الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين نبينا محمد، وعلى آله وصحابته
أجمعين. اما بعد
اکثر علماء حضرات رمضان المبارک کے مہینے کے بارے میں ایک حدیث
بیان کرتے ہیں جو کہ [1] حضرت سلمان
الفارسي(رضي الله عنه)سے روایت ہے ،کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے شعبان کے آخری دن
ہمارے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگو باعظمت مہینہ تمہارے آوپر سایہ فگن ہورہا))) پھر آگے ارشاد ہے ماہ رمضان میں نفل
اعمال کا ثواب رمضان کے علاوہ دوسری دنوں میں فرض آعمال کے ثواب کے برابر ہے))
رمضان میں کسی ایک فرض کی ادائیگی کا ثواب دوسرے دنوں میں ستر فرض کی ادائیگی کے
ثواب کے برابر ہے)) پھر اس کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے (1)ابتدائی حصہ رحمت
(2)درمیانی حصہ بخشش کا(3)اور آخری حصہ میں دوزخ کی آگ سے نجات ہے .
یہ حدیث منکر ہے اس حدیث کوالمحاملى نے (( الأمالى ))(1/286/293)
اور ، ابن عدى نے (( الكامل ))(5/293).
اور امام البيهقى نے (( شعب الإيمان ))(3/305/3608) اور(( فضائل الأوقات ))(37،38) ، وابن عبد الغنى المقدسى نے (( التقييد ))(ص205) اور الحارث بن أبى أسامہ نے (321. زوائد الهيثمى ) ، اور العقيلی نے (( الضعفاء الكبير ))(1/35) نقل کیا ہے .
اور امام البيهقى نے (( شعب الإيمان ))(3/305/3608) اور(( فضائل الأوقات ))(37،38) ، وابن عبد الغنى المقدسى نے (( التقييد ))(ص205) اور الحارث بن أبى أسامہ نے (321. زوائد الهيثمى ) ، اور العقيلی نے (( الضعفاء الكبير ))(1/35) نقل کیا ہے .
میں کہتا ہوں کہ یہ حدیث سند اورمتن دونوں کے اعتبارسے صحیح نہیں
ہے :
(1) سند کے اعتبار سے یہ حدیث صرف على بن زيد بن
جدعان سے نقل ہوا ہے آور ابن جدعان سے جتنے نقل کرتے ہیں سب کمزور غیر ثقہ روای
روایت کرتے ہیں ، ، اور ابن جدعان جو اس حدیث کا مرکزی راوی ہے امام ذھبی نے
الکاشف 2/278 میں ان کو (أحد الحفاظ لیس بالثبت)
حدیث میں مضبوط نہیں تھا /اور( حماد فرما تے ہیں کان
یقلب الأحاديث) کے احادیث میں رد و بدل کر تے تھے .
امام العجلی فرما تے ہیں یکتب حدیثه ولیس بالقوی وکان یتشیع /2/248 الثقات للعجلی .
امام العجلی فرما تے ہیں یکتب حدیثه ولیس بالقوی وکان یتشیع /2/248 الثقات للعجلی .
کہ اسکے حدیث لکھی جاسکتی ہے لیکن یہ حدیث میں پکھا نہیں ہے اور یہ
شیعہ تھا .
اب فیصلہ خود کریں؟
امام النووی فرماتے ہیں(وهو ضعیف عند المحدیثن )
ابن خثیمۃ فرماتے ہیں کان لایحفظ الحدیث /اس کو حدیث یاد نہیں تھا /1/305 تاریخ ابن خثیمۃ
امام یزید بن زریع فرماتے ہیں (لقدلقیت علی بن زيد ولم احمل عنه فإنه کان رافضیا) /الكامل فی ضعفاء الرجال /6/130.
کہ میں نے علی بن زید کو دیکھا میں نے اسے حدیث نہیں لیااسلے کے یہ رافضی تھا یعنی شیعہ تھا /6/235 الكامل
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں لیس بشئ/کے یہ حدیث میں کچھ بھی نہیں ہے .
اس طرح یحی ابن معیں فرماتے لیس بذاک القوی/حدیث میں مضبوط نہیں تھا /تاریخ ابن معیں/1/123
علامة الألبانى " الضعيفة" (ج2 ص 263
فرمایا کہ یہ حدیث اس سند کے ساتھ ضعیف ہے اس میں علی بن زيد بن جدعان ہے ، اور یہ ضعيف روای ہیں جیسے کہ امام أحمد وغيره نے کہا ہے ، اور امام بن خزيمة نے بھی کہا ہے : " لا أحتج به لسوء حفظه "کے میں اسے احتجاج نہیں کرتا ہوں اس کا حافظہ خراب تھا اسلے جب روایت کو اپنے کتاب میں ذکر کیا تو فرمایا " إن صح الخبر " . اگر یہ بات صحیح ہو؛ امام المنذري نے " الترغيب میں " (2/67 ) جب اس حدیث کو کو ذکر کیا تو اس نے غلطی سے؛ صح الخبر؛ لکھدیا کہ یہ حدیث صحیح ہے .
اب فیصلہ خود کریں؟
امام النووی فرماتے ہیں(وهو ضعیف عند المحدیثن )
ابن خثیمۃ فرماتے ہیں کان لایحفظ الحدیث /اس کو حدیث یاد نہیں تھا /1/305 تاریخ ابن خثیمۃ
امام یزید بن زریع فرماتے ہیں (لقدلقیت علی بن زيد ولم احمل عنه فإنه کان رافضیا) /الكامل فی ضعفاء الرجال /6/130.
کہ میں نے علی بن زید کو دیکھا میں نے اسے حدیث نہیں لیااسلے کے یہ رافضی تھا یعنی شیعہ تھا /6/235 الكامل
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں لیس بشئ/کے یہ حدیث میں کچھ بھی نہیں ہے .
اس طرح یحی ابن معیں فرماتے لیس بذاک القوی/حدیث میں مضبوط نہیں تھا /تاریخ ابن معیں/1/123
علامة الألبانى " الضعيفة" (ج2 ص 263
فرمایا کہ یہ حدیث اس سند کے ساتھ ضعیف ہے اس میں علی بن زيد بن جدعان ہے ، اور یہ ضعيف روای ہیں جیسے کہ امام أحمد وغيره نے کہا ہے ، اور امام بن خزيمة نے بھی کہا ہے : " لا أحتج به لسوء حفظه "کے میں اسے احتجاج نہیں کرتا ہوں اس کا حافظہ خراب تھا اسلے جب روایت کو اپنے کتاب میں ذکر کیا تو فرمایا " إن صح الخبر " . اگر یہ بات صحیح ہو؛ امام المنذري نے " الترغيب میں " (2/67 ) جب اس حدیث کو کو ذکر کیا تو اس نے غلطی سے؛ صح الخبر؛ لکھدیا کہ یہ حدیث صحیح ہے .
(2)اس میں انقطاع ہے سعيد بن المسيب نے سلمان
الفارسي رضي الله عنه سے کچھ نہیں سنا ہے اور نہ ملاقات ہوئی ہے
تو سندکے اعتبارسے ضعیف ہیں اور اس کا جو متابع ہے وہ سب کمزور ہے اور محدثین نے اس کو منکر حدیث کرار دیا ہے.
تو سندکے اعتبارسے ضعیف ہیں اور اس کا جو متابع ہے وہ سب کمزور ہے اور محدثین نے اس کو منکر حدیث کرار دیا ہے.
(3)اور یہ حدیث متن کے اعتبار سے بھی صحیح نہیں ہے ،
اس میں ایسے الفاظ نقل ہوئے ہیں جس کے ثبوت میں شک ہے
، ، مثلاً اس مہینے کو تین حصوں میں تقسیم کرنا: پہلے دس کو رحمت پھرمغفرة پھر جہنم سے نجات کااور اس بات پر کوئی دلیل نہیں ہے ، بلکہ اللہ کی فضل تو وسیع تر ہے ، اوررمضان سب رحمة اور مغفرة ،اور جہنم سے روزانہ افطاری کے وقت اللہ چٹکارہ عطاء فرماتے ہیں جیسے کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے .
، ، مثلاً اس مہینے کو تین حصوں میں تقسیم کرنا: پہلے دس کو رحمت پھرمغفرة پھر جہنم سے نجات کااور اس بات پر کوئی دلیل نہیں ہے ، بلکہ اللہ کی فضل تو وسیع تر ہے ، اوررمضان سب رحمة اور مغفرة ،اور جہنم سے روزانہ افطاری کے وقت اللہ چٹکارہ عطاء فرماتے ہیں جیسے کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے .
اور اسطرح : جو اس حدیث میں ہے کہ ( جس نے اس میں کوئی نفل نماز
ادا کیا اس نے فرض آدا کیا ) اس بات پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ نفل نماز نفل
ہیں اور فرض نماز فرض ہے وہ رمضان میں ہو یاغیر رمضان میں . واللہ اعلم
[1] هذا جزء من حديث رواه سيدنا سلمان الفارسي، فهو حديث طويل
قال فيه: (خطبنا رسول الله صلي الله عليه وسلم في آخر يوم من شعبان قال: يا أيها
الناس قد أظلكم شهر عظيم مبارك شهر، فيه ليلة خير من ألف شهر شهر جعل الله صيام
نهاره فريضة وقيام ليله تطوعًا.. حتي يقول وهو شهر أوله رحمة وأوسطه مغفرة وآخره
عتق من النار)، والحديث رواه ابن خزيمة في صحيحه، ورواه البيهقي في شعب الإيمان . اكبر
حسين اوركزئي
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں