تفسیر سورۃ النساء آیت نمبر 85 تا 90
مَنْ يَّشْفَعْ
شَفَاعَةً حَسَنَةً يَّكُنْ لَّهٗ نَصِيْبٌ مِّنْھَا ۚ وَمَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَةً
سَيِّئَةً يَّكُنْ لَّهٗ
جو کوئی سفارش کرے نیک بات
میں اس کو بھی ملے گا اس میں سے ایک حصہ اور جو کوئی سفارش کرے بری بات میں اس پر
بھی
كِفْلٌ مِّنْھَا ۭ
وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيْتًا ۔ 85
ہے ایک بوجھ اس میں سے اور
اللہ ہے ہر چیز پر قدرت رکھنے والا.
ربط آیات : (1)پہلے آیت
میں مومنوں کو جہاد کی ترغیب کا ذکر تھا، ابھی اس آیت میں ذکر کرتا ہے تحریض ( جس کا ایک نام شفاعت بھی ہے) بہت ثواب
کا کام ہے ۔
(2)جب نبی کریم ﷺ جہاد کی
ترغیب دیتے تو کچھ مسلمانوں کے ساتھ سمان جنگ نہیں تھا تو آپ ﷺ اصحاب استطاعت کے اگے ان کی سفارش فرماتے
تاکہ ان کی مدد ہو اور وہ شریک جھاد ہوں ، اس طرح منافقین جہاد سے پیچھے رہنے کی
سفارش کرتے تھے، تو اس آیت کریمہ میں سفارش کی دو اقسام کا حکم ذکر کر کے سفارش کی
وضاحت فرمائی ہے ۔ مجاہد بن جبر فرماتے
ہیں کہ یہ آیت لوگوں کی آپس میں ایک دوسرے کےلیے سفارشوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے
. (ابن کثیر ) ۔
تفسیر 85 : (مَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً ، جو کوئی سفارش
کرے نیک بات میں ) شفاعت در اصل شفع سے
لیا گیا ہے بمعنی جوڑا، جس کامقابل ہے وتر یعنی طاق ۔مطلب
شفاعت کے معنی ملنے یا ملانے کے ہیں۔ عرف
عام میں شفاعت کہتے ہیں کہ کسی کے لئے
کوئی سفارش کرنا تاکہ اسے فائدہ پہنچے، پھر شفاعت چاہے دنیاوی منفعت کے لئے ہو یا آخرت میں فائدہ مندہو مطلب مشفوع کو فائدہ پہنچے .(احسن الکلام )۔ پھر مفسرین
نے اس کے کئی ایک مصداقات ذکر کئے ہیں ۔ چونکہ پہلے مسئلہ قتال ذکر ہوا اس کی مناسبت سے وہ مطلب مناسب ہوگا جو قتال کے
ساتھ مناسبت رکھتا ہو ۔
(1)
کسی مؤمن کے لئے حصول آلات قتال کی سفارش کرنا ۔
(2)
جہاد کی طرف دعوت دینا ۔
(3)
توحید و سنت کی طرف دعوت دینا ۔
(4)
اپنے ایمان کے ساتھ کفار کے ساتھ قتال کو
جمع کرنا ۔
(5)
کسی کی دفع ضرر کے لئے سفارش کرنا ۔
ا س میں شرط یہ ہے کہ جائز کام کے لئے ہو اور اس پر رشوت نہ لی جائے اور نہ کوئی ہدیہ قبول کی جائے کیونکہ ابوداؤد میں حدیث ہے .
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ
السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مَالِكٍ،
عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي
عِمْرَانَ، عَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ شَفَعَ لِأَخِيهِ
بِشَفَاعَةٍ فَأَهْدَى لَهُ هَدِيَّةً عَلَيْهَا فَقَبِلَهَا، فَقَدْ أَتَى
بَابًا عَظِيمًا مِنْ أَبْوَابِ الرِّبَا. رواہ ابو داؤد.
ترجمہ: ابوامامہ
ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے
فرمایا: جس نے اپنے کسی بھائی کی کوئی
سفارش کی اور اس نے اس سفارش کے بدلے میں
سفارش کرنے والے کو کوئی چیز ہدیہ میں دی اور اس نے اسے قبول کرلیا تو وہ سود کے
دروازوں میں سے ایک بڑے دروازے میں داخل
ہوگیا ۔
اگے ارشاد ہے (يَّكُنْ لَّهٗ نَصِيْبٌ
مِّنْھَا ۚ) اسے بھی اس کے
ثواب میں حصہ ملے گا ، (نَصِيْبٌ) نصیب اس حصے
کو کہتے ہیں جس کا مقدار معلوم نہ ہو لیکن ضرور حاصل ہوتا ہے اور زیادتی ہو سکتی
ہے ۔( مِّنْھَا)میں من (سببيه )ہے یعنی
شعاعت کرنے کی سبب ، یا من ابتدائیہ ہے اور اس میں مضاف مخذوف ہے
(اي
من ثوابہا) یعنی اس کی ثواب کی وجہ سے سفارش کرنے والے کو
بھی ثواب کا حصہ ملے گا ۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں
حدیث ہے ، (اشْفَعُوا تُؤجَرُوا،
ويَقْضِي الله على لسانِ نَبِيِّه ما شاء. ) آپ ﷺ فرماتے ہیں ، سفارش کرو تمھیں اجر و ثواب ملے گا
اور اللہ تعالی جو چاہتا ہے اپنے نبی ﷺ کی زبان سےفیصلہ کرا دیتا ہے .
بخاری ۔ مجاہد بن جبر فرماتے ہیں کہ یہ
آیت لوگوں ک یآپس میں ایک دوسرے کے لیے سفارشوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے. (ابن کثیر )۔
(وَمَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَةً
سَيِّئَةً) اور جو شخص سفارش کرے گا بری سفارش، شفاعت حسنہ کے جو مصدقات
ہیں اس کے مقابل سفارشات شفاعت سئیہ ہیں ۔ یعنی کافروں کے ساتھ دوستی ، لوگوں کو
انفاق اور جہاد سے منع کرنا ، لوگوں کو شرک
بدعت اور فحاشی اور گمراہی کی طرف بلانا ، اور غیر شرعی کاموں میں سفارش
کرنا ، وغیرہ ۔ (يَّكُنْ
لَّهٗ كِفْلٌ مِّنْھَا ۭ) تو ہوگا اس کے لیے بوجھ اس سے۔ مطلب اس کے لئے بری
سفارش کے گناہ کا ایک حصہ ہوگا۔ (كِفْلٌ) کفل وہ حصہ جو
برابر ہوتا ہے اس میں زیادتی نہیں ہوتی اور یہ سئیہ کے ساتھ ہی مناسب ہے ۔
نوٹ : اس آیت کریمہ میں اچھی (شَفَاعَةً حَسَنَةً)
کے ساتھ ( نَصِیْبٌ ) کا لفظ آیا ہے اور (شَفَاعَةً سَيِّئَةً)
کے ساتھ (کِفْلٌ) کا لفظ ذکر کیا گیا ہے ۔ نصیب وہ حصہ جس میں
ذیادتی ہوسکتی ہے اور یہ لفظ حسنہ کے ساتھ مناسب ہے اور کفل وہ حصہ جو برابر ہوتا ہے اس میں زیادتی
نہیں ہوتی تو یہ سیئہ کے ساتھ مناسب ہے ۔ (احسن الکلام)
اگے
ارشاد ہے (وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ
مُّقِيْتًا) اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے
والا ہے۔ (مُّقِيْت)کے معنی لغت کے اعتبار سے
قادر و مقتدر کے بھی ہیں، اور حاضر و نگراں کے بھی، اور روزی تقسیم کرنے والے کے بھی اور اس جملہ
میں تینوں معنی مراد ہو سکتے ہیں۔
پہلے معنی کے اعتبار سے تو مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے ،
عمل کرنے والے اور سفارش کرنے والے کی جزاء یا سزاء اس کے لیے دشوار نہیں۔
دوسرے معنی کے اعتبار سے
مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ہرچیز پر نگراں و حاضر ہے اس کو سب معلوم ہے کہ کون
کس نیت سے سفارش کر رہا ہے ، محض لوجہ اللہ کسی بھلائی کی امداد کرنا مقصود ہے یا
کوئی اپنی غرض بطور رشوت کے اس سے حاصل کرتا ہے۔
تیسرے معنی کے اعتبار سے
مطلب یہ ہوگا کہ رزق و روزی کی تقسیم کا اللہ تعالیٰ خود متکفل ہے ، جتنا کسی کے
لیے لکھ دیا ہے وہ اس کو مل کر رہے گا ، کسی کی سفارش کرنے سے وہ مجبور نہیں
ہوجائے گا ، بلکہ جس کو جتنی چاہے روزی عطا فرمائے گا ، البتہ سفارش کرنے والے کو
مفت میں ثواب مل جائے گا کہ وہ ایک کمزور کی اعانت کر رہا ہے۔ حدیث میں آنحضرت
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : وَاَللَّهُ
فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ( أَخْرَجَهُ
مُسْلِمٌ عن ابي هريرة رضي الله عنه)
یعنی اللہ تعالیٰ اس وقت
تک اپنے بندہ کی امداد میں لگا رہتا ہے جب تک کہ وہ اپنی کسی مسلمان بھائی کی
امداد میں لگا رہے۔(ابن کثیر)
خلاصہ: آیت
کا خلاصہ یہ ہے ،کہ جو شخص کسی شخص کے جائز حق اور جائز کام کے لیے جائز طریقہ پر
سفارش کرے تو اس کو اس ثواب کا حصہ ملے گا، اور اسی طرح جو کسی ناجائز کام کے لیے یا ناجائز
طریقہ پر سفارش کرے گا اس کو عذاب کا حصہ ملے گا۔
..................................................................................................................
وَاِذَا
حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَــيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا ۭ
اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا ۔86
اور جب تم کو
دعا دیوے کوئی تو تم بھی دعا دو اس سے بہتر یا وہی کہو الٹ کر بیشک اللہ ہے ہر چیز
کا حساب کرنے والا
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۭ لَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ ۭ وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِيْثًا ۔ 87
اللہ کے سوا
کسی کی بندگی نہیں بیشک تم کو جمع کرے گا
قیامت کے دن اس میں کچھ شبہ نہیں اور اللہ سے سچی کس کی بات
ربط : پچھلے آیت میں شفاعت حسنہ کی ترغیب گزر گئی ، اب اس آیت میں
شفاعت حسنہ کی ایک خاص فرد سلام کو ذکر
کرتا ہے جو کہ سلامتی کی دعاء ہے اس لحاظ سے یہ بھی ایک اچھی اور جائز سفارش ہے کہ
کسی بھائی کو ایمان اور نہ ہر لحاظ سے سلامتی نصیب ہو۔
تفسیر 86 :چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے (وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ) اور جب تم کو عادی جائے سلام کے ساتھ ۔ تَحِيَّة : کا معنی کسی کی حیات(زندگی) کے لئے دعا کرنا ہے اہل عرب باہمی ملاقات کے وقت کہتے تھے حیاک اللہ ، اللہ تجھے زندگی دے اس سے لفظ تحیت نکلاجو بعد میں مطلقاسلام کہنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ اور یہاں تحیۃ سے مراد سلام شرعی ہے، یعنی لفظ السلام علیکم کے ساتھ، قرآن کریم میں لفظ تحیہ کو سلام کو کہا گیا ہے ۔ جیسا کہ( فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ)[ النور/ 61] اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے ( گھروں والوں کو ) سلام کیا کرو ۔ یہ خدا کی طرف سےتحفہ ہے۔ اسی طرح احزاب 44 میں ہے (تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهٗ سَلٰمٌ ڻ وَاَعَدَّ لَهُمْ اَجْرًا كَرِيْمًا 44 ) دعا ان کی جس دن اس سے ملیں گے سلام ہے اور تیار رکھا ہے ان کے واسطے ثواب عزت کا ۔ اور ملاحظہ کریں سورۃ ابراہیم آیت 23۔اور لفظ سلام بھی کئی ایک آیات میں مذکور ہے ، جیسا کہ سورۃ مریم آیت15 میں ہے (وَسَلٰمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوْتُ وَيَوْمَ يُـبْعَثُ حَيًّا ) 15اور 33 اور 47 آیات بھی دیکھیں ۔اور ملاحظہ کریں ، سورۃ الانعام 54 ، سورۃ طہ 47 ، سورۃ رعد 24 ۔ سورۃ نمل 59 ۔ اگے ارشاد ہے ۔
(فَحَــيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ)تو تم اس سے بہترلفظوں کے ساتھ سلام کا جواب
دو۔ مثلا اگر کوئی السلام علیکہم کہے آپ وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و براکاتہ کہیں ، یہ احسن طریقہ ہے.( اَوْ رُدُّوْھَا ۭ) اگر
ایسانہ کر سکوتوکم ازکم جس قدرالفاظ کہے گئے وہی لوٹا دو۔ (اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰي
كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا )اللہ ہرچیز کا
حساب لینے والا ہے اس میں یہ تنبیہ ہے کہ اللہ سلام کا جواب نہ دینے والے کا سخت
حساب لے گا۔
تفسیر 87 : (اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ
اِلَّا ھُوَ ) اس میں اثبات توحید اور اثبات قیامت ہے
، اور ربط بھی اس کا ماقبل کے ساتھ یہ ہے کہ پہلے قتال اور شفاعت حسنہ اور سلام
کہنے کی ترغیب دی گئی ابھی ان سب کی
قبولیت کی بنیاد ذکر کرتا ہے، اور وہ ہے عقیدہ توحید اور عقیدہ بعث بعد الموت ۔
(لَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى
يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ) اس میں تخویف اخروی سنادی کہ اگر اللہ کا حکم نہیں مانو
گے اور جہاد سے گریز کرو گے تو آخر کار قیامت کے دن میدان حشر میں اللہ کے سامنے
اپنے اعمال کی سزا پاؤ گے اور کہیں بھاگ کر جان نہیں بچا سکو گے۔(لَا رَيْبَ فِيْهِ) اس میں کوئی
شک و شبہ نہیں (فِيْهِ) اس کا ضمیر یوم یا جمع کی طرف ہے ۔
فَمَا لَكُمْ فِي
الْمُنٰفِقِيْنَ فِئَتَيْنِ وَاللّٰهُ اَرْكَسَھُمْ بِمَا كَسَبُوْا ۭ
اَتُرِيْدُوْنَ اَنْ تَهْدُوْا مَنْ اَضَلَّ
پھر تم کو کیا ہوا کہ
منافقوں کے معاملہ میں دو فریق ہو رہے ہو اور اللہ نے ان کو الٹ دیا بسبب ان کے
اعمال کے کیا تم چاہتے ہو کہ
اللّٰهُ ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِيْلًا ۔ 88
راہ پر لاؤ جس کو گمراہ
کیا اللہ نے اور جس کو گمراہ کرے اللہ ہرگز نہ پاویگا تو اس کے لیے کوئی راہ
تفسیر 88 : یہاں سے اگلی چار آیتوں میں منافقین کی چار اقسام کا بیان ہے، بعض کے ساتھ
قتال جائز اور بعض کے ساتھ قتال نہیں ہوتا ، اس آیت میں وہ منافقین مراد ہیں جنہوں
نے ہجرت نہیں کی دار اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے . (احسن الکلام )
ربط : (1) پچھلے آیات میں منافقین کی اوصاف قبیحہ ذکر
ہوئے ، درمیان میں جملہ معترضہ تھا، اب
منافقین کی بری اوصاف پر تفریع ذکر کرتا ہے ، مطلب جن میں یہ اوصاف
قبیحہ موجود ہوں ان کے ساتھ قتال میں شک
نہ کریں ۔
(2) جب ذکر ہوا (وَمَنْ
اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِيْثًا )
تو اب اس پر تفریع ذکر کرتا ہے ، مطلب جب اللہ تعالی نے منافقین کا احوال بیان
فرمادی ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے تو اب منافقین کے بارے میں شک نہ کریں ۔
سبب نزول : ۔ اس آیت کے سبب نزول کے بارے
میں اختلاف ہے ، امام احمد نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی ہے
کہ رسول اللہ ﷺ جب جنگ احد کے لیے نکلے تھے ، اس وقت آپ کے ساتھ نکلنے والوں میں
سے کچھ لوگ واپس آ گئے تھے ، تو ان کے بارے میں صحابہ کرام دو گروہوں میں تقسیم ہو
گئے تھے ۔ ایک گروہ کا کہنا تھا کہ ہمیں انہیں قتل کر دینا چاہیے جبکہ دوسرے گروہ
کی رائے یہ تھی کہ نہیں انہیں قتل نہیں کرنا
چاہیے ، لہذا اس موقع پر اللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی (فَمَا لَكُمْ فِي
الْمُنٰفِقِيْنَ فِئَتَيْنِ)تو کیا سب ہے کہ منافقوں کے
بارے میں تم گروہ ہو رہے ہو ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، إنَّهَا
طَيْبَةُ، تَنْفِي الذُّنُوبَ كما تَنْفِي النَّارُ خَبَثَ الفِضَّةِ. یہ شہر طیبہ ہے ، میل کچیل کو اسی طرح دور کر دیتا ہے جس طرح آگ
چاندی کے میل کچیل کو دور کر دیتی ہے( مسند احمد 5/184 ) اور اسے شیخین نے بھی روایت کیا ہے ۔
عوفی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت مکہ کے کچھ لوگوں کے
بارے میں نازل ہوئی ہے جنھوں نے اسلام قبول کر لیا تھا لیکن وہ مشرکوں کو غالب کر
نا چاہتے تھے ، وہ ا پنی کسی ضرورت سے مکہ سے نکلے تو اس وقت کہنے لگے کہ اگر
اصحاب محمد ﷺ سے ہماری ملاقات ہوگئی تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ مومنوں کو جب ان کے
بارے میں معلوم ہوا کہ یہ مکہ سے روانہ ہو چکے ہیں ، چنانچہ ان میں سے ایک جماعت
یہ کہنے لگی کہ ان نامرادوں کے پیچھے جاؤ اور انھیں قتل کر دو ، تمھارے دشمن کوتم
پر غالب کرنا چاہتے ہیں ۔ مومنوں کی ایک دوسری جماعت نے کہا کہ سبحان اللہ ! کیا
تم ایسے لوگوں کوقتل کرنا چاہتے ہو جو تمھاری ہی طرح مسلمان ہیں ؟ محض اس وجہ سے
قتل کرنا چاہتے ہو کہ انھوں نے ہجرت نہیں کی اور اپنے گھروں کونہیں چھوڑا اور اس
وجہ سے تم ان کے خونوں اور مالوں کو حلال سمجھنے لگے ہو ؟اس طرح مسلمان دو جماعتوں
میں تقسیم ہو گئے ، حالانکہ رسول اللہ سال بھی ان کے مابین موجود تھے اور آپ ﷺﷺ نے
( ابھی تک ان میں سے کسی کو کسی بات سے روکا بھی نہ تھا تب اسی موقع پر اللہ تعالی
نے اس آیت کریمہ کونازل فرمایا (فَمَا
لَكُمْ فِي الْمُنٰفِقِيْنَ فِئَتَيْنِ) تو کیا سبب ہے کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہور ہے ہو
؟ اسے امام ابن ابوحاتم نے بھی روایت کیا ہے ۔ (ابن کثیر)
خلاصہ آیت
کریمہ
:منافقین کے بارے میں مسلمان دو فریقوں
میں بٹ گئے ایک فریق نے کہا کہ،یہ منافق ہیں انھیں قتل کرنا چاہیے دوسرے فریق نے
ان کے قتل میں توقف کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو زجر و توبیخ کے طور
پر فرمایا کہ تم ان منافقین کے بارے میں دو فریق کیوں ہوگئے حالانکہ ان کے کرتوت
اس بات کے متقاضی تھے کہ تم ان کے قتل میں ذرّہ برابر تامل نہ کرتے یہ ان کی بد
عملی اور خباثت باطن ہی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایمان سے ہٹا کر کفر
کی طرف دھکیل دیا۔(جواہر)
( وَاللّٰهُ اَرْكَسَھُمْ ) اَرْکَسَھُمْ
رَدَّھُمْ اِلی الکفر یعنی اللہ نے
ان کو کفر کی طرف الٹا دیا اور دھکیل دیا۔(روح بحوالہ جواہر)
( بِمَا كَسَبُوْا ۭ) با سببیہ ہے اور ما مصدریہ ہے ، اس سے منافقت کے اعمال اور افعال قبیحہ مراد ہیں جو پہلے گزر گئے ہیں ، یعنی منافقین کا جہاد سے اعراض اور مسلمانوں کے خلاف مشرکین کا ساتھ دینا اور ہجرت نہ کرنا ۔ ( احسن الکلام )
(اَتُرِيْدُوْنَ اَنْ تَهْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُ ۭ) کیا تم چاہتے ہوکہ راہ راست پر لاؤ ان کو جنہیں اللہ نے گمراہ کردیا ہے ، پہلے (فَمَا لَكُمْ) میں توبیح اجمالی تھا جس کا جہت معلوم نہیں تھا ، اب یہاں تعین جہت ہے ، یعنی مؤمنین کی وہ جماعت جو منافقوں کو مؤمن کہتے ہیں ان کا قول صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ منافقین گمراہ ہو چکے ہیں، انہیں ہدایت کا راستہ نہیں مل سکتا اور وہ کبھی بھی ہدایت حاصل نہیں کر سکتے ، یا بمعنی مہتدین یعنی انہیں ہدایت والے شمار کرنا (قرطبی بحوالہ احسن )اسی طرح کی آیات دیگر سورتوں میں بھی ہیں ، مثلا سورۃ اعراف 186، سورۃ کہف 17 ، سورۃ روم 29، سورۃ زمر 36 ، سورۃ غافر 33 ، اور سورۃ شوری 44-46 ۔
( وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِيْلًا )یہ پہلے جملہ کے کئے تاکید ہے اور اس کے لئے بمزلہ علت ہے، مطلب یہ ہے کہ، جس کو اللہ گمراہ کر دے پس ہرگز نہ پائیگا تو اس کے لیے راستہ ۔
وَدُّوْا لَوْ
تَكْفُرُوْنَ كَمَا كَفَرُوْا فَتَكُوْنُوْنَ سَوَاۗءً فَلَا تَتَّخِذُوْا
مِنْھُمْ اَوْلِيَاۗءَ حَتّٰي يُھَاجِرُوْا
چاہتے ہیں کہ تم بھی کافر
ہوجاؤ جیسے وہ کافر ہوئے تو پھر تم سب برابر ہوجاؤ سو تم ان میں سے کسی کو دوست مت
بناؤ یہاں تک کہ وطن چھوڑ
فِيْ سَبِيْلِ
اللّٰهِ ۭ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوْھُمْ وَاقْتُلُوْھُمْ حَيْثُ
وَجَدْتُّمُوْھُمْ ۠ وَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ
آویں اللہ کی راہ
میں پھر اگر اس کو قبول نہ کریں تو ان کو پکڑو اور مار ڈالو جہاں پاؤ اور نہ بناؤ ان
میں سے
وَلِيًّا وَّلَا
نَصِيْرًا ۔ 89
کسی کو دوست اور نہ مددگار
تفسیر 89 : (وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ كَمَا كَفَرُوْا. الخ) لَوْ مصدریہ ہے اور یہ ان منافقین کی ایک بہت بڑی خباثت کا بیان ہے۔ وہ بظاہر تو مسلمان ہیں اور مسلمان کہلاتے ہیں مگر ان کے دلوں میں وہی کفر و شرک ہے اور وہ دل سے چاہتے ہیں کہ جو لوگ خلوص دل سے ایمان لا چکے ہیں وہ پھر سے کافر ہوجائیں ۔(جواہر القرآن) (فَتَكُوْنُوْنَ سَوَاۗءً) یہ عطف ہے (تَكْفُرُوْنَ) پر ، اور (سَوَاۗءً) بمعنی مستوین ہے ، یعنی کفر و ضلالت میں ان کے ساتھ یکساں ہوجاؤ۔ (فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِيَاۗءَ)پس ان میں سے (کسی کو) تم دوست نہ بناؤ۔ ان مرتدوں کی دوستی سے اس آیت میں میں ممانعت فرما دی۔( حَتّٰي يُھَاجِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ) تاوقتیکہ (خالص مومن ہو کر محض ثواب کی امید پر بغیر کسی دنیوی لالچ کے وہ تمہارے ساتھ مل کر) اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کریں۔ اور اسی طرح حکم سورۃ انفال 72 میں بھی ہے ۔عکرمہ کا قول ہے کہ ہجرت تین طرح کی ہوتی ہے :
(١) وہ ہجرت جو آغاز اسلام میں مسلمانوں نے کی تھی، اس وقت مکہ سے مدینہ تک ہجرت کرنافرض تھا یہاں تک کہ مکہ فتح ہوا، اسی ہجرت کو(حَتّٰي يُھَاجِرُوْا) میں ذکر کیا۔ جس پر ان کو دوست بنانا اور ان سے سوالات کرنا موقوف ہے۔
(2)مجاہدوں کی ہجرت یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ صرف ثواب کی امید کے زیر اثر جہاد کے لیے نکلنا ۔
(٣) باقی مسلمانوں کا تمام ممنوعاتِ الٰہیہ کو ترک کردینا۔( مظہری)
(فَاِنْ تَوَلَّوْا )اگر انہوں نے
منہ موڑ لیا ، یعنی ہجرت کرنے سے اس سے پہلی قسم ہجرت مراد ہے ۔ (فَخُذُوْھُمْ)انہیں پکڑو،
یعنی ان کو قیدی بنا لو۔( وَاقْتُلُوْھُمْ حَيْثُ
وَجَدْتُّمُوْھُمْ) اور (دوسرے کافروں کی طرح) جہاں پاؤ ان کو قتل کرو، مطلب یہ
کہ جو لوگ کفر اور گمراہی میں
اس
حد تک پہنچ چکے ہیں تم ان کی رعایت مت کرو اور وہ جہاں بھی تمہیں مل جائیں بلا
تامل ان کو قتل کرو۔
(وَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ وَلِيًّا) اور ان میں سے کسی کو دوست نہ بناؤ۔ دوست نہ بنانے کی یہ ممانعت تاکیدی ہے یا یوں کہا جائے کہ سابق کی ممانعت دوستی گرفتار کرنے سے قبل تھی اور یہ ممانعت گرفتار کرنے کے بعد ہے۔( وَّلَا نَصِيْرًا)اور نہ مددگار۔ اس لفظ سے ثابت ہو رہا ہے کہ کافروں سے (جنگی) امداد لینا جائز نہیں. (مظہری) اس آیت میں منافقین کی پہلی قسم (جن سےقتال جائز ہے) کا ذکر تھا ۔
اِلَّا الَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ اِلٰى قَوْمٍۢ بَيْنَكُمْ
وَبَيْنَھُمْ مِّيْثَاقٌ اَوْ جَاۗءُوْكُمْ حَصِرَتْ صُدُوْرُھُمْ
مگر وہ لوگ جو ملاپ رکھتے ہیں ایک قوم سے کہ تم میں اور ان میں
عہد ہے یا آئے ہیں تمہارے پاس کہ تنگ ہوگئے ہیں دل ان کے
اَنْ
يُّقَاتِلُوْكُمْ اَوْ يُقَاتِلُوْا قَوْمَھُمْ ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ
لَسَلَّطَھُمْ عَلَيْكُمْ فَلَقٰتَلُوْكُمْ ۚ فَاِنِ
تمہاری لڑائی
سے اور اپنی قوم کی لڑائی سے بھی، اور اگر اللہ چاہتا تو ان کو تم پر زور دے دیتا تو ضرور لڑتے
تم سے
اعْتَزَلُوْكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ وَاَلْقَوْا اِلَيْكُمُ السَّلَمَ ۙ فَمَا جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيْلًا ۔ 90
سو اگر یکسو رہیں وہ تم سے
پھر تم سے نہ لڑیں اور پیش کریں تم پر صلح تو اللہ نے نہیں دی تم کو ان پر راہ
تفسیر 90 : منافقین کے سلسلے میں اوپر جو حکم بیان ہوا اس سے دو قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مستثنی کردیا ہے، ایک وہ منافقین جو کسی ایسی قوم کے پاس جا کر پناہ لے لیں، جن کے ساتھ مسلمانوں کو صلح و امن کا معاہدہ ہو، تو وہ انہی کے حکم میں ہوجائیں گے( اسے معاہد المعاہد کہتے ہیں) ورنہ جنگ چھڑ جائے گی اور نقض میثاق ہوجائے گا، اور دوسرے وہ لوگ جو اپنی صلح جوئی کی وجہ سے نہ مسلمانوں سے جنگ کرنا چاہتے ہیں اور نہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر اپنی قوم سے جنگ کرنا چاہتے ہیں ۔ ( تیسیر)
(اِلَّا الَّذِيْنَ
يَصِلُوْنَ اِلٰى قَوْمٍۢ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَھُمْ مِّيْثَاقٌ)
اس استثناء میں دو قول ہیں ، اول یہ کہ یہ استثناء
متصل ہے اس قول باری تعالی کے (فَخُذُوْھُمْ وَاقْتُلُوْھُمْ
حَيْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ)یعنی استثناء قتل اور قید کرنے میں ہے
نہ کہ دوست اور مددگار بنانے میں کیونکہ ایسے لوگوں کے ساتھ دوستی تو ویسے بھی
درست نہیں ہے کیونکہ یہ منافق ہیں ۔
حَصِرَتْ
صُدُوْرُھم بتقدیر قَدْ جملہ جَاءُوْا کی ضمیر فاعل سے حال ہے اور اَنْ
یُّقَاتِلُوْکُمْ سے پہلے حرف جار محذوف ہے ای عَنْ اَنْ یُّقِاتِلُوْکُم اَوْ لِاَنْ
یُّقَتِلُوْکُم
(روح و بحر) ۔ جواہر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں