ہفتہ، 26 مئی، 2018
پیر، 21 مئی، 2018
ایک حدیث کی تحقیق :تحریر مولانا عزیز الرحمن
الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين نبينا محمد، وعلى آله وصحابته
أجمعين. اما بعد
اکثر علماء حضرات رمضان المبارک کے مہینے کے بارے میں ایک حدیث
بیان کرتے ہیں جو کہ [1] حضرت سلمان
الفارسي(رضي الله عنه)سے روایت ہے ،کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے شعبان کے آخری دن
ہمارے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگو باعظمت مہینہ تمہارے آوپر سایہ فگن ہورہا))) پھر آگے ارشاد ہے ماہ رمضان میں نفل
اعمال کا ثواب رمضان کے علاوہ دوسری دنوں میں فرض آعمال کے ثواب کے برابر ہے))
رمضان میں کسی ایک فرض کی ادائیگی کا ثواب دوسرے دنوں میں ستر فرض کی ادائیگی کے
ثواب کے برابر ہے)) پھر اس کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے (1)ابتدائی حصہ رحمت
(2)درمیانی حصہ بخشش کا(3)اور آخری حصہ میں دوزخ کی آگ سے نجات ہے .
یہ حدیث منکر ہے اس حدیث کوالمحاملى نے (( الأمالى ))(1/286/293)
اور ، ابن عدى نے (( الكامل ))(5/293).
اور امام البيهقى نے (( شعب الإيمان ))(3/305/3608) اور(( فضائل الأوقات ))(37،38) ، وابن عبد الغنى المقدسى نے (( التقييد ))(ص205) اور الحارث بن أبى أسامہ نے (321. زوائد الهيثمى ) ، اور العقيلی نے (( الضعفاء الكبير ))(1/35) نقل کیا ہے .
اور امام البيهقى نے (( شعب الإيمان ))(3/305/3608) اور(( فضائل الأوقات ))(37،38) ، وابن عبد الغنى المقدسى نے (( التقييد ))(ص205) اور الحارث بن أبى أسامہ نے (321. زوائد الهيثمى ) ، اور العقيلی نے (( الضعفاء الكبير ))(1/35) نقل کیا ہے .
میں کہتا ہوں کہ یہ حدیث سند اورمتن دونوں کے اعتبارسے صحیح نہیں
ہے :
(1) سند کے اعتبار سے یہ حدیث صرف على بن زيد بن
جدعان سے نقل ہوا ہے آور ابن جدعان سے جتنے نقل کرتے ہیں سب کمزور غیر ثقہ روای
روایت کرتے ہیں ، ، اور ابن جدعان جو اس حدیث کا مرکزی راوی ہے امام ذھبی نے
الکاشف 2/278 میں ان کو (أحد الحفاظ لیس بالثبت)
حدیث میں مضبوط نہیں تھا /اور( حماد فرما تے ہیں کان
یقلب الأحاديث) کے احادیث میں رد و بدل کر تے تھے .
امام العجلی فرما تے ہیں یکتب حدیثه ولیس بالقوی وکان یتشیع /2/248 الثقات للعجلی .
امام العجلی فرما تے ہیں یکتب حدیثه ولیس بالقوی وکان یتشیع /2/248 الثقات للعجلی .
کہ اسکے حدیث لکھی جاسکتی ہے لیکن یہ حدیث میں پکھا نہیں ہے اور یہ
شیعہ تھا .
اب فیصلہ خود کریں؟
امام النووی فرماتے ہیں(وهو ضعیف عند المحدیثن )
ابن خثیمۃ فرماتے ہیں کان لایحفظ الحدیث /اس کو حدیث یاد نہیں تھا /1/305 تاریخ ابن خثیمۃ
امام یزید بن زریع فرماتے ہیں (لقدلقیت علی بن زيد ولم احمل عنه فإنه کان رافضیا) /الكامل فی ضعفاء الرجال /6/130.
کہ میں نے علی بن زید کو دیکھا میں نے اسے حدیث نہیں لیااسلے کے یہ رافضی تھا یعنی شیعہ تھا /6/235 الكامل
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں لیس بشئ/کے یہ حدیث میں کچھ بھی نہیں ہے .
اس طرح یحی ابن معیں فرماتے لیس بذاک القوی/حدیث میں مضبوط نہیں تھا /تاریخ ابن معیں/1/123
علامة الألبانى " الضعيفة" (ج2 ص 263
فرمایا کہ یہ حدیث اس سند کے ساتھ ضعیف ہے اس میں علی بن زيد بن جدعان ہے ، اور یہ ضعيف روای ہیں جیسے کہ امام أحمد وغيره نے کہا ہے ، اور امام بن خزيمة نے بھی کہا ہے : " لا أحتج به لسوء حفظه "کے میں اسے احتجاج نہیں کرتا ہوں اس کا حافظہ خراب تھا اسلے جب روایت کو اپنے کتاب میں ذکر کیا تو فرمایا " إن صح الخبر " . اگر یہ بات صحیح ہو؛ امام المنذري نے " الترغيب میں " (2/67 ) جب اس حدیث کو کو ذکر کیا تو اس نے غلطی سے؛ صح الخبر؛ لکھدیا کہ یہ حدیث صحیح ہے .
اب فیصلہ خود کریں؟
امام النووی فرماتے ہیں(وهو ضعیف عند المحدیثن )
ابن خثیمۃ فرماتے ہیں کان لایحفظ الحدیث /اس کو حدیث یاد نہیں تھا /1/305 تاریخ ابن خثیمۃ
امام یزید بن زریع فرماتے ہیں (لقدلقیت علی بن زيد ولم احمل عنه فإنه کان رافضیا) /الكامل فی ضعفاء الرجال /6/130.
کہ میں نے علی بن زید کو دیکھا میں نے اسے حدیث نہیں لیااسلے کے یہ رافضی تھا یعنی شیعہ تھا /6/235 الكامل
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں لیس بشئ/کے یہ حدیث میں کچھ بھی نہیں ہے .
اس طرح یحی ابن معیں فرماتے لیس بذاک القوی/حدیث میں مضبوط نہیں تھا /تاریخ ابن معیں/1/123
علامة الألبانى " الضعيفة" (ج2 ص 263
فرمایا کہ یہ حدیث اس سند کے ساتھ ضعیف ہے اس میں علی بن زيد بن جدعان ہے ، اور یہ ضعيف روای ہیں جیسے کہ امام أحمد وغيره نے کہا ہے ، اور امام بن خزيمة نے بھی کہا ہے : " لا أحتج به لسوء حفظه "کے میں اسے احتجاج نہیں کرتا ہوں اس کا حافظہ خراب تھا اسلے جب روایت کو اپنے کتاب میں ذکر کیا تو فرمایا " إن صح الخبر " . اگر یہ بات صحیح ہو؛ امام المنذري نے " الترغيب میں " (2/67 ) جب اس حدیث کو کو ذکر کیا تو اس نے غلطی سے؛ صح الخبر؛ لکھدیا کہ یہ حدیث صحیح ہے .
(2)اس میں انقطاع ہے سعيد بن المسيب نے سلمان
الفارسي رضي الله عنه سے کچھ نہیں سنا ہے اور نہ ملاقات ہوئی ہے
تو سندکے اعتبارسے ضعیف ہیں اور اس کا جو متابع ہے وہ سب کمزور ہے اور محدثین نے اس کو منکر حدیث کرار دیا ہے.
تو سندکے اعتبارسے ضعیف ہیں اور اس کا جو متابع ہے وہ سب کمزور ہے اور محدثین نے اس کو منکر حدیث کرار دیا ہے.
(3)اور یہ حدیث متن کے اعتبار سے بھی صحیح نہیں ہے ،
اس میں ایسے الفاظ نقل ہوئے ہیں جس کے ثبوت میں شک ہے
، ، مثلاً اس مہینے کو تین حصوں میں تقسیم کرنا: پہلے دس کو رحمت پھرمغفرة پھر جہنم سے نجات کااور اس بات پر کوئی دلیل نہیں ہے ، بلکہ اللہ کی فضل تو وسیع تر ہے ، اوررمضان سب رحمة اور مغفرة ،اور جہنم سے روزانہ افطاری کے وقت اللہ چٹکارہ عطاء فرماتے ہیں جیسے کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے .
، ، مثلاً اس مہینے کو تین حصوں میں تقسیم کرنا: پہلے دس کو رحمت پھرمغفرة پھر جہنم سے نجات کااور اس بات پر کوئی دلیل نہیں ہے ، بلکہ اللہ کی فضل تو وسیع تر ہے ، اوررمضان سب رحمة اور مغفرة ،اور جہنم سے روزانہ افطاری کے وقت اللہ چٹکارہ عطاء فرماتے ہیں جیسے کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے .
اور اسطرح : جو اس حدیث میں ہے کہ ( جس نے اس میں کوئی نفل نماز
ادا کیا اس نے فرض آدا کیا ) اس بات پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ نفل نماز نفل
ہیں اور فرض نماز فرض ہے وہ رمضان میں ہو یاغیر رمضان میں . واللہ اعلم
[1] هذا جزء من حديث رواه سيدنا سلمان الفارسي، فهو حديث طويل
قال فيه: (خطبنا رسول الله صلي الله عليه وسلم في آخر يوم من شعبان قال: يا أيها
الناس قد أظلكم شهر عظيم مبارك شهر، فيه ليلة خير من ألف شهر شهر جعل الله صيام
نهاره فريضة وقيام ليله تطوعًا.. حتي يقول وهو شهر أوله رحمة وأوسطه مغفرة وآخره
عتق من النار)، والحديث رواه ابن خزيمة في صحيحه، ورواه البيهقي في شعب الإيمان . اكبر
حسين اوركزئي
ہفتہ، 12 مئی، 2018
ماہِ رمضان المبارک تقویٰ کے حصول کا بہترین ذریعہ
از: مولانا ۔ابوجندل قاسمی بحوالہ ماہنامہ دیوبند
رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بڑی عظیم نعمت ہے، اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انوار وبرکات کا سیلاب آتا ہے اور اس کی رحمتیں موسلادھار بارش کی طرح برستی ہیں، مگر ہم لوگ اس مبارک مہینے کی قدرومنزلت سے واقف نہیں، کیونکہ ہماری ساری فکر اور جدوجہد مادّیت اور دنیاوی کاروبار کے لیے ہے، اس مبارک مہینے کی قدردانی وہ لوگ کرتے ہیں جن کی فکر آخرت کے لیے اور جن کا محور مابعد الموت ہو۔ آپ حضرات نے یہ حدیث شریف سنی ہوگی، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ آتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے: اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وبَلِّغْنَا رَمَضَانَ، (شعب الایمان۳/۳۷۵، تخصیص شہر رجب بالذکر) ترجمہ: اے اللہ ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچادیجیے، یعنی ہماری عمر اتنی دراز کردیجیے کہ ہمیں رمضان کا مہینہ نصیب ہوجائے۔
آپ غور فرمائیں کہ رمضان المبارک آنے سے دو ماہ پہلے ہی رمضان کا انتظار اوراشتیاق ہورہا ہے، اوراس کے حاصل ہونے کی دعا کی جارہی ہے، یہ کام وہی شخص کرسکتا ہے جس کے دل میں رمضان کی صحیح قدروقیمت ہو۔
رمضان کے معنی
”رمضان“ عربی زبان کالفظ ہے، جس کے معنی ہیں ”جھُلسادینے والا“ اس مہینے کا یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ اسلام میں جب سب سے پہلے یہ مہینہ آیا تو سخت اور جھلسادینے والی گرمی میں آیا تھا۔ لیکن بعض علماء کہتے ہیں کہ اس مہینے میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی خاص رحمت سے روزے دار بندوں کے گناہوں کو جھلسادیتے ہیں اورمعاف فرمادیتے ہیں، اس لیے اس مہینے کو ”رمضان“ کہتے ہیں۔ (شرح ابی داؤد للعینی ۵/۲۷۳)
رمضان رحمت کا خاص مہینہ
اللہ تعالیٰ نے یہ مبارک مہینہ اس لیے عطا فرمایا کہ گیارہ مہینے انسان دنیا کے دھندوں میں منہمک رہتا ہے جس کی وجہ سے دلوں میں غفلت پیدا ہوجاتی ہے، روحانیت اور اللہ تعالیٰ کے قرب میں کمی واقع ہوجاتی ہے، تو رمضان المبارک میںآ دمی اللہ کی عبادت کرکے اس کمی کو دور کرسکتا ہے، دلوں کی غفلت اور زنگ کو ختم کرسکتا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرکے زندگی کا ایک نیادور شروع ہوجائے، جس طرح کسی مشین کو کچھ عرصہ استعمال کرنے کے بعداس کی سروس اور صفائی کرانی پڑتی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی صفائی اور سروس کے لیے یہ مبارک مہینہ مقرر فرمایا۔
روزے کا مقصد
روزے کی ریاضت کا بھی خاص مقصد اور موضوع یہی ہے کہ اس کے ذریعے انسان کی حیوانیت اور بہیمیت کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی اورایمانی وروحانی تقاضوں کی تابعداری وفرماں برداری کا خوگر بنایاجائے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں نفس کی خواہشات اور پیٹ اور شہوتوں کے تقاضوں کو دبانے کی عادت ڈالی جائے اور چوں کہ یہ چیز نبوت اور شریعت کے خاص مقاصد میں سے ہے اس لیے پہلی تمام شریعتوں میں بھی روزے کا حکم رہا ہے، اگرچہ روزوں کی مدت اور بعض دوسرے تفصیلی احکام میں ان امتوں کے خاص حالات اور ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، قرآنِ کریم میں اس امت کو روزے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایاگیا ہے: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔ (سورة البقرہ آیت ۱۸۳) ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے (روزوں کا یہ حکم تم کو اس لیے دیا گیا ہے) تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔
کیوں کہ یہ بات یقینی ہے کہ نفس انسانی انسان کو گناہ، نافرمانی اور حیوانی تقاضوں میں اسی وقت مبتلاکرتا ہے جب کہ وہ سیراور چھکاہوا ہو، اس کے برخلاف اگر بھوکا ہوتو وہ مضمحل پڑا رہتا ہے اور پھر اس کو معصیت کی نہیں سوجھتی، روزے کا مقصد یہی ہے کہ نفس کو بھوکا رکھ کر مادّی وشہوانی تقاضوں کو بروئے کار لانے سے اس کو روکا جائے تاکہ گناہ پر اقدام کرنے کا داعیہ اور جذبہ سُسْت پڑجائے اور یہی ”تقویٰ“ ہے۔
اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ عالم بالا کی پاکیزہ مخلوق (فرشتے) نہ کھاتے ہیں، نہ پیتے ہیں اورنہ بیوی رکھتے ہیں، جبکہ روزہ (صبح صادق سے غروب آفتاب تک) انہی تین چیزوں (کھانا، پینا اور جماع) سے رکنے کا نام ہے، تو گویا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو روزے کا حکم دے کر ارشاد فرمایا ہے کہ اے میرے بندو! اگر تم ان تینوں چیزوں سے پرہیز کرکے ہماری پاکیزہ مخلوق کی مشابہت اختیار کروگے تو ہماری اس پاکیزہ مخلوق کی پاکیزہ صفت بھی تمہارے اندر پیدا ہوجائے گی اور وہ صفت ہے: لاَیَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَا اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُوٴْمَرُوْنَ۔ (سورئہ تحریم) ترجمہ: وہ (فرشتے) خداکی نافرمانی نہیں کرتے کسی بات میں جو ان کو حکم دیتا ہے اور جو کچھ ان کو حکم دیاجاتا ہے اس کو فوراً بجالاتے ہیں۔ (بیان القرآن) اور اسی کاحاصل ”تقویٰ“ ہے۔
تقریباً اسی بات کو اس حدیث شریف میں بھی فرمایاگیاہے جو ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لِکُلِّ شَیْءٍ زَکوٰةٌ وَزَکوٰةُ الْجَسَدِ الصَّوْمُ۔ (ابن ماجہ ص۱۲۵) ہر چیز کے لیے کوئی نہ کوئی صفائی ستھرائی کا ذریعہ ہے اور بدن کی صفائی ستھرائی کا ذریعہ ”روزہ“ ہے۔
بہرحال روزے کا مقصد تقویٰ ہے، اسی تقویٰ کے حصول کے لیے اس آخری امت پر سال میں ایک مہینے کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع صبح صادق سے غروب آفتاب تک رکھا گیا اور یہ زمانہ اِس دور کے عام انسانوں کے حالات کے لحاظ سے ریاضت وتربیت کے مقصد کے لیے بالکل مناسب اورنہایت معتدل مدت اور وقت ہے۔ پھر اس کے لیے مہینہ وہ مقرر کیاگیا جس میں قرآن کریم کا نزول ہوا اور جس میں بے حساب برکتوں اور رحمتوں والی رات (شبِ قدر) ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ یہی مبارک مہینہ اس کے لیے سب سے زیادہ مناسب اور موزوں زمانہ ہوسکتاتھا، اسی کے ساتھ ساتھ اس مہینے میں دن کے روزوں کے علاوہ رات میں بھی ایک خاص عبادت کا عمومی اور اجتماعی نظام قائم کیاگیا جس کو ”تراویح“ کہا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس مبارک مہینے کی نورانیت اور تاثیر میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور ان دونوں عبادتوں کے احادیث شریفہ میں بہت زیادہ فضائل ارشاد فرمائے گئے ہیں، چنانچہ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَہ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہوَمَنْ قَامَ رَمضََانَ اِیْمَانًا وَّ احتِسَابًا غُفِرَ لَہ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہ․(صحیح بخاری ۱/۲۷۰، صحیح مسلم۱/۲۵۹) ترجمہ: جو شخص ماہِ رمضان کے روزے رکھے بحالت ایمان اور بامید ثواب تو اس کے گذشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے اور جو شخص ماہِ رمضان میں کھڑاہو یعنی نوافل (تراویح وتہجد وغیرہ) پڑھے بحالت ایمان اور بامید ثواب اس کے بھی گذشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے۔
تقویٰ کے حصول میں معاون چیزیں
لیکن صرف روزہ رکھنے اور تراویح پڑھنے کی حد تک بات ختم نہیں ہوتی بلکہ اس ماہ کا اصل مقصد یہ ہے کہ غفلت کے پردوں کو دل سے دور کیاجائے، اصل مقصدِ تخلیق کی طرف رجوع کیاجائے، گزشتہ گیارہ مہینوں میں جو گناہ ہوئے ان کو معاف کراکر آئندہ گیارہ مہینوں میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کے استحضار اور آخرت میں جواب دہی کے احساس کے ساتھ گناہ نہ کرنے کا داعیہ اور جذبہ دل میں پیدا کیا جائے، جس کو ”تقویٰ“ کہا جاتا ہے۔ اس طرح رمضان المبارک کی صحیح روح اوراس کے انوار وبرکات حاصل ہوں گے، ورنہ یہ ہوگا کہ رمضان المبارک آئے گا اور چلا جائے گا اور اس سے صحیح طور پر ہم فائدہ نہیں اٹھاپائیں گے، بلکہ جس طرح ہم پہلے خالی تھے ویسے ہی خالی رہ جائیں گے، اس لیے چند ایسی چیزوں کی نشاندہی کی جاتی ہے جن پر عمل کرکے ہمیں روزے کا مقصد (تقویٰ) اور رمضان المبارک کے انوار وبرکات حاصل ہوں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
(۱) عبادت کی مقدار میں اضافہ
رمضان المبارک کی برکتوں کو حاصل کرنے کے لیے اپنی عبادت کی مقدار میں اضافہ کرنا ہے، دوسرے ایام میں جن نوافل کو پڑھنے کی توفیق نہیں ہوتی ان کو اس مبارک ماہ میں پڑھنے کی کوشش کریں، مثلاً: مغرب کے بعد سنتوں سے الگ یا کم از کم سنتوں کے ساتھ چھ (۶) رکعت اوّابین پڑھیں۔ (جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ اوّابین افطار کی نذر ہوجاتی ہیں) عشاء کی نماز سے چند منٹ پہلے آکر چار رکعت یادو رکعت نفل پڑھیں۔ سحری کھانے کے لیے اٹھنا ہی ہے تو چند منٹ پہلے اٹھ کر کم از کم چار رکعت تہجد پڑھ لیں۔ اسی طرح اشراق کی نماز اور اگراشراق کے وقت نیند کا غلبہ ہوتو چاشت کی چند رکعتیں تو پڑھ ہی لیں۔ ظہر کے بعد دو سنتوں کے ساتھ دو رکعت نفل اور عصر سے پہلے چار رکعت نفل پڑھ لیں۔ کیوں کہ نماز کا خاصہ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان کا رشتہ جوڑتی ہے اوراس کے ساتھ تعلق قائم کراتی ہے، جس کے نتیجے میں انسان کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے، جیساکہ حضرت ابوہریرہ سے مروی حدیث شریف میں ہے: اَقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنْ رَّبِّہ وَہُوَ سَاجِدٌ(مسلم شریف حدیث ۱۱۱۱، باب ما یقال فی الرکوع والسجود) یعنی بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتاہے، تو گویا نماز کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک عظیم تحفہ عطا کیاہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے، آمین!
(۲) تلاوتِ قرآنِ کریم کی کثرت
دوسرا کام یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی تلاوت کا خاص اہتمام کرنا ہے، کیوں کہ رمضان المبارک کے مہینے کو قرآن کریم کے ساتھ خاص مناسبت اور تعلق ہے، اسی مہینے میں قرآن کریم نازل ہوا، ارشادِ مبارک ہے: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ، (سورئہ بقرہ آیت ۱۸۵) خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی رمضان المبارک میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن مجید کا دور فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری شریف۱/۳، حدیث۶) تمام بزرگانِ دین کی زندگیوں میں یوں تو قرآنِ کریم میں اشتغال بہت زیادہ نظر آتاہے، لیکن رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی تلاوت کے معمول میں غیرمعمولی اضافہ ہوجاتا ، چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس مبارک مہینے میں ایک قرآنِ کریم دن میں، ایک رات میں اور ایک تراویح میں، اس طرح اکسٹھ (۶۱) قرآن کریم ختم فرماتے تھے۔ ماضی کے ہمارے تمام اکابر (حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا محمد قاسم نانوتوی،مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا شاہ عبدالرحیم رائپوری، شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی، مولانا خلیل احمد سہارنپوری، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا یحییٰ کاندھلوی، مولانا محمد الیاس کاندھلوی، شاہ عبدالقادر رائپوری، شیخ الحدیث مولانا زکریا مہاجر مدنی، فقیہ الامت مولانا مفتی محمودحسن گنگوہی، مولانا قاری سید صدیق احمد باندوی، مولانا شاہ ابرارالحق ہردوئی، فدائے ملت مولانا سیداسعدمدنی وغیرہم) کا رمضان المبارک میں تلاوتِ قرآن کریم کا معمول دیدنی ہوتا تھا۔ لہٰذا ہم کو بھی اس مبارک ماہ میں عام دنوں کے مقابلے میں تلاوت کی مقدار زیادہ کرنی ہے، عام آدمی کو بھی روزانہ کم از کم تین پارے پڑھنے چاہئیں، تاکہ پورے مہینے میں کم از کم تین قرآنِ کریم ختم ہوجائیں۔
(۳) تراویح میں قرآنِ کریم صحیح پڑھنے اور سننے کا اہتمام
اس مبارک مہینے میں ہرموٴمن کو اس بات کی بھی فکر کرنی ضروری ہے کہ تراویح میں قرآنِ مجید صحیح اور صاف صاف پڑھا جائے، جلدی جلدی اور حروف کو کاٹ کاٹ کر پڑھنے سے پرہیز کیا جائے، کیوں کہ اس طرح قرآنِ کریم پڑھنا اللہ کے کلام کی عظمت کے خلاف ہے، نیز پڑھنے والے کو خود قرآنِ کریم بددعا دیتا ہے۔ (احیاء العلوم عن انس ۱/۲۷۴، فی ذمّ تلاوة الغافلین) اس طرح قرآن کریم پڑھنے والا اور سننے والے سب گنہگار ہوتے ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ حافظ صاحب نہایت تیزگامی کے ساتھ حروف کو کاٹ کاٹ کر پڑھتے چلے جارہے ہیں، ایک سانس میں سورئہ فاتحہ کو ختم کردیا جاتا ہے ، صحیح طریقے سے رکوع، سجدہ اور تشہد ادا نہیں ہورہا ہے، چالیس پینتالیس منٹ میں پوری نماز ختم، اب گھنٹوں مجلسوں میں بیٹھ کر گپ شپ ہورہا ہے اورحافظ صاحب وسامعین میں سے کسی کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم نے قرآنِ کریم کی توہین میں کتنا حصہ لیا اور رمضان کی مبارک ساعتوں میں کتنی بے برکتی اور قرآن کریم کی کتنی بددعا لی؟ خدا را اس صورتِ حال سے بچئے اور اس مبارک مہینے میں برکتوں اور رحمتوں کے دروازے کو اپنے اوپر بند نہ کیجیے اور صاف صحیح قرآن کریم پڑھنے اور سننے کا اہتمام کرکے دارین کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کیجیے۔
(۴) استغفار کی کثرت
چوتھا کام یہ کرنا ہے کہ اپنے گناہوں سے توبہ کرنی ہے، حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے مروی مشہور حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر کی پہلی، دوسری اور تیسری سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے ”آمین“ فرمایا، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جبرئیل امین علیہ الصلاة والسلام میرے سامنے آئے تھے اورجب میں نے منبر کے پہلے زینے پر قدم رکھا تو انھوں نے کہا: ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی، میں نے کہا آمین، الیٰ آخر الحدیث (مستدرک حاکم ۴/۱۷۰، کتاب البر والصلة، الترغیب والترہیب ۲/۵۶)
ظاہر ہے کہ اس شخص کی ہلاکت میں کیا شبہ ہے جس کے لیے حضرت جبرئیل علیہ السلام بددعا کریں اورحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آمین کہیں، اس لیے اس مبارک مہینے میں نہایت کثرت کے ساتھ گڑگڑا کر اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کرے۔
(۵) دعا کا اہتمام
رمضان المبارک کی برکات کو حاصل کرنے کے لیے دعاؤں کا اہتمام بھی لازم ہے، بہت سی روایات میں روزے دار کی دعا کے قبول ہونے کی بشارت دی گئی ہے، حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ثَلٰثَةٌ لاَ تُرَدُّ دَعْوَتُہُمْ اَلصَّائِمُ حَتّٰی یُفْطِرَ، الحدیث۔ (ترمذی شریف ۲/۲۰۰، حدیث ۳۵۹۸، مسند احمد حدیث ۹۷۴۳) ترجمہ: تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی (ضرور قبول ہوتی ہے) ایک روزے دار کی افظار کے وقت، دوسرے عادل بادشاہ کی، تیسرے مظلوم کی بددعاء، اس کو اللہ تعالیٰ بادلوں سے اوپر اٹھالیتے ہیں اورآسمان کے دروازے اس کے لیے کھول دیے جاتے ہیں اورارشاد ہوتا ہے کہ میں تیری ضرور مدد کروں گا گو(کسی مصلحت سے) کچھ دیر ہوجائے۔
بہرحال یہ مانگنے کا مہینہ ہے، اس لیے جتنا ہوسکے دعا کا اہتمام کیا جائے، اپنے لیے، اپنے اعزہ واحباب اور رشتے داروں کے لیے، اپنے متعلقین کے لیے، ملک وملت کے لیے اور عالم اسلام کے لیے خوب دعائیں مانگنی چاہئیں، اللہ تعالیٰ ضرور قبول فرمائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
(۶) صدقات کی کثرت
رمضان المبارک میں نفلی صدقات بھی زیادہ سے زیادہ دینے کی کوشش کرنی چاہیے، حدیث شریف میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کا دریا پورے سال ہی موجزن رہتا تھا، لیکن ماہِ رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت ایسی ہوتی تھی جیسے جھونکے مارتی ہوئی ہوائیں چلتی ہیں (بخاری شریف ۱/۳) جو شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا اس کو ضرور نوازتے۔ لہٰذا ہم کو بھی اس بابرکت مہینے میں اس سنت پر عمل کرتے ہوئے صدقات کی کثرت کرنی چاہیے۔
(۷) کھانے کی مقدار میں کمی
ساتویں چیز جس کالحاظ رمضان المبارک کے مقصد کو حاصل کرنے میں معاون ہے ”کھانے کی مقدار میں کمی کرنا“ ہے، کیوں کہ روزے کا مقصد قوتِ شہوانیہ وبہیمیہ کا کم کرنا اور قوتِ ملکیہ ونورانیہ کا بڑھانا ہے، جب کہ زیادہ کھانے سے یہ غرض فوت ہوجاتی ہے، بقول شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب ہم لوگوں کا حال یہ ہے کہ افظار کے وقت تلافیٴ مافات میں (کہ پورے دن بھوکا رہا)اور سحر کے وقت حفظ ماتقدم میں (کہ پورے دن بھوکا رہناہے) اتنی زیادہ مقدار میں کھالیتے ہیں کہ بغیر رمضان کے بھی اتنی مقدار کھانے کی نوبت نہیں آتی جس کی وجہ سے کھٹی ڈکاریں آنے لگتی ہیں، حقیقتاً ہم لوگ صرف کھانے کے اوقات بدلتے ہیں یعنی افظار میں، تراویح کے بعد اور پھر سحری میں، اس کے علاوہ کچھ بھی کمی نہیں کرتے، بلکہ مختلف قسم کی زیادتی ہی ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے قوتِ شہوانیہ و بہیمیہ کم ہونے کے بجائے اور بڑھ جاتی ہے اورمقصد کے خلاف ہوجاتاہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَا مَلَأ اٰدَمِیٌّ وِعَاءً شَرَّا مِنْ بَطْنٍ بِحَسْبِ ابْنِ اٰدَمَ اُکُلَاتٌ یُقِمْنَ صُلْبَہ فَاِنْ کَانَ لاَ مَحَالَةَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِہ وَثُلُثٌ لِشَرَابِہ وَثُلُثٌ لِنَفسِہ۔ (ترمذی شریف ۲/۶۰) یعنی اللہ تعالیٰ کو کسی برتن کا بھرنا اتنا ناپسند نہیں جتنا پیٹ کا بھرنا ناپسند ہے،ابن آدم کے لیے چند لقمے کافی ہیں جن سے کمرسیدھی رہے، اگر زیادہ ہی کھانا ہے تو ایک تہائی پیٹ کھانے کے لیے رکھے، ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس کے لیے رکھے۔ البتہ اتنا کم نہ کھائے کہ عبادات کے انجام دینے میں اور دوسرے دینی کاموں میں خلل واقع ہو۔
(۸) گناہوں سے پرہیز
رمضان المبارک میں خاص طور پر گناہوں سے پرہیز کرنا نہایت ضروری ہے، ہر موٴمن کو یہ طے کرلینا چاہیے کہ اس برکت ورحمت اورمغفرت کے مہینے میں آنکھ، کان اور زبان غلط استعمال نہیں ہوگی، جھوٹ، غیبت، چغل خوری اور فضول باتوں سے مکمل پرہیز کرے، یہ کیا روزہ ہوا کہ روزہ رکھ کر ٹیلی ویژن کھول کر بیٹھ گئے اور فحش وگندی فلموں سے وقت گزاری ہورہی ہے، کھانا، پینا اورجماع جو حلال تھیں ان سے تو اجتناب کرلیا لیکن مجلسوں میں بیٹھ کر کسی کی غیبت ہورہی ہے، چغل خوری ہورہی ہے، جھوٹے لطیفے بیان ہورہے ہیں، اس طرح روزے کی برکات جاتی رہتی ہیں۔
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَةٌ فِیْ اَن یَّدَعَ طَعَامَہ وَشَرَابَہ۔ (صحیح بخاری ۱/۲۵۵) ترجمہ: جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کام اور باطل کلام نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یعنی روزے کے مقبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کھانا پینا چھوڑنے کے علاوہ معصیات ومنکرات سے بھی زبان ودہن اور دوسرے اعضاء کی حفاظت کرے، اگر کوئی شخص روزہ رکھے اور گناہ کی باتیں اور گناہ والے اعمال کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے روزے کی کوئی پروا نہیں۔ (معارف الحدیث۴/۰۰۰۰)
ایک اور حدیث شریف میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:رُبَّ صَائِمٍ لَیْسَ لَہ مِنْ صِیَامِہ اِلَّا الْجُوْعُ وَرُبَّ قَائِمٍ لَیْسَ لَہ مِنْ قِیَامِہ اِلَّا السَّہْرُ۔ (سنن ابن ماجہ حدیث ۱۶۹۰۔ سنن نسائی حدیث ۳۳۳۳) ترجمہ: بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو روزے کے ثمرات میں سے بھوکا رہنے کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا، اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے (کی مشقت) کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ مطلب یہ ہے کہ آدمی اگر گناہوں (غیبت وریا وغیرہ) سے نہ بچے تو روزہ، تراویح اور تہجد وغیرہ سب بیکار ہے۔
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مَالَمْ یَخْرِقْہَا۔ (نسائی شریف حدیث ۲۲۳۳، مسند احمد حدیث ۱۶۹۰) ترجمہ: روزہ آدمی کے لیے ڈھال ہے جب تک اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔ یعنی روزہ آدمی کے لیے شیطان سے، جہنم سے اور اللہ کے عذاب سے حفاظت کا ذریعہ ہے، جب تک گناہوں (جھوٹ وغیبت وغیرہ) کا ارتکاب کرکے روزے کو خراب نہ کرے۔
حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ایک حدیث شریف میں ہے کہ اگر روزے دار سے کوئی شخص بدکلامی اور جھگڑا وغیرہ کرنے کی کوشش کرے تو روزے دار کہہ دے کہ میرا روزہ ہے۔ یعنی میں ایسی لغویات میں پڑکر روزے کی برکات سے محروم ہونا نہیں چاہتا۔ (صحیح بخاری ۱/۲۵۴، حدیث ۱۸۹۴، صحیح مسلم حدیث ۱۱۵۱)
ان تمام احادیث شریفہ کا مدعا یہ ہے کہ روزے کے مقصد (تقویٰ) اور رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں کے حصول کے لیے معصیات ومنکرات سے پرہیز نہایت ضروری ہے، اس کے بغیر تقوے کی سعادت سے متمتع نہیں ہوسکتا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمت سے ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، رمضان المبارک کی قدردانی کی توفیق بخشے اور اس بابرکت مہینے کے اوقات کو صحیح طور پر خرچ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین!
ماہ رمضان اور قرآن کریم
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
ماہِ رمضان اور قرآن کریم
ماہِ رمضان اسلامی کیلنڈر کا نواں مہینہ ہے، اس ماہ کے روزے رکھنا ہر مسلمان، بالغ، عاقل، صحت مند، مقیم، مردوعورت پر فرض ہے، جس کی ادائیگی کے ذریعہ خواہشات کو قابو میں رکھنے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے اور وہی تقویٰ کی بنیاد ہے، جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا : ( ےَا اَیُّھَا الَّذِےْنَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَےْکُمُ الصِّےَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِےْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن ) اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ (سورۃ البقرۃ ۱۸۳) لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ میں اشارہ ہے کہ زندگی میں تقویٰ پیدا کرنے کے لئے روزہ کا بڑا اثرہے۔
اسی ماہِ مبارک کی ایک بابرکت رات میں قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی رہنمائی کیلئے اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن کریم سماء دنیا پر نازل ہوئی، جس سے استفادہ کی بنیادی شرط بھی تقویٰ ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد قرآن کریم میں ہے: (ذلِکَ الْکِتَابُ لَا رَےْبَ فِےْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِےْن) یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں، یہ ہدایت ہے متقیوں یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈر نے والوں کے لئے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق قرآن کریم سے ہر شخص کو ہدایت نہیں ملتی بلکہ قرآن کریم سے استفادہ کی بنیادی شرط تقویٰ ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں روزوں کی فرضیت کا مقصد بتاتے ہوئے فرمایا: لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ یعنی تم پر روزے فرض کئے گئے تاکہ تم متقی بن جاؤ، غرض رمضان اور روزہ کے بنیادی مقاصد میں تقویٰ مشترک ہے۔
اس ماہ مبارک میں ایک رات ہے جس میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے زیادہ افضل ہے۔یہ ماہِ مبارک اللہ تعالیٰ کی رحمت، مغفرت اور جہنم سے چھٹکارے کا مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک میں سرکش شیاطین قید کردئے جاتے ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کرکے جنت کے دروازوں کو کھول دیا جاتا ہے،ہر نیکی کا اجروثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔ غرضیکہ یہ مہینہ اللہ کی عبادت، اطاعت اور لوگوں کے ساتھ ہمدردی وغمگساری اور قرآن کریم کا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں روزہ رکھنا فرض ہے اور روزہ ایسا عظیم الشان عمل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر عمل کا دنیامیں ہی اجر بتا دیا کہ کس عمل پر کیاملے گا مگر روزہ کے متعلق ارشاد فرمایا کہ میں خود ہی اس کا بدلہ دوں گا یا فرمایا کہ میں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔
ماہ رمضان کا قرآن کریم سے خاص تعلق:قرآن کریم کو رمضان المبارک سے خاص تعلق اور گہری خصوصیت حاصل ہے۔ چنانچہ رمضان المبارک میں اس کا نازل ہونا، حضور اکرم ﷺکا رمضان المبارک میں تلاوتِ قرآن کا شغل نسبتاً زیادہ رکھنا، حضرت جبرئیل علیہ السلام کا رمضان المبارک میں نبی اکرم ﷺکو قرآن کریم کا دور کرانا، تراویح میں ختم قرآن کا اہتمام کرنا، صحابۂ کرام اور بزرگان دین کا رمضان میں تلاوت کا خاص اہتمام کرنا، یہ سب امور اس خصوصیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ لہذا اس ماہ میں کثرت سے تلاوتِ قرآن میں مشغول رہنا چاہئے۔
ماہ رمضان کا قرآن کریم سے خاص تعلق ہونے کی سب سے بڑی دلیل قرآن کریم کا ماہ رمضان میں نازل ہونا ہے۔ اس مبارک ماہ کی ایک بابرکت رات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے لوح محفوظ سے سماء دنیا پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اس کے بعد حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا حضور اکرم ﷺ پر نازل ہوتا رہا اور تقریباً ۲۳ سال کے عرصہ میں قرآن مکمل نازل ہوا۔ قرآن کریم کے علاوہ تمام صحیفے بھی رمضان میں نازل ہوئے جیساکہ مسند احمد میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مصحف ابراہیمی اور تورات وانجیل سب کا نزول رمضان میں ہی ہوا ہے۔ نزول قرآن اور دیگر مقدس کتب وصحائف کے نزول میں فرق یہ ہے کہ دیگر کتابیں جس رسول ونبی پر نازل ہوئیں ایک ساتھ ایک ہی مرتبہ میں، جبکہ قرآن کریم لوح محفوظ سے پہلے آسمان پر رمضان کی مبارک رات یعنی لیلۃ القدر میں ایک بار نازل ہوا اور پھر تھوڑا تھوڑا حسب ضرورت نازل ہوتا رہا۔ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے: اِنَّآاَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْر ۔ وَمَآاَدْرٰ ئکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ۔ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ، خَیْر’‘ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ ۔ تَنَزَّلُ الْمَلآءِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ مِّنْ کُلِّ اَمْر۔سَلٰمٌ، ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ۔بے شک ہم نے قرآن کریم کو شب قدر میں اتارا ہے ،یعنی قرآن شریف کو لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اِس رات میں اتارا ہے۔ آپ کو کچھ معلوم بھی ہے کہ شب قدر کیسی بڑی چیز ہے ، یعنی اس رات کی بڑائی اور فضیلت کا آپ کو علم بھی ہے ، کتنی خوبیاں اور کس قدر فضائل اس میں ہیں۔ اس کے بعد چند فضائل کا ذکر فرماتے ہیں، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، یعنی ہزار مہینوں تک عبادت کرنے کا جتنا ثواب ہے اس سے زیادہ شب قدر کی عبادت کا ہے اور کتنا زیادہ ہے؟ یہ اللہ ہی کو معلوم ہے۔ اس رات میں فرشتے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر زمین کی طرف اترتے ہیں۔ اور یہ خیر وبرکت فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔
سورۂ العلق کی ابتدائی چند آیات (اِقْرَاْ بِسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَق....) سے قرآن کریم کے نزول کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد آنے والی سورۂ القدر میں بیان کیا کہ قرآن کریم رمضان کی بابرکت رات میں اتراہے، جیساکہ سورۂ الدخان کی آیت۳ (اِنَّا اَنْزَلْنَاہٗ فِیْ لَےْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ ہم نے اس کتاب کو ایک مبارک رات میں اتارا ہے) اور سورۂ البقرہ کی آیت ۱۸۵ (شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فیہ القرآن رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا) میں یہ مضمون صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ غرض قرآن وحدیث میں واضح دلائل ہونے کی وجہ سے امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قرآن کریم لوح محفوظ سے سماء دنیا پر رمضان کی مبارک رات میں ہی نازل ہوا، اس طرح رمضان اور قرآن کریم کا خاص تعلق روز روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے۔
رمضان المبارک کا قرآن کریم کے ساتھ خاص تعلق کا مظہر نماز تراویح بھی ہے۔ احادیث میں وارد ہے کہ ہر سال ماہ رمضان میں آپ ﷺ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کے نازل شدہ حصوں کا دور کرتے تھے۔ جس سال آپ ﷺ کا انتقال ہوا اس سال آپ ﷺ نے دوبار قرآن کریم کا دور فرمایا۔(بخاری ومسلم) نماز تراویح آپ ﷺ نے شروع فرمائی اور مسجد میں باجماعت اس کو ادا بھی فرمایا لیکن اس خیال سے اس کو ترک کردیا کہ کہیں امت پر واجب نہ ہوجائے اور پھر امت کے لئے اس کو ادا کرنے میں مشقت ہو۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ انے (رمضان کی) ایک رات مسجد میں نماز تراویح پڑھی۔ لوگوں نے آپ اکے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر دوسری رات کی نماز میں شرکاء زیادہ ہوگئے، تیسری یا چوتھی رات آپ ا نماز تراویح کے لئے مسجد میں تشریف نہ لائے اور صبح کو فرمایا کہ میں نے تمہارا شوق دیکھ لیا اور میں اس ڈر سے نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز تم پر رمضان میں فرض نہ کردی جائے۔ (مسلم ۔ الترغیب فی صلاۃ التراویح)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ا قیام رمضان کی ترغیب تو دیتے تھے لیکن وجوب کا حکم نہیں دیتے تھے۔ آپ ا فرماتے کہ جوشخص رمضان کی راتوں میں نماز (تراویح) پڑھے اور وہ ایمان کے دوسرے تقاضوں کو بھی پورا کرے اور ثواب کی نیت سے یہ عمل کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ معاف فرمادیں گے۔ رسول اللہ ا کی وفات تک یہی عمل رہا، دورِ صدیقی اور ابتداء عہد فاروقی میں بھی یہی عمل رہا۔ (مسلم ۔ الترغیب فی صلاۃ التراویح) صحیح مسلم کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم ا کی حیات میں ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں نماز تراویح جماعت سے پڑھنے کا کوئی اہتمام نہیں تھا، صرف ترغیب دی جاتی تھی اور انفرادی طور پر نماز تراویح پڑھی جاتی تھی۔ البتہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں یقیناًتبدیلی ہوئی، اس تبدیلی کی وضاحت محدثین ،فقہاء اور علماء کرام نے فرمائی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں عشاء کے فرائض کے بعد وتروں سے پہلے پورے رمضان باجماعت نماز تراویح شروع ہوئی، نیز قرآن کریم ختم کرنے اور رمضان میں وتر باجماعت پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ سعودی عرب کے نامور عالم ، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی الشیخ عطیہ محمد سالم ؒ (متوفی ۱۹۹۹) نے نماز تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک کتاب (التراویح اکثر من الف عام فی المسجد النبوی) تحریر کی ہے جو اس موضوع کے لئے بے حد مفید ہے۔
قرآن اور رمضان کے درمیان چند مشترک خصوصیات:قرآن اور رمضان کی پہلی اہم مشترک خصوصیت تقویٰ ہے، جیساکہ قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں ذکر کیا گیا۔ دوسری مشترک خصوصیت شفاعت ہے۔حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ روزہ اور قرآن کریم دونوں بندہ کے لئے شفاعت کرتے ہیں۔ روزہ عرض کرتا ہے کہ یا اللہ میں نے اس کو دن میں کھانے پینے سے روکے رکھا ، میری شفاعت قبول کرلیجئے، اور قرآن کہتا ہے کہ یا اللہ میں نے رات کو اس کو سونے سے روکا ، میری شفاعت قبول کرلیجئے، پس دونوں کی شفاعت قبول کرلی جائے گی۔ (رواہ احمد والطبرانی فی الکبیر والحاکم وقال صحیح علی شرط مسلم)تیسری خصوصیت جو رمضان اور قرآن دونوں میں مشترک طور پر پائی جاتی ہے وہ قرب الہی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت کے وقت اللہ تعالیٰ سے خاص قرب حاصل ہوتا ہے، ایسے ہی روزہ دار کو بھی اللہ تعالیٰ کا خاص قرب حاصل ہوتا ہے کہ روزہ کے متعلق حدیث قدسی میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔ مضمون کی طوالت سے بچنے کیلئے قرآن ورمضان کی صرف تین مشترک خصوصیات کے ذکر پر اکتفاء کرتا ہوں۔
اسلاف کا ماہِ رمضان میں تلاوتِ قرآن کا خاص اہتمام:روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ وتابعین وتبع تابعین رمضان المبارک میں قرآن کریم کے ساتھ خصوصی شغف رکھتے تھے۔ بعض اسلاف واکابرین کے متعلق کتابوں میں تحریر ہے کہ وہ رمضان المبارک میں دیگر مصروفیات چھوڑ کر صرف اور صرف تلاوت قرآن میں دن ورات کا وافر حصہ صرف کرتے تھے۔ امام مالکؒ جنہوں نے حدیث کی مشہور کتاب موطا مالک تحریر فرمائی ہے، جو مشہور فقیہ ہونے کے ساتھ ایک بڑے محدث بھی ہیں لیکن رمضان شروع ہونے پر حدیث پڑھنے پڑھانے کے سلسلہ کو بند کرکے دن ورات کا اکثر حصہ تلاوتِ قرآن میں لگاتے تھے۔ اسلاف سے منقول ہے کہ وہ ماہ رمضان اور خاص کر آخری عشرہ میں تین دن یا ایک دن میں قرآن کریم مکمل فرماتے تھے۔ صحیح مسلم کی سب سے زیادہ مشہور شرح لکھنے والے اور ریاض الصالحین کے مؤلف نے اپنی کتاب "الاذکار" ص ۱۰۲ میں ایسے شیوخ کا ذکر فرمایا ہے جو ایک رکعت میں قرآن کریم ختم فرماتے تھے۔ رمضان کے مبارک مہینہ میں ختم قرآن کریم کے اتنے واقعات کتابوں میں مذکور ہیں کہ ان کااحاطہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لہذا اس مبارک مہینہ میں زیادہ سے زیادہ اپنا وقت قرآن کریم کی تلاوت میں لگائیں۔ نماز تراویح کے پڑھنے کا اہتمام کریں اور اگر تراویح میں ختم قرآن کا اہتمام کیا جائے تو بہت بہتر وافضل ہے کیونکہ حدیث میں وارد ہے کہ ہر سال ماہ رمضان میں آپ ﷺ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کے نازل شدہ حصوں کا دور کرتے تھے۔ جس سال آپ ﷺ کا انتقال ہوا اس سال آپ ﷺ نے دوبار قرآن کریم کا دور فرمایا۔ ماہِ رمضان کے بعد بھی تلاوتِ قرآن کا روزانہ اہتمام کریں خواہ مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہو، نیز علماءِ کرام کی سرپرستی میں قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں۔ قرآن کریم میں وارد احکام ومسائل کو سمجھ کر اُن پر عمل کریں اور دوسروں تک پہونچائیں۔ اگر ہم قرآن کریم کے معنی ومفہوم نہیں سمجھ پا رہے ہیں تب بھی ہمیں تلاوت کرنا چاہئے کیونکہ قرآن کی تلاوت بھی مطلوب ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ایک حرف قرآن کریم کا پڑھے اس کے لئے اس حرف کے عوض ایک نیکی ہے اور ایک نیکی کا اجردس نیکی کے برابر ملتا ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ اآآ ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف،لام ایک حرف اور میم ایک حرف۔ (ترمذی)تلاوت قرآن کے کچھ آداب ہیں جن کا تلاوت کے وقت خاص خیال رکھا جائے تاکہ ہم عند اللہ اجر عظیم کے مستحق بنیں۔ تلاوت چونکہ ایک عبادت ہے لہذا ریا وشہرت کے بجائے اس سے صرف اورصرف اللہ تعالیٰ کی رضا مطلوب ومقصود ہو، نیز وضو وطہارت کی حالت میں ادب واحترام کے ساتھ اللہ کے کلام کی تلاوت کریں۔ تیسرا اہم ادب یہ ہے کہ اطمینان کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر اور اچھی آواز میں تجوید کے قواعد کے مطابق تلاوت کریں۔ تلاوت قرآن کے وقت اگر آیتوں کے معانی پر غور وفکر کرکے پڑھیں تو بہت ہی بہتر ہے۔ قرآن کریم کے احکام ومسائل پر خود بھی عمل کریں اور اس کے پیغام کو دوسروں تک پہونچانے کی کوشش کریں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو روزہ اور تلاوت قرآن کی برکت سے تقویٰ والی زندگی گزارنے والا بنائے اور ہمیں دونوں جہاں میں کامیابی وکامرانی عطا فرمائے۔ آمین۔
تحریر مولانا ۔ محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض
اسی ماہِ مبارک کی ایک بابرکت رات میں قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی رہنمائی کیلئے اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن کریم سماء دنیا پر نازل ہوئی، جس سے استفادہ کی بنیادی شرط بھی تقویٰ ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد قرآن کریم میں ہے: (ذلِکَ الْکِتَابُ لَا رَےْبَ فِےْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِےْن) یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں، یہ ہدایت ہے متقیوں یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈر نے والوں کے لئے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق قرآن کریم سے ہر شخص کو ہدایت نہیں ملتی بلکہ قرآن کریم سے استفادہ کی بنیادی شرط تقویٰ ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں روزوں کی فرضیت کا مقصد بتاتے ہوئے فرمایا: لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ یعنی تم پر روزے فرض کئے گئے تاکہ تم متقی بن جاؤ، غرض رمضان اور روزہ کے بنیادی مقاصد میں تقویٰ مشترک ہے۔
اس ماہ مبارک میں ایک رات ہے جس میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے زیادہ افضل ہے۔یہ ماہِ مبارک اللہ تعالیٰ کی رحمت، مغفرت اور جہنم سے چھٹکارے کا مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک میں سرکش شیاطین قید کردئے جاتے ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کرکے جنت کے دروازوں کو کھول دیا جاتا ہے،ہر نیکی کا اجروثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔ غرضیکہ یہ مہینہ اللہ کی عبادت، اطاعت اور لوگوں کے ساتھ ہمدردی وغمگساری اور قرآن کریم کا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں روزہ رکھنا فرض ہے اور روزہ ایسا عظیم الشان عمل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر عمل کا دنیامیں ہی اجر بتا دیا کہ کس عمل پر کیاملے گا مگر روزہ کے متعلق ارشاد فرمایا کہ میں خود ہی اس کا بدلہ دوں گا یا فرمایا کہ میں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔
ماہ رمضان کا قرآن کریم سے خاص تعلق:قرآن کریم کو رمضان المبارک سے خاص تعلق اور گہری خصوصیت حاصل ہے۔ چنانچہ رمضان المبارک میں اس کا نازل ہونا، حضور اکرم ﷺکا رمضان المبارک میں تلاوتِ قرآن کا شغل نسبتاً زیادہ رکھنا، حضرت جبرئیل علیہ السلام کا رمضان المبارک میں نبی اکرم ﷺکو قرآن کریم کا دور کرانا، تراویح میں ختم قرآن کا اہتمام کرنا، صحابۂ کرام اور بزرگان دین کا رمضان میں تلاوت کا خاص اہتمام کرنا، یہ سب امور اس خصوصیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ لہذا اس ماہ میں کثرت سے تلاوتِ قرآن میں مشغول رہنا چاہئے۔
ماہ رمضان کا قرآن کریم سے خاص تعلق ہونے کی سب سے بڑی دلیل قرآن کریم کا ماہ رمضان میں نازل ہونا ہے۔ اس مبارک ماہ کی ایک بابرکت رات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے لوح محفوظ سے سماء دنیا پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اس کے بعد حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا حضور اکرم ﷺ پر نازل ہوتا رہا اور تقریباً ۲۳ سال کے عرصہ میں قرآن مکمل نازل ہوا۔ قرآن کریم کے علاوہ تمام صحیفے بھی رمضان میں نازل ہوئے جیساکہ مسند احمد میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مصحف ابراہیمی اور تورات وانجیل سب کا نزول رمضان میں ہی ہوا ہے۔ نزول قرآن اور دیگر مقدس کتب وصحائف کے نزول میں فرق یہ ہے کہ دیگر کتابیں جس رسول ونبی پر نازل ہوئیں ایک ساتھ ایک ہی مرتبہ میں، جبکہ قرآن کریم لوح محفوظ سے پہلے آسمان پر رمضان کی مبارک رات یعنی لیلۃ القدر میں ایک بار نازل ہوا اور پھر تھوڑا تھوڑا حسب ضرورت نازل ہوتا رہا۔ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے: اِنَّآاَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْر ۔ وَمَآاَدْرٰ ئکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ۔ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ، خَیْر’‘ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ ۔ تَنَزَّلُ الْمَلآءِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ مِّنْ کُلِّ اَمْر۔سَلٰمٌ، ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ۔بے شک ہم نے قرآن کریم کو شب قدر میں اتارا ہے ،یعنی قرآن شریف کو لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اِس رات میں اتارا ہے۔ آپ کو کچھ معلوم بھی ہے کہ شب قدر کیسی بڑی چیز ہے ، یعنی اس رات کی بڑائی اور فضیلت کا آپ کو علم بھی ہے ، کتنی خوبیاں اور کس قدر فضائل اس میں ہیں۔ اس کے بعد چند فضائل کا ذکر فرماتے ہیں، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، یعنی ہزار مہینوں تک عبادت کرنے کا جتنا ثواب ہے اس سے زیادہ شب قدر کی عبادت کا ہے اور کتنا زیادہ ہے؟ یہ اللہ ہی کو معلوم ہے۔ اس رات میں فرشتے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر زمین کی طرف اترتے ہیں۔ اور یہ خیر وبرکت فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔
سورۂ العلق کی ابتدائی چند آیات (اِقْرَاْ بِسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَق....) سے قرآن کریم کے نزول کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد آنے والی سورۂ القدر میں بیان کیا کہ قرآن کریم رمضان کی بابرکت رات میں اتراہے، جیساکہ سورۂ الدخان کی آیت۳ (اِنَّا اَنْزَلْنَاہٗ فِیْ لَےْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ ہم نے اس کتاب کو ایک مبارک رات میں اتارا ہے) اور سورۂ البقرہ کی آیت ۱۸۵ (شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فیہ القرآن رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا) میں یہ مضمون صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ غرض قرآن وحدیث میں واضح دلائل ہونے کی وجہ سے امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قرآن کریم لوح محفوظ سے سماء دنیا پر رمضان کی مبارک رات میں ہی نازل ہوا، اس طرح رمضان اور قرآن کریم کا خاص تعلق روز روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے۔
رمضان المبارک کا قرآن کریم کے ساتھ خاص تعلق کا مظہر نماز تراویح بھی ہے۔ احادیث میں وارد ہے کہ ہر سال ماہ رمضان میں آپ ﷺ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کے نازل شدہ حصوں کا دور کرتے تھے۔ جس سال آپ ﷺ کا انتقال ہوا اس سال آپ ﷺ نے دوبار قرآن کریم کا دور فرمایا۔(بخاری ومسلم) نماز تراویح آپ ﷺ نے شروع فرمائی اور مسجد میں باجماعت اس کو ادا بھی فرمایا لیکن اس خیال سے اس کو ترک کردیا کہ کہیں امت پر واجب نہ ہوجائے اور پھر امت کے لئے اس کو ادا کرنے میں مشقت ہو۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ انے (رمضان کی) ایک رات مسجد میں نماز تراویح پڑھی۔ لوگوں نے آپ اکے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر دوسری رات کی نماز میں شرکاء زیادہ ہوگئے، تیسری یا چوتھی رات آپ ا نماز تراویح کے لئے مسجد میں تشریف نہ لائے اور صبح کو فرمایا کہ میں نے تمہارا شوق دیکھ لیا اور میں اس ڈر سے نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز تم پر رمضان میں فرض نہ کردی جائے۔ (مسلم ۔ الترغیب فی صلاۃ التراویح)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ا قیام رمضان کی ترغیب تو دیتے تھے لیکن وجوب کا حکم نہیں دیتے تھے۔ آپ ا فرماتے کہ جوشخص رمضان کی راتوں میں نماز (تراویح) پڑھے اور وہ ایمان کے دوسرے تقاضوں کو بھی پورا کرے اور ثواب کی نیت سے یہ عمل کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ معاف فرمادیں گے۔ رسول اللہ ا کی وفات تک یہی عمل رہا، دورِ صدیقی اور ابتداء عہد فاروقی میں بھی یہی عمل رہا۔ (مسلم ۔ الترغیب فی صلاۃ التراویح) صحیح مسلم کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم ا کی حیات میں ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں نماز تراویح جماعت سے پڑھنے کا کوئی اہتمام نہیں تھا، صرف ترغیب دی جاتی تھی اور انفرادی طور پر نماز تراویح پڑھی جاتی تھی۔ البتہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں یقیناًتبدیلی ہوئی، اس تبدیلی کی وضاحت محدثین ،فقہاء اور علماء کرام نے فرمائی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں عشاء کے فرائض کے بعد وتروں سے پہلے پورے رمضان باجماعت نماز تراویح شروع ہوئی، نیز قرآن کریم ختم کرنے اور رمضان میں وتر باجماعت پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ سعودی عرب کے نامور عالم ، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی الشیخ عطیہ محمد سالم ؒ (متوفی ۱۹۹۹) نے نماز تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک کتاب (التراویح اکثر من الف عام فی المسجد النبوی) تحریر کی ہے جو اس موضوع کے لئے بے حد مفید ہے۔
قرآن اور رمضان کے درمیان چند مشترک خصوصیات:قرآن اور رمضان کی پہلی اہم مشترک خصوصیت تقویٰ ہے، جیساکہ قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں ذکر کیا گیا۔ دوسری مشترک خصوصیت شفاعت ہے۔حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ روزہ اور قرآن کریم دونوں بندہ کے لئے شفاعت کرتے ہیں۔ روزہ عرض کرتا ہے کہ یا اللہ میں نے اس کو دن میں کھانے پینے سے روکے رکھا ، میری شفاعت قبول کرلیجئے، اور قرآن کہتا ہے کہ یا اللہ میں نے رات کو اس کو سونے سے روکا ، میری شفاعت قبول کرلیجئے، پس دونوں کی شفاعت قبول کرلی جائے گی۔ (رواہ احمد والطبرانی فی الکبیر والحاکم وقال صحیح علی شرط مسلم)تیسری خصوصیت جو رمضان اور قرآن دونوں میں مشترک طور پر پائی جاتی ہے وہ قرب الہی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت کے وقت اللہ تعالیٰ سے خاص قرب حاصل ہوتا ہے، ایسے ہی روزہ دار کو بھی اللہ تعالیٰ کا خاص قرب حاصل ہوتا ہے کہ روزہ کے متعلق حدیث قدسی میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔ مضمون کی طوالت سے بچنے کیلئے قرآن ورمضان کی صرف تین مشترک خصوصیات کے ذکر پر اکتفاء کرتا ہوں۔
اسلاف کا ماہِ رمضان میں تلاوتِ قرآن کا خاص اہتمام:روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ وتابعین وتبع تابعین رمضان المبارک میں قرآن کریم کے ساتھ خصوصی شغف رکھتے تھے۔ بعض اسلاف واکابرین کے متعلق کتابوں میں تحریر ہے کہ وہ رمضان المبارک میں دیگر مصروفیات چھوڑ کر صرف اور صرف تلاوت قرآن میں دن ورات کا وافر حصہ صرف کرتے تھے۔ امام مالکؒ جنہوں نے حدیث کی مشہور کتاب موطا مالک تحریر فرمائی ہے، جو مشہور فقیہ ہونے کے ساتھ ایک بڑے محدث بھی ہیں لیکن رمضان شروع ہونے پر حدیث پڑھنے پڑھانے کے سلسلہ کو بند کرکے دن ورات کا اکثر حصہ تلاوتِ قرآن میں لگاتے تھے۔ اسلاف سے منقول ہے کہ وہ ماہ رمضان اور خاص کر آخری عشرہ میں تین دن یا ایک دن میں قرآن کریم مکمل فرماتے تھے۔ صحیح مسلم کی سب سے زیادہ مشہور شرح لکھنے والے اور ریاض الصالحین کے مؤلف نے اپنی کتاب "الاذکار" ص ۱۰۲ میں ایسے شیوخ کا ذکر فرمایا ہے جو ایک رکعت میں قرآن کریم ختم فرماتے تھے۔ رمضان کے مبارک مہینہ میں ختم قرآن کریم کے اتنے واقعات کتابوں میں مذکور ہیں کہ ان کااحاطہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لہذا اس مبارک مہینہ میں زیادہ سے زیادہ اپنا وقت قرآن کریم کی تلاوت میں لگائیں۔ نماز تراویح کے پڑھنے کا اہتمام کریں اور اگر تراویح میں ختم قرآن کا اہتمام کیا جائے تو بہت بہتر وافضل ہے کیونکہ حدیث میں وارد ہے کہ ہر سال ماہ رمضان میں آپ ﷺ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کے نازل شدہ حصوں کا دور کرتے تھے۔ جس سال آپ ﷺ کا انتقال ہوا اس سال آپ ﷺ نے دوبار قرآن کریم کا دور فرمایا۔ ماہِ رمضان کے بعد بھی تلاوتِ قرآن کا روزانہ اہتمام کریں خواہ مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہو، نیز علماءِ کرام کی سرپرستی میں قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں۔ قرآن کریم میں وارد احکام ومسائل کو سمجھ کر اُن پر عمل کریں اور دوسروں تک پہونچائیں۔ اگر ہم قرآن کریم کے معنی ومفہوم نہیں سمجھ پا رہے ہیں تب بھی ہمیں تلاوت کرنا چاہئے کیونکہ قرآن کی تلاوت بھی مطلوب ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ایک حرف قرآن کریم کا پڑھے اس کے لئے اس حرف کے عوض ایک نیکی ہے اور ایک نیکی کا اجردس نیکی کے برابر ملتا ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ اآآ ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف،لام ایک حرف اور میم ایک حرف۔ (ترمذی)تلاوت قرآن کے کچھ آداب ہیں جن کا تلاوت کے وقت خاص خیال رکھا جائے تاکہ ہم عند اللہ اجر عظیم کے مستحق بنیں۔ تلاوت چونکہ ایک عبادت ہے لہذا ریا وشہرت کے بجائے اس سے صرف اورصرف اللہ تعالیٰ کی رضا مطلوب ومقصود ہو، نیز وضو وطہارت کی حالت میں ادب واحترام کے ساتھ اللہ کے کلام کی تلاوت کریں۔ تیسرا اہم ادب یہ ہے کہ اطمینان کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر اور اچھی آواز میں تجوید کے قواعد کے مطابق تلاوت کریں۔ تلاوت قرآن کے وقت اگر آیتوں کے معانی پر غور وفکر کرکے پڑھیں تو بہت ہی بہتر ہے۔ قرآن کریم کے احکام ومسائل پر خود بھی عمل کریں اور اس کے پیغام کو دوسروں تک پہونچانے کی کوشش کریں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو روزہ اور تلاوت قرآن کی برکت سے تقویٰ والی زندگی گزارنے والا بنائے اور ہمیں دونوں جہاں میں کامیابی وکامرانی عطا فرمائے۔ آمین۔
تحریر مولانا ۔ محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض