جمعرات، 25 اکتوبر، 2018

دنیا کی حقیقت کیا ہے



دنیا اور آخرت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک خطبہ

عَنْ عَمْروٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ يَوْمًا فَقَالَ فِي خُطْبَتِهِ : " أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا عَرَضٌ حَاضِرٌ يَأْكُلُ مِنْهَا الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ ، أَلَا وَإِنَّ الْآخِرَةَ أَجَلٌ صَادِقٌ يَقْضِي فِيهَا مَلِكٌ قَادِرٌ ، أَلَا وَإِنَّ الْخَيْرَ كُلَّهُ بِحَذَافِيرِهِ فِي الْجَنَّةِ ، أَلَا وَإِنَّ الشَّرَّ كُلَّهُ بِحَذَافِيرِهِ فِي النَّارِ ، أَلَا فَاعْمَلُوا وَأَنْتُمْ مِنَ اللَّهِ عَلَى حَذَرٍ ، وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مَعْرُوضُونَ عَلَى أَعْمَالِكُمْ ، {فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ، وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ} ( رواه الشافعى)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ دیا ، اور اپنے اس خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ : سُن لو ، اور یاد رکھو کہ دنیا ایک عارضی اور وقتی سودا ہے ، جو فی الوقت حاضر اور نقد ہے ( اور اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ، اسی لئے ) اس میں ہر نیک و بد کا حصہ ہے ، اور سب اس سے کھاتے ہیں ، اور یقین کرو کہ آخرت مقرر وقت پر آنے والی ایک سچی اٹل حقیقت ہے ، اور سب کچھ قدرت رکھنے والا شہنشاہ اسی میں ( لوگوں کے اعمال کے مطابق جزا اور سزا کا ) فیصلہ کرے گا ، یاد رکھو کہ ساری خیر اور خوشگواری اور اس کی تمام قسمیں جنت میں ہیں ، اور سارا شر اور دکھ اس کی تمام قسمیں دوزخ میں ہیں ۔ پس خبردار ، خبردار ( جو کچھ کرو ) اللہ سے ڈرتے ہوئے کرو ( اور ہر عمل کے وقت آخرت کے انجام کو پیش نظر رکھو ) اور یقین کرو کہ تم اپنے اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضور میں پیش کئے جاؤ گے ، پس جس شخص نے ذرہ برابر کوئی نیکی کی ہوگی ، وہ اس کو بھی دیکھ لے گا ، اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی ، وہ اس کو بھی پا لے گا ۔ ( مسند امام شافعی)
 تشریح ۔ ۔ ۔ انسان کی سب سے بڑی بدبختی اور سیکڑوں قسم کی بدکاریوں کی جڑ بنیاد یہ ہے کہ وہ اللہ کے احکام اور آخرت کے انجام سے بے فکر اور بے پروا ہو کر زندگی گذارے ، اور اپنی نفسانی خواہشات اور اس دنیا کی فانی لذتوں کو اپنا مقصد اور مطمح نظر بنا لے اور یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہے وہ آنکھوں کے سامنے ہے ، اور خدا اور آخرت آنکھوں سے اوجھل ہیں ، اس لئے انسانوں کو اس بربادی سے بچانے کا راستہ یہی ہے کہ ان کے سامنے دنیا کی بے حقیقتی اور بے قیمتی کو اور آخرت کی اہمیت اور برتری کو قوت کے ساتھ پیش کیا جائے ، اور قیامت میں خدا کے سامنے پیشی اور اعمال کی جزا و سزا کا اور جنت و دوزخ کے ثواب و عذاب کا یقین اُن کے دلوں میں اتارنے کی کوشش کی جائے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خطبہ کا حاصل اور موضوع یہی ہے ، اور جیسا کہ عرض کیا گیا ، آپ کے اکثر خطبات اور مواعظ میں یہی بنیادی مضمون ہوتا تھا ۔ 
تنبیہ ۔ ۔ ۔ یہ بات بڑی خطرناک اور بہت تشویشناک ہے کہ دینی دعوت اور دینی وعظ و نصیحت میں دنیا کی بے ثباتی اور بے حقیقتی اور آخرت کی اہمیت کا بیان اور جنت و دوزخ کا تذکرہ جس طرح اور جس ایمان و یقین اور جس قوت کے ساتھ ہونا چاہئے ہمارے اس زمانہ میں اس کا رواج بہت کم ہوگیا ہے ، گویا نہیں رہا ہے ، اور دین کی تبلیغ و دعوت میں بھی اسی طرح کی باتیں کرنے کا رواج بڑھتا جا رہا ہے جس قسم کی باتیں مادی تحریکوں اور دنیوی نظاموں کی دعوت و تبلیغ میں کی جاتی ہیں ۔ 


دنیا سے نہ لپٹو ، آخرت کے طالب بنو
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَتَخَوَّفُ عَلَى أُمَّتِي الْهَوَى ، وَطُولُ الْأَمَلِ ، فَأَمَّا الْهَوَى فَيَصُدُّ عَنِ الْحَقِّ ، وَأَمَّا طُولُ الْأَمَلِ فَيُنْسِي الْآخِرَةَ ، وَهَذِهِ الدُّنْيَا مُرْتَحِلَةٌ ذَاهِبَةٌ ، وَهَذِهِ الْآخِرَةُ مُرْتَحِلَةٌ قَادِمَةٌ ، وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا بَنُونَ ، فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لَا تَكُونُوا مِنْ بَنِي الدُّنْيَا فَافْعَلُوا ، فَإِنَّكُمُ الْيَوْمَ فِي دَارِ الْعَمَلِ وَلَا حِسَابَ ، وَأَنْتُمْ غَدًا فِي دَارِ الْحِسَابِ وَلَا عَمَلَ " . ( رواه البيهقى فى شعب الايمان ) 
ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں اپنی امت پر جن بلاؤں کے آنے سے ڈرتا ہوں ، ان میں سب سے زیادہ ڈر کی چیزیں هَوَى اور طُولُ الْأَمَلِ ہے ، ( هَوَى سے مراد یہاں یہ ہے کہ دین و مذہب کے بارے میں اپنے نفس کے رجحانات اور خیالات کی پیروی کی جائے اور طُولُ الْأَمَلِ یہ ہے کہ دنیوی زندگی کے بارہ میں لمبی لمبی آرزوئیں دل میں پرورش کی جائیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو بیماریوں کو بہت زیادہ خوفناک بتلایا ، اور آگے اس کی وجہ یہ ارشاد فرمائی ) کہ هَوَى تو آدمی کو قبولِ حق سے مانع ہوتی ہے ( یعنی اپنے نفسانی رجحانات اور خیالات کی پیروی کرنے والا قبول حق اور اتباع ہدایت سے محروم رہتا ہے ) اور طُولُ الْأَمَلِ ( یعنی لمبی لمبی آرزؤں میں دل پھنس جانا ) آخرت کو بُھلا دیتا ہے اور اس کی فکر اور اس کے لیے تیاری سے غافل کر دیتا ہے ، ( اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا کہ ) یہ دنیا دمبدم چلی جارہی ہے ، گزر رہی ہے ( کہیں اس کا ٹھہراؤ اور مقام نہیں ) اور آخرت ( اُدھر سے ) چل پڑی ہے ، چلی آ رہی ہے اور ان دونوں کے بچے ہیں ، ( یعنی انسانوں میں کچھ وہ ہیں جو دنیا سے ایسی وابستگی رکھتے ہیں جیسی وابستگی بچوں کو اپنی ماں سے ہوتی ہے ، اور کچھ وہ ہیں جن کی ایسی ہی وابستگی اور رغبت بجائے ددنیا کے آخرت سے ہے ) پس اے لوگو ! اگر تم کر سکت تو ایسا کرو کہ دنیا سے چمٹنے والے اس کے بچے نہ ہو ( بلکہ اس دنیا کو دارالعمل سمجھو ) تم اس وقت دارالعمل میں ہو ( یہاں تمہیں صرف محنت اور کمائی کرنی ہے ) اور یہاں حساب اور جزا سزا نہیں ہے ، اور کل تم ( یہاں سے کوچ کر کے ) دار آخرت میں پہنچ جانے والے ہو ، اور وہاں کوئی عمل نہ ہو گا ( بلکہ یہاں کے اعمال کا حساب ہو گا ، اور ہر شخص اپنے کئے کا بدلہ پائے گا ) ۔ 
تشریح ۔ ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں امت کے بارے میں دو بڑی بیماریوں کا خوف اور خطرہ ظاہر فرمایا ہے ، اور امت کو ان سے ڈرایا اور خبردار کیا ہے ، ایک هَوَى اور دوسرے طُولُ الْأَمَلِ ۔ غور سے دیکھا جائے ، تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان ہی دو بیماریوں نے امت کے بہت بڑے حصے کو برباد کیا ہے ، جن لوگوں میں خیالات اور نظریات کی گمراہیاں ہیں ، وہ هَوَى کے مریض ہیں اور جن کے اعمال خراب ہیں وہ طولِ امل اور  حبِ دنیا کے مرض میں گرفتار اور آخرت کی فکر اور تیاری سے غافل ہیں ، اور علاج یہی ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث کے آخر میں بیان فرمایا ۔ یعنی ان کے دلوں میں یہ یقین پیدا ہو کہ یہ دنیوی زندگی فانی اور صرف چند روزہ ہے ، اور آخرت ہی کی زندگی اصلی زندگی ہے ، اور وہی ہمارا اصل مقام ہے ۔ جب یہ یقین دلوں میں پیدا ہو جائے گا تو خیالات اور اعمال دونوں کی اصلاح آسان ہو جائے گی ۔


دولت کی افراط کا خطرہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آگاہی
عَنْ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : فَوَاللَّهِ مَا الفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ ، وَلَكِنِّي أَخْشَى أَنْ تُبْسَطَ عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ، فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا ، وَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ » ( رواه البخارى ومسلم )
ترجمہ : عمر بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : میں تم پر فقر و ناداری آنے سے نہیں ڈرتا ، لیکن مجھے تمہارے بارہ میں یہ ڈر ضرور ہے ، کہ دنیا تم پر زیادہ وسیع کر دی جائے ، جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پر وسیع کی گئی تھی ، پھر تم اس کو بہت زیادہ چاہنے لگو ، جیسے کہ انہوں نے اس کو بہت زیادہ چاہا تھا ( اور اسی کے دیوانے اور متوالے ہو گئے تھے ) اور پھر وہ تم کو برباد کر دے ، جیسے کہ اس نے ان اگلوں کو برباد کیا ( صحیح بخاری و مسلم
تشریح ۔ ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بعض اگلی قوموں اور امتوں کا یہ تجربہ تھا ، کہ جب ان کے پاس دنیا کی دولت بہت زیادہ آئی ، تو ان میں دنیوی حرص اور دولت کی رغبت و چاہت اور زیادہ بڑھ گئی ، اور وہ دنیا ہی کے دیوانے اور متوالے ہو گئے ، اور اصل مقصد زندگی کو بھلا دیا ، پھر اس کی وجہ سے ان میں باہم حسد و بغض بھی پیدا ہوا ، اور بالآخر ان کی اس دنیا پرستی نے ان کو تباہ برباد کر دیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے بارے میں اسی کا زیادہ ڈر تھا ۔ اس حدیث میں آپ نے از راہِ شفقت امت کو اس خطرے سے آگاہ کیا ہے ، اور فرمایا ہے ، کہ تم پر فقر و ناداری کے حملے کا مجھے زیادہ ڈر نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس تم میں بہت زیادہ دولت مندی آ جانے سے دنیا پرستی میں مبتلا ہو کر تمہارے ہلاک و برباد ہو جانے کا مجھے زیادہ خوف اور ڈر ہے ۔ 
آپ کے اس ارشاد کا مقصد و مدعاو اس خوشنما فتنہ کی خطرناکی سے امت کو خبردار کرنا ہے ، تا کہ ایسا وقت آنے پر اس کے برے اثرات سے اپنا بچاؤ کرنے کی وہ فکر کرے ۔
 
اس اُمت کا خاص فتنہ دولت ہے
عَنْ كَعْبِ بْنِ عِيَاضٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : « إِنَّ لكُلِّ أُمَّةٍ فِتْنَةً ، وَفِتْنَةُ أُمَّتِي الْمَالُ » ( رواه الترمذى )
ترجمہ : کعب بن عیاض سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا ، آپ ارشاد فرماتے تھے ، کہ ہر امت کے لیے کوئی خاص آزمائش ہوتی ہے اور میری امت کی خاص آزمائش مال ہے ۔ ( ترمذی ) 
تشریح ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ میری پیغمبری کے دور میں ( جو اَب سے لے کر قیامت تک کا زمانہ ہے ) مال و دولت کو ایسی اہمیت حاصل ہوگی ، اور اس کی ہوس اتنی بڑھ جائے گی کہ وہی اس امت کے لیے سب سے بڑا فتنہ ہو گا ۔ ( قرآن مجید میں بھی مال کو فتنہ کہا گیا ہے ) اور واقعہ یہ ہے کہ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر ہمارے اس زمانے تک کی تاریخ پر جو شخص بھی نظر ڈالے گا ، اسے صاف محسوس ہو گا ، کہ مال کے مسئلہ کی اہمیت اور دولت کی ہوس برابر بڑھتی رہی ہے اور بڑھتی ہی جا رہی ہے ، اور بلا شبہ یہ ہی اس کا سب سے بڑا فتنہ ہے ، جس نے بے شمار بندوں کو خدا کی بغاوت و نافرمانی کے راستے پر ڈال کے اصل سعادت سے محروم کر دیا ہے ۔ بلکہ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ خدا بیزاری اور خدا دشمنی کے علمبردار بھی دولت و معاش ہی کے مسئلہ کی پیٹھ پر سوار ہو کر اپنے دجالی خیالات دنیا میں پھیلاتے ہیں ۔ 
حب مال اور حب جاہ دین کے لیے قاتل ہیں
عَنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِي غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ المَرْءِ عَلَى المَالِ وَالشَّرَفِ لِدِينِهِ » ( رواه الترمذى والدارمى ) 
ترجمہ : کعب بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : وہ دو بھوکے بھیڑیے جو بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دئیے گئے ہوں ، ان بکریوں کو اس سے زیادہ تباہ نہیں کر سکتے ، جتنا تباہ آدمی کے دین کو مال کی اور عزت و جاہ کی حرص کرتی ہے ۔ ( جامع ترمذی ، مسند دارمی
تشریح ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ حب مال اور حب جاہ آدمی کے دین کو اور اللہ کے ساتھ اس کے تعلق کو اس سے زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں ، جتنا کہ بکریوں کے کسی ریوڑ میں چھوڑے ہوئے بھوکے بھیڑیے ان بکریوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ 
مال کی اور دنیا کی محبت بڑھاپے میں بھی جوان رہتی ہے 
عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَهْرَمُ ابْنُ آدَمَ وَتَشِبُّ مِنْهُ اثْنَتَانِ : الْحِرْصُ عَلَى الْمَالِ ، وَالْحِرْصُ عَلَى الْعُمُرِ " ( رواه البخارى ومسلم ) 
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے ( اور بڑھاپے کے اثر سے اس کی ساری قوتین مضمحل ہو کر کمزور پڑ جاتی ہیں ) مگر اس کے نفس کی دو خصلتیں اور زیادہ جوان اور طاقت ور ہوتی رہتی ہیں ۔ ایک دولت کی حرص ، اور دوسری زیادتی عمر کی حرص ۔ ( بخاری و مسلم ) 
تشریح ۔ ۔ ۔ تجربہ اور مشاہدہ شاہد ہے ، کہ انسانوں کا عام حال یہی ہے ، اور اس کی وجہ بھی ظاہر ہے ، بات یہ ہے کہ انسان کے نفس میں بہت سی ایسی غلط خواہشیں پیدا ہوتی ہیں جو اسی وقت پوری ہوتی ہیں جب کہ اس کے ہاتھ میں دولت ہو ، اور زندگی اور توانائی بی ہو ، اور ان خواہشوں کی مضرتوں اور بربادیوں سے انسان کو بچانا “ پاسبانِ عقل ” کا کام ہے ، مگر بڑھاپے کے اثر سے جب بے چاری یہ عقل بھی مضمحل اور کمزور پڑ جاتی ہے ، تو ان خواہشات پر اپنا قابو اور کنٹرول رکھنے سے مجبور ہو جاتی ہے ، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آخر عمر میں بہت سی خواہشیں “ ہوس ” کا درجہ اختیار کر لیتی ہیں ، اور اس کی وجہ سے عمر کی زیادتی کے ساتھ مال و دولت کی اور دنیا میں زیادہ سے زیادہ رہنے کی حرص اور چاہت اور زیادہ ترقی کرتی رہتی ہے ،

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لاَ يَزَالُ قَلْبُ الكَبِيرِ شَابًّا فِي اثْنَتَيْنِ : فِي حُبِّ الدُّنْيَا وَطُولِ الأَمَلِ " ( رواه البخارى ومسلم ) 
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : بوڑھے آدمی کا دل دو چیزوں کے بارے میں ہمیشہ جوان رہتا ہے ، ایک تو دنیا کی محبت ، اور دوسری لمبی لمبی تمنائیں ۔ 
تشریح ۔ ۔ ۔ جیسا کہ پہلی حدیث کی تشریح میں ذکر کیا گیا ، عام انسانوں کا حال یہی ہے لیکن جن بندگانِ خدا کو خود شناسی اور خدا شناسی اور دنیا و آخرت کے بارے میں صحیح علم و یقین نصیب ہو ، اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ بجائے حبِ دنیا کے ، اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس فانی دنیا کی آرزوؤں کی جگہ رضاء الہٰی اور نعمائے اُخروی کا اشتیاق اور اس کی تمنا بڑھاپے میں بھی ان کے دل میں مسلسل بڑھتی اور ترقی کرتی رہتی ہے ، اور ان کی عمر کا ہر اگلا دن پہلے دن کے مقابلے میں اس پہلو سے بھی ترقی کا دن ہوتا ہے ۔
 
دولت میں اضافے کی حرص کسی حد پر ختم نہیں ہوتی
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِىِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : « لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ مَالٍ لاَبْتَغَى ثَالِثًا ، وَلاَ يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ » ( رواه البخارى ومسلم )
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر آدمی کے پاس مال کے بھرے ہوئے دو میدان اور دو جنگل ہوں ، تو وہ تیسرا اور چاہے گا ، اور آدمی کا پیٹ تو بس مٹی سے بھرے گا ( یعنی مال و دولت کی اس نہ ختم ہونے والی ہوس اور بھوک کا خاتمہ بس قبر میں جا کر ہو گا ) اور اللہ اس بندے پر عنایت اور مہربانی کرتا ہے جو اپنا رخ اور اپنی توجہ اس کی طرف کر لے ۔ ( صحیح بخاری و صحیح مسلم ) 
تشریح ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ مال و دولت کی زیادہ حرص عام انسانوں کی گویا فطرت ہے ، اگر دولت سے ان کا گھر بھی بھرا ہو ، اور جنگل کے جنگل اور میدان کے میدان بھی پڑے پڑے ہوں ، تب بھی ان کا دل قانع نہیں ہوتا ، اور وہ اس میں اور زیادتی اور اضافہ ہی چاہتے ہیں ، اور زندگی کی آخری سانس تک ان کی ہوس کا یہی حال رہتا ہے ، اور بس قبر ہی میں جا کر دولت کی اس بھوک اور ننانوے کے اس پھیر سے اُن کو چھٹکارا ملتا ہے ۔ البتہ جو بندے دنیا اور دنیا کی دولت کے بجائے اپنے دل کا رُخ اللہ کی طرف کر لیں ، اور اس سے تعلق جوڑ لیں ، ان پر اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہوتی ہے ، اور ان کو اللہ تعالیی اس دنیا ہی میں اطمینانِ قلب اور غنائے نفس نصیب فرما دیتا ہے ، اور پھر اس دنیا میں بھی ان کی زندگی بڑے مزے کی اور بڑے سکون سے گزرتی ہے ۔ 
                                  وأخر دعوانا أن الحمد لله رب العلمين

کوئی تبصرے نہیں: