ہفتہ، 17 نومبر، 2018

اللہ تعالیٰ کے نزدیک تین ناپسندیدہ لوگ

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَبْغَضُ النَّاسِ اِلَی اللّٰہِ ثَلٰثَۃٌ مُّلْحِدٌ فِی الْحَرَمِ وَمُبْتَغٍ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃَ الْجَاھِلِیة وَمُطَّلِبُ دَمِ امْْْرِءٍ مُّسْلِمٍ بِغَيرِ حَقِّ لِّيھْرِيقَ دَمَه ۔(بخاری) ترجمه: حضرت عبداللہ ابن عباس رضی الله عنه راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی الله علیه وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مغضوب (وہ لوگ هیں جن سے اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہے) تین ہیں۔ (١) حرم میں کجروی کرنے والا۔ (٢) اسلام میں ایام جاہلیت کے طریقوں کو ڈھونڈھنے والا۔ (٣) کسی مسلمان کے خون ناحق کا طلب گار تاکہ اس کے خون کو بہائے۔" (صحیح البخاری )

 تشریح: اس حدیث میں تین آدمیوں کو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور مغضوب قرار دیا جاتا ہے، پہلا آدمی تو وہ ہے جسے اللہ نے اپنے گھر یعنی بیت اللہ میں حاضری کی سعادت بخشی مگر وہ بیت اللہ کی نہ تو عظمت کرتا ہے اور نہ حدود حرم میں ممنوع چیزوں سے پرہیز کرتا ہے بلکہ وہ حرم میں کجروی کرتا ہے یعنی ایسی چیزیں اختیار کرتا ہے جو ایک طرف تو اس مقدس جگہ کی شان عظمت کے منافی ہیں اور دوسری طرف احکام شریعت کی کھلی خلاف ورزی کے مترادف ہیں مثلا وہاں لڑائی جھگڑا کرنا، شکار کرنا، یا کوئی بھی مطلق گناہ اور قانوں شریعت کی خلاف ورزی کرنا۔ دوسرا آدمی وہ ہے جس کو اللہ نے ایمان و اسلام کی دولت سے نوازا اور اس کے قلب کو یقین و اعتقاد کی روشنی سے منور کیا مگر وہ اسلام میں ان چیزوں کو اختیار کرتا ہے جو خالص زمانہ جاہلیت کا طریقہ اور غیر اسلامی رسمیں تھیں جیسے نوحہ کرنا، یا مصائب و تکالیف کے وقت چاک گربیان ہونا، برے شگون لینا، اور نو روز کرنا، یا ایسی رسمیں کرنا جو خالص کفر کی علامت ہوں (جیسے اولیاء اللہ کے مزار پر عرس کرنا، وہاں چراغاں کرنا، قبروں پر روشنی کا انتظام کرنا، غیر اللہ کے نام پر نذرو نیاز کرنا محرم و شب برأت میں غلط رسمیں ادا کرنا۔ وغیرہ وغیرہ)۔ تیسرا آدمی وہ ہے جو کسی مسلمان کا ناحق خون بہانے کا طلب گار ہو یعنی کسی مسلمان کو قتل کرنے کا مقصد محض خون ریزی ہو اور کوئی دوسرا مقصد نہ ہو، اگرچہ محض قتل ہی کوئی چھوٹا جرم نہیں ہے اس پر بھی بڑی وعید ہے مگر جب مقصد صرف خون ریزی ہو تو یہ جرم شریعت کی نظر میں اور زیادہ قابل نفرت ہو جاتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب محض خون ریزی کی خواہش اور طلب ہی اتنا بڑا جرم ہے تو اس جرم کو کر گزرنا یعنی واقعۃ کسی کا ناحق خون بہا دینا کتنا بڑاجرم ہوگا اور اس کی کتنی سخت سزا ہوگئی؟ مشکوۃ شریف جلد اول حدیث 139

جمعرات، 25 اکتوبر، 2018

دنیا کی حقیقت کیا ہے



دنیا اور آخرت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک خطبہ

عَنْ عَمْروٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ يَوْمًا فَقَالَ فِي خُطْبَتِهِ : " أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا عَرَضٌ حَاضِرٌ يَأْكُلُ مِنْهَا الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ ، أَلَا وَإِنَّ الْآخِرَةَ أَجَلٌ صَادِقٌ يَقْضِي فِيهَا مَلِكٌ قَادِرٌ ، أَلَا وَإِنَّ الْخَيْرَ كُلَّهُ بِحَذَافِيرِهِ فِي الْجَنَّةِ ، أَلَا وَإِنَّ الشَّرَّ كُلَّهُ بِحَذَافِيرِهِ فِي النَّارِ ، أَلَا فَاعْمَلُوا وَأَنْتُمْ مِنَ اللَّهِ عَلَى حَذَرٍ ، وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مَعْرُوضُونَ عَلَى أَعْمَالِكُمْ ، {فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ، وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ} ( رواه الشافعى)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ دیا ، اور اپنے اس خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ : سُن لو ، اور یاد رکھو کہ دنیا ایک عارضی اور وقتی سودا ہے ، جو فی الوقت حاضر اور نقد ہے ( اور اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ، اسی لئے ) اس میں ہر نیک و بد کا حصہ ہے ، اور سب اس سے کھاتے ہیں ، اور یقین کرو کہ آخرت مقرر وقت پر آنے والی ایک سچی اٹل حقیقت ہے ، اور سب کچھ قدرت رکھنے والا شہنشاہ اسی میں ( لوگوں کے اعمال کے مطابق جزا اور سزا کا ) فیصلہ کرے گا ، یاد رکھو کہ ساری خیر اور خوشگواری اور اس کی تمام قسمیں جنت میں ہیں ، اور سارا شر اور دکھ اس کی تمام قسمیں دوزخ میں ہیں ۔ پس خبردار ، خبردار ( جو کچھ کرو ) اللہ سے ڈرتے ہوئے کرو ( اور ہر عمل کے وقت آخرت کے انجام کو پیش نظر رکھو ) اور یقین کرو کہ تم اپنے اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضور میں پیش کئے جاؤ گے ، پس جس شخص نے ذرہ برابر کوئی نیکی کی ہوگی ، وہ اس کو بھی دیکھ لے گا ، اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی ، وہ اس کو بھی پا لے گا ۔ ( مسند امام شافعی)
 تشریح ۔ ۔ ۔ انسان کی سب سے بڑی بدبختی اور سیکڑوں قسم کی بدکاریوں کی جڑ بنیاد یہ ہے کہ وہ اللہ کے احکام اور آخرت کے انجام سے بے فکر اور بے پروا ہو کر زندگی گذارے ، اور اپنی نفسانی خواہشات اور اس دنیا کی فانی لذتوں کو اپنا مقصد اور مطمح نظر بنا لے اور یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہے وہ آنکھوں کے سامنے ہے ، اور خدا اور آخرت آنکھوں سے اوجھل ہیں ، اس لئے انسانوں کو اس بربادی سے بچانے کا راستہ یہی ہے کہ ان کے سامنے دنیا کی بے حقیقتی اور بے قیمتی کو اور آخرت کی اہمیت اور برتری کو قوت کے ساتھ پیش کیا جائے ، اور قیامت میں خدا کے سامنے پیشی اور اعمال کی جزا و سزا کا اور جنت و دوزخ کے ثواب و عذاب کا یقین اُن کے دلوں میں اتارنے کی کوشش کی جائے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خطبہ کا حاصل اور موضوع یہی ہے ، اور جیسا کہ عرض کیا گیا ، آپ کے اکثر خطبات اور مواعظ میں یہی بنیادی مضمون ہوتا تھا ۔ 
تنبیہ ۔ ۔ ۔ یہ بات بڑی خطرناک اور بہت تشویشناک ہے کہ دینی دعوت اور دینی وعظ و نصیحت میں دنیا کی بے ثباتی اور بے حقیقتی اور آخرت کی اہمیت کا بیان اور جنت و دوزخ کا تذکرہ جس طرح اور جس ایمان و یقین اور جس قوت کے ساتھ ہونا چاہئے ہمارے اس زمانہ میں اس کا رواج بہت کم ہوگیا ہے ، گویا نہیں رہا ہے ، اور دین کی تبلیغ و دعوت میں بھی اسی طرح کی باتیں کرنے کا رواج بڑھتا جا رہا ہے جس قسم کی باتیں مادی تحریکوں اور دنیوی نظاموں کی دعوت و تبلیغ میں کی جاتی ہیں ۔ 


دنیا سے نہ لپٹو ، آخرت کے طالب بنو
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَتَخَوَّفُ عَلَى أُمَّتِي الْهَوَى ، وَطُولُ الْأَمَلِ ، فَأَمَّا الْهَوَى فَيَصُدُّ عَنِ الْحَقِّ ، وَأَمَّا طُولُ الْأَمَلِ فَيُنْسِي الْآخِرَةَ ، وَهَذِهِ الدُّنْيَا مُرْتَحِلَةٌ ذَاهِبَةٌ ، وَهَذِهِ الْآخِرَةُ مُرْتَحِلَةٌ قَادِمَةٌ ، وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا بَنُونَ ، فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لَا تَكُونُوا مِنْ بَنِي الدُّنْيَا فَافْعَلُوا ، فَإِنَّكُمُ الْيَوْمَ فِي دَارِ الْعَمَلِ وَلَا حِسَابَ ، وَأَنْتُمْ غَدًا فِي دَارِ الْحِسَابِ وَلَا عَمَلَ " . ( رواه البيهقى فى شعب الايمان ) 
ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں اپنی امت پر جن بلاؤں کے آنے سے ڈرتا ہوں ، ان میں سب سے زیادہ ڈر کی چیزیں هَوَى اور طُولُ الْأَمَلِ ہے ، ( هَوَى سے مراد یہاں یہ ہے کہ دین و مذہب کے بارے میں اپنے نفس کے رجحانات اور خیالات کی پیروی کی جائے اور طُولُ الْأَمَلِ یہ ہے کہ دنیوی زندگی کے بارہ میں لمبی لمبی آرزوئیں دل میں پرورش کی جائیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو بیماریوں کو بہت زیادہ خوفناک بتلایا ، اور آگے اس کی وجہ یہ ارشاد فرمائی ) کہ هَوَى تو آدمی کو قبولِ حق سے مانع ہوتی ہے ( یعنی اپنے نفسانی رجحانات اور خیالات کی پیروی کرنے والا قبول حق اور اتباع ہدایت سے محروم رہتا ہے ) اور طُولُ الْأَمَلِ ( یعنی لمبی لمبی آرزؤں میں دل پھنس جانا ) آخرت کو بُھلا دیتا ہے اور اس کی فکر اور اس کے لیے تیاری سے غافل کر دیتا ہے ، ( اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا کہ ) یہ دنیا دمبدم چلی جارہی ہے ، گزر رہی ہے ( کہیں اس کا ٹھہراؤ اور مقام نہیں ) اور آخرت ( اُدھر سے ) چل پڑی ہے ، چلی آ رہی ہے اور ان دونوں کے بچے ہیں ، ( یعنی انسانوں میں کچھ وہ ہیں جو دنیا سے ایسی وابستگی رکھتے ہیں جیسی وابستگی بچوں کو اپنی ماں سے ہوتی ہے ، اور کچھ وہ ہیں جن کی ایسی ہی وابستگی اور رغبت بجائے ددنیا کے آخرت سے ہے ) پس اے لوگو ! اگر تم کر سکت تو ایسا کرو کہ دنیا سے چمٹنے والے اس کے بچے نہ ہو ( بلکہ اس دنیا کو دارالعمل سمجھو ) تم اس وقت دارالعمل میں ہو ( یہاں تمہیں صرف محنت اور کمائی کرنی ہے ) اور یہاں حساب اور جزا سزا نہیں ہے ، اور کل تم ( یہاں سے کوچ کر کے ) دار آخرت میں پہنچ جانے والے ہو ، اور وہاں کوئی عمل نہ ہو گا ( بلکہ یہاں کے اعمال کا حساب ہو گا ، اور ہر شخص اپنے کئے کا بدلہ پائے گا ) ۔ 
تشریح ۔ ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں امت کے بارے میں دو بڑی بیماریوں کا خوف اور خطرہ ظاہر فرمایا ہے ، اور امت کو ان سے ڈرایا اور خبردار کیا ہے ، ایک هَوَى اور دوسرے طُولُ الْأَمَلِ ۔ غور سے دیکھا جائے ، تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان ہی دو بیماریوں نے امت کے بہت بڑے حصے کو برباد کیا ہے ، جن لوگوں میں خیالات اور نظریات کی گمراہیاں ہیں ، وہ هَوَى کے مریض ہیں اور جن کے اعمال خراب ہیں وہ طولِ امل اور  حبِ دنیا کے مرض میں گرفتار اور آخرت کی فکر اور تیاری سے غافل ہیں ، اور علاج یہی ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث کے آخر میں بیان فرمایا ۔ یعنی ان کے دلوں میں یہ یقین پیدا ہو کہ یہ دنیوی زندگی فانی اور صرف چند روزہ ہے ، اور آخرت ہی کی زندگی اصلی زندگی ہے ، اور وہی ہمارا اصل مقام ہے ۔ جب یہ یقین دلوں میں پیدا ہو جائے گا تو خیالات اور اعمال دونوں کی اصلاح آسان ہو جائے گی ۔


دولت کی افراط کا خطرہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آگاہی
عَنْ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : فَوَاللَّهِ مَا الفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ ، وَلَكِنِّي أَخْشَى أَنْ تُبْسَطَ عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ، فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا ، وَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ » ( رواه البخارى ومسلم )
ترجمہ : عمر بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : میں تم پر فقر و ناداری آنے سے نہیں ڈرتا ، لیکن مجھے تمہارے بارہ میں یہ ڈر ضرور ہے ، کہ دنیا تم پر زیادہ وسیع کر دی جائے ، جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پر وسیع کی گئی تھی ، پھر تم اس کو بہت زیادہ چاہنے لگو ، جیسے کہ انہوں نے اس کو بہت زیادہ چاہا تھا ( اور اسی کے دیوانے اور متوالے ہو گئے تھے ) اور پھر وہ تم کو برباد کر دے ، جیسے کہ اس نے ان اگلوں کو برباد کیا ( صحیح بخاری و مسلم
تشریح ۔ ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بعض اگلی قوموں اور امتوں کا یہ تجربہ تھا ، کہ جب ان کے پاس دنیا کی دولت بہت زیادہ آئی ، تو ان میں دنیوی حرص اور دولت کی رغبت و چاہت اور زیادہ بڑھ گئی ، اور وہ دنیا ہی کے دیوانے اور متوالے ہو گئے ، اور اصل مقصد زندگی کو بھلا دیا ، پھر اس کی وجہ سے ان میں باہم حسد و بغض بھی پیدا ہوا ، اور بالآخر ان کی اس دنیا پرستی نے ان کو تباہ برباد کر دیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے بارے میں اسی کا زیادہ ڈر تھا ۔ اس حدیث میں آپ نے از راہِ شفقت امت کو اس خطرے سے آگاہ کیا ہے ، اور فرمایا ہے ، کہ تم پر فقر و ناداری کے حملے کا مجھے زیادہ ڈر نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس تم میں بہت زیادہ دولت مندی آ جانے سے دنیا پرستی میں مبتلا ہو کر تمہارے ہلاک و برباد ہو جانے کا مجھے زیادہ خوف اور ڈر ہے ۔ 
آپ کے اس ارشاد کا مقصد و مدعاو اس خوشنما فتنہ کی خطرناکی سے امت کو خبردار کرنا ہے ، تا کہ ایسا وقت آنے پر اس کے برے اثرات سے اپنا بچاؤ کرنے کی وہ فکر کرے ۔
 
اس اُمت کا خاص فتنہ دولت ہے
عَنْ كَعْبِ بْنِ عِيَاضٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : « إِنَّ لكُلِّ أُمَّةٍ فِتْنَةً ، وَفِتْنَةُ أُمَّتِي الْمَالُ » ( رواه الترمذى )
ترجمہ : کعب بن عیاض سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا ، آپ ارشاد فرماتے تھے ، کہ ہر امت کے لیے کوئی خاص آزمائش ہوتی ہے اور میری امت کی خاص آزمائش مال ہے ۔ ( ترمذی ) 
تشریح ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ میری پیغمبری کے دور میں ( جو اَب سے لے کر قیامت تک کا زمانہ ہے ) مال و دولت کو ایسی اہمیت حاصل ہوگی ، اور اس کی ہوس اتنی بڑھ جائے گی کہ وہی اس امت کے لیے سب سے بڑا فتنہ ہو گا ۔ ( قرآن مجید میں بھی مال کو فتنہ کہا گیا ہے ) اور واقعہ یہ ہے کہ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر ہمارے اس زمانے تک کی تاریخ پر جو شخص بھی نظر ڈالے گا ، اسے صاف محسوس ہو گا ، کہ مال کے مسئلہ کی اہمیت اور دولت کی ہوس برابر بڑھتی رہی ہے اور بڑھتی ہی جا رہی ہے ، اور بلا شبہ یہ ہی اس کا سب سے بڑا فتنہ ہے ، جس نے بے شمار بندوں کو خدا کی بغاوت و نافرمانی کے راستے پر ڈال کے اصل سعادت سے محروم کر دیا ہے ۔ بلکہ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ خدا بیزاری اور خدا دشمنی کے علمبردار بھی دولت و معاش ہی کے مسئلہ کی پیٹھ پر سوار ہو کر اپنے دجالی خیالات دنیا میں پھیلاتے ہیں ۔ 
حب مال اور حب جاہ دین کے لیے قاتل ہیں
عَنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِي غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ المَرْءِ عَلَى المَالِ وَالشَّرَفِ لِدِينِهِ » ( رواه الترمذى والدارمى ) 
ترجمہ : کعب بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : وہ دو بھوکے بھیڑیے جو بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دئیے گئے ہوں ، ان بکریوں کو اس سے زیادہ تباہ نہیں کر سکتے ، جتنا تباہ آدمی کے دین کو مال کی اور عزت و جاہ کی حرص کرتی ہے ۔ ( جامع ترمذی ، مسند دارمی
تشریح ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ حب مال اور حب جاہ آدمی کے دین کو اور اللہ کے ساتھ اس کے تعلق کو اس سے زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں ، جتنا کہ بکریوں کے کسی ریوڑ میں چھوڑے ہوئے بھوکے بھیڑیے ان بکریوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ 
مال کی اور دنیا کی محبت بڑھاپے میں بھی جوان رہتی ہے 
عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَهْرَمُ ابْنُ آدَمَ وَتَشِبُّ مِنْهُ اثْنَتَانِ : الْحِرْصُ عَلَى الْمَالِ ، وَالْحِرْصُ عَلَى الْعُمُرِ " ( رواه البخارى ومسلم ) 
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے ( اور بڑھاپے کے اثر سے اس کی ساری قوتین مضمحل ہو کر کمزور پڑ جاتی ہیں ) مگر اس کے نفس کی دو خصلتیں اور زیادہ جوان اور طاقت ور ہوتی رہتی ہیں ۔ ایک دولت کی حرص ، اور دوسری زیادتی عمر کی حرص ۔ ( بخاری و مسلم ) 
تشریح ۔ ۔ ۔ تجربہ اور مشاہدہ شاہد ہے ، کہ انسانوں کا عام حال یہی ہے ، اور اس کی وجہ بھی ظاہر ہے ، بات یہ ہے کہ انسان کے نفس میں بہت سی ایسی غلط خواہشیں پیدا ہوتی ہیں جو اسی وقت پوری ہوتی ہیں جب کہ اس کے ہاتھ میں دولت ہو ، اور زندگی اور توانائی بی ہو ، اور ان خواہشوں کی مضرتوں اور بربادیوں سے انسان کو بچانا “ پاسبانِ عقل ” کا کام ہے ، مگر بڑھاپے کے اثر سے جب بے چاری یہ عقل بھی مضمحل اور کمزور پڑ جاتی ہے ، تو ان خواہشات پر اپنا قابو اور کنٹرول رکھنے سے مجبور ہو جاتی ہے ، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آخر عمر میں بہت سی خواہشیں “ ہوس ” کا درجہ اختیار کر لیتی ہیں ، اور اس کی وجہ سے عمر کی زیادتی کے ساتھ مال و دولت کی اور دنیا میں زیادہ سے زیادہ رہنے کی حرص اور چاہت اور زیادہ ترقی کرتی رہتی ہے ،

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لاَ يَزَالُ قَلْبُ الكَبِيرِ شَابًّا فِي اثْنَتَيْنِ : فِي حُبِّ الدُّنْيَا وَطُولِ الأَمَلِ " ( رواه البخارى ومسلم ) 
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : بوڑھے آدمی کا دل دو چیزوں کے بارے میں ہمیشہ جوان رہتا ہے ، ایک تو دنیا کی محبت ، اور دوسری لمبی لمبی تمنائیں ۔ 
تشریح ۔ ۔ ۔ جیسا کہ پہلی حدیث کی تشریح میں ذکر کیا گیا ، عام انسانوں کا حال یہی ہے لیکن جن بندگانِ خدا کو خود شناسی اور خدا شناسی اور دنیا و آخرت کے بارے میں صحیح علم و یقین نصیب ہو ، اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ بجائے حبِ دنیا کے ، اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس فانی دنیا کی آرزوؤں کی جگہ رضاء الہٰی اور نعمائے اُخروی کا اشتیاق اور اس کی تمنا بڑھاپے میں بھی ان کے دل میں مسلسل بڑھتی اور ترقی کرتی رہتی ہے ، اور ان کی عمر کا ہر اگلا دن پہلے دن کے مقابلے میں اس پہلو سے بھی ترقی کا دن ہوتا ہے ۔
 
دولت میں اضافے کی حرص کسی حد پر ختم نہیں ہوتی
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِىِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : « لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ مَالٍ لاَبْتَغَى ثَالِثًا ، وَلاَ يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ » ( رواه البخارى ومسلم )
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر آدمی کے پاس مال کے بھرے ہوئے دو میدان اور دو جنگل ہوں ، تو وہ تیسرا اور چاہے گا ، اور آدمی کا پیٹ تو بس مٹی سے بھرے گا ( یعنی مال و دولت کی اس نہ ختم ہونے والی ہوس اور بھوک کا خاتمہ بس قبر میں جا کر ہو گا ) اور اللہ اس بندے پر عنایت اور مہربانی کرتا ہے جو اپنا رخ اور اپنی توجہ اس کی طرف کر لے ۔ ( صحیح بخاری و صحیح مسلم ) 
تشریح ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ مال و دولت کی زیادہ حرص عام انسانوں کی گویا فطرت ہے ، اگر دولت سے ان کا گھر بھی بھرا ہو ، اور جنگل کے جنگل اور میدان کے میدان بھی پڑے پڑے ہوں ، تب بھی ان کا دل قانع نہیں ہوتا ، اور وہ اس میں اور زیادتی اور اضافہ ہی چاہتے ہیں ، اور زندگی کی آخری سانس تک ان کی ہوس کا یہی حال رہتا ہے ، اور بس قبر ہی میں جا کر دولت کی اس بھوک اور ننانوے کے اس پھیر سے اُن کو چھٹکارا ملتا ہے ۔ البتہ جو بندے دنیا اور دنیا کی دولت کے بجائے اپنے دل کا رُخ اللہ کی طرف کر لیں ، اور اس سے تعلق جوڑ لیں ، ان پر اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہوتی ہے ، اور ان کو اللہ تعالیی اس دنیا ہی میں اطمینانِ قلب اور غنائے نفس نصیب فرما دیتا ہے ، اور پھر اس دنیا میں بھی ان کی زندگی بڑے مزے کی اور بڑے سکون سے گزرتی ہے ۔ 
                                  وأخر دعوانا أن الحمد لله رب العلمين

توحيد كا معنى اور اس كى اقسام


 

الحمد لله وكفى ، والصلاة والسلام على النبي المصطفى وعلى آله وصحبه وسلم تسليماً كثيراً ، أما بعد 
توحيد كا لغوى معنى:
توحيد لغت عرب ميں وَحَّدَ يُوَحِّدُ فعل كا مصدر ہے اور جب اس كى نسبت اللہ كى وحدانيت كى طرف كى جائے اور اسے ان صفات و ذات ميں شريك ہونے سے انفرادى وصف ديا جائے تو يہ وحدانيت كا وصف كہلاتا ہے، اور شد مبالغہ كے ليے ہے يعنى اللہ كى وحدانيت كا وصف مبالغہ ركھتا ہے.
اور عرب كا قول ہے: واحد و احد و وحيد يعنى وہ منفرد ہے چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالى واحد ہے يعنى وہ سب حالات ميں شريكوں سے منفرد ہے.چنانچہ توحيد اس بات كا علم ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى ايك ہے اس كى كوئى نظير نہيں، تو جو كوئى بھى اللہ كا علم اس طرح نہيں ركھتا، يا پھر وہ اسے وحدہ لا شريك كا وصف نہيں ديتا تو وہ اللہ كو ايك نہيں مانتا.
توحيد كى اصطلاحى تعريف: اللہ تعالى كو الوہيت و ربوبيت اور اسماء صفات ميں يكتا و اكيلا ماننا. اور يہ تعريف بھى ممكن ہے: يہ اعتقاد ركھنا كہ اللہ اپنى ربوبيت و الوہيت اور اسماء صفات ميں وحدہ لا شريك ہے.
اس اصطلاح " توحيد " يا اس كے مشتقات كا اس معنى پر دلالت كرنے كے ليے استعمال كتاب و سنت سے ثابت ہے اور كتاب و سنت ميں استعمال كيا گيا ہے، ذيل ميں اس كى چند ايك مثاليں پيش كى جاتى ہيں:
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
﴿ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ 0 اَللّٰهُ الصَّمَدُ  0  لَمْ يَلِدْ ڏ وَلَمْ يُوْلَدْ  0  وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ  0  .
آپ كہہ ديجئے كہ وہ اللہ ايك ( ہى ) ہے، اللہ تعالى بے نياز ہے، نہ اس سے كوئى پيدا ہوا نہ وہ كسى سے پيدا ہوا، اور نہ كوئى اس كا ہمسر ہے.
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى اس طرح ہے:
وَاِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ  ١٦٣؀ۧ
﴿ اور تم سب كا معبود ايك ہى ہے، اس كے سوا كوئى معبود برحق نہيں، وہ بہت رحم كرنے والا اور بڑا مہربان ہے ﴾ البقرۃ ( 163 ).
اور ايك مقام پر اللہ رب العزت نے فرمايا:
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ  ۘوَمَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّآ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۭوَاِنْ لَّمْ يَنْتَھُوْا عَمَّا يَقُوْلُوْنَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ      73؀
﴿ وہ لوگ بھى قطعا كافر ہو گئے جنہوں نے كہا اللہ تعالى تين ميں سے تيسرا ہے، در اصل اللہ كے سوا كوئى معبود نہيں، اگر يہ لوگ اپنے اس قول سے باز نہ رہے تو ان ميں سے جو كفر پر رہيں گے انہيں المناك عذاب ضرور پہنچے گا ﴾المآئدۃ ( 73 ).
اس موضوع كے متعلق آيات بہت زيادہ ہيں.
اور صحيح بخارى و مسلم ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں:
"
جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے معاذ بن جبل رضى اللہ تعالى عنہ كو اہل يمن كى طرف بھيجا تو انہيں فرمايا:
"
آپ ايسى قوم كے پاس جا رہے ہيں جو اہل كتاب ہے تم انہيں سب سے پہلے اس كى دعوت دينا كہ وہ اللہ تعالى كى توحيد كا اقرار كريں، جب وہ اس كى پہچان كر ليں تو انہيں بتانا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ان پر دن اور رات ميں پانچ نمازيں فرض كي ہيں، جب وہ نماز ادا كرنے لگيں تو انہيں بتانا كہ اللہ تعالى نے ان پر ان كے اموال ميں زكاۃ فرض كى ہے جو ان كے اغنياء سے لے كر ان كے فقراء كو دى جائيگى، جب وہ اس كا اقرار كر ليں تو ان سے زكاۃ لے لينا، اور لوگوں كے بہترين اورافضل اموال سے اجتناب كرنا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 7372 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 19 ).
اور صحيح مسلم ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اسلام كى بنياد پانچ اشياء پر ہے: اس پر كہ اللہ كو ايك مانا جائے، اور نماز كى پابندى كى جائے، اور زكاۃ كى ادائيگى كى جائے، اور رمضان المبارك كے روزے ركھے جائيں، اور بيت اللہ كا حج كيا جائے "صحيح مسلم حديث نمبر ( 16 ).
چنانچہ ان سب نصوص ميں توحيد سے مقصود كلمہ طيبہ " لا الہ الا اللہ محمدا رسول اللہ " كے معنى كا اثبات ہے، جو كہ دين اسلام كى حقيقت ہے، جس كے ليے اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو مبعوث كيا ہے، اس كى دليل يہ ہے كہ يہ اصطلاح اور كلمات مترادفہ كتاب ميں سنت ميں كئى ايك مقام پر وارد ہيں.
ان ميں سے بعض الفاظ تو سابقہ حديث معاذ رضى اللہ تعالى عنہ ميں بيان ہوئے ہيں:
"
كہ تم اہل كتاب كے لوگوں كے پاس جا رہے ہو جب ان كے پاس پہنچو تو انہيں اس كى دعوت دينا كہ وہ يہ گواہى ديں كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ كے رسول ہيں "صحيح بخارى حديث نمبر ( 1496 ).
اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى روايت ميں ہے:
اسلام كى بنياد پانچ اشياء پر ہے: اس كى گواہى دينا كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم اس كے بندے اور رسول ہيں ".صحيح مسلم حديث نمبر ( 16 ).
تو يہ اس كى دليل ہے كہ كہ كلمہ طيبہ " لا الہ الا اللہ محمدا رسول اللہ " كى حقيقت توحيد ہے، اور يہى وہ اسلام ہے جسے ديكر اللہ تعالى نے اپنے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو جن و انس كى طرف مبعوث فرمايا، اور يہى وہ دين ہے جس كے بغير اللہ تعالى كسى اور دين اختيار كرنے پر راضى نہيں ہو گا.
اللہ تعالى كا فرمان ہے: إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ . ﴿ يقينا اللہ كے ہاں دين صرف اسلام ہے ﴾آل عمران ( 19 ).
اور ايك دوسرے مقام اللہ جل شانہ كا فرمان ہے:وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ .
﴿ اور جو كوئى بھى اسلام كے علاوہ دين اپنائے گا اس كا وہ دين قبول نہيں كيا جائيگا، اور وہ آخرت ميں نقصان اٹھانے والوں ميں سے ہو گا ﴾آل عمران ( 85 ).
جب يہ معلوم ہو گيا تو يہ بھى علم ميں ہونا چاہيے كہ علماء كرام نے توحيد كو تين قسموں ميں تقسيم كيا ہے جو درج ذيل ہيں:
توحيد ربوبيت ، توحيد الوہيت ، توحيد اسماء و صفات
توحيد ربوبيت: اللہ تعالى كو اس كے افعال مثلا خلق اور تدبير اور زندہ كرنے اور مارنے روزى دينے وغيرہ افعال ميں يكتا ماننا.
اس توحيد كے كتاب و سنت ميں بہت دلائل پائے جاتے ہيں.
لہذا اگر كسى نے يہ اعتقاد ركھا كہ اللہ كے علاوہ اور بھى كوئى خالق ہے، يا مالك ہے يا روزى رساں ہے، يا اللہ كے علاوہ كوئى اور اس جہان ميں تصرف كرنے والا ہے تو اس نے توحيد كى اس قسم ميں خلل پيدا كيا اور اللہ كے ساتھ كفر كيا.
كيونكہ پہلے دور كے كفار اور مشركين مكہ بھى اس توحيد كا اجمالى طور پر اقرار كرتے تھے، اگرچہ وہ اس كى بعض تفصيل ميں مخالفت بھى كرتے تھے، اس كے اقرار كى دليل بہت سارى آيات ميں پائى جاتى ہے جن ميں سے چند ايك درج ذيل ہيں:
فرمان بارى تعالى ہے:
(1) وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ
﴿ اور اگر آپ ان سے يہ سوال كريں كہ آسمان و زمين كو كس نے پيدا كيا، اور سورج اور چاند كو كس نے مسخر كيا ؟ تو البتہ وہ ضرور يہ كہينگے اللہ نے، تو وہ كدھر الٹے جا رہے ہيں ﴾ العنكبوت ( 61 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى اس طرح ہے:
(2) وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ
﴿ اور اگر آپ ان سے دريافت كريں كہ آسمان نے پانى كس نے نازل كيا اور اس سے زمين كو بنجر ہونے كے بعد زندہ كس نے كيا ؟ تو وہ ضرور كہينگے اللہ نے، آپ كہہ ديں سب تعريفات اللہ ہى كى ہيں، بلكہ ان ميں اكثر عقل نہيں ركھتے ﴾العنكبوت ( 63 ).
اور ايك مقام پر رب العزت كا فرمان اس طرح ہے:  
(3) وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ
﴿ اور اگر آپ ان سے دريافت كريں كہ انہيں كس نے پيدا كيا ہے ؟ تو وہ ضرور كہينگے اللہ نے، پھر وہ كدھر الٹے جا رہے ہيں ﴾ الزخرف ( 87 ).
ان آيات ميں اللہ سبحانہ و تعالى نے بيان فرمايا ہے كہ كفار بھى اس كا اقرار كرتے تھے كہ اللہ تعالى خالق و مالك اور مدبر ہے، ليكن اس كے باوجود انہوں نے عبادت ميں اللہ كى توحيد كا انكار كيا جو ان كے عظيم ظلم اور شديد بہتان اور ضعف عقل كى دليل تھى، كيونكہ ان صفات كا مالك اور ان افعال ميں انفراديت ركھنے والے كى ہى عبادت كرنى چاہيے، اور اس كے علاوہ كسى اور كى عبادت نہ ہو، اور صرف اس اللہ كو ہى يكتا و تنہا اور ايك مانا جائے، اللہ سبحانہ و تعالى پاك اور بلند و بالا ہے اس سے جو وہ شرك كرتے ہيں.
اس ليے جو كوئى بھى توحيد ربوبيت كا صحيح اقرار كرتا ہو اس كے ليے ضرورى ہے كہ وہ توحيد الوہيت كا بھى اقرار كرے.
توحيد الوہيت :  يہ ہے كہ اللہ تعالى كو ہر قسم كى ظاہرى اور باطنى قولى و عملى عبادت ميں يكتا و اكيلا مانا جائے، اور اللہ كے سوا باقى سب كى عبادت كى نفى كى جائے چاہے وہ كوئى بھى ہو، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے: وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ
﴿ اور تيرا پروردگار صاف صاف حكم دے چكا ہے كہ تم اس كے سوا كسى اور كى عبادت نہ كرنا ﴾الاسراء ( 23 ).
اور ايك مقام پر رب العزت كا فرمان ہے: وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا
﴿ اور اللہ تعالى كى عبادت كرو اور اس كے ساتھ كسى كو شريك نہ كرو ﴾النساء ( 36 ).
اور اسے توحيد اللہ افعال العباد كہنا بھى ممكن ہے، اور اسے توحيد الوہيت كا نام بھى ديا جاتا ہے،كيونكہ يہ اللہ كى عبادت اور اسے الہ معبود تسليم كرنے پر مبنى ہے، كہ اللہ كى عبادت محبت و تعظيم كے ساتھ كى جائے.
اور اسے توحيد عبادت بھى كہا جاتا ہے:كيونكہ بندہ اللہ تعالى كے احكام كى ادائيگى اور ممنوعات سے اجتناب كرتے ہوئے اللہ كى عبادت كرتا ہے. اور اسے توحيد طلب اور قصد و ارادہ كا نام بھى ديا جاتا ہے؛ كيونكہ بندہ كا مقصد و ارادہ اللہ كى رضامندى و خوشنودى ہے اور خالصتا اللہ كى رضا طلب كرتے ہوئے خالص اسى كى عبادت كرتا ہے. يہى وہ قسم اور نوع ہے جس ميں خلل پايا جاتا ہے، اور اسى توحيد الوہيت كى بنا پر اللہ سبحانہ و تعالى نے رسول مبعوث كيے اور كتابيں نازل فرمائيں، اور اسى كى وجہ سے مخلوقات پيدا كى گئيں، اور شريعت بنائى گئيں، اور يہى وہ توحيد الوہيت ہے جس ميں انبياء اور ان كى قوموں كے درميان جھگڑا ہو، اور مخالفت كرنے والے ہلاك كر ديے گئے اور مومنوں كو نجات حاصل ہوئى. اس ليے جس نے بھى اس توحيد الوہيت ميں خلل پيدا كيا اور كسى بھى قسم كى عبادت اللہ كے علاوہ كسى اور كے ليے جائز سمجھا تو وہ ملت اسلاميہ سے خارج ہو گيا اور فتنہ ميں پڑ گيا اور سيدھى راہ سے بھٹك گيا، اللہ تعالى ہميں سلامت و محفوظ ركھے.
توحيد اسماء و صفات : يہ ہے كہ،  اللہ كے اسماء و صفات ميں اللہ كو يكتا و تنہا مانا جائے، اس ليے بندے كو يہ اعتقاد ركھنا چاہيے كہ اللہ تعالى كے اسماء و صفات ميں اس كا كوئى مثل نہيں، يہ توحيد دو اساسى اشياء پر مبنى ہے:
پہلى اساس: اثبات،يعنى اسماء حسنى اور صفات على ميں سے جسے اللہ تعالى نے اپنے ليے ثابت كيا ہے، يا پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اللہ كے ثابت كيا ہے اسے بغير كسى تشبيہ و مثال كے اسى طرح ثابت كيا جائے جس طرح اللہ كے شايان شان ہے، اور اس كے معانى ميں كسى بھى قسم كى تحريف و تاويل نہ كى جائے اور نہ ہى اس كے حقائق كو معطل كيا جائے اور نہ ہى اس كى كيفيت بيان كى جائے.
دوسرى اساس: تنزيہ، كہ اللہ سبحانہ و تعالى كو ہر قسم كے عيب سے منزہ و پاك مانا جائے، اور ان صفات نقص كى اللہ سے نفى كى جائے جن كى اللہ نے خود نفى كى ہے، اس كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ .  
اس كى مثل كوئى چيز نہيں، اور وہ سميع و بصير ہے  (سورۃ شوری     11) .
يہاں اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے آپ كو مخلوق كى مماثلت سے منزہ كيا ہے، اور اپنے ليے صفات كمال ثابت كى ہيں جس طرح اللہ كے شايان شان ہيں.                      واللہ اعلم .
-------------------------------------------------------------------------------------------
      طالب دعاء : اکبرحسین اورکزئی

جمعرات، 11 اکتوبر، 2018

ختم نبوت


سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں

الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمداً عبده ورسوله اما بعد .
”اللہ تعالیٰ نے دین کی ترویج و تقسیم کا کام آدم علیہ السلام سے شروع کیا اور بالآخر سیدالمرسلین خاتم النّبیین  صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ زریں سلسلہ مکمل و ختم فرمادیا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم وہی دین لے کر آئے جو دیگر انبیاء کرام لے کر آئے تھے جو ابتدا آفرینش سے تمام رسولوں کا دین تھا اسی دین کو تمام آمیزیشوں سے پاک کرکے اس کی اصل خالص صورت میں پیش کیا اب خدا کا حکم اس کا دین اس کا قانون وہ ہے جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی خداکی نافرمانی ہے کلمہ طیبہ کی استدلالی و منطقی توجیہ یہ ہے کہ اس میں پہلے تمام خداؤں کا انکار پھر ایک خدائے وحدہ لاشریک لہ کا اقرار ہے اسی طرح تمام انبیاء کی سابقہ شریعتوں و طریقوں پر عمل کرنے کا انکار ہے (اس لئے کہ تمام شریعتیں شریعت محمدی  صلی اللہ علیہ وسلم میں سموگئی ہیں) اور صرف اسوئہ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنے کا اقرار ہے۔
قصراسلام میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رہ گئی تھی سو وہ آپ کے ذریعے اللہ نے پرُکردی۔ آپ کی رسالت نسل انسانی پر اللہ کی سب سے بڑی رحمت اور نعمت غیرمترقبہ ہے۔ نزولِ کتب وصحف کا سلسلہ و طریقہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم پر منقطع کردیاگیا۔ سلسلہٴ نبوت و رسالت کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیا گیا۔ اب آپ کے بعد کوئی رسول یا نبی نہیں آئیگا۔ قرآن کی طرح آپ کی رسالت ونبوت بھی آفاقی وعالمگیر ہے جس طرح تعلیمات قرآنی پر عمل پیرا ہونا فرض ہے اسی طرح تعلیمات نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا فرض ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت تمام جن وانس کیلئے عام ہے دنیا کی ساری قومیں اور نسلیں آپ کی مدعو ہیں تمام انبیاء کرام میں رسالت کی بین الاقوامی خصوصیت اور نبوت کی ہمیشگی کا امتیاز صرف آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم گروہ انبیاء کرام کے آخری فرد ہیں اور سلسلہٴ نبوت و رسالت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم خلاصہ انسانیت ہیں۔“(۱)
ختم نبوت قرآنی آیات کی روشنی میں
ختم نبوت اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اسلام کی ساری خصوصیات اورامتیازات اسی پر موقوف ہیں۔ ختم نبوت ہی کے عقیدہ میں اسلام کا کمال اور دوام باقی ہے۔ چنانچہ اس آیت میں اس کی پوری وضاحت اور ہرطرح کی صراحت موجود ہےمَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِن رَّسُولَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلَیْمًا“ نہیں ہیں محمد  صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ لیکن اللہ کے رسول اور تمام انبیاء کے سلسلہ کو ختم کرنے والے ہیں اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے(۲)
آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم کے متعلق اس آیت میں جو اعلان کیاگیا ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم آخری رسول ہیں۔ اب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کے بعد کوئی رسول آنے والا نہیں ہے اس قرآنی اعلان کا مقصد محض فہرست انبیاء و رسل کے پورے ہوجانے کی اطلاع دینا نہیں ہے بلکہ اس قرآنی اعلان اور پیغام کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اگرچہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ نبوت دنیا میں رہ جانے والی نہیں ہے مگر آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا بدل کارِ نبوت کی شکل میں ہمیشہ تاقیامت باقی ہے۔ اللہ نے اس آیت میں خاتم الرسل یا خاتم المرسلین لفظ کے بجائے خاتم النّبیین کا لفظ اختیار فرمایا ہے اس میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ نبی میں عمومیت ہوتی ہے اور رسول میں خصوصیت ہوتی ہے نبی وہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ اصلاح خلق کیلئے منتخب فرماتا اور اپنی وحی سے مشرف فرماتا ہے اور اس کے لئے کوئی مستقل کتاب اور مستقل شریعت نہیں ہوتی ہے۔ پچھلی کتاب و شریعت کے تابع لوگوں کو ہدایت کرنے پر مامور ہوتا ہے جیسے حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب و شریعت کے تابع اور ہدایت کرنے پر مامور تھے۔ رسول وہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ مستقل کتاب و مستقل شریعت سے نوازتا ہے جو رسول ہوتا ہے وہ اپنے آپ نبی ہوتا ہے لیکن جو نبی ہوتا ہے وہ رسول نہیں ہوتا لفظ خاتم النّبیین کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کے سلسلہ کو ختم کرنے والے اور سب سے آخر ہیں اب قیامت تک نہ تو نئی شریعت و کتاب کے ساتھ کسی کو منصب رسالت پر فائز کیاجائے گا اور نہ پچھلی شریعت کے متبع کسی شخص کو نبی بناکر بھیجا جائے گا۔
اس آیت میں ان لوگوں کے خیال کا رد بھی ہے جو اپنی جاہلانہ رسم و رواج کی بناء پر لے پالک کو حقیقی بیٹا سمجھتے اور بیٹے کا درجہ دیتے تھے۔ زید بن حارثہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے منھ بولے بیٹے تھے چنانچہ جب انھوں نے اپنی بیوی حضرت زینب کو طلاق دیدی تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کرلیا تو اس نکا پر طعن کرتے تھے کہ بیٹے کی بیوی سے آپ نے نکاح کرلیا اس آیت میں یہ بتانا مقصود ہے کہ زید بن حارثہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی بیٹے نہیں ہیں وہ تو حارثہ کے بیٹے ہیں مزید تاکید کے طور پر یہ بھی بتادیاگیا کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم تم مردوں میں سے کسی جسمانی باپ نہیں ہیں البتہ اللہ کے رسول ہونے کی حیثیت سے سب کے روحانی باپ ضرور ہیں۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے چار بیٹے قاسم، طیب، طاہر حضرت خدیجہ سے اور ابراہیم حضرت ماریہ قبطیہ سے تھے لیکن ان میں سے کوئی رجال کی حد تک نہیں پہنچاتھا اوراس آیت کے نزول کے وقت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔ حقیقی باپ ہوتو اس پر نکاح کے حلال وحرام کے احکام عائد ہوتے ہیں لیکن حضرت زید بن حارثہ تو لے پالک بیٹے تھے اس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اُمت کے مردوں میں سے کسی کے بھی نسبی باپ نہیں لیکن روحانی باپ سب کے ہیں۔
یہاں لفظ خاتم پر ایسی روشنی ڈالی جارہی ہے جس سے عقیدہٴ ختم نبوت کی پوری وضاحت ہوجاتی ہے۔ لفظ خاتم دوقرأتوں سے بھی ثابت ہے۔ امام حسن اور عاصم کی قرأت سے خاتم بفتح التاء ہے اور دوسرے ائمہ قرأت سے خاتم بکسر التاء ہے۔ دونوں کا معنی ایک ہی ہے یعنی انبیاء کے سلسلہ کو ختم کرنے والے اور دونوں کے معنی آخر اور مہرکے ہیں۔ اور مہر کے معنی میں یہ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں۔ مہر کے یہ معنی ہوئے کہ اب دستاویز مکمل ہوگئی۔ اس میں اب کسی قسم کی گنجائش اضافہ کی ہے نہ کمی کی ہے۔ امام راغب نے مفردات القرآن میں فرمایاہے: وَخَاتَمُ النُّبُوَّةِ لِاَنَّہُ خَتَمَ النُّبُوَّةَ الَّتِی تَمَّمَہَا بِمَجِیْئِہ  یعنی آپ کو خاتم النبوت“ اس لئے کہاگیا کہ آپ نے نبوت کو اپنے تشریف لانے سے ختم اور مکمل فرمادیا۔ (۳)
خاتم القوم سے مراد آخر ہم قبیلے کا آخری آدمی(۴) خَتَمَ النُّبُوَّةَ فَطُبِعَ عَلَیْہَا فَلاَ تُفْتَحُ لِاَحَدٍ بَعْدَہُ اِلَی قِیَامِ السَّاعَةِ آپ نے نبوت کو ختم کردیا اور اس پر مہر لگادی اب قیامت تک یہ دروازہ نہیں کھلے گا۔(۵)
امام غزالی لکھتے ہیں: اِنَّ الْاُمَّةَ فَہِمَتْ بِالْاِجْمَاعِ مِنْ ہٰذَا اللَّفْظِ خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَمِنْ قَرَائِنِ اَحْوَالِہِ اَنَّہُ فَہِمَ عَدْمَ نَبِیِّ بَعْدَہُ اَبَدًا وَاَنَّہُ لَیْسَ فِیْہِ تَاوِیْلٌ وَلاَ تَخْصِیْصٌ فَمُنْکِرُ ہٰذَا لاَ یَکُوْنُ الاَّ اِنْکَارَ الْاِجْمَاعِ“ بیشک امت نے اس لفظ خاتم النّبیین سے اور اسکے قرائن احوال سے بالاجماع یہی سمجھا ہے کہ اس آیت کا مطلب یہی ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ رسول اور نہ اس میں کوئی تاویل چل سکتی ہے اور نہ تخصیص اور اس کا منکر یقینا اجماع کا منکر ہے(۶)
ارشاداتِ ربانی فرموداتِ نبوی کی روشنی میں علمائے اُمت وصلحائے ملت نے اجماعی طور پر صدیوں سے اس آیت کا یہی مطلب یعنی ختم نبوت سمجھا اور سمجھایا ہے۔
ختم نبوت احادیث وروایات کی روشنی میں
حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ آپ کے تشریف لے جانے کے بعد دشمنانِ اسلام نئے نئے فتنے اٹھائیں گے دین میں طرح طرح کے رخنے ڈالیں گے اور خصوصاً ختم نبوت کے تعلق سے شبہات پیدا کرکے اُمت مسلمہ کو راہِ راست سے ہٹانے کی کوشش کریں گے لہٰذا آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور پیش بندی اُمت کو ان آئندہ خطرات سے آگاہ فرمادیا اور اُمت کو پوری طرح چوکنا کردیا کہ جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے اسے وقت کا دجال باطل پرست اور فتنہ پرور سمجھا جائے اور اسے دین سے خارج کردیا جائے چنانچہ عقیدئہ ختم نبوت ہر زمانہ میں تمام مسلمانوں کا متفق علیہ عقیدہ رہا ہے اور اس امر میں مسلمانوں کے درمیان کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا جس کسی نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا ہے یا جس کسی نے بھی دعویٰ کو قبول کیا ہے اسے متفقہ طور پر اسلام سے خارج سمجھا گیا ہے اس پر تاریخ کے بہت سے واقعات شاہد ہیں۔ چند مندرجہ ذیل پیش کئے جارہے ہیں۔
آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے دور میں اسود عنسی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو اس کے قتل کیلئے روانہ فرمایا۔ صحابی رسول نے جاکر اسود عنسی کا قصہ تمام کردیا۔ حضرت عروة بن الزبیر کا بیان ہے کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات کے ایک دن پہلے اسود عنسی کے مارے جانے کی خوشخبری ملی تو آپ نے خوشی کا اظہار فرمایا۔(۷)
حضرت ابوبکر صدیق کے د ور میں سب سے پہلے جو کام ہوا وہ یہ تھا کہ حضرت ابوبکر نے مسیلمہ کذاب جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا اسکی سرکوبی کیلئے حضرت خالد بن ولید کو صحابہ کرام کی ایک جماعت کے ساتھ روانہ فرمایا تو حضرت خالد بن ولید نے مسیلمہ بن کذاب سمیت اٹھائیس ہزار جوانوں کو ٹھکانے لگاکر فاتح کی حیثیت سے مدینہ واپس ہوئے۔ صدیقی دور میں ایک اور شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا جس کا نام طلیحہ بن خویلد بتایاجاتا ہے اس کے قتل کیلئے بھی حضرت خالد بن ولید روانہ کئے گئے تھے۔(۸) ”اسی طرح خلیفہ عبدالملک کے دور میں جب حارث نامی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا تو خلیفہ وقت نے صحابہ و تابعین سے فتوے لیے اور متفقہ طور پر اسے قتل کیاگیا۔ خلیفہ ہارون رشید نے بھی اپنے دور میں نبوت کا دعویٰ کرنے والے شخص کو علماء کے متفقہ فتویٰ پر قتل کی سزا دی ہے“۔(۹)
امام ابوحنیفہ کے زمانے میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کہا کہ مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کے علامات پیش کروں اس پر امام اعظم نے فرمایا کہ جو شخص اس سے نبوت کی کوئی علامت طلب کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا کیونکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم فرماچکے ہیں کہ ”لاَنَبِیَّ بَعْدِیْ“(۱۰) غرض یہ کہ شروع سے اب تک تمام اسلامی عدالتوں اور درباروں کا یہی فیصلہ رہا ہے کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والے اور اسے ماننے والے کافر مرتد اور واجب القتل ہیں۔
اب آئیے ذرا احادیث کی روشنی میں ختم نبوت پر روشنی ڈالی جائے قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّ الرِّسَالَةَ النُّبُوَّةَ قَدْ اِنْقَطَعَتْ فَلاَ رَسُوْلَ بَعْدِی وَلاَنَبِیَّ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رسالت و نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا میرے بعد اب کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔(۱۱)
قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ مَثَلِیْ وَمَثَلَ الْاَنْبِیَاءِ مِنْ قَبْلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بَیْتًا فَاحْسَنَہُ وَاَجْمَلَہُ اِلاَّ مَوضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِیَةٍ فَجَعَلَ النَّٓسُ یَطُوْفُوْنَ بِہ یَعْجَبُوْنَ لَہُ وَیَقُوْلُوْنَ ہَلاَّ وُضِعَتْ ہٰذِہ اللَّبِنَةُ قَالَ فَاَنَا اللَّبِنَةُ وَاَنَا خَاتِمُ النَّبِیِّیْنَ“۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین وجمیل بنائی مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹی ہوئی تھی لوگ اس عمارت کے گرد پھرتے اور اظہارِ حیرت کرتے اور کہتے تھے کہ اس جگہ ایک اینٹ نہیں رکھی گئی آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النّبیین ہوں یعنی میرے آنے کے بعد اب کوئی جگہ باقی نہیں ہے نبوت کی عمارت مکمل ہوچکی ہے۔(۱۲)
قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَنَبِیَ بَعْدِیْ وَلاَ اُمَّةَ بَعْدِیْ“ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری اُمت کے بعد کوئی امت نہیں یعنی کسی نئے آنے والے نبی کی امت نہیں۔(۱۳)
قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجِئْتُ فَخَتَمْتُ الْاَنْبِیَاءَ پس میں آیا اور میں نے انبیاء کا سلسلہ ختم کردیا۔(۱۴)
”قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَا مُحَمَّدٌ وَاَنَا اَحْمَدُ وَاَنَا الْمَاحِی الَّذِیْ یُمْحٰی بِی الْکُفْرُ وَاَنَا الْحَاشِرُ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلَی عَقْبِیْ وَاَنَا الْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہُ نَبِیٌّ“ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں محمد ہوں میں احمد ہوں میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعے سے کفر محو کیا جائے گا میں حاشر ہوں کہ میرے بعد لوگ حشر میں جمع کئے جائیں گے یعنی میرے بعداب بس قیامت ہی آنی ہے اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔(۱۵)
اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: فُضِّلْتُ عَلَی الْاَنْبَیاءِ بِسِتٍ اُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمَ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَاُحِلَّتْ لِی الْغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ لِی الْاَرْضُ مَسْجِدًا وَطَہُوْرًا وَاُرْسِلْتُ اِلَی الْخَلْقِ کَافَّةً وَخُتِمَ بِی النَّبِیُّوْنَ“ آنحضرت نے فرمایا مجھے چھ باتوں میں دیگر انبیا پر فضیلت دی گئی ہے: (۱) مجھے جامع و مختصر بات کہنے کی صلاحیت دی گئی، (۲) مجھے رعب کے ذریعے نصرت بخشی گئی، (۳) میرے لئے اموالِ غنیمت حلال کئے گئے،(۴) میرے لئے زمین کو مسجد بھی بنادیاگیا اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی یعنی میری شریعت میں نماز مخصوص عبادت گاہوں میں ہی نہیں بلکہ روئے زمین میں ہرجگہ پڑھی جاسکتی ہے اور پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرکے وضو کی حاجت بھی پوری کی جاسکتی ہے،(۵) مجھے تمام دنیاکیلئے رسول بنایا گیا ہے،(۶) اور میرے اوپر انبیاء کا سلسلہ ختم کردیاگیا۔“(۱۶)
قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْکَانَ بَعْدِی نَبِیٌّ لَکَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّاب․ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعداگر کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتے۔ چونکہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم کردی گئی ہے اب کسی کو کسی طرح کی بھی نبوت نہیں مل سکتی۔(۱۷)
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعَلِیٍّ اَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلاَّ اَنَّہُ لاَنَبِیَّ بَعْدِیْ․ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے ارشاد فرمایا کہ میرے ساتھ تمہاری نسبت وہی ہے جو موسیٰ کے ساتھ ہارون کی تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔(۱۸)
”قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْکَانَ مُوْسٰی حَیًّا لَمَا وَسَعَہُ اِلاَّ اِتِّبَاعِیْ“ اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو ان کیلئے میری پیروی کے علاوہ چارہ کار نہ تھا۔(۱۹)
چنانچہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے اولوالعزم پیغمبر کے تعلق سے یہ وضاحت فرمادی کہ اگر موسیٰ بھی دوبارہ اس دنیامیں آتے تو انھیں میری شریعت پر ایک امتی کی حیثیت سے عمل پیرا ہونا پڑتا۔ اسی طرح آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے مستقبل کے بارے میں بتادیا کہ جب عیسیٰ علیہ السلام آسمانسے نزول فرمائیں گے تو ان کی بھی حیثیت امتی کی ہوگی۔ حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں۔ ابوہریرہ سے روایت ہے: قَالَ النَّبِیُّ کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَاِمَامُکُمْ مِنْکُمْ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا کیا حال ہوگا جب ابن مریم تمہارے درمیان اتریں گے اور تمہارا قائد تمہیں میں سے ہوگا۔(۲۰)
قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ”کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُہُمْ الْاَنْبِیَاءُ کُلَّمَا ہَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہُ وَاِنَّہُ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ“ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کی قیادت انبیاء کیا کرتے تھے جب کوئی نبی فوت پایا جاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوجاتا تھا مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا بلکہ خلفاء ہوں گے۔(۲۱)
حضرت آدم علیہ السلام سے نبوت کا سلسلہ شروع ہوا۔ انبیاء آتے رہے اوراسلام کی تعلیمات کو پیش کرتے رہے۔ اس طرح اسلام بتدریج تکمیل کی طرف بڑھتا چلاگیا۔ یہاں تک کہ عمارت کا آخری پتھر سلسلہ انبیاء کے آخری نبی، رسولوں کی فہرست کے آخری رسول محمد عربی  صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوگیا نبوت کے سلسلہ کو بند کرناتھا تو نبی کے خلفاء کی طرف اشارہ کیاگیا اور خلافت رسول کا وعدہ کیاگیا۔ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوالصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ وعدہ کرلیا اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں ایمان لائے اور نیک عمل کئے۔ یقینا ان کو خلافت ارضی عطا کرے گا۔(۲۲)
ختم نبوت  صلی اللہ علیہ وسلم اکابرِ اُمت کی تحقیقات کی روشنی میں
علامہ ابن جریر اپنی مشہور تفسیر میں سورة احزاب کی آیت کی تشریح میں ختم نبوت کے تعلق سے یوں رقمطراز ہیں اللہ نے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم کردی اور اس پر مہرلگادی اب یہ دروازہ قیامت تک کسی کیلئے نہیں کھلے گا۔(۲۳)
امام طحاوی اپنی کتاب (العقیدة السلفیہ) میں ختم نبوت کے بارے میں ائمہ سلف خصوصاً امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد کے اقوال کی روشنی میں لکھتے ہیں کہ حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے اوراس کے محبوب اورآخری نبی ہیں اور یہ بھی لکھتے ہیں کہ سیدالانبیاء وسیدالمرسلین محمد  صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم رب العالمین کے محبوب ہیں۔(۲۴)
علامہ امام غزالی فرماتے ہیں اس امر (ختم نبوت) پر اُمت مسلمہ کا کامل اجماع ہے کہ اللہ کے رسول حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں اور پوری اُمت اس بات پر متفق ہے کہ رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ”لا نَبِیَّ بَعْدِیْ“ سے مراد یہی ہے کہ ان کے بعد نہ کوئی نبی اور نہ رسول ہوگا جو شخص بھی اس حدیث کا کوئی اور مطلب بیان کرے وہ دائرئہ اسلام سے خارج ہے اس کی تشریح باطل اور اس کی تحریر کفر ہے۔علاوہ ازیں امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس کے سوا اس کی کوئی تشریح نہیں جو اس کا انکار کرے وہ اجماعِ امت کا منکر ہے۔(۲۵)
علامہ زمخشری اپنی تفسیر الکشاف میں لکھتے ہیں: اگر آپ یہ سوال کریں کہ جب یہ عقیدہ ہوکہ اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے آخری زمانے میں نازل ہوں گے تو پھر رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی کیسے ہوسکتے ہیں میں کہتا ہوں کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اس معنی میںآ خری ہیں کہ ان کے بعد کوئی اور شخص نبی کی حیثیت سے مبعوث نہ ہوگا۔ رہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ تو وہ ان انبیاء کرام میں سے ہیں جنھیں حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نبوت سے سرفراز کیاگیاتھا اور جب وہ دوبارہ آئیں گے تو حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے متبع ہوں گے اور انھیں کے قبلہ الکعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں گے۔(۲۶)
علامہ ابن کثیر تحریر فرماتے ہیں ”یہ آیت (یعنی سورہ احزاب والی) اس امر میں نص ہے کہ انکے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا کیونکہ مقامِ رسالت مقامِ نبوت سے اخص ہے کیونکہ ہر رسول نبی ہوتا ہے اور ہر نبی رسول نہیں ہوتا ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدجو شخص بھی اس منصب کادعویٰ کرتا ہے وہ کذاب دجال مفتر اور کافر ہے خواہ وہ کسی قسم کے غیرمعمولی کرشمے اور جادوگری کے طلاسم دکھاتا پھرے اوراسی طرح قیامت تک جو شخص بھی اس منصب کا مدعی ہو وہ کذاب ہے۔(۲۷)
علامہ آلوسی لکھتے ہیں نبی کا لفظ عام ہے اور رسول خاص ہے اس لئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النّبیین ہونے سے خاتم المرسلین ہونا لازمی ہے کہ اس دنیا میں آپ کے منصب نبوت پر فائز ہونے کے بعد کسی بھی انسان یا جن کو یہ منصب نصیب نہیں ہوگا۔(۲۸)
علامہ جلال الدین سیوطی اس آیت وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا“ کے تحت لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے آگاہ ہے اورجانتا ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب نازل ہوں گے تو وہ حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے پیروکار ہوں گے۔(۲۹)
علامہ بیضاوی یوں رقمطراز ہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کرام کی آخری کڑی ہیں جنھوں نے ان کے سلسلہ کو ختم کردیا ہے اور سلسلہٴ نبوت پر مہر لگادی ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعث ثانیہ سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کی تردید نہیں ہوتی کیوں کہ وہ جب آئیں گے تو انہی کے شریعت کے پیروکار ہوں گے۔(۳۰)
تاج العروس میں اس طرح ہے: وَمِنْ اَسْمَائِہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْخَاتِمُ وَالْخَاتَمُ وَہُو الَّذِیْ فَقَدَ النُّبُوَّةَ بِمَجِیْئِہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں میں سے خاتِم اور خاتَم بھی ہیں جن کا معنی یہ ہے کہ ان کی آمد پر نبوت ختم ہوگی۔(۳۱)
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب کی کتاب سے مضمون بعنوان ”منکرین ختم نبوت وسنت کا مغالطہ اور اس کا مدلل اورمعقول جواب“ پیش خدمت ہے۔ واقعی حکیم الاسلام کا یہ جواب اتنا مدلل اور معقول ہے کہ اس سے گمراہ فرقہ قادیانیوں کی سازش کو سمجھنے اور بھولے بھالے مسلمانوں کو ان کے فتنہ سے بچانے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ ”اس میں اکثر قادیانی یہ مغالطہ دیتے ہیں کہ نبوت تو دنیاکیلئے رحمت ہے جب نبوت ختم ہوگئی اور زحمت پیداہوگئی۔ نبوت تو ایک نور ہے جب وہ نور نہ رہا تو دنیا میں ظلمت پیدا ہوگئی تواس میں (معاذ اللہ) حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہے کہ آپ دنیا کو زحمت دینے کیلئے آئے یا دنیامیں معاذ اللہ ظلمت پیدا کرنے کیلئے آئے کہ نور ہی ختم کردیا اور رحمت ہی ختم کردی یہ ایک مغالطہ ہے اور مغالطہ واقع ہوا ہے ختم نبوت کے معنی سمجھنے کے اندر یاتو سمجھا نہیں ان لوگوں نے یا سمجھ کر جان بوجھ کر دغا اور فریب سے کام لیا ہے۔
ختم نبوت کے معنی قطعِ نبوت کے نہیں ہیں کہ نبوت منقطع ہوگئی ختم نبوت کے حقیقی معنی تکمیل نبوت کے ہیں کہ نبوت اپنی انتہا کو پہنچ کر حدکمال کو پہنچ گئی ہے اب کوئی درجہ نبوت کا ایسا باقی نہیں رہا کہ بعد میں کوئی نبی لایا جائے اوراس درجہ کو پورا کرایا جائے۔ ایک ہی ذاتِ اقدس نے ساری نبوت کو حد کمال پر پہنچادیا کہ نبوت کامل ہوگئی تو ختم نبوت کے معنی تکمیل نبوت کے ہیں۔ قطع نبوت کے نہیں ہیں گویا کہ ایک ہی نبوت قیامت تک کام دے گی، کسی اور نبی کے آنے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ نبوت کے جتنے کمالات تھے وہ سب ایک ذاتِ بابرکات میں جمع کردئیے گئے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ جیسے آسمان پر رات کے وقت ستارے چمکتے ہیں ایک نکلا دوسرا تیسرا اور پھر لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں ستارے جگمگا جاتے ہیں بھراہوا ہوتا ہے آسمان ستاروں سے اور روشنی بھی پوری ہوتی ہے لیکن رات رات ہی رہتی ہے دن نہیں ہوتا کروڑوں ستارے جمع ہیں مگر رات ہی ہے روشنی کتنی بھی ہوجائے لیکن جونہی آفتاب نکلنے کا وقت آتا ہے تو ایک ایک ستارہ غائب ہونا شروع ہوتا ہے یہاں تک کہ جب آفتاب نکل آتا ہے تو اب کوئی بھی ستارہ نظر نہیں پڑتا۔ چاند بھی نظر نہیں پڑتا تو یہ مطلب نہیں کہ ستارے غائب ہوگئے دنیا سے بلکہ اس کا نور مدغم ہوگیا۔ آفتاب کے نور میں کہ اب اس نور کے بعد سب کے نور دھیمے پڑگئے اور وہ سب جذب ہوگئے آفتاب کے نور میں اب آفتاب ہی کا نور کافی ہے کسی اور ستارے کی ضرورت نہیں اور نکلے گا تواس کا چمکنا ہی نظر نہیں آئے گا آفتاب کے نور میں مغلوب ہوجائے گا تو یوں نہیں کہیں گے کہ آفتاب نے نکلنے کے بعد دنیامیں ظلمت پیدا کردی نور کو ختم کردیا بلکہ یوں کہا جائے گا کہ نور کو اتنا مکمل کردیا کہ اب چھوٹے موٹے ستاروں کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ آفتاب کافی ہے غروب تک پورا دن اسی کی روشنی میں چلے گا تو اور انبیاء بمنزلہ ستاروں کے ہیں اور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم بمنزلہ آفتاب کے ہیں جب آفتاب طلوع ہوگیا اور ستارے غائب ہوگئے تویہ مطلب نہیں ہے کہ نبوت ختم ہوگئی بلکہ اتنی مکمل ہوگئی کہ اب قیامت تک کسی نبوت کی ضرورت نہیں گویا نبوت کی فہرست تھی جس پر مہر لگ گئی۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر لگادی اب کوئی نبی زائد ہوگا نہ کم ہوگا یہ ممکن ہے کہ بیچ میں سے کسی نبی کو بعد میں لے آیا جائے جیسے عیسیٰ علیہ السلام بعد میں نازل ہوں گے مگر وہ اسی فہرست میں داخل ہوں گے اوران کی متبع کی حیثیت ہوگی یہ نہیں ہے کہ کوئی جدید نبی داخل ہو۔ پچھلے نبی کو اگر اللہ تعالیٰ لانا چاہیں تو لائیں گے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرہست مکمل کردی کہ اب نہ کوئی نبی زائد ہوسکتا ہے نہ کم ہوسکتا ہے۔(۳۲)
تمت بالخير

از: مولانا سید کمال اللہ بختیاری ندوی‏ ( بتغير يسير   )

حواشی
(۱)         تلخیصاً ماخوذ از : اسلام اور تعمیر سیرت، سیدکمال اللہ بخیار ی ندوی،ص:۴۰۔
(۲)        الاحزاب:۴۰۔                         (۳)                 ماہنامہ بانگ درا، لکھنوٴ،ص:۸، نومبر۹۷۔
(۴)        لسان العرب بحوالہ ختم نبوت،ص:۱۰، مولانا سید ابوالاعلی مودودی۔
(۵)        تفسیر ابن جریر،ص: ۱۲، ج:۲۲۔                       (۶)                  رسول نمبر، ڈائجسٹ،ص:۵۰
(۷)        فتح الباری،ص: ۸۹، ج:۸۔                                (۸)                 فتوح البلدان،ص: ۱۰۲۔
(۹)         شفا- قاضی عیاض                                              (۱۰)                ختم نبوت،ص:۲۲،مولانا مودودی۔
(۱۱)        ترمذی، کتاب الروٴیا۔                                         (۱۲)                بخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین۔
(۱۳)      ترمذی، کتاب الآداب، باب اسماء النبی۔                 (۱۴)                مشکوٰة،ص: ۵۱۲۔
(۱۵)      مسلم کتاب فضائل الصحابہ۔                                (۱۶)                مسلم کتاب فضائل الصحابہ۔
(۱۷)      مسند احمد۔                                                         (۱۸)                مسلم، بیان عیسیٰ۔
(۱۹)       بخاری، کتاب المناقب عن بنی اسرائیل۔              (۲۰)               النور:۵۵۔
(۲۱)       تفسیر طبری، جزء:۲۲،ص: ۱۲۔                          (۲۲)               شرح الطحاویہ،ص: ۱۵۔
(۲۳)     الاقتصاد فی الاعتقاد،ص: ۱۱۴۔                           (۲۴)               الکشاف، ج:۲،ص: ۲۱۵۔
(۲۵)     تفسیر ابن کثیر، ج:۳،ص:۴۹۳-۴۹۴۔             (۲۶)               روح المعانی، ج:۳۲، جزء:۲۲۔
(۲۷)     جلالین،ص: ۷۶۸۔                                         (۲۸)               انوار التنزیل، ج:۴،ص:۱۶۴۔
(۲۹)      تاج العروس، ج:۴، ص:۱۸۶، بحوالہ: قادیانیوں کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ،ص:۲۰، محمد بشیریم۔اے
(۳۰)     ماخوذ از: ختم نبوت سورئہ کوثر کی روشنی میں،ص: ۱۴،۱۵،۱۶۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10، جلد: 90 ‏،رمضان المبارک1427 ہجری مطابق اکتوبر2006ء