سورۃ النساء: تفسیر آیت 24-- 29
وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَاۗءِ اِلَّا مَامَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۚ كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَاۗءَ
اور خاوند والی عورتیں مگر جن کے مالک
ہوجائیں تمہارے ہاتھ حکم ہو اللہ کا تم پر اور حلال ہیں تم کو سب عورتیں ان کے
سواء
ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ ۭ فَـمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْھُنَّ فَاٰتُوْھُنَّ
بشرطیکہ طلب کرو ان کو اپنے مال کے بدلے قید
میں لانے کو نہ مستی نکالنے کو پھر جس کو کام میں لائے تم ان عورتوں میں سے تو ان
اُجُوْرَھُنَّ فَرِيْضَةً ۭ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا تَرٰضَيْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِيْضَةِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ
کو دو ان کے حق جو مقرر ہوئے اور گناہ نہیں
تم کو اس بات میں کہ ٹھرا لو تم دونوں آپس کی رضا سے مقرر کئے پیچھے بیشک اللہ ہے
عَلِــيْمًا حَكِـيْمًا ۔ 24
خبردار حکمت والا
گزشتہ درس میں تین قسم کے
محرمات کا تذکرہ ہوچکا ہے۔
(1)
محرمات نسبیہ : نسب کے اعتبار سے ، جسے ماں ، بیٹی ، بہن وغیرہ ۔
(2)
محرمات رضاعیہ : رضاعت یعنی وہ رشتے
جو دودھ میں شرکت کی بناء پر پیدا ہوتے ہیں ۔
(3)
محرمات بالمصاہرۃ : مصاہرت یعنی
وہ رشتے جو دامادی اور سسرالی کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔
(4)
آج کے درس میں محرمات کی چوتھی اور آخری قسم
کا بیان ہے اور اس میں منکوحہ عورتیں آتی ہیں۔
یہ دسواں حکم رعیت ہے (جن عورتوں سے نکاح جائز ہے
خواہ حرہ ہوں یا لونڈیاں، ان کو مہر دینا ہوگا) اور یہ حکم آٹھویں
اور نویں حکم سے متعلق ہے۔ آٹھویں حکم میں فرمایا کہ میراث میں مال ملا کرتا ہے
عورتیں نہیں ۔ ہاں جو عورتیں خوشی سے نکاح
کرنا چاہیں ان سے نکاح کرسکتے ہو۔ نویں حکم میں فرمایا کہ یہ پندرہ عورتیں تم پر
حرام ہیں وہ اگر راضی ہوں تو بھی ان سے نکاح جائز نہیں۔ اب یہاں علی سبیل الترقی
فرمایا کہ ان کے علاوہ باقی عورتیں تم پر حلال ہیں لیکن حلت کی شرط یہ ہے کہ تم ان
کو ہمیشہ کے لیے اپنی زوجیت میں رکھنے کی غرض سے ان سے شرعی عقد کرو۔ وقتی یا چند
روزہ شہوت رانی مقصود نہ ہو اس سے متعہ کی ممانعت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ متعہ کی
غرض وغایت وقتی یا چند روزہ تمتع اور قضاء شہوت کے سوا کچھ نہیں ۔
تفسیر(24):(وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ
النِّسَاۗءِ)
اور خاوند والی یعنی منکوحہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں۔محصنہ کا ایک معنی
تو خاوند والی عورت ہے اور اس کا دوسرا معنی پاکدامنہ بھی ہوتا ہے۔ یہاں پر محصنہ
کا معنی منکوحہ یعنی خاوند والی عورت ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ عورت بھی
اپنے خاوند کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے حرام ہے۔ اور یہ قسم وقتی محرمات میں سے
ہے ابدی نہیں ۔ اگر
منکوحہ عورت کو طلاق، ہو جائے یا اس کا خاوند فوت ہو جائے تو عدت گزارنے
کے بعد دوسرے شخص کے نکاح میں جا سکتی ہے ۔ اب تک جتنی عورتوں کا ذکر آیا ہے یہ
حرمت علیکم پر عطف آرہا ہے ، یعنی فلاں فلاں عورت تم پر حرام ہے۔ اب آگے استثناء
کے طور پر فرمایا (اِلَّا مَامَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۚ) سوائے ان عورتوں کے کہ جن
کے مالک ہوجائیں تمہارے ہاتھ ، یعنی جو عورتیں لونڈی بن کر تمہاری ملکیت میں
آجائیں وہ تمہارے لیے حلال ہیں اگرچہ وہ پہلے سے منکوحہ ہوں۔ جب کوئی عورت جنگی
قیدی بن کر لونڈی میں تبدیل ہوجائے تو اس کا پہلا نکاح ختم ہوجاتا ہے اور وہ
مسلمان مرد کے لیے حلال ہوجاتی ہے۔ مگر یہ
ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ قیدیوں کو
غلام اور لونڈی میں تبدیل کرے اور پھر انھیں مسلمانوں میں تقسیم بھی کردے یہ کسی
فرد واحد کے اختیار میں نہیں ہے
کہ ازخود کسی
کو لونڈی یا غلام بنالے بلکہ جس عورت کو حاکم وقت لونڈی بنائے گا وہی لونڈی سمجھی
جائے گی اور جس آدمی کے سپرد کرے گا وہی اس
وَمَنْ
لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ يَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ
فَمِنْ مَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ
اور جو کوئی نہ
رکھے تم میں مقدور اس کا کہ نکاح میں لائے بیبیاں مسلمان تو نکاح کرلے ان سے جو تمہارے ہاتھ کا مال ہیں
مِّنْ
فَتَيٰتِكُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ۭ وَاللّٰهُ
اَعْلَمُ بِـاِيْمَانِكُمْ ۭ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ ۚ فَانْكِحُوْھُنَّ
بِاِذْنِ
جو تمہارے آپس
کی لونڈیاں ہیں مسلمان اور اللہ کو خوب معلوم ہے تمہاری مسلمانی تم آپس میں ایک ہو
سو ان سے نکاح
کرو ان کے مالکوں کی اجازت سے
اَھْلِهِنَّ
وَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ مُحْصَنٰتٍ غَيْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا
مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ ۚ
اور دو ان کے
مہر موافق دستور کے قید میں آنے والیاں ہوں نہ مستی نکالنے والیاں اور نہ چھپی
یاری کرنے والیاں ،
فَاِذَآ
اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَي
الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ ۭ
پھر جب وہ قید
نکاح میں آچکیں تو اگر کریں بےحیائی کا کام تو ان پر آدھی سزا ہے بیبیوں کی سزا سے
،
سے فائدہ
اٹھانے کا مجاز ہوگا۔ لیکن لونڈی سے فائدہ اٹھانے سے پہلے عدت گزارنا بھی ضروری
ہے۔ اسے عدت استبزاء کہتے ہیں اور ایک حیض پر مشتمل ہے۔ اگر لونڈی حاملہ ہو تو پھر
اسے وضع حمل تک عدت پوری کرنا ہوگی ، اس کے بعد وہ صنفی تعلقات قائم کرسکتی ہے ۔
محرمات کی تفصیل کے بعد فرمایا(وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَاۗءَ ذٰلِكُمْ) ان کے علاوہ
باقی تمام عورتیں تم پر حلال ہیں یعنی چار قسم کی محرمات کو چھوڑ کر تم باقی
عورتوں سے نکاح کرسکتے ہو۔ تاہم اس کے لیے کچھ شرائط بھی ہیں۔ ان میں سے پہلی شرط
یہ ہے۔(
اَنْ
تَبْتَغُوْا)
کہ تم تلاش کرو۔ یہ مرد کا فرض ہے کہ وہ اپنے لیے عورت تلاش کرے ،۔ اور دوسری شرط
یہ ہے (بِاَمْوَالِكُمْ) اپنے مالوں
کے ساتھ طلب کرو یعنی اس کے لیے مال بھی خرچ کرنا پڑے گا ، عورت کو مہر بھی ادا
کرنا ہوگا۔ نکاح کی تیسری شرط کے متعلق فرمایا(مُّحْصِنِيْنَ عورتوں کا عقد
نکاح میں لانا مقصود ہو ، احصان کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو قید نکاح میں لاکر
بےحیائی سے بچایا جائے تاکہ صنفی تقاضے صحیح طور پر پورے ہوسکیں۔ ( غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ ۭ) محض شہوت
رانی پیش نظر نہ ہو۔ سفح کے لغوی معنی بہانے کے ہیں،اسی سے
مسافحت ہے، جس کے معنی عیاشی اور بدکاری کے ہیں اس لیے کہ اس میں بھی عورت اور مرد
دونوں محض تلذذ کو مقصد قرار دے کر اپنا مادہ منی برباد کرتے ہیں۔ لہذا احصان پاکبازی
ہے اور سفاح بدکاری۔
مہر
ادا کرنا
: مہر کی اہمیت اور اس کی ادائیگی کے
متعلق پہلے بھی بیان ہوچکا ہے۔ اس مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عقد نکاح
کے بعد (فَـمَا
اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْھُنَّ) پس جو تم نے ان عورتوں سے فائدہ اٹھالیا (فَاٰتُوْھُنَّ
اُجُوْرَھُنَّ فَرِيْضَةً ) پس ان کا مقرر کیا ہوا مہر ان کو دے دو ۔ یاد
رکھو جس عورت سے نکاح کرو خواہ آزاد ہو یا لونڈی جب میاں بیوی کے درمیان خلوت صحیحہ ہوجائے یا ہم
بستری،تو مہر موکد ہوجاتا ہے اور پورا مہر ادا کرنا لازم ہوتا ہے جیسا کہ پہلے
بیان ہو چکا ہے ۔
وَلَا جُنَاحَ
عَلَيْكُمْ فِيْمَا تَرٰضَيْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِيْضَةِ ۭ ہاں اگر مہر
مقرر ہوچکنے کے بعد عورتیں اپنا پورا مہر یا اس کا کچھ حصہ معاف کردیں تو وہ
تمہارے لیے حلال ہے اس میں تم پر کوئی حرج نہیں۔
(اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِــيْمًا
حَكِـيْمًا )
بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز حتی کہ ہر ضعف ، کمزوری حاجت اور پریشانی کو جانتا ہے اور
اس کی ہر بات اور ہر حکم حکمت پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں حکمت پوشیدہ
ہے لہٰذا انسان کے لیے لازم ہے کہ اس کی تعمیل کرے۔
ذٰلِكَ لِمَنْ
خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ ۭ وَاَنْ تَصْبِرُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ ۭ وَاللّٰهُ
غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 25 ۧ
یہ اس کے واسطے
ہے جو کوئی تم میں ڈرے تکلیف میں پڑنے سے اور صبر کرو تو بہتر ہے تمہارے حق میں
اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے
تفسیر (25) :یہ ما قبل حکم
کے ساتھ متعلق ہے ، یعنی اگر کوئی آذاد عورت کے ساتھ نکاح کی طاقت نہ رکھتا
ہو تو لونڈی سے نکاح کرے ، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ) اور جو شخص
تم میں سے طاقت نہیں رکھتا۔ (طَوْلًا) کا معنی ،
قدرت مقدرت وغیرہ ہے۔ (اَنْ
يَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ) یہ کہ نکاح کرے پاکدامن مومن عورتوں سے
یعنی اگر کوئی شخص مالی لحاظ سے اتنا کمزور ہے کہ وہ آزاد عورت کے ساتھ نکاح کرنے
کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتا۔تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (فَمِنْ مَّا مَلَكَتْ
اَيْمَانُكُمْ مِّنْ فَتَيٰتِكُمُ الْمُؤْمِنٰتِ
)
اپنی مومنہ نوجوان لونڈیوں کے ساتھ نکاح کرلو۔ (مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ) کا لغوی معنی
داہنے ہاتھ کی ملکیت ہے ، مگر مراد لونڈیاں ہیں۔ لونڈی سے نکاح کرنے کی صورت یہ ہے
کہ اس لونڈی کا مالک اسے دوسرے شخص سے نکاح کرنے کی اجازت دے۔ ایسا کرنے سے لونڈی
بیوی تو دوسرے شخص کی بن جاتی ہے مگر ملکیت مالک ہی کی ہوتی ہے ، مالک اس سے حسب
منشاء خدمت تو لے سکتا ہے مگر نکاح کردینے کے بعد اس سے مجامعت نہیں کرسکتا ، تو
فرمایا کہ اگر آزاد عورت کو نکاح میں لانے کی استطاعت نہ ہو تو پھر اگر لونڈی مل
جائے تو اس کے ساتھ ہی نکاح کرلو۔
آگے ارشاد باری تعالی ہے کہ(بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ ۚ) تمہارے بعض بعض میں سے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ لونڈیاں بھی تمہاری
ہی جنس سے ہیں۔ وہ بھی آخر انسان ہیں مگر جنگی قیدی بن کر غلامی کی زنجیرروں میں
جکڑی گئی ہیں۔ لہٰذا انھیں حقیر نہ سمجھو
اور نہ ان کی تذلیل کرو۔ اللہ تعالیٰ نے
یہ الفاظ نازل فرما کر آزد اور غلام کے درمیان نفرت کو کم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور پھر لونڈی کے ساتھ نکاح کے لئے چندشرائط بیان فرمائیں ۔
پہلی شرط : (فَانْكِحُوْھُنَّ بِاِذْنِ اَھْلِهِنَّ) مومنہ
لونڈیوں سے ان کے مالکوں کی اجازت سے نکاح کرو کیونکہ اس کے بغیر تو نکاح ہو ہی
نہیں سکتا۔ حدیث شریف میں آتا ہے (أَيُّما عَبْدٍ تَزَوَّج بغَيْر
إذْن مَوَالِيهِ، فهو عاهِرٌ) رواه أبو داود والترمذي وابن ماجه.
یعنی جو غلام اپنے آقا کی
رضامندی کے بغیر نکاح کرے وہ بدکار ہے۔ لونڈیوں کے متعلق بھی یہی حکم ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ لونڈیوں کے مالکوں کی اجازت
سے نکاح کرو۔
دوسری شرط : (وَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ) ان کے مہر ان کو ادا کرو
(بِالْمَعْرُوْفِ) دستور کے
مطابق۔ یعنی جو مہر مقرر ہوا ہے اسے حیلے بہانے سے روکنے کی کوشش نہ کرو ، بلکہ دے
دو ۔ البتہ اس مہر کا مالک لونڈی کا مالک ہوگا ، کیونکہ لونڈی خود کسی چیز کی
مالکہ نہیں ہوتی۔ بایں ہمہ مہر کا ادا کرنا ضروری ہے۔
تیسری شرط : یہ ہے کہ (مُحْصَنٰتٍ)محصن تقید نکاح میں آنے والی ہوں (غَيْرَ مُسٰفِحٰتٍ)محض
شہوت رانی کے لیے نہیں بلکہ عزت وناموس کی حفاظت کی خاطر نکاح پر آمادہ ہوں ۔
چھوتی شرط : یہ ہے کہ (وَّلَا مُتَّخِذٰتِ
اَخْدَانٍ ۚ )اور نہ وہ پوشیندہ طور پر دوستی کی
خواہشمند ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ گواہوں کی موجودگی میں نکاح کا انعقاد علی الاعلان
ہو۔ اگے بیان
یہ ہے کہ لونڈیوں اور آزاد عورتوں کے احکام مختلف ہیں۔ اگر کوئی لونڈی
بےحیائی کا ارتکاب کرے تو وہ آزاد عورت کی نسبت نصف سزا کی مستحق ہے۔ (فَاِذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ
اَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَي الْمُحْصَنٰتِ مِنَ
الْعَذَابِ)
بدکاری کی صورت میں غلام یا لونڈی پر رجم نہیں ہے۔ انہیں پچاس کوڑے سزا ہوگی۔ اگے
ذکر فرمایا کہ لونڈی کے ساتھ نکاح کی اجازت صرف اس شخص کے لیے ہے جو تم میں سے
مشقت میں پڑنے سے ڈرتا ہے۔ (ذٰلِكَ
لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ) مقصد یہ ہے کہ یہ اجازت اس شخص کے لئے ہی جو ڈرتا ہو کہ میں
گناہ میں مبتلاء نہ ہو جاؤں ، تو ایسی صورت میں لونڈی کے ساتھ نکاح کی اجازت ہے۔
يُرِيْدُ
اللّٰهُ لِيُـبَيِّنَ لَكُمْ وَيَهْدِيَكُمْ سُنَنَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ
وَيَتُوْبَ عَلَيْكُمْ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ
حَكِيْمٌ 26
اللہ چاہتا ہے
کہ بیان کرے تمہارے واسطے اور چلائے تم کو پہلوں کی راہ اور معاف کرے تم کو اور
اللہ جاننے والا ہے حکمت والا
وَاللّٰهُ
يُرِيْدُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْكُمْ ۣ
وَيُرِيْدُ الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الشَّهَوٰتِ اَنْ تَمِيْلُوْا مَيْلًا
عَظِيْمًا 27
اور اللہ چاہتا
ہے کہ تم پر متوجہ ہوئے اور چاہتے ہیں وہ لوگ جو لگے ہوئے ہیں اپنے مزوں کے پیچھے
کہ تم پھر جاؤ راہ سے بہت دور
يُرِيْدُ
اللّٰهُ اَنْ يُّخَفِّفَ عَنْكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا 28
اللہ چاہتا ہے
کہ تم سے بوجھ ہلکا کرے اور انسان بنا ہے کمزور
تفسیر (26) : ربط
آیات
: محرمات نکاح کا ذکر ہوا ، اور لونڈیوں کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت اور حکمت بیان
فرمادی ، اس آیت میں احکام پر عمل کرنے کی ترغیب ہے ۔ ارشاد
ہے (يُرِيْدُ
اللّٰهُ لِيُـبَيِّنَ لَكُمْ وَيَهْدِيَكُمْ۔ الخ)نکاح سے متعلق تین احکام
بیان کرنے کے بعد بیان کی وجہ بتا دی کہ یہ نکاح کی علت و حرمت کے احکام اس لیے
بیان کیے گئے ہیں تاکہ تمہیں ان کا علم ہوجائے اور تم ان پر عمل کر کے گناہ سے بچ
سکو اور انبیاء (علیہم السلام) اور صالحین کی راہ پر چل سکو۔
تفسیر (27) :
اس آیت
کریمہ میں بھی صحیح عمل کرنے کی ترغیب ہے
تاکہ اللہ تعالی تمہاری بخشش فرمادے، ارشاد ہے (وَاللّٰهُ يُرِيْدُ اَنْ يَّتُوْبَ
عَلَيْكُمْ ) اللہ تعالیٰ تمہاری توبہ قبول کرنا چاہتا
ہے اور اپنی بخشش اور مہربانی سے تم پر رجوع کرنا چاہتا ہے، اور ان لوگوں کی
تابعداری سے منع فرمایا ، جو(يَتَّبِعُوْنَ
الشَّهَوٰتِ)
شھوتوں کے پیچھے چلتے ہیں وہ تمہیں سیدھی راہ سے دور ہٹا دینا چاہتے ہیں ، ارشاد ہے
(اَنْ
تَمِيْلُوْا مَيْلًا عَظِيْمًا ) تا کہ تم کو راہ راست سے ہٹاکر پھر گمراہی
کی طرف پھیردیں۔
تفسیر (28) : پہلے فرمایا کہ
اگرچہ خواہشات کے پیروکار تمہیں راہ راست سے دور ہٹانا چاہتے ہیں۔ مگر (يُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّخَفِّفَ عَنْكُمْ ۚ) اللہ تعالیٰ تم سے تخفیف
کرنا چاہتا ہے۔ وہ تمہاری
خواہشات کو مکمل طور پر دبانا نہیں چاہتا بلکہ انھیں جائز حد تک پورا کرنے کی
اجازت دیتا ہے۔ اگے
فرمایا (وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ
ضَعِيْفًا
)جسمانی
طور پر انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ اس کی کمزوری کو ملحوظ رکھ کر اسے خواہشات سے
مکمل دست برداری کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ اس کے لیے جائز صورتیں وضع کردی گئی ہیں
تاکہ وہ اپنے طبع تقاضوں کو پورا کرسکے۔
يٰٓاَيُّھَا
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ
اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً
اے ایمان والو
! نہ کھاؤ مال ایک دوسرے کے آپس میں ناحق ،مگر یہ کہ تجارت ہو
عَنْ
تَرَاضٍ مِّنْكُمْ ۣوَلَا تَقْتُلُوْٓا
اَنْفُسَكُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا 29
آپس کی خوشی سے
اور نہ خون کرو آپس میں بیشک اللہ تم پر مہربان ہے
گیارہواں
حکم رعیت :۔ جس کا تعلق مال کے ساتھ ہے ، پہلے تین طریقوں سے حرام مال کھانے
سے منع فرمایا تھا (1) یتیم کا مال ناحق کھانا (2)بیوی کا مہر بلا معافی دبا نا
(3) اور میراث میں سے وارثوں کا حق مار
لینا ۔ اب یہاں اہل ایمان کو آپس میں مال حرام کھانے سے عام ممانعت فرمائی کہ کسی بھی
ناجائز طریقہ سے کسی کا مال نہ کھاؤ۔ ارشاد ہے ، ( لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُم ) نہ کھاؤ اپنے
مالوں کو اپنے درمیان (بِالْبَاطِلِ) باطل طریق سے ،
اور
(بِالْبَاطِلِ) سے مراد ناجائز
اور حرام راستے ہیں۔ ہر وہ ذریعہ آمدنی جو شریعت نے حرام قرار دیا ہے ، وہ باطل
میں شمار ہوگا اس میں چوری ، ڈکیتی ، خیانت ، سود ، ہر ناجائز تجارت ، رشوت دھوکا
وغیرہ سب آجاتے ہیں۔ سورۃ البقرۃ میں گزر چکا ہے (وَلَا
تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِهَآ اِلَى
الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ
وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ١٨٨ۧ البقرہ
مفسر قرآن امام ابوبکر
جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ جس طرح دوسرے کا مال ناجائز طور پر کھانا یا استعمال کرنا
روا نہیں ، اسی طرح اپنا مال بھی ناجائز اور باطل طریقے سے استعمال کرنا حرام ہے۔
اگر اپنا مال بھی کھیل تماشے میں لگادیا یا رسومات باطلہ کی نذر کردیا ، اسراف
وتبذیر میں اڑادیا تو یہ بھی ناجائز ہے۔ البتہ ایک صورت ایسی ہے
جس میں ایک دوسرے کا مال کھایا جاسکتا ہے۔ (اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً) اور وہ ہے
ذریعہ تجارت ، تجارت کے ذریعے سے ایک فریق کو دوسرے فریق سے جو منافع حاصل ہوتا ہے
اس کا استعمال جائز ہے اور پھر تجارت بھی ایسی (عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ ) جو باہمی رضامندی سے کی جائے ، اور جو صحیح
تجارت ہے وہ رضامندی سے ہی ہوسکتی ہے۔ اگر کوئی فریق تجارتی لین دین میں راضی نہ
ہو تو وہ تجارت نہیں بلکہ زبردستی ہوگی جو کہ ناجائز ہے۔ اگے ارشاد ہے ، (وَلَا تَقْتُلُوْٓا
اَنْفُسَكُمْ)
ایک دوسرے کو قتل نہ کرو جبکہ تم ایک ہی ملت اور دعوت کے ہو اس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے کی نہی ہے۔ (ابن جریر) یا مقصد
یہ ہے کہ ، مال حرام کھانے، شرک کرنے اور اسی طرح کے دوسرے گناہوں سے اپنی جانوں
پر ظلم نہ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو کیونکہ ایسے گناہوں کا ارتکاب
اپنے آپ کو قتل کرنے اور ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ (ج)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں