ہفتہ، 17 جون، 2017

شب قدر ،اور اعتکاف


     رمضان المبارک کے تین عشروں  کو اللہ کے رسول ﷺ نے تین حصوں  میں  تقسیم کرتے ہوئے ان کے فضائل بیان کیے ہیں  کہ اس کا پہلا عشرہ ’رحمت‘دوسرا’مغفرت‘ اور تیسرا ’جہنم سے چھٹکارے ‘کا ہے۔اس لیے مطلوب یہ ہے کہ تیسرے عشرے میں  غفلت کی چادرہٹاکر اس میں  زیادہ سے زیادہ عبادت وریاضت کرکے ذریعے ہم خداکا قرب حاصل کریں  اوراپنے گناہوں سے تائب ہوکر جہنم کی آگ سے چھٹکارہ پائیں ۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں  کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں  (اللہ کی عبادت )میں  جس قدرسخت محنت کرتے تھے اتنی اور کسی زمانے میں  نہیں  کرتے تھے۔(مسلم)حضرت عائشہ ؓ سے ہی ایک اورروایت ہے کہ جب رمضان کی آخری دس تاریخیں  آتی تھی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کمربستہ ہوجاتے تھے ۔ رات بھرجاگتے اوراپنے گھروالوں کوبھی جگاتے تھے۔(بخاری(
     رمضان کے آخری عشرے کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اللہ نے اسی کی ایک طاق رات میں  شب قدرجیسی عظیم ترین رات رکھی ہے۔ جس کے تعلق سے اللہ کا فرمان ہے ۔
’’بیشک ہم نے قرآن کو شب قدرمیں  اتارا ہے۔آپ کو معلوم ہے کہ شب قدرکیسی چیز ہے؟شب قدر ہزار مہینوں سے بہترہے۔اس رات میں  فرشتے اورروح القدس (جبریل ؑ)اپنے پروردگارکے حکم سے ہرامر خیر کولے کراترتے ہیں ۔سراپاسلام ہے۔یہ شب قدر(اسی صفت وبرکت کے ساتھ)طلوع فجرتک رہتی ہے۔‘‘ (سوۂ قدر(
      نبی کریم ؐ نے بھی متعدداحادیث اس کی فضیلت بیان کی ہے ۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے ارشا فرمایاکہ جوشب قدرمیں  عبادت کے لیے کھڑاہوا(نمازیں  پڑھیں ،ذکرواذکارمیں  لگارہا) تو اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں  گے۔(متفق علیہ(
     حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: شب قدرمیں  وہ تمام فرشتے جن کا مقام سدرۃ المنتہی پر ہے ،جبرئیل امین کے ساتھ دنیا میں  اترتے ہیں  اورکوئی مومون مردیا عورت ایسی نہیں  جس کو وہ سلام نہ کرتے ہوں ،بجزاس آدمی کے جوشراب یا خنزیرکا گوشت کھاتا ہو۔
     اس رت کی فضیلت کے حصول کے تعلق سے نبی کریمﷺ کا عمل دیکھاجائے تومعلوم ہوتا ہے کہ آپؐ اس رات کی برکت حاصل کرنے کے لیے بے حد جدجہد کرتے ہیں ، جس چیز کی جتنی اہمیت ہوتی ہے ،اس کے لیے اتنی ہی کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔چنانچہ ایک حدیث میں  حضرت ابوسعید خدری ؓ بیان فرماتے ہیں  کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرے میں  اعتکاف کیا۔ آپؐ نے ایک ترکی طرز کے خیمے کے اندررمضان کے دس دن گزارے۔اعتکاف ختم ہونے پرآپؐ نے اپنا سر مبارک خیمے سے باہر نکالا اورفرمایا: میں  نے اس رات کی تلاش میں پہلے دس دن کا اعتکاف کیا، پھرمیں  نے بیچ کے دس دن کا اعتکاف کیا۔تب میرے پاس آنے والا آیا اورا سنے مجھ سے کہا:’’ لیلۃ القدررمضان کی آخری دس راتوں میں  ہے۔پس جولوگ میرے ساتھ اعتکاف میں  بیٹھے تھے انھیں  چاہیے کہ وہ اب آخری دس دن بھی اعتکاف کریں ۔مجھے یہ رات (لیلۃ القدر)دکھائی گئی تھی مگرپھربھلادی گئی اورمیں  نے دیکھا کہ میں  اس رات کی صبح کوپانی اورمٹی میں  (برسات کی وجہ سے) نماز پڑھ رہا ہوں ۔پس تم لوگ اسے آخری دس دنوں کی طاق تاریخوں میں  تلاش کرو۔‘‘( بخاری ومسلم )
     جہاں  تک شب قدر کی تعیین تعلق ہے تو اس سلسلے میں  بہت سی احادیث ہیں ۔ایک حدیث میں  ہے :
تحروا لیلۃ القدرفی العشرالاواخرمن رمضان             یعنی شب قدررمضان کے آخری عشرے میں  تلاش کرو۔
 بخاری شریف کی ہی ایک اورروایت کے مطابق آپؐ کا ارشاد ہے :
تحروالیلۃ القدرفی الوترمن العشرالاواخر من رمضان ۔    یعنی شب قدرکو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں  تلاش کرو۔
     اگرآخری عشرے کی طاق راتوں  (۲۱۔ ۲۳۔ ۲۵۔ ۲۷۔ ۲۹) کومرادلیاجائے اور شب قدرکوان راتوں میں  دائراور ہر رمضان میں  منتقل ہونے والا قراردیاجائے توایسی صورت تمام احادیث صحیحہ میں جوتعیین شب قدرکے متعلق آئی ہیں ،تطبیق جمع ہوجاتی ہے۔ اسی لیے اکثرائمہ فقہانے اس کو عشرہ اخیرہ میں  منتقل ہونے والی رات قرار دیاہے۔
آپؐ کا یہ طرز عمل اورشب قدرکی تلاش وجستجواور اس کاہتمام اس کی اہمیت کا پتہ دیتا ہے۔ مذکورہ واقعہ سے یہ بات بالکل درست ثابت ہوتی ہے کہ اعتکاف کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ معتکف کواس رات کی خیروبرکت سے مالامال کردیتا ہے۔ اس لیے کہ معتکف کا ہرعمل خداکی رضاکے لیے اسی کے دربارمیں  حاضری کے ساتھ ہوتا ہے۔ جو عبادت میں  شمار کیاجاتاہے۔لہذا آخری عشرے کی طاق راتیں  بھی انھیں  میسرہوتی ہیں  جس میں  شب قدرکوتلاش کرنے کا حکم ہے۔


شب قدرکی دعا
     حضرت عائشہ صدیقہ ؓنے نبی کریم ؐ سے دریافت کیا کہ اگرمیں  شب قدرکوپاؤں توکیا دعاکروں ۔آپ نے فرمایا:یہ دعاکرو’’اللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفْوٌ تُحِبُّ الْعَفْوَفَاعْف عَنِّی‘‘(قرطبی)۔ اے اللہ آپ بہت معاف کرنے والے ہیں  اورعفوودرگزرکوپسند فرماتے ہیں  میری خطائیں  معاف فرمائیے۔


رمضان،سفراور جہاد فی سبیل اللہ
     اللہ کے رسول ﷺ نے ماہ رمضان المبارک میں  سفر بھی کیا اوراعلائے کلمۃ اللہ کے لیے عزوات بھی کیے ۔اس طرح آپ نے کئی بار حالت سفر میں  روزہ بھی رکھا اور کئی بار صحابہ کے درمیان پانی منگواکر روزہ توڑبھی دیا تاکہ صحابہ کو حالت سفر میں  اور جنگی ضرورت کے پیش نظر کم زوری کا احساس نہ ہو۔غور کریں  تو محسوس ہوگا کہ رمضان کا تعلق جہاد فی سبیل اللہ کے ساتھ گہرامعلوم ہوتا ہے۔ مسلمانوں  کی پہلی جنگ جسے یوم الفرقان سے تعبیر کیا جاتا ہے،یعنی جنگ بدرجسے قرآن نے بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ 17رمضان المبارک کوہوئی ۔فتح مکہ کی سورت میں  حج اور عمرے کی سعات یہ بھی رمضان المبارک میں  حاصل ہوئی ۔تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا اس کے علاوہ بہت سے معرکے رمضان المبارک میں  ہوئے۔اس لیے مسلمانوں  کی بڑی ذمہ داری ہے کہ ایسے مشکل وقت میں  جب کہ روزہ کی حالت میں  ہوتو اسے مزید مجاہدے کی ضرورت ہے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ اللہ کا قرب حاصل ہوسکے۔


رمضان کی آخری رات
     رمضان کی آخری رات جسے سب عید کی ’چاند رات‘ کہتے ہیں  ، اس میں  بہت سے لوگ عبادت میں  مشغول ہوتےہیں  لیکن بہت سے لوگ ہیں  جوعید کی خریداری میں  مصروف ملتے ہیں ۔ جب کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اسے امت مسلمہ کی مغفرت کی رات سے تعبیر کیا ہے:
         قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَهِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنَّ الْعَامِلَ إِنَّمَا يُوَفَّى أَجْرَهُ إِذَا قَضَى عَمَلَهُ

رمضان کی آخری رات کو میری امت کی مغفرت ہوجاتی ہے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہؐ کیاےہی وہ لیلۃ القدر ہے؟ حضورؐ نے ارشاد فرمایا نہیں ، بلکہ مزدور کو اس کی مزدوری اس وقت دی جاتی ہے جب وہ اپناکام مکمل کرلیتا ہے۔ (مسند احمد)

کوئی تبصرے نہیں: