منگل، 4 جولائی، 2017

عمامہ یا ٹوپی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ھے

مضمون مولانا نجیب قاسمی ۔
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ہرہر ادا ایک سچے اور شیدائی امتی کے لیے نہ صرف قابل اتباع، بلکہ مرمٹنے کے قابل ہے، خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو یا روز مرہ کی عادات واطوار، مثلاً طعام یا لباس وغیرہ سے۔ ہر امتی کو حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ہر سنت کو اپنی زندگی میں داخل کرے اور جن سنتوں پر عمل کرنا مشکل ہو ان کو بھی اچھی اور محبت بھری نگاہ سے دیکھے اور عمل نہ کرنے پر ندامت اور افسوس کرے۔

امت مسلمہ متفق ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم عموماً عمامہ یا ٹوپی کا استعمال فرماتے تھے، جیساکہ مندرجہ ذیل احادیث وعلمائے امت کے اقوال میں مذکور ہیں۔

عمامہ سے متعلق احادیث
٭… حضرت عمرو بن حُریث سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم کے (سر کے) اوپرکالا عمامہ تھا۔ (مسلم) 
٭… متعدد صحابہٴ کرام، مثلاً حضرت جابر  اور حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم فتح مکہ کے دن مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم کے سر پر کالا عمامہ تھا۔ (مسلم، ترمذی، ابن ماجہ وغیرہ)
٭… حضرت عبداللہ بن عباس  فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے (مرض الوفات) میں خطبہ دیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم (کے سر ) پر کالا عمامہ تھا۔ (شمائل ترمذی، بخاری)
٭… حضرت ابو سعید الخدری  فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم جب نیا کپڑا پہنتے تو اس کا نام رکھتے عمامہ یا قمیص یا چادر، پھر یہ دعا پڑھتے: اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ کَسَوْتَنِیْہِ اَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِہِ وَخَیْرِ مَا صُنِعَ لَہُ، وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّہِ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَہُ․ اے میرے اللہ! تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے یہ پہنایا، میں اس کپڑے کی خیر اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کی خیر مانگتا ہوں اور اس کی اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ (ترمذی) معلوم ہوا کہ عمامہ بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کے لباس میں شامل تھا۔
٭… حضرت انس  فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو وضو کرتے دیکھا، آپ صلی الله علیہ وسلمپر قطری عمامہ تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلمنے عمامہ کے نیچے اپنا ہاتھ داخل فرمایا اور سر کے اگلے حصہ کا مسح فرمایا اور عمامہ کو نہیں کھولا۔ (ابو دوٴد) 

قِطری: یہ ایک قسم کی موٹی کھردری چادر ہوتی ہے، سفید زمین پر سرخ دھاگہ کے مستطیل بنے ہوتے ہیں۔
٭… حضرت عبد اللہ بن عمر  سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: مُحرِم(یعنی حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والا مرد) کرتا، عمامہ، پائجامہ اور ٹوپی نہیں پہن سکتا ہے۔ (بخاری ومسلم)

معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کے زمانہ میں عمامہ عام طور پر پہنا جاتا تھا۔

غرضیکہ حدیث کی کوئی بھی مشہور کتاب دنیا میں ایسی موجود نہیں ہے، جس میں آپ صلى الله عليه وسلم کے عمامہ کا ذکر متعدد مرتبہ وارد نہیں ہوا ہو۔

عمامہ کا سائز
عمامہ کے سائز کے متعلق مختلف اقوال ملتے ہیں البتہ زیادہ تحقیقی بات یہی ہے کہ عمامہ کا کوئی معین سائز مسنون نہیں ہے، پھر بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کا عمامہ عموماً 5 یا 7 ذراع لمبا ہوا کرتا تھا، 12 ذراع تک کا ثبوت ملتا ہے۔

عمامہ کا رنگ
آپ صلی الله علیہ وسلم کا عمامہ اکثر اوقات سفید یا سیاہ ہوا کرتاتھا، البتہ وقتاً فوقتاً آپ صلی الله علیہ وسلم کسی دوسرے رنگ کا بھی عمامہ استعمال کرتے تھے۔ سیاہ عمامہ سے متعلق بعض احادیث مضمون میں گزر چکی ہیں، جب کہ مستدرک حاکم اور طبرانی وغیرہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے سفید عمامہ کا تذکرہ موجود ہے ،نیز آپ صلی الله علیہ وسلم سفید کپڑوں کو بہت پسند فرماتے تھے، متعدد احادیث میں اس کا تذکرہ ملتا ہے:
٭…حضرت عبد اللہ بن عباس  سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کپڑوں میں سے سفید کو اختیار کیا کرو،کیوں کہ وہ تمہارے کپڑوں میں بہترین کپڑے ہیں اور سفید کپڑوں میں ہی اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔ (ترمذی ، ابو داوٴد، ابن ماجہ، مسند احمد، صحیح ابن حبان)
٭…حضرت سمرہ  سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سفید لباس پہنو کیوں کہ وہ بہت پاکیزہ ، بہت صاف اور بہت اچھا ہے اور اسی میں اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔ (نسائی ، ترمذی، ابن ماجہ)

عمامہ میں شملہ لٹکانا
شملہ لٹکانا مستحب ہے اور سنن زوائد میں سے ہے۔ شملہ کی مقدار کے سلسلہ میں بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ 4ا نگل ہو تو بہتر ہے۔
٭…حضرت عمرو بن حریث  سے روایت ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم پرکالا عمامہ تھا۔ اس کے دونوں کناروں کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے دونوں شانوں کے درمیان (یعنی پیچھے) لٹکایا تھا۔ (مسلم، ابن ماجہ، ابو داوٴد)
٭…حضرت عبداللہ بن عمر  سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب عمامہ باندھتے تو اسے دونوں کندھوں کے درمیان ڈالتے تھے۔ یعنی عمامہ کا شملہ دونوں کندھوں کے درمیان لٹکارہتا تھا۔ حضرت نافع  (حضرت عبداللہ بن عمر کے شاگرد) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر  بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ (ترمذی)
٭…حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ ایک آدمی ترکی گھوڑے پر سوار عمامہ پہنے ہوئے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس نے دونوں کندھوں کے درمیان عمامہ کا کنارہ لٹکا رکھا تھا۔ میں نے ان کے متعلق حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا، تو فرمایا: تم نے ان کو دیکھ لیا تھا۔ وہ جبرئیل علیہ السلام تھے۔ (مستدرک حاکم)

عمامہ اور نماز 
عمامہ پہن کر نماز پڑھنے کی کیا کوئی خاص فضیلت ہے؟ اس بارے میں متعدد احادیث کتب احادیث میں مذکور ہیں، مگر وہ عموماً ضعیف یا موضوع ہیں، مثلاً: عمامہ پہننا عربوں کا تاج ہے۔ (دیلمی) عمامہ باندھا کرو، تمہاری بردباری بڑھ جائے گی۔ (بیہقی، مستدک حاکم) عمامہ لازم پکڑ لو، یہ فرشتوں کی نشانی ہے اور پیچھے لٹکایا کرو۔ (بیہقی، طبرانی، دیلمی) عمامہ کے ساتھ 2رکعتیں بغیر عمامہ کے 70 رکعتوں سے افضل ہیں۔ (دیلمی) عمامہ کے ساتھ جمعہ بغیر عمامہ کے 70 جمعہ سے افضل ہے۔ (دیلمی) 

علماء وفقہاء نے تحریر کیا ہے کہ عمامہ پہن کر نماز پڑھنے کی اگرچہ کوئی خاص فضیلت احادیث صحیحہ میں وارد نہیں ہوئی ہے، لیکن چوں کہ عمامہ پہننا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنت وعادت کریمہ ہے اور صحابہٴ کرام وتابعین وتبع تابعین بھی عموماً عمامہ پہنا کرتے تھے، نیز یہ کسی دوسری قوم کا لباس نہیں، بلکہ مسلمانوں کا شعار ہے اور انسانوں کے لیے زینت ہے۔ لہٰذا ہمیں عمامہ اتارکر نماز پڑھنے کا اہتمام نہیں کرنا چاہیے، بلکہ عام حالات میں بھی عمامہ یا ٹوپی پہننی چاہیے اور عمامہ یا ٹوپی پہن کر ہی نماز ادا کرنی چاہیے ،اگرچہ عمامہ یا ٹوپی پہننا واجب یا سنت موٴکدہ نہیں ہے۔ 

جب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے عمامہ کا استعمال کرنا ثابت ہے، جس پر امت مسلمہ متفق ہے تو کوئی خاص فضیلت ثابت نہ بھی ہو تب بھی محض نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام کا عمل کرنا بھی اس کی فضیلت کے لیے کافی ہے، مثلاً سفید لباس نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو پسند تھا، اس لیے سفید لباس پہننا افضل ہوگا، خواہ کسی خاص فضیلت اور ثواب کی کثرت کا ثبوت ملتا ہو یا نہیں۔

عمامہ کو ٹوپی پر باندھنا
ؤحضرت رکانہ  فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو سنا ، فرمارہے تھے کہ ہمارے اور مشرکین کے درمیان فرق ٹوپی پر عمامہ باندھنا ہے۔ (ترمذی) بعض محدثین نے اس حدیث کی سند میں آئے ایک راوی کو ضعیف قرار دیا ہے۔

ٹوپی سے متعلق احادیث
٭…حضرت عبد اللہ بن عمر  فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سفید ٹوپی پہنتے تھے۔ (طبرانی) علامہ سیوطی نے الجامع الصغیرمیں تحریر کیا ہے کہ اس حدیث کی سند حسن ہے۔ الجامع الصغیر کی شرح لکھنے والے شیخ علی عزیزی نے تحریر کیا ہے کہ اس حدیث کی سند حسن ہے۔ (السراج المنیر لشرح الجامع الصغیر ج 4 ص 112)
٭…حضرت عبد اللہ بن عمر  فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سفید ٹوپی پہنتے تھے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی) اس حدیث کی سند میں آئے ایک راوی حضرت عبد اللہ بن خراش ہیں، ابن حبان نے ان کی توثیق کی ہے، نیز فرمایا کہ بسا اوقات غلطی کرتے ہیں۔ (مجمع الزوائد للہیثمی ج 2 ص 124)
٭…حضرت عبد اللہ بن عمر  سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: مُحرِم(یعنی حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والا مرد) کرتا، عمامہ، پائجامہ اور ٹوپی نہیں پہن سکتا ہے۔ (بخاری ومسلم) 

معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں ٹوپی عام طور پر پہنی جاتی تھی۔

٭…ؤحضرت عائشہ  سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سفر میں کان والی ٹوپی پہنتے تھے اور حضر میں پتلی یعنی شامی ٹوپی ۔ (ابو شیخ اصبہانی نے اس کو روایت کیا ہے) شیخ عبد الروٴوف مناوی  نے تحریر کیا ہے کہ ٹوپی کے باب میں یہ سب سے عمدہ سند ہے۔ (فیض القدیرشرح الجامع الصغیرج 5 ص246) 
٭…ابو کبشہ انماری  فرماتے ہیں کہ صحابہٴ کرام کی ٹوپیاں پھیلی ہوئی اور چپکی ہوئی ہوتی تھیں۔ (ترمذی)
٭…حضرت خالد بن ولید  کی غزوہٴ یرموک کے موقعہ پر ٹوپی گم ہوگئی تو حضرت خالد بن ولید  نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میری ٹوپی تلاش کرو۔ تلاش کرنے کے باوجود بھی ٹوپی نہ مل سکی۔ حضرت خالد بن ولید  نے کہا کہ دوبارہ تلاش کرو، چناں چہ ٹوپی مل گئی۔ تب حضرت خالد بن ولید  نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عمرہ کی ادائیگی کے بعد بال منڈوائے تو سب صحابہٴ کرام آپ صلی الله علیہ وسلم کے بال لینے کے لیے ٹوٹ پڑے تو میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے سر کے اگلے حصہ کے بال تیزی سے لے لیے اور انہیں اپنی اس ٹوپی میں رکھ لیا، چناں چہ میں جب بھی لڑائی میں شریک ہوتاہوں یہ ٹوپی میرے ساتھ رہتی ہے، انہیں کی برکت سے مجھے فتح ملتی ہے (اللہ تعالیٰ کے حکم سے)۔ (رواہ البیہقی فی دلائل النبوة، والحاکم فی مستدرکہ 229/3 )امام ہیثمی  نے مجمع الزوائد میں تحریر کیا ہے کہ اس حدیث کے راوی صحیح ہیں۔349/9)
٭…امام بخاری  نے اپنی کتاب میں ایک باب باندھا ہے: باب السجود علی الثوب فی شدة الحر، یعنی سخت گرمی میں کپڑے پر سجدہ کرنے کا حکم۔ جس میں حضرت حسن بصری  کا قول ذکر کیا ہے کہ گرمی کی شدت کی وجہ سے صحابہٴ کرام اپنی ٹوپی اور عمامہ پر سجدہ کیا کرتے تھے۔ 
٭…حضرت عمر  سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شہید وہ ہے جس کا ایمان عمدہ ہو اور دشمن سے ملاقات کے وقت اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی تصدیق کرتے ہوئے بہادری سے لڑے اور شہید ہوجائے، اس کا درجہ اتنا بلند ہوگا کہ لوگ قیامت کے دن اس کی طرف اپنی نگاہ اس طرح اٹھائیں گے۔ یہ کہہ کر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یا حضرت عمر  نے جو حدیث کے راوی ہیں اپنا سر اٹھایا، یہاں تک کہ سر سے ٹوپی گرگئی۔ (ترمذی)

حضرت عبد اللہ بن عمر  نے اپنے غلام نافع کو ننگے سر نماز پڑھتے دیکھا تو بہت غصہ ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ زیادہ مستحق ہے کہ ہم اس کے سامنے زینت کے ساتھ حاضر ہوں۔
٭… حضرت زید بن جبیر  اور حضرت ہشام بن عروہ  فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عبد اللہ بن زبیر (کے سر) پر ٹوپی دیکھی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
٭… حضرت عبد اللہ بن سعید  فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی بن ابی طالب(کے سر) پر سفید مصری ٹوپی دیکھی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
٭…حضرت اشعث  کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ اشعری  بیت الخلاء سے نکلے اور ان(کے سر) پر ٹوپی تھی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

وضاحت… حدیث کی اس مشہور کتاب ”مصنف ابن ابی شیبہ“ میں متعدد صحابہٴ کرام کی ٹوپیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، ان میں سے اختصار کی وجہ سے میں نے صرف تین صحابہٴ کرام کی ٹوپی کا تذکرہ یہاں کیا ہے۔ 

ٹوپی سے متعلق بعض علمائے امت کے اقوال
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام کی ٹوپیوں کا تذکرہ اس مختصر مضمون میں کرنا مشکل ہے، لہٰذا انہیں چند احادیث پر اکتفا کرتا ہوں، البتہ بعض علماء وفقہاء کے اقوال کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
٭…شیخ نعمان بن ثابت، یعنی امام ابوحنیفہ کی رائے ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنے سے نماز تو ادا ہوجائے گی ،مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔ فقہ حنفی کی بے شمار کتابوں میں یہ مسئلہ مذکور ہے۔
٭…علامہ ابن القیم  نے تحریر کیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم عمامہ باندھتے تھے اور اس کے نیچے ٹوپی بھی پہنتے تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم عمامہ کے بغیر بھی ٹوپی پہنتے تھے اور آپ صلی الله علیہ وسلم ٹوپی پہنے بغیر بھی عمامہ باندھتے تھے۔ (زاد المعاد فی ہدی خیر العباد)
٭…شیخ ناصر الدین البانی  کی رائے ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنے سے نماز تو ادا ہوجائے گی، مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔ (تمام المنة صفحہ164 )
٭… شیخ ابن لعربی  فرماتے ہیں کہ ٹوپی انبیاء اور صالحین کے لباس سے ہے۔ سر کی حفاظت کرتی ہے اور عمامہ کو جماتی ہے۔ (فیض القدیر)
٭…ہندوپاکستان وبنگلادیش وافغانستان کے جمہور علماء فرماتے ہیں کہ ننگے سر نماز پڑھنے سے نماز تو ادا ہوجائے گی، مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔
٭… ایک اہل حدیث عالم دین نے تحریر کیا ہے کہ ننگے سر نماز ہوجاتی ہے، صحابہٴ کرام سے جواز ملتا ہے، مگر بطور فیشن لاپرواہی اور تعصب کی بنا پر مستقل کے لیے یہ عادت بنالینا جیساکہ آج کل دھڑلے سے کیا جارہا ہے۔ ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے خود یہ عمل نہیں کیا۔ (مجلہ اہل حدیث سوہدرہ، پاکستان، ج 15، شمار22 … بحوالہ کتاب ٹوپی وپگڑی سے یا ننگے سر نماز؟)
٭… اہل حدیث عالم مولانا سید محمد داوٴد غزنوی  نے تحریر کیا ہے کہ سر اعضائے ستر میں سے نہیں ہے، لیکن نماز میں سر ننگے رکھنے کے مسئلہ کو اس لحاظ سے، بلکہ آداب نماز کے لحاظ سے دیکھنا چاہیے اور آگے کندھوں کو ڈھانکنے پر دلالت کرنے والی بخاری وموٴطا امام مالک کی روایات اور موٴطا کی شرح زرقانی (وتمہید)، ابن عبد البر، بخاری کی شرح فتح الباری، ایسے ہی شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ  کی کتاب الاخیارات اور امام ابن قدامہ کی المغنی سے تصریحات واقتباسات نقل کرکے ثابت کیا ہے کہ کندھے بھی اگرچہ اعضائے ستر میں سے نہیں ہیں، اس کے باوجود نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ایک کپڑا ہونے کی شکل میں ننگے کندھوں سے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ اسی طرح سر بھی اگرچہ اعضائے ستر میں سے نہ سہی ،لیکن آداب نماز میں سے یہ بھی ایک ادب ہے کہ بلاوجہ ننگے سر نماز نہ پڑھی جائے اور اسے زینت کا تقاضا بھی قرار دیا ہے… ابتدائے عہد اسلام کو چھوڑکر، جب کہ کپڑوں کی قلت تھی، اس کے بعد اس عاجز کی نظر سے کوئی ایسی روایت نہیں گزری، جس میں صراحتاً مذکور ہو کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یا صحابہٴ کرام نے مسجد میں اور وہ بھی نماز باجماعت میں ننگے سر نماز پڑھی ہو، چہ جائیکہ معمول بنالیا ہو۔ اس رسم کو جو پھیل رہی ہے بند کرنا چاہیے۔ اگر فیشن کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھی جائے تو نماز مکروہ ہوگی۔ (فتاویٰ علماء ِاہل حدیث ج 4 ص 290۔291 … بحوالہ کتاب ٹوپی وپگڑی سے یا ننگے سر نماز؟)
٭… ایک دوسرے اہل حدیث عالم مولانا محمد اسماعیل سلفی  نے تحریر فرمایا ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم، صحابہٴ کرام اور اہل علم کا طریق وہی ہے جو اب تک مساجد میں متوارث ہے اور معمول بہا ہے۔ کوئی مرفوع حدیث صحیح میری نظر سے نہیں گزری جس سے ننگے سر نماز کی عادت کا جواز ثابت ہو، خصوصاً باجماعت فرائض میں، بلکہ عادت مبارکہ یہی تھی کہ پورے لباس سے نمازادا فرماتے تھے… سر ننگا رکھنے کی عادت اور بلاوجہ ایسا کرنا اچھا فعل نہیں ہے۔ یہ فعل فیشن کے طور پر روز بروز بڑھ رہا ہے اور یہ بھی نامناسب ہے۔ … اگر حسِ لطیف سے طبیعت محروم نہ ہو تو ننگے سر نماز ویسے ہی مکروہ معلوم ہوتی ہے۔ ضرورت اور اضطرار کا باب اس سے الگ ہے۔ (فتاویٰ علماءِ اہل حدیث ج ۴ ص 286۔289 بحوالہ کتاب ٹوپی وپگڑی سے یا ننگے سر نماز؟)
٭…سعودی عرب کے تمام شیوخ کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ ٹوپی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنت اور تمام محدثین ومفسرین وفقہاء وعلماء وصالحین کا طریقہ ہے۔ نیز ٹوپی پہننا انسان کی زینت ہے اور قرآن کریم (سورہٴ الاعراف 31) کی روشنی میں نماز میں زینت مطلوب ہے، لہٰذا ہمیں ٹوپی پہن کر ہی نماز پڑھنی چاہیے۔ یہ فتاوے سعودی عرب کے شیوخ کی ویب سائٹ پر پڑھے اور سنے جاسکتے ہیں۔ سعودی عرب کی موجودہ حکومت کے نظام کے تحت کسی بھی حکومت کے دفتر میں کسی بھی سعودی باشندہ کا معاملہ اسی وقت قبول کیا جاتا ہے جب کہ وہ ٹوپی اور رومال کے ذریعہ سر ڈھانک کر حکومت کے دفتر میں جائے۔ سعودی عرب کے خواص وعوام کا معمول بھی یہی ہے کہ وہ عموماً سر ڈھانک کر ہی نمازادا کرتے ہیں۔

پہلا نکتہ
ان دنوں امت مسلمہ کی ایک چھوٹی سی جماعت حضرت عبد اللہ بن عباس  کی ایک حدیث کو بنیاد بناکر ننگے سر نماز پڑھنے کی بظاہر ترغیب دینے لگتی ہے : اَنَّ النَّبِیَّ کَانَ رُبَمَا نَزَعَ قَلَنْسُوَتَہ، فَجَعَلَہَا سُتْرَةً بَیْنَ یَدَیْہِ (ابن عساکر) نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کبھی کبھی اپنی ٹوپی اتارکر اسے اپنے سامنے بطور سترہ رکھ لیتے تھے۔ اس حدیث سے مندرجہ ذیل اسباب کی بنا پر ننگے سر نماز پڑھنے کی کسی بھی فضیلت پر استدلال نہیں کیا جاسکتا ہے۔ 

یہ روایت ضعیف ہے، نیز اس روایت کو ذکر کرنے میں ابن عساکر متفرد ہیں، یعنی حدیث کی مشہور ومعروف کسی کتاب میں بھی یہ حدیث مذکور نہیں ہے۔

اور اگر علی وجہ التنزل اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تب بھی یہ مطلق ننگے سر نماز پڑھنے کے جواز کے لیے دلیل نہیں بن سکتی، بلکہ اس حدیث کے ظاہری الفاظ بتارہے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایسا ایک اہم ضرورت کے وقت کیا جب ایسی کوئی چیز میسر نہ آئی، جسے بطور سترہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے سامنے رکھ لیتے اور احادیث میں سترہ کی کافی اہمیت وارد ہوئی ہے۔

اس حدیث سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوسکتا ہے کہ مرد حضرات کے لیے نماز میں ٹوپی یا عمامہ سے سر کا ڈھانکنا واجب نہیں ہے، جس پر امت مسلمہ متفق ہے۔

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ننگے سر صرف حج یا عمرہ کے احرام کی صورت میں ہی نماز پڑھنا ثابت ہے۔ رہا کوئی چیز نہ ملنے کی وجہ سے سترہ کے لیے اپنے آگے ٹوپی کا رکھنا توپہلی بات یہ عمل آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک دوسرے اہم حکم کو پورا کرنے کے لیے کیا ۔ دوسری بات اس حدیث میں اس کا ذکر نہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ننگے سر نماز پڑھی۔ ممکن ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اونچی والی ٹوپی جو آپ صلی الله علیہ وسلم سفر میں پہنتے تھے اس کو سترہ کے طور پر استعمال کیا ہو اور عمامہ یا سر سے چپکی ہوئی ٹوپی آپ صلی الله علیہ وسلم کے سر پر ہو کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی دو یا تین قسم کی ٹوپی کا تذکرہ احادیث وسیرت وتاریخ کی کتابوں میں آتا ہے۔

اس حدیث کے علاوہ ابن عساکر میں وارد ایک مقولہ سے بھی اس چھوٹی سے جماعت نے استدلال کیا ہے:(مساجد میں ننگے سر آوٴ اور عمامہ باندھ کر آوٴ، بے شک عمامہ تو مسلمانوں کے تاج ہیں)، لیکن محدثین نے اس مقولہ کو حدیث نہیں، بلکہ موضوع ومن گھڑت بات شمار کیا ہے۔ اور اگر یہ مقولہ حدیث مان بھی لیا جائے تو اس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ہمیں مسجد میں عمامہ باندھ کر آنا چاہیے۔

دوسرا نکتہ 
بعض حضرات ٹوپی کا استعمال تو کرتے ہیں، مگر ان کی ٹوپیاں پرانی، بوسیدہ اور کافی میلی نظر آتی ہیں۔ ہم اپنے لباس ومکان ودیگر چیزوں پر اچھی خاصی رقم خرچ کرتے ہیں، مگر ٹوپیاں پرانی اور بوسیدہ ہی استعمال کرتے ہیں۔ میرے عزیز بھائیو! سر کو ڈھانکنا زینت ہے، جیساکہ مفسرین ومحدثین وعلماء نے کتابوں میں تحریر کیا ہے اور نماز میں اللہ تعالیٰ کے حکم (خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ) کے مطابق زینت مطلوب ہے، نیز ٹوپی یا عمامہ کا استعمال اسلامی شعار ہے ، اس سے آج بھی مسلمانوں کی شناخت ہوتی ہے، لہذا ہمیں اچھی وصاف ستھری ٹوپی کا ہی استعمال کرنا چاہیے۔

تیسرا نکتہ 
نماز کے وقت عمامہ یا ٹوپی پہننی چاہیے، لیکن عمامہ یا ٹوپی پہننا واجب نہیں ہے۔ لہذا اگر کسی شخص نے عمامہ یا ٹوپی کے بغیر نماز شروع کردی تو نماز پڑھتے ہوئے اس شخص پر ٹوپی یا رومال وغیرہ نہیں رکھنا چاہیے ،کیوں کہ اس کی وجہ سے عموماًنمازی کی نماز سے توجہ ہٹتی ہے (خواہ تھوڑے وقت کے لیے ہی کیوں نہ ہو)، البتہ نماز شروع کرنے سے قبل اس کو عمامہ یا ٹوپی پہننے کی ترغیب دینی چاہیے۔

خلاصہٴ کلام
عمامہ یا ٹوپی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنت ہے (کیوں کہ احادیث وسیر وتاریخ کی کتابوں میں جہاں جہاں بھی عام زندگی کے متعلق نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے سر پر کپڑے ہونے یا نہ ہونے کا ذکر وارد ہوا ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم کے سر پر عمامہ یا ٹوپی کا تذکرہ 99 فیصد وارد ہوا ہے) صحابہ، تابعین، تبع تابعین، محدثین، فقہاء اور علمائے کرام عمامہ یا ٹوپی کا استعمال فرماتے تھے، نیز ہمیشہ سے اور آج بھی یہ مسلمانوں کی پہچان ہے۔لہٰذا ہم سب کو عمامہ وٹوپی یا صرف ٹوپی کا استعمال ہر وقت کرنا چاہیے۔ اگرہر وقت ٹوپی پہننا ہمارے لیے دشوار ہو تو کم از کم نماز کے وقت ٹوپی لگاکرہی نماز پڑھنی چاہیے۔ ننگے سر نماز پڑھنے سے نماز ادا تو ہوجائیگی، مگر فقہاء وعلماء کی ایک بڑی جماعت کی رائے ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنے کی عادت بنانا صحیح نہیں ہے، حتی کہ بعض فقہاء وعلماء نے متعدد احادیث، حضرت عبد اللہ بن عمر جیسے جلیل القدر صحابی کا اپنے شاگرد حضرت نافع  کو تعلیم اور صحابہٴ کرام کے زمانہ سے امت مسلمہ کے معمول کی روشنی میں ننگے سر نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے، جن میں سے شیخ نعمان بن ثابت امام ابوحنیفہ (80ھ ۔150ھ) اور شیخ ناصر الدین البانی  (1333ھ۔1420ھ)کا نام قابل ذکر ہے۔ آخر الذکر شیخ البانی صاحب کا تذکرہ اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ اِن دنوں جو حضرات ننگے سر نماز پڑھنے کی بات کرتے ہیں ان میں سے بعض حضرات عموماً احکام ومسائل میں شیخ ناصر الدین البانی  کے اقوال کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔ ننگے سر نماز کے متعلق انہوں نے واضح طور پر تحریر کیا ہے اوران کے اقوال کیسٹوں میں ریکارڈ ہیں کہ ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔

ہم ہند وپاک کے رہنے والے سعودی عرب میں مقیم عموماً فیشن کی وجہ سے ٹوپی کے بغیر نماز پڑھتے ہیں، حالاں کہ سعودی عرب میں 13-12 سال کے قیام کے دوران میں نے کسی بھی سعودی عالم یا خطیب یا مفتی یا مستقل امام کو سر کھول کر نماز پڑھتے یا پڑھاتے یا خطبہ دیتے ہوئے نہیں دیکھا، بلکہ ان کو ہمیشہ سر ڈھانکتے ہوئے ہی دیکھا۔ نہ صرف خواص، بلکہ سعودی عرب کی عوام بھی عموماً سر ڈھانک کر ہی نماز ادا کرتی ہے۔

وضاحت… یہ مضمون صرف مردوں کے سر ڈھانکے کے متعلق تحریر کیا گیا ہے، رہا خواتین کے سر ڈھانکنے کا مسئلہ تو امت مسلمہ متفق ہے کہ خواتین کے لیے سر ڈھانکنا ضروری ہے، اس کے بغیر ان کی نماز ہی ادا نہیں ہوگی۔

کوئی تبصرے نہیں: