جمعہ، 15 جون، 2018

بائیں ہاتھ سے تسبیح پڑھنے کی تحقیق



قرآن و حدیث میں ذکر وتسبیح کی بڑی فضیلت آئی ہے۔
"ذکر اللہ " کے لغوی مفہوم میں اگرچہ کافی عموم ہے۔ نمازوغیرہ کو بھی یہ شامل ہے۔ لیکن اس کا اصطلاحی اطلاق  تسبیح وتہلیل وغیرہ پر زیادہ ہے۔
اذکار وتسبیح   کے شمار کرنے میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک انگلیوں کے پوروں پہ گننا ثابت و مروی ہے۔

(۱) عن عبد اللّٰہ بن عمرو قال: رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعقد التسبیح - قال ابن قدامة - بیمینہ ․ (سنن ابی داود، ابواب الوتر، باب التسبیح بالحصی ۱/۲۱۰ وسکت عنہ ابوداود، ونقل المنذری تحسین الترمذی واقرہ واخرجہ الترمذی وفی روایتہ: بیدہ، واخرجہ ابن حبان ایضا بلفظ بیدہ)
”حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا، کہ آپ تسبیح شمار فرمارہے تھے - اس سند کے امام ابوداؤد رحمہ اللہ کے شیخ ثانی ابن قدامہ نے اس روایت میں ”بیمینہ“ (دائیں ہاتھ مبارک سے) کا اضافہ نقل کیا ہے۔جس کے معنی یہ ہوں گے کہ آپ اپنے دائیں دست مبارک سے تسبیح شمار فرمارہے تھے۔“

2۔۔عن یسیرة وکانت من المہاجرات قالت: قال لنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: علیکن بالتسبیح والتہلیل والتقدیس واعقدن بالانامل فانہن مسئولات مستنطقات ولا تغفلن فتنسین الرحمة․ قال الترمذی: ہذا حدیث انما نعرفہ من حدیث ہانی بن عثمان ․ (جامع الترمذی، ابواب الدعوات، احادیث شتّی ۲/۱۹۹ سنن ابی داود، کتاب الصلاة، ابواب الوتر، باب التسبیح بالحصی ۱/۲۱۰ الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ۲/۱۰۳ حدیث: ۸۳۹، مسند احمد ۶/۴۰۲ حدیث: ۲۷۱۵۴، وحسّنہ النووی فی ”الاذکار“ ص:۲۲ وابن حجر فی ”نتائج الافکار“ ۱/۸۴)
”حضرت یسیرہ (بنت یاسر) رضی اللہ عنہا سے جو مہاجرات میں سے ہیں، روایت ہے، کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہم سے ارشاد فرمایا، کہ تم تسبیح (سبحان اللہ کہنا)، تہلیل (لا الہ الا اللہ کہنا)، اور تقدیس  کو لازم پکڑو، اور ان کو انگلیوں کے پوروں سے شمار کرو، اس لیے کہ (دیگر اعضاء کی طرح) پوروں سے بھی (قیامت کے دن ان سے کیے گئے اعمال کے بارے میں) سوال کیا جائے گا، اور ان میں گویائی پیدا کرکے ان کو بُلوایا جائے گا۔ اور ذکر سے غافل مت ہوؤ یعنی ذکر کو مت چھوڑو، ورنہ تم رحمت کو یعنی سبب رحمت کو چھوڑنے والی ہوں گی۔“

ان دونوں حدیثوں میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا *قول اور عمل* انگلیوں کے پوروں پہ تسبیحات شمار کرنے کا ہونا مصرح ہے۔وہیں اس سلسلے میں کسی مخصوص ہاتھ کے پوروں کی تعیین وتحدید بھی نہیں کی گئی ۔بلکہ اس کے طریقے وکیفیت کے سلسلے میں یک گونہ آزادی دی گئی ہے۔اور اس  جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ اس عمل خیر میں ہاتھ کے زیادہ سے زیادہ پوروے شریک ہوں تاکہ روز قیامت گواہی دے سکیں ۔
اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں متعدد صحابہ وامہات المومنین نے کنکریوں اور کھجور کی گٹھیوں پر بھی تسبیحات شمار کی ہیں۔جنہیں آپ نے دیکھا اور کچھ نکیر کئے بغیر اسے برقرار رکھا۔مثلا :

عن سعد بن ابي وقاص انہ دخل مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علٰی امرأة وبین یدیہا نوی اوحصی تُسبِّحُ بہا، فقال: (الا) اخبرک بما ہو ایسر علیک من ہذا او افضل، فقال: سبحان اللّٰہ عدد ما خلق فی السماء وسبحان اللّٰہ عدد ما خلق فی الارض وسبحان اللّٰہ عدد ما خلق بین ذلک وسبحان اللّٰہ عدد ما ہو خالق، واللّٰہ اکبر مثل ذلک، والحمد للّٰہ مثل ذلک، ولا الہ الا اللّٰہ مثل ذلک، ولا حول ولاقوة الا باللّٰہ مثل ذلک․ (سنن ابی داود، ابواب الوتر، باب التسبیح بالحصی ۱/۲۱۰، جامع ترمذی، احادیث شتّی من ابواب الدعوات وقال الترمذی: حسن غریب ۲/۱۹۷، واخرجہ ابن حبان: الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ۲/۱۰۱ حدیث: ۸۳۵ والحاکم وقال الحاکم: صحیح الاسناد ووافقہ الذہبی: المستدرک للحاکم ج:۱، ص:۵۴۷، ۵۴۸، والطبرانی فی الدعاء ۳/۱۵۸۴ حدیث: ۱۷۳۸)

”حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی معیت میں ایک خاتون کے پاس پہنچے ( ام المومنین )دراں حالیکہ اس خاتون کے سامنے کھجور کی گٹھلیاں یا سنگریزے تھے، وہ ان گٹھلیوں یا کنکریوں پر تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ میں تم کو وہ نہ بتادوں،جو تمہارے لیے اس سے زیادہ آسان ہے یا فرمایا کہ اس سے افضل ہے، پھر آپ نے فرمایا: (کہ تم اس طرح کہو:) سبحان اللّٰہ عدد ما خلق فی السماء و سبحان اللّٰہ عدد ما خلق فی الارض وسبحان اللّٰہ عدد ما بین ذلک و سبحان اللّٰہ عدد ما ہو خالق اللّٰہ أكبر عدد ما ہو خالق .  (اللہ اکبر عدد ما خلق فی السماء واللہ اکبر عدد ما خلق فی الارض ․․․) الحمد للہ اسی طرح، لا الہ الا اللہ اسی طرح اور لاحول و لاقوة الا باللہ اسی طرح۔“
(۲)   وعن حفصة قالت
دخل علیّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وبین یدی اربعة آلاف نواة اسبح بہا (بہن) قال: لقد سبّحت بہذہ، الا اعلمک باکثر ممّا سبحت بہ فقلت: بلی علمنی فقال: قولی: سبحان اللّٰہ عدد خلقہ․ (جامع الترمذی، ابواب الدعوات، باب بلا ترجمة قبیل احادیث شتّی من ابواب الدعوات، وقال الترمذی: ہذا حدیث غریب لانعرفہ من حدیث صفیة الا من ہذا الوجہ من حدیث ہاشم بن سعید الکوفی ولیس اسنادہ بمعروف ۲/۱۹۵ و اخرجہ الحاکم فی المستدرک ۱/۵۴۷ وقال: ہذا حدیث صحیح الاسناد ولم یخرجاہ، ووافقہ الذہبی)
”حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، دراں حالیکہ میرے سامنے کھجور کی چار ہزار گٹھلیاں تھیں، جن کے ذریعہ میں تسبیح پڑھ رہی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے ان کے ذریعہ جتنی تسبیح پڑھی، میں اس سے زیادہ تم کو نہ بتلاؤں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں! مجھے سکھائیے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: تم کہو: سبحان اللہ عدد خلقہ“۔
ان دونوں روایتوں سے ثابت ہے کہ آپ نے صحابہ کرام کو کنکروں اور گٹھلیوں پر بھی تسبیح پڑھنے کو جائز قرار دیا ہے۔اس سلسلے کی مزید روایات و آثار کے لئے  ”سنن ابی دائود“ ”باب التسبیح بالحصی“ (سنن ابی داود، ابواب الوتر ۱/۲۱۰)
اور  ”نیل الاوطار“  للشوکانی ”باب جواز عقد التسبیح بالید وعدّہ بالنوی ونحوہ“ (نیل الاوطار ۲/۳۱۶) کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔(ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10-11، جلد: 91 ‏، رمضان-ذی قعد 1428 ہجری مطابق اکتوبر -نومبر2007ء)

دور جدید کے دھاگے دار تسبیح کے دانوں پر اذکار شمار کرنے کے جواز کی دلیل بھی یہی روایت ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ"مجموع فتاوی، جلد۔٢٢ص -٥٠٦- لکھتے ہیں :

وعد التسبيح بالأصابع سنة كما قال النبي صلى الله عليه وسلم للنساء‏:‏ ‏"‏سبحن واعقدن بالأصابع فإنهن مسؤولات مستنطقات‏"‏‏.‏ وأما عده بالنوى والحصى ونحو ذلك، فحسن‏.‏ وكان من الصحابة رضي الله عنهم من يفعل ذلك، وقد رأى النبي صلى الله عليه وسلم أم المؤمنين تسبح بالحصى، وأقرها على ذلك، وروي أن أبا هريرة كان يسبح به‏.‏
وأما التسبيح بما يجعل في نظام من الخرز، ونحوه، فمن الناس من كرهه، ومنهم من لم يكرهه، وإذا أحسنت فيه النية، فهو حسن غير مكروه، وأما اتخاذه من غير حاجة، أو إظهاره للناس مثل تعليقة في العنق، أو جعله كالسوار في اليد، أو نحو ذلك فهذا إما رياء للناس، أو مظنة المراءاة ومشابهة المرائين من غير حاجة‏.‏ الأول محرم، والثاني أقل أحواله الكراهة؛ فإن مراءاة الناس في العبادات المختصة كالصلاة والصيام والذكر وقراءة القرآن من أعظم الذنوب۔"

 انگلیوں پر تسبیح پڑھنا سنت ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے کہا تھا کہ اپنی انگلیوں پر تسبیح پڑھو کیونکہ ان انگلیوں سے بھی قیامت کے دن سوال ہو گا اور یہ کلام کریں گی۔ جہاں تک تسبیح کو گھٹلی یا کنکری وغیرہ پر پڑھنے کا تعلق ہے تو یہ بھی بہتر ہے کیونکہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے ایسا کرنا مروی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین کو کنکریوں پر تسبیح پڑھتے دیکھا تو اس سے روکا نہیں۔ اسی طرح حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ بھی کنکریوں پر تسبیح پڑھتے تھے۔
جہاں تک اس تسبیح کا تعلق ہے جو ایک دھاگے میں پرو کر تیار ہوتی ہے تو بعض اہل علم اس کو مکروہ سمجھتے ہیں اور بعض مکروہ نہیں سمجھتے ہیں۔ پس اگر تیری نیت اچھی ہو ( مثلا ہر وقت اپنی زبان کو ذکر سے تر رکھنا وغیرہ کی عادت ڈالنا ) تو ایسا کرنا بہتر ہے اور اس میں کراہت نہیں ہے۔ اور اگر ایسا بغیر کسی وجہ کے کیا جائے یا لوگوں کو دکھلانے کے لیے ہو کہ اس تسبیح کو گردن میں لٹکا لے یا ہاتھ میں گنگن کی طرح لپیٹ لے وغیرہ تو یہ عمل یا تو ریاکاری کے سبب سے کیا جاتا ہے یا ریاکاری اور ریاکاروں سے مشابہت کی صورت ہے۔ پہلی صورت یعنی ریاکاری کے لیے تسبیح پکڑنا حرام ہے جبکہ دوسری صورت یعنی ریاکاری یا ریاکاروں کے عمل سے مشابہت کا کم تر درجہ بھی کراہت ہے۔ مخصوص عبادات مثلا نماز، روزہ، ذکر اور تلاوت قرآن وغیرہ میں دکھلاوا کرنا عظیم ترین گناہوں میں سے ہے۔

 علامہ شوکانی فرماتے ہیں:
والحدیثان الاخران (حدیث سعد بن ابی وقاص الذی اخرجہ ابوداود والترمذی وغیرہما وحدیث صفیة الذی اخرجہ الترمذی والحاکم وصححہ السیوطی) یدلاّن علٰی جواز عدّ التسبیح بالنوی والحصی وکذا بالسبحة لعدم الفارق لتقریرہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم للمرأتین علٰی ذلک وعدم انکارہ․ (نیل الاوطار ۲/۳۱۶)
تحفة الأحوذي   میں ہے :
ویدلّ علٰی جواز عدّ التسبیح بالنوی والحصی حدیث سعد بن ابی وقاص․․․ وحدیث صفیة ․․․ (تحفة الاحوذی بشرح جامع الترمذی ۹/۳۲۲)

وفیہ دلیل علٰی جواز عدّ التسبیح بالنوی والحصی وکذا بالسبحة لعدم الفارق لتقریرہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم للمرأة علٰی ذلک وعدم انکارہ ․․․ (تحفة الاحوذی ۱۰/۱۲)
ہکذا فی بذل المجہود شرح سنن ابی داود“ ۶/۲۲۹ دارالبشائر الاسلامیہ)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الروایات فی التسبیح بالنوی والحصی کثیرة عن الصحابة وبعض امہات الموٴمنین؛ بل رآہا النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم واقرہا․ (مجموعة رسائل اللکنوی ۱/۱۳۲۔بحوالہ مولانا مفتی عمر لوہاروی صاحب یو کے ۔ماہنامہ دارالعلوم دیوبند  )
یعنی باتفاق جمہور علماء کرام دھاگہ دار تسبیح پر اذکار شمار کرنا بھی اگرچہ جائز ہے لیکن جیساکہ حدیث سے واضح ہوا کہ انگلیوں کے پوروں پہ شمار کرنا زیادہ اولی وبہتر ہے ۔

پہر اوپر کی  جس حدیث میں یہ آیا ہے کہ "اے خواتین ! انگلیوں کے پوروں سے تسبیحات کو شمار کرو کہ ان سے بھی پوچھ ہوگی اور ان کو بھی گویائی عطا کی جائےگی"۔
اس ارشاد میں آپ ﷺ نے دائیں اور بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں کوئی فرق نہیں فرمایا ہے، البتہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم كان يُحِبُّ التَّيامُنَ ما استطاع: في طُهورِه وتنَعُّلِه وترَجُّلِه قال شُعبةُ: ثمَّ سمِعْتُ الأشعثَ بواسِطَ يقولُ: ( يُحِبُّ التَّيامُنَ - وذكَر شأنَه كلَّه ثمَّ قال: - شهِدْتُه بالكوفةِ يقولُ: يُحِبُّ التَّيامُنَ ما استطاع .
الراوي: عائشة المحدث: ابن حبان - المصدر: صحيح ابن حبان - الصفحة أو الرقم: 1091
خلاصة حكم المحدث: أخرجه في صحيحه
"آپ ﷺ وضو، کنگھا کرنے اور جوتا پہننے میں بھی اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ دائیں طرف سے ابتداء کی جائے"۔
اس لئے  دائیں ہاتھ کی انگلیوں پر تسبیح پڑھنا بہتر اور اولی ہے۔پہلے دائیں ہاتھ پہ پڑھے۔ضرورت پڑنے پر  پھر بائیں ہاتھ کی انگلیوں پر بھی تسبیح پڑھنا بلا کراہت جائز ہے۔
کیونکہ بائیں ہاتھ کو عربی میں
"اليسرى " کہتے ہیں ۔
جس کے معنی ہی سہولت اور آسانی کے آتےہیں ۔اسی لئے مالداری کو "یسار " کہتے ہیں۔تو بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ میں تسبیح وغیرہ گننے میں مددگار اور سہولت کار ہونے کی وجہ سے "الیسری " کہا جاتا ہے۔
امام رازی لکھتے ہیں :
[اليسر في اللغة معناه: السهولة؛ ومنه يقال للغنى والسعة: اليسار؛ لأنه يسهل به الأمور، واليد اليسرى قيل: تلي الفعال باليسر، وقيل: إنه يتسهل الأمر بمعونتها اليمنى۔ اهـ."مفاتيح الغيب" (5/258، ط. دار إحياء التراث العربي)

امام قرطبی بھی اپنی تفسیر میں یہی لکھتے ہیں ۔
 [سميت اليد اليسرى تفاؤلا، أو لأنه يسهل له الأمر بمعاونتها لليمنى] اهـ. القرطبي في "تفسيره" (2/301، ط. دار الكتب المصرية)

افضل الذکر قرآن کریم کی تلاوت ہے ۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اور تابعین نے اس افضل الذکر کو بائیں ہاتھ سے شمار فرمایا ہے ۔ملاحظہ ہو :
حافظ ابو عمرو دانی اپنی کتاب: البیان فی عد آي القرآن  میں روایت نقل کرتے ہیں :
: «أَن النَّبِي صلى الله عليه وآله وسلم كَانَ يعد ﴿بِسم الله الرَّحْمَن الرَّحِيم﴾ آيَةً فاصلة، ﴿الْحَمد لله رب الْعَالمين الرَّحْمَن الرَّحِيم مَالك يَوْم الدّين﴾ وَكَذَلِكَ كَانَ يَقْرؤها،
﴿إياك نعْبد وَإِيَّاك نستعين اهدنا الصِّرَاط الْمُسْتَقيم﴾ إِلَى آخرهَا سبع، وَعقد بِيَدِهِ الْيُسْرَى وَجمع بكفيه».وأخرج أيضًا عَن التابعيِّ الجليل ابْن سِيرِين:
"أَنه كَانَ يعد الْآي فِي الصَّلَاة بِشمَالِهِ".

وأخرج عَن التابِعيَّيْن الجليلين طَاوُوس وَمُحَمّد بن سِيرِين: "أَنَّهُمَا كَانَا لَا يريان بَأْسًا بِعقد الْآي فِي الصَّلَاة، وَكَانَ
ابْن سِيرِين يعْقد بِشمَالِهِ".

وأخرج عن إِبْرَاهِيم بن سعد عَن أَبِيه: "أنه رأى عُرْوَة بن الزبير رضي الله عنه يعْقد الآي بيساره فِي الصَّلَاة".۔۔۔۔
الحافظ أبو عمرو الداني في كتابه "البيان في عدّ آي القرآن" (ص: 66، ط. مركز المخطوطات والتراث۔ بَاب ذكر من رأى العقد باليسار،
(شیخ مصراوی کے پیج سے )

جب دوران نماز قرآنی آیات بائیں ہاتھ سے شمار کی جاسکتی ہیں تو خارج نماز تسبیحات بائیں ہاتھ سے شمار کرنے میں کون سی قباحت ہے ؟؟؟
آخر یہ بھی تو قابل غور ہے کہ رکوع میں ،سجدے میں جاتے اور اٹھتے ہوئے۔رفع یدین میں ۔دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے میں ، معوذتین پڑھ کر بدن پر پہونک مارنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دونوں ہاتھ کا استعمال فرمایا ہے تو تسبیحات شمار کرنے میں دونوں ہاتھ استعمال کیوں نہ ہوں؟ ؟
اگر تسبیح شمار کرنے کے لئےبائیں ہاتھ میں کوئی خرابی ہے تو ان مذکورہ جگہوں میں یہ خرابی کیوں نہیں ؟؟؟

 حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا هِشَامٌ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْفُثُ عَلَى نَفْسِهِ فِي الْمَرَضِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ فَلَمَّا ثَقُلَ كُنْتُ أَنْفِثُ عَلَيْهِ بِهِنَّ وَأَمْسَحُ بِيَدِ نَفْسِهِ لِبَرَكَتِهَا فَسَأَلْتُ الزُّهْرِيَّ كَيْفَ يَنْفِثُ قَالَ كَانَ يَنْفِثُ عَلَى يَدَيْهِ ثُمَّ يَمْسَحُ بِهِمَا وَجْهَهُ
صحيح البخاري5403
بَاب الرُّقَى بِالْقُرْآنِ وَالْمُعَوِّذَاتِ

 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا بَكْرٌ وَهُوَ ابْنُ مُضَرَ عَنْ ابْنِ الْهَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا سَجَدَ الْعَبْدُ سَجَدَ مَعَهُ سَبْعَةُ أَطْرَافٍ وَجْهُهُ وَكَفَّاهُ وَرُكْبَتَاهُ وَقَدَمَاهُ
صحيح مسلم 491

عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات اعضاء: چہرہ ، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں قدم سجدہ کرتے ہیں“۔
صحیح مسلم/الصلاة ۴۴ (۴۹۱)، سنن الترمذی/الصلاة ۹۱ (۲۷۲)، سنن النسائی/التطبیق ۴۱ (۱۰۹۵)، ۴۶ (۱۱۰۰)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۹ (۸۸۵)، (تحفة الأشراف: ۵۱۲۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۰۶) (صحیح)

دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں سے تسبیح واذکار شمار کی جاسکتی ہیں۔شرعا کوئی حرج نہیں ۔
والله أعلم بالصواب
شكيل منصور القاسمي
مركز البحوث الإسلامية العالمي
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دائیں ہاتھ سے تسبیح پڑھنا مسنون ہے، ایک حدیث میں صراحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں ہاتھ سے تسبیح پڑتھے تھے، نیز حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اچھے کاموں کے لیے داہنے ہاتھ کا استعمال فرماتے تھے ، لہذا دائیں ہاتھ سے تسبیح پڑھنا بہتر ہوگا،تاہم بائیں ہاتھ سے بھی تسبیح پڑھنا ناجائز نہیں ہے۔ قال النووي: روینا في سنن أبي داوٴد والترمذي وفي سنن النسائي باسناد حسن عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہماقال: رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعقد التسبیح۔ وفي روایة: بیمینہ۔ ( الأذکار للنووي: ۱/۱۸، تحقیق: عبد القادر الأرنوٴوط، ط: دار الفکر، بیروت )وقال العیني: عن عبد اللّٰہ بن عمرو قال: رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعقد التسبیح۔ قال ابن قدامة: بیمینہ۔ ( شرح أبي داوٴد للعیني:۵/۴۱۳، کتاب الصلاة، باب التسبیح بالحصی، ط:مکتبة الرشد، الریاض ) و عن عائشة رضي اللّٰہ عنہا قالت: کانت ید رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الیمنی لطہورہ و طعامہ، وکانت ید الیسری لخلائہ وما کان من الأذی۔ ( أبو داوٴد، ص: ۵، ط: مکتبہ، بلال، دیوبند ) فتاوی دار العلوم (۱۷/۱۰۵، ذکر و دعا کا بیان ) میں ہے: سوال: بائیں ہاتھ سے تسبیح کا پڑھنا روا ہے یا نہیں؟ الجواب: بہتر داہنا ہاتھ ہے۔ 

واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،د ارالعلوم دیوبند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
ذِکْرِ اِلٰھِی کے لئے تسبیح یا بائیں ہاتھ کا استعمال
متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت اسلامیہ میں بعض اذکار گنتی کے ساتھ بھی مطلوب ہیں اور یہ تعداد مختلف طریقوں سے پوری کی جاسکتی ہے، مثلاً صرف دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے، دونوں ہاتھ کی انگلیوں سے، کنکریوں سے، کھجور یا کسی اور چیز کی گٹھلی سے یا اسی طرح تسبیح کے ذریعہ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ذکر کے لئے گنتی کرنے کا کوئی خاص طریقہ معین نہیں فرمایا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   اپنے مبارک ہاتھ پر تسبیح پڑھا کرتے تھے۔ (ترمذی ۳۴۱۱ اور ۳۴۸۶، نسائی۸۱۹ اور ۱۲۷۸، ابن ماجہ، ابوداود۵۰۶۵، مسند احمد ۲/۲۰۴، بیہقی، صحیح ابن حبان، مصنف عبدالرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ، بزار، الادب المفرد للبخاری۱۲۱۶) اس حدیث میں دائیں یا بائیں ہاتھ کی تعیین کے بغیر بیان کیا گیا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم   اپنے ہاتھ پر تسبیح پڑھا کرتے تھے۔ البتہ ابو داود کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے داہنے ہاتھ پر تسبیح پڑھا کرتے تھے۔ یہ حدیث ایک سند کے علاوہ باقی تمام سندوں سے دائیں (یمین) لفظ کے بغیر وارد ہوئی ہے۔ اس لئے اکثر محدثین نے دائیں لفظ کے اضافہ کوشاذ تسلیم کیا ہے، یعنی دائیں (یمین) کا لفظ راوی (محمد بن قدامہؒ ) کی طرف سے بڑھایا ہوا ہے۔ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے صحابہ کرام کا مختلف چیزوں پر گنتی کرکے ذکر کرنااحادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے زندگی میں ایک مرتبہ بھی کسی صحابی کو انگلیوں کے علاوہ کسی اور چیز پر گنتی کرکے ذکر کرنے سے نہیں روکا ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   سے دائیں یا بائیں ہاتھ کی تحدید کے بغیر ہاتھ پر تسبیح پڑھنا ثابت ہے، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کو اپنے ہاتھ مبارک کی انگلیوں پر تسبیح شمار کرتے دیکھا۔ (ترمذی، باب ما جاء فی عقد التسبیح بالید(آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عورتوں کو دائیں یا بائیں ہاتھ کی تحدید کے بغیر انگلیوں پر تسبیح پڑھنے کا حکم دیا۔ (ترمذی، باب فی فضل التسبیح(ام المؤمنین حضرت صفیہ بنت حییؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   میرے پاس تشریف لائے ، میرے پاس چار ہزار کھجور کی گٹھلیاں رکھی ہوئی تھیں جن پر میں تسبیح پڑھا کرتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا : حیی کی بیٹی! یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: ان گٹھلیوں پر میں تسبیح پڑھ رہی ہوں۔ (ترمذی ۴/۲۷۴ ۳۵۵۴، رواہ الحاکم فی المستدرک ۱/۷۳۲ وقال ہذا حدیث صحیح، ووافقہ الذھبی ۱/۵۴۷(حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ایک صحابیہ کے پاس گیا جن کے سامنے گٹھلیاں یا کنکریاں رکھی ہوئی تھیں جن پر وہ تسبیح پڑھا کرتی تھیں۔ (ترمذی ۵/۵۶۲ ۳۵۶۸، ابوداود ۔ باب التسبیح بالحصی ۱۵۰۰(حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ گٹھلیوں پر تسبیح پڑھا کرتے تھے۔ (ترمذی ۸/۷۱، مسند احمد ۲/۵۴۰، ابوداود ، مصنف ابن ابی شیبہ ۲/۱۶۰ ) * حضرت جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا گٹھلیوں پر تسبیح پڑھا کرتی تھیں۔ (مسند احمد، ابو داود(تسبیح کے متعلق علماء کرام کے اقوال:متعدد احادیث صحیحہ کی روشنی میں جمہور محدثین، فقہاء اور علماء کرام کی رائے یہی ہے کہ اذکار کی گنتی کے لئے انگلیوں کے علاوہ کھجور یا کسی اور چیز کی گٹھلی یا کنکری یا تسبیح کا استعمال کیا جاسکتا ہے، اگرچہ انگلیوں کا استعمال زیادہ بہتر ہے، کیونکہ یہ چیزیں مقصود عبادت نہیں ہیں بلکہ عبادت کا ذریعہ ہیں، مثلاً مساجد میں اسپیکر کا استعمال عبادت مقصودہ نہیں ہے بلکہ عبادت کے ایک جزء کے اداکرنے کا ذریعہ ہے، لہذا مساجد میں اسپیکر کے استعمال کی طرح تسبیح کا استعمال بھی بدعت نہیں ہے۔ ہند وپاک اور بنگلادیش کے جمہور علماء کرام بھی (جو قرآن وسنت کی روشنی میں امام ابو حنیفہ ؒ کی رائے کو اختیار کرتے ہیں) یہی فرماتے ہیں کہ تسبیح پر بھی ذکر کیا جاسکتا ہے۔ مشہور مفسر قرآن شیخ جلال الدین سیوطی مصری شافعی(متوفی ۹۱۱ھ)نے اپنی کتاب "المنحۃ فی السبحۃ" میں دلائل کے ساتھ تسبیح پر ذکر کرنے کے جواز پر جمہور علماء کاموقف تحریر فرمایا ہے۔
سعودی عرب کے مشہور ومعروف عالم دین وسابق مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن باز ؒ نے بھی یہی وضاحت کی ہے جو ان کی ویب سائٹ پر اس لنک کے ذریعہ پڑھی اور سنی جاسکتی ہے:

خلاصۂ کلام: مذکورہ احادیث صحیحہ وفقہاء وعلماء کرام کے اقوال کی روشنی میں ذکر الہی کے لئے صرف داہنا ہاتھ یا دونوں ہاتھ یا تسبیح وغیرہ کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کے اقوال وافعال کی روشنی میں برصغیر کے علماء کا بھی یہی موقف ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص دونوں ہاتھ یا تسبیح کے ذریعہ ذکر کرتا ہے تو کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اِس عمل کو بدعت کہے یا اُس شخص کو اُس کے عمل سے روکنے کی کوشش کرے، کیونکہ نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم  نے کنکری یا گٹھلی وغیرہ پر صحابہ کرام یا صحابیات کو ذکر کرنے سے کبھی نہیں روکا، اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  یا کسی صحابی یا تابعی یا تبع تابعی سے بائیں ہاتھ پر ذکر کرنے سے کوئی انکار حدیث کی کسی کتاب میں نہیں ملتا، تو ہمیں کیا حق حاصل ہے کہ ہم کسی شخص کو بائیں ہاتھ پر یا تسبیح پر ذکر کرنے سے روکیں۔ اگر ذکر کرنے کے لئے صرف دائیں ہاتھ پر ہی اکتفاء ضروری ہے تو قرآن کریم کو چھونے، اس کی طباعت اور جلدسازی کے لئے، اسی طرح بیت اللہ کا غلاف تیار کرنے اور اس کو بیت اللہ پر چڑھانے ، نیز مسجد کی تعمیر اور جانماز وغیرہ کو تیار کرنے میں صرف داہنے ہاتھ کے استعمال پر ہی اکتفاء کرنا ہوگا، اور ظاہر ہے کہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے، لہٰذا ہم دونوں ہاتھ، اسی طرح تسبیح پر بھی ذکر کرسکتے ہیں۔
محمد نجیب سنبھلی قاسمی

کوئی تبصرے نہیں: