بدھ، 26 اپریل، 2017

ایصال ثواب اور مروّجہ قرآن خوانی کا حکم

مومن کے عمل کا اجر وثواب
موٴمن اس عارضی دنیوی زندگی میں اپنی موت سے پہلے پہلے جو بھی نیک کام کرے گا؛ چاہے اپنی زبان سے ہو کہ ہاتھ سے یا اپنے مال کے ذریعہ اس کا ثواب ضرور پائے گا یعنی عمل کا اجر اس کے نامہٴ اعمال میں لکھا جائے گا؛ لیکن مرنے کے بعد عمل کا دفتر بند ہوجاتا ہے اور ایک لمحہ کے لیے بھی کوئی عمل کرنے سے عاجز ہوجاتا ہے؛ اس لیے نیکیوں پر اجر و ثواب کا سلسلہ بھی ختم ہوجاتا ہے؛ البتہ چند اعمال واسباب ایسے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی اس کا اجر میت کو پہنچتا رہتا ہے (یہی حال اس کے برے عمل اور گناہ کا ہے) حضرت ابوہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اذا مات ابن آدم انقطع عملہ الا من ثلاث صدقة جاریة أو علم ینتفع بہ أو ولد صالح یدعو لہ (رواہ مسلم) جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل بند ہوجاتا ہے؛ مگر تین چیزیں:
(۱) ایک صدقہٴ جاریہ یعنی ایسا صدقہ جس سے زندہ لوگ نفع حاصل کرتے رہیں (۲) دوسری ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں (۳) تیسری ایسی نیک اولاد جو اپنے والدین کے لیے دعا کرتی رہے، ان تین قسم کے اعمال کا ثواب میت کو پہنچتا ہے یعنی اس کے نامہٴ اعمال میں لکھا جاتا رہے گا۔
ایک دوسرے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا: ان مما یلحق الموٴمن عملہ وحسناتہ بعد موتہ علمًا علّمہ ونشرہ أو ولدًا صالحا ترکہ أو مصحفا ورّثہ أو مسجدًا بناہ أو بیتاً لابن السبیل بناہ أو نہرًا اجراہ أو صدقة أخرجہا من مالہ فی صحتہ وحیاتہ تلحقہ من بعد موتہ (الترغیب، ص۱۹۶/۱ عن ابن ماجہ) بے شک موٴمن کے عمل اور اس کی نیکیوں میں سے جس کا ثواب موٴمن کو اس کے مرنے کے بعد پہنچتا رہتا ہے: (۱) وہ علم ہے جو اس نے دوسرے کو سکھایا اور پھیلایا (۲) یا نیک اولاد جو اس نے چھوڑی ہے (۳) یاقرآن پاک کا کسی کو وارث بنایا یعنی تلاوت کے لیے وقف کردیا (۴) یا مسجد تعمیر کی (۵) یا مسافر کے لیے کوئی سرائے یعنی مسافر خانہ بنایا (۶) یا نہر جاری کی (۷) یا اپنے مال میں  سے نفلی صدقہ نکالا، تندرستی اور زندگی میں تو ان چیزوں کا اجر وثواب مرنے کے بعد بھی میت کو پہنچتا رہے گا۔
ایصال ثواب اور اس کے اغراض
جس طرح میت کو اپنے بعض اعمال کا اجر وثواب پہنچتے رہنا متعدد احادیث مبارکہ سے ثابت ہے اور اہل ایمان کا ان احادیث پر عمل بھی پایاجاتا ہے، اسی طرح میت کو کسی نیک عمل کے ذریعہ نفع پہنچانا اور میت کا اس سے نفع اٹھانا احادیث اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ مثلاً حضرت انس بن مالک نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ! ہم اپنے مُردوں کے لیے دعا کرتے ہیں، ان کے لیے صدقہ کرتے ہیں اور ان کی طرف سے حج کرتے ہیں، کیا ان اعمال کا ثواب ان مُردوں تک پہنچتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو ثواب پہنچتا ہے اور وہ اس سے خوش ہوتے ہیں جیسے تم میں سے کوئی خوش ہوتا ہے، جب اسے کھجور کا طبق ہدیہ کیا جائے۔ ایک اور حدیث میں ہے جس شخص نے اپنے والدین یا دونوں میں سے ایک کی قبر  کی زیارت کی اور قبر کے پاس یٰسین شریف پڑھی تو اس کی مغفرت ہوجاتی ہے۔
ایصال ثواب کا منشا عموماً یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے میت سے عذاب میں تخفیف کردیتے ہیں یا دور فرمادیتے ہیں، کبھی میت کے درجات کی بلندی یا میت پر شفقت وترحم ہوتا ہے، کبھی اس کا مقصد والدین کی طاعت ہوتا ہے اور کبھی میت کے حق کی ادائیگی یااس کے احسان کا بدلہ دینا ہوتا ہے۔ اور ایک غرض یہ بھی ہوتی ہے کہ خود ایصال ثواب کرنے والا اجر وثواب کا مستحق ہو۔ یہ سب دینی مقاصد ہیں جو احادیث میں مذکور ہیں، جیسے حدیث شریف میں آیاہے کہ جو شخص قبرستان گیا اور یٰسین شریف پڑھی تو اللہ تعالیٰ اس دن مردوں سے عذاب میں تخفیف کرتے ہیں اور مُردوں کی تعداد کے برابرپڑھنے والے کو اجر دیتاہے۔ بہرحال ایصال ثواب ایک شرعی مقصد ہے۔
تنبیہ : میت کو نفع پہنچانے اورپہنچنے کے ذرائع میں سے ولد صالح کااپنے والدین کے لیے دعا کرنا یا دوسرے اشخاص کا میت کے لیے دعائے مغفرت کرنا بھی ایصال ثواب کے حکم کلی شرعی میں داخل ہے، جیساکہ مذکورہ احادیث میں اس کا ذکر صراحتاً موجود ہے۔
ایصال ثواب کے مختلف طریقے
ایصال ثواب چاہے مالی عبادت کے ذریعہ ہو، جیسے صدقات و خیرات کرنا یا مسکین و حاجت مند کو کھلانا، پلانا (یا پہنانا یا ان کی کوئی اور ضرورت پوری کرنا) یا بدنی عبادت سے ہو، جیسے نفل نماز، روزہ، تلاوتِ قرآن وذکر واعتکاف اور طواف یا نفل حج یا عمرہ ایسے عمل کے ذریعہ ہو جس سے مخلوق کو نفع پہنچے اور اللہ کا قرب حاصل ہو، جیسے کنواں یا نہر کھدوانا (آج کل بورنگ کردینا) یا پل یا مسافرخانہ بنوانا، پھلدار یا سایہ دار درخت لگانا، مسجد کی تعمیر کرنا یا مصحف شریف یعنی قرآن مجید کو تلاوت کے لیے وقف کرنا یا اولاد کو دینی تعلیم دلانا وغیرہ ان سب چیزوں کا ثواب میت کو پہنچتا ہے اوراس سے میت کو خوشی وراحت ملتی ہے۔
پس فرائض کے سوا ہر نیک عمل سے چاہے کرتے وقت مُردوں کی طرف سے نیت کی ہو یا کرکے اس کا ثواب بخشا جائے اور ثواب چاہے کسی خاص میت کو بخشے یاتمام مومنین کو اور چاہے عمل کرنے والا تنہا کرے یا چند افراد مل کر انجام دیں ہر طرح مُردوں کو نفع پہنچانا درست اور ثابت ہے؛ بلکہ زندوں کو بھی ثواب بخشنا درست اور جائز ہے۔ الاصل اَنَّ کلمَن اَتی بعبادةٍ مّا أی سواء کانت صلاةً أو صومًا أو صدقةً أو قراء ةً أو ذکرًا أو طوافًا أو حجًا أو عمرةً ․․․ جمیع أنواع البر (شامی وبحر) الافضل لمن یتصدق نفلاً اَن ینوی لجمیع المومنین والمومنات لانہا تصل الیہم ولا ینقص من أجرہ شیء ہو مذہب أہل السنة والجماعة (شامی) اصل یہ ہے کہ جو کوئی کسی قسم کی عبادت کرے خواہ نماز ہو یاروزہ یا صدقہ یاقرأت  قرآن یا ذکر یا طواف یا حج یا عمرہ․․․․ ہر طرح کی نیکیوں کا ثواب پہنچانا درست ہے اور ایصال ثواب کرنے والے کے لیے بہتر یہ ہے کہ تمام مومنین اور مومنات کی نیت کرے؛ اس لیے کہ سب کو بھیجے ہوئے نیک عمل کا پورا ثواب پہنچتا ہے، بھیجنے والے کے اجر میں سے کچھ کم نہیں کیا جاتا، یہی اہل السنة والجماعة کا مذہب ہے۔ 
فہذہ الآثار وما قبلہا وما فی السنة أیضاً من نحوہا عن کثیر قد ترکناہ لحال الطول یبلغ القدر المشترک بین الکل وہو من جعل شیئًا من الصالحات لغیرہ نفعہ اللّٰہ بہ مبلغ التواتر(فتح القدیر صفحہ۱۴۲:۳) علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ احادیث و آثار بکثرت ہیں طوالت کی وجہ سے ہم نے ترک کردیا، ان سب سے قدر مشترک ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص کسی بھی نیک عمل کا ثواب دوسرے کو پہنچائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو ضرور نفع دے گا یہ بات یقینی ہے۔
ایصال ثواب کے لیے قرأتِ قرآن
قرآن پاک کی تلاوت چاہے انفرادی طور پر ہو یا کسی جگہ اکٹھے ہوکر دونوں طرح صحیح اور مستحسن ہے۔ تلاوتِ قرآن کی اصل غایت تو رضائے الٰہی ہے؛ لیکن دوسرے مقاصد خیر کے لیے بھی قرآن کریم کا پڑھنا احادیث وآثار سے ثابت ہے؛ چنانچہ ایصال ثواب کے لیے جو ایک شرعی مقصد ہے، قرآن کریم کا پڑھنا خیرالقرون کے زمانہ سے جاری اور صحابہٴ کرام کی ایک جماعت سے ثابت ہے۔ حدیث شریف میں ہے: ان لکل شیء قلب وقلب القرآن یسین فاقروٴہا علی موتاکم  ہر چیز کا ایک دل ہوتا ہے، قرآن پاک کا دل سورئہ یٰسین ہے، پس اسے مردوں پر پڑھا کرو؛ اس لیے میت کے لیے یٰسین شریف پڑھنا اور پڑھوانا دونوں درست ہے۔ (فتح القدیر) محی السنہ امام نووی اپنی کتاب التبیان فی آداب حملة القرآن میں انصار مدینہ کا ایک معمول نقل کرتے ہیں الأنصار اذا حضروا عند المیت قروٴا سورة البقرة انصار مدینہ جب میت کے پاس حاضر ہوتے تو سورئہ بقرہ پڑھا کرتے تھے۔ مشہور شارحِ مشکوٰة ملا علی قاری جلیل القدر تابعی امام شعبی کا قول نقل کرتے ہیں کانت الأنصار اذا مات لہم المیت اختلفوا الی قبرہ یقروٴن القرآن (مرقات صفحہ ۱۹۸:۴) علامہ ابن القیم  نے بھی اپنی کتاب ”الروح/۹۳“ میں امام شعبی کا قول ذکر کیا ہے، یعنی انصار میں جب کسی  کا انتقال ہوتا تو اس کی قبر پر جاتے اور قرآن پڑھتے تھے۔ اس سلسلہ میں مختلف احادیث وآثار ذکر کرکے ملا علی قاری لکھتے ہیں الأحادیث المذکورة وہی ان کانت ضعیفة فمجموعہا یدل علی أن لذلک اصلاً وان المسلمین ما زالوا فی کل عصر ومصر یجتمعون ویقروٴن لموتاہم مِن غیر نکیر فکان ذلک اجماعًا یعنی میت کے ایصال  ثواب کے لیے قرأتِ قرآن کی مذکورہ احادیث اگرچہ ضعیف ہیں؛ مگر مجموعہ دلالت کرتا ہے کہ اس کی اصل موجود ہے؛ چنانچہ مسلمان ہر زمانہ اور شہر میں جمع ہوتے ہیں اور اپنی میت کے لیے قرآن پڑھتے ہیں، پس عملاً یہ اجماع ہوگیا۔ (مرقات، ص:۱۹۹:۴) اور جب خیرالقرون؛ بلکہ ایک جماعت صحابہ سے اس کا ثبوت موجود ہے، تو پھر ایصال ثواب کے لیے اجتماعی  قرأتِ قرآن کو بدعت نہیں کہا جائے گا؛ البتہ اگر خلاف شرع کسی پابندی کے ساتھ کیا جائے تو پھر ممنوع کہلائے گا۔
مروّجہ قرآن خوانی کا حکم فتاویٰ کی روشنی میں
عوام میں پائی جانے والی قرآن خوانی کئی پابندیوں اور لازم کیے ہوئے امور کے ساتھ ہوا کرتی ہے، جن کی شریعت میں کوئی اصل خیرالقرون میں نہیں ملتی، ایسی خلاف شرع پابندی اور التزام والی قرآن خوانی قابل ترک ہے، اس میں شرکت بھی ممنوع ہے۔
(۱) امام ربّانی فقیہ عصر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی تحریر فرماتے ہیں: ”ثواب میت کو پہنچانا بلا قید وتاریخ وغیرہ اگر ہوتو عین ثواب ہے اور جب تخصیصات اور التزامات مروّجہ ہوں تو نادرست اور باعث مواخذہ ہوجاتاہے“ (فتاویٰ رشیدیہ)
(۲) حضرت مفتی سید عبدالرحیم صاحب لاجپوری مفتی اعظم گجرات تحریر فرماتے ہیں: رسم ورواج کی پابندی اور برادری کی مروت اور دباؤ کے بغیر اور کوئی مخصوص تاریخ اور دین معین کیے بغیر اور دعوت کا اہتمام اور اجتماعی التزام کے بغیر میت کے متعلقین، خیرخواہ اور عزیز واقرباء ایصال ثواب کی غرض سے جمع ہوکر قرآن خوانی کریں تو یہ جائزہے ممنوع نہیں ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ۳۸۹/۱)
(۳) حضرت مولانا سیدزوّار حسین نقشبندی اپنی کتاب ”عمدة الفقہ“ میں لکھتے ہیں: قرأت قرآن کے لیے قبر کے پاس بیٹھنا نیز قرآن شریف پڑھنے کے لیے حافظوں اور قرآن خوانوں کو بٹھانا بھی بلاکراہت جائز ہے؛ جبکہ پڑھنے والے اجرت پرنہ پڑھتے ہوں اور پڑھوانے والے کو اجرت (دینے) کا خیال نہ ہو۔ (عمدة الفقہ،ص:۵۳۶/۲)
(۴) حضرت فقیہ الامت مفتی اعظم ہند مفتی محمودحسن گنگوہی تحریر فرماتے ہیں: الجواب حامدا ومصلیا ”افضل تو یہی ہے کہ جب ایک جگہ مجمع قرآن شریف پڑھے تو سب آہستہ پڑھیں؛ لیکن زور سے پڑھیں تب بھی گنجائش ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ، ص:۲۵/۱) ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں: ایصال ثواب میں نہ تاریخ کی قید ہے کہ شب برأت ۱۵/شعبان، ۱۰/محرم اور ۱۲/ربیع الاوّل ہو۔ نہ ہیئت کی قید ہے کہ چنوں پر کلمہ طیبہ پڑھا جائے یا کھانا سامنے رکھ کر فاتحہ دی جائے۔ نہ سورتوں وآیتوں کی تخصیص ہے کہ قل اور پنج آیات ہو اورنہ کسی اور قسم کی قید ہے یہ سب قید ختم کردیا جائے کہ یہ شرعاً بے اصل ہے، صحابہ نے بغیر ان قیدوں کے ثواب پہنچایا ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ، ص:۲۰۶/۱ قدیم)
(۵) حضرت مفتی احمد بیمات خلیفہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی تحریر فرماتے ہیں: الجواب حامداً ومصلیاً۔ جب کسی دن یا تاریخ کو لازم نہ کیاجائے کھانے پینے کا مستقل انتظام نہ کیا جائے نیز اسے ایسا ضروری اور لازم نہ سمجھا جائے کہ اس قرآن خوانی میں شریک نہ ہونے والے پر طعن و تشنیع کی جائے تو بغرض ایصال ثواب جائزہے؛ اس لیے کہ ایصال ثواب کا ثبوت متعدد احادیث سے ہے۔ فقط: واللہ اعلم بالصواب (فتاویٰ فلاحیہ، ص:۴۰۸/۱)
قرآن خوانی میں خلاف شرع امور سے احتراز
حدیث و فقہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایصال ثواب کے لیے مالی عبادتوں کا طریقہ زیادہ نفع بخش ہے کہ اس سے عام انسان کو بھی نفع ہوتا ہے اور میت کو بھی اجر وثواب پہنچتا رہتا ہے؛ البتہ قرأت قرآن (قرآن خوانی) کے ذریعہ ایصال ثواب کیا جائے، تو پھر فقہ وفتاویٰ کی روشنی میں چند امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔
(۱) قرآن پڑھنے یا پڑھوانے پراجرت مقرر نہ کی جائے اورنہ اجرت لی جائے۔ بہت سے علاقہ میں قرآن خوانی کرانے والے حافظ وغیرہ سے کم یا زیادہ پڑھنے پر معاوضہ کی پیش کش کرتے ہیں اور کبھی پڑھنے والے خود ہی معاوضہ طے کرتے ہیں اور بعض مرتبہ بغیر طے کیے ہدیہ کے نام پر دیا جاتا ہے؛ چونکہ قرآن خوانی کرانے والے کے دل میں ہوتا ہے کہ نذرانہ دینا ہوگا اور پڑھنے والے کے دل میں ہوتا ہے کہ نذرانہ ضرور ملے گا؛ اس لیے یہ نذرانہ (ہدیہ) بھی جسے مجلس کے بعد پیش کرنے کا رواج ہے اجرت کے مشابہ ہے؛ لہٰذا یہ سب صورت ناجائز ہے اور اس طرح پڑھنے پر اجر وثواب نہیں ملتا ہے، تو ایصال ثواب کیسے ہوگا؟
(۲) قرآن خوانی میں شرکت کرنا برادری مروت کے دباؤ یا بدنامی کے ڈر سے نہ ہو اسی طرح قرآن خوانی میں شریک نہ ہونے والے پر کوئی طعن وملامت نہ کیا جائے۔ قرآن خوانی میں شرکت کرنے والے عموماً برادری مروت کی وجہ سے بیٹھتے ہیں، کبھی قرآن خوانی کرانے والوں کے طعن وملامت سے بچنے کے لیے شریک ہوتے ہیں، ایسی قرآن خوانی سے تو بہتر یہ ہے کہ کسی غریب ومسکین اور مستحق کی حاجت ضروریہ پوری کرکے اس کا ثواب میت کو پہنچایا جائے۔
(۳) انتقال کے بعد قرأت قرآن کے لیے دنوں کی تخصیص نہ ہو جیسے تیسرے دن اور دسویں دن میں قرآن خوانی کرنا پھر چالیسویں دن میں کرنا پھر سال پورا ہونے پرکرنا۔ عوام کے نزدیک یہ تیجہ، چہلم اور برسی وغیرہ ایسے متعین ہیں کہ ذرا بھی اس میں خلاف نہیں کیاجاتا، اسی طرح قرآن خوانی کے لیے تاریخ متعین نہ ہو مثلاً ۲۷ویں رجب، ۱۵ویں شعبان، دسویں محرم، ۱۲ویں ربیع الاوّل وغیرہ۔ اگر دن یا تاریخ کے التزام کے ساتھ قرآن خوانی کی جاتی ہے تو پھر یہ شرع کے خلاف ہے، اس میں شرکت ممنوع ہے؛ بلکہ اسے بند کرنے کی سعی کی جائے۔
(۴) خاص ہیئت کے ساتھ، خاص سورتیں اور خاص آیتوں کے پڑھنے کو ضروری قرار نہ دیا جائے جیسے کھانا سامنے رکھ کر چاروں قل اور پنج آیات پڑھ کر ایصال ثواب کرنا؛ کیونکہ ثواب کا پہنچنا اس طریقہ پر موقوف نہیں ہے، اگر اس طرح کیا جائے گا تو یہ طریقہ صحیح نہ ہونے کی وجہ سے قابل ترک ہوگا۔
(۵) مجلس قرآن خوانی کے بعد شریک ہونے والوں کو کھلانا یا پلانا یا شیرینی تقسیم کرنے کا التزام نہ ہو۔ عام طور سے قرآن خوانی کے بعد کم از کم شیرینی (یعنی کوئی بھی میٹھی چیز پھل یا مٹھائی یا نان خطائی وغیرہ) تقسیم کرنے کو لازم سمجھتے ہیں اور بعض مرتبہ شریک ہونے والے اگر شیرینی تقسیم نہ کی جائے تو طنز کرتے ہیں، یہ دونوں صورتیں غلط ہیں اور قابل اصلاح ہیں۔
(۶) قرآن خوانی میں شرکت کرنے والے کا مقصد شہرت وتفاخر یا دنیوی جاہ ومنصب کاحصول ہے یا قرآن پڑھوانے والا خود ہی شہرت وتفاخر کے لیے کررہاہے تو یہ بھی جائز نہیں ہے، ایسی صورت میں دونوں فریق قابل موٴاخذہ ہیں ثواب تو کہاں ملے گا؟
حاصل یہ کہ کسی کے انتقال پر ایصال ثواب کے لیے شریعت میں مختلف طریقے ہیں، کسی بھی طریقہ پر عمل کیا جاسکتا ہے؛ البتہ ایسا طریق اختیار کیا جائے تو بہتر ہے جس سے عام لوگوں کو تادیر فائدہ حاصل ہوتا رہے اورمیت کو بھی اس کا اجر وثواب پہنچتا رہے اور ختم قرآن کرنا یا کم از کم یٰسین شریف پڑھنا یا پڑھوانا بھی درست ہے، شرط یہ ہے کہ خلاف شرع قید وپابندی نہ ہو چاہے مسجد میں ہو یا گھر میں۔ زمانہٴ سلف سے اس کا معمول جاری ہے؛ چنانچہ مدارسِ دینیہ میں بھی کسی شخصیت کے انتقال پر اگر قرآن خوانی ہوتی ہے تو وہ مذکورہ قیود وپابندیوں سے خالی ہواکرتی ہے؛ اس لیے ایسی پاکیزہ قرآن خوانی کے جائز؛ بلکہ مستحسن ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، اکابر علمائے دیوبند اور اسلاف کے واقعات میں اس کا ذکر موجود ہے۔ مثلاً حجة الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی کے صاحب زادے ریاست دکن کے قاضی مولانا حافظ محمد احمد نانوتوی کا جب انتقال ہوا، اس وقت برصغیر کے سیکڑوں مدارس میں؛ جبکہ ہزاروں کبار علماء موجود تھے، ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کی گئی۔ (تفصیل کے لیے دارالعلوم دیوبند کی سالانہ روئداد ملاحظہ ہو) لہٰذا بعض اہل علم کا ایصال ثواب کے لیے مطلقاً اجتماعی قراء ت قرآن کو بدعت قرار دینا صحیح نہیں ہے۔
البتہ خواہش پرستوں نے اِس عمل صالح میں مختلف پابندیاں لگادی ہیں، جو شرع کے خلاف ہیں اور عوام میں ایسی ہی قرآن خوانی کا رواج چل رہاہے اور لوگ ان پابندیوں کے نبھانے کو ضروری سمجھتے ہیں اس لیے احادیث وفتاویٰ کی روشنی میں ایسی مروّجہ قرآن خوانی قابلِ اصلاح ہے۔ دین کا صحیح فہم رکھنے والے سنجیدہ اور بااثر حضرات کو چاہیے کہ خلاف شرع امور سے اپنے علاقے کے لوگوں کو روکنے کی جدوجہد فرمائیں۔  

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ5، جلد:100 ‏، رجب1437 ہجری مطابق مئی 2016ء

از:مولانا مفتی رشید احمد فریدی
طالب دعاء : اكبر حسين اوركزائ
$ $ $


قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہنچنے کا حکم

بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہنچنے کا حکم
روز مرہ کے تقریباً ۸۰ فیصد پریکٹیکل مسائل میں امت مسلمہ متفق ہے، کیونکہ شریعت اسلامیہ کا واضح حکم موجود ہے۔ البتہ چند اسباب کی وجہ سے روز مرہ کے تقریباً ۲۰ فیصد پریکٹیکل مسائل میں زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے اور ان میں سے بعض اسباب یہ ہیں:
* 
نص فہمی میں اختلاف : ( یعنی قرآن وحدیث کی عبارت سمجھنے میں اختلاف ہوجائے) مثلاً اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاءَ (سورہ النساء ۴۳)۔ علماء کی ایک جماعت نے اس آیت سے نواقض وضو مراد لیا ہے کہ عورت کو چھوتے ہی وضوٹوٹ جاتا ہے۔ جبکہ دیگر مفسرین وفقہاء مثلاً امام ابوحنیفہ ؒ نے اس آیت سے نواقض غسل مراد لیا ہے کہ صحبت کرنے سے غسل واجب ہوتا ہے، عورت کو صرف چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔ غرضیکہ نص فہمی میں اختلاف ہوا جس کی وجہ سے بعض مسائل میں اختلاف ہوگیا۔
* 
ناسخ ومنسوخ کو طے کرنے میں اختلاف : (یعنی حضور اکرم ا کا آخری عمل کونسا ہے؟) مثلاًنبی اکرم اسے رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین کا کرنا اور نہ کرنا دونوں احادیث سے ثابت ہے، البتہ نبی اکرم ا کا آخری عمل کیا ہے ، اس سلسلہ میں اختلاف ہے۔
* 
جدید استنباطی مسائل: نئے نئے مسائل میں اختلاف کا ہونا بدیہی ہے، کیونکہ ہر مجتہد وفقیہ کو اختیار ہے کہ وہ نئے مسائل کا حل قرآن وسنت کی روشنی میں تلاش کرے۔ مثال کے طور پر اپنے جسم کے کسی عضو (مثلاً کڈنی) کو ہبہ کرنے کا مسئلہ۔
* 
کسی معین حدیث یا کسی خاص موضوع سے متعلق احادیث کو قابل قبول ماننے میں اختلاف ہوجائے (مثلاًموضوع بحث مسئلہ)۔
انہی ۲۰ فیصد مختلف فیہ مسائل میں قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہونچنے کا مسئلہ بھی ہے ۔ اس مسئلہ میں زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے۔ علماء وفقہاء کی ایک جماعت کی رائے ہے کہ قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا ، ان علماء وفقہاء میں سے حضرت امام شافعی ؒ اور حضرت امام مالک ؒ بھی ہیں، جبکہ دوسری جماعت کی رائے ہے کہ قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہنچتا ہے ، ان علماء وفقہاء میں سے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ ، حضرت امام احمد ابن حنبل ؒ نیز حضرت امام شافعی ؒ اور حضرت امام مالک ؒ کے متعدد شاگرد بھی ہیں۔
علامہ قرطبی ؒ نے اپنی کتاب تذکرۃ فی احوال الموتی میں تحریر کیا ہے کہ اس باب میں اصل صدقہ ہے جس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے تو جس طرح سے صدقہ کا ثواب میت کو پہونچتا ہے، قرآن کریم پڑھنے، دعا اور استغفار کا ثواب بھی میت کو پہونچے گا کیونکہ یہ بھی صدقات ہی ہیں، اور جن حضرات نے امام شافعی ؒ کے متعلق گمان کیا ہے کہ وہ میت پرقرآن کریم پڑھنے کو ناجائز قرار دیتے ہیں، وہ غلط ہے۔ کیونکہ صرف اختلاف اس میں ہے کہ اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے یا نہیں۔ امام شافعی ؒ اور دیگر جمہور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہونچے گا اگر پڑھنے والا اللہ تعالیٰ سے پہنچنے کی دعا کرتا ہے۔ اور جن حضرات نے کہا ہے کہ قرآن کریم پڑھنے کا ثواب نہیں پہونچتا، تو یہ اس وقت ہے جب کہ پڑھنے والا اللہ تعالیٰ سے پہونچنے کی دعا نہ کرے۔ (تذکرۃ فی احوال الموتی للقرطبی) غرضیکہ علامہ قرطبی ؒ کی تحقیق کے مطابق اکثر علماء کی رائے میں قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہونچتا ہے۔
اس موضوع سے متعلق چند احادیث شریفہ :
* 
حضرت عائشہؓ ، حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت جابرؓ، حضرت ابورافع ؓ ، حضرت ابو طلحہ ؓ انصاری اور حضرت حذیفہ ؓ کی متفقہ روایت ہے کہ رسول اللہ انے دو مینڈھے قربان کئے۔ ایک اپنی طرف سے اور دوسرا امت کی طرف سے۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد، ابن ماجہ، طبرانی، مستدرک اور ابن ابی شیبہ ) ۔ امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قربانی کاثواب دوسروں حتی کہ زندوں کو بھی پہنچتا ہے ۔
* 
ایک شخص نے رسول اللہ اسے عرض کیا کہ میری ماں کا اچانک انتقال ہوگیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ ضرور صدقہ کرنے کے لئے کہتیں۔ اب اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا ان کے لئے اجر ہے؟ رسول اللہ انے فرمایا: ہاں۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد، ابو داؤد، نسائی)۔ امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ صدقہ کاثواب میت حتی کہ زندوں کو بھی پہنچتا ہے ۔

* 
حضرت سعدؓ بن عبادہ نے حضور اکرم اسے پوچھا کہ میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کروں؟ آپ انے فرمایا: ہاں۔ (مسند احمد، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ) ۔ اسی مضمون کی متعدد دوسری روایات حضرت عائشہؓ ، حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے بخاری، مسلم ، مسند احمد، نسائی، ترمذی، ابوداؤد اور ابن ماجہ وغیرہ میں موجود ہیں، جن میں رسول اللہ ا نے میت کی طرف سے صدقہ کرنے کی اجازت دی ہے اور اسے میت کے لئے نافع بتایا ہے۔
* 
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ کی روایت ہے کہ ان کے دادا عاص بن وائل نے زمانۂ جاہلیت میں سو اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی تھی۔ ان کے چچا ہشام بن العاص نے اپنے حصہ کے پچاس اونٹ ذبح کردئے۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے رسول اللہ اسے پوچھا کہ میں کیا کروں۔ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ اگر تمہارے باپ نے توحید کا اقرار کرلیا تھا تو تم ان کی طرف سے روزہ رکھو یا صدقہ کرو وہ ان کے لئے نافع ہوگا۔ (مسند احمد)
* 
رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: جب کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کی تدفین میں جلدی کرو۔ اس کے سرہانے کی طرف سورۂ فاتحہ اور پیروں کی طرف سورۂ البقرہ کا آخر پڑھو۔ (علامہ حافظ ابن حجر ؒ نے بخاری شریف کی شرح میں تحریر کیا ہے کہ یہ حدیث طبرانی نے صحیح (حسن) سند کے ساتھ ذکر کی ہے) ۔
* 
صحابہ کرام سے بھی نبی اکرم اکے مذکورہ فرمان پر عمل کرنا ثابت ہے جیسا کہ امام بیہقی ؒ نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے میت کے سرہانے کی طرف سورۂ فاتحہ اور پیروں کی طرف سورۂ البقرہ کا آخری رکوع پڑھنے کا عمل ذکرکیا ہے۔ مسلم کی مشہور شرح لکھنے والے امام نووی ؒ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ( الاذکار ) ۔
* 
رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: سورۂ یس قرآن کریم کا دل ہے، جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کا قرب اور آخرت میں بھلائی حاصل کرنے کی غرض سے اسے پڑھے گا، وہ اس کو حاصل ہوگی۔ اور اس سورہ کو اپنے مُردوں پر پڑھا کرو۔ (مسند احمد، ابن ابی شیبہ، ابوداؤد، ابن ماجہ، صحیح ابن حبان، سنن بیہقی، نسائی) محدثین کی ایک جماعت نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، علماء کرام کی ایک بڑی جماعت نے اسی اور دیگر احادیث کی بنیاد پر میت پر قرآن کریم پڑھنے کو جائز قرار دیا ہے، جبکہ دیگر محدثین نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن محدثین کا اصول ہے کہ فضائل کے سلسلہ میں ضعیف حدیث معتبر ہوتی ہے جیسا کہ امام نووی ؒ نے جمہور علماء کے قول کو تحریر فرمایا ہے۔
* 
رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: کوئی شخص حالت نزاع میں ہو اور اس کے پاس سورۂ یس پڑھی جائے تو اللہ تعالیٰ اس پر نزاع کی حالت کو آسان فرمادیتا ہے۔ (مسند للدیلمی، نیل الاوطارشرح منتقی الاخبار من احادیث سید الاخیار للقاضی الشوکانی)
* 
حضرت انسؓ سے مرفوعاً روایت ہے : اگر کوئی قبرستان میں سورۂ یس پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس قبرستان کے مُردوں سے عذاب قبر کو کم کردیتا ہے۔ شیخ عبد العزیزؒ (صاحب الخلال )نے اس کی تخریج کی ہے۔ اس حدیث کو امام محمد بن عبد الوہاب ؒ نے اپنی کتاب احکام تمنی الموت میں ، امام حافظ الزیلعیؒ نے کنز الدقائق کی شرح میں اور امام ابن قدامہ حنبلی ؒ نے اپنی کتاب المغنی ،کتاب الجنائز میں ذکر کیا ہے۔ امام ابن قدامہ حنبلی ؒ نے اپنی اس مشہور کتاب المغنی ،کتاب الجنائز میں ایک اور حدیث ذکر فرمائی ہے کہ نبی اکرم انے ارشاد فرمایا: جس کسی شخص نے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کی قبر پر سورۂیس پڑھی تو میت کی مغفرت کردی جاتی ہے۔
مشہور ومعروف محدث حضرت ابو مغیرہ ؒ کہتے ہیں کہ حضرت صفوان ؒ نے فرمایا کہ مشائخ کہا کرتے تھے کہ اگر میت پر سورۂ یس پڑھی جاتی ہے تواس کی برکت سے اس کے ساتھ تخفیف کامعاملہ کیا جاتا ہے۔ (مسند احمد) امام احمد بن حنبل ؒ نے حضرت ابو مغیرہ ؒ سے متعدد احادیث نقل کی ہیں۔ شیخ محب الدین الطبری ؒ اور علامہ الشوکانی ؒ نے فرمایا ہے کہ اس سے مرنے کے بعد کسی کی قبر پر سورۂ یس پڑھنا مراد ہے۔
* 
رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: جس شخص کا قبرستان پر گزر ہو اور وہ گیارہ مرتبہ قل ھو اللہ احد پڑھ کر اس کا ثواب مرنے والوں کو بخش دے تو پڑھنے والے کو مردوں کی تعداد کے برابر ثواب ملے گا۔ (دار قطنی)
* 
رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: جو شخص قبرستان میں داخل ہوکر سورۂ فاتحہ، قل ہو اللہ احد اور الہاکم التکاثر پڑھے، پھر کہے کہ میں نے جو پڑھا ہے اس کا ثواب ان حضرات کو پہونچایا جو اس قبرستان میں مدفون ہیں تو وہ حضرات کل قیامت کے دن اس شخص کے لئے اللہ تعالیٰ سے شفاعت کریں گے۔ (دار قطنی)
* 
حضرت عبد الرحمن بن العلاء ؒ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد نے فرمایا کہ جب میں انتقال کرجاؤں تو بسمِ اللّہِ وعَلَی سُنَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ کہہ کر لحد والی قبر میں دفن کردینا اور میرے سرہانے سورۂ فاتحہ پڑھنا، اس لئے کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کو اس طرح فرماتے ہوئے سنا ہے۔ (اخرجہ الخلال فی الجامع "کتاب القراء ۃ عند القبور")
علامہ حافظ ابن قیم ؒ نے اس حدیث کو اپنی کتاب "الروح" میں ذکر کیا ہے، نیز انہوں نے تحریر فرمایا ہے کہ سلف صالحین کی ایک جماعت نے کتابوں میں تحریر کیا ہے کہ انہوں نے وصیت کی کہ دفن کے وقت ان کی قبر پر قرآن کریم پڑھا جائے۔
* 
ایک شخص نے رسول اللہ اسے عرض کیا کہ میں اپنے والدین کی خدمت ان کی زندگی میں تو کرتا رہا، ان کے انتقال کے بعد کیسے خدمت کروں؟ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: ان کے ساتھ نیکی یہ ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ ان کے لئے بھی نماز پڑھو اور اپنے روزہ کے ساتھ ان کے لئے بھی روزہ رکھو ۔ (دار قطنی)
علامہ حافظ الزیلعی ؒ نے اپنی کتاب "شرح کنز الدقائق" میں، امام ابن الہمامؒ نے "فتح القدیر" میں اور شیخمحمد العربی بن التبانی المالکی المغربی ؒ نے اپنی کتاب "اسعاف المسلمین والمسلمات بجواز ووصول ثوابہا الی الاموات" میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔
* 
رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: والدین کے ساتھ نیکی یہ ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ ان کے لئے نماز پڑھو ، اپنے روزہ کے ساتھ ان کے لئے بھی روزہ رکھو ، اپنے صدقہ کے ساتھ ان کے لئے بھی صدقہ کرو۔ (المصنف للشیخ ابن ابی شیبہ) اور امام محمد بن عبد الوہاب ؒ نے اس حدیث کو اپنی کتاب "احکام تمنی الموت" میں ذکر کیا ہے۔
* 
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ قبیلہ خشعم کی ایک عورت نے رسول اللہ اسے عرض کیا کہ میرے باپ کو فریضۂ حج کا حکم ایسی حالت میں پہنچا ہے کہ وہ بہت بوڑھے ہوچکے ہیں، اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ بھی نہیں سکتے ہیں۔ آپ انے ارشاد فرمایا: تم ان کی طرف سے حج ادا کرو۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد، ترمذی، نسائی)
* 
حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ قبیلہ خشعم ہی کے ایک مرد کا ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بوڑھے باپ کے متعلق یہی سوال کیا تھا۔ رسول اللہ انے فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تمہارے باپ پر قرض ہو اور تم اس کو ادا کردو تو وہ ان کی طرف سے ادا ہوجائے گا؟ اس شخص نے کہا جی ہاں۔ تو آپ انے ارشاد فرمایا: بس اسی طرح تم ان کی طرف سے حج ادا کرو۔ (مسند احمد، نسائی)
* 
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ قبیلۂ جہینہ کی ایک عورت نے نبی اکرم اسے سوال کیا کہ میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی مگر وہ اس سے پہلے ہی مرگئیں۔ اب کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کرسکتی ہوں؟ رسول اللہ انے فرمایا : تیری ماں پر اگر قرض ہوتا تو کیا تو اس کو ادا نہیں کرتی، اسی طرح تم لوگ اللہ کا حق بھی ادا کرو۔ اور اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کے ساتھ کئے ہوئے عہد پورے کئے جائیں۔ (بخاری، نسائی)
* 
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نے حضور اکرم اسے پوچھا : میری ماں نے روزہ کی نذر مانی تھی اور وہ پوری کئے بغیر مرگئیں، تو کیا میں ان کی طرف سے روزہ رکھ سکتی ہوں؟ حضور اکرم ا نے ارشاد فرمایا : ان کی طرف سے روزہ رکھ لو۔ (بخاری، مسلم ، مسند احمد، نسائی)
حضرت بریدہؓ کی ایک روایت ہے کہ ایک عورت نے حضور اکرم اسے اپنی ماں کے متعلق پوچھا کہ ان کے ذمہ ایک مہینے (یا دوسری روایت کے مطابق دو مہینے) کے روزے تھے، کیا میں یہ روزے ادا کردوں؟ آپ نے ان کو اس کی اجازت دی۔ (مسلم، مسند احمد، ترمذی، ابو داؤد)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اکرم انے ارشاد فرمایا : مَنْ مَاتَ وَعَلَےْہِ صِےَامٌ صَامَ عَنْہُ وَلِیُّہُ جوشخص انتقال کرجائے اور اس کے ذمہ کچھ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزہ رکھ لے ۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد)
(
وضاحت) : ان احادیث میں دوسروں کی طرف سے نماز اور روزہ رکھنے کا جو ذکر آیا ہے، ان سے نفلی یا نذر کی نماز اور روزہ مراد ہیں، کیونکہ دیگر احادیث میں فرض نماز یا رمضان کے روزہ کے متعلق واضح حکم موجود ہے کہ وہ دوسروں کی طرف سے ادا نہیں کئے جاسکتے ہیں بلکہ اس کے لئے فدیہ ہی ادا کرنا ہوگا۔
رسول اللہ انے ارشاد فرمایا : گھر والوں کے میت پر (بلند آواز کے ساتھ) رونے کی وجہ سے میت کو عذاب دیا جاتا ہے۔ (بخاری، مسلم)
جن علماء وفقہاء کی رائے میں قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا ہے، وہ عموماً مندرجہ ذیل ۲ دلائل پیش کرتے ہیں:
* 
اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی۔ وَاَنْ لَّےْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعَی کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ آدمی کو وہی ملتا ہے جو اس نے کمایا۔ (سورہ النجم ۳۸ ۔ ۳۹)
اگر اس آیت کے عموم سے قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو نہیں پہنچ سکتا ہے تو پھر ایصال ثواب، قربانی اور حج بدل وغیرہ کرناسب ناجائز ہوجائیں گے،بلکہ دوسرے کے حق میں دعائے استغفار حتی کہ نمازِ جنازہ بھی بے معنی ہوجائے گی، کیونکہ یہ اعمال بھی اُس شخص کا اپنا عمل نہیں ہے جس کے حق میں دعا کی جارہی ہے۔ بلکہ اِس سے مراد یہ ہے کہ عمومی طور پر ہر شخص اپنے ہی عمل کی جزا یا سزا پائے گا۔ لیکن باپ یا بیوی یا کسی قریبی رشہ دار کے انتقال کے بعد اگر کوئی شخص ان کی جنازہ کی نماز پڑھتا ہے یا ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتا ہے یا ان کی طرف سے حج یا عمرہ کرتا ہے یا قربانی کرتا ہے یا صدقہ کرتا ہے یا اللہ تعالیٰ کے پاک کلام کی تلاوت کرکے اس کا ثواب میت کو پہونچاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اِس عمل کو قبول فرماکر میت کو اس کا ثواب عطا فرمائے گا ان شاء ا للہ ، خواہ میت گناہ گار ہی کیوں نہ ہو، لیکن اگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے میت کو ثواب نہیں ملا تو ان شاء اللہ ان اعمال کو کرنے والے کی طرف اس کا اجر پلٹ کر آئے گا، جس طرح منی آرڈر اگرپانے والے کو نہیں ملتا ہے تو بھیجنے والے کو واپس مل جاتا ہے۔
* 
رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: انسان کے انتقال کے بعد اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے مگر تین عمل : صدقۂ جاریہ، ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور نیک لڑکے کی دعا جو وہ اپنے والد کے لئے کرے۔ (ابن ماجہ ، ابن خزیمہ)
آپ کا یہ ارشاد صرف ان مذکورہ تین اعمال کی خاص اہمیت کو بتلانے کے لئے ہے۔ اگر اس حدیث کو عام رکھا جائے توبیٹے کی ماں کے لئے یا بھائی کی بہن کے لئے یا کسی شخص کی اپنے متعلقین اور رشتہ داروں کے لئے دعا، استغفار اور جنازہ کی نماز سب بے معنی ہوجائیں گی۔ رسول اکرم اکے ارشادات میں اس طرح کی متعدد مثالیں ملتی ہیں، جیسے نبی اکرم انے ارشاد فرمایا کہ جس نے نماز فجر اور عصر کی پابندی کرلی تو ووہ جنت میں داخل ہوگیا۔(بخاری ،مسلم) اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم صرف ان دو وقت کی نماز کی پابندی کرلیں، باقی جو چاہیں کریں،ہمارا جنت میں داخلہ یقینی ہے۔ نہیں ، ہر گز ایسا نہیں ہے، بلکہ نبی اکرم ا کا یہ ارشاد ان دو نمازوں کی خاص اہمیت کو بتلانے کے لئے ہے کیونکہ جو ان دو نمازوں کی پابندی کرے گا وہ ضرور دیگر نمازوں کا اہتمام کرنے والا ہوگا، اور نمازوں کا واقعی اہتمام کرنے والا دیگر ارکان کی ادائیگی کرنے والا بھی ہوگا، ان شاء اللہ۔ اسی طرح اس حدیث میں ان تین اعمال کی صرف خاص اہمیت بتلائی گئی ہے۔
خلاصۂ کلام: جیسا کہ ابتداء میں تحریر کیا گیا ہے کہ شریعت اسلامیہ کا واضح حکم موجود ہونے کی وجہ سے روز مرہ کے ۸۰ فیصد پریکٹیکل مسائل میں امت مسلمہ متفق ہے، جس میں کسی طرح کا کوئی اشکال ہی نہیں ہے۔ البتہ بعض مندرجہ بالا اسباب کی وجہ سے روز مرہ کے۲۰ فیصد پریکٹیکل مسائل میں زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے، جن کا نہ آج تک کوئی حل ہوا ہے اور نہ ہی حل کی بظاہر کوئی خاص امید ہے، اور نہ ہی ہمیں اِن مختلف فیہ مسائل کو حل کرنے کا مکلف بنایا گیا ہے۔ اس کا حل کل قیامت کے روز ہی ہوگا جیسا کہ سعودی عرب کے مشہور عالم دین شیخ ڈاکٹر عائض القرنی نے ہندوستان کے حالیہ سفر کے دوران اپنی تقریر کے دوران فرمایا تھا۔
لہذا ہمیں اختیار ہے کہ ہم جن علماء کے ساتھ عقیدت رکھتے ہیں یا جن سے قرآن وحدیث کا علم حاصل کرتے ہیں، انہی علماء کی سرپرستی میں ان ۲۰ فیصد مسائل پر دوسری رائے کا احترام کرتے ہوئے عمل کریں، ا لّا یہ کہ دوسری رائے شریعتِ اسلامیہ کے واضح احکامات کے خلاف ہو۔
انہی مختلف فیہ مسائل میں قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہونچنے کا مسئلہ ہے ۔ علماء وفقہاء کی ایک جماعت کی رائے ہے کہ قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا ۔ جبکہ دوسری جماعت کی رائے ہے کہ حج، زکاۃ، قربانی اور صدقات کی طرح قرآن کریم پڑھنے کا ثواب بھی میت کو پہنچتا ہے ، ان علماء وفقہاء میں سے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور حضرت امام احمد ابن حنبل ؒ ہیں۔ حضرت امام شافعی ؒ اور حضرت امام مالک ؒ کے بعض اصحاب کی رائے بھی یہی ہے کہ میت کو قرآن کریم پڑھنے کا ثواب پہنچتا ہے ، جیساکہ امام نوویؒ نے اپنی کتاب الاذکار اور امام سیوطی ؒ نے اپنی کتاب شرح الصدور میں تحریر فرمایا ہے ۔ امام حافظ قاضی القضاۃ تقی الدین السبکی الشافعیؒ نے اپنی کتاب "قضاء الارب فی اسئلۃ حلب" میں قرآن کریم پڑھنے کے ثواب کو میت کے لئے ہبہ کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔
علامہ ابن تیمیہ ؒ نے بھی قرآن کریم پڑھنے کے ثواب کو میت کے لئے ہبہ کرنے کو جائز قرار دیا ہے (مجموعہ فتاوی ابن تیمیہ ، جزء ۲۴)۔ امام احمد بن حنبل ؒ کے شاگرد امام ابو بکر المروزی ؒ نے کہا ہے کہ میں نے امام احمد بن حنبل ؒ سے سنا ہے کہ جب تم قبرستان میں داخل ہو تو آیت الکرسی، پھر تین مرتبہ قل ہو اللہ احد پڑھو ۔ اس کے بعد کہو کہ یا اللہ اس کا ثواب قبرستان والوں کو پہونچا۔ (المقصد الارشد فی ذکر اصحاب الامام احمد )۔ سعودی عرب کی مجلس قضاء اعلیٰ کے سابق صدر شیخ عبد اللہ بن محمد بن حمید ؒ نے اس موضوع پر ۱۶ صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ تحریر فرمایا ہے جس میں علماء کے اقوال دلائل کے ساتھ تحریر فرمائے ہیں کہ اکثر علماء کی رائے یہی ہے کہ قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہونچایا جاسکتا ہے۔
کیونکہ احادیث سے مالی اور مالی و بدنی مرکب عبادات میں نیابت کا واضح ثبوت ملتا ہے، جس پر ساری امت مسلمہ متفق ہے۔ رہی خالص بدنی عبادت تو متعدد احادیث سے اس میں بھی نیابت کاجواز ثابت ہوتاہے۔ نیکیوں کی بعض اقسام کو مستثنیٰ کرنے کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ نیز قرآن وحدیث میں کسی بھی جگہ قرآن کریم کی تلاوت کرکے میت کو اس کا ثواب پہونچانے سے منع نہیں کیا گیا ہے۔ نیز آدمی جس طرح مزدوری کرکے مالک سے یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کی اجرت میرے بجائے فلاں شخص کو دے دو، اسی طرح وہ کوئی نیک عمل کرکے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کرسکتا ہے کہ اس کا اجر میری طرف سے فلاں شخص کو عطا کردیا جائے۔ لہذا ہمیں قرآن کریم کی تلاوت کرکے اپنے مُردوں کو اس کا ثواب پہنچانا چاہئے، لیکن اس کے لئے کسی وقت کی تعیین کرنا غلط ہے، بلکہ جب بھی موقع ملے اور جتنی توفیق ہو، قرآن کریم کی تلاوت فرمائیں اور میت کو اس کا ثواب پہونچائیں اور اس کے لئے دعائے مغفرت فرمائیں۔
واللہ اعلم بالصواب۔ مولانا محمد نجیب قاسمی سنبھلی
طالب دعاء : اكبر حسين اوركزائ


منگل، 25 اپریل، 2017

قرآن کی موجودگی میں حدیث کی ضرورت ہی کیا ہے

الحمد لله وكفى والصلاة والسلام على النبي المصطفى وعلى آله وصحبه ومن سار على نهجه واقتفى . اللهم أرنا الحق حقاً وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابه أما بعد 








کسی چیز کی ضرورت کا احساس اپنے موجود سرمائے کو سامنے رکھنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے،جب تک یہ معلوم نہ ہوکہ ہمارے پاس کیا کچھ ہے ہم کسی اورچیز کے ضرورت مند نہیں ہوسکتے،حدیث کی ضرورت اسی صورت میں محسوس ہوگی کہ علم کا موجود سرمایہ ہمارے سامنے واضح ہو اوروہ ہماری ضروریات پوری نہ کرسکے،ضرورت حدیث پر بحث کرنے سے پہلے ہمیں اپنے موجود علمی سرمائے کو دیکھنا چاہئے اوراپنی موجودہ صورت حال کا پوری طرح جائزہ لینا چاہئے۔
ہم اس لحاظ سے اس موضوع پر غور کررہے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے پاس اللہ تعالی کی آخری کتاب قرآن مجید موجود ہے، یہ پوری کتاب محفوظ اورزندگی کی ہر ضرورت میں رہنمائی بخشنے والی ہے ہمارا موجود سرمایہ علم یہی ہے، اس کے ہوتے ہوئے ہمیں اور کسی چیز کی ضرورت ہوسکتی ہے؟
اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں خود قرآن کریم میں ہی غور کرنا چاہئے کہ اس کے مطالعہ سے کوئی اور احساس ضرورت ابھرتا ہے،اگر یہ ضرورت محسوس ہوتی ہے تو پھر یہ اگلا مرحلہ ہے کہ اسے کس طرح پورا کیا جائے؟ حدیث سے یا رائے سے یا کسی کے مشورے سے؟ ہم ابھی پہلے مرحلے میں ہیں کہ قرآن کریم کے ہوتے ہوئے کیا کسی اور چیز کی ضرورت بھی ہے یا نہیں؟
اس کے جواب میں یہ چار عنوان بہت اہم ہیں.
(
۱)قرآن کریم کے مسائل.
(
۲)زندگی کے مسائل .
(
۳)قرآن کی جامعیت.
(
۴)قرآن کریم کی دعوت؛
اگر ہم ان پر غور کرلیں،تو پھر اس کا جواب کہ قرآن کریم کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی اور چیز کی ضرورت بھی ہے یا نہیں ہمارے لیے بہت آسان ہوجائے گا۔
قرآن کریم کے مسائل
قرآن کریم نے کچھ احکام نہایت وضاحت اورصراحت سے بیان کئے ہیں جیسے قانون وراثت، قانون شہادت، قانون حدود، ایمانیات اوراخلاقیات؛ مگر کچھ احکام ایسے بھی ہیں اور یہ بہت سے ہیں جنہیں قرآن کریم نے مجمل طور پر بیان کیا ہے،قرآن کریم میں ان کی پوری کیفیت ادا نہیں ملتی؛ پھر قرآن پاک میں کچھ ایسے اشارات ہیں جن کی تفصیل اس میں نہیں ہے اور پھر کچھ مشکلات ہیں جن کی وضاحت کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے اور پھر اصول قرآنی کی ایسی توسیعات بھی ہیں جن کی پوری جزئیات کا بیان یہاں نہیں ملتا اورنہ یہ عملاً ممکن  ہے(تفصیل آگے آئے گی)۔
زندگی کے مسائل
پھر زندگی کے کچھ مسائل ایسے ہیں کہ قرآن کریم میں ان کے بارے میں کوئی تصریح نہیں ملتی جیسے۔ (۱)پانی کے پاک اورناپاک ہونے کے مسائل۔ (۲)کون سی بیع درست ہے اور کون سی نہیں اور یہ کہ کس کس بیع میں سود کی جھلک پائی جاتی ہے۔ (۳)بیع جنس بالجنس کی کیا صورت ہے۔(۴) جو جرائم حدود کے تحت نہیں آتے ان کی سزا کیا ہے۔ (۵)زمینوں کے مسائل میں مضارعت کے احکام وغیرہ۔ (۶)مساجد کے تفصیلی شرعی احکام۔(۷)مختار نامہ کے ذریعہ نکاح کی صورتیں وغیرھا۔ان جیسے زندگی کے ہزاروں مسائل ہیں جو ہمیں قرآن کریم میں واضح طورپر نہیں ملتے؛لیکن انسانی زندگی ان ابواب میں راہنمائی تلاش کرتی ہے اوران ضرورات میں بھی دینی حل ڈھونڈتی ہے۔
قرآن کریم کی جامعیت کا دعویٰ
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ہدایت انسانی کے پورے نقشے پھیلادیئے ہیں، یہ کتاب خداکی آخری کتاب ہے اوراس میں ہر انسانی ضرورت کا حل موجود ہے۔
وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ”۔(النحل:۸۹)
ترجمہ: اور ہم نے آپ پر ایسی کتاب اتاری جو ہر چیز کا کھلا بیان ہے ہدایت اوررحمت ہے اورماننے والوں کے لیے خوشخبری ہے۔
قرآن کریم کی مذکورہ بالاآیت اور یہ روایات بتارہی ہیں کہ قرآن کریم نہایت جامع اور مکمل کتاب ہے اور اس میں ہر انسانی ضرورت کا پورا پورا حل موجود ہے،قرآن کریم کی جامعیت کا یہ دعویٰ کہاں تک حالات سے ہم آہنگ ہے؟اورزندگی کے تمام مسائل کیا اپنی پوری تفصیل کے ساتھ ہمیں اس میں ملتے ہیں یا نہیں؟ اس پر ذرا اور غور کیجئے، یہ حقیقت ہے اور اس کے تسلیم کرنے سے چارہ نہیں کہ بہت سے قرآنی احکام ایسے مجمل ہیں کہ جب تک اور کوئی ماخذ علم ان کی تفصیل نہ کرے ان کی عملی تشکیل نہیں ہوسکتی اور زندگی کے لا تعداد مسائل ایسے بھی ہیں جن کے متعلق واضح جزئی ہمیں قرآن کریم میں نہیں ملتی،پس قرآن کریم کی جامعیت کی تشریح ایسی ہونی چاہئے جس سے یہ دعویٰ واقعات سے ہم آہنگ بھی ہوسکے۔
قرآن کریم کی جامعیت کا مفہوم
کسی نے قرآن کریم کی جامعیت کا یہ مفہوم نہیں لیا کہ اس کی کسی آیت میں کوئی اجمال (Brevity) یا کسی بیان میں کوئی تقیید (Particularisation) نہیں اس نے ہر باب کی غیر متنا ہی جزئیات کا احاطہ کرلیا ہے اور ہر حکم کی تمام حدود اور تفصیلات (Details) اس نے بیان کردی ہیں نہ یہ کسی کا دعویٰ ہے نہ اس کا کوئی قائل ہے،
قرآن کریم کی جامعیت کا مفہوم یہ ہے کہ اس میں تمام انسانی ضرورتوں کا حل ملتا ہے اور لا تعداد جزئیات کے احکام کے اصول وکلیات اورضوابط کی شکل میں اس میں موجود ہیں، علامہ شاطبیؒ (۷۹۰ ھ) لکھتے ہیں:
ترجمہ: قرآن مجید مختصر ہونے کے باوجود ایک جامع کتاب ہے اور یہ جامعیت تبھی درست ہوسکتی ہے کہ اس میں کلیات کا بیان ہو۔ (الموافقات:۳/۱۳۲)
پس جب قرآن پاک میں ایسے اصول و کلیات ہیں جن کے تحت لا تعداد جزئیات کا فیصلہ قرآن کریم کی جامعیت کی تصدیق کرے تو یہ جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ ان مواقع پر قرآن کریم کی اصولی دعوت کیا ہے؟ اس ضرورت میں وہ ہمیں کدھر لے جاتا ہے؟
قرآن کی دعوت:
 دیکھا جائے تو قرآن کریم نے اپنے احکام وارشاد کے ساتھ ساتھ ایک عظیم شخصیت کا تعارف بھی کرایا ہے اوراس کو اپنے ساتھ لازم کیا ہے، قرآن کریم مسلمانوں کو اس کے عمل سے اسوۂ حسنہ کی دعوت دیتا ہے، یہ ایک ایسی اصل عظیم ہے جس کے تحت ہزاروں مجملات کی تفصیل اور لاکھوں جزئیات کا حل مل جاتا ہے،قرآن کریم کی اس دعوت کے تحت اس اسوہ حسنہ کی تعمیل عین قرآن پاک کی تعمیل شمار ہوگی،یہ کلیدی آیات ہیں جن کے تحت لا تعداد مسائل حل ہوجاتے ہیں.
چند آیات ملاحظہ کیجئے۔
۱)”لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ”۔ )الاحزاب:۲۱)
ترجمہ: بے شک تمہارے لیے رسول اللہﷺ کی ذات میں بہترین نمونہ موجود ہے۔
پس چاہئے کہ ہر معاملہ ہر ایک حرکت و سکون اور نشست و برخاست میں اس ذات گرامی کے نقش قدم پر چلیں۔
2)”یَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ”۔ (النساء:۵۹)
ترجمہ: اے ایمان والوحکم مانو اللہ کا اورحکم مانو(اس کے) رسول کا۔
قرآن کریم کی اس دعوت کے تحت رسول اللہﷺ کی پیروی کرنے والا خود خدا تعالی کے حکم ہی کی پیروی کررہا ہے۔
3)”مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ”۔ (النساء:۸۰)
ترجمہ: جو اللہ کے رسول کی اطاعت کرتا ہے پس بیشک وہ اللہ کی اطاعت کرچکا۔
یہاں رسول کی اطاعت صیغہ مضارع (Present) سے بیان فرمائی جو رہتی دنیا تک جاری رہے گی اوراللہ کے اطاعت کو ماضی (Past) سے تعبیر فرمایا کہ مومن ایمان لانے کے ساتھ ہی اسی اصول کو تسلیم کرچکا تھا کہ زندگی کی ہر ضرورت میں رسول کی اطاعت کی جائے گی اوراسی کے تحت وہ اطاعت رسول کررہا ہے، یہ وہ کلیدی آیات (Key Verses) ہیں جن کے تحت جمیع جزئیات حدیث آجاتی ہیں اورقرآن کریم جمیع تعلیمات رسول پر حاوی قرار پاتا ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی حضرت عمران بن حصینؓ (۵۲ھ) کے ہاں علمی مذاکرہ ہورہا تھا کہ ایک شخص نے کہا “لاتحدثوا الابما فی القرآن” (قرآن کے سوا اوربات نہ کیجئے) حضرت عمرانؓ نے اسے کہا کہ:”تو احمق ہے، کیا قرآن میں ہے کہ ظہر اور عصر کی چار رکعتیں ہیں اوران میں قرآن جہری نہیں؟ مغرب کی تین رکعتیں ہیں پہلی دو میں قرات جہری ہے اور تیسری میں آہستہ؟ عشاء کی چار رکعتیں ہیں دو میں قرات جہری ہے اور دو میں آہستہ؟ کیا یہ قرآن میں ہے”۔ (المصنف عبد الرزاق:۱۱/۲۵۵)
خطیب بغدادی (۴۶۳ ھ) روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اسے یہ بھی کہا:
اگر تم اور تمہارے ساتھی واقعی صرف قرآن پر ہی اعتماد کرتے نہیں توکیا تمہیں قرآن میں ملتا ہے کہ ظہر، عصر اور مغرب کی چار چار اور تین (فرض) رکعت ہیں اور یہ کہ(سورت فاتحہ کے بعد) صرف پہلی دو رکعتوں میں قرآن کریم پڑھا جاتا ہے ؟ کیا تمہیں قرآن کریم میں ملتا ہے طواف کعبہ کے سات چکر ہیں؟ اوریہ کہ صفا و مروہ کے درمیان سعی ضروری ہے”۔ (الکفایہ فی علوم الروایہ:۱۵)
حضرت عمران بن حصینؓ نے یہاں ایک نہایت اہم اصول کی طرف توجہ دلائی ہے، عمل رسالت صرف نماز اوراس کی رکعات یا حج اور اس کے اشواط کا ہی بیان نہیں، پورا دائرہ شریعت عمل رسالت کے گرد گھومتا ہے،صحابہ کرام کے سامنے راہ عمل صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کرتے یا فرماتے صحابہ اس راہ پر چل پڑتے، کبھی کسی نے آپ سے نہ پوچھا تھا کہ اس باب میں اللہ کا حکم کیا ہے، ان کا پختہ عقیدہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی قرآنی اجمال کی تفصیل ہے (مرقات:۱/۲۴۰) آپ زندگی کے ہر قدم میں الہٰی حفاظت کے سائے میں ہیں، آپ کے عمل کی اگر کوئی شرعی حیثیت نہ ہو تو سینکڑوں اجمالات ِقرآن عملاً معطل ہوکر رہ جاتے ہیں۔

مجملات قرآنی میں حدیث کی  ضرورت :

۱)”وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ”۔ (البقرۃ:۴۲)
نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو. نمازوں کی رکعات ترتیب، کیفیت ادا اور وسعت وقت یہ وہ مباحث ہیں جو قرآن کریم میں نہیں ملتے،زکوٰۃ کن کن چیزوں میں ہے سالانہ ہے، یا ماہانہ،اس کا نصاب اور مقدار کیا ہے؟ یہ تفصیل قرآن کریم میں نہیں ملتی؛ حالانکہ ان تفصیلات کے بغیر ان قرآنی حکموں پر عمل نہیں ہوسکتا۔
۲)”وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ”۔ (الحج:۲۹)
اور طواف کریں اس قدیم گھر کا طواف کے چکر سات ہیں یا کم و بیش؟ طواف حجر اسود کے کونے سے شروع ہوگا یا رکن عراقی وشامی یا یمانی سے؟ یہ تفصیل قرآن کریم میں نہیں ملتی، صفا و مروہ کے درمیان سعی کتنی دفعہ ہے؟ سعی کی ابتداء کوہِ صفا سے ہے یا کوہِ مروہ سے طواف پہلے کیا جائے گا یا سعی پہلے کرنا ہوگی؟ ان تفصیلات کے جانے بغیر ان احکام قرآنی کی عملی تشکیل نہیں ہوسکتی۔
۳)”کُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا”۔ (البقرۃ:۱۶۸) . وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ”۔ (الاعراف:۳۲)
قرآن کریم نے حلال طیبات کو جائز قرار دیا اورخبائث اور ناپاک چیزوں کو حرام کہا، اب یہ موضوع کہ درندے اورشکاری پرندے طیبات میں داخل ہیں یا خبائث میں یہ تفصیل قرآن پاک میں نہیں ملتی،حدیث میں ارشاد ہے کہ “ذی ناب من السباع” کچلیوں والے درندے اور “ذی مخلب من الطیر” پنچوں سے کھانے والے پرندے مسلمان کے پاکیزہ رزق میں داخل نہیں۔
۴)”أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ”۔ (المائدہ:۹۶)
حلال کیا گیا تمہارے لیے دریائی شکار؛لیکن یہ بات کہ مچھلی کو پکڑنے کےبعد اس کو ذبح کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں،قرآن کریم میں اس کی وضاحت نہیں ملتی،حدیث میں ہے کہ دریا کے شکار کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں،سمک طافی(مری مچھلی جو تیر کر اوپر آجائے) کو حدیث میں ناجائز بتلایا گیا ہے،قرآن پاک نے خون کو مطلقا حرام کہا تھا،حدیث نے تفصیل کی اوربتایا کہ کلیجی اور تلی (کی صورت میں جما ہوا خون) حلال ہے۔
۵)”وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ”۔ (المائدہ:۴)
ترجمہ: اور جو سدھاؤ شکاری جانور شکار پر دوڑانے کو سکھاتے ہو تم انہیں جو اللہ نے تم کو سکھایا۔
اس آیت سے پتہ چلا کہ وہ کتا جو سکھایا ہوا نہ ہو اس کا پکڑا ہوا اور مارا ہوا شکار حرام ہے؛ لیکن شکاری کتا اگر اپنے شکار کو خود کھانے لگے تو اس کا حکم قرآن کریم میں نہیں ملتا، حدیث میں بتلایا گیا کہ یہ شکار کھانا جائز نہیں،کتے کا کھانا بتلارہا ہے کہ اس کی تعلیم صحیح نہیں ہوئی اوروہ کلب معلم ثابت نہیں ہوا ہے۔
ان جیسے اور سینکڑوں مسائل ہیں جن کی عملی تشکیل اور تفصیل قرآن پاک میں نہیں ملتی، ان موضوعات میں قرآن پاک کے ساتھ جب تک کوئی اور چیز شامل نہ کی جائے قرآن پاک کے یہ مجمل احکام منت پذیر عمل نہیں ہوسکتے۔
اس جزو لازم کی ضرورت سبھی نے محسوس کی ہے، کسی نے اس ضرورت کو حدیث سے پورا کیا، کسی نے اپنی رائے سے اور کسی نے قانون ساز اسمبلی کو اختیار دے کر اس خلاء کو پورا کرنے کی کوشش کی، تاہم اس احساس ضرورت میں سب متفق رہے کہ جب تک قرآن کریم کے ساتھ کوئی اور چیز نہ ملائی جائے،ان مجملاتِ قرآنی کی عملی تشکیل ممکن نہیں۔

محتملاتِ قرآنی میں حدیث کی ضرورت :

قرآن پاک میں جو امور مذکور ہیں ان میں بھی بہت سے ایسے مقامات بھی ہیں جہاں آیات قرآنی کئی کئی وجوہ کی محتمل ہیں، ان کی تعیین بھی بدون اس جزولازم کے کسی طرح قطعی واضح اورآسان نہیں اور اس پہلو پر بھی ہر مکتب خیال کی شہادت موجود ہے، سیدنا حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا:ترجمہ: بیشک تمہارے پاس کچھ ایسے لوگ بھی آئیں گے جو قرآنی شبہات پیش کر کے تم سے جھگڑنے لگیں گے، ایسے وقت میں تم سنتوں سے تمسک کرنا؛ کیونکہ اصحاب سنن ہی کتاب اللہ کو زیادہ جانتے ہیں۔(سنن الدارمی،باب التورع عن الجواب فیما،حدیث نمبر:۱۲۱)
قرآن کریم کی آیات جہاں کئی کئی وجوہ کی محتمل ہوں وہاں ان کا حل پائے بغیر ہم دین کی پوری سمجھ پا نہیں سکتے۔جو لوگ اس ضرورت کو حدیث سے پورا کرنا نہیں چاہتے وہ اس ضرورت کا حل مرکز ملت اور قوم کی پنچایت تجویز کرتے ہیں،گویہ بات غلط ہے ؛لیکن اس میں بھی اس بات کا اقرار ہے کہ قرآن پاک کے ساتھ ایک جز و لازم کی بہرحال ضرورت باقی تھی، جسے وہ اب اس طرح پورا کررہے ہیں۔
پیغمبرﷺ کی مرکزی حیثیت
یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے جو مسلمانوں کو خواہ وہ کسی ملک کے ہوں، کسی دور کے ہوں، کسی نسل کے ہوں، کسی رنگ کے ہوں اور کسی طبقے کے ہوں ایک لڑی میں پروتی ہے،یہ حدیث کا فیضان ہے کہ ہندوستان، انڈونیشیا، ترکی، مصر، شام، انگلستان، افغانستان، جرمنی اورامریکہ کے رہنے والے سب مسلمان ایک طرح نماز پڑھتے ہیں، ایک طرح روزے رکھتے ہیں،سب ایک نصاب سے زکوٰۃ دیتے ہیں، نکاح و طلاق اورپیدائش واموات میں سب ایک ہی راہ پر چلتے ہیں، مادیت کے اس دور میں یہ تو ہو رہا ہے کہ کئی لوگ عملاً مذہب سے دور چلے گئے؛ لیکن اگر کوئی دین کی طرف رجوع کرے اوراس پر عمل کرنا چاہے تو راہ وہی ملے گی جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہؓ نے قائم کی اوراس راہ کے چراغ وہی ہوں گے،جو حضور اکرمﷺ نے روشن کئے، تاریخ میں نہیں ملتا کہ ان نجوم ہدایت کے بغیر کسی طبقے یا فردنے اسلام کی کوئی راہ عمل طے کی ہو۔
جو لوگ قرآن پاک کے ساتھ مرکز ملت کے فیصلوں کو جزو لازم ٹھہراتے ہیں اور وہ اس طرح قرآنی مجملات کی تشکیل چاہتے ہیں، ان کی یہ رائے محض ایک نظری درجے میں ہے جس نے اسلام کی پوری تاریخ میں کبھی حقیقت واقعہ کا لباس نہیں پہنا اور نہ تاریخ کے کسی دور میں کبھی اس طرح قرآنی معاشرے کی تشکیل ہوئی ہے، اس کی تائید مزید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس تجویز کےحامیوں نے اسے اشاعت اسلام کے عنوان سے نہیں، ہمیشہ طلوع اسلام کے نام سے پیش کیا ہے،جو اسلام آج سے چودہ سو سال پہلے طلوع ہوا تھا، اس میں قرآن کریم کے ساتھ جزو لازم حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اورصحابہ کرام کی عملی راہیں تھیں اور اب اسلام کے نئے طلوع میں یہ تجویز ہے، کہ قرآن کریم کے ساتھ مرکز ملت کو جزولازم ٹھہرایا جائے اور حدیث سے جان چھڑا لی جائے۔
یہ نئی تجویز محض نظری بات ہے، اس نئے تخیل سے اسلام کی چودہ سو سالہ عملی تاریخ کو چھوڑا نہیں جاسکتا، جب اسلام کے سنہری زمانے Golden Age (خلافت راشدہ) میں بھی حدیث ہی قرآن کے ساتھ جزو لازم تھی تو آج کے بے عمل دور میں وہ کون سانیا چراغ ہوگا جو قوم میں زندگی کی حرارت پیدا کرسکے گا۔

اشارات قرآنی میں حدیث کی ضرورت

مجملاتِ قرآنی ہی نہیں جن کے لیے حدیث کے جزو لازم کی ضرورت ہے،قرآن کریم میں ایسے اشارات بھی ملتے ہیں جنھیں روایات کو ساتھ ملائے بغیر سمجھنا بہت مشکل ہے ؛پھر یہ اشارات کبھی عدد ی صورت میں ہوتے ہیں کبھی واقعاتی صورت میں اور ہر جگہ اس کی وضاحت ضروری ہے۔
عددی اشارات
۱)”وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَى”۔ (یٰسن:۲۰)
اس آیت میں وہ ایک شخص کون تھا جو کسی دور مقام سے دوڑتا ہوا آیا تھا؟ قرآن میں اس کی طرف اشارہ ہے؛ مگراس کا نام وپتہ کہیں نہیں ملتا۔
۲)”ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ”۔ (التوبہ:۴۰)
اس آیت میں دو کون تھے جن میں سے ایک دوسرے کو کہہ رہا تھا اللہ ہم دونوں کے ساتھ ہے، نام کہاں ہیں؟۔
۳)”وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا”۔ (التوبہ:۱۸)
اس آیت میں تین کون تھے جن پر زمین اپنی ساری وسعتوں کے باوجود تنگ کردی گئی تھی۔
۴)”مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ”۔ (التوبہ:۳۶)
اس آیت میں چار مہینے کون سے تھے جن میں لڑائی لڑنا عہد جاہلیت میں ممنوع تھا؟ ان حرمت کے مہینوں کے نام کیا ہیں؟۔
۵)”خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ”۔ (الکہف:۲۲)
اس آیت میں پانچ کون تھے جن میں چھٹا ان کا کتا تھا؟۔
۶)”سِتَّةِ أَيَّامٍ”۔ (الاعراف:۵۴)
اس آیت میں چھ دن کون سے تھے جن کے بعد رب العزت نے عرش پر اجلال فرمایا۔
۷)”وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ۔(البقرۃ:۱۹۶)
اس آیت میں سات روزے کس ترتیب سے عمل میں آئیں گے؟ اور رجعتم سے مراد مطلق واپسی ہوگی یا گھر کو واپسی۔
۸)”يَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ”۔ (الحاقہ:۱۷)
اس آیت میں آٹھ فرشتے کون ہیں جو حشر کے دن عرش باری تعالی اٹھائیں گے۔
۹)”فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ”۔ (النمل:۴۸)
اس آیت میں نو قبیلے کون سے تھے؟۔
۱۰)”فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ”۔ (ھود:۱۳)
اس آیت میں دس سورتیں کون سی تھیں جن کے مثل انہیں دس سورتیں لانے کا چیلنج دیا گیا تھا۔
۱۱)”إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا”۔ (یوسف:۴)
اس آیت میں گیارہ ستارے کون تھے۔
۱۲)”وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا”۔ (المائدہ:۱۲)
اس آیت میں بارہ نقیب کون تھے،جو اللہ تعالی نے بنی اسرائیل میں اٹھائے تھے۔
واقعاتی اشارات
۱)”فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ”۔ (البقرۃ:۵۹)
اس آیت میں صورت واقعہ کیا تھی، ان لوگوں نے کون سی بات بدلی تھی اورکس بات کے عوض؟
۲)”وَإِذْأَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا”۔ (التحریم:۳)
اس آیت میں وہ حدیث پیغمبر کیا تھی جو آپ نے اپنی کسی بیوی کو بطور راز کہی تھی؟
۳)”مَاقَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْتَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا”۔ (الحشر:۵)
اس آیت میں کن درختوں کے کاٹنے اورکن کو اپنی بنیادوں پر چھوڑنے کا واقعہ یہاں مذکور ہے۔
۴)”عَبَسَ وَتَوَلَّى، أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَى”۔ (عبس:۱)
اس آیت میں وہ کون تھا جس کی پیشانی پر ایک نابینا خادم کے چلے آنے سے بل آگئے؟ اس نے تیور چڑھالی اورمنہ موڑلیا کہ اس کے پاس نابینا آیا، تیور کس نے چڑھائی؟ نابینا کون تھا اور یہ واقعہ کیا تھا؟۔
۵)”إِذْهُمَا فِي الْغَارِ إِذْيَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَاتَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا”۔ (التوبہ:۴۰)
ترجمہ:جس وقت وہ دونوں غار میں تھے جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا تو غم نہ کر بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
غار میں کون سب تھے؟ کب کا واقعہ ہے؟ کون سے غار کی بات ہے؟۔
۶)”إِذْأَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَى وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنْكُمْ”۔(الانفال:۴۲)
جس وقت تم تھے ورلے کنارے پر اور وہ پرلے کنارے پر اور قافلہ نیچے اتر گیا تھا تم سے۔
۷)”وَإِذْيَعِدُكُمُ اللَّهُ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ”۔(الانفال:۷)
ترجمہ:اورجس وقت وعدہ کررہا تھا تم سے خدا دو جماعتوں میں سے ایک کا کہ وہ تمہارے ہاتھ لگے گی اور تم چاہتے تھے کہ جس میں کانٹا نہ لگے وہ تم کو ملے۔
اس قسم کے اشارات روایات کو ساتھ ملائے بغیر نہ سمجھے جاسکتے ہیں اورنہ سمجھائے جاسکتے ہیں۔

مشکلات قرآنی میں حدیث کی ضرورت

قرآن پاک اپنی اصولی دعوت میں بہت آسان ہے، اس میں نصیحت کے ابواب ایسے پیرائے میں لائے گئے ہیں کہ جو شخص بھی دل رکھتا ہو اورکان دھرے،اس سے اثر لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔”وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ”۔ (القمر:۱۷)
ترجمہ: اور بیشک ہم نے قرآن نصیحت لینے کے لیے آسان کردیا ہے سو ہےکوئی سمجھنے والا؟۔”
إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ”۔ (ق:۳۷)
ترجمہ: بے شک اس میں نصیحت ہے ہر اس شخص کے لیے جس کے پاس دل ہو یا وہ کان لگا سکے اور گواہی دے سکے۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کریم میں حقائق غامضہ موجود نہیں ہیں۔اس کتاب الہٰی میں حقائق کا سمندر موجیں ماررہا ہے، بڑے بڑے فضلاء اس سے موتی چنتے رہے اورچن رہے ہیں،لیکن اس کی اتھاہ گہرائیوں پر از خود کوئی قابونہیں پاسکتا، صحابہ کرامؓ جن کے سامنے قرآن نازل ہوا تھا اوران کی اپنی زبان بھی عربی تھی، حضورﷺ کے فیض تربیت سے ان کے قلوب تزکیہ اورتصفیہ پاچکے تھے؛پھر بھی انہوں نے بعض آیات قرآنی کے سمجھنے میں دقت محسوس کی اورجب تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت نہ فرمائی وہ آیات ان کے لیے آسان نہ ہوسکیں،قرآن کریم کے ساتھ حدیث ایک جز ولازم کے طورپر ہمیشہ کار فرما اورہدایت پیرا رہی ہے۔
۱)”الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ”۔(الانعام:۸۲)
ترجمہ:جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمانوں میں کوئی ظلم شامل نہ کیا ہو، وہ لوگ ہیں جنہیں ہمیشہ کا امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (۳۴ھ) کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرامؓ سہم گئے اورانہوں نے حضورؐ سے عرض کیا۔”
وَاینا  لم یظلم؟”۔ ترجمہ:ہم میں سے کس نے ظلم نہ کیا۔اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے، جیسا کہ ارشاد ہے”إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ “۔(بخاری،باب ظلم دون ظلم،حدیث نمبر:۳۱)
اس حدیث سے قرآن پاک کی یہ آیت حل ہوگئی اورصحابہ کرامؓ کے دل مطمئن ہو گئے اوران کا تردد جاتا رہا، مراد آیت کی یہ ہے کہ جو شخص ایمان لائے اورپھر اس میں اللہ تعالی کی ذات وصفات میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے،وہ عذاب سے مامون اورہدایت یافتہ ہے۔(معارف القرآن:۳/۳۸۷)
۲)”وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ”۔(التوبہ:۳۴)
 ترجمہ: اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کئے رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کردیتے،آپ ان کو دردناک عذاب کی خبر دیجئے۔
حضرت امیر معاویہؓ نے فرمایا کہ یہ آیت ہم مسلمانوں کے بارے میں نہیں اہل کتاب کے بارے میں ہے،حضرت ابوذر غفاریؓ نے فرمایا کہ نہیں ہمارے اوران کے دونوں کے بارے میں ہے۔ (بخاری:۶/۸۲)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا: یہ صورت اس پہلے دور سے متعلق ہے جب کہ زکوۃ کا حکم نہیں اترا تھا جب زکوٰۃ کا حکم آگیا تو خدا تعالی نے اسے (زکوٰۃ کو) سارے مال کی پاکیز گی کا سبب بنادیا۔(بخاری،بَاب مَا أُدِّيَ زَكَاتُهُ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ،حدیث نمبر:۱۳۱۶)
سو حدیث نے فرمایا کہ یہاں جمع کرنے کا معنی یہ ہے کہ اس کی زکوٰۃ نہ دی جائے، زکوٰۃ دینے سے وہ اکتناز (مال جمع رکھنا) کے ذیل میں نہیں آتا، اب اس کا مال پاک ہوچکا ہے۔ حضرت عمربن الخطابؓ کہتے ہیں کہ میں نے خود حضوراکرمﷺ سے اس بارے میں پوچھا آپ نے فرمایا: (اللہ تعالی نے زکوٰۃ اس لیے فرض کی ہے کہ اس سے تمہارے باقی اموال پاک کردیئے جائیں۔ ابو داؤد،باب فی حقوق المال، حدیث نمبر:۱۴۱۷
اسلام میں اگر کسی صورت میں بھی مال جمع کرنے کی اجازت نہ ہوتی تو شریعت محمدی میں مال کی زکوٰۃ اورمیراث کی تقسیم کا قانون نہ ہوسکتا تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا ارشاد سے صحابہؓ کے دل مطمئن ہوگئے اوران کا تردد جاتا رہا۔
2)”وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ”۔ (البقرۃ:۱۸۷)
ترجمہ: اورکھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ سفید اور سیاہ دھاگے میں تمھیں فرق معلوم ہونے لگے۔
حضرت عدی بن حاتمؓ (۶۷ھ) نے سفید اورسیاہ دھاگے اپنے تکئے کے نیچے رکھ لیے؛ تاکہ جب دونوں ایک دوسرے سے ممتاز ہونے لگیں تو اس سے وہ اپنے روزے کی ابتداء کرلیا کریں، حضرت سہل بن سعدؓ (۹۸۱ھ) کہتے ہیں: کچھ لوگ جنہوں نے روزے کی نیت کی ہوتی وہ اپنے دونوں پاؤں سے سفید اورسیاہ دھاگے باندھ رہتے اور برابر سحری کھاتے رہتے؛یہاں تک کہ وہ دونوں دھاگے آپس میں ممتاز نہ ہوجائیں۔(بخاری،باب قولہ وکلوا واشربوا حتی یتبین،حدیث نمبر:۴۱۵۱)
اس سے پتہ چلا کہ صرف عدی بن حاتمؓ ہی نہ تھے جو یہاں مراد قرآنی نہ سمجھ پائے ؛بلکہ اور بھی کئی لوگ تھے جنہوں نے سفید اور سیاہ دھاگوں کو ان کے ظاہر پر رکھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عدی بن حاتمؓ کو سمجھا یا کہ یہاں سفید اورسیاہ دھاگے سے مراد دن کی سفیدی اورشب کی سیاہی ہے۔
اللہ تعالی نے اس کے بعد من الفجر کے الفاظ نازل فرمائے، بخاری شریف میں ہے:
فَأَنْزَلَ اللَّهُ بَعْدَهُ {مِنْ الْفَجْرِ}”۔ (بخاری، بَاب أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَام،حدیث نمبر:۴۱۵۱)۔اس سے سب سمجھ گئے کہ یہاں دن اور رات کا ایک دوسرے سے ممتاز ہونا مراد ہے۔
اس سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ حضورﷺ نے جس طرح اس آیت کی وضاحت فرمائی وہی مراد ربانی تھی اور بعد کی وحی قرآنی نے واضح طور پر وہی بات کہی جو آپ نے پہلے بطور تفسیر کہی تھی وہاں یہ بھی پتہ چلا کہ قرآن پاک اگر پیغمبر پر نازل نہ ہوتا کہیں دھرامل جاتا تو اس کے کئی مقامات عربوں میں بھی اپنے معنی مراد کے ساتھ واضح نہ ہوتے۔

توسیعات قرآن میں حدیث کی ضرورت

قرآن پاک کی بعض آیات میں کچھ بنیادی اصول ہوتے ہیں،جب یہ دریافت ہوجائیں تو ان کا پھیلاؤ اپنی لپیٹ میں کچھ اورجزئیات کو بھی لے آتا ہے، یہ ساری ذمہ داری مجتہدین پر نہیں چھوڑی گئی ؛بلکہ حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بعض قرآنی اصول کی توسیعات فرمائی، قرآنی توسیعات میں حدیث کی رہنمائی یقین کا فائدہ بخشتی ہے۔
۱)”أَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّامَاقَدْ سَلَفَ”۔ (النساء:۲۳)
ترجمہ: اوریہ حرام ہے کہ تم دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرو، ہاں جو پہلے ہوچکا، ہوچکا۔
ایک شخص کے نکاح میں جمع ہوکر دو بہنوں میں کھچاؤ پیدا ہونے کا قوی مظنہ تھا،قرآن کریم کے اس حکم میں یہ حکمت تھی کہ وہ صلہ رحمی جو بہنوں میں ہونی چاہئے پامال نہ ہو اور ایک خاندان (بیوی کے خاندان) سے دو متقابل رشتے قائم نہ ہو اورنہ باہم مودت پامال ہو۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اصل شرعی کی پوری حفاظت فرمائی اوراس علت کو پھوپھی بھتیجی اورخالہ بھانجی تک پھیلادیا کہ یہ بھی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہیں ہوسکتیں، آپ نے اس قرآنی اصل “أَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ” کی توسیع فرمادی،محدث ابن حبان (۳۵۴ھ) روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”انکن اذا فعلتن ذلک قطعتن ارحامکن”۔ (نیل الاوطار:۶/۱۵۷) ترجمہ: اگر تم نے ایسا کیا تو تم نے قطع رحمی کی۔
قرآنی اصل کی توسیع میں حدیث کا فیصلہ قطعی اور یقینی ہوتا ہے،مجتہد اصل حکم دریافت کرکے اسے کتنی ہی جزئیات پر پھیلائے، ظنیت پھر بھی قائم رہتی ہے،حدیث صریح والی قطعیت اس میں نہیں آتی ۔قرآنی احکام کی توسیع میں صرف حدیث قطعی ہے۔
(
۲)شریعت اسلامی میں نسب و صہر کے رشتوں کے ساتھ دودھ کے رشتے حرام کئے گئے ہیں،ان سے نکاح جائز نہیں، قرآن کریم میں ہے:
وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ”۔(النساء:۲۳)
ترجمہ: تمہاری دودھ کی مائیں اور بہنیں بھی تم پر حرام کی گئی ہیں،یعنی تم ان سے نکاح نہیں کرسکتے۔
قرآن کریم نے دودھ کے رشتوں میں صرف ماں اور بہن کا ذکر کیا ہے،اس قرآنی اصل کی توسیع میں رضاعی خالہ اور رضاعی پھوپھی بھی آجاتی ہیں، حدیث نے اسے بیان کرکے قرآنی اصول کو پھیلادیا اورایک بڑی ضرورت پوری کردی، رضاعی حرمت کا تعلق صرف اس دودھ پلانے والی ہی سے نہیں رہے گا؛ بلکہ اس کا خاوند بھی دودھ کے رشتے میں باپ تسلیم کیا جائے گا اور اس کے لیے یہ دودھ پینے والی بچی حکماً بیٹی ہوگی، اس قسم کے مسائل جو اصول و علل پر مبنی ہوں اپنی توسیع میں کئی جزئیات کو شامل ہوتے ہیں، ان توسیعات قرآنی میں حدیث کی اشد ضرورت ہے۔
  ۳  )قرآن کریم نے سود کی حرمت بیان کی،اس حکم کے تحت اور کئی کاروبار بھی آتے تھے، حدیث نے اس حکم کی علت کو پھیلادیا،قرآن کریم نے تو اتنا فرمایا:  وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا”۔ (البقرۃ:۲۷۵)
ترجمہ: اللہ تعالی نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔
یہ سود کی حرمت کا بیان ہے،لیکن اس حکم کی علت اورحرمت اپنی لپیٹ میں کئی تجارتوں کو بھی شامل تھی،حضوراکرمﷺ نے سونا، چاندی، گندم، جو، کھجور اور نمک چھ چھ چیزوں کی بیع و شراء میں حکم دیا کہ اگر ان کا باہمی تبادلہ کیا جائے تو برابر سرابر اورنقد دست بدست ہونا چاہئے، ان میں ادھار کیا گیا یا مقدار میں کمی بیشی کی گئی تو وہ بھی سود ہوجائے گا، آنحضرتﷺ نے درخت پر لگے پھلوں اورٹوٹے پھولوں کے مابین اورکئے ہوئے صاف غلے اورکھڑی فصلوں کے باہمی سودے کو بھی سود میں داخل کیا ؛کیوں کہ ان میں صورتوں میں کمی بیشی کا امکان بہر صورت موجود رہتا تھا، قرآن کریم میں جس سود کا ذکر ہے اس سے جلی طور پر وہی سود مراد ہے جو قرض پر لیا جاتا تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ایک دوسری قسم کے سود کا علم ہوا جو عنواناً سود نہ تھا، لیکن اس میں سود کی اصل لپٹی تھی،امام طحاویؒ (۳۲۱ھ) لکھتے ہیں:
اس سود کے حرام ہونے پر بھی حضورﷺ کی متواتر احادیث وارد ہیں،اس قسم کے سود کی تفصیل پہلے موجود نہ تھی،اس لیے صحابہ کرامؓ کو اشکال ہوا اور فقہاء کے بھی اختلاف ہوئے”۔(شرح معانی آلاثار:۲/۲۳۲)
جاہلیت میں سود کا لفظ پورا متعارف تھا اور اس سے وہ زیادتی مراد تھی جو قرض ادھار پر لی جاتی تھی، حدیث نے اس کی علت اورسبب کی نشاندہی بھی کردی اورجس جس بیع و شراء میں اس کا اثر آتا تھا اسے بھی حرام قرار دے دیا،حدیث قرآنی اصل کی توسیع میں بنیادی کام کرتی ہے اوراس سے مسئلہ میں قطیعت بھی آجاتی ہے جو صرف اجتہاد و مجتہد سے نہیں آتی۔

خلاصہ:

اس ساری بحث (Discussion) کا حاصل یہ ہے کہ قرآن پاک کے لیے ایک ایسے جز ولازم کی ضرورت ہے جو اس کے مجملات کی عملی تشکیل کرے،اشارات کی تفصیل کرے،مشکلات کی توضیح کرے،اصول و علل کی توسیع کرے اور زندگی کے ان ہزار ہا مسائل کو جو قرآن پاک میں منصوص نہیں،ایسا استناد مہیا کرے جس کے تحت ہزاروں جزئیات قرآن پاک کے تحت جمع ہوجائیں اوران کا واضح اورکامیاب حل سامنے آجائے اور قرآن پاک کی شان جامعیت اپنی جگہ قائم رہے۔ یہی جزو کلام و تشریحات نبوت (حدیث) ہے،حضور اکرم صلیﷺ کی ذات گرامی نے اپنی حدیث/ سنت اورقرآنی معاشرے کے پاکیزہ افراد صحابہ کرامؓ کے ذریعہ اسلام کووہ استناد مہیا کیا کہ اس میں ہر ضرورت کا حل ہر سوال کا جواب، ہرالجھن کا سلجھاؤ ملا اورہر اضطراب کو شفاء ملی،آنحضرتﷺ قیامت تک کے لیے نبی بنا کے بھیجے گئے،آپ کی تعلیمات کی قیامت تک حفاظت حدیث ہی کے ذریعے ہی ہوئی۔ آپ کی بعثت کا مقصد قرآن پاک پہچانا ہی نہ تھا، کتاب الہٰی کی تعلیم بھی تھی اوراللہ تعالی کی نگرانی میں ایک قرآنی معاشرے کی تشکیل بھی تھی، آپ نے قرآن وحکمت کی تعلیم اورصحابہؓ کے تزکیہ باطن سے ایک اچھا معاشرہ بھی تشکیل دیا،آپ نے زندگی کے لا تعداد مسائل کو ایسا استناد بخشا کہ ہم زندگی کے کسی گوشے میں بھی اپنے آپ کو تشنہ کام نہیں پاتے،یوں کہیے حدیث علم کے ہر باب میں ہمیں شفا بخشتی ہے۔یہ صحیح ہے کہ قرآن کریم شریعت کا اول علمی ماخذ ہے؛ لیکن قرآن کریم کی کسی آیت میں اگر مفہوم کا کہیں اختلاف ہو اوروہاں دورائیں قائم ہوسکتی ہوں اور صاحب قرآن ﷺ کسی ایک معنی کی تعیین کردیں تو یہ بات  حرف آخر  ہوگی۔  قرآن پاک میں بیان قرآن کا حق آپ کوہی دیا گیا ہے۔
وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ”۔(النحل:۴۴)
ترجمہ:اور(اے پیغمبر!)ہم نے تم پر بھی یہ قرآن اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُن باتوں کی واضح تشریح کردو جو اُن کے لیے اتاری گئی ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر سے کام لیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين ، والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين .