پیر، 30 اکتوبر، 2017

کیوں کرتے ہیں ہم صحابہ کرام سے محبت

-------------------------------------

بسم اللہ والحمدللہ وحدہ والصلاۃ والسلام علی من لانبی بعدہ

 حضراتِ صحابہ کرام سے محبت اہلسنت والجماعت کے نزدیک اصول ایمان میں سے ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بنی نوع انسان کے برگزیدہ و منتخب افراد میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے اپنے پیارے رسولﷺ کی مصاحبت و نصرت اور دین کی دعوت و اشاعت کے لیے منتخب فرمایا تھا۔ صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین اُمت کا وہ طبقہ ہے جس نے حفاظت دین اور اگلی نسلوں تک اس کی تبلیغ کی اہم اور سنگین ذمہ داری کو اچھی طرح پوری کر چکا ہے۔ اگر یہ منتخب گروہ نہ ہوتا تو اسلامی شریعت بھی یہودیت ومسیحیت کی طرح تحریف کا شکار ہو جاتی۔ اب اگر کوئی شخص صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین کی صلاحیت وراست گوئی اور امانتداری کے حوالے سے شک و شبہ کا اظہار کرتا ہے تو دراصل وہ قرآن وسنت کی حقانیت پر طعن کرتا ہے اور ان مآخذ و منابع کو مشکوک بناتا ہے جو صحابہ کرام کے ذریعے ہم تک پہنچے ہوئے ہیں۔
 دوسری جانب صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین کی فضیلت میں موجود متعدد آیات و احادیث ان کی محبت کو ہم پر واجب بناتی ہیں، نیز جو افراد صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین کی شان میں گستاخی کرتے ہیں ان سے دشمنی و بغض کا سبق بھی ہمیں انہی قرآنی آیات و احادیث نبوی سے ملتا ہے۔
ہم صحابہ کرام سے بے پناہ محبت کرتے ہیں چونکہ:
 1۔ اللہ تعالی اُن سے راضی ہوا، ارشادربانی ہے:
 { لَقَدْ رَضِیَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِینَ إِذْ یُبَایِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِی قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِینَةَ عَلَیْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیبًا} (الفتح/ 18).
 (بیشک اﷲ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ (حدیبیہ میں ) درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے، سو جو (جذبۂ صِدق و وفا) ان کے دلوں میں تھا اﷲ نے معلوم کر لیا تو اﷲ نے ان (کے دلوں ) پر خاص تسکین نازل فرمائی اور انہیں ایک بہت ہی قریب فتحِ (خیبر) کا انعام عطا کیا)
 2۔ اس لیے کہ اللہ تعالی نے انہیں ایمان کی صفت سے متصف کرکے یاد کیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
 (وَإِن یُرِیدُواْ أَن یَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِی أَیَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِینَ} (الانفال/ 62)
(اور اگر وہ چاہیں کہ آپ کو دھوکہ دیں تو بیشک آپ کے لئے اللہ کافی ہے، وہی ہے جس نے آپ کو اپنی مدد کے ذریعے اور اہلِ ایمان کے ذریعے طاقت بخشی)
 3۔ ہمیں صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین سے اس لئے محبت ہے چونکہ اللہ تعالی نے ان کی تصدیق کرکے انہیں کامیاب قرار دیا ہے اور انہیں جنت کا وعدہ بھی دیا ہے، ارشاد باری ہے:
{لَكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِینَ آمَنُواْ مَعَهُ جَاهَدُواْ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ وَأُوْلَئِكَ لَهُمُ الْخَیْرَاتُ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ* أَعَدَّ اللّهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ} (التوبہ/89-88).
(لیکن رسول(ﷺ) اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہیں اور انہی لوگوں کے لئے سب بھلائیاں ہیں اور وہی لوگ مراد پانے والے ہیں * اللہ نے ان کے لئے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں (وہ) ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی بہت بڑی کامیابی ہے.)
 4۔ ہم صحابہ کرام سے محبت کرتے ہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں یوں مخاطب کیا ہے:
 كُنتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران/110)؛
تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، ) ابن عباس فرماتے ہیں : یہی وہ لوگ تھے جنھوں نے نبی کریمﷺ کے ساتھ ہجرت کی۔
 5۔ ہم صحابہ سے محبت کرتے ہیں چونکہ اللہ تعالی بھی صحابہ کرام سے محبت کرتا ہے، چنانچہ فرماتا ہے:
{فَسَوْفَ یَأْتِی اللّهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ } (المائدہ؛ 54)
(عنقریب اﷲ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہو گا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے)
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اللہ کی قسم یہ آیت “حروراء” کے لوگوں کے بارے میں نازل نہیں ہوئی بلکہ حضرت ابوبکر و عمر اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
 6۔ ہم صحابہ کرام سے محبت کرتے ہیں چونکہ اللہ تعالی نے انہیں سچے مومن قرار دیا ہے، ارشاد ربانی ہے:
 {وَالَّذِینَ آمَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَاهَدُواْ فِی سَبِیلِ اللّهِ وَالَّذِینَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَّهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِیمٌ} (الانفال/ 74)؛
(اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (راہِ خدا میں گھر بار اور وطن قربان کر دینے والوں کو) جگہ دی اور (ان کی) مدد کی، وہی لوگ حقیقت میں سچے مسلمان ہیں، ان ہی کے لئے بخشش اور عزت کی روزی ہے).
 7۔ نبی کریمﷺ نے ان سے محبت کرنے کو ایمان کی علامت اور بغض صحابہ کو نفاق کی علامت قرار دیا ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے:
 «آیَةُ الایمان: حب الانصار، وآیَةُ النفاق بغض الانصار»؛متفق علیہ.
ترجمہ: “انصار سے محبت ایمان کی علامت اور ان سے بغض نفاق کی علامت ہے”۔
 8۔ ہمیں صحابہ کرام سے پیار ہے چونکہ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان کے تعلق سے بُرا کہنے سے منع کیا ہے، ارشاد نبوی ہے: -: «إذا ذُكِر أصحابی فأمسكوا، و إذا ذُكِرتِ النُّجوم فأمسكوا، و إذا ذُكِرَ القدر فأمسكوا ] صحَّحه الألبانی 545 فی صحیح الجامع[
 (جب بھی میرے صحابہ کے بارے میں بات ہو رہی ہو تو خاموش رہو، جب بھی ستاروں سے متعلق بات ہوہی ہو تو خاموش رہو، اور جب بھی قدر سے متعلق بات ہوہی ہو تو خاموش رہو)
 9۔ صحابہ کرام سے ہمیں محبت ہے چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امت مسلمہ کے امن و قرار کا سبب قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں :
النجوم أمنة للسماء، فإذا ذهبت النجوم أتی السماء ما توعد، وأنا أمنة لأصحابی فإذا ذهبتُ أتی أصحابی ما یوعدون، وأصحابی أمنة لأمتی، فإذا ذهب أصحابی أتی أمتی ما یوعدون}؛ (مسلم:2531)۔
 ترجمہ: ستارے آسمان کے لئے امان ہیں جب ستاروں کا نکلنا بند ہو جائے گا تو پھر آسمان پر وہی آ جائے گا جس کا وعدہ کیا گیا میں اپنے صحابہ کے لئے امان ہوں اور میرے صحابہ میری امت کے لئے امان ہیں پھر جب میں چلا جاؤں گا تو میرے صحابہ میری امت کے لئے امان ہیں تو جب صحابہ کرام چلے جائیں گے تو ان پر وہ فتنے آن پڑیں گے کہ جن سے ڈرایا جاتا ہے .
 10۔ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اس امت کے بہترین افراد قرار دیا ہے اسی لیے ہمیں ان سے محبت ہے، چنانچہ فرماتے ہیں :
 خیر أمَّتی القرن الّذین یلونی ثمَّ الَّذین یلونهم ثمَّ الَّذین یلونهم (مسلم: 2532)۔
 ترجمہ: میری امت کے بہترین اشخاص وہ ہیں جن کے درمیان میری بعثت ہوئی (صحابہ کرام)، پھر (وہ نسل) جو ان کے بعد آئے (تابعین)، پھر (سب سے بہترین افراد وہ ہیں ) جو ان کے بعد آئیں (تبع تابعین)۔
 11۔ ہم صحابہ سے محبت کرتے ہیں اس لیے کہ ہمارے پیارے نبی علیہ السلام نے ہمیں صحابہ کو بُرا بھلا کہنے سے منع کیا ہے، فرمان نبوی ہے:
 {لا تسبوا أصحابی، فوالذی نفسی بیده لو أنَّ أحدكم أنفق مثل أحد ذهباً ما بلغ مُدَّ أحدهم ولا نصیفه}۔ (مسلم: 2540.)؛
 ترجمہ: میرے اصحاب کو برا بھلا مت کہو، اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مد( مٹھی) غلہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر۔
 12۔ ہم صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین سے محبت کرتے ہیں چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے ہر اس شخص پر جو صحابہ رضی الله تعالی عنهم أجمعین کو گالی دیتا ہے، فرماتے ہیں :
 “لعن الله من سبَّ أصحابی” [حسَّنه الألبانی 5111 فی صحیح الجامع[
 ترجمہ: اللہ تعالی کی لعنت ہو اس شخص پر جو میرے صحابہ کو بُرا بھلا کہے۔
 13۔ ہمیں صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین سے محبت ہے چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ان کے ذریعے دین پھیلے گا اور اسلام کی نصرت ہو گی۔ امر واقع بھی یہی ہے۔ ارشاد نبوی ہے:
 یأتی علی الناس زمان، یغزو فئام من الناس، فیقال: فیكم من صاحب رسول الله صلی الله علیه وسلم ؟ فیقولون: نعم، فیفتح لهم، ثم یأتی علی الناس زمان، فیغزو فئام من الناس، فیقال لهم: فیكم من صاحب أصحاب رسول الله صلی الله علیه وسلم ؟ فیقولون: نعم، فیفتح لهم، ثم یأتی علی الناس زمان، فیغزو فئام من الناس، فیقال لهم: هل فیكم من صاحب من صاحب أصحاب رسول الله صلی الله علیه وسلم ؟ فیقولون: نعم، فیفتح لهم}۔ (بخاری ومسلم)؛
 ترجمہ: ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ کچھ لوگ جہاد کریں گے، ان سے پوچھا جائے گا تمہارے ساتھ ایسا آدمی ہے جو نبی کریمﷺ کا ہمرکاب رہا ہو؟ وہ کہیں گے: جی ہاں، اس طرح (مقابلے کے بعد) وہ لوگ فتح یاب ہوں گے۔ پھر کسی اور زمانے میں مسلمانوں کا ایک گروہ جہاد کرنے جائے گا، ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تمہارے ساتھ ایسا بندہ ہے جو صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین کے ساتھ رہا ہو؟ جواب آئے گا کہ جی ہاں، پھر مجاہدین کا وہ گروہ فتح یاب ہو گا۔ ایک ایسا دور بھی آئے گا کہ بعض لوگ جہاد کے لیے نکلیں گے تو ان سے سوال ہو گا کہ کیا تمہارے ساتھ ایسا آدمی ہے جو صحابہ کرام کے ساتھیوں کے ہمرکاب رہا ہو؟ وہ کہیں گے: جی، تو کامیاب ہوں گے۔
 14۔ ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت ہے چونکہ وہ نبی کریمﷺ کے وزیر اور مدد گار ساتھی تھے، اس بارے میں آپﷺ نے فرمایا:
 ان الله تبارك وتعالی اختارنی، واختار لی أصحاباً، فجعل لی منهم وزراء وأنصاراً وأصهاراً، فمن سبهم فعلیه لعنة الله والملائكة والناس أجمعین، لا یقبل منه یوم القیامة صرف ولا عدل}۔ (رواہ حاکم وصحّحہ)۔
 ترجمہ: حضور اکرم نے فرمایا: اللہ نے مجھے منتخب فرمایا ہے اور میرے لئے میرے صحابہ کو منتخب کیا ان کو میرا وزیر‘ مددگار اور رشتہ دار بنایا جو ان کو برا کہے اس پر اللہ تعالیٰ کی‘ فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا کوئی فرض اور کوئی کفارہ قبول نہ کرے گا.
 15۔ ہم صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین سے محبت کرتے ہیں اس لیے کہ ان سے محبت کرنا نبی کریمﷺ سے محبت کرنا ہے اور صحابہ سے نفرت آپﷺ سے نفرت کی دلیل و علامت ہے، اسی بارے میں فرمان نبوی ہے:
{الله الله فی أصحابی، لا تتخذوهم غرضاً بعدی، فمن أحبهم فبحبی أحبهم، ومن أبغضهم فببغضی أبغضهم، ومن آذاهم فقد آذانی، ومن آذانی فقد آذی الله، ومن آذی الله أوشك أن یأخذه} (رواہ احمد وترمذی وجعلہ حسناً)؛
 ترجمہ: میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو! میرے بعد ان کو (طعن وتشنیع کا )نشانہ نہ بنانا (یاد رکھو) جس نے اِن سے محبت کی، پس میری محبت کی وجہ سے اِس نے اُن سے محبت کی۔ جس نے اُن سے بغض رکھا پس میرے بغض کی وجہ سے اُن سے بغض رکھا اور جس نے اُن کو اذیت دی پس اس نے مجھے اَذیت دی جس نے مجھے اَذیت دی، اس نے اللہ کو اذیت دی اور جس نے اللہ کو اذیت دی، پس قریب ہے کہ وہ اس کو گرفت کر لے.
16۔ ہمیں صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین سے محبت ہے چونکہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ان کے احترام و عزت کو اپنے ہی احترام کے مترادف قرار دیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں : {احفظونی فی أصحابی، ثم الذین یلونهم، ثم الذین یلونهم}۔ (ابن ماجہ: 1927، وصححہ الالبانی)؛
 ترجمہ: میری منزلت و عزت کی حفاظت کے لیے میرے صحابہ اور ان کے بعد آنے والے دو صدیوں کے لوگوں کی منزلت و عزت کا خیال رکھو۔
 18۔ ہم صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین سے محبت کرتے ہیں اس لیے کہ وہ اہل علم و فضیلت، اخلاق اور سچائی والے تھے، ارشاد نبویﷺ ہے:
 أرحم أمتی بأمتی أبوبكر، وأشدهم فی دین الله عمر، وأصدقهم حیاء عثمان، وأقضاهم علی، وأفرضهم زید بن ثابت، وأقرؤهم أبیّ، وأعلمهم بالحلال والحرام معاذ بن جبل، ألا وإن لكل أمة أمیناً، وأمین هذه الأمة أبوعبیدة بن الجراح}۔ (حاکم، صحَّحه الألبانی 868 فی صحیح الجامع.)
 ترجمہ: میری امت پرسب سے زیادہ رحیم ابوبکر ہے، دین پر سختی سے عمل کرنے والا عمر ہے، سب سے زیادہ سچے با حیا عثمان ہے، عدل میں سب سے آگے علی ہے، ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین ابوعبیدہ بن الجراح ہے۔
 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ صحابہ کرام کے صفات عالیہ کے ذکر میں کہتے ہیں :
 جب اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک کو بہترین پایا۔ تو انہیں منتخب کر کے اپنا نبی بنایا۔ پھر اللہ تعالی نے سارے قلوب پر نظر ڈالی تو صحابہ کرام کے دلوں کو بہترین پایا سو انہیں اپنے برگزیدہ پیغمبر کی صحبت کے لیے منتخب کر کے آپﷺ کے وزیر بنا دیا تا کہ اس کے دین کی راہ میں لڑیں۔ اسی طرح ایک اور جگہ فرماتے ہیں : اگر کوئی شخص سنت پر عمل کرنا چاہتا ہے تو ان کی پیروی کرے جن کا انتقال ہو چکا ہے، چونکہ جو زندہ ہیں معلوم نہیں فتنے کا شکار ہوں گے کہ نہیں۔ جو اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں وہ نبی کریمﷺ کے صحابہ ہیں جو امت میں عقائد کے اعتبار مضبوط ترین اور سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے، دین میں وہ بہت کم تکلف کرنے والے تھے۔ صحابہ کرام وہ لوگ تھے جنہیں اللہ تعالی نے اپنے نبی کے مصاحبت اور دین کے قیام کے لیے منتخب فرمایا تھا۔ ان کی جاہ و مقام کو پہچانو اور ان کے طریقے پر چلو اس لیے کہ وہ ہدایت اور راہ راست پر تھے۔ [رواه ابن عبد البرّ[
 صحابہ کرام کے حوالے سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
 واضح اور آشکار مسائل میں سے ایک صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین کی تمام خوبیوں کو بیان کرنا، ان کی غلطیوں اور آپس کے اختلافات کو بیان کرنے سے گزیر کرنا ہے۔ لہٰذا جو شخص کسی بھی صحابی کی شاں میں گستاخی کرے، برا بھلا کہے اور طعنہ زنی کرے یا کسی صحابی کی عیب جوئی کرے تو وہ شخص بدعتی، ناپاک، رافضی او اہل سنت کا مخالف ہے۔ اللہ تعالی (قیامت کے دن) نہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا نہ کوئی فدیہ و کفارہ اس کی جان چھڑا سکے گا۔
اس کے برعکس صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین سے محبت سنت اور ضروری ہے، ان کے لیے نیک دعاء کرنا قرب الہی کا باعث ہے۔ ان کی پیروی باعث نجات ہے اور ان کی راہ پر چلنا فضیلت شمار ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سب سے اچھے لوگ تھے، کسی انسان کے لیے مناسب نہیں کہ انہیں گالیاں دے یا عیب جوئی کر کے ان کی شان میں گستاخی کرے اور انہیں گندی زبان سے یاد کرے۔ [كتاب السُّنَّة ص78[
 امام آجری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
 اللہ تعالی کی توفیق سے میں نے اپنی کتاب (شریعہ) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل تحریر کیا۔ اس کے بعد صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین کے فضائل کا تذکرہ ہو گا۔ جنہیں اللہ تعالی نے منتخب فرمایا اور اپنے برگزیدہ نبی کے لیے وزیر، رشتہ دار، ساتھی اور اس کی امت کے لیے خلیفہ مقرر فرمایا۔ مہاجرین و انصار وہ حضرات تھے جن کو اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بہترین اوصاف کے ساتھ یاد کیا ہے۔ قرآن میں آیا ہے اللہ تعالی نے توریت میں بھی صحابہ کرام کو اچھے الفاظ و اوصاف میں یاد کیا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالی کا فضل و کرم ہے۔ اللہ جلّ وعلیٰ کا فضل بہت بڑا ہے جسے چاہے وہ عطا فرماتا ہے۔
 مہاجرین: مہاجرین وہ جاں نثار صحابہ تھے جنہوں نے اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لایا اور اپنے عمل سے اُسے ثابت کر دکھایا، سختیوں اور برے دنوں میں آپﷺ کے ساتھ رہے، اللہ کی راہ میں ذلت اور بھوک کو غیر اللہ کے راستے میں عزت اور شکم سیری پر ترجیح دی۔ اللہ کی رضا کے لیے رشتہ دار اور اجنبی کی مخالفت کو بخوشی قبول کیا۔ مہاجرین اپنے والدین، خاندان، قبیلہ، جائیداد اور سب کچھ چھوڑ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم رکابی میں ہجرت کے لیے نکلے۔ ان سب چیزوں سے زیادہ اہم ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول تھے اس لیے کہ ان کا ایمان مضبوط، عقل سلیم، نفس پاک، رائے صائب اور صبر زیادہ تھا اور یہ اللہ تعالی کی توفیق تھی۔ ارشاد الہی ہے:
 رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُوْلَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ } (المجادلہ :۲۲)؛
 ترجمہ: اللہ اُن سے راضی ہو گیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں، یہی اﷲ (والوں ) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بیشک اﷲ (والوں ) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے.
 انصار: وہ لوگ تھے جنہیں اللہ تعالی نے اپنے دین کی نصرت اور نبیﷺ کی پیروی کے لیے منتخب فرمایا۔
 جب نبی کریم صلی الله علیه وسلم مکہ مکرمہ میں تشریف فرما تھے انصاری صحابہ آپ کے پاس تشریف لا کر مومنوں کی صف میں شامل ہو گئے۔ انصار اپنی بیعت میں مخلص تھے اور ہمہ تن آپﷺ کی نصرت و مدد کیلیے کمر بستہ تھے۔ انصار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی مکمل پیروی کرنے والے تھے اور نبی کریمﷺ سے محبت کی وجہ سے انہوں نے آپ کو مدینہ آنے کی دعوت دی۔ آپﷺ نے فرمایا ابھی تک ہجرت کا وقت نہیں آیا ہے۔ انصار کا وہ دستہ جو آپﷺ کے دست مبارک پر بیعت کر چکا تھا واپس مدینہ چلا گیا تو وہ دیگر اہل مدینہ کے مشرف بہ اسلام ہونے کا ذریعہ بن گئے۔
 تمام انصار اپنے ایمان میں ثابت قدم تھے چنانچہ جب مہاجرین مدینہ پہنچے تو انکا شاندار استقبال کیا گیا، انہوں نے نبی کریمﷺ و دیگر مہاجرین کا خوب اکرام کیا۔ انصار کو معلوم ہوا یہ مبارک ہجرت اللہ تعالی کی طرف سے ان کے لیے بڑی نعمت ہے۔ اس کے بعد دیگر مہاجرین جب مدینہ پہنچے تو انصار نے ان کی بھی عزت و خدمت کی۔ اپنے گھروں کو تقسیم کر کے انہیں جگہ دینے کے علاوہ ان کو اپنے بچوں اور بیویوں پر بھی ترجیح دی۔ اللہ تعالی نے ان کے دلوں میں الفت و محبت ڈالی تھی جس کی برکت سے وہ بھائی بھائی بن کر رہ رہے تھے۔ اللہ تعالی صحابہ کرام کی تعریف میں فرماتے ہیں :
 وَإِن یُرِیدُواْ أَن یَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِی أَیَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِینَ* وَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعاً مَّا أَلَّفَتْ بَیْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَیْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِیزٌ حَكِیمٌ }؛ (الأنفال۔ 63۔ 62)؛
 ترجمہ: اور اگر وہ چاہیں کہ آپ کو دھوکہ دیں تو بیشک آپ کے لئے اللہ کافی ہے، وہی ہے جس نے آپ کو اپنی مدد کے ذریعے اور اہلِ ایمان کے ذریعے طاقت بخشی اور (اسی نے) ان (مسلمانوں ) کے دلوں میں باہمی الفت پیدا فرما دی۔ اگر آپ وہ سب کچھ جو زمین میں ہے خرچ کر ڈالتے تو (ان تمام مادی وسائل سے) بھی آپ ان کے دلوں میں (یہ) الفت پیدا نہ کر سکتے لیکن اللہ نے ان کے درمیان (ایک روحانی رشتے سے) محبت پیدا فرما دی۔ بیشک وہ بڑے غلبہ والا حکمت والا ہے.
 ایک دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِیعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَیْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَی شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ یُبَیِّنُ اللّهُ لَكُمْ آیَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ}  (آل عمران۔ 103)
 ترجمہ: اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہو گئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر(پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ.
 ان آیات قرآنی سے معلوم ہوا سارے صحابہ کرام بشمول مہاجرین و انصار اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ کے خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی نصرت و مدد پر وہ متفق تھے، شریعت اور احکام کے نفاذ میں وہ متحد اور آپﷺ کے بہترین ساتھی تھے۔ اس راہ میں وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اور ہر حال میں نبی کریمﷺ کی نصرت اور اسلام کے لیے جاں نثاری ان کا مقصد حیات بن چکا تھا۔ اسی لیے ایک سے زائد مرتبہ اللہ تعالی نے مہاجرین و انصار کی تعریف کی ہے، انہیں جنت کا وعدہ دیا ہے اور اپنی رضامندی کا اعلان بھی فرمایا ہے
 رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُوْلَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ }المجادلہ۔ 22)؛
 ترجمہ: اللہ اُن سے راضی ہو گیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں، یہی اﷲ (والوں ) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بیشک اﷲ (والوں ) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے.
 صحابہ کرام کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :صحابہ کرام کے فضائل سے وہ شخص واقف ہوسکتاہے جو عہد نبویﷺ میں ان کا تعامل اور اس کے بعد کی زندگی پر گہری نظر ڈالے۔ صحابہ کرام وہ عظیم شخصیات تھے جو ایمان، کفار سے جہاد و قتال، اشاعت دین، قیام دین، اعلائے شان احکامات الہی و نبوی، فرائض اور سنن نبوی کی تعلیم و تعلم میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش کرتے تھے۔ اگر صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین نہ ہوتے تو ہرگز دین کا کوئی اصل یا فرع ہم تک نہیں پہنچ سکتا۔ ہرگز نبی کریمﷺ کی کوئی حدیث یا سنت سے ہم واقف نہیں ہوسکتے تھے۔
 اس لیے جو شخص صحابہ کے حوالے سے طعنہ زنی وگستاخی سے کام لے وہ پوری طرح دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے چونکہ جو شخص صحابہ کو گالیاں دے کر طعنہ زنی کرتا ہے وہ اس طرح اپنے عقیدے کا اظہار کرتا ہے کہ صحابہ کرام ہی غلط راستے پر تھے اور قرآن پاک اور احادیث میں ان کے جتنے اوصاف مذکور ہیں یہ لوگ ان تعریفوں کی تردید کرتے ہیں۔ یہ قرآن و حدیث کا انکار ہے۔ جو شخص صحابہ پر طعن کرتا ہے در اصل وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتا ہے۔ نصوص شریعت کے ناقلین کی توہین وگستاخی درحقیقت نصوص (قرآن وسنت) کی توہین ہے۔ یہ اہم بات ہر اس شخص کے لیے قابل فہم و درک ہے جو تدبر کا اہل ہو، نفاق و کفر اور الحاد سے دور ہو۔ (الکبائر ص۔ ۲۷۴)
 فُضیل بن عیاض رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں :صحابہ سے محبت ذخیرہ آخرت ہے۔ اللہ کی رحمت ہو اس شخص پر جو صحابہ رسولﷺ پر سلام و درود بھیجے۔
عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :اگر کسی شخص میں یہ دو صفات ہوں مجھے امید ہے کہ وہ قیامت کے عذاب سے محفوظ رہے گا، ایک سچائی اور دوسرا اصحاب رسول سے محبت۔ [الشَّریعة4/1688[
 ابوبکر بن الطیب صحابہ رضی اللہ عنہم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں :
                                إنِّی رضیت علیًّا قدوةً علمًا          ***         كما رضیتُ عتیقًا صاحبَ الغارِ
                                 وقد رضیت أبا حفصٍ وشیعتَه    ***         وما رضیتُ بقتلِ الشَّیخ فی الدَّارِ
                                كلُّ الصَّحابة عندی قدوةٌ علم      ***        فهل علیَّ بهذا القولِ من عارٍ
                                إن كنت تعلم أنِّی لا أحبُّهم         ***        إلا لوجهك فاعتقنی من النَّارِ
 ترجمہ:علی کے مثالی ہونے میں مجھے اتنا یقین ہے جتنا ابوبکر کی جہنم سے نجات پر، میں عمر اور اس کے ساتھیوں سے خوش ہوں مگر عثمان کی اپنے ہی گھر میں شہادت پر افسوس ہے۔ سارے صحابہ کرام میرے نظر میں نمونہ اور عظیم المرتبت ہیں، کیا میں اس طرح عقیدہ رکھنے پر قابل ملامت ہوں ؟! اے پروردگار! آپ جانتے ہیں کہ میں صرف آپ کی خوشنودی و رضا حاصل کرنے کے لیے صحابہ سے محبت کرتا ہوں لہٰذا جہنم کے عذاب سے مجھے بچا دے!
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين.  وصلى اللَّه وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه والتابعين لهم بإحسان إلى يوم الدين .

٭٭٭


جمعرات، 26 اکتوبر، 2017

فرقہ واریت کے خاتمہ کیلئے امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے چالیس ارشادات (از نہج البلاغہ)

مرتب: ایم ایم ابوعثمان علی : بحوالہ    ماہنامہ  دارالعلوم ديوبند


اللہ وحدہ لاشریک لہ سے محبت
                ارشاد الٰہی ہے : ”کچھ لوگ اللہ کے ساتھ (ذات وصفات اور حقوق میں) اوروں کو شریک بتاتے ہیں کہ ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ سے ہونی چاہیے۔ اور ایمان والے تو اللہ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں“۔ (بقرہ ع۲۰ پ۲)
                حضرت امیرالمومنین علی المرتضیٰ سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرتے تھے چندارشادات ملاحظہ فرماکر عقیدئہ توحید درست کریں۔
                (۱)          میں خدائے پاک کی حمد کرتا ہوں اس کی نعمت کی تکمیل، اس کی عزت کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اوراسکی نافرمانی سے بچنے کیلئے اس کی مدد کا طالب ہوں اس کی کفالت کا محتاج ہوں جسے وہ ہدایت دے وہ گمراہ نہیں ہوسکتا اور جس کا وہ دشمن ہوجائے وہ نجات نہیں پاسکتا جس کا وہ ضامن ہوجائے وہ پریشان نہیں ہوسکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہم ہمیشہ اسی سے تمسک کرتے اور مدد مانگتے ہیں جب تک وہ ہمیں زندہ رکھے، آنے والے خطرات سے وہ بچائے گا کیونکہ یہی ایمان کی محکم بنیاد، پہلا عمل خیر، رضائے الٰہی کا ذریعہ اور شیطان سے دوری کا سبب ہے۔ (نہج البلاغہ، ص:۱۸۱ خطبہ صفین)
                یہاں سے پتہ چلا کہ جنگ و مصیبت میں صرف خدا سے مدد مانگنا حضرت علی کا ایمان وعمل تھا ہم مومن تب ہوں گے کہ آپ کے تابعدار بن کر صرف خدا کو پکاریں اور غیر خدا سے ”یا فلاں مددکر“ کا شرکیہ نعرہ نہ لگائیں۔
                (۲) امیرالمومنین یہ دعا بکثرت فرمایا کرتے تھے: ”تمام حمد اس خدا کی جس نے مجھے مردہ رکھا ہے نہ بیمار، نہ میری رگوں میں جراثیم ہیں نہ برے اعمال کا نتیجہ بھگت رہا ہوں میں اس کا بے اختیار بندہ اور اپنے نفس پر ظلم و جور کا خوگر ہوں۔ تیری حجت مجھ پر تمام ہوچکی، میرے لیے اب عذر کی گنجائش نہیں۔ خدا وندا مجھے کوئی طاقت نہیں کہ کوئی شے حاصل کروں، ہاں تو جو عطا کرے کسی چیز سے بچنے کی طاقت نہیں، ہاں جس سے تو بچاوے خداوندا تجھ سے پناہ چاہتا ہوں۔(نہج البلاغہ)
                (۳) جوتیرا نافرمان ہو وہ تیری سلطنت کو کم نہیں کرسکتا، جو تیرا فرمانبردار ہو وہ تیری سلطنت کو بڑھا نہیں سکتا۔ ہرراز تیرے لیے آشکار ہے اور ہر عیب تیرے سامنے ہے۔ تو قدیم ازلی ہے تیرا کوئی شریک نہیں تیری کوئی حد نہیں اور توآخری منزل ہے۔ (نہج البلاغہ ،ص:۳۸۴)
                (۴) خدا نعمتوں، بخششوں اور روزیوں کو تقسیم کرکے احسان کرنے والا ہے، مخلوق اس کی عیال ہے، اس نے سب کے رزق کی ذمہ داری لی ہے نہ اس کا بے انداز ذخیرہ ختم ہوتا ہے نہ اس کے اکرام و انعام کے خزانوں کو دنیا کی مانگیں ختم کرسکتی ہیں۔ (نہج البلاغہ،ص:۳۴۰)
                (۵) اپنے لخت جگر محمد بن حنفیہ کو فنون حرب کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا : ”یقین رکھو کہ مدد فتح خدا کی طرف سے ہوتی ہے“۔ (نہج البلاغہ ،ص:۲۱۰)
                (۶) خدا کے بندو! اسی سے فتح و کامیابی اور حاجت روائی چاہو، اسی کی طرف دست سوال بڑھاؤ اسی سے بخشش کی بھیک مانگو۔ تمہارے اوراس کے درمیان کوئی پردہ نہیں میرا ایمان ہے وہی اوّل وآخر ہے، میں اسی سے مدد چاہتا ہوں، اسی پر توکل کرتاہوں، وہی مجھے کافی اور مددگار ہے، وہی قادر وتوانا ہے۔ (نہج البلاغہ)
                (۷) حضرت علی توحید کی شہادت اور رب کی صفات یوں بیان فرماتے ہیں: ”اللہ کے سوا کوئی خالق رازق، معبود، نفع و نقصان دینے والا، کم و بیش کرنے والا، دینے اور روکنے والا، مصائب ٹالنے والا، بھلا پہنچانے والا، کام آنے والا، شفا دینے والا، آگے کرنے والا اور پیچھے کرنے والا کوئی نہیں۔ مخلوق کا پیدا کرنا، اسے سنبھالنا اسی کا خاصہ ہے۔ اس کے ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں، تمام جہانوں کا پالنے والا وہ رب بہت بابرکت ہے۔ (عماد الاسلام ،ج:۱، ص:۱۸۱)
                (۸)         تفسیر صافی صفہ ۲۰ پر حضرت امیرالمومنین نے رب کی یہی صفات بیان فرمائی ہیں۔ (از اصول الشریعہ ،ص:۱۶۳)
                انبیاء علیہم السلام کی قرآنی تاریخ شاہد ہے کہ جن ہستیوں نے خدا کی یہ مخصوص صفات بتائیں ان کے جاہل عقیدت مندوں نے یہی خدائی صفات عطائی طورپر خود ان میں مان لیں پھر ان کے نام پر نذر ونیاز حاجت برآوری کے لیے دعا وپکار شروع کردی قوم نوح نے حضرت ادریس کے پانچ نیک صاحبزادوں ود، سواع، یغوث، یعوق اورنسر کے بت بناکر پوجے حضرت ابراہیم نے پھر ان کے یہ بت توڑے توآپ کی جاہل اولاد قریش نے خود حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام اور لات منات ہبل کے بت بناکر پوجے جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے وقت توڑاتھا حضرت علی جیسی باکمال ہستی اس ظلم وغلو سے بچ نہ سکی ان کو بھی جاہل یہود مجوس نے غالی عقیدت و محبت سے رب، ہر چیز کا خالق، مالک، کارساز اورحاجت روا بناڈالا اور مدد کا نعرہ لگایا جن کے ۷۰ افراد کو آپ نے مرتد قرار دے کر زندہ جلادیا۔ (رجال کشی مشکوٰة) مولانا فاضل مجتہد محمد حسین لکھتے ہیں: ”متعدد اخبار و آثار میں مذکور ہے کہ جناب امیرعلیہ السلام نے اپنی ظاہری دورخلافت میں اپنے متعلق غلو کرنے والوں کو زندہ نذر آتش کردیاتھا (ہفتم بحار صفحہ ۳۴۹ اصول شرعیہ صفحہ ۲۷ وغیرہ) اگر حضرت علی کا یہ قانون نافذ ہوتو ذرائع ابلاغ سے شرک کے اڈے خاکستر ہوجائیں۔ خدا کی ذات کے ساتھ حضرت علی کی محبت کا یہ خاص معیار ہے کہ اپنے غالی حبداروں کو جلادیا جبکہ حضرت عیسیٰ روح اللہ جیسی ہستی قیامت کے دن کہے گی ”اگر توان کو سزا دے تو تیرے بندے ہیں اور اگر تو بخش دے تو تُو بڑا زبردست حکمت والا ہے اللہ فرمائے گا (غالی مشرک کو نہ بخشوں گا) اس دن سچے موحدوں کو ان کا سچ نفع دے گا جن کے لیے ہمیشہ نہروں والے باغات ہیں اللہ ان سے خوش وہ اللہ سے خوش یہی تو بڑی کامیابی ہے۔ (پارہ نمبر۷ رکوع نمبر۶)
خاتم المرسلین علیہ الصلوٰة والسلام سے محبت
                ارشاد الٰہی ہے بے شک اللہ نے مومنین پر بڑا احسان فرمایا کہ ایک عظیم پیغمبر ان کی قوم سے ان پرمقرر فرمادیا جو ان کو اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو (ہرقسم کے عیوب سے) پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب و سنت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی جہالت میں تھے۔ (پ۴ع۸)
                ہمارا ایمان ہے کہ حضرت امیرالمومنین پہلے دن ہی خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان مند ہوئے اور ان چار کمالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شاگردی کا فخر پایا فرماتے ہیں:
                (۹)خدا وند عالم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت رسول بناکر بھیجا جب کوئی شخص نہ تو کتاب پڑھتا تھا نہ نبوت کا دعویدار تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رہنمائی فرمائی یہاں تک کہ انہیں اصلی مقام تک پہنچادیا اور نجات کی منزل پر ٹھہرادیا آخر ان کے نیز ے سیدھے ہوگئے ان کے پتھر دل رام ہوگئے بخدا جہالت وگمراہی کو بھگانے والوں میں، میں بھی تھا پتہ چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مشن تعلیم و تزکیہ اور ہدایت میں کامیاب ہوکر گئے اور حضرت علی سمیت آپ کے ہزاروں شاگرد کامل،ناجی اورجنتی ہوئے۔
                (۱۰) اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تم میں وہی کچھ چھوڑا جو اور انبیاء اپنی اپنی امتوں میں چھوڑ کر گئے تھے۔ پیغمبر نے پروردگار کی کتاب تم میں یاد گار اور خلیفہ چھوڑی ہے۔ (نہج البلاغہ ص:۱۷۷-۱۷۶) معلوم ہوا کہ جیسے تورات کو خدا نے امام کہا (پارہ نمبر ۱۲، ۲۶ رکوع۲) اسی طرح قرآن بھی اربوں مسلمانوں کا امام اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین و خلیفہ ہے۔
                (۱۱) خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کو ضیاء بخش نور، روشن دلیل، کھلی ہوئی راہ شریعت اور ہدایت کرنے والی کتاب کے ساتھ مبعوث فرمایا ان کا قبیلہ بہترین شجرہ بہترین جس کی شاحیں سیدھی اورپھل جھکے ہوئے ہیں جائے ولادت مکہ معظمہ اورجائے ہجرت مدینہ منورہ ہے وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی شہرت ہوئی اورآوازہ ہر طرف پھیل گیا اور خدا نے آپ کو مکمل دلیل شفاء دینے والی نصیحت اور جہالتوں کو دورکرنے والا پیغام دے کر بھیجا دین کی نامعلوم راہوں کو ظاہر کردیا اورجو بدعتیں داخل تھیں ان کا قلع قمع کردیا۔ (نہج البلاغہ ص:۴۸۸) (بدعت (خدا رسول کی نہیں) اپنی بناوٹی، پسندیدہ بات اور رسوم و اعمال کو کہتے ہیں جو شرک کے بعد بڑا گناہ ہے ہر فرقہ اس سے پہچانا جاتا ہے)
                (۱۲) یہ کتاب اللہ (قرآن تمہارے درمیان خاموش نہیں) بولنے والا ہے اس کی زبان نہیں تھکتی اس کے ستون نہیں گرتے اوراس کے مددگار کبھی شکست نہیں کھاتے۔ (نہج البلاغہ ص:۴۳۳)
                (۱۳) میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا وحدہ لاشریک ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور برگزیدہ رسول ہیں نہ ان کے فضل و کمال کی کوئی برابری کرسکتا ہے اور نہ ان کی رحلت کے بعد تلافی ممکن ہے تاریک گمراہیوں، بے حد جہالتوں اور سخت مزاجی کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نور ہدایت سے شہر کے شہر جگمگااٹھے۔ (نہج البلاغہ ص:۴۵۵)
                (۱۴) آپ نے اپنے فرمانبردار صحابہ کرام کو ساتھ لے کر اپنے مخالفوں سے جنگ کی آپ لوگوں کو کھینچ کرنجات کی طرف لارہے تھے قبل اس کے کہ ان پر موت آپڑے ان کو ہدایت کی طرف بڑھا رہے تھے یہاں تک کہ تھکے ماندوں کو بھی نجات کی سرحد پر پہنچادیتے تھے سوائے اس منکر کافر کے جس میں کوئی نیکی نہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نجات کی منزل دکھا دی اوراس مرتبہ تک پہنچادیا کہ ان کی چکی گھومنے لگی اورنیزوں کی کجی دور ہوگئی (کہ انھوں نے فتوحات کرتے کرتے قیصر و کسریٰ کو بھی دارالاسلام بنادیا تھا) (نہج البلاغہ ص:۳۷۵)
                (۱۵) خدا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے پرانے کینے دبا دئیے آتش انتقام بجھادی بھائیوں کو آپس میں ملادیااور مشرکین کے ہم سروں کو منتشر کردیا، حق کی پستی کو عزت بخشی اور کفر کی عزت کو ذلت سے بدل دیا ان (جماعت رسول) کا کلام، امر خدا کا پیغام اور خاموشی بولتی زبان تھی غور فرمائیے حضرت علی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بار بار تعریف تلامذہ نبوت کی کامیابی اور ان کے ہدایت یافتہ ناجی ہونے کی شکل میں کررہے ہیں دھوپ دن کی نشانی اور آفتاب کے چمکنے کی دلیل ہے چند صحابہ کرام کے سوا سب سے بغض آفتاب نبوت سے دشمنی ہے۔
(۱۶) کلمہ طیبہ ہی کلمہ اسلام ہے
                ہم سب گواہی دیتے ہیں کہ اللہ ایک اور یکتا ہے اوراسکا کوئی شریک نہیں اور یہ بھی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور پیغمبر ہیں یہ دو شہادتیں ایمان کی بات کو اٹھاتی اور عمل کو بلند کرتی ہیں جس ترازو میں یہ رکھی جائیں وہ ہلکا نہیں ہوتا جس سے اٹھالی جائیں اسکا وزن نہیں ہوتا (نہج البلاغہ صفحہ نمبر۴۰۰) معلوم ہوا کہ توحید و رسالت کا کلمہ ہی اصلی قرآنی اورایمانی نجات دہندہ اور پورا کلمہ اسلام ہے۔
(۱۷) کتاب وسنت کی اتباع اوراہمیت
                خداوند عالم نے ایسی ہادی کتاب نازل فرمائی جس میں ہر برائی اوراچھائی کو واضح کیاگیا پس تم بھلائی کی راہ اختیار کرو ہدایت پاؤگے برائی سے منھ پھیرلوتاکہ سیدھی راہ پر چل سکو (نہج البلاغہ ص:۱۶۶)
                (۱۸) اگر تم ثابت قدم رہے تو تمہارا حق ہے کہ تمہارے تصفیہ کے لئے ہم کتاب خدا اور سیرت رسول پر عمل پیرا ہوں ان کے حق کو قائم اور طریقے کو بلند رکھیں (نہج البلاغہ ۵۰۹)
                (۱۹) تمہارے لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کافی ہے دنیا کے نقص و عیب اوراس کی رسوائیوں، برائیوں سے بچنے کے لیے آپ کی ذات تمہاری رہنما ہے پس تم اپنے طیب و طاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلو کیونکہ آپ نے دنیا کا بقدر ضرورت ذائقہ چکھا کبھی اسے نظر بھر کر نہیں دیکھا آپ دنیا سے بھوکے نکلے اور بسلامت آخرت میں پہنچ گئے۔ (مختصراً نہج البلاغہ صفحہ۴۸۷)
(۲۰) بدعت کی مذمت
                کوئی بدعت عمل میں نہیں آتی مگر سنت چھوٹ جاتی ہے۔ لہٰذا بدعت سے بچو اور روشن طریقہ سنت پر جمے رہو سب سے افضل وہ کام ہیں، جو شریعت سے ثابت ہیں اور سب سے برے وہ کام ہیں جو دین میں نئی ایجاد اور بدعت ہوں۔ (نہج البلاغہ صفحہ ۴۴۹)
                (۲۱) پس تم فتنوں کی راہ دکھانے والے اور بدعتوں کے نشان نہ بنو۔ جماعت مومنین (تلامذہ نبوت) کی گرہ اصول اوراطاعت کے پابند رہو۔ (ایضاً)
                (۲۲) اب قرآن و سنت کی آواز سے بہرہ ہی قاصر رہے گا۔اوراندھا ہی محروم رہے گا۔ جسے اللہ کی آزمائشوں سے فائدہ نہ ہو وہ کسی اور کے وعظ سے فائدہ نہیں پاسکتا کیونکہ آدمی دو قسم کے ہیں ایک شریعت و سنت کے پابند اور دوسرے بدعتی جن کے پاس نہ سنت کی سند ہے نہ (آسمانی) دلیل اور برہان کی روشنی ہے۔ (نہج البلاغہ:۵۲۶)
                (۲۳) اپنی جماعت سے خارج ہونے والے بدبخت ابن ملجم کے حملہ کے بعد وصیت فرمائی ”کہ سارے عالم میں کسی کو خدا کا شریک نہ کرو اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو ضائع نہ کرو، پس ان دونوں ستونوں - توحید و سنت کو ہمیشہ قائم رکھو ان دونوں چراغوں کو جلائے رکھو، جب تک متحد رہوگے۔ تم میں برائی نہ آئیگی کل تک تمہارا ساتھی تھا آج تمہارے لئے عبرت بنا ہوں اور کل میں تم سے جدا ہوجاؤں گا۔ خدا وند عالم تمہیں اور مجھے بخش دے (نہج البلاغہ:۴۵۵) انا للہ وانا الیہ راجعون پھر اپنی اولاد کو صبر کی وصیت کی جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ کو کی تھی۔
                (حضرت فاطمہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب میں فوت ہوجاؤں تو میرے غم میں چہرہ نہ نوچنا، نہ پیٹنا، بال نہ بکھیرنا، بین نہ کرنا، ماتمی مجلس قائم نہ کرنا) (فروع کافی ج:۳،ص:۵۲۷)
                (۲۴) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیتے وقت فرمارہے تھے اگریہ بات نہ ہوتی کہ آپ نے صبر کا حکم دیا اور رونے پیٹنے سے منع فرمایا ہے تو ہم یقینا اپنے سرکا پانی آپ کی وفات کی مصیبت پر رورو کر خشک کردیتے اور اپنا کوئی علاج نہ کراتے۔ (نہج البلاغہ، جلاء العیون صفحہ۶۷)
تمام نیک مسلمانوں سے حضرت علی کی محبت
                ارشاد الٰہی ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی کافروں پر سخت باہم مہربان ہیں تم ان کو رکوع و سجود میں دیکھتے ہو وہ خدا کا فضل اوراس کی رضا چاہتے ہیں (وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہیں) جیسے لہلہاتی تیار فصل کسان کو پسند آتی ہے صحابہ کرام (کی ترقی اور کثرت) سے کافر جلتے ہیں اللہ نے ان ایمان و اعمال صالحہ والوں سے بخشش اور بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔ (سورہ الفتح آخری آیت پارہ۲۶)
                آگے سورہ حجرات رکوع نمبرایک میں ہے ”اگر ایمان والوں کے دو گروہ لڑپڑیں تو ان میں صلح کرادو۔ مومن تو بھائی بھائی ہیں ان میں صلح کرادو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم ہو“ حضرت امیرالمومنین ان آیات کا مصداق تھے ہر مسلمان سے صلح و محبت کرتے تھے۔
                (نوٹ: (الف) قرآن وحدیث میں اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے گھر میں رہنے والی بیویوں، بیٹیوں، دامادوں اورنواسوں اورآل رسول، (ب) ان کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے پیروکار نیک مسلمانوں کوکہتے ہیں جیسے قرآن نے فرعون کے ساتھ ڈوبنے والے ہم مذہبوں کو آل فرعون کہا ہے۔(پ:۱ع:۶) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خونی رشتہ دار (ج) جو مسلمان ہوئے ہیں آل علی، آل جعفر، آل عقیل عباس اور آل حارث بن عبدالمطلب، جن پر صدقات واجبہ حرام ہیں، سب اہل بیت واجب الاحترام اور مسلمانوں کے محبوب ہیں)۔
                (۲۵) ہم اہل بیت کے پاس حکمت کے دروازے اورامر خدا کی روشنی ہے جس نے ان کو اختیار کیا تو کامیابی سے حق تک پہنچ گیا۔جو ان کو چھوڑ کر رُک گیا گمراہ اور پریشان ہوا اس دن کے لئے عمل کرلو جس کے لئے نیک کاموں کے ذخیرے جمع کیے جاتے ہیں اور راز فاش کیے جائیں گے، اس آگ سے بچو جس کی حرارت سخت ہے اور گہرائی بہت ہے۔ جس کا زیور لوہا اورکھانے پینے کے لئے خون آلود پیپ ہے (نہج البلاغہ صفحہ ۴۱۱)
                (۲۶) صفین میں حضرت حسنین کے متعلق فرمایا کہ ان دونوں کو جنگ سے روک دو۔ ڈرتا ہوں کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل ختم نہ ہوجائے۔ (نہج البلاغہ صفحہ ۵۸۳)
                (۲۷) اپنے ہم زلف ذوالنورین امام حسن کے خسر محترم حضرت عثمان غنی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ”وہ سب کچھ آپ جانتے ہیں جو ہم جانتے ہیں جیسے اسلام ہم نے سمجھا آپ نے بھی سمجھا جیسے ہم نے سنا آپ نے بھی سنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و رفاقت ہم نے پائی آپ نے بھی پائی ابوقحافہ کے بیٹے (ابوبکرصدیق) اور خطاب کے بیٹے (عمرفاروق) حق پر عمل کرنے میں آپ سے اولیٰ اور آگے نہ تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خاندانی قرب اور خونی رشتہ داری میں ابوبکر اور عمر سے زیادہ نزدیکی ہیں (کہ عثمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی ام حکیم بیضاء، بنت عبدالمطلب (ارویٰ کی والدہ) کے نواسے تھے آپ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا وہ شرف پایا ہے جو وہ نہ پاسکے تو اپنی ذات میں اللہ کا تقویٰ اختیار کیجئے۔ (نہج البلاغہ ۶۸ قسم دوئم)
                (۲۸) حضرت عثمان سے پہلے ایک خلیفہ (حضرت عمر) کے متعلق فرمایا خداوندا فلاں شخص کو کارگزاریوں کی جزا مرحمت فرما اس نے کجی کو سیدھا کیا، مرض کا علاج کیا، فتنہ فساد کو پیچھے چھوڑ دیا، سنت کو قائم کیا پاک دامن اور کم عیب دنیا سے رخصت ہوگیا دنیا میں اچھائیوں کو پالیا اور شر سے آگے نکل گیا، خدا کی اطاعت کا حق ادا کیا اور کما حقہ خدا سے ڈرتا رہا، خود چلاگیا اور لوگوں کو ایسے پراگندہ چھوڑ گیا جس میں گمراہ راستہ نہیں پاسکتا اور ہدایت پانے والا یقین حاصل نہیں کرسکتا۔ (نہج البلاغہ صفحہ ۶۴۹ خطبہ ۲۲۶)
ہمارے بعد اندھیرا رہے گا محفل میں                           بہت چراغ جلاؤگے روشنی کے لیے
                (۲۹) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کے حاکم (ابوبکر وعمر) ایسے بنے کہ خود بھی شریعت پر ثابت قدم رہے اور لوگوں کو بھی شریعت پر ثابت قدم رکھا یہاں اسلام نے اپنا سینہ زمین پر ٹیک دیا (یعنی وہ خوب مستحکم اور مضبوط ہوگیا) (نہج البلاغہ)
                (۳۰) اتحاد المسلمین: کے جذبہ سے جنگ جمل میں اعلان صلح کرتے ہوئے فرمایا جاہلیت اور اس کے اعمال کی بدبختی کے ذکر کے بعد فرمایا اسلام اور مسلمانوں کی نیک بختی باہمی محبت اور ایک جماعت ہونے میں ہے اور بیشک اللہ نے اپنے نبی کے بعد مسلمانوں کو ابوبکرصدیق پھر عمر فاروق اور پھر عثمان کی خلافتوں پر متفق رکھا پھر یہ (شہادت عثمان کا) حادثہ ان لوگوں نے برپا کیا جو دنیا کے طالب ہیں اور اس فضیلت پر حسد کرتے ہیں جس کا اللہ نے مسلمانوں پر احسان فرمایا ہے یہ اسلام کے اعمال اور مسلمانوں کو پس پشت پھینکنا چاہتے ہیں اوراللہ اپنا کام پورا کرنے والا ہے پھر فرمایا کہ میں صبح (مدینہ کو) کوچ کررہا ہوں اور تم بھی میرے ساتھ لوٹو وہ لوگ ہرگز میرے ساتھ نہ چلیں جنھوں نے کچھ بھی حضرت عثمان کے قتل میں معاونت کی یہ گھٹیا لوگ ہیں اپنے آپ پر پھٹکار کریں۔ (تاریخ طبری ابن خلدون وغیرہ)
                مگر ہائے مسلمانوں کی بدقسمتی! کہ انہی قاتلوں نے اس صلح میں اپنی موت دیکھ کر رات کو غداری سے جنگ بھڑکادی پھر شام کے مقام صفین پر جاکر ۷۰ ہزار شہید کیے کرائے پھر خارجی بن کر شیرخدا سے ٹکرائے اورآپ کو شہید کردیا اور پھر حضرت امام حسن کو ناک کٹوانے والا، منہ کالا کرنے والا، ذلیل کرنے والا، کہہ کر ران سے کاٹا وہ بچ گیا تو دور یزید میں امام حسین کو بلایا پھر حسب سابق غداری کی اور تین شرطیں مسترد کردیں آپ کو شہید کرکے دیرینہ ارمان پورا کردیا اور اہل بیت کی بددعاؤں کو اپنے گلے کا رنگین ہار بنالیا۔ (لعنت اللہ علیہم اجمعین)
                (۳۱) آپ اپنے فوجیوں سے حضرت طلحہ وزبیر کی شہادت پر بہت دکھی تھے ان پر پھٹکار کی جہنمی بتایا اور یہ آیت پڑھتے تھے ”ہم ان صحابہ کو باہمی، رنجشوں سے پاک کرکے جنت میںآ منے سامنے بھائیوں کی طرح باعزت بٹھائیں گے“۔ (پارہ:۱۴ ع:۴) اور حضرت طلحہ کا شل ہاتھ چوم کر روتے اور فرماتے اس ہاتھ نے احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید ہونے سے بچایا تھا۔ (تاریخ طبری ابن عساکر)
(۳۲) شان صحابہ
                میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھا میں تم سے کسی کو ان جیسا نہیں پاتا وہ صبح کو جہاد کی دھول میں اٹے ہوتے راتیں سجدوں اور قیام کی حالت میں گزارتے وہ اپنی آخرت یاد کرتے تو معلوم ہوتا کہ انگاروں پر کھڑے ہیں۔ (نہج البلاغہ جلد۱،صفحہ ۷۱)
                (۳۳) وہ لوگ کہاں ہیں جنہیں اسلام کی دعوت دی گئی تو فوراً قبول کیا قرآن پڑھا تو اسے خوب اپنایا جب انہیں قتال کی دعوت دی گئی تو تلواریں سونت کر ایسے میدان میں آگئے جیسے شیردار اونٹنی دودھ پلانے آتی ہے اور وہ جتھہ جتھہ ہوکر زمین میں پھیل گئے اور جنگ کے لئے قطار درقطار ہوگئے اورکچھ شہیدہوئے اورکچھ غازی بن کر واپس آئے۔ (نہج البلاغہ)
                (۳۴) میں بھی مہاجرین کا ایک فرد ہوں جہاں وہ گئے میں بھی گیا جہاں سے وہ پلٹے میں بھی پلٹا (یعنی پہلے تین خلفاء کی بیعت وحمایت پرہم سب مہاجرین متفق رہے) اور اللہ نے ان کو گمراہی پر جمع نہیں کیا تھا۔ (نہج البلاغہ)
                (۳۵) لوگو! سواد اعظم (مسلمانوں کی بڑی اکثریت) کا ضرور اتباع کرو کیونکہ اللہ کا دست نصرت جماعت پر ہے تنہا پسندی اور علیحدگی سے بچو کیونکہ جماعت سے الگ رہنے والا الگ بکری کی طرح شیطان بھیڑیے کا شکار بنے گا۔ (نہج البلاغہ صفحہ ۱۹۵)
                (۳۶) خلافت: بیشک میری بیعت بھی اسی قوم مہاجرین و انصار نے کی ہے انہی شرائط پر جن پرانھوں نے حضرت ابوبکر صدیق حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی کی بیعت خلافت کی تھی اب موجود کو اختیار نہیں کہ وہ کسی اورکو خلیفہ چنے۔ نہ غیر کو بیعت رد کرنے کا حق ہے۔ یہ خلیفہ چننے والی مجلس شوریٰ تو مہاجرین وانصار کی ہے وہ اگر کسی پر اتفاق کرکے امام نامزد کردیں تو وہی اللہ کا پسندیدہ (بنایا ہوا) امام ہوتا ہے۔ (نہج البلاغہ جلد۳ صفحہ ۸ وتاریخ ندوی جلد۱ صفحہ ۲۶۳)
                (۳۷) جب آپ کے ساتھیوں نے شامیوں کو برا کہا تو فرمایا کہ میں پسند نہیں کرتا کہ تم گالیاں دینے والے بنو۔ لیکن تم ان کے اعمال و اوصاف کا تذکرہ کرو تو اچھی بات ہے براکہنے کی بجائے یہ دعا مانگو ”اے اللہ! ہمارے اوران کے خونوں کی حفاظت اور ہمیں باہم صلح عطا فرما اوران کو ہدایت دے“ (خطبہ صفحہ ۲۰۴)
                چنانچہ ۳۸ ہجری میں پنچایت کے فیصلہ سے دونوں کی خود مختاری ماننے کے بعد صلح ہوگئی تکمیل امام حسن نے اپنے دور خلافت میں کردی۔ (تاریخ)
                (چنانچہ امام حسن نے بیعت کے بعد امیر معاویہ کے بھرے دربار میں اپنے بنوہاشم اور اہل بیت کو سناتے ہوئے فرمایا: ”یقینا مسلمانوں کا دین کی بہت سی باتوں پر اتفاق ہے اور ان میں کوئی جھگڑا، اختلاف اور فرقہ بندی نہیں ہے۔ ان متفق علیہ چیزوں میں سے کلمہ طیبہ ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ کا اقرار اور آپ کو خدا کا بندہ ماننا ہے۔ پانچ وقت کی نمازیں، زکوٰة، رمضان کے روزے اور حج بیت اللہ (اسلام کے ارکان خمسہ) ہیں۔ خدا کی تابعداری میں ان کے علاوہ اور بھی متفق علیہ چیزیں ہیں جن کا شمار اللہ کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔ نیز مسلمان زنا، چوری، جھوٹ، خیانت اور بہت سے گناہوں کے حرام ہونے پر متفق ہیں۔ جن کو خدا ہی گن سکتا ہے۔ مسلمانوں کا اختلاف اگرہے تو چند سنتوں کی بابت ہے، جن میں وہ باہم لڑائی کرکے فرقے بن گئے ہیں۔ کہ ایک دوسرے کوبرا کہتے ہیں۔ اور یہ اختلافی مسئلہ ”ولایت اورحکومت کرنے کا ہے“ جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے تبرا کرتے ہیں۔ اور قتل کرتے ہیں۔ ہرایک کہتا ہے کہ ہم اس کے زیادہ حقدار ہیں صرف ایک فرقہ اس اختلاف سے بچا ہے جو کتاب اللہ اور سنت نبوی کا پیروکار ہے۔ پس جو شخص ان باتوں کو اپنائے، جن میں تمام اہل قبلہ کا اتفاق ہے کسی کا اختلاف نہیں اورجن باتوں میں اہل قبلہ کا اختلاف ہے ان کا علم اللہ کے حوالے کردے۔ (کسی پرکافر منافق اور غیر مومن ہونے کافتویٰ نہ لگائے کیونکہ صرف خود کو مومن جاننا دوسرے کو کافر کہنا ہے خدا فرماتا ہے: ”ہو الذی خلقکم فمنکم کافر و منکم مومن“ (پارہ ۲۸ ، رکوع ۱۵) وہ دوزخ سے بچ جائیگا۔ اور جنتی ہوگا) (احتجاج طبری صفحہ ۱۴۷ طبع لکھنوٴ جلد نمبر ۲ صفحہ ۶ طبع ایران)
                ہمیں یقین ہے کہ اگر خاص مومن اپنے امام دوم کا یہ عقیدہ و عمل اپنالیں انتظامیہ قانون بنائے ذرائع ابلاغ ان کی اشاعت کریں تو سب فرقے ختم ہوکر مسلمان ایک قوم بن جائیں (آمین) منہ
                (۳۸) جمل میں آپ نے فرمایا کہ عائشہ دنیا اور جنت میں تمہارے نبی کی بیوی ہیں دوشخصوں نے اماں کہہ کر تنقید کی تو آپ نے ان کو سو سو درے لگائے اب بھی ایسی سزا فرقہ پرستی کو مٹادے گی نیزامیر معاویہ اور سب شامیوں کو ایمانیات میں اپنے جیسا کامل بتاکر قتل عثمان کے الزام سے خود کو بری فرمایا۔ (نہج البلاغہ)
                نیز ایک دفعہ یہ بھی فرمایا لوگو! امیر معاویہ کی امارت کو برا نہ جاننا خدا کی قسم اگر وہ بھی نہ رہی تو تمبے کی طرح سرکٹتے دیکھوگے (تاریخ)
                (۳۹) جب طلحہ وزبیر نے آپ کو فوج میں شامل قاتلین عثمان سے بدلہ لینے کا مطالبہ کیا تو فرمایا: ”بھائیو! جو تم جانتے ہو میں بے خبر نہیں لیکن میرے پاس بدلہ لینے کی طاقت کہاں ہے جبکہ بلوائی انتہائی زور آور ہیں اور وہ اس وقت ہمارے مالک بنے ہوئے ہیں ہماری ملکیت اور تسلط میں نہیں ہیں“۔ (نہج البلاغہ خطبہ ۱۶۶)
                (۴۰) دوفرقے میرے بارے میں (غلط عقائد واعمال کی وجہ سے) برباد اور جہنمی ہوں گے ۔
                 (الف) محبت میں حد سے بڑھنے والا (کہ ناحق مجھ میں خدا اور رسول کی صفات مانے گا)
                (ب) دشمنی میں حد سے بڑھنے والا اور مجھ پر جھوٹ وافتراء باندھنے والا (کہ قرآن وسنت کے مقابل نیا مذہب بنالے گا) میرے متعلق بہترین عقیدہ وعمل والے وہ اکثریتی مسلمان ہیں جودرمیانی راہ چلتے ہیں (مجھے برگزیدہ صحابی خلیفہ شاگرد رسول صلی اللہ علیہ وسلم مانتے ہیں تم ان کی راہ پر چلو) (نہج البلاغہ)
خلاصہ کلام
                یہ سچا فرمان رسول ہے (حضرت علی سے سچی محبت و اتباع مومن ہی رکھے گا اور دشمنی غداری مخالفت منافق ہی کرے گا۔ (مسلم)
                متفقہ تاریخ شاہد ہے کہ آپ کو اور آپ کی اولاد کو دوست نما غداروں اور دشمن منافقوں نے شہید کیا ہے ان کے شریرعمل اور عقیدہ سے خدا ہر مسلمان اور افسر کو بچائے۔
(اللہم صل علی محمد وآل محمد)
$ $ $
______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ديوبند ‏، شمارہ1، جلد: 91 ‏، ذی الحجہ 1427 ہجری مطابق جنوری 2007ء