتاہے لیکن روح، طاقت اور وزن کے اعتبار سے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی روشنی میں جب ہم امتِ مسلمہ کے موجودہ حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو صاف نظر آتاہے کہ آج ’’وہن‘‘ نامی اس بیماری نے امت کو اندر سے بالکل ختم کردیاہے۔ اس وقت امتِ مسلمہ کے پاس تقریباً پانچ درجن ممالک ہیں، ڈیڑھ ملین افراد ہیں، قدرتی خزانے ہیں، لیکن حیثیت کچھ بھی نہیں۔ لہٰذا جب تک اس بیماری کا علاج نہیں کیاجائے گا اس وقت تک امت کی نشاۃ ثانیہ کا ہر خواب ادھورا رہ جائے گا۔ جیسے کسی سوکھے ہوئے درخت کو بچانے کے لئے اس کے پتوں کی دھلائی کی جائے، کاٹ چھانٹ کی جائے، آس پاس کی جنگلی جھاڑیوں کو کاٹاجائے لیکن اس کی جڑ تک پانی پہنچانے کی فکر نہ کی جائے۔ ایسی صورت میں وہ پیڑ ہر کوشش کے باوجود سوکھتاہی چلاجائے گا، اس لئے کہ اس کے اصل مرض کا علاج کرنے کے بجائے دوسری تمام کمیوں پر توجہ دی گئی، اور بنیادی کمی کو ایسے ہی چھوڑ دیاگیا۔ بالکل یہی معاملہ موجودہ دور میں امت مسلمہ کا بھی ہے۔اصل وجہ کیاہے اس پر کسی کی نظرنہیں جاتی۔ رسول کائناتؐ نے اس زوال کا بنیادی سبب کیابتایاہے، اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر طرح کی کوششوں کے باوجود صورتِ حال بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے۔ یقینا امت کا سیاسی عدم استحکام، اقتصادی زوال، عسکری اور فوجی بے وزنی اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں گراوٹ اور پسماندگی بھی نہایت تشویشناک مسائل ہیں، لیکن زوال امت کا اصل سبب ہر گز نہیں ہے۔ اگر ان تمام میدانوں میں امت مسلمہ عروج کی اعلیٰ چوٹی تک پہنچ جائے لیکن اللہ سے اس کا تعلق ختم ہوجائے اور ’وہن‘ نامی جس مہلک بیماری کی طرف حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایاتھا، وہ امت کو لگی رہے تواس کی حالت قوم عادوثمود اور روم وفارس سے قطعاً مختلف نہیں ہوگی۔ وہ بھی دنیا میں ترقی یافتہ قوم کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور سیاسی ، عسکری، اقتصادی اور سائنسی میدان میں بڑی بلندیوں تک پہنچے ہوئے تھے۔ بس ایک کمی تھی، اللہ تعالیٰ سے ان کا رشتہ باقی نہیں رہاتھا، دنیا میں مگن اور موت سے غافل تھے۔ نتیجہ کیاہوا؟ وہ اس طرح نیست ونابود ہوگئے کہ کوئی نام لینے والا بھی باقی نہیں رہا۔ ہر میدان میں حاصل ہونے والی ترقی دھری کی دھری رہ گئی۔ ہر طرح کی حصولیابی خاک میں مل گئی۔ آج اگر امت مسلمہ کا کوئی فرد یا جماعت نشاۃِ ثانیہ کا خواب دیکھتی ہے تو اسے سب سے پہلے اللہ کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ تعلق مع اللہ پیدا کرنا ہوگا۔ جب یہ کیفیت پیدا ہوجائے گی تو دنیا کی محبت اور موت کی ناپسندیدگی کابھی کوئی سوال پیدا نہیں ہوگا۔ دنیا میں ڈوبے رہنے اور دنیوی زندگی کو اصل زندگی سمجھنے کی لعنت سے چھٹکارا نصیب ہوگا۔ موت اور اس کے بعد کی زندگی پر نظر رہے گی اوراس زندگی کی کامیابی ہی زندگی کا مقصدبن جائے گا۔ مختصر یہ کہ وہن سے نجات مل جائے گی اور پھرزندگی کے جس شعبہ کو بھی اپنی صلاحیتوں کا مرکز بنایاجائے گا، اس کا خاطرخواہ نتیجہ سامنے آجائے گا۔
طالب دعاء  ۔ اکبر حسین اورکزئی  حالا فی نجران

کوئی تبصرے نہیں: