اتوار، 9 جولائی، 2017

قضائے حاجت کے شرعی احکام

          جی ہاں ، کیوں نہیں!! ”ہمارے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سب کچھ ہی سکھلایا ہے، اور استنجے سے متعلق بھی ضروری ہدایات دی ہیں“۔یہ تاریخی کلمات حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ان مشرکین کے جواب میں ارشاد فرمائے تھے جو بطورِ استہزاء اور طنز کہہ رہے تھے کہ ”تمہارے نبی تو تمہیں پیشاب پاخانہ کرنے کے طریقے بھی سکھاتے ہیں!“
          حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے مزید یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ہمیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ پاخانہ یا پیشاب کے وقت ہم قبلہ کی طرف رُخ کریں یا یہ کہ ہم داہنے ہاتھ سے استنجا کریں، یا یہ کہ ہم استنجے میں تین پتھرون سے کم استعمال کریں، یا یہ کہ ہم کسی چوپائے (اونٹ، گھوڑے یا بیل وغیرہ ) کے فضلے(گوبر اور لید وغیرہ) یا ہڈی سے استنجا کریں۔
          (صحیح مسلم، کتاب الطھارة، باب الاستطابة، رقم الحدیث:۲۶۲،بیت الأفکار)
حدیثِ مبارکہ سے مستفاد امور
          علامہ طیبی  اس حدیث کے ضمن میں لکھتے ہیں، کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے حکمت سے بھر پورجواب دیا، آپ نے اس کے استہزاء کی کوئی پروا نہ کی اورایسا جواب دیا جو ایک شیخ اپنے مرید کی راہنمائی کرتے ہوئے دیتا ہے، یعنی : اس استہزاء کرنے والے کو یہ فرمایا کہ ”یہ کوئی قابل استہزاء بات نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک اٹل حقیقت اور قابلِ اعزاز بات ہے،اور جب ایسا ہے تو تم پر لازم ہے کہ ہٹ دھرمی چھوڑو اور صراط مستقیم کو اختیار کرو، یہ صراطِ مستقیم تمہارے باطن اور ظاہر کو پلیدگیوں اور نجاستوں سے پاک کر دے گا“۔(فتح الملہم، کتاب الطھارہ، باب الاستطابة،۲/۱۱۵، مکتبہ دار العلوم کراچی)
          مندرجہ بالا حدیث ِ مبارکہ میں پیشاب پاخانہ کرنے سے متعلق چار ہدایات ارشاد فرمائی ہیں:
قضائے حاجت کے وقت کس طرف منہ کیا جائے؟
          (۱ )     قضائے حاجت کے وقت اس طرح بیٹھا جائے کہ قبلے کی طرف نہ منہ ہو اور نہ ہی پیٹھ۔ یہ حکم قبلہ کے ادب و احترام اور تقدس کی خاطر تھا کہ کوئی بھی ذی شعور انسان جو لطیف اور روحانی حقیقتوں کا ادراک کرنے والا ہو وہ اس موقعہ پر کسی مقدس اور محترم چیز کی طرف منہ یا پشت کرنے کو بے ادبی شمار کرتے ہوئے اس طرز کے اپنانے سے گریز کرے گا۔
استنجاء کس ہاتھ سے کیا جائے؟
          (۲)      دوسری ہدایت یہ دی گئی کہ اس عمل کے لیے اپنا دایاں ہاتھ استعمال نہ کیا جائے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر فوقیت دی ہے، اس ہاتھ کو اعلی،محترم ، مقدس، صاف ستھرے اور نفیس کاموں کے لیے تو استعمال کیاجا سکتا ہے ،گھٹیا اور رذیل کاموں کے لیے نہیں؛ چناں چہ ! دائیں ہاتھ کے شرف و احترام کی وجہ سے استنجا کرتے ہوئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔
کتنے ڈھیلوں سے استنجاء کیا جائے؟
          (۳)     تیسری ہدایت یہ کی گئی ہے کہ استنجے کے لیے کم از کم تین ڈھیلوں کو استعمال کیا جائے، اس کی وجہ یہ تھی کہ عام طور پر صفائی تین پتھروں سے کم میں پوری طرح نہیں ہوتی؛اس لیے حکم دیا گیا کہ تین پتھر استعمال کر کے اچھی طرح اور مکمل صفائی کی جائے؛چناں چہ اگر کسی شخص کی صفائی تین پتھروں سے حاصل نہ ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ تین سے زائد پتھر استعمال کرے تاکہ کامل صفائی ہو جائے۔نیز حدیثِ مذکور میں پتھر کا ذکر کیا گیا ہے، یہ اس زمانے میں ملنے والی عام چیز کی وجہ سے تھا، موجودہ دور میں شہروں میں بنے ہوئے پختہ بیت الخلاء میں ٹوائلٹ پیپر استعمال کیا جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں؛اسی طرح ہر وہ پاک چیز جس سے صفائی کا مقصد حاصل ہو سکتاہو اور اس کا استعمال اس کام کے لیے موضوع بھی ہو اور جسم کے لیے نقصان دہ بھی نہ ہو۔
جانوروں کے فضلات سے استنجاء کرنے کا حکم
          (۴)     چوتھی ہدایت یہ دی گئی ہے کہ استنجا کے لیے کسی جانور کی گری پڑی ہڈی یا ان کے فضلے (لید، گوبر وغیرہ)کو استعمال نہ کیا جائے، دراصل اس طرح زمانہٴ جاہلیت میں کر لیا جاتا تھا؛ حالانکہ یہ فطرتِ سلیمہ کے خلاف ہے۔احادیثِ مبارکہ میں متفرق طور پر قضائے حاجت سے متعلق بہت سے احکامات مذکور ہیں ، نیز! فقہاء کرام نے ان احادیث کی روشنی میں بہت سے مسائل کتب ِ فقہ میں ذکر کیے ہیں، ذیل میں قضائے حاجت سے متعلق مختلف اہم مسائل نقل کیے جاتے ہیں؛ تاکہ ہم اپنا یہ عمل بھی شریعت کے مطابق انجام دے سکیں۔
 قضائے حاجت سے قبل کی مسنون دعا
          حضر ت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”حاجت کے ان مقامات میں خبیث مخلوق شیاطین وغیرہ رہتے ہیں، پس تم میں سے جب کوئی بیت الخلاء جائے تو چاہیے کہ پہلے یہ دعا پڑھے، أَعُوْذُ بِاللّہِ مِنَ الْخُبُثِ وَ الْخَبائِثِ“(ترجمہ: میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں خبیث جنوں اور خبیث جنّیوں سے۔
          (سنن أبي داوٴد، کتاب الطھارة، باب ما یقول الرجل إذا دخل الخلاء، رقم الحدیث: ۶،۱/۳،دار ابن الحزم)
           اس دعا کی برکت سے انسان شریر جنات کے اثرات سے محفوظ ہو جاتا ہے؛ کیوں کہ یہ گندی جگہیں جنات و شیاطین کا مسکن ہوتی ہیں اور یہ مخلوق ان جگہوں پر آکر فراغت حاصل کرنے والوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتی ہے؛ اسی لیے سرکارِدو عالم  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس بات کی تعلیم دی گئی کہ جب تم قضائے حاجت کے لیے ایسی جگہوں پر جاوٴ تو ان کے شرور سے بچنے کے لیے اللہ کی پنا میں آ جایا کرو؛چناں چہ روایات میں آتا ہے کہ اس دعا کے پڑھنے والا شریر جن اورشریر جنّیوں کے اثرات سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
قضائے حاجت کے بعد کی دعا
           حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جناب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی قضائے حاجت سے فارغ ہوتے تو ”غُفْرَانَکَ“ کہتے تھے(ترجمہ: اے اللہ میں تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتا ہوں۔
          (السننالکبریٰ للنسائي، کتاب الطھارة، ما یقول إذا خرج من الخلاء، رقم الحدیث: ۹۸۲۵، موٴسسة الرسالة)
          ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت سے فارغ ہوتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے: ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَذْھَبَ عَنِّيْ الْأَذیٰ وعَافَانِيْ“․ (سنن کبریٰ ۹۸۲۵) ترجمہ: تمام تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، جس نے مجھ سے گندگی دور کی اور مجھے تکلیف سے عافیت دی۔ یہ دعا بڑی اہمیت کی حامل ہے؛ اس لیے کہ انسان جو کچھ بھی کھاتا ہے ، اس کا ایک حصہ جسم کے لیے تقویت کا باعث بنتا ہے، اور ایک حصہ بہ طورِ فضلہ جسم سے خارج ہو جاتا ہے، اس غذا کا جسم سے خارج ہونا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے،اگر یہ فُضلہ جسم سے نہ نکلے توانسان بیماریوں میں مبتلا ہوجائے،اس دعا میں اللہ کی اس نعمت پر شکر ادا کرنا ہے، کہ اس نے ہمیں اس گندگی سے نجات دی،اس کو ”أَذْھَبَ عَنِّيْ الْأَذی“سے تعبیر کیا،اسی کے مناسب ”غُفْرانَکَ“ کے ساتھ کی جانے والی دعا ہے ، حکمت اور مقصد اس دعا کا یہ ہے کہ اے اللہ جیسے تو نے میرے جسم سے زائد فضلات کو دور کر کے مجھے گندگی سے نجات عطا فرمائی اور مجھے عافیت جیسی عظیم نعمت نصیب فرمائی ، ایسے ہی تو میرے باطن کو صاف فرمادے اور میرے گناہوں کی مغفرت فرما۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے ہم پر ایک اور انعام کیا کہ اس نے جسم سے ساری کی ساری غذا نہیں نکال دی، اگر ایسا ہو جاتا تو ہم زندہ ہی نہ رہتے، اس نعمت کے شکر کو ”وعَافَانِيْ“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
          فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ ان دونوں دعاوٴں ”غُفْرَانَکَ“ اور ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَذْھَبَ عَنِّيْ الْأَذیٰ وعَافَانِيْ“ کو جمع کر کے پڑھا جائے؛البتہ اگر کسی کو دوسری دعا نہ آتی ہو تو پھر صرف ”غُفْرَانَکَ“ پڑھ لے۔
بیت الخلاء اور غسل خانہ اکٹھا ہونے کی صورت میں دعائیں کس جگہ پڑھی جائیں؟
          آج کل گھروں میں باتھ روم ،حمام ، واش بیسن وغیرہ اکٹھے بنے ہوتے ہیں، اس صورت میں جب قضائے حاجت کے لیے ان جگہوں میں داخل ہو تو غسل خانے میں داخل ہونے سے پہلے دعا پڑھے، اور جب فارغ ہو کر کے نکلے تو نکلنے کے بعد دعا پڑھے۔
          نیز! اگر قضائے حاجت کسی میدان ، جنگل یا صحراء وغیرہ میں کرنی پڑے تو اس صورت میں قضائے حاجت سے پہلے پڑھی جانے والی دعا ستر کھولنے سے قبل پڑھے اور قضائے حاجت کے بعد پڑھی جانے والی دعا ستر چھپالینے کے بعد پڑھے۔
          (ردالمحتار،کتاب الطھارة، مطلب: في دلالة المفھوم، ۱/۲۲۷، دار عالم الکتب)
          اسی کی طرف حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں بھی اشارہ موجود ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعا کے پڑھنے کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ”جب تم بیت الخلاء میں داخل ہو، یا داخل ہونے کا ارادہ کرو تو یہ دعا پڑھ لو“․(السنن الکبریٰ للنسائي، کتاب الطھارة، ما یقول إذا دخل في الخلاء، رقم الحدیث: ۹۸۲۳، ۹/۳۵،موٴسسة الرسالة)
          البتہ! اس جگہ ایک بات پیش نظر رہنی چاہییے کہ اوپر ذکر کردہ لفظِ ”بیت الخلاء“سے مراد زمانہ ماضی کے وہ بیت الخلاء ہیں ،جہاں قضائے حاجت کر لینے کے بعد گندگی ونجاست پڑی رہتی تھی، بعدمیں اسے اکٹھا کر کے دور جنگل وغیرہ میں جا کر پھینکا جاتا تھا، موجودہ دور کے پختہ اور سنگ مر مر کے بنے ہوئے بیت الخلاء اس مفہوم سے بالا تر ہیں، پس اگراس قسم کے بیت الخلاء میں گندگی وغیرہ پھیلی ہوئی نہ ہو تواس میں دعا ستر کھولنے سے قبل پڑلی جائے، اس کی بھی گنجائش ہے؛ کیوں کہ ان بیت الخلاوٴں میں دعا پڑھنے کی صورت میں وہ خرابی نہیں ہے جو گندگی والے بیت الخلاء میں لازم آتی تھی؛لیکن اس صورت میں بھی بہتر یہی ہے کہ دعا بیت الخلاء سے باہر پڑھ کے داخل ہوا جائے۔
 بیت الخلاء میں زبان سے کلمہ پڑھنے اور قرآنِ پاک کی تلاوت کا حکم:
          بیت الخلاء میں زبان سے کلمہ پڑھنا ،کوئی ذکر کرنا ،قرآنِ پاک کی تلاوت کرنا یا اندر جاکر مسنون دعاپڑھناجائزنہیں؛البتہ دل ہی دل میں ذکر کرنایا چھینک وغیرہ کے جواب میں دل میں ہی ”الحمد للہ“ کہنا جائز ہے۔
          (الفتاوی العالمگیریہ، کتاب الطھارة، الفصل الثالث في الاستنجاء: ۱/۵۰، رشیدیہ)
بیت الخلاء میں لفظِ ”اللہ “ اور حروفِ مقطعات والی انگوٹھی یا لاکٹ پہن کے جانے کا حکم
          بیت الخلاء میں ایسی انگوٹھی یا لاکٹ پہن کے جانا ،جس پر لفظِ اللہ یا حروفِ مقطعات لکھے ہوں جائز نہیں ہے، ایسی انگوٹھی یا لاکٹ باہر رکھ کے پھر داخل ہونا چاہیے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تھے تو اپنی انگوٹھی اتار کر باہر ہی رکھ دیتے تھے۔
          (سنن أبي داوٴد، کتاب الطھارة، باب ما یقول الرجل إذا دخل الخلاء، رقم الحدیث: ۶، ۱/۳،دار ابن الحزم)
          اگر یہ چیزیں کسی چیز میں لپٹی ہوئی ہوں یا جیب میں ہوں یا لاکٹ گریبان میں قمیص کے نیچے چھپا ہوا ہو توان کے ساتھ بیت الخلاء میں جانے کی گنجائش ہے ؛لیکن بہتر پھر بھی یہی ہے کہ یہ اشیاء باہر رکھ کے اندر جائیں۔
کن چیزوں سے استنجاء کرنا جائز ہے اور کن سے ناجائز؟
          کاغذ،کھانے کی چیز،گوشت، درخت کے پتوں ،نجس اشیاء ، ہڈی، لید، گوبر، شیشہ، پختہ اینٹ، کوئلہ،ٹھیکری، بال اور اسی طرح دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنا جائز نہیں، اس کے علاوہ ہرایسی چیز جوقابلِ احترام نہ ہو، خوراک نہ ہو، جسم کے لیے نقصان دہ بھی نہ ہواور قیمتی بھی نہ ہو تو اس سے استنجا کرنا جائز ہے۔
          (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیة)
 ڈھیلوں سے استنجاء کرنے کا حکم
          اگر کوئی شخص پانی سے استنجاء کرنے کے بجائے صرف ڈھیلوں سے استنجاء کرنا چاہے تو اس سلسلے میں تفصیل یہ ہے کہ اگرنجاست مخرج سے تجاوز کرجائے اور زائد کی مقدار ایک درہم سے زائد نہ ہو، تو بغیر دھوئے صرف ڈھیلے کے استعمال کرنے سے طہارت حاصل ہو جائے گی۔
          لیکن مخرج سے تجاوز کرنے والی نجاست اگر درہم کی مقدار سے زائد ہو تو اسے بلا عُذر دھوئے بغیر چھوڑدینا اور اسی طرح نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے اور اگر بقدرِ درہم یا اس سے کم ہو تو مکروہِ تنزیہی ہے۔
          (رد المحتار: کتاب الطھارة، باب الأنجاس:۱/۵۲۲، دار عالم الکتب)
دیر تک قطرے آنے والوں کے لیے طہارت کا طریقہ
          اگر پیشاب کرنے کے بعد کسی کو قطرے آنے کا مرض ہو تو اسے چاہیے کہ پہلے ڈھیلے یا ٹوائلٹ پیپر سے اچھی طرح خشک کر لے،حتی کہ پیشاب کی نالی کو خالی کرنے کی اپنی مقدور بھر کوشش کر لے ، اس کے بعدپانی سے استنجاء کرے۔
          (ردالمحتار، کتاب الطھارة، باب الأنجاس، مطلب في الفرق بین الاستبراء والاستسقاء والاستنجاء:۱/۵۵۸، دارعالم الکتب)
پردے کی عدم موجودگی میں صرف ڈھیلوں کے استعمال کا حکم
          اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ ہو جہاں پردے کے ساتھ استنجاء کرنا ممکن نہ ہو تو وہاں قضائے حاجت کے بعد صرف ڈھیلوں یا ٹوائلٹ پیپر کے ساتھ استنجاء کرنے پر اکتفاء کرے، ایسی جگہ پر دوسروں کے سامنے ستر کھول کر پانی سے استنجاء کرنا جائز نہیں۔
          (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیة)
شلّ ہاتھ والا استنجاء کیسے کرے؟
          اگر کسی شخص کا بایاں ہاتھ شل ہو اور وہ اپنے بائیں ہاتھ سے استنجاء کرنے پر قادر نہ ہو؛ تو دائیں ہاتھ سے استنجاء کرے اور اگر دایاں ہاتھ بھی شل ہو تو پھر ایسے شخص کے لیے حکم یہ ہے کہ کوئی دوسرا شخص (اپنی نظروں کی حفاظت کرتے ہوئے) پانی ڈالے اور اگر کوئی ایسا شخص بھی نہ ہو تو ایسے شخص سے استنجاء معاف ہے۔
          (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیة)
مریض آدمی کے لیے استنجاء کا حکم
          ایسا مریض جو وضو کرنے پر قادر نہ ہو؛لیکن اس کی بیوی موجود ہو تو وہ اسے استنجاء اور وضو کرائے اوراگر اس کی بیوی نہ ہو؛ لیکن بیٹا یا بھائی موجود ہو تواس کا بیٹا یا بھائی اس مریض کو وضو کرائے۔ اسی طرح کوئی عورت مریضہ ہواور اس کا شوہر بھی ہو تو اس کا شوہر اپنی بیوی کو بوقت ضرورت وضو بھی کروائے گا اور استنجاء بھی کروائے گااور اگر اس کا شوہر نہ ہو؛ لیکن اس کی بیٹی یا بہن موجود ہوں تو وہ وضو کرائیں۔
          (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیة)
قضائے حاجت کے وقت باتیں کرنااور ایک دوسرے کے ستر کو دیکھنا
          حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”دو آدمی قضاء حاجت کرتے ہوئے آپس میں باتیں نہ کریں کہ دونوں ایک دوسرے کے ستر کو دیکھ رہے ہوں؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر ناراض ہوتے ہیں“۔
          (سنن ابن ماجة، کتاب الطھارة، باب النھي عن الاجتماع علیٰ الخلاء والحدیث عندہ، رقم الحدیث:۳۴۲، ۱/۷۸،مکتبة المعارف،الریاض)
           انسانی شرافت سے بہت دور اور بڑی بد تہذیی کی بات ہے کہ دو افراد ننگے ہو کر ایک دوسرے کے سامنے اپنی حاجت سے فارغ ہوں اور اس سے بھی بڑی بے حیائی یہ ہے کہ اس دوران وہ دونوں آپس میں بات چیت بھی کرتے رہیں،یہ امر شرعاً جائز نہیں ہے۔
ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کا حکم
          اگر کسی جگہ پانی کھڑا ہو تو اس میں پیشاب کرنا جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس پانی کو بہت سے کاموں میں استعمال کیا جانا ممکن ہے، حدیث پاک میں آتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے“۔ (سنن ابن ماجة، کتاب الطھارة، باب النھي عن البول في الماء الراکد، رقم الحدیث:۳۴۴، ۱/ ۷۸،مکتبة المعارف، الریاض)
کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کا حکم
          آج کل جدید تہذیب کے دلدادے، مغربیت کی تقلید میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کو جدیدیت ، تہذیب اور اسلوب زندگی شمار کرتے ہیں، اس عمل کے لیے نہ بیٹھنے کو ضروری خیال کرتے ہیں اور نہ ہی پانی سے استنجاء کرنے کو کوئی اہمیت دیتے ہیں، اب تو باقاعدہ ہر جگہ پیشاب کے لیے دیواروں میں ایسی جگہیں بنائی جاتی ہیں، جہاں کھڑے ہو کر پیشاب کرنا ممکن ہوتا ہے، اور ایسے بیت الخلاء ائیرپورٹ، ریلوے اسٹیشن، رُوٹ کی بڑی بسوں کے اڈوں اور سعودیہ میں حاجیوں کے لیے تیار کی جانے والی رہائش گاہوں میں تیار کیے گئے ہوتے ہیں؛حالاں کہ کھڑے ہو کر استنجا کرنا شرعاً ممنوع ہے، اس فعل کے مرتکب اپنے کپڑوں کو بھی پاک نہیں رکھ سکتے اور اپنے بدن کو بھی نہیں۔
          حضرت عمر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار (ابتدائے اسلام میں جب مجھے مسئلے کا علم نہیں تھا)مجھے کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہوئے دیکھ لیا، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے عمر! کھڑے ہو کر پیشاب مت کر“، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے (کبھی) کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا۔ (سنن ابن ماجة، کتاب الطھارة، باب في البول قاعداً، رقم الحدیث:۳۰۸، ۱/۱۹۶،)
          درحقیقت یہ دشمنانِ اسلام کی سازش ہے ، کہ مسلمانوں کو ان کے پیغمبر علیہ السلام کی مبارک سنتوں سے اتنا دورکر دیا جائے کہ وہ اپنے ہی مسلم معاشرے میں اپنے نبی کی اتباع میں عار محسوس کریں۔
           ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود اپنی ذات سنت طریقے کے مطابق کرلیں، اور اپنی اولاد بالخصوص نابالغ اولادکی نگرانی کریں، کہ کہیں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی عادی تو نہیں بن رہی ہیں یا وہ پیشاب کرنے کے بعد استنجا لیتی ہے یا نہیں؟! اور اگر ایسا محسوس ہو تو فوراً مناسب تنبیہ کریں۔
پیشاب کی چھینٹوں سے نہ بچنے کا وبال
          کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی صورت میں کپڑوں پر یا بدن پر چھینٹوں کا گرنا ایک یقینی امر ہے، دیکھنے کے اعتبار سے تو یہ چھوٹا اور معمولی عمل ہے؛ لیکن جزا کے اعتبار سے پیشاب کی چھینٹوں سے اپنے آپ کو نہ بچانا بہت بڑے وبال کا سبب ہے۔
          حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک بار نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گذرے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور ان دونوں کو عذاب کوئی بڑے بڑے اور مشکل کاموں کی وجہ سے نہیں ہو رہا؛ بلکہ ان میں سے ایک کو پیشاب کی چھینٹوں سے نہ بچنے کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے اور دوسرے کو غیبت کرنے کی وجہ سے“۔
          (سنن ابن ماجة، کتاب الطھارة، باب: التشدید في البول، رقم الحدیث: ۳۴۹، ۱/۲۱۹، دار المعرفة، بیروت )
          اس لیے پیشاب کرنے کے بعد بہتر یہ ہے کہ پہلے کسی ڈھیلے یا ٹشو پیپر وغیرہ سے قطرات کو خشک کریں ، اس کے بعد پانی کا استعمال کریں۔اس طریقے سے مثانہ اور پیشاب کی نالی اچھی طرح خالی ہو جاتی ہے، فارغ ہونے کے بعد قطرے وغیرہ ٹپکنے سے امن رہتا ہے۔
قبلہ کی طرف منہ یا پشت کر کے پیشاب کرنے کاحکم
          قضائے حاجت کے احکام میں سے ایک حکم یہ بھی ہے کہ اس عمل کے دوران قبلے کی طرف نہ منہ کیا جائے اور نہ ہی پُشت، ایسا کرنا مکروہِ تحریمی ہے، چاہے قضائے حاجت کا وقت ہو یا (ننگے ہو کر)غسل کرنے کی حالت ہو، شہر میں ہو یا دیہات میں ،جنگل میں ہو یا صحرا میں،تمام صورتوں میں یہی حکم ہے۔
          حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنابِ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ جب تم میں سے کوئی پیشاب کرنے کے لیے آئے تو قبلے کی طرف نہ چہرہ کرے اور نہ ہی پشت کرے۔ (صحیح البخاری، کتاب الوضوء، باب لا یستقبل القبلة بغائط أو بولٍ، رقم الحدیث: ۱۴۴، ۱/۶۸، المکتبة السلفیة)
قبلے کی طرف بنے ہوئے بیت الخلاء کا حکم
          اگر کسی گھر میں بیت الخلاء قبلہ ُرو بنا ہوا ہو یا اس طرح بنا ہو کہ قبلہ کی طرف پُشت ہوتا ہو تو اہلِ خانہ پر ٹھیک سمت میں بیت الخلاء بنانا واجب ہے، البتہ اگر اُس بیت الخلاء میں اپنا رُخ قبلہ کی طرف سے پھیر کر بیٹھے تو جائز ہے۔
          (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیة)
دودھ پیتے بچوں کے لیے استقبال قبلہ کا حکم
          والدہ یا ہر ایسا شخص جو بچوں کو قضائے حاجت کروائے، اس کے لیے ان بچوں کو لے کر قبلہ کی طرف رکھ کر کے بیٹھنا یا قبلہ کی طرف پشت کر کے بیٹھنا جائز نہیں؛، بلکہ وہ بھی شمالاً یا جنوباًبیٹھ کے قضائے حاجت کروائیں۔
          (رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الطھارة، باب الأنجاس: ۱/۵۵۵، دار عالم الکتب)
مریض کے لیے استقبال قبلہ اور استدبار قبلہ کا حکم
          جو شخص مرض کی وجہ سے خود اپنا رُخ بدلنے پر قادر نہ ہو تو اس شخص کے تیمار دارقضائے حاجت کے وقت اس کو ایسے طریقے سے اٹھائیں یا لٹائیں کہ بہ وقت قضائے حاجت اس کا رُخ یا پیٹھ قبلہ کی طرف نہ ہو، اسی طرح ہسپتالوں میں بھی انتظامیہ کو چاہیے کہ مریضوں کے بیڈ / بستر قبلہ رُ خ پر حتیٰ الوسع بچھانے سے گُریز کریں۔
بیت الخلاء جاتے ہوئے سر ڈھانپنا
          بیت الخلاء جاتے ہوئے سر ڈھانپ کے جانا بھی سنت ہے، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء میں داخل ہوتے تھے تو اپنے سر کو ڈھانپ لیتے تھے۔
          (السنن الکبریٰ للبیہقي،کتاب الطھارة، باب تغطیة الرأس عند دخول الخلاء، رقم الحدیث: ۴۶۴،۱/۹۶،دائرة المعارف،دکن)
پیشاب پاخانہ کی طرف دیکھنے کی ممانعت
          اپنے بول و براز کی طرف دیکھنا خلاف ادب ہے، علامہ طحطاوی  نے لکھا ہے کہ یہ نسیان کو پیدا کرتا ہے۔(کتاب الطہارة: ۱/۳۱، دارالکتب العلمیة)
قضائے حاجت کے بعد زمین پر ہاتھ ملنے کا حکم
          حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ” نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے جب استنجاء کر لیا تو اپنے ہاتھوں کوزمین پر رگڑا“۔
          (سنن الترمذي، کتاب الطھارة، باب: دلک الید بالأرض بعد الاستنجاء، رقم الحدیث:۵۰، دارالسلام)
           موجودہ دور میں اس عمل پر قادر شخص کے لیے یہ عمل بھی مسنون ہو گا، بصورت دیگر صابن وغیرہ سے ہاتھوں کو دھو لینا بھی اس کا قائم مقام ہو جائے گا۔
استنجا کے بعد ہاتھ دھونے کا حکم
          استنجاء کرنے کے بعد اگر ظنِ غالب ہو کہ ہاتھ صاف ہوگئے ہیں اور بدبو وغیرہ بھی ختم ہو گئی ہے تو مزید صفائی کے لیے ہاتھ دھونا مسنون ہے؛ لیکن ضروری نہیں ہے، مطلب یہ کہ اگر یہ شخص ہاتھ نہ دھوئے تو عند اللہ مجرم نہیں ہو گا۔
          (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیة)
جن جگہوں میں استنجاء کرنا مکروہ ہے
          جن جگہوں میں استنجاء کرنا مکروہ ہے وہ درج ذیل ہیں:پانی میں، حوض یا چشمے کے کنارے، پھل دار درخت کے نیچے، کھیتی میں ، ہر ایسے سایہ میں جہاں لوگ بیٹھتے ہوں، مساجد اور عید گاہ کے پہلو میں ، قبرستان میں اور مسلمانوں کی گذرگاہ میں، سورج یا چاند کی طرف منہ کر کے، ڈھلوان (نیچے والی سطح) میں بیٹھ کے اوپر کی جانب پیشاب کرنا، ہوا کے رُخ پر پیشاب کرنا، چوہے، سانپ یا چیونٹی کے بل میں پیشاب کرنا۔غرض جس جگہ سے بھی لوگوں کا نفع وابستہ ہو اور وہاں ناپاکی یا گندگی ان کے لیے تکلیف دِہ ہو یا اس عمل کی وجہ سے خود اس کو کسی ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو، وہاں پیشاب پاخانہ کرنا جائز نہیں ہے۔
          (البحر الرائق، کتاب الطھارة، باب الانجاس، ۱/ ۶۵۲، دارالکتب العلمیة)
قضائے حاجت کا مفصل طریقہ
          جب کوئی شخص بیت الخلاء میں جانے کا ارادہ کرے، تو اس کے لیے مناسب ہے کہ ایسے وقت میں ہی چلا جائے جب اس پر قضائے حاجت کا بہت زیادہ تقاضا نہ ہو؛ بلکہ یہ شخص اس حالت کے طاری ہونے سے پہلے پہلے ہی بیت الخلاء میں داخل ہو جائے،اس دوران یہ شخص اپنے ساتھ کوئی ایسی چیزجس پر اللہ کا نام(یا قرآن ِ پاک کی آیت وغیرہ لکھی ہوئی ) ہو ،نہ لے جائے،اور ننگے سر بھی نہ جائے، جب دروازے کے پاس پہنچ جائے تو بیت الخلاء میں داخل ہونے والی دعا پڑھنے سے قبل ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ پڑھے ، پھر دعائے ماثورہ ”اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ“ پڑھے، پھر بایاں پاوٴں اندر داخل کرے،پھر زمین کے قریب ہوکر ستر کھولے، پھر اپنے پاوٴں کو قدرے کشادہ کر کے اس طرح بیٹھے کہ اس کے بدن کا زیادہ وزن بائیں پاوٴں پر ہو، اس حالت میں یہ شخص اُخروی امور (مثلاً: علم دین ،فقہ وغیرہ ) کے بارے میں نہ سوچے، کوئی شخص اِس کو سلام کرے تو اُسے جواب نہ دے، موٴذن کی آواز اس کے کانوں میں پڑے تو اُس کا جواب نہ دے، اس حالت میں اس کو چھینک آئے تو ”الحمد للہ“ نہ کہے، اپنے اعضائے مستورہ کی طرف نظر نہ کرے، بدن سے نکلنے والی گندگی کی طرف بھی نہ دیکھے، پاخانہ پر تھوک، ناک کی رینٹھ، اور بلغم وغیرہ نہ تھوکے، بہت زیادہ دیر تک وہاں نہ بیٹھے، آسمان کی طرف نہ دیکھے، بلکہ معتدل کیفیت کے ساتھ رہے، پھر جسم سے خارج ہونے والی نجاست کوپانی ڈال کر اچھی طرح بہا دے، پھر جب فارغ ہو جائے تو شرمگاہ کے نیچے کی جانب موجود رَگ پر اپنی انگلی پھیر کے اُسے اچھی طرح پیشاب کے قطروں سے خالی کر دے، پھر تین پتھروں سے اپنے عضو سے نجاست دور کرے، پھر فارغ ہو کے سیدھا کھڑا ہو نے سے پہلے پہلے اپنے ستر عورت کو چھپالے، پھر اپنا دایاں پاوٴں بیت الخلاء سے باہر نکال کر قضائے حاجت کے بعد کی دعا پڑھے ”غُفْرَانَکَ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَذْھَبَ عَنِّيْ الْأَذیٰ وعَافَانِيْ“۔(ردالمحتار مع الدرالمختار،کتاب الطھارة، باب الأنجاس: ۱/۹۵۵، دارعالم الکتب)
قضائے حاجت کے وقت کی احتیاطیں
          تکمیل عبادات کے لیے چوں کہ طہارتِ کاملہ ضروری ہے؛ اس لیے قضائے حاجت سے فراغت پر استنجاء کرتے وقت مبالغے کی حد تک اپنے آپ کو پیشاب کے قطروں اور ناپاکی سے بچانا ضروری ہے، بالخصوص موجودہ دور میں جب کہ پختہ بیت الخلاء اور پانی سے استنجا ء کرنے کا معمول عام ہو چکا ہے، احتیاط لازم ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جیسے ہی بیت الخلاء میں داخل ہو، اسی وقت ٹونٹی کھول کے پانی کے ہونے یا نہ ہونے کا اندازہ کرلے ، اس کے علاوہ بیٹ الخلاء میں ٹشوپیپر بھی ضرور رکھنے چاہئیں؛ تا کہ بوقت ضرورت ان کو استعمال کیا جا سکے۔
          جن مقامات میں ٹونٹیوں کی حالت معلوم نہ ہو وہاں لوٹے کو اوپر اٹھا کر ٹونٹی کے قریب کر کے پانی بھریں ، پھر نیچے رکھ دیں، اسی طرح پیشاب کرنے میں احتیاط اس طرح برتی جائے کہ پیشاب فلش میں سامنے کی ٹھوس جگہ میں قوت سے نہ ٹکرائے؛کیوں کہ اس صورت میں اسی قوت کے ساتھ چھینٹیں اڑنے کا قوی امکان ہوتاہے، اس سے حفاظت اسی صورت میں ممکن ہے کہ پیشاب فلش کی سائڈوں میں گرے نہ کہ سامنے والے حصے میں۔
          آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں دین کے اس اہم اور عظیم الشان حکم کو نہایت کامل اور احسن طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین .

از: مفتی محمد راشد ڈسکوی‏،  استاذ جامعہ فاروقیہ، کراچی


***

جمعرات، 6 جولائی، 2017

خواتین کے خصوصی مسائل

بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
خواتین کے خصوصی مسائل
۱۔ حیض ونفاس کے مسائل:
شریعت اسلامیہ میں حیض اُس خون کو کہتے ہیں جو عورت کے رحم (بچہ دانی)کے اندر سے متعینہ اوقات میں بغیر کسی بیماری کے نکلتا ہے۔ چونکہ یہ خون تقریباً ہر ماہ آتا ہے، اس لئے اس کو ماہواری (MC) بھی کہتے ہیں۔ اس خون کو اللہ تعالیٰ نے تمام عورتوں کے لئے مقدر کردیا ہے۔ حمل کے دوران یہی خون بچہ کی غذا بن جاتا ہے۔ لڑکی کے بالغ ہونے (۱۲۔ ۱۳ سال کی عمر) سے تقریباً ۵۰۔۵۵ سال کی عمر تک یہ خون عورتوں کو آتا رہتاہے۔ حیض کی کم از کم ، اور زیادہ سے زیادہ مدت کے متعلق علماء کی رائے متعدد ہیں، البتہ عموماً اس کی مدت ۳ دن سے ۱۰ دن تک رہتی ہے۔
نفاس اُس خون کو کہتے ہیں جو رحم مادر سے بچہ کی ولادت کے وقت اور ولادت کے بعد خارج ہوتا ہے۔ نفاس کی کم از کم مدت کی کوئی حد نہیں ہے، (ایک دو روز میں بھی بند ہوسکتا ہے) اور اس کی زیادہ سے زیادہ مدت ۴۰ دن ہے۔ (مسلم، ابوداؤد، ترمذی) لہذا ۴۰ دن سے پہلے جب بھی عورت پاک ہوجائے، یعنی اس کا خون آنا بند ہوجائے، تو وہ غسل کرکے نماز شروع کردے۔ خون بند ہوجانے کے بعد بھی۴۰ دن تک انتظار کرنا اور نماز وغیرہ سے رکے رہنا‘ غلط ہے۔
حیض یا نفاس والی عورتوں کے لئے مندرجہ ذیل امور ناجائز ہیں :ان دونوں حالت میں صحبت کرنا۔ (سورۂ البقرہ ۲۲۲) البتہ ان ایام میں سوائے مجامعت کے ہر جائز شکل میں استمتاع کیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : سوائے مجامعت (ہم بستری) کے ہر کام کرسکتے ہو (مسلم)
نماز اور روزہ کی ادائیگی۔ (مسلم) حیض سے پاک وصاف ہوجانے کے بعدعورت روزے کی قضا کرے گی، لیکن نماز کی قضا نہیں کرے گی۔ (بخاری ومسلم) نماز روزہ میں فرق کی وجہ اللہ ہی زیادہ جانتا ہے۔ پھر بھی علماء کرام نے لکھا ہے کہ نماز ایسا عمل ہے جس کی بار بار تکرار ہوتی ہے، لہذا ممکن ہے کہ مشقت اور پریشانی سے بچنے کے لئے اس کی قضاکا حکم نہیں دیا گیا، لیکن روزہ کا معاملہ اس کے بر عکس ہے (سال میں صرف ایک مرتبہ اس کا وقت آتا ہے)، لہذا روزہ کی قضا کا حکم دیاگیا۔
قرآن کریم بغیر کسی حائل (کپڑے) کے چھونا۔ قرآن کریم کو صرف پاکی کی حالت میں ہی چھوا جاسکتا ہے، لہذا ناپاکی کے ایام میں عورت کسی کپڑے مثلاً باہری غلاف کے ساتھ ہی قرآن کو چھوئے۔ (سورہ الواقعہ ۷۹، نسائی)
بیت اللہ کا طواف کرنا ۔ (بخاری ومسلم) البتہ سعی (صفا مروہ پر دوڑنا) ناپاکی کی حالت میں کی جاسکتی ہے۔ (بخاری)
مسجد میں داخل ہونا۔ (ابوداؤد) اگر عورت مسجد حرام یا کسی دوسری مسجد میں ہے اور ناپاکی کا وقت شروع ہوگیا تو عورت کو چاہئے کہ فوراً مسجد سے باہر نکل جائے، البتہ صفا مروہ یا مسجد حرام کے باہر صحن میں کسی جگہ بیٹھ سکتی ہے۔
بغیر چھوئے قرآن کریم کی تلاوت کرنا ۔ (ابوداؤد) اس سلسلہ میں علماء کی رائے مختلف ہیں، البتہ تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ زیادہ احتیاط اسی میں ہے کہ ان ایام میں قرآن کریم کی تلاوت بغیر دیکھے بھی نہ کی جائے۔ البتہ قرآن کریم میں وارد اذکار اور دعائیں ان ایام میں پڑھی جاسکتی ہیں۔
 
نوٹ:
میاں بیوی کا حیض کی حالت میں صحبت کرنا، اور پیچھے کے راستے کو کسی بھی وقت اختیار کرنا حرام ہے ۔
حیض (ماہواری۔MC)کو وقتی طور پر روکنے والی دوائیں استعمال کرنے کی شرعاً گنجائش ہے۔
حیض یا نفاس والی عورت کا خون جس نماز کے وقت شروع ہوا، اگر خون شروع ہونے سے قبل نماز کی ادائیگی نہ کرسکی تو
پھر اس نماز کی قضا اس پر واجب نہیں ہے۔ البتہ جس نماز کے وقت میں خون بند ہوگا ، غسل کرکے اس نماز کی ادائیگی
اس کے ذمہ ہوگی۔
۲۔ استحاضہ کے مسائل:حیض یا نفاس کے علاوہ بیماری کی وجہ سے بھی عورت کو کبھی کبھی خون آجاتا ہے جسکو استحاضہ کہا جاتا ہے۔ اس بیماری کے خون (استحاضہ) کے نکلنے سے وضو تو ٹوٹ جاتا ہے، مگر نماز اور روزہ کی ادائیگی اس عورت کے لئے معاف نہیں ہے ۔ نیز ان بیماری کے ایام میں صحبت بھی کی جاسکتی ہے۔ (ابوداؤد، نسائی)
 
نوٹ:
اگر کسی عورت کو بیماری کا خون ہر وقت آنے لگے یعنی خون کے قطرے ہر وقت نکل رہے ہیں کہ تھوڑا سا وقت بھی نماز کی ادائیگی کے لئے نہیں مل پارہا ہے تو اس کا حکم اس شخص کی طرح ہے جس کو ہر وقت پیشاب کے قطرات گرنے کی بیماری ہوجائے کہ وہ ایک وقت کے لئے وضو کرے اور اس وقت میں جتنی چاہے نماز پڑھے ، قرآن کی تلاوت کرے، دوسری نماز کا وقت شروع ہونے پر اس کو دوسرا وضو کرنا ہوگا۔ (بخاری ومسلم)
۳۔ مانع حمل کے ذرائع کا استعمال :شریعت اسلامیہ نے اگرچہ نسلوں کو بڑھانے کی ترغیب دی ہے، لیکن پھر بھی ایسے اسباب اختیار کرنے کی اجازت دی ہے جس سے وقتی طور پرحمل نہ ٹھہرے، مثلاً دواؤں یا کنڈوم کا استعمال، یا عزل کرنا (منی کو شرمگاہ کے باہر نکالنا)۔ (بخاری)
۴۔ اسقاط حمل (Abortion) :اگر حمل ٹھہر جائے تو اسقاط حمل جائز نہیں ہے۔ (سورہ بنی اسرائیل ۳۱، سورہ الانعام ۱۵۱)
البتہ شرعی وجہ جواز پائے جانے کی صورت میں بہت بھی نہایت محدود دائرہ میں حمل کا اسقاط جائز ہے۔
چار مہینے مکمل ہوجانے کے بعد حمل کا اسقاط بالکل حرام ہے، کیونکہ وہ ایک جان کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔
اگر کسی وجہ سے حمل کے برقرار رہنے سے ماں کی جان کو خطرہ ہوجائے تو ماں کی زندگی کو بچانے کے لئے چار ماہ کے بعد بھی اسقاط حمل جائزہے۔ یہ محض دو ضرر میں سے بڑے ضرر کو دور کرنے، اور دو مصلحتوں میں سے بڑی مصلحت کو حاصل کرنے کی لئے اجازت دی گئی ہے۔
۵۔ رضاعت (دودھ پلانے) سے حرمت کا مسئلہ:اگر کوئی عورت کسی دو سال سے کم عمر کے بچے کو اپنا دودھ پلادے تو وہ دونوں ماں بیٹے کے حکم میں ہوجاتے ہیں، لیکن قرآن وحدیث کی روشنی میں‘ جمہور علماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رضاعت (دودھ پلانے) کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ دودھ چھڑانے کی مدت سے پہلے بچے نے دودھ پیا ہو۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :جن عورتوں کا ارادہ ‘ دودھ پلانے کی مدت پوری کرنے کاہے، وہ اپنی اولاد کو دو سال مکمل دودھ پلائیں۔ (سورہ البقرہ ۲۳۳)
نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : رضاعت سے حرمت صرف اسی وقت ثابت ہوتی ہے جب کہ رضاعت (دودھ پلانا) دودھ چھڑانے کی مدت سے پہلے ہو۔ (ترمذی) یعنی دودھ پلانے سے ماں بیٹے کا رشتہ اسی وقت ہوگا جبکہ دودھ چھڑانے کی مدت سے پہلے بچے کو دودھ پلایا جائے۔ امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا : حدیث صحیح ہے اور صحابہ کرام کا عمل بھی یہی تھاکہ رضاعت سے حرمت اسی وقت ثابت ہوگی جب دودھ چھڑانے کی مدت سے پہلے بچے نے دودھ پیا ہو۔ دودھ چھڑانے کی مدت کے بعد کسی مرد کو دودھ پلانے سے کوئی حرمت ثابت نہیں ہوتی ہے۔ (ترمذی)۔
امام ابوحنیفہ ؒ نے اگرچہ ڈھائی سال تک بچے کو دودھ پلانے کی گنجائش رکھی ہے، البتہ علماء احناف کا فتویٰ دو سال تک ہی دودھ پلانے کا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا دودھ پی لے تو اس سے نکاح پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، البتہ ایسا کرنے سے بچنا چاہئے۔ صحابہ کرام کے زمانے سے آج تک امت مسلمہ کے 99.99% محدثین، مفسرین ، مفکرین ، فقہا، نیز چاروں امام اور جمہور علماء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ کسی مرد کو عورت کا دودھ پلانے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ہے، یعنی دونوں کے درمیان کسی بھی شکل میں ماں بیٹے کا رشتہ نہیں بن سکتاہے، اس کے لئے بنیادی شرط ہے کہ دودھ چھڑانے کی مدت سے پہلے بچے کو دودھ پلایا جائے۔
محمد نجیب قاسمی، ریاض

منگل، 4 جولائی، 2017

عمامہ یا ٹوپی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ھے

مضمون مولانا نجیب قاسمی ۔
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ہرہر ادا ایک سچے اور شیدائی امتی کے لیے نہ صرف قابل اتباع، بلکہ مرمٹنے کے قابل ہے، خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو یا روز مرہ کی عادات واطوار، مثلاً طعام یا لباس وغیرہ سے۔ ہر امتی کو حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ہر سنت کو اپنی زندگی میں داخل کرے اور جن سنتوں پر عمل کرنا مشکل ہو ان کو بھی اچھی اور محبت بھری نگاہ سے دیکھے اور عمل نہ کرنے پر ندامت اور افسوس کرے۔

امت مسلمہ متفق ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم عموماً عمامہ یا ٹوپی کا استعمال فرماتے تھے، جیساکہ مندرجہ ذیل احادیث وعلمائے امت کے اقوال میں مذکور ہیں۔

عمامہ سے متعلق احادیث
٭… حضرت عمرو بن حُریث سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم کے (سر کے) اوپرکالا عمامہ تھا۔ (مسلم) 
٭… متعدد صحابہٴ کرام، مثلاً حضرت جابر  اور حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم فتح مکہ کے دن مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم کے سر پر کالا عمامہ تھا۔ (مسلم، ترمذی، ابن ماجہ وغیرہ)
٭… حضرت عبداللہ بن عباس  فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے (مرض الوفات) میں خطبہ دیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم (کے سر ) پر کالا عمامہ تھا۔ (شمائل ترمذی، بخاری)
٭… حضرت ابو سعید الخدری  فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم جب نیا کپڑا پہنتے تو اس کا نام رکھتے عمامہ یا قمیص یا چادر، پھر یہ دعا پڑھتے: اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ کَسَوْتَنِیْہِ اَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِہِ وَخَیْرِ مَا صُنِعَ لَہُ، وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّہِ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَہُ․ اے میرے اللہ! تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے یہ پہنایا، میں اس کپڑے کی خیر اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کی خیر مانگتا ہوں اور اس کی اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ (ترمذی) معلوم ہوا کہ عمامہ بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کے لباس میں شامل تھا۔
٭… حضرت انس  فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو وضو کرتے دیکھا، آپ صلی الله علیہ وسلمپر قطری عمامہ تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلمنے عمامہ کے نیچے اپنا ہاتھ داخل فرمایا اور سر کے اگلے حصہ کا مسح فرمایا اور عمامہ کو نہیں کھولا۔ (ابو دوٴد) 

قِطری: یہ ایک قسم کی موٹی کھردری چادر ہوتی ہے، سفید زمین پر سرخ دھاگہ کے مستطیل بنے ہوتے ہیں۔
٭… حضرت عبد اللہ بن عمر  سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: مُحرِم(یعنی حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والا مرد) کرتا، عمامہ، پائجامہ اور ٹوپی نہیں پہن سکتا ہے۔ (بخاری ومسلم)

معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کے زمانہ میں عمامہ عام طور پر پہنا جاتا تھا۔

غرضیکہ حدیث کی کوئی بھی مشہور کتاب دنیا میں ایسی موجود نہیں ہے، جس میں آپ صلى الله عليه وسلم کے عمامہ کا ذکر متعدد مرتبہ وارد نہیں ہوا ہو۔

عمامہ کا سائز
عمامہ کے سائز کے متعلق مختلف اقوال ملتے ہیں البتہ زیادہ تحقیقی بات یہی ہے کہ عمامہ کا کوئی معین سائز مسنون نہیں ہے، پھر بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کا عمامہ عموماً 5 یا 7 ذراع لمبا ہوا کرتا تھا، 12 ذراع تک کا ثبوت ملتا ہے۔

عمامہ کا رنگ
آپ صلی الله علیہ وسلم کا عمامہ اکثر اوقات سفید یا سیاہ ہوا کرتاتھا، البتہ وقتاً فوقتاً آپ صلی الله علیہ وسلم کسی دوسرے رنگ کا بھی عمامہ استعمال کرتے تھے۔ سیاہ عمامہ سے متعلق بعض احادیث مضمون میں گزر چکی ہیں، جب کہ مستدرک حاکم اور طبرانی وغیرہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے سفید عمامہ کا تذکرہ موجود ہے ،نیز آپ صلی الله علیہ وسلم سفید کپڑوں کو بہت پسند فرماتے تھے، متعدد احادیث میں اس کا تذکرہ ملتا ہے:
٭…حضرت عبد اللہ بن عباس  سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کپڑوں میں سے سفید کو اختیار کیا کرو،کیوں کہ وہ تمہارے کپڑوں میں بہترین کپڑے ہیں اور سفید کپڑوں میں ہی اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔ (ترمذی ، ابو داوٴد، ابن ماجہ، مسند احمد، صحیح ابن حبان)
٭…حضرت سمرہ  سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سفید لباس پہنو کیوں کہ وہ بہت پاکیزہ ، بہت صاف اور بہت اچھا ہے اور اسی میں اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔ (نسائی ، ترمذی، ابن ماجہ)

عمامہ میں شملہ لٹکانا
شملہ لٹکانا مستحب ہے اور سنن زوائد میں سے ہے۔ شملہ کی مقدار کے سلسلہ میں بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ 4ا نگل ہو تو بہتر ہے۔
٭…حضرت عمرو بن حریث  سے روایت ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم پرکالا عمامہ تھا۔ اس کے دونوں کناروں کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے دونوں شانوں کے درمیان (یعنی پیچھے) لٹکایا تھا۔ (مسلم، ابن ماجہ، ابو داوٴد)
٭…حضرت عبداللہ بن عمر  سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب عمامہ باندھتے تو اسے دونوں کندھوں کے درمیان ڈالتے تھے۔ یعنی عمامہ کا شملہ دونوں کندھوں کے درمیان لٹکارہتا تھا۔ حضرت نافع  (حضرت عبداللہ بن عمر کے شاگرد) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر  بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ (ترمذی)
٭…حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ ایک آدمی ترکی گھوڑے پر سوار عمامہ پہنے ہوئے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس نے دونوں کندھوں کے درمیان عمامہ کا کنارہ لٹکا رکھا تھا۔ میں نے ان کے متعلق حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا، تو فرمایا: تم نے ان کو دیکھ لیا تھا۔ وہ جبرئیل علیہ السلام تھے۔ (مستدرک حاکم)

عمامہ اور نماز 
عمامہ پہن کر نماز پڑھنے کی کیا کوئی خاص فضیلت ہے؟ اس بارے میں متعدد احادیث کتب احادیث میں مذکور ہیں، مگر وہ عموماً ضعیف یا موضوع ہیں، مثلاً: عمامہ پہننا عربوں کا تاج ہے۔ (دیلمی) عمامہ باندھا کرو، تمہاری بردباری بڑھ جائے گی۔ (بیہقی، مستدک حاکم) عمامہ لازم پکڑ لو، یہ فرشتوں کی نشانی ہے اور پیچھے لٹکایا کرو۔ (بیہقی، طبرانی، دیلمی) عمامہ کے ساتھ 2رکعتیں بغیر عمامہ کے 70 رکعتوں سے افضل ہیں۔ (دیلمی) عمامہ کے ساتھ جمعہ بغیر عمامہ کے 70 جمعہ سے افضل ہے۔ (دیلمی) 

علماء وفقہاء نے تحریر کیا ہے کہ عمامہ پہن کر نماز پڑھنے کی اگرچہ کوئی خاص فضیلت احادیث صحیحہ میں وارد نہیں ہوئی ہے، لیکن چوں کہ عمامہ پہننا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنت وعادت کریمہ ہے اور صحابہٴ کرام وتابعین وتبع تابعین بھی عموماً عمامہ پہنا کرتے تھے، نیز یہ کسی دوسری قوم کا لباس نہیں، بلکہ مسلمانوں کا شعار ہے اور انسانوں کے لیے زینت ہے۔ لہٰذا ہمیں عمامہ اتارکر نماز پڑھنے کا اہتمام نہیں کرنا چاہیے، بلکہ عام حالات میں بھی عمامہ یا ٹوپی پہننی چاہیے اور عمامہ یا ٹوپی پہن کر ہی نماز ادا کرنی چاہیے ،اگرچہ عمامہ یا ٹوپی پہننا واجب یا سنت موٴکدہ نہیں ہے۔ 

جب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے عمامہ کا استعمال کرنا ثابت ہے، جس پر امت مسلمہ متفق ہے تو کوئی خاص فضیلت ثابت نہ بھی ہو تب بھی محض نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام کا عمل کرنا بھی اس کی فضیلت کے لیے کافی ہے، مثلاً سفید لباس نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو پسند تھا، اس لیے سفید لباس پہننا افضل ہوگا، خواہ کسی خاص فضیلت اور ثواب کی کثرت کا ثبوت ملتا ہو یا نہیں۔

عمامہ کو ٹوپی پر باندھنا
ؤحضرت رکانہ  فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو سنا ، فرمارہے تھے کہ ہمارے اور مشرکین کے درمیان فرق ٹوپی پر عمامہ باندھنا ہے۔ (ترمذی) بعض محدثین نے اس حدیث کی سند میں آئے ایک راوی کو ضعیف قرار دیا ہے۔

ٹوپی سے متعلق احادیث
٭…حضرت عبد اللہ بن عمر  فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سفید ٹوپی پہنتے تھے۔ (طبرانی) علامہ سیوطی نے الجامع الصغیرمیں تحریر کیا ہے کہ اس حدیث کی سند حسن ہے۔ الجامع الصغیر کی شرح لکھنے والے شیخ علی عزیزی نے تحریر کیا ہے کہ اس حدیث کی سند حسن ہے۔ (السراج المنیر لشرح الجامع الصغیر ج 4 ص 112)
٭…حضرت عبد اللہ بن عمر  فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سفید ٹوپی پہنتے تھے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی) اس حدیث کی سند میں آئے ایک راوی حضرت عبد اللہ بن خراش ہیں، ابن حبان نے ان کی توثیق کی ہے، نیز فرمایا کہ بسا اوقات غلطی کرتے ہیں۔ (مجمع الزوائد للہیثمی ج 2 ص 124)
٭…حضرت عبد اللہ بن عمر  سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: مُحرِم(یعنی حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والا مرد) کرتا، عمامہ، پائجامہ اور ٹوپی نہیں پہن سکتا ہے۔ (بخاری ومسلم) 

معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں ٹوپی عام طور پر پہنی جاتی تھی۔

٭…ؤحضرت عائشہ  سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سفر میں کان والی ٹوپی پہنتے تھے اور حضر میں پتلی یعنی شامی ٹوپی ۔ (ابو شیخ اصبہانی نے اس کو روایت کیا ہے) شیخ عبد الروٴوف مناوی  نے تحریر کیا ہے کہ ٹوپی کے باب میں یہ سب سے عمدہ سند ہے۔ (فیض القدیرشرح الجامع الصغیرج 5 ص246) 
٭…ابو کبشہ انماری  فرماتے ہیں کہ صحابہٴ کرام کی ٹوپیاں پھیلی ہوئی اور چپکی ہوئی ہوتی تھیں۔ (ترمذی)
٭…حضرت خالد بن ولید  کی غزوہٴ یرموک کے موقعہ پر ٹوپی گم ہوگئی تو حضرت خالد بن ولید  نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میری ٹوپی تلاش کرو۔ تلاش کرنے کے باوجود بھی ٹوپی نہ مل سکی۔ حضرت خالد بن ولید  نے کہا کہ دوبارہ تلاش کرو، چناں چہ ٹوپی مل گئی۔ تب حضرت خالد بن ولید  نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عمرہ کی ادائیگی کے بعد بال منڈوائے تو سب صحابہٴ کرام آپ صلی الله علیہ وسلم کے بال لینے کے لیے ٹوٹ پڑے تو میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے سر کے اگلے حصہ کے بال تیزی سے لے لیے اور انہیں اپنی اس ٹوپی میں رکھ لیا، چناں چہ میں جب بھی لڑائی میں شریک ہوتاہوں یہ ٹوپی میرے ساتھ رہتی ہے، انہیں کی برکت سے مجھے فتح ملتی ہے (اللہ تعالیٰ کے حکم سے)۔ (رواہ البیہقی فی دلائل النبوة، والحاکم فی مستدرکہ 229/3 )امام ہیثمی  نے مجمع الزوائد میں تحریر کیا ہے کہ اس حدیث کے راوی صحیح ہیں۔349/9)
٭…امام بخاری  نے اپنی کتاب میں ایک باب باندھا ہے: باب السجود علی الثوب فی شدة الحر، یعنی سخت گرمی میں کپڑے پر سجدہ کرنے کا حکم۔ جس میں حضرت حسن بصری  کا قول ذکر کیا ہے کہ گرمی کی شدت کی وجہ سے صحابہٴ کرام اپنی ٹوپی اور عمامہ پر سجدہ کیا کرتے تھے۔ 
٭…حضرت عمر  سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شہید وہ ہے جس کا ایمان عمدہ ہو اور دشمن سے ملاقات کے وقت اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی تصدیق کرتے ہوئے بہادری سے لڑے اور شہید ہوجائے، اس کا درجہ اتنا بلند ہوگا کہ لوگ قیامت کے دن اس کی طرف اپنی نگاہ اس طرح اٹھائیں گے۔ یہ کہہ کر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یا حضرت عمر  نے جو حدیث کے راوی ہیں اپنا سر اٹھایا، یہاں تک کہ سر سے ٹوپی گرگئی۔ (ترمذی)

حضرت عبد اللہ بن عمر  نے اپنے غلام نافع کو ننگے سر نماز پڑھتے دیکھا تو بہت غصہ ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ زیادہ مستحق ہے کہ ہم اس کے سامنے زینت کے ساتھ حاضر ہوں۔
٭… حضرت زید بن جبیر  اور حضرت ہشام بن عروہ  فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عبد اللہ بن زبیر (کے سر) پر ٹوپی دیکھی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
٭… حضرت عبد اللہ بن سعید  فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی بن ابی طالب(کے سر) پر سفید مصری ٹوپی دیکھی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
٭…حضرت اشعث  کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ اشعری  بیت الخلاء سے نکلے اور ان(کے سر) پر ٹوپی تھی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

وضاحت… حدیث کی اس مشہور کتاب ”مصنف ابن ابی شیبہ“ میں متعدد صحابہٴ کرام کی ٹوپیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، ان میں سے اختصار کی وجہ سے میں نے صرف تین صحابہٴ کرام کی ٹوپی کا تذکرہ یہاں کیا ہے۔ 

ٹوپی سے متعلق بعض علمائے امت کے اقوال
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام کی ٹوپیوں کا تذکرہ اس مختصر مضمون میں کرنا مشکل ہے، لہٰذا انہیں چند احادیث پر اکتفا کرتا ہوں، البتہ بعض علماء وفقہاء کے اقوال کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
٭…شیخ نعمان بن ثابت، یعنی امام ابوحنیفہ کی رائے ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنے سے نماز تو ادا ہوجائے گی ،مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔ فقہ حنفی کی بے شمار کتابوں میں یہ مسئلہ مذکور ہے۔
٭…علامہ ابن القیم  نے تحریر کیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم عمامہ باندھتے تھے اور اس کے نیچے ٹوپی بھی پہنتے تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم عمامہ کے بغیر بھی ٹوپی پہنتے تھے اور آپ صلی الله علیہ وسلم ٹوپی پہنے بغیر بھی عمامہ باندھتے تھے۔ (زاد المعاد فی ہدی خیر العباد)
٭…شیخ ناصر الدین البانی  کی رائے ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنے سے نماز تو ادا ہوجائے گی، مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔ (تمام المنة صفحہ164 )
٭… شیخ ابن لعربی  فرماتے ہیں کہ ٹوپی انبیاء اور صالحین کے لباس سے ہے۔ سر کی حفاظت کرتی ہے اور عمامہ کو جماتی ہے۔ (فیض القدیر)
٭…ہندوپاکستان وبنگلادیش وافغانستان کے جمہور علماء فرماتے ہیں کہ ننگے سر نماز پڑھنے سے نماز تو ادا ہوجائے گی، مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔
٭… ایک اہل حدیث عالم دین نے تحریر کیا ہے کہ ننگے سر نماز ہوجاتی ہے، صحابہٴ کرام سے جواز ملتا ہے، مگر بطور فیشن لاپرواہی اور تعصب کی بنا پر مستقل کے لیے یہ عادت بنالینا جیساکہ آج کل دھڑلے سے کیا جارہا ہے۔ ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے خود یہ عمل نہیں کیا۔ (مجلہ اہل حدیث سوہدرہ، پاکستان، ج 15، شمار22 … بحوالہ کتاب ٹوپی وپگڑی سے یا ننگے سر نماز؟)
٭… اہل حدیث عالم مولانا سید محمد داوٴد غزنوی  نے تحریر کیا ہے کہ سر اعضائے ستر میں سے نہیں ہے، لیکن نماز میں سر ننگے رکھنے کے مسئلہ کو اس لحاظ سے، بلکہ آداب نماز کے لحاظ سے دیکھنا چاہیے اور آگے کندھوں کو ڈھانکنے پر دلالت کرنے والی بخاری وموٴطا امام مالک کی روایات اور موٴطا کی شرح زرقانی (وتمہید)، ابن عبد البر، بخاری کی شرح فتح الباری، ایسے ہی شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ  کی کتاب الاخیارات اور امام ابن قدامہ کی المغنی سے تصریحات واقتباسات نقل کرکے ثابت کیا ہے کہ کندھے بھی اگرچہ اعضائے ستر میں سے نہیں ہیں، اس کے باوجود نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ایک کپڑا ہونے کی شکل میں ننگے کندھوں سے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ اسی طرح سر بھی اگرچہ اعضائے ستر میں سے نہ سہی ،لیکن آداب نماز میں سے یہ بھی ایک ادب ہے کہ بلاوجہ ننگے سر نماز نہ پڑھی جائے اور اسے زینت کا تقاضا بھی قرار دیا ہے… ابتدائے عہد اسلام کو چھوڑکر، جب کہ کپڑوں کی قلت تھی، اس کے بعد اس عاجز کی نظر سے کوئی ایسی روایت نہیں گزری، جس میں صراحتاً مذکور ہو کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یا صحابہٴ کرام نے مسجد میں اور وہ بھی نماز باجماعت میں ننگے سر نماز پڑھی ہو، چہ جائیکہ معمول بنالیا ہو۔ اس رسم کو جو پھیل رہی ہے بند کرنا چاہیے۔ اگر فیشن کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھی جائے تو نماز مکروہ ہوگی۔ (فتاویٰ علماء ِاہل حدیث ج 4 ص 290۔291 … بحوالہ کتاب ٹوپی وپگڑی سے یا ننگے سر نماز؟)
٭… ایک دوسرے اہل حدیث عالم مولانا محمد اسماعیل سلفی  نے تحریر فرمایا ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم، صحابہٴ کرام اور اہل علم کا طریق وہی ہے جو اب تک مساجد میں متوارث ہے اور معمول بہا ہے۔ کوئی مرفوع حدیث صحیح میری نظر سے نہیں گزری جس سے ننگے سر نماز کی عادت کا جواز ثابت ہو، خصوصاً باجماعت فرائض میں، بلکہ عادت مبارکہ یہی تھی کہ پورے لباس سے نمازادا فرماتے تھے… سر ننگا رکھنے کی عادت اور بلاوجہ ایسا کرنا اچھا فعل نہیں ہے۔ یہ فعل فیشن کے طور پر روز بروز بڑھ رہا ہے اور یہ بھی نامناسب ہے۔ … اگر حسِ لطیف سے طبیعت محروم نہ ہو تو ننگے سر نماز ویسے ہی مکروہ معلوم ہوتی ہے۔ ضرورت اور اضطرار کا باب اس سے الگ ہے۔ (فتاویٰ علماءِ اہل حدیث ج ۴ ص 286۔289 بحوالہ کتاب ٹوپی وپگڑی سے یا ننگے سر نماز؟)
٭…سعودی عرب کے تمام شیوخ کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ ٹوپی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنت اور تمام محدثین ومفسرین وفقہاء وعلماء وصالحین کا طریقہ ہے۔ نیز ٹوپی پہننا انسان کی زینت ہے اور قرآن کریم (سورہٴ الاعراف 31) کی روشنی میں نماز میں زینت مطلوب ہے، لہٰذا ہمیں ٹوپی پہن کر ہی نماز پڑھنی چاہیے۔ یہ فتاوے سعودی عرب کے شیوخ کی ویب سائٹ پر پڑھے اور سنے جاسکتے ہیں۔ سعودی عرب کی موجودہ حکومت کے نظام کے تحت کسی بھی حکومت کے دفتر میں کسی بھی سعودی باشندہ کا معاملہ اسی وقت قبول کیا جاتا ہے جب کہ وہ ٹوپی اور رومال کے ذریعہ سر ڈھانک کر حکومت کے دفتر میں جائے۔ سعودی عرب کے خواص وعوام کا معمول بھی یہی ہے کہ وہ عموماً سر ڈھانک کر ہی نمازادا کرتے ہیں۔

پہلا نکتہ
ان دنوں امت مسلمہ کی ایک چھوٹی سی جماعت حضرت عبد اللہ بن عباس  کی ایک حدیث کو بنیاد بناکر ننگے سر نماز پڑھنے کی بظاہر ترغیب دینے لگتی ہے : اَنَّ النَّبِیَّ کَانَ رُبَمَا نَزَعَ قَلَنْسُوَتَہ، فَجَعَلَہَا سُتْرَةً بَیْنَ یَدَیْہِ (ابن عساکر) نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کبھی کبھی اپنی ٹوپی اتارکر اسے اپنے سامنے بطور سترہ رکھ لیتے تھے۔ اس حدیث سے مندرجہ ذیل اسباب کی بنا پر ننگے سر نماز پڑھنے کی کسی بھی فضیلت پر استدلال نہیں کیا جاسکتا ہے۔ 

یہ روایت ضعیف ہے، نیز اس روایت کو ذکر کرنے میں ابن عساکر متفرد ہیں، یعنی حدیث کی مشہور ومعروف کسی کتاب میں بھی یہ حدیث مذکور نہیں ہے۔

اور اگر علی وجہ التنزل اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تب بھی یہ مطلق ننگے سر نماز پڑھنے کے جواز کے لیے دلیل نہیں بن سکتی، بلکہ اس حدیث کے ظاہری الفاظ بتارہے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایسا ایک اہم ضرورت کے وقت کیا جب ایسی کوئی چیز میسر نہ آئی، جسے بطور سترہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے سامنے رکھ لیتے اور احادیث میں سترہ کی کافی اہمیت وارد ہوئی ہے۔

اس حدیث سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوسکتا ہے کہ مرد حضرات کے لیے نماز میں ٹوپی یا عمامہ سے سر کا ڈھانکنا واجب نہیں ہے، جس پر امت مسلمہ متفق ہے۔

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ننگے سر صرف حج یا عمرہ کے احرام کی صورت میں ہی نماز پڑھنا ثابت ہے۔ رہا کوئی چیز نہ ملنے کی وجہ سے سترہ کے لیے اپنے آگے ٹوپی کا رکھنا توپہلی بات یہ عمل آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک دوسرے اہم حکم کو پورا کرنے کے لیے کیا ۔ دوسری بات اس حدیث میں اس کا ذکر نہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ننگے سر نماز پڑھی۔ ممکن ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اونچی والی ٹوپی جو آپ صلی الله علیہ وسلم سفر میں پہنتے تھے اس کو سترہ کے طور پر استعمال کیا ہو اور عمامہ یا سر سے چپکی ہوئی ٹوپی آپ صلی الله علیہ وسلم کے سر پر ہو کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی دو یا تین قسم کی ٹوپی کا تذکرہ احادیث وسیرت وتاریخ کی کتابوں میں آتا ہے۔

اس حدیث کے علاوہ ابن عساکر میں وارد ایک مقولہ سے بھی اس چھوٹی سے جماعت نے استدلال کیا ہے:(مساجد میں ننگے سر آوٴ اور عمامہ باندھ کر آوٴ، بے شک عمامہ تو مسلمانوں کے تاج ہیں)، لیکن محدثین نے اس مقولہ کو حدیث نہیں، بلکہ موضوع ومن گھڑت بات شمار کیا ہے۔ اور اگر یہ مقولہ حدیث مان بھی لیا جائے تو اس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ہمیں مسجد میں عمامہ باندھ کر آنا چاہیے۔

دوسرا نکتہ 
بعض حضرات ٹوپی کا استعمال تو کرتے ہیں، مگر ان کی ٹوپیاں پرانی، بوسیدہ اور کافی میلی نظر آتی ہیں۔ ہم اپنے لباس ومکان ودیگر چیزوں پر اچھی خاصی رقم خرچ کرتے ہیں، مگر ٹوپیاں پرانی اور بوسیدہ ہی استعمال کرتے ہیں۔ میرے عزیز بھائیو! سر کو ڈھانکنا زینت ہے، جیساکہ مفسرین ومحدثین وعلماء نے کتابوں میں تحریر کیا ہے اور نماز میں اللہ تعالیٰ کے حکم (خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ) کے مطابق زینت مطلوب ہے، نیز ٹوپی یا عمامہ کا استعمال اسلامی شعار ہے ، اس سے آج بھی مسلمانوں کی شناخت ہوتی ہے، لہذا ہمیں اچھی وصاف ستھری ٹوپی کا ہی استعمال کرنا چاہیے۔

تیسرا نکتہ 
نماز کے وقت عمامہ یا ٹوپی پہننی چاہیے، لیکن عمامہ یا ٹوپی پہننا واجب نہیں ہے۔ لہذا اگر کسی شخص نے عمامہ یا ٹوپی کے بغیر نماز شروع کردی تو نماز پڑھتے ہوئے اس شخص پر ٹوپی یا رومال وغیرہ نہیں رکھنا چاہیے ،کیوں کہ اس کی وجہ سے عموماًنمازی کی نماز سے توجہ ہٹتی ہے (خواہ تھوڑے وقت کے لیے ہی کیوں نہ ہو)، البتہ نماز شروع کرنے سے قبل اس کو عمامہ یا ٹوپی پہننے کی ترغیب دینی چاہیے۔

خلاصہٴ کلام
عمامہ یا ٹوپی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنت ہے (کیوں کہ احادیث وسیر وتاریخ کی کتابوں میں جہاں جہاں بھی عام زندگی کے متعلق نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے سر پر کپڑے ہونے یا نہ ہونے کا ذکر وارد ہوا ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم کے سر پر عمامہ یا ٹوپی کا تذکرہ 99 فیصد وارد ہوا ہے) صحابہ، تابعین، تبع تابعین، محدثین، فقہاء اور علمائے کرام عمامہ یا ٹوپی کا استعمال فرماتے تھے، نیز ہمیشہ سے اور آج بھی یہ مسلمانوں کی پہچان ہے۔لہٰذا ہم سب کو عمامہ وٹوپی یا صرف ٹوپی کا استعمال ہر وقت کرنا چاہیے۔ اگرہر وقت ٹوپی پہننا ہمارے لیے دشوار ہو تو کم از کم نماز کے وقت ٹوپی لگاکرہی نماز پڑھنی چاہیے۔ ننگے سر نماز پڑھنے سے نماز ادا تو ہوجائیگی، مگر فقہاء وعلماء کی ایک بڑی جماعت کی رائے ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنے کی عادت بنانا صحیح نہیں ہے، حتی کہ بعض فقہاء وعلماء نے متعدد احادیث، حضرت عبد اللہ بن عمر جیسے جلیل القدر صحابی کا اپنے شاگرد حضرت نافع  کو تعلیم اور صحابہٴ کرام کے زمانہ سے امت مسلمہ کے معمول کی روشنی میں ننگے سر نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے، جن میں سے شیخ نعمان بن ثابت امام ابوحنیفہ (80ھ ۔150ھ) اور شیخ ناصر الدین البانی  (1333ھ۔1420ھ)کا نام قابل ذکر ہے۔ آخر الذکر شیخ البانی صاحب کا تذکرہ اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ اِن دنوں جو حضرات ننگے سر نماز پڑھنے کی بات کرتے ہیں ان میں سے بعض حضرات عموماً احکام ومسائل میں شیخ ناصر الدین البانی  کے اقوال کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔ ننگے سر نماز کے متعلق انہوں نے واضح طور پر تحریر کیا ہے اوران کے اقوال کیسٹوں میں ریکارڈ ہیں کہ ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔

ہم ہند وپاک کے رہنے والے سعودی عرب میں مقیم عموماً فیشن کی وجہ سے ٹوپی کے بغیر نماز پڑھتے ہیں، حالاں کہ سعودی عرب میں 13-12 سال کے قیام کے دوران میں نے کسی بھی سعودی عالم یا خطیب یا مفتی یا مستقل امام کو سر کھول کر نماز پڑھتے یا پڑھاتے یا خطبہ دیتے ہوئے نہیں دیکھا، بلکہ ان کو ہمیشہ سر ڈھانکتے ہوئے ہی دیکھا۔ نہ صرف خواص، بلکہ سعودی عرب کی عوام بھی عموماً سر ڈھانک کر ہی نماز ادا کرتی ہے۔

وضاحت… یہ مضمون صرف مردوں کے سر ڈھانکے کے متعلق تحریر کیا گیا ہے، رہا خواتین کے سر ڈھانکنے کا مسئلہ تو امت مسلمہ متفق ہے کہ خواتین کے لیے سر ڈھانکنا ضروری ہے، اس کے بغیر ان کی نماز ہی ادا نہیں ہوگی۔