بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ
الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام
عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہنچنے کا حکم
روز مرہ کے تقریباً ۸۰ فیصد پریکٹیکل مسائل میں امت مسلمہ متفق ہے، کیونکہ شریعت اسلامیہ کا واضح حکم موجود ہے۔ البتہ چند اسباب کی وجہ سے روز مرہ کے تقریباً ۲۰ فیصد پریکٹیکل مسائل میں زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے اور ان میں سے بعض اسباب یہ ہیں:
* نص فہمی میں اختلاف : ( یعنی قرآن وحدیث کی عبارت سمجھنے میں اختلاف ہوجائے) مثلاً اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاءَ (سورہ النساء ۴۳)۔ علماء کی ایک جماعت نے اس آیت سے نواقض وضو مراد لیا ہے کہ عورت کو چھوتے ہی وضوٹوٹ جاتا ہے۔ جبکہ دیگر مفسرین وفقہاء مثلاً امام ابوحنیفہ ؒ نے اس آیت سے نواقض غسل مراد لیا ہے کہ صحبت کرنے سے غسل واجب ہوتا ہے، عورت کو صرف چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔ غرضیکہ نص فہمی میں اختلاف ہوا جس کی وجہ سے بعض مسائل میں اختلاف ہوگیا۔
* ناسخ ومنسوخ کو طے کرنے میں اختلاف : (یعنی حضور اکرم ا کا آخری عمل کونسا ہے؟) مثلاًنبی اکرم اسے رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین کا کرنا اور نہ کرنا دونوں احادیث سے ثابت ہے، البتہ نبی اکرم ا کا آخری عمل کیا ہے ، اس سلسلہ میں اختلاف ہے۔
* جدید استنباطی مسائل: نئے نئے مسائل میں اختلاف کا ہونا بدیہی ہے، کیونکہ ہر مجتہد وفقیہ کو اختیار ہے کہ وہ نئے مسائل کا حل قرآن وسنت کی روشنی میں تلاش کرے۔ مثال کے طور پر اپنے جسم کے کسی عضو (مثلاً کڈنی) کو ہبہ کرنے کا مسئلہ۔
* کسی معین حدیث یا کسی خاص موضوع سے متعلق احادیث کو قابل قبول ماننے میں اختلاف ہوجائے (مثلاًموضوع بحث مسئلہ)۔
انہی ۲۰ فیصد مختلف فیہ مسائل میں قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہونچنے کا مسئلہ بھی ہے ۔ اس مسئلہ میں زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے۔ علماء وفقہاء کی ایک جماعت کی رائے ہے کہ قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا ، ان علماء وفقہاء میں سے حضرت امام شافعی ؒ اور حضرت امام مالک ؒ بھی ہیں، جبکہ دوسری جماعت کی رائے ہے کہ قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہنچتا ہے ، ان علماء وفقہاء میں سے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ ، حضرت امام احمد ابن حنبل ؒ نیز حضرت امام شافعی ؒ اور حضرت امام مالک ؒ کے متعدد شاگرد بھی ہیں۔
علامہ قرطبی ؒ نے اپنی کتاب تذکرۃ فی احوال الموتی میں تحریر کیا ہے کہ اس باب میں اصل صدقہ ہے جس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے تو جس طرح سے صدقہ کا ثواب میت کو پہونچتا ہے، قرآن کریم پڑھنے، دعا اور استغفار کا ثواب بھی میت کو پہونچے گا کیونکہ یہ بھی صدقات ہی ہیں، اور جن حضرات نے امام شافعی ؒ کے متعلق گمان کیا ہے کہ وہ میت پرقرآن کریم پڑھنے کو ناجائز قرار دیتے ہیں، وہ غلط ہے۔ کیونکہ صرف اختلاف اس میں ہے کہ اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے یا نہیں۔ امام شافعی ؒ اور دیگر جمہور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہونچے گا اگر پڑھنے والا اللہ تعالیٰ سے پہنچنے کی دعا کرتا ہے۔ اور جن حضرات نے کہا ہے کہ قرآن کریم پڑھنے کا ثواب نہیں پہونچتا، تو یہ اس وقت ہے جب کہ پڑھنے والا اللہ تعالیٰ سے پہونچنے کی دعا نہ کرے۔ (تذکرۃ فی احوال الموتی للقرطبی) غرضیکہ علامہ قرطبی ؒ کی تحقیق کے مطابق اکثر علماء کی رائے میں قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہونچتا ہے۔
اس موضوع سے متعلق چند احادیث شریفہ :
* حضرت عائشہؓ ، حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت جابرؓ، حضرت ابورافع ؓ ، حضرت ابو طلحہ ؓ انصاری اور حضرت حذیفہ ؓ کی متفقہ روایت ہے کہ رسول اللہ انے دو مینڈھے قربان کئے۔ ایک اپنی طرف سے اور دوسرا امت کی طرف سے۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد، ابن ماجہ، طبرانی، مستدرک اور ابن ابی شیبہ ) ۔ امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قربانی کاثواب دوسروں حتی کہ زندوں کو بھی پہنچتا ہے ۔
* ایک شخص نے رسول اللہ اسے عرض کیا کہ میری ماں کا اچانک انتقال ہوگیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ ضرور صدقہ کرنے کے لئے کہتیں۔ اب اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا ان کے لئے اجر ہے؟ رسول اللہ انے فرمایا: ہاں۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد، ابو داؤد، نسائی)۔ امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ صدقہ کاثواب میت حتی کہ زندوں کو بھی پہنچتا ہے ۔
* حضرت سعدؓ بن عبادہ نے حضور اکرم اسے پوچھا کہ میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کروں؟ آپ انے فرمایا: ہاں۔ (مسند احمد، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ) ۔ اسی مضمون کی متعدد دوسری روایات حضرت عائشہؓ ، حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے بخاری، مسلم ، مسند احمد، نسائی، ترمذی، ابوداؤد اور ابن ماجہ وغیرہ میں موجود ہیں، جن میں رسول اللہ ا نے میت کی طرف سے صدقہ کرنے کی اجازت دی ہے اور اسے میت کے لئے نافع بتایا ہے۔
* حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ کی روایت ہے کہ ان کے دادا عاص بن وائل نے زمانۂ جاہلیت میں سو اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی تھی۔ ان کے چچا ہشام بن العاص نے اپنے حصہ کے پچاس اونٹ ذبح کردئے۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے رسول اللہ اسے پوچھا کہ میں کیا کروں۔ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ اگر تمہارے باپ نے توحید کا اقرار کرلیا تھا تو تم ان کی طرف سے روزہ رکھو یا صدقہ کرو وہ ان کے لئے نافع ہوگا۔ (مسند احمد)
* رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: جب کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کی تدفین میں جلدی کرو۔ اس کے سرہانے کی طرف سورۂ فاتحہ اور پیروں کی طرف سورۂ البقرہ کا آخر پڑھو۔ (علامہ حافظ ابن حجر ؒ نے بخاری شریف کی شرح میں تحریر کیا ہے کہ یہ حدیث طبرانی نے صحیح (حسن) سند کے ساتھ ذکر کی ہے) ۔
* صحابہ کرام سے بھی نبی اکرم اکے مذکورہ فرمان پر عمل کرنا ثابت ہے جیسا کہ امام بیہقی ؒ نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے میت کے سرہانے کی طرف سورۂ فاتحہ اور پیروں کی طرف سورۂ البقرہ کا آخری رکوع پڑھنے کا عمل ذکرکیا ہے۔ مسلم کی مشہور شرح لکھنے والے امام نووی ؒ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ( الاذکار ) ۔
* رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: سورۂ یس قرآن کریم کا دل ہے، جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کا قرب اور آخرت میں بھلائی حاصل کرنے کی غرض سے اسے پڑھے گا، وہ اس کو حاصل ہوگی۔ اور اس سورہ کو اپنے مُردوں پر پڑھا کرو۔ (مسند احمد، ابن ابی شیبہ، ابوداؤد، ابن ماجہ، صحیح ابن حبان، سنن بیہقی، نسائی) محدثین کی ایک جماعت نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، علماء کرام کی ایک بڑی جماعت نے اسی اور دیگر احادیث کی بنیاد پر میت پر قرآن کریم پڑھنے کو جائز قرار دیا ہے، جبکہ دیگر محدثین نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن محدثین کا اصول ہے کہ فضائل کے سلسلہ میں ضعیف حدیث معتبر ہوتی ہے جیسا کہ امام نووی ؒ نے جمہور علماء کے قول کو تحریر فرمایا ہے۔
* رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: کوئی شخص حالت نزاع میں ہو اور اس کے پاس سورۂ یس پڑھی جائے تو اللہ تعالیٰ اس پر نزاع کی حالت کو آسان فرمادیتا ہے۔ (مسند للدیلمی، نیل الاوطارشرح منتقی الاخبار من احادیث سید الاخیار للقاضی الشوکانی)
* حضرت انسؓ سے مرفوعاً روایت ہے : اگر کوئی قبرستان میں سورۂ یس پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس قبرستان کے مُردوں سے عذاب قبر کو کم کردیتا ہے۔ شیخ عبد العزیزؒ (صاحب الخلال )نے اس کی تخریج کی ہے۔ اس حدیث کو امام محمد بن عبد الوہاب ؒ نے اپنی کتاب احکام تمنی الموت میں ، امام حافظ الزیلعیؒ نے کنز الدقائق کی شرح میں اور امام ابن قدامہ حنبلی ؒ نے اپنی کتاب المغنی ،کتاب الجنائز میں ذکر کیا ہے۔ امام ابن قدامہ حنبلی ؒ نے اپنی اس مشہور کتاب المغنی ،کتاب الجنائز میں ایک اور حدیث ذکر فرمائی ہے کہ نبی اکرم انے ارشاد فرمایا: جس کسی شخص نے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کی قبر پر سورۂیس پڑھی تو میت کی مغفرت کردی جاتی ہے۔
مشہور ومعروف محدث حضرت ابو مغیرہ ؒ کہتے ہیں کہ حضرت صفوان ؒ نے فرمایا کہ مشائخ کہا کرتے تھے کہ اگر میت پر سورۂ یس پڑھی جاتی ہے تواس کی برکت سے اس کے ساتھ تخفیف کامعاملہ کیا جاتا ہے۔ (مسند احمد) امام احمد بن حنبل ؒ نے حضرت ابو مغیرہ ؒ سے متعدد احادیث نقل کی ہیں۔ شیخ محب الدین الطبری ؒ اور علامہ الشوکانی ؒ نے فرمایا ہے کہ اس سے مرنے کے بعد کسی کی قبر پر سورۂ یس پڑھنا مراد ہے۔
* رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: جس شخص کا قبرستان پر گزر ہو اور وہ گیارہ مرتبہ قل ھو اللہ احد پڑھ کر اس کا ثواب مرنے والوں کو بخش دے تو پڑھنے والے کو مردوں کی تعداد کے برابر ثواب ملے گا۔ (دار قطنی)
* رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: جو شخص قبرستان میں داخل ہوکر سورۂ فاتحہ، قل ہو اللہ احد اور الہاکم التکاثر پڑھے، پھر کہے کہ میں نے جو پڑھا ہے اس کا ثواب ان حضرات کو پہونچایا جو اس قبرستان میں مدفون ہیں تو وہ حضرات کل قیامت کے دن اس شخص کے لئے اللہ تعالیٰ سے شفاعت کریں گے۔ (دار قطنی)
* حضرت عبد الرحمن بن العلاء ؒ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد نے فرمایا کہ جب میں انتقال کرجاؤں تو بسمِ اللّہِ وعَلَی سُنَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ کہہ کر لحد والی قبر میں دفن کردینا اور میرے سرہانے سورۂ فاتحہ پڑھنا، اس لئے کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کو اس طرح فرماتے ہوئے سنا ہے۔ (اخرجہ الخلال فی الجامع "کتاب القراء ۃ عند القبور")
علامہ حافظ ابن قیم ؒ نے اس حدیث کو اپنی کتاب "الروح" میں ذکر کیا ہے، نیز انہوں نے تحریر فرمایا ہے کہ سلف صالحین کی ایک جماعت نے کتابوں میں تحریر کیا ہے کہ انہوں نے وصیت کی کہ دفن کے وقت ان کی قبر پر قرآن کریم پڑھا جائے۔
* ایک شخص نے رسول اللہ اسے عرض کیا کہ میں اپنے والدین کی خدمت ان کی زندگی میں تو کرتا رہا، ان کے انتقال کے بعد کیسے خدمت کروں؟ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: ان کے ساتھ نیکی یہ ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ ان کے لئے بھی نماز پڑھو اور اپنے روزہ کے ساتھ ان کے لئے بھی روزہ رکھو ۔ (دار قطنی)
علامہ حافظ الزیلعی ؒ نے اپنی کتاب "شرح کنز الدقائق" میں، امام ابن الہمامؒ نے "فتح القدیر" میں اور شیخمحمد العربی بن التبانی المالکی المغربی ؒ نے اپنی کتاب "اسعاف المسلمین والمسلمات بجواز ووصول ثوابہا الی الاموات" میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔
* رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: والدین کے ساتھ نیکی یہ ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ ان کے لئے نماز پڑھو ، اپنے روزہ کے ساتھ ان کے لئے بھی روزہ رکھو ، اپنے صدقہ کے ساتھ ان کے لئے بھی صدقہ کرو۔ (المصنف للشیخ ابن ابی شیبہ) اور امام محمد بن عبد الوہاب ؒ نے اس حدیث کو اپنی کتاب "احکام تمنی الموت" میں ذکر کیا ہے۔
* حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ قبیلہ خشعم کی ایک عورت نے رسول اللہ اسے عرض کیا کہ میرے باپ کو فریضۂ حج کا حکم ایسی حالت میں پہنچا ہے کہ وہ بہت بوڑھے ہوچکے ہیں، اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ بھی نہیں سکتے ہیں۔ آپ انے ارشاد فرمایا: تم ان کی طرف سے حج ادا کرو۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد، ترمذی، نسائی)
* حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ قبیلہ خشعم ہی کے ایک مرد کا ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بوڑھے باپ کے متعلق یہی سوال کیا تھا۔ رسول اللہ انے فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تمہارے باپ پر قرض ہو اور تم اس کو ادا کردو تو وہ ان کی طرف سے ادا ہوجائے گا؟ اس شخص نے کہا جی ہاں۔ تو آپ انے ارشاد فرمایا: بس اسی طرح تم ان کی طرف سے حج ادا کرو۔ (مسند احمد، نسائی)
* حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ قبیلۂ جہینہ کی ایک عورت نے نبی اکرم اسے سوال کیا کہ میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی مگر وہ اس سے پہلے ہی مرگئیں۔ اب کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کرسکتی ہوں؟ رسول اللہ انے فرمایا : تیری ماں پر اگر قرض ہوتا تو کیا تو اس کو ادا نہیں کرتی، اسی طرح تم لوگ اللہ کا حق بھی ادا کرو۔ اور اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کے ساتھ کئے ہوئے عہد پورے کئے جائیں۔ (بخاری، نسائی)
* حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نے حضور اکرم اسے پوچھا : میری ماں نے روزہ کی نذر مانی تھی اور وہ پوری کئے بغیر مرگئیں، تو کیا میں ان کی طرف سے روزہ رکھ سکتی ہوں؟ حضور اکرم ا نے ارشاد فرمایا : ان کی طرف سے روزہ رکھ لو۔ (بخاری، مسلم ، مسند احمد، نسائی)
حضرت بریدہؓ کی ایک روایت ہے کہ ایک عورت نے حضور اکرم اسے اپنی ماں کے متعلق پوچھا کہ ان کے ذمہ ایک مہینے (یا دوسری روایت کے مطابق دو مہینے) کے روزے تھے، کیا میں یہ روزے ادا کردوں؟ آپ نے ان کو اس کی اجازت دی۔ (مسلم، مسند احمد، ترمذی، ابو داؤد)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اکرم انے ارشاد فرمایا : مَنْ مَاتَ وَعَلَےْہِ صِےَامٌ صَامَ عَنْہُ وَلِیُّہُ جوشخص انتقال کرجائے اور اس کے ذمہ کچھ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزہ رکھ لے ۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد)
(وضاحت) : ان احادیث میں دوسروں کی طرف سے نماز اور روزہ رکھنے کا جو ذکر آیا ہے، ان سے نفلی یا نذر کی نماز اور روزہ مراد ہیں، کیونکہ دیگر احادیث میں فرض نماز یا رمضان کے روزہ کے متعلق واضح حکم موجود ہے کہ وہ دوسروں کی طرف سے ادا نہیں کئے جاسکتے ہیں بلکہ اس کے لئے فدیہ ہی ادا کرنا ہوگا۔
رسول اللہ انے ارشاد فرمایا : گھر والوں کے میت پر (بلند آواز کے ساتھ) رونے کی وجہ سے میت کو عذاب دیا جاتا ہے۔ (بخاری، مسلم)
جن علماء وفقہاء کی رائے میں قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا ہے، وہ عموماً مندرجہ ذیل ۲ دلائل پیش کرتے ہیں:
* اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی۔ وَاَنْ لَّےْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعَی کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ آدمی کو وہی ملتا ہے جو اس نے کمایا۔ (سورہ النجم ۳۸ ۔ ۳۹)
اگر اس آیت کے عموم سے قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو نہیں پہنچ سکتا ہے تو پھر ایصال ثواب، قربانی اور حج بدل وغیرہ کرناسب ناجائز ہوجائیں گے،بلکہ دوسرے کے حق میں دعائے استغفار حتی کہ نمازِ جنازہ بھی بے معنی ہوجائے گی، کیونکہ یہ اعمال بھی اُس شخص کا اپنا عمل نہیں ہے جس کے حق میں دعا کی جارہی ہے۔ بلکہ اِس سے مراد یہ ہے کہ عمومی طور پر ہر شخص اپنے ہی عمل کی جزا یا سزا پائے گا۔ لیکن باپ یا بیوی یا کسی قریبی رشہ دار کے انتقال کے بعد اگر کوئی شخص ان کی جنازہ کی نماز پڑھتا ہے یا ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتا ہے یا ان کی طرف سے حج یا عمرہ کرتا ہے یا قربانی کرتا ہے یا صدقہ کرتا ہے یا اللہ تعالیٰ کے پاک کلام کی تلاوت کرکے اس کا ثواب میت کو پہونچاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اِس عمل کو قبول فرماکر میت کو اس کا ثواب عطا فرمائے گا ان شاء ا للہ ، خواہ میت گناہ گار ہی کیوں نہ ہو، لیکن اگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے میت کو ثواب نہیں ملا تو ان شاء اللہ ان اعمال کو کرنے والے کی طرف اس کا اجر پلٹ کر آئے گا، جس طرح منی آرڈر اگرپانے والے کو نہیں ملتا ہے تو بھیجنے والے کو واپس مل جاتا ہے۔
* رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: انسان کے انتقال کے بعد اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے مگر تین عمل : صدقۂ جاریہ، ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور نیک لڑکے کی دعا جو وہ اپنے والد کے لئے کرے۔ (ابن ماجہ ، ابن خزیمہ)
آپ کا یہ ارشاد صرف ان مذکورہ تین اعمال کی خاص اہمیت کو بتلانے کے لئے ہے۔ اگر اس حدیث کو عام رکھا جائے توبیٹے کی ماں کے لئے یا بھائی کی بہن کے لئے یا کسی شخص کی اپنے متعلقین اور رشتہ داروں کے لئے دعا، استغفار اور جنازہ کی نماز سب بے معنی ہوجائیں گی۔ رسول اکرم اکے ارشادات میں اس طرح کی متعدد مثالیں ملتی ہیں، جیسے نبی اکرم انے ارشاد فرمایا کہ جس نے نماز فجر اور عصر کی پابندی کرلی تو ووہ جنت میں داخل ہوگیا۔(بخاری ،مسلم) اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم صرف ان دو وقت کی نماز کی پابندی کرلیں، باقی جو چاہیں کریں،ہمارا جنت میں داخلہ یقینی ہے۔ نہیں ، ہر گز ایسا نہیں ہے، بلکہ نبی اکرم ا کا یہ ارشاد ان دو نمازوں کی خاص اہمیت کو بتلانے کے لئے ہے کیونکہ جو ان دو نمازوں کی پابندی کرے گا وہ ضرور دیگر نمازوں کا اہتمام کرنے والا ہوگا، اور نمازوں کا واقعی اہتمام کرنے والا دیگر ارکان کی ادائیگی کرنے والا بھی ہوگا، ان شاء اللہ۔ اسی طرح اس حدیث میں ان تین اعمال کی صرف خاص اہمیت بتلائی گئی ہے۔
خلاصۂ کلام: جیسا کہ ابتداء میں تحریر کیا گیا ہے کہ شریعت اسلامیہ کا واضح حکم موجود ہونے کی وجہ سے روز مرہ کے ۸۰ فیصد پریکٹیکل مسائل میں امت مسلمہ متفق ہے، جس میں کسی طرح کا کوئی اشکال ہی نہیں ہے۔ البتہ بعض مندرجہ بالا اسباب کی وجہ سے روز مرہ کے۲۰ فیصد پریکٹیکل مسائل میں زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے، جن کا نہ آج تک کوئی حل ہوا ہے اور نہ ہی حل کی بظاہر کوئی خاص امید ہے، اور نہ ہی ہمیں اِن مختلف فیہ مسائل کو حل کرنے کا مکلف بنایا گیا ہے۔ اس کا حل کل قیامت کے روز ہی ہوگا جیسا کہ سعودی عرب کے مشہور عالم دین شیخ ڈاکٹر عائض القرنی نے ہندوستان کے حالیہ سفر کے دوران اپنی تقریر کے دوران فرمایا تھا۔
لہذا ہمیں اختیار ہے کہ ہم جن علماء کے ساتھ عقیدت رکھتے ہیں یا جن سے قرآن وحدیث کا علم حاصل کرتے ہیں، انہی علماء کی سرپرستی میں ان ۲۰ فیصد مسائل پر دوسری رائے کا احترام کرتے ہوئے عمل کریں، ا لّا یہ کہ دوسری رائے شریعتِ اسلامیہ کے واضح احکامات کے خلاف ہو۔
انہی مختلف فیہ مسائل میں قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہونچنے کا مسئلہ ہے ۔ علماء وفقہاء کی ایک جماعت کی رائے ہے کہ قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا ۔ جبکہ دوسری جماعت کی رائے ہے کہ حج، زکاۃ، قربانی اور صدقات کی طرح قرآن کریم پڑھنے کا ثواب بھی میت کو پہنچتا ہے ، ان علماء وفقہاء میں سے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور حضرت امام احمد ابن حنبل ؒ ہیں۔ حضرت امام شافعی ؒ اور حضرت امام مالک ؒ کے بعض اصحاب کی رائے بھی یہی ہے کہ میت کو قرآن کریم پڑھنے کا ثواب پہنچتا ہے ، جیساکہ امام نوویؒ نے اپنی کتاب الاذکار اور امام سیوطی ؒ نے اپنی کتاب شرح الصدور میں تحریر فرمایا ہے ۔ امام حافظ قاضی القضاۃ تقی الدین السبکی الشافعیؒ نے اپنی کتاب "قضاء الارب فی اسئلۃ حلب" میں قرآن کریم پڑھنے کے ثواب کو میت کے لئے ہبہ کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔
علامہ ابن تیمیہ ؒ نے بھی قرآن کریم پڑھنے کے ثواب کو میت کے لئے ہبہ کرنے کو جائز قرار دیا ہے (مجموعہ فتاوی ابن تیمیہ ، جزء ۲۴)۔ امام احمد بن حنبل ؒ کے شاگرد امام ابو بکر المروزی ؒ نے کہا ہے کہ میں نے امام احمد بن حنبل ؒ سے سنا ہے کہ جب تم قبرستان میں داخل ہو تو آیت الکرسی، پھر تین مرتبہ قل ہو اللہ احد پڑھو ۔ اس کے بعد کہو کہ یا اللہ اس کا ثواب قبرستان والوں کو پہونچا۔ (المقصد الارشد فی ذکر اصحاب الامام احمد )۔ سعودی عرب کی مجلس قضاء اعلیٰ کے سابق صدر شیخ عبد اللہ بن محمد بن حمید ؒ نے اس موضوع پر ۱۶ صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ تحریر فرمایا ہے جس میں علماء کے اقوال دلائل کے ساتھ تحریر فرمائے ہیں کہ اکثر علماء کی رائے یہی ہے کہ قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہونچایا جاسکتا ہے۔
کیونکہ احادیث سے مالی اور مالی و بدنی مرکب عبادات میں نیابت کا واضح ثبوت ملتا ہے، جس پر ساری امت مسلمہ متفق ہے۔ رہی خالص بدنی عبادت تو متعدد احادیث سے اس میں بھی نیابت کاجواز ثابت ہوتاہے۔ نیکیوں کی بعض اقسام کو مستثنیٰ کرنے کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ نیز قرآن وحدیث میں کسی بھی جگہ قرآن کریم کی تلاوت کرکے میت کو اس کا ثواب پہونچانے سے منع نہیں کیا گیا ہے۔ نیز آدمی جس طرح مزدوری کرکے مالک سے یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کی اجرت میرے بجائے فلاں شخص کو دے دو، اسی طرح وہ کوئی نیک عمل کرکے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کرسکتا ہے کہ اس کا اجر میری طرف سے فلاں شخص کو عطا کردیا جائے۔ لہذا ہمیں قرآن کریم کی تلاوت کرکے اپنے مُردوں کو اس کا ثواب پہنچانا چاہئے، لیکن اس کے لئے کسی وقت کی تعیین کرنا غلط ہے، بلکہ جب بھی موقع ملے اور جتنی توفیق ہو، قرآن کریم کی تلاوت فرمائیں اور میت کو اس کا ثواب پہونچائیں اور اس کے لئے دعائے مغفرت فرمائیں۔
واللہ اعلم بالصواب۔ مولانا محمد نجیب قاسمی سنبھلی
روز مرہ کے تقریباً ۸۰ فیصد پریکٹیکل مسائل میں امت مسلمہ متفق ہے، کیونکہ شریعت اسلامیہ کا واضح حکم موجود ہے۔ البتہ چند اسباب کی وجہ سے روز مرہ کے تقریباً ۲۰ فیصد پریکٹیکل مسائل میں زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے اور ان میں سے بعض اسباب یہ ہیں:
* نص فہمی میں اختلاف : ( یعنی قرآن وحدیث کی عبارت سمجھنے میں اختلاف ہوجائے) مثلاً اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاءَ (سورہ النساء ۴۳)۔ علماء کی ایک جماعت نے اس آیت سے نواقض وضو مراد لیا ہے کہ عورت کو چھوتے ہی وضوٹوٹ جاتا ہے۔ جبکہ دیگر مفسرین وفقہاء مثلاً امام ابوحنیفہ ؒ نے اس آیت سے نواقض غسل مراد لیا ہے کہ صحبت کرنے سے غسل واجب ہوتا ہے، عورت کو صرف چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔ غرضیکہ نص فہمی میں اختلاف ہوا جس کی وجہ سے بعض مسائل میں اختلاف ہوگیا۔
* ناسخ ومنسوخ کو طے کرنے میں اختلاف : (یعنی حضور اکرم ا کا آخری عمل کونسا ہے؟) مثلاًنبی اکرم اسے رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین کا کرنا اور نہ کرنا دونوں احادیث سے ثابت ہے، البتہ نبی اکرم ا کا آخری عمل کیا ہے ، اس سلسلہ میں اختلاف ہے۔
* جدید استنباطی مسائل: نئے نئے مسائل میں اختلاف کا ہونا بدیہی ہے، کیونکہ ہر مجتہد وفقیہ کو اختیار ہے کہ وہ نئے مسائل کا حل قرآن وسنت کی روشنی میں تلاش کرے۔ مثال کے طور پر اپنے جسم کے کسی عضو (مثلاً کڈنی) کو ہبہ کرنے کا مسئلہ۔
* کسی معین حدیث یا کسی خاص موضوع سے متعلق احادیث کو قابل قبول ماننے میں اختلاف ہوجائے (مثلاًموضوع بحث مسئلہ)۔
انہی ۲۰ فیصد مختلف فیہ مسائل میں قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہونچنے کا مسئلہ بھی ہے ۔ اس مسئلہ میں زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے۔ علماء وفقہاء کی ایک جماعت کی رائے ہے کہ قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا ، ان علماء وفقہاء میں سے حضرت امام شافعی ؒ اور حضرت امام مالک ؒ بھی ہیں، جبکہ دوسری جماعت کی رائے ہے کہ قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہنچتا ہے ، ان علماء وفقہاء میں سے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ ، حضرت امام احمد ابن حنبل ؒ نیز حضرت امام شافعی ؒ اور حضرت امام مالک ؒ کے متعدد شاگرد بھی ہیں۔
علامہ قرطبی ؒ نے اپنی کتاب تذکرۃ فی احوال الموتی میں تحریر کیا ہے کہ اس باب میں اصل صدقہ ہے جس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے تو جس طرح سے صدقہ کا ثواب میت کو پہونچتا ہے، قرآن کریم پڑھنے، دعا اور استغفار کا ثواب بھی میت کو پہونچے گا کیونکہ یہ بھی صدقات ہی ہیں، اور جن حضرات نے امام شافعی ؒ کے متعلق گمان کیا ہے کہ وہ میت پرقرآن کریم پڑھنے کو ناجائز قرار دیتے ہیں، وہ غلط ہے۔ کیونکہ صرف اختلاف اس میں ہے کہ اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے یا نہیں۔ امام شافعی ؒ اور دیگر جمہور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہونچے گا اگر پڑھنے والا اللہ تعالیٰ سے پہنچنے کی دعا کرتا ہے۔ اور جن حضرات نے کہا ہے کہ قرآن کریم پڑھنے کا ثواب نہیں پہونچتا، تو یہ اس وقت ہے جب کہ پڑھنے والا اللہ تعالیٰ سے پہونچنے کی دعا نہ کرے۔ (تذکرۃ فی احوال الموتی للقرطبی) غرضیکہ علامہ قرطبی ؒ کی تحقیق کے مطابق اکثر علماء کی رائے میں قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہونچتا ہے۔
اس موضوع سے متعلق چند احادیث شریفہ :
* حضرت عائشہؓ ، حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت جابرؓ، حضرت ابورافع ؓ ، حضرت ابو طلحہ ؓ انصاری اور حضرت حذیفہ ؓ کی متفقہ روایت ہے کہ رسول اللہ انے دو مینڈھے قربان کئے۔ ایک اپنی طرف سے اور دوسرا امت کی طرف سے۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد، ابن ماجہ، طبرانی، مستدرک اور ابن ابی شیبہ ) ۔ امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قربانی کاثواب دوسروں حتی کہ زندوں کو بھی پہنچتا ہے ۔
* ایک شخص نے رسول اللہ اسے عرض کیا کہ میری ماں کا اچانک انتقال ہوگیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ ضرور صدقہ کرنے کے لئے کہتیں۔ اب اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا ان کے لئے اجر ہے؟ رسول اللہ انے فرمایا: ہاں۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد، ابو داؤد، نسائی)۔ امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ صدقہ کاثواب میت حتی کہ زندوں کو بھی پہنچتا ہے ۔
* حضرت سعدؓ بن عبادہ نے حضور اکرم اسے پوچھا کہ میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کروں؟ آپ انے فرمایا: ہاں۔ (مسند احمد، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ) ۔ اسی مضمون کی متعدد دوسری روایات حضرت عائشہؓ ، حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے بخاری، مسلم ، مسند احمد، نسائی، ترمذی، ابوداؤد اور ابن ماجہ وغیرہ میں موجود ہیں، جن میں رسول اللہ ا نے میت کی طرف سے صدقہ کرنے کی اجازت دی ہے اور اسے میت کے لئے نافع بتایا ہے۔
* حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ کی روایت ہے کہ ان کے دادا عاص بن وائل نے زمانۂ جاہلیت میں سو اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی تھی۔ ان کے چچا ہشام بن العاص نے اپنے حصہ کے پچاس اونٹ ذبح کردئے۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے رسول اللہ اسے پوچھا کہ میں کیا کروں۔ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ اگر تمہارے باپ نے توحید کا اقرار کرلیا تھا تو تم ان کی طرف سے روزہ رکھو یا صدقہ کرو وہ ان کے لئے نافع ہوگا۔ (مسند احمد)
* رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: جب کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کی تدفین میں جلدی کرو۔ اس کے سرہانے کی طرف سورۂ فاتحہ اور پیروں کی طرف سورۂ البقرہ کا آخر پڑھو۔ (علامہ حافظ ابن حجر ؒ نے بخاری شریف کی شرح میں تحریر کیا ہے کہ یہ حدیث طبرانی نے صحیح (حسن) سند کے ساتھ ذکر کی ہے) ۔
* صحابہ کرام سے بھی نبی اکرم اکے مذکورہ فرمان پر عمل کرنا ثابت ہے جیسا کہ امام بیہقی ؒ نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے میت کے سرہانے کی طرف سورۂ فاتحہ اور پیروں کی طرف سورۂ البقرہ کا آخری رکوع پڑھنے کا عمل ذکرکیا ہے۔ مسلم کی مشہور شرح لکھنے والے امام نووی ؒ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ( الاذکار ) ۔
* رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: سورۂ یس قرآن کریم کا دل ہے، جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کا قرب اور آخرت میں بھلائی حاصل کرنے کی غرض سے اسے پڑھے گا، وہ اس کو حاصل ہوگی۔ اور اس سورہ کو اپنے مُردوں پر پڑھا کرو۔ (مسند احمد، ابن ابی شیبہ، ابوداؤد، ابن ماجہ، صحیح ابن حبان، سنن بیہقی، نسائی) محدثین کی ایک جماعت نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، علماء کرام کی ایک بڑی جماعت نے اسی اور دیگر احادیث کی بنیاد پر میت پر قرآن کریم پڑھنے کو جائز قرار دیا ہے، جبکہ دیگر محدثین نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن محدثین کا اصول ہے کہ فضائل کے سلسلہ میں ضعیف حدیث معتبر ہوتی ہے جیسا کہ امام نووی ؒ نے جمہور علماء کے قول کو تحریر فرمایا ہے۔
* رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: کوئی شخص حالت نزاع میں ہو اور اس کے پاس سورۂ یس پڑھی جائے تو اللہ تعالیٰ اس پر نزاع کی حالت کو آسان فرمادیتا ہے۔ (مسند للدیلمی، نیل الاوطارشرح منتقی الاخبار من احادیث سید الاخیار للقاضی الشوکانی)
* حضرت انسؓ سے مرفوعاً روایت ہے : اگر کوئی قبرستان میں سورۂ یس پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس قبرستان کے مُردوں سے عذاب قبر کو کم کردیتا ہے۔ شیخ عبد العزیزؒ (صاحب الخلال )نے اس کی تخریج کی ہے۔ اس حدیث کو امام محمد بن عبد الوہاب ؒ نے اپنی کتاب احکام تمنی الموت میں ، امام حافظ الزیلعیؒ نے کنز الدقائق کی شرح میں اور امام ابن قدامہ حنبلی ؒ نے اپنی کتاب المغنی ،کتاب الجنائز میں ذکر کیا ہے۔ امام ابن قدامہ حنبلی ؒ نے اپنی اس مشہور کتاب المغنی ،کتاب الجنائز میں ایک اور حدیث ذکر فرمائی ہے کہ نبی اکرم انے ارشاد فرمایا: جس کسی شخص نے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کی قبر پر سورۂیس پڑھی تو میت کی مغفرت کردی جاتی ہے۔
مشہور ومعروف محدث حضرت ابو مغیرہ ؒ کہتے ہیں کہ حضرت صفوان ؒ نے فرمایا کہ مشائخ کہا کرتے تھے کہ اگر میت پر سورۂ یس پڑھی جاتی ہے تواس کی برکت سے اس کے ساتھ تخفیف کامعاملہ کیا جاتا ہے۔ (مسند احمد) امام احمد بن حنبل ؒ نے حضرت ابو مغیرہ ؒ سے متعدد احادیث نقل کی ہیں۔ شیخ محب الدین الطبری ؒ اور علامہ الشوکانی ؒ نے فرمایا ہے کہ اس سے مرنے کے بعد کسی کی قبر پر سورۂ یس پڑھنا مراد ہے۔
* رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: جس شخص کا قبرستان پر گزر ہو اور وہ گیارہ مرتبہ قل ھو اللہ احد پڑھ کر اس کا ثواب مرنے والوں کو بخش دے تو پڑھنے والے کو مردوں کی تعداد کے برابر ثواب ملے گا۔ (دار قطنی)
* رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: جو شخص قبرستان میں داخل ہوکر سورۂ فاتحہ، قل ہو اللہ احد اور الہاکم التکاثر پڑھے، پھر کہے کہ میں نے جو پڑھا ہے اس کا ثواب ان حضرات کو پہونچایا جو اس قبرستان میں مدفون ہیں تو وہ حضرات کل قیامت کے دن اس شخص کے لئے اللہ تعالیٰ سے شفاعت کریں گے۔ (دار قطنی)
* حضرت عبد الرحمن بن العلاء ؒ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد نے فرمایا کہ جب میں انتقال کرجاؤں تو بسمِ اللّہِ وعَلَی سُنَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ کہہ کر لحد والی قبر میں دفن کردینا اور میرے سرہانے سورۂ فاتحہ پڑھنا، اس لئے کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کو اس طرح فرماتے ہوئے سنا ہے۔ (اخرجہ الخلال فی الجامع "کتاب القراء ۃ عند القبور")
علامہ حافظ ابن قیم ؒ نے اس حدیث کو اپنی کتاب "الروح" میں ذکر کیا ہے، نیز انہوں نے تحریر فرمایا ہے کہ سلف صالحین کی ایک جماعت نے کتابوں میں تحریر کیا ہے کہ انہوں نے وصیت کی کہ دفن کے وقت ان کی قبر پر قرآن کریم پڑھا جائے۔
* ایک شخص نے رسول اللہ اسے عرض کیا کہ میں اپنے والدین کی خدمت ان کی زندگی میں تو کرتا رہا، ان کے انتقال کے بعد کیسے خدمت کروں؟ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: ان کے ساتھ نیکی یہ ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ ان کے لئے بھی نماز پڑھو اور اپنے روزہ کے ساتھ ان کے لئے بھی روزہ رکھو ۔ (دار قطنی)
علامہ حافظ الزیلعی ؒ نے اپنی کتاب "شرح کنز الدقائق" میں، امام ابن الہمامؒ نے "فتح القدیر" میں اور شیخمحمد العربی بن التبانی المالکی المغربی ؒ نے اپنی کتاب "اسعاف المسلمین والمسلمات بجواز ووصول ثوابہا الی الاموات" میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔
* رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: والدین کے ساتھ نیکی یہ ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ ان کے لئے نماز پڑھو ، اپنے روزہ کے ساتھ ان کے لئے بھی روزہ رکھو ، اپنے صدقہ کے ساتھ ان کے لئے بھی صدقہ کرو۔ (المصنف للشیخ ابن ابی شیبہ) اور امام محمد بن عبد الوہاب ؒ نے اس حدیث کو اپنی کتاب "احکام تمنی الموت" میں ذکر کیا ہے۔
* حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ قبیلہ خشعم کی ایک عورت نے رسول اللہ اسے عرض کیا کہ میرے باپ کو فریضۂ حج کا حکم ایسی حالت میں پہنچا ہے کہ وہ بہت بوڑھے ہوچکے ہیں، اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ بھی نہیں سکتے ہیں۔ آپ انے ارشاد فرمایا: تم ان کی طرف سے حج ادا کرو۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد، ترمذی، نسائی)
* حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ قبیلہ خشعم ہی کے ایک مرد کا ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بوڑھے باپ کے متعلق یہی سوال کیا تھا۔ رسول اللہ انے فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تمہارے باپ پر قرض ہو اور تم اس کو ادا کردو تو وہ ان کی طرف سے ادا ہوجائے گا؟ اس شخص نے کہا جی ہاں۔ تو آپ انے ارشاد فرمایا: بس اسی طرح تم ان کی طرف سے حج ادا کرو۔ (مسند احمد، نسائی)
* حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ قبیلۂ جہینہ کی ایک عورت نے نبی اکرم اسے سوال کیا کہ میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی مگر وہ اس سے پہلے ہی مرگئیں۔ اب کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کرسکتی ہوں؟ رسول اللہ انے فرمایا : تیری ماں پر اگر قرض ہوتا تو کیا تو اس کو ادا نہیں کرتی، اسی طرح تم لوگ اللہ کا حق بھی ادا کرو۔ اور اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کے ساتھ کئے ہوئے عہد پورے کئے جائیں۔ (بخاری، نسائی)
* حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نے حضور اکرم اسے پوچھا : میری ماں نے روزہ کی نذر مانی تھی اور وہ پوری کئے بغیر مرگئیں، تو کیا میں ان کی طرف سے روزہ رکھ سکتی ہوں؟ حضور اکرم ا نے ارشاد فرمایا : ان کی طرف سے روزہ رکھ لو۔ (بخاری، مسلم ، مسند احمد، نسائی)
حضرت بریدہؓ کی ایک روایت ہے کہ ایک عورت نے حضور اکرم اسے اپنی ماں کے متعلق پوچھا کہ ان کے ذمہ ایک مہینے (یا دوسری روایت کے مطابق دو مہینے) کے روزے تھے، کیا میں یہ روزے ادا کردوں؟ آپ نے ان کو اس کی اجازت دی۔ (مسلم، مسند احمد، ترمذی، ابو داؤد)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اکرم انے ارشاد فرمایا : مَنْ مَاتَ وَعَلَےْہِ صِےَامٌ صَامَ عَنْہُ وَلِیُّہُ جوشخص انتقال کرجائے اور اس کے ذمہ کچھ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزہ رکھ لے ۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد)
(وضاحت) : ان احادیث میں دوسروں کی طرف سے نماز اور روزہ رکھنے کا جو ذکر آیا ہے، ان سے نفلی یا نذر کی نماز اور روزہ مراد ہیں، کیونکہ دیگر احادیث میں فرض نماز یا رمضان کے روزہ کے متعلق واضح حکم موجود ہے کہ وہ دوسروں کی طرف سے ادا نہیں کئے جاسکتے ہیں بلکہ اس کے لئے فدیہ ہی ادا کرنا ہوگا۔
رسول اللہ انے ارشاد فرمایا : گھر والوں کے میت پر (بلند آواز کے ساتھ) رونے کی وجہ سے میت کو عذاب دیا جاتا ہے۔ (بخاری، مسلم)
جن علماء وفقہاء کی رائے میں قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا ہے، وہ عموماً مندرجہ ذیل ۲ دلائل پیش کرتے ہیں:
* اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی۔ وَاَنْ لَّےْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعَی کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ آدمی کو وہی ملتا ہے جو اس نے کمایا۔ (سورہ النجم ۳۸ ۔ ۳۹)
اگر اس آیت کے عموم سے قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو نہیں پہنچ سکتا ہے تو پھر ایصال ثواب، قربانی اور حج بدل وغیرہ کرناسب ناجائز ہوجائیں گے،بلکہ دوسرے کے حق میں دعائے استغفار حتی کہ نمازِ جنازہ بھی بے معنی ہوجائے گی، کیونکہ یہ اعمال بھی اُس شخص کا اپنا عمل نہیں ہے جس کے حق میں دعا کی جارہی ہے۔ بلکہ اِس سے مراد یہ ہے کہ عمومی طور پر ہر شخص اپنے ہی عمل کی جزا یا سزا پائے گا۔ لیکن باپ یا بیوی یا کسی قریبی رشہ دار کے انتقال کے بعد اگر کوئی شخص ان کی جنازہ کی نماز پڑھتا ہے یا ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتا ہے یا ان کی طرف سے حج یا عمرہ کرتا ہے یا قربانی کرتا ہے یا صدقہ کرتا ہے یا اللہ تعالیٰ کے پاک کلام کی تلاوت کرکے اس کا ثواب میت کو پہونچاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اِس عمل کو قبول فرماکر میت کو اس کا ثواب عطا فرمائے گا ان شاء ا للہ ، خواہ میت گناہ گار ہی کیوں نہ ہو، لیکن اگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے میت کو ثواب نہیں ملا تو ان شاء اللہ ان اعمال کو کرنے والے کی طرف اس کا اجر پلٹ کر آئے گا، جس طرح منی آرڈر اگرپانے والے کو نہیں ملتا ہے تو بھیجنے والے کو واپس مل جاتا ہے۔
* رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: انسان کے انتقال کے بعد اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے مگر تین عمل : صدقۂ جاریہ، ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور نیک لڑکے کی دعا جو وہ اپنے والد کے لئے کرے۔ (ابن ماجہ ، ابن خزیمہ)
آپ کا یہ ارشاد صرف ان مذکورہ تین اعمال کی خاص اہمیت کو بتلانے کے لئے ہے۔ اگر اس حدیث کو عام رکھا جائے توبیٹے کی ماں کے لئے یا بھائی کی بہن کے لئے یا کسی شخص کی اپنے متعلقین اور رشتہ داروں کے لئے دعا، استغفار اور جنازہ کی نماز سب بے معنی ہوجائیں گی۔ رسول اکرم اکے ارشادات میں اس طرح کی متعدد مثالیں ملتی ہیں، جیسے نبی اکرم انے ارشاد فرمایا کہ جس نے نماز فجر اور عصر کی پابندی کرلی تو ووہ جنت میں داخل ہوگیا۔(بخاری ،مسلم) اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم صرف ان دو وقت کی نماز کی پابندی کرلیں، باقی جو چاہیں کریں،ہمارا جنت میں داخلہ یقینی ہے۔ نہیں ، ہر گز ایسا نہیں ہے، بلکہ نبی اکرم ا کا یہ ارشاد ان دو نمازوں کی خاص اہمیت کو بتلانے کے لئے ہے کیونکہ جو ان دو نمازوں کی پابندی کرے گا وہ ضرور دیگر نمازوں کا اہتمام کرنے والا ہوگا، اور نمازوں کا واقعی اہتمام کرنے والا دیگر ارکان کی ادائیگی کرنے والا بھی ہوگا، ان شاء اللہ۔ اسی طرح اس حدیث میں ان تین اعمال کی صرف خاص اہمیت بتلائی گئی ہے۔
خلاصۂ کلام: جیسا کہ ابتداء میں تحریر کیا گیا ہے کہ شریعت اسلامیہ کا واضح حکم موجود ہونے کی وجہ سے روز مرہ کے ۸۰ فیصد پریکٹیکل مسائل میں امت مسلمہ متفق ہے، جس میں کسی طرح کا کوئی اشکال ہی نہیں ہے۔ البتہ بعض مندرجہ بالا اسباب کی وجہ سے روز مرہ کے۲۰ فیصد پریکٹیکل مسائل میں زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے، جن کا نہ آج تک کوئی حل ہوا ہے اور نہ ہی حل کی بظاہر کوئی خاص امید ہے، اور نہ ہی ہمیں اِن مختلف فیہ مسائل کو حل کرنے کا مکلف بنایا گیا ہے۔ اس کا حل کل قیامت کے روز ہی ہوگا جیسا کہ سعودی عرب کے مشہور عالم دین شیخ ڈاکٹر عائض القرنی نے ہندوستان کے حالیہ سفر کے دوران اپنی تقریر کے دوران فرمایا تھا۔
لہذا ہمیں اختیار ہے کہ ہم جن علماء کے ساتھ عقیدت رکھتے ہیں یا جن سے قرآن وحدیث کا علم حاصل کرتے ہیں، انہی علماء کی سرپرستی میں ان ۲۰ فیصد مسائل پر دوسری رائے کا احترام کرتے ہوئے عمل کریں، ا لّا یہ کہ دوسری رائے شریعتِ اسلامیہ کے واضح احکامات کے خلاف ہو۔
انہی مختلف فیہ مسائل میں قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہونچنے کا مسئلہ ہے ۔ علماء وفقہاء کی ایک جماعت کی رائے ہے کہ قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا ۔ جبکہ دوسری جماعت کی رائے ہے کہ حج، زکاۃ، قربانی اور صدقات کی طرح قرآن کریم پڑھنے کا ثواب بھی میت کو پہنچتا ہے ، ان علماء وفقہاء میں سے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور حضرت امام احمد ابن حنبل ؒ ہیں۔ حضرت امام شافعی ؒ اور حضرت امام مالک ؒ کے بعض اصحاب کی رائے بھی یہی ہے کہ میت کو قرآن کریم پڑھنے کا ثواب پہنچتا ہے ، جیساکہ امام نوویؒ نے اپنی کتاب الاذکار اور امام سیوطی ؒ نے اپنی کتاب شرح الصدور میں تحریر فرمایا ہے ۔ امام حافظ قاضی القضاۃ تقی الدین السبکی الشافعیؒ نے اپنی کتاب "قضاء الارب فی اسئلۃ حلب" میں قرآن کریم پڑھنے کے ثواب کو میت کے لئے ہبہ کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔
علامہ ابن تیمیہ ؒ نے بھی قرآن کریم پڑھنے کے ثواب کو میت کے لئے ہبہ کرنے کو جائز قرار دیا ہے (مجموعہ فتاوی ابن تیمیہ ، جزء ۲۴)۔ امام احمد بن حنبل ؒ کے شاگرد امام ابو بکر المروزی ؒ نے کہا ہے کہ میں نے امام احمد بن حنبل ؒ سے سنا ہے کہ جب تم قبرستان میں داخل ہو تو آیت الکرسی، پھر تین مرتبہ قل ہو اللہ احد پڑھو ۔ اس کے بعد کہو کہ یا اللہ اس کا ثواب قبرستان والوں کو پہونچا۔ (المقصد الارشد فی ذکر اصحاب الامام احمد )۔ سعودی عرب کی مجلس قضاء اعلیٰ کے سابق صدر شیخ عبد اللہ بن محمد بن حمید ؒ نے اس موضوع پر ۱۶ صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ تحریر فرمایا ہے جس میں علماء کے اقوال دلائل کے ساتھ تحریر فرمائے ہیں کہ اکثر علماء کی رائے یہی ہے کہ قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہونچایا جاسکتا ہے۔
کیونکہ احادیث سے مالی اور مالی و بدنی مرکب عبادات میں نیابت کا واضح ثبوت ملتا ہے، جس پر ساری امت مسلمہ متفق ہے۔ رہی خالص بدنی عبادت تو متعدد احادیث سے اس میں بھی نیابت کاجواز ثابت ہوتاہے۔ نیکیوں کی بعض اقسام کو مستثنیٰ کرنے کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ نیز قرآن وحدیث میں کسی بھی جگہ قرآن کریم کی تلاوت کرکے میت کو اس کا ثواب پہونچانے سے منع نہیں کیا گیا ہے۔ نیز آدمی جس طرح مزدوری کرکے مالک سے یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کی اجرت میرے بجائے فلاں شخص کو دے دو، اسی طرح وہ کوئی نیک عمل کرکے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کرسکتا ہے کہ اس کا اجر میری طرف سے فلاں شخص کو عطا کردیا جائے۔ لہذا ہمیں قرآن کریم کی تلاوت کرکے اپنے مُردوں کو اس کا ثواب پہنچانا چاہئے، لیکن اس کے لئے کسی وقت کی تعیین کرنا غلط ہے، بلکہ جب بھی موقع ملے اور جتنی توفیق ہو، قرآن کریم کی تلاوت فرمائیں اور میت کو اس کا ثواب پہونچائیں اور اس کے لئے دعائے مغفرت فرمائیں۔
واللہ اعلم بالصواب۔ مولانا محمد نجیب قاسمی سنبھلی
طالب دعاء : اكبر حسين اوركزائ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں