پیر، 26 فروری، 2018

موت اور آخرت کی تیاری کرنے والے ہی ہوشیار اور دور اندیش ہیں



 عَنِ عَبْدُاللهِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : رَجُلٌ يَا نَبِيَّ اللَّهِ , مَنْ أَكْيَسُ النَّاسِ وَأَحْزَمُ النَّاسِ؟ قَالَ : « أَكْثَرَهُمْ ذِكْرًا لِلْمَوْتِ , وَأَشَدُّهُمُ اسْتِعْدَادًا لِلْمَوْتِ قَبْلَ نُزُولِ الْمَوْتِ , أُولَئِكَ هُمُ الْأَكْيَاسُ ذَهَبُوا بِشَرَفِ الدُّنْيَا وَكَرَامَةِ الْآخِرَةِ » ( رواه الطبرانى فى معجم الصغير )

ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ : اے اللہ کے پیغمبر ! بتلائیے کہ آدمیوں میں کون زیادہ ہوشیار اور دور اندیش ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : وہ جو موت کو زیادہ یاد کرتا ہے ، اور موت کے لئے زیادہ سے زیادہ تیاری کرتا ہے جو لوگ ایسے ہیں وہی دانشمند اور ہوشیار ہیں ، انہوں نے دنیا کی عزت بھی حاصل کی ، اور آخرت کا اعزاز و اکرام بھی ۔ ( معجم صغیر للطبرانی ) 
تشریح :   جب یہ حقیقت ہے کہ اصل زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے ، جس کے لیے کبھی فنا نہیں ، تو اس میں کیا شبہ کہ دانشمند اور دور اندیش اللہ کے وہی بندے ہیں جو ہمیشہ موت کو پیشِ نظر رکھ کر اس کی تیاری کرتے رہتے ہیں ، اور اس کے برعکس وہ لوگ بڑے ناعاقبت اندیش اور احمق ہیں جنہیں اپنے مرنے کا تو پورا یقین ہے لیکن وہ اس سے اور اس کی تیاریوں سے غافل رہ کر دنیا کی لذتوں میں مصروف اور منہمک رہتے ہیں ۔ ایک دوسرے حدیث میں اتا ہے .
عَنْ أَبِي يَعْلَى شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ ، وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ ، وَالْعَاجِزُ ، مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا ، وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ » ( رواه الترمذى وابن ماجه)
ترجمہ : شداد بن اوس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہوشیار اور توانا وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے ، اور موت کے بعد کے لئے ( یعنی آخرت کی نجات و کامیابی کے لئے ) عمل کرے ، اور نادان و ناتواں وہ ہے جو انے کو اپنی خواہشاتِ نفس کا تابع کر دے ( اور بجائے احکامِ خداوندی کے اپنے نفس کے تقاضوں پر چلے ) اور اللہ سے امیدیں باندھے ۔( ترمذی ، ابن ماجہ )
 تشریح :  دنیا میں كَيِّس ( چالاک و ہوشیار اور کامیاب ) وہ سمجھا جاتا ہے ، جو دنیا کمانے میں چست و چالاک ہو ، خوب دونوں ہاتھوں سے دنیا سمیٹتا ہو ، اور جو کرنا چاہے کر سکتا ہو ، اور بے وقوف و ناتواں وہ سمجھا جاتا ہے جو دنیا کمانے میں تیز اور چالاک نہ ہو ۔ اور اہلِ دنیا جو اس دنیوی زندگی ہی کو سب کچھ سجھتے ہیں ، اُن کو ایسا ہی سمجھنا بھی چاہئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بتلایا کہ چونکہ اصل زندگی یہ چند روزہ زندگی نہیں ہے بلکہ آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی ہی اصل زندگی ہے ، اور اُس زندگی میں کامیابی اُن ہی کے لئے ہے جو اس دنیا میں اللہ کی اطاعت اور بندگی والی زندگی گزار دیں ، اس لئے درحقیقت دانشمند اور کامیاب اللہ کے وہ بندے ہیں جو آخرت کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں ، اور جنہوں نے اپنے نفس پر قابو پا کر اس کو اللہ کا مطیع و فرمانبردار بنا رکھا ہے ۔ اور اس کے برعکس جن احمقوں کا حال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کو نفس کا بندہ بنا لیا ہے ، اور وہ اس دینوی زندگی میں اللہ کے احکام و اوامر کی پابندی کے بجائے اپنے نفس کے تقاضوں پر چلتے ہیں ، اور اس کے باوجود اللہ سے اچھے انجام کی امیدیں باندھتے ہیں ، وہ یقیناً بڑے نادان اور ہمیشہ ناکام رہنے والے ہیں ، خواہ دنیا کمانے میں وہ کتنے ہی چست و چالاک اور پھرتیلے نظر آتے ہوں ، لیکن فی الحقیقت وہ بڑے ناعاقبت اندیش ، کم عقلے اور ناکامیاب و نامراد ہیں ، کہ جو حقیقی اور واقعی زندگی آنے والی ہے اس کی تیاری سے غافل ہیں ، اور نفس پرستی کی زندگی گزارنے کے باوجود اللہ سے خداپرستی والے انجام کی امید رکھتے ہیں ، نادان اتنی موٹی بات نہیں سمجھتے کہ ....
                         گندم از گندم بروید جو ز جواز مکافاتِ عمل غافل مشو
اس حدیث میں ان لوگوں کو خاص آگاہی دی گئی ہے ، جو اپنی عملی زندگی میں اللہ کے احکام اور آخرت کے انجام سے بے پروا اور بے فکر ہو کر اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں ، اور اس کے باوجود اللہ کی رحمت اور اس کے کرم سے امیدیں رکھتے ہیں ، اور جب اللہ کا کوئی بندہ ٹوکتا ہے تو کہتے ہیں اللہ کی رحمت بڑی وسیع ہے ، اس حدیث نے بتلایا کہ ایسے لوگ دھوکے میں ہیں ، اور اُن کا انجام نامرادی ہے ۔ پس معلوم ہوا کہ رجاء یعنی اللہ سے رحمت اور کرم کی امید وہی محمود ہے جو عمل کے ساتھ ہو ، اور جو امید بے عملی اور بد عملی اور آخرت کی طرف سے بے فکری کے ساتھ ہو ، وہ رجاءِ محمود نہیں ہے بلکہ نفس شیطان کا فریب ہے ۔ ( معارف الحدیث)
طالب دعاء : اکبر حسین اورکزئ

اتوار، 18 فروری، 2018

توحيد


توحيد كا معنى اور اس كى اقسام كيا ہيں
الحمد لله وكفى ، والصلاة والسلام على النبي المصطفى وعلى آله وصحبه وسلم تسليماً كثيراً ، أما بعد 
توحيد كا لغوى معنى:
توحيد لغت عرب ميں وَحَّدَ يُوَحِّدُ فعل كا مصدر ہے اور جب اس كى نسبت اللہ كى وحدانيت كى طرف كى جائے اور اسے ان صفات و ذات ميں شريك ہونے سے انفرادى وصف ديا جائے تو يہ وحدانيت كا وصف كہلاتا ہے، اور شد مبالغہ كے ليے ہے يعنى اللہ كى وحدانيت كا وصف مبالغہ ركھتا ہے.
اور عرب كا قول ہے: واحد و احد و وحيد يعنى وہ منفرد ہے چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالى واحد ہے يعنى وہ سب حالات ميں شريكوں سے منفرد ہے.چنانچہ توحيد اس بات كا علم ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى ايك ہے اس كى كوئى نظير نہيں، تو جو كوئى بھى اللہ كا علم اس طرح نہيں ركھتا، يا پھر وہ اسے وحدہ لا شريك كا وصف نہيں ديتا تو وہ اللہ كو ايك نہيں مانتا.
توحيد كى اصطلاحى تعريف: اللہ تعالى كو الوہيت و ربوبيت اور اسماء صفات ميں يكتا و اكيلا ماننا. اور يہ تعريف بھى ممكن ہے: يہ اعتقاد ركھنا كہ اللہ اپنى ربوبيت و الوہيت اور اسماء صفات ميں وحدہ لا شريك ہے.
اس اصطلاح " توحيد " يا اس كے مشتقات كا اس معنى پر دلالت كرنے كے ليے استعمال كتاب و سنت سے ثابت ہے اور كتاب و سنت ميں استعمال كيا گيا ہے، ذيل ميں اس كى چند ايك مثاليں پيش كى جاتى ہيں:
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ. اللَّهُ الصَّمَدُ . لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ. وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ . سورة الاخلاص

آپ كہہ ديجئے كہ وہ اللہ ايك ( ہى ) ہے، اللہ تعالى بے نياز ہے، نہ اس سے كوئى پيدا ہوا نہ وہ كسى سے پيدا ہوا، اور نہ كوئى اس كا ہمسر ہے.
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى اس طرح ہے:
وَاِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ  ١٦٣؀ۧ
﴿ اور تم سب كا معبود ايك ہى ہے، اس كے سوا كوئى معبود برحق نہيں، وہ بہت رحم كرنے والا اور بڑا مہربان ہے ﴾ البقرۃ ( 163 ).
اور ايك مقام پر اللہ رب العزت نے فرمايا:
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ  ۘوَمَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّآ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۭوَاِنْ لَّمْ يَنْتَھُوْا عَمَّا يَقُوْلُوْنَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ      73؀
﴿ وہ لوگ بھى قطعا كافر ہو گئے جنہوں نے كہا اللہ تعالى تين ميں سے تيسرا ہے، در اصل اللہ كے سوا كوئى معبود نہيں، اگر يہ لوگ اپنے اس قول سے باز نہ رہے تو ان ميں سے جو كفر پر رہيں گے انہيں المناك عذاب ضرور پہنچے گا ﴾المآئدۃ ( 73 ).
اس موضوع كے متعلق آيات بہت زيادہ ہيں.
اور صحيح بخارى و مسلم ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں:
"
جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے معاذ بن جبل رضى اللہ تعالى عنہ كو اہل يمن كى طرف بھيجا تو انہيں فرمايا:
"
آپ ايسى قوم كے پاس جا رہے ہيں جو اہل كتاب ہے تم انہيں سب سے پہلے اس كى دعوت دينا كہ وہ اللہ تعالى كى توحيد كا اقرار كريں، جب وہ اس كى پہچان كر ليں تو انہيں بتانا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ان پر دن اور رات ميں پانچ نمازيں فرض كي ہيں، جب وہ نماز ادا كرنے لگيں تو انہيں بتانا كہ اللہ تعالى نے ان پر ان كے اموال ميں زكاۃ فرض كى ہے جو ان كے اغنياء سے لے كر ان كے فقراء كو دى جائيگى، جب وہ اس كا اقرار كر ليں تو ان سے زكاۃ لے لينا، اور لوگوں كے بہترين اورافضل اموال سے اجتناب كرنا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 7372 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 19 ).
اور صحيح مسلم ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اسلام كى بنياد پانچ اشياء پر ہے: اس پر كہ اللہ كو ايك مانا جائے، اور نماز كى پابندى كى جائے، اور زكاۃ كى ادائيگى كى جائے، اور رمضان المبارك كے روزے ركھے جائيں، اور بيت اللہ كا حج كيا جائے "صحيح مسلم حديث نمبر ( 16 ).
چنانچہ ان سب نصوص ميں توحيد سے مقصود كلمہ طيبہ " لا الہ الا اللہ محمدا رسول اللہ " كے معنى كا اثبات ہے، جو كہ دين اسلام كى حقيقت ہے، جس كے ليے اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو مبعوث كيا ہے، اس كى دليل يہ ہے كہ يہ اصطلاح اور كلمات مترادفہ كتاب ميں سنت ميں كئى ايك مقام پر وارد ہيں.
ان ميں سے بعض الفاظ تو سابقہ حديث معاذ رضى اللہ تعالى عنہ ميں بيان ہوئے ہيں:
"
كہ تم اہل كتاب كے لوگوں كے پاس جا رہے ہو جب ان كے پاس پہنچو تو انہيں اس كى دعوت دينا كہ وہ يہ گواہى ديں كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ كے رسول ہيں "صحيح بخارى حديث نمبر ( 1496 ).
اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى روايت ميں ہے:
اسلام كى بنياد پانچ اشياء پر ہے: اس كى گواہى دينا كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم اس كے بندے اور رسول ہيں ".صحيح مسلم حديث نمبر ( 16 ).
تو يہ اس كى دليل ہے كہ كہ كلمہ طيبہ " لا الہ الا اللہ محمدا رسول اللہ " كى حقيقت توحيد ہے، اور يہى وہ اسلام ہے جسے ديكر اللہ تعالى نے اپنے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو جن و انس كى طرف مبعوث فرمايا، اور يہى وہ دين ہے جس كے بغير اللہ تعالى كسى اور دين اختيار كرنے پر راضى نہيں ہو گا.
اللہ تعالى كا فرمان ہے: إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ . ﴿ يقينا اللہ كے ہاں دين صرف اسلام ہے ﴾آل عمران ( 19 ).
اور ايك دوسرے مقام اللہ جل شانہ كا فرمان ہے:وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ .
﴿ اور جو كوئى بھى اسلام كے علاوہ دين اپنائے گا اس كا وہ دين قبول نہيں كيا جائيگا، اور وہ آخرت ميں نقصان اٹھانے والوں ميں سے ہو گا ﴾آل عمران ( 85 ).
جب يہ معلوم ہو گيا تو يہ بھى علم ميں ہونا چاہيے كہ علماء كرام نے توحيد كو تين قسموں ميں تقسيم كيا ہے جو درج ذيل ہيں:
توحيد ربوبيت ، توحيد الوہيت ، توحيد اسماء و صفات
توحيد ربوبيت: اللہ تعالى كو اس كے افعال مثلا خلق اور تدبير اور زندہ كرنے اور مارنے روزى دينے وغيرہ افعال ميں يكتا ماننا.
اس توحيد كے كتاب و سنت ميں بہت دلائل پائے جاتے ہيں.

لہذا اگر كسى نے يہ اعتقاد ركھا كہ اللہ كے علاوہ اور بھى كوئى خالق ہے، يا مالك ہے يا روزى رساں ہے، يا اللہ كے علاوہ كوئى اور اس جہان ميں تصرف كرنے والا ہے تو اس نے توحيد كى اس قسم ميں خلل پيدا كيا اور اللہ كے ساتھ كفر كيا.
كيونكہ پہلے دور كے كفار اور مشركين مكہ بھى اس توحيد كا اجمالى طور پر اقرار كرتے تھے، اگرچہ وہ اس كى بعض تفصيل ميں مخالفت بھى كرتے تھے، اس كے اقرار كى دليل بہت سارى آيات ميں پائى جاتى ہے جن ميں سے چند ايك درج ذيل ہيں:
فرمان بارى تعالى ہے: وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ
﴿ اور اگر آپ ان سے يہ سوال كريں كہ آسمان و زمين كو كس نے پيدا كيا، اور سورج اور چاند كو كس نے مسخر كيا ؟ تو البتہ وہ ضرور يہ كہينگے اللہ نے، تو وہ كدھر الٹے جا رہے ہيں ﴾ العنكبوت ( 61 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى اس طرح ہے:
وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ
﴿ اور اگر آپ ان سے دريافت كريں كہ آسمان نے پانى كس نے نازل كيا اور اس سے زمين كو بنجر ہونے كے بعد زندہ كس نے كيا ؟ تو وہ ضرور كہينگے اللہ نے، آپ كہہ ديں سب تعريفات اللہ ہى كى ہيں، بلكہ ان ميں اكثر عقل نہيں ركھتے ﴾العنكبوت ( 63 ).
اور ايك مقام پر رب العزت كا فرمان اس طرح ہے:   وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ
﴿ اور اگر آپ ان سے دريافت كريں كہ انہيں كس نے پيدا كيا ہے ؟ تو وہ ضرور كہينگے اللہ نے، پھر وہ كدھر الٹے جا رہے ہيں ﴾ الزخرف ( 87 ).
ان آيات ميں اللہ سبحانہ و تعالى نے بيان فرمايا ہے كہ كفار بھى اس كا اقرار كرتے تھے كہ اللہ تعالى خالق و مالك اور مدبر ہے، ليكن اس كے باوجود انہوں نے عبادت ميں اللہ كى توحيد كا انكار كيا جو ان كے عظيم ظلم اور شديد بہتان اور ضعف عقل كى دليل تھى، كيونكہ ان صفات كا مالك اور ان افعال ميں انفراديت ركھنے والے كى ہى عبادت كرنى چاہيے، اور اس كے علاوہ كسى اور كى عبادت نہ ہو، اور صرف اس اللہ كو ہى يكتا و تنہا اور ايك مانا جائے، اللہ سبحانہ و تعالى پاك اور بلند و بالا ہے اس سے جو وہ شرك كرتے ہيں.
اس ليے جو كوئى بھى توحيد ربوبيت كا صحيح اقرار كرتا ہو اس كے ليے ضرورى ہے كہ وہ توحيد الوہيت كا بھى اقرار كرے.
توحيد الوہيت :  يہ ہے كہ اللہ تعالى كو ہر قسم كى ظاہرى اور باطنى قولى و عملى عبادت ميں يكتا و اكيلا مانا جائے، اور اللہ كے سوا باقى سب كى عبادت كى نفى كى جائے چاہے وہ كوئى بھى ہو، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے: وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ
﴿ اور تيرا پروردگار صاف صاف حكم دے چكا ہے كہ تم اس كے سوا كسى اور كى عبادت نہ كرنا ﴾الاسراء ( 23 ).
اور ايك مقام پر رب العزت كا فرمان ہے: وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا
﴿ اور اللہ تعالى كى عبادت كرو اور اس كے ساتھ كسى كو شريك نہ كرو ﴾النساء ( 36 ).
اور اسے توحيد اللہ افعال العباد كہنا بھى ممكن ہے، اور اسے توحيد الوہيت كا نام بھى ديا جاتا ہے،كيونكہ يہ اللہ كى عبادت اور اسے الہ معبود تسليم كرنے پر مبنى ہے، كہ اللہ كى عبادت محبت و تعظيم كے ساتھ كى جائے.
اور اسے توحيد عبادت بھى كہا جاتا ہے:كيونكہ بندہ اللہ تعالى كے احكام كى ادائيگى اور ممنوعات سے اجتناب كرتے ہوئے اللہ كى عبادت كرتا ہے. اور اسے توحيد طلب اور قصد و ارادہ كا نام بھى ديا جاتا ہے؛ كيونكہ بندہ كا مقصد و ارادہ اللہ كى رضامندى و خوشنودى ہے اور خالصتا اللہ كى رضا طلب كرتے ہوئے خالص اسى كى عبادت كرتا ہے. يہى وہ قسم اور نوع ہے جس ميں خلل پايا جاتا ہے، اور اسى توحيد الوہيت كى بنا پر اللہ سبحانہ و تعالى نے رسول مبعوث كيے اور كتابيں نازل فرمائيں، اور اسى كى وجہ سے مخلوقات پيدا كى گئيں، اور شريعت بنائى گئيں، اور يہى وہ توحيد الوہيت ہے جس ميں انبياء اور ان كى قوموں كے درميان جھگڑا ہو، اور مخالفت كرنے والے ہلاك كر ديے گئے اور مومنوں كو نجات حاصل ہوئى. اس ليے جس نے بھى اس توحيد الوہيت ميں خلل پيدا كيا اور كسى بھى قسم كى عبادت اللہ كے علاوہ كسى اور كے ليے جائز سمجھا تو وہ ملت اسلاميہ سے خارج ہو گيا اور فتنہ ميں پڑ گيا اور سيدھى راہ سے بھٹك گيا، اللہ تعالى ہميں سلامت و محفوظ ركھے.
توحيد اسماء و صفات : يہ ہے كہ،  اللہ كے اسماء و صفات ميں اللہ كو يكتا و تنہا مانا جائے، اس ليے بندے كو يہ اعتقاد ركھنا چاہيے كہ اللہ تعالى كے اسماء و صفات ميں اس كا كوئى مثل نہيں، يہ توحيد دو اساسى اشياء پر مبنى ہے:
پہلى اساس: اثبات،يعنى اسماء حسنى اور صفات على ميں سے جسے اللہ تعالى نے اپنے ليے ثابت كيا ہے، يا پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اللہ كے ثابت كيا ہے اسے بغير كسى تشبيہ و مثال كے اسى طرح ثابت كيا جائے جس طرح اللہ كے شايان شان ہے، اور اس كے معانى ميں كسى بھى قسم كى تحريف و تاويل نہ كى جائے اور نہ ہى اس كے حقائق كو معطل كيا جائے اور نہ ہى اس كى كيفيت بيان كى جائے.
دوسرى اساس: تنزيہ، كہ اللہ سبحانہ و تعالى كو ہر قسم كے عيب سے منزہ و پاك مانا جائے، اور ان صفات نقص كى اللہ سے نفى كى جائے جن كى اللہ نے خود نفى كى ہے، اس كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ .  
اس كى مثل كوئى چيز نہيں، اور وہ سميع و بصير ہے  (سورۃ شوری     11) .
يہاں اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے آپ كو مخلوق كى مماثلت سے منزہ كيا ہے، اور اپنے ليے صفات كمال ثابت كى ہيں جس طرح اللہ كے شايان شان ہيں.      واللہ اعلم .

                                        خیر اندیش : اکبرحسین اورکزئی

جمعہ، 2 فروری، 2018

اصلاح معاشرہ کی ضرورت


اسلامي تعليمات كا بنيادي مقصد معاشرے كي اصلاح هے اور اصلاح بهي اس طرح كه تمام انسانوں کی مابین اخوت ھو ايك دوسري كا احترام هو اور امن و امان كي زندگي بسر كريں اور اس طرح بسر كريں كه اخلاق كا دامن هاتهـ سے نه چهوٹے اور آخرت كي لامتناهي زندگي كے لیے اخلاق و تقوى كے ساتهـ تياري كريں تا كه الله ان سے راضي هو اور یه بنيادي مقصد تب هي حاصل هوسكتا هے که هم الله تعالي كے حكم كے مطابق آپ صلى الله عليه وسل كے اسوه حسنه كي پيروي كريں اوريه معلوم كريں كه آپ صلى الله عليه وسلم نے معاشرے كی اصلاح كس طرح فرمائي تهي , اور يه عقيده ركهيں كه هميں اس دنيا ميں كسي دوسرے مفكر , مصلح اور فلسفي رهبر كي ضرورت نهيں هے كيونكه ايك مسلمان كے سامنے هر كام كي غايت الله تعالي كي رضا هے اور قرآن كريم ميں هميں واضح طورپر يه حكم هے كه الله كي رضا اور خوشنودي صرف رسول الله صلى الله عليه وسلم كي اطاعت اور پيروي هي سے حاصل هوسكتي هے , بلكه الله تبارك وتعالى نے هم سے يه وعده كيا هے كه اگر تم الله كے رسول كي پيروي كروگے تو الله تعالى تم سے محبت كرے گا , فكر كا مقام هے كه كسي مسلمان كے لیے اس بڑهكر اوركيا مرتبه هوسكتا هے كه خود الله تعالى اس سے محبت كرنے لگے, چنانچه ارشاد باری تعالي هے قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳۱﴾ ال عمران

(اے پیغمبرلوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میر پیروی کرو خدا بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کردیگا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے . ال عمران
اس آیت نے تمام دعوے داران محبت کے لئے ایک کسوٹی اور معیار مہیا کر دیا ہے کہ محبت الہی کا طالب اگر اتباع محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے یہ مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے تو پھر تو یقینا وہ کامیاب ہے اور اپنے دعوی میں سچا ہے ورنہ وہ جھوٹا بھی ہے اور اس مقصد کے حصول میں ناکام بھی رہے گا.
اس تمہید سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اصلاح معاشرہ کے لیے بھی ہمیں رسول صلى الله عليه وسلم کا ہی اتباع کرنا ہوگا اور آپ ہی کی بتائی ہوئی راہ پر چلنا ہوگا اور آپ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرنا ہوگا، ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے آخری رسول کی پوری زندگی کا ریکارڈ ہمارے اسلاف نے ہمارے لیے جمع کردیا ہے , معاشره كے اصلاح كے لیے آپ صلى الله عليه وسلم كي كاميابي دنيا كي تاريخ كا سب سے بڑا اور اهم واقعه هے, کیا اپ نھیں دیکھتے که عرب کے باشندے غير تعليم يافته اور مختلف ٹولیوں میں بٹے ہوئے تھے، جہالت و سرکشی نے انہیں ایسے اوصاف سے بھی محروم کردیا تھا کہ جو تمام انسانوں کے لیے تو کیا خود ان کے لیے ہی ایک پر امن معاشرہ مہیا کرتا , ايسے معاشرے ميں جهاں اندھيرے هي اندھيرے تھے الله ذوالجلال نے انهي ميں سے رسول بهيجا اور اس كي ذمه یہ کام لگایا کہ معاشرے کو برائیوں سے پاک کریں اور اس طرح اصلاح کریں کہ وہ دنیا کا مثالی معاشرہ بن جائے اور افراد معاشرہ دنیا کی بہترین افراد بن جائیں , جيسا كه ارشاد باري تعالي هے
ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۲﴾ الجمعة
وہی تو ہے جس نے ان پڑھوں میں انہی میں سے (محمد کو) پیغمبر بنا کر بھیجا جو ان کے سامنے اسکی آیتیں پڑھتے اور ان کو پاک کرتے اور انہیں (خدا کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں۔ اور اس سے پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے ۔
رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
دو بنیادی اصولوں پر عمل کیا، ایک تو یہ کہ آپ نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہی، جس پر آپ خود عمل نہ فرماتے ہوں،
دوم جو شريعت اور احكام آپ صلى الله علي وسلم پر الله كي طرف نازل هوۓ اس پر مكمل خود عمل كر ديكهايا اور بلا تفريق تمام معاشرے ميں پهلايا تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے قول و فعل میں کبھی تضاد نہ تھا، جو فرماتے تھے خود اس پر عمل فرماتے تھے۔
اب يه بات روز روشن كي طرح واضح هوگئ كه معاشرے كي اصلاح كے ليے جو بهي كوشش كي جائے وه اس وقت تك كامياب هي نهيں هوسكتا جب تك اصلاح كرنے والا خود اس پر عمل نه كرتا هو , كيا آپ يه نهیں ديكهتے كه آج هماره معاشره كيوں مشكلات كا شكار هے هر طرف ناانصافي اور ظلم كا بازار گرم هے يهي وجه هے كه همارے حكمران كهتے كچهـ اور كرتے كچهـ هيں آئين كي بات تو كرتے هيں مگر اس پر خود انكا عمل نهيں , غريب كيلۓ قانون اور خود حكمرانون كيلۓ قانون واجب العمل نهيں لوگوں كو نصيحتين كرتے هيں روشنياں دكهاتے هيں محبت كا سبق پڑهاتے هيں خود غريبوں پر رحم سے عاري هيں, عقل و دانائي كي بنياد پر شاندار عمارتيں كهڑي كرتے هيں ليكن معاشرے پر ان كا كوئي اثر نهيں پڑتا , يه هے هماره معاشره كيا اسلامي تعليمات يهي تهي ؟ آج هم کہاں کھڑے ہیں؟ كيا هم خود اس ناقص معاشرے كي ذمدار نهيں ؟ هم نے خود اپنے آپ كو اس هلاكت ميں ڈالا هے , ھمیں قرآن کریم نے اس بات سے منع كيا تھاكه هم خود اپنے آپ كو هلاكت ميں نه ڈاليں جيسا كه ارشاد باري تعالى هے .. ( وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ۚۖۛ ) البقرة 195 ترجمہ: اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو . البقرة .
احکام الہی کی رو سے انسان کو اپنے تئیں ہلاکت میں ڈالنا منع ہے، مگر ہم نے اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن و سنت سے صرف نظر کرکے خود کو، اور پوری ملت پاکستانیہ کو اس راہ پر ڈالے رکھا جو صرف ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے، چنانچہ آج حال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہر قسم کے رذائل سرایت کرچکے ہیں، حد یہ ہے کہ عزت اور جان بھی اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں خطرے میں رہتی ہے،
ايك شاعر كهتا هے
اب درندو سے نه حيوانوں سے ڈر لگتا هے
                          كيا زمانه هے كه انسانون سے ڈر لگتاهے
عزت نفس كسي شخص كي محفوظ نهيں
                        اب تو اپنے نهگبانوں سے ڈر لگتا هے
خونريزي كا يه عالم هے كه الله خير كرے
                        اب مسلمانوں كو مسلماں سے ڈر لگتا هے
اور ایسا بھی نہیں ہے کہ اصلاح معاشرہ کی کوشش نہ ہورہی ہو، سیاست دان اصلاح کی تلقین کرتے رہتے هيں ، وعظ و تبلیغ کا ایک سلسلہ ہے جو قیام پاکستان کے بعد سے برابر جاري ہے، مسجدوں کے امام ہر جمعہ کو لوگوں کو اچھا بننے کی تلقین بھی کرتے رہتے ہیں، لیکن ان تمام کوششوں کا بظاہر کوئی مثبت نتیجہ نظر نہیں آتا, اورغالباً اس کی بہت بڑی وجہ اس كے علاوه اور کیاهوسكتا ہے كه هم جو كهتے هيں وه كرتے نهيں اور جس بات كا ترك كرنے كو كهتے هيں خود اسےچھوڑتے نهيں, اصلاح كا يه طريقه سنت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف ہے، اس لیے یه کبھی بر آور نہیں ہوسکتا۔ اسلام میں اصلاح معاشرہ اور پائیدار معاشرے کا ایک اھم بنیادی نکتہ یہ ہے كه آپ كے قول و فعل ميں تضاد نه هوں , ديكهئے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اوائل زندگی ہی سے سچائی اور راست بازی پر سختی کے ساتھ عمل کیا اور مسلمانوں کو جھوٹ سے بچنے کی تلقین کرتے رہے، خود آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا اور صحابه كرام کو بھی اس رذیل ترین فعل سے احتراز کرنے کی تاکید فرماتے رہے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ وصف بعثت سے قبل بھی اس قدر نمایاں تھا کہ کفار و مشرکین بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو صادق اور امین مانتے تھے۔ اسي ليے قرآن كريم نے هميں دعوت دي كه { لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ } یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ( زندگي) میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے . الاحزاب 21
قرآن كريم كي اس آيت كريمه نے واضح كرديا كه تمهاري لیے آپ صلى الله عليه وسلم كي زندگي ایك بهترين نمونه هے , مطلب كيا
اگر آپ حكمران هيں : تو تمهارے لیے آپ صلى الله عليه وسلم كي زندگي ایك بهترين نمونه هے .
اگر آپ سپاه سالار هيں : تو تمهارے لیے آپ صلى الله عليه وسلم كي زندگي ایك بهترين نمونه هے .
اگر آپ خطيب اور امام مسجد هيں : تو تمهارے لیے آپ صلى الله عليه وسلم كي زندگي ایك بهترين نمونه هے .
اگر باپ هيں : تو تمهارے لیے آپ صلى الله عليه وسلم كي زندگي ایك بهترين نمونه هے .
اگر آپ خاوند هيں : تو تمهارے لیے آپ صلى الله عليه وسلم كي زندگي ایك بهترين نمونه هے .
اگر آپ ايك عام انسان عام شهري هيں : تو تمهارے لیے آپ صلى الله عليه وسلم كي زندگي ایك بهترين نمونه هے .
ليكن افسوس كے ساتهـ كهنا پڑ رها هے كه آج هم دعوى اسلام كا كرتے هيں, تلاوت كلام پاك بهي كرتے هيں, قرآن كو الله كا كتاب بهي مانتے هيں, اور اسے مکمل الله کا قانون بھی مانتے ھیں اور یه بھی مانتے ھیں که ھماري اسلاف نے اسی کتاب الله پر فیصلے کیۓ ان کا ملکی نظام بهي يهي قرآن تها , اورآج هم اپني مشكلات كا حل كسي اور نظام كے ترو تلاش كرتے هيں تو همارے قول اور فعل مين تضاد هے لهذا هميں صحيح معاشره هاتهـ نهيں آرها كل سے آج برا اور آج سے كل برا هوگا , اسي لئے پاکستان کا معاشرہ کئی قسم کی برائیوں میں مبتلا ہے، ذخیرہ اندوزی، چیزوں میں ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، آپس ہی میں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش، لوٹ مار، ڈاکا، انسانوں کا اغوا اور قتل و غارت، وعدہ خلافی، خیانت اور بددیانتی، چغل خوری، بہتان اور غیبت، رشوت اور جوا اور سود،اب سوال یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح کیوں کر ہو؟
اس كا جواب اس كے علاوه اور كيا هوسكتا هے كه هم سب اور بالخصوص سربراہان معاشرہ اپنے کردار کو درست کریں , اور ان گناهوں سے اجتناب كريں جسے هميں الله اور اس كے رسول صلى الله عليه وسلم نے منع فرمايا هے اور برائی کو چھوڑنے کی کوشش کریں تو معاشرہ بتدریج انشاءاﷲ اصلاح کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ آئیے اب رفعت خلق کی بلندی اخلاق کا تجربہ کرلیں اور اس حقیقت کو فراموش نہ کریں کہ صرف اخلاق کی اچھائی سے ہم معاشرے کی اصلاح کرسکتے ہیں اور پاکستان کو صحیح معنی میں پاکستان بناسکتے ہیں۔
دعا ہے کہ ا ﷲ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اور اپنے ملک کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمين
طالب دعاء : اكبر حسين اوركزئي