ہفتہ، 17 جون، 2017

شب قدر کی فضیلت

بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
رمضان کی راتوں میں ایک رات شبِ قدر کہلاتی ہے جو بہت ہی خیر وبرکت والی رات ہے اور جس میں عبادت کرنے کو قرآن کریم (سورۂ القدر) میں ہزار مہینوں سے افضل بتلایا گیا ہے۔ ہزار مہینوں کے ۸۳ سال اور ۴ ماہ ہوتے ہیں۔ گویا اِس رات کی عبادت پوری زندگی کی عبادت سے زیادہ بہتر ہے۔ اور ہزار مہینوں سے کتنا زیادہ ہے ؟ یہ صرف اللہ ہی کو معلوم ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رات رمضان کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے۔ لہذا اِس آخری عشرہ کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہونے دیں۔ پانچوں نمازوں کو جماعت سے پڑھنے کا اہتمام کریں،دن میں روزہ رکھیں، رات کا بڑا حصہ عبادت میں گزاریں، تراویح اور تہجد کا اہتمام کریں، اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں۔ اپنے اور امت مسلمہ کے لئے دعائیں کریں۔ قرآن کی تلاوت زیادہ سے زیادہ کریں۔
ے شک ہم نے قرآن پاک کو شبِ قدر میں اتارا ہے ،یعنی قرآن شریف کو لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اِس رات میں اتارا ہے۔ آپ کو کچھ معلوم بھی ہے کہ شب قدر کیسی بڑی چیز ہے ، یعنی اس رات کی بڑائی اور فضیلت کا آپ کو علم بھی ہے ، کتنی خوبیاں اور کس قدر فضائل اس میں ہیں۔ اس کے بعد چند فضائل کا ذکر فرماتے ہیں، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، یعنی ہزار مہینوں تک عبادت کرنے کا جتنا ثواب ہے اس سے زیادہ شبِ قدر کی عبادت کا ہے، اور کتنا زیادہ ہے؟ یہ اللہ ہی کو معلوم ہے۔ اس رات میں فرشتے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام اترتے ہیں۔ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر زمین کی طرف اترتے ہیں۔ اور یہ خیر وبرکت فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔
سورۂ العلق کی ابتدائی چند آیات (اِقْرَاْ بِسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَق....) سے قرآن کریم کے نزول کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد آنے والی سورۂ القدر میں بیان کیا کہ یہ قرآن کریم رمضان کی بابرکت رات میں اتراہے، جیساکہ سورۂ الدخان کی آیت ۳ (اِنَّا اَنْزَلْنَاہٗ فِیْ لَےْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ) اور سورۂ البقرہ کی آیت ۱۸۵ (شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فیہ القرآن) میں یہ مضمون صراحت کے ساتھ موجود ہے۔
شب قدر کے دو معنی ہیں اور دونوں ہی یہاں مقصود ہیں۔ ایک یہ کہ یہ وہ رات ہے جس میں تقدیروں کے فیصلے کئے جاتے ہیں جیسا کہ سورۂ الدخان آیت ۴ میں ہے: اسی رات میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ یہ بڑی قدر ومنزلت اور عظمت وشرف رکھنے والی رات ہے۔
اس رات میں قرآن کریم کے نازل ہونے کا مطلب لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اترنا ہے یا اس رات میں پورا قرآن کریم حامل وحی فرشتوں کے حوالہ کیا جانا مراد ہے یا یہ مطلب ہے کہ قرآن کریم کے نزول کی ابتدا اس رات میں ہوئی اور پھر واقعات اور حالات کے مطابق وقتاً فوقتاً ۲۳ سال کے عرصہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔
اس رات کی فضیلت واہمیت کے متعلق متعدد احایث کتب احادیث میں موجود ہیں، یہاں اختصار کی وجہ سے چند احادیث ذکر کررہا ہوں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے والا بنائے، آمین-
* 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص شبِ قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لئے) کھڑا ہو، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم) کھڑے ہونے کا مطلب: نماز پڑھنا، تلاوتِ قرآن اور ذکر وغیرہ میں مشغول ہونا ہے۔ ثواب کی امید رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ شہرت اور دکھاوے کے لئے نہیں بلکہ خالص اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے عمل کرنا ہے۔
* 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہنیوں سے افضل ہے۔ جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا سارے ہی خیر سے محروم رہ گیا، اور اس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقۃً محروم ہی ہے۔ (ابن ماجہ)
* 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : شبِ قدر کو رمضان کے اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو۔ (بخاری)
مذکورہ حدیث کے مطابق ‘ شب قدر کی تلاش ۲۱ ویں ، ۲۳ ویں، ۲۵ ویں، ۲۷ ویں، ۲۹ ویں راتوں میں کرنی چاہئے۔
* 
حضرت عائشہؓ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ اگر مجھے شب قدر کا پتہ چل جائے تو کیا دعا مانگوں؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پڑھو: (اے اللہ تو بیشک معاف کرنے والا ہے اور پسند کرتا ہے معاف کرنے کو ، پس مجھے بھی معاف فرمادے ۔ (مسند احمد ، ابن ماجہ، ترمذی)
شب قدر کی دو اہم علامتیں:
شب قدر کی دو اہم علامتیں کتب احادیث میں مذکور ہیں: ایک یہ کہ رات نہ بہت زیادہ گرم اور نہ بہت زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہے اور دوسری علامت یہ ہے کہ شب قدر کے بعد صبح کو سورج کے طلوع ہونے کے وقت سورج کی شعاعیں یعنی کرنیں نہیں ہوتی ہیں۔
نوٹ: اختلافِ مطالع کے سبب مختلف ملکوں اور شہروں میں شبِ قدر مختلف دنوں میں ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں، کیونکہ ہر جگہ کے اعتبار سے جو رات شبِ قدر قرار پائے گی اُس جگہ اُسی رات میں شبِ قدر کی برکات حاصل ہوں گی ، انشاء اللہ۔

کوئی تبصرے نہیں: