پیر، 17 ستمبر، 2018

نبی ٔ پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی تین پسندیدہ چیزیں



عَنْ أَنَسٍؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلّٰی اللّٰه عَلَیه وَسَلَّمَ : ’’حُبِّبَ إِلَيَّ الطِّیْبُ وَ النِّسَائُ، وَ جُعِلَتْ قُرَّۃ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃ ۔‘‘ (رواہ أحمد والنسائی، مشکوۃ المصابیح/ص :۴۴۹، باب فضل الفقراء، الفصل الثالث)
ترجمہ  : حضرت انس رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’پسندیدہ بنائی گئیں میرے لیے خوشبو اور عورتیں اور بنائی گئی میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں۔

تمہید  : یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی انسان کے طبعی وقلبی رحجان اور فطری ذوق کا اندازہ اس کی پسند اور چاہت (Choice)سے لگایا جا سکتا ہے، اگرا س کی طبیعت اور فطرت پر پاکیزگی کاغلبہ ہے تو اس کی پسند و چاہت بھی اعلیٰ اورپاکیزہ ہوگی، عربی کا مقولہ ہے: ’’کُلُّ إِنَائٍ یَنْضَحُ بِمَا فِیْہِ‘‘۔ (روضۃ الأدب/ص: ۴۷) یعنی برتن میں جو ہوگا وہی اس سے ٹپکے گا،لہٰذا اگر طبیعت پاکیزہ ہے تو چاہت بھی پاکیزہ ہوگی، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ رحمت ِدو عالم صلی اللہ علیہ و سلم  کا ظرف کائنات کی ساری مخلوق میں سب سے اعلیٰ، مزکیٰ، مصفیٰ اور اﷲ تعالیٰ کی محبت سے لبریز تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی چاہت اور پسند بھی نہایت اعلیٰ تھی، اور محبت کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ اس میں اپنی پسند پر نظر نہیں ہوتی۔مولانا محمد احمد پرتاپ گڑھی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر ہے:نظر اُن کی نظر اپنی، پسند اُن کی پسند اپنی نظر اپنی پسند اپنی، محبت میں نہیں ہوتی .
حضور   صلی اللہ علیہ و سلم  کے دل میں تین چیزوں کی محبت ڈالی گئی :      
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فنا فی اللہ کے اعلیٰ مقام پر تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کے دل میں اﷲ پاک کی اس قدر محبت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی تمام چاہتوں کو اس کی چاہت کے سامنے فنا کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی چاہت اور پسند وہی تھی جس کا اﷲ پاک نے حکم فرمایا، چناںچہ حدیث ِمذکور میں لفظ: ’’حُبِّبَ‘‘ جو بصیغۂ مجہول لایا گیا اس میں یہی راز ہے، مطلب یہ ہے کہ(تین چیزیں)مجھے پسندکرائی گئیں، یا میرے دل میں ان کی محبت ڈالی گئی، گویا میں نے از خود کسی چیز کو پسند نہیں کیا، بلکہ میرے مولیٰ نے مجھے ان کی پسند اور محبت کا حکم فرمایا ۔      فافھم۔           
 لہٰذ ا اب خلاصہ یہ ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں منجانب اﷲتین چیزوں کی محبت ڈالی گئی۔آسمانِ ہدایت کے سراجِ منیر نے نجومِ ہدایت کے ہجوم میں جب یہ بات ارشاد فرمائی تو صحابۂ کرامؓ متوجہ ہوئے، یہ معلوم کرنے کے لیے کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا پسند ہے؟تاکہ ہم بھی ان چیزوں کو پسند کریں، یہ حقیقت ہے نا! کہ چاہنے والو ں کے لیے محبوب کی چاہت بھی محبوب ہواکرتی ہے، او ریہ بھی محبت کا تقاضا ہے۔
حضور   صلی اللہ علیہ و سلم  اور خوشبو  :ارشاد ہوا : پہلی چیز جس کی محبت اور پسند میرے دل میں پیدا کی گئی وہ ہے ’’اَلطِّیْبُ‘‘یعنی عمدہ خوشبو ، جوانسان کے فطری، روحانی او رملکوتی تقاضوں میں سے ہے، اس سے جسم کے علاوہ روح و قلب کو بھی ایک خاص نشاط حاصل ہوتاہے، عبادت میں کیف و ذوق اور لذت حاصل ہوتی ہے، اور دوسری بات یہ ہے کہ لوگوں کو بھی اس سے راحت پہنچتی ہے۔ اس لیے ہر صحیح الفطرت اور سلیم الطبع انسان کوخوشبو سے محبت اور بدبو سے نفرت ہوتی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو سراپا سلیم الطبع و صحیح الفطرت ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوخوشبو سے محبت کیوں نہ ہوتی؟
بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کا تو جسم اطہر قدرتی طور پر معطر تھا،حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کا پسینہ مبارک مشک و عنبر سے زیادہ معطر تھا۔  حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ’’ ایک مرتبہ رحمت ِدو عالم صلی اللہ علیہ و سلم  ہمارے گھر تشریف لائے، اور دوپہر کے وقت وہیں محو ِ خواب ہوگئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم ِاطہر سے پسینہ بہت نکلا،حضرت ام سلیم (جو حضرت ابوطلحہ انصاریؓ کی بیوی ہیں، نہایت عاقلہ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے رضاعی یانسب مادری کی نسبت سے محرموں میں سے تھیں) (از: مظاہر حق جدید۵/۵۱۷)ام سُلیمؓ نے دیکھا تو ایک شیشی لاکر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا پسینہ اس میں جمع کرناشروع کردیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیدارہوکر پوچھا :ام سُلیم! کیاکر رہی ہو؟ کہنے لگیں: حضور!یہ آپ کا مبارک پسینہ ہے، ہم اسے اپنی خوشبو میں ملائیں گے، کہ یہ ہر عطر سے زیادہ خوشبودار ہے۔(حلیۃ الاولیاء، لابی نعیم الاصفہانی/ص:۶۱،:۲ ، از :تراشے ص:۷۵،متفق علیہ، مشکوٰۃ /ص:۵۱۷) پسینہ پونچھ کر رکھتے صحابہؓ جسمِ اطہر کاجو خوشبو میں گلاب و مشک و عنبر سے بھی بہتر تھافضا ساری مہک جاتی وہ جس راہ سے جاتےنکلتے جستجو میں جو وہ خوشبوسے پتہ پاتے        آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس راہ سے گذر جاتے ساری فضا معطر ہو جاتی تھی، تلاش کرنے والا خوشبو سے معلوم کر لیتاکہ ابھی اللہ تعالیٰ کا محبوب یہاں سے گذراہے۔ (ترمذی، مشکوٰۃ/ ص:۱۵۷) .
ایک اور عاشق نے کہا کہ:جسمِ مطہر کتنا معطر، روئے مبارک ماہ منوردلکش باتیں، شیریں تبسم، صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ان سب کے باوجود آپ   صلی اللہ علیہ و سلم خوشبو کو پسند فرماتے،اس لیے معمولِ مبارک تھاکہ تحفہ یاخوشبودار پھول وغیرہ واپس کرنے سے منع فرماتے، کیوں کہ خوشبو آپ  صلی اللہ علیہ و سلم کی پسندیدہ چیز تھی، بلکہ سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و سلم  کے مطالعہ کے بعد اس عاجز کا ناقص خیال تو یہ ہے کہ آپ   صلی اللہ علیہ و سلم خوشبو سے کیا محبت فرماتے خود خوشبو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کرتی تھی۔
عورت قابل نفرت نہیں، لائق محبت ہے : دوسری چیز جس کی محبت میرے دل میں ڈالی گئی وہ ہے نیک رفیقۂ حیات،فیشن پرست عورت نہیں، بلکہ فرمایا: ’’وَالنِّسَائُ‘‘ ، اور ایک روایت میں ’’المَرْأَۃ الصَّالِحَة‘‘ ہے، یعنی (وہ نیک)عورت جس کا دل ذوقِ وفا سے سرشار اور جبین اللہ تعالیٰ کے حضور سجدوں سے آباد ہو۔جو عبادت میں اللہ تعالیٰ سے وفاکرے او رعفت میں شوہر سے وفا کرے۔یہاں کسی اعتراض کا موقع اس لیے نہیں ہے کہ عورت سے محبت کرنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتی پسند نہیں، بلکہ منجانب اﷲ اس کی پسند آپ  صلی اللہ علیہ و سلم کے د ل میں پیدا کی گئی۔ اور ا س میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں، عورت جو زندگی کی ایک بڑی اہم ضرورت ہے ،دورِ جاہلیت میں اس کے وجودہی سے نفرت کی جاتی تھی ،اس کی ولادت پر مذمت وندامت کی جاتی تھی، قرآنِ نے اسے یوں بیان فرمایا :       {وَإِذَابُشِّرَ أَحَدُہُمْ بِالْأُنْثٰی ظَلَّ وَجْہُہٗ مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیْمٌ} (النحل :۵۸) اور جب ان میں کسی کو بیٹی کی پیدائش کی خبر دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے، او ردل ہی دل میں کڑھتارہتاہے۔
بعد میں ساری زندگی اس کا استعمال محض تکمیل شہوت یا ضرورت کے لیے ہوتا تھا، اُس کے ساتھ عموماًوہ سلوک کیا جاتا کہ انسان تو کیا شیطان بھی شرما جائے ،زمانۂ جاہلیت میں عورت کی حیثیت کیا تھی؟عورت کنیز بن کر دنیا میں جی رہی تھی خونِ جگر کے قطرے خاموش پی رہی تھی ایسے سنگین حالات میں حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حقیقت سمجھائی کہ عورت بالخصوص جب کہ وہ نیک ہو، قابل نفرت نہیں، بلکہ لائق محبت ہے، اور محبت قائم ہونے کا ذریعہ بھی،یہی وجہ ہے کہ میرے د ل میں اس کی محبت من جانب اللہ ڈالی گئی۔
عورت سے محبت کرنے کا صحیح طریقہ  :          اور حضورِاکرم   صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں یہ بھی سمجھایا کہ عورت کی مختلف حیثیتیں ہیں، لہٰذاہر حیثیت سے اس کے ساتھ محبت کا انداز،تقاضا اور طریقہ بھی مختلف ہوگا، مثلا:                       
 ۱-   عورت اگر ماں ہے، تو اس کی ہر ممکن خدمت اور جائز امور میں اس کی مکمل اطاعت کرنا یہ اس کی محبت کا تقاضا ہے۔
 ۲- عورت اگر بہن ہے، تو ایک مخلص بھائی کا پیار دے کر اس کے تمام حقوق کو پورا کرنا اس کی محبت کا تقاضا ہے ۔       ۳- عورت اگر بیوی ہے، تو شوہر کے لیے ادائے حقوق اور حسن سلوک کا معاملہ کرنا یہ اس کی محبت کا تقاضا ہے.
   ۴-   عورت اگر بیٹی ہے، تو اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت سمجھتے ہوئے اس کی تعلیم و تربیت کا پورا پورا خیال رکھنا یہ اس کی محبت کا  تقاضا ہے ۔کسی بزرگ کا مقولہ ہے کہ ’’بیٹی رحمت ہے اور بیٹا نعمت ہے، نعمت زائل ہو سکتی ہے، لیکن رحمت تو رحمت ہی رہتی ہے۔‘‘
 الغرض! حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت سے محبت بھی فرمائی اور امت کو اس سے محبت کرنے کا صحیح انداز اور طریقہ بھی سکھلایا۔
نماز آپ   صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت کا محور و مرکز ہے  :        تیسری چیز کے بارے میں فرمایا ’’وَجُعِلَتْ قُرَّۃ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃ‘‘  کہ نماز تو میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، کیوں کہ نماز رب العزت کی ملاقات، یاداور محبت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، قرآنِ پاک میں فرمایا: {وَأَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ} (طٰہٰ :۱۴) اور مجھے یاد رکھنے کے لیے نماز قائم کرو۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے لبریز تھا، اس لیے وہ چیز جوبطورِ خاص اس کی  یاد اورمحبت حاصل کرنے کا ذریعہ تھی یعنی نماز، اسے آپ  صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک بتلایا۔         صاحب مظاہر حق نے فرمایا: ’’لفظ ِ’’قُرَّۃُ‘‘یہ’’قَرَّ‘‘ سے مشتق ہے ، جس کے معنی قرار و ثبات کے ہیں، یہ حقیقت ہے کہ جب نگاہ کو محبوب کا دیدار نصیب ہوتا ہے تو نہ صرف نظر کو قرار ملتا ہے، بلکہ دل کو بھی سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے، جس طرح محبوب کا دیدار نہ ہونے سے نظریں پریشان اور دل بے قرار رہتا ہے، لہٰذا نگاہ اور دل کے اسی قرار کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’قُرَّۃٌ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ ( مظاہر حق جدید:۶/۹۵).
بہر حال! نماز،نیک عورت اور خوشبو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت اور محبت کا مرکز ومحور ہے، لہٰذا   آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ جو چیزیں آپ  صلی اللہ علیہ و سلم کو پسند ہیں وہ ہمیں بھی پسند ہوں۔
خلفائِ اربعہؓ  کی پسند  :    یہ تین چیزیں وہ تھیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند کرائی گئیں ،جن کا ذکر اس حدیث میں ہوا۔ دوسری روایت میں ابن حجرؒ نے اپنی تصنیف ’’المنبہات‘‘ میں مزید تفصیل بیان فرمائی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پسندیدہ اشیا ء کاذکر فرمایا، تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ نے اجازت لے کرعرض کیا: حضور!مجھے بھی تین چیزیں بہت پسند ہیں :           عرض کیا:
’’  اَلنَّظَرُ إِلٰی وَجْهكَ،    وَإِنْفَاقُ مَالِیْ عَلٰی أَمْرِکَ ،   وَأَنْ تَکُوْنَ بِنْتِیْ فِیْ بَیْتِکَ ۔
۱-        آپ کے چہرۂ انور کی طرف دیکھنادنیا وما فیہا سے زیادہ پسندیدہ ہے۔    
۲-        آپ کے منشا وحکم پر اپنا مال خرچ کرنا مجھے بڑا پسند ہے۔      
۳-       آپ کے نکاح میں اپنی بیٹی دینا بھی مجھے بہت پسندہے۔  
  صدیق اکبرؓ کے بعد سیدنا عمرؓ نے عرض کیا: حضور! مجھے بھی تین چیزیں بہت پسند ہیں:    
          ’’اَلأَمْرُبِالْمَعْرُوْفِ، وَالنهىُ عَنِ الْمُنْکَرِ، وَالثَّوْبُ الْخَلَقُ۔‘‘           
۱-        امر بالمعروف کرنا،حسنات و معروفات کی اشاعت کرنا مجھے بہت پسند ہے۔  
۲-                     نہی عن المنکر کرنا ،برائیوں کا خاتمہ کرنا مجھے بہت پسند ہے۔
 ۳ -                  پرانے (مگر پاک صاف) کپڑے پہننابھی مجھے بہت پسند ہے۔      
 پھر سیدنا عثمان غنی     ؓنے حضور صلی اللہ علیہ و سلم  کے سامنے اپنی تین پسندیدہ چیزیں پیش کیں:         
’’إِطْعَامُ الْجِیْعَانِ، وَکِسْوَۃ العُرْیَانِ، وَتِلَاوَۃ الْقُرْآنِ‘‘۔          
۱-        بھوکوں کو کھانا کھلانا پسند ہے۔           
۲-        ناداراورننگوں کو کپڑا پہناناپسند ہے ۔   
۳-       قرآن کریم کی تلاوت کرنابھی بہت پسند ہے۔    
یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ آخری وقت میں بھی حضرت عثمانؓ نے قرآن کو اور قرآنِ کریم نے حضرت عثمانؓ  کو  اپنے سینے سے لگا کریاری پکی کرلی اور آپؓ نے تلاوتِ قرآن کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرمایا۔
اخیر میں سیدنا علی کرم اﷲ وجہہٗ نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر اپنی تین پسندیدہ چیزیں عرض کیں:
’’اَلْخِدْمة لِلضَّیْفِ، وَالضَّرْبُ بِالسَّیْفِ، وَالصَّوْمُ فِی الصَّیْفِ‘‘۔
۱-        مہمانوں کی خدمت کرنابہت پسند ہے ۔
۲-        جہاد بالسیف، یعنی راہِ حق میں تلوار سے جہاد کرنا بہت پسند ہے۔       
۳-       شدیدگرمیوں میں روزے رکھنابھی بہت پسند ہے ۔         
شمع رسالت کے ان بے لوث پروانوں کی یہ پسندیدہ اشیاء محض زبانی جمع خرچ نہیں تھیں، بقولِ شاہ صاحب علامہ سید عبدالمجید ندیمؒیہ پسند صرف زبان و بیان کی حد تک محدود نہیں،بلکہ اُنہوں نے عملی زندگی میں بھی اس کا بھر پور مظاہرہ فرمایا، جو تاریخ کا زرین باب ہے۔
جبرئیل امین علیہ السلام اور رب العالمین کی پسند  : ابھی حضورصلی اللہ علیہ وسلم اور ان جلیل القدر صحابہؓ کی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ سیدالملائکہ حضرت روح الامین تشریف لائے اور عرض کیا : ’’رب العالمین نے آپ تمام کی گفتگو سن کر مجھے بھیجا ،تاکہ میں اپنی اور رب العالمین کی پسند بتلائوں، میری پسند تو یہ ہے  
:إِرْشَادُ الضَّالِّیْنَ، وَ إِعَانةعِیَالِ الْمُعْسِرِیْنَ، وَمُؤَانَسة الْغُرَبَائِ  الْقَانِتِیْنَ‘‘۔                                                   ۱- (دنیوی اور دینی اعتبار سے) بھٹکے ہوؤں کو راہِ راست بتلانامجھے بہت پسند ہے ۔         
۲-   عیال دار،تنگ دست کی نصرت کرنا،جس کی جیب تو خالی ہو، مگر ضمیر محفوظ ہو، مجھے بہت پسندہے۔
 ۳-  عبادت گزار غریبوں سے محبت کرنا،یعنی باضمیر غریبوں سے دوستی کرنابھی مجھے بہت پسند ہے۔           
پھر فرمایا ! اﷲ پاک کو اپنے بندوں سے تین چیزیں بڑی پسند ہیں:
 بَذْلُ الْاِسْتِطَاعة، وَ الصَّبْرُ عِنْدَ الْفَاقة،  وَالْبُکَائُ عِنْدَالنَّدَامة‘‘۔       
۱-     بندہ کا اپنی طاقت و استطاعت کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے خرچ کرنااللہ تعالیٰ کو بہت پسندہے۔         
۲-    فاقہ کے وقت شکوہ کے بجائے صبر کرنا بھی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔    
۳-    گناہوں پر ندامت کے ساتھ رونابھی اللہ تعالیٰ کو بہت پسندہے۔
ائمہ اربعہ کی پسند  :’’نزھۃ المجالس‘‘ میں علامہ عبدالرحمن صفویؒ نے فرمایا :’’جب یہ حدیث ائمۂ اربعہ کو پہنچی تو ہر ایک نے اپنی اپنی پسند بیان فرمائی، سب سے پہلے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ؒالنعمانؒ نے اپنی پسندیدہ چیزیں بیان فرمائیں:
۱-  طویل رات میں جاگ کر علم حاصل کرنا  مجھے بہت پسندہے۔
۲- تکبر ترک کرنا اور تواضع اختیار کرنا مجھے بہت پسندہے۔
۳-  وہ دل جو دنیا کی محبت سے خالی ہو اور اللہ کی محبت سے لبریز ہومجھے بہت پسندہے۔     
پھر حضرت امام مالک ؒ نے اپنی تین پسندیدہ اشیا ء بیان فرمائیں:
۱- روضۂ اقدس کا قرب مجھے بہت پسندہے ۔
۲-        آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاک (مدینہ) سے چمٹے رہنا بھی مجھے بہت پسندہے۔
۳-       اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرنا بھی مجھے بہت پسندہے۔          
 اس کے بعدحضرت امام شافعی ؒ نے اپنی تین پسندیدہ چیزیں بیان فرمائیں:
۱-         مخلوق کے ساتھ اخلاق سے پیش  آنا  مجھے بہت پسندہے۔
۲-        ترکِ تکلفات  اور سادگی سے زندگی گذارنامجھے بہت پسندہے۔
۳-       راہِ تصوف اختیار کرنا بھی مجھے بہت پسندہے۔     
اخیر میں حضرت امام احمد بن حنبل ؒ نے اپنی تین پسندیدہ چیزیں بیان فرمائیں:
۱-        اتباعِ نبی صلی اللہ علیہ و سلم  میری پہلی پسندہے۔
۲-                آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کے انوارات  و ارشادات سے برکت حاصل کرنا بھی مجھے بہت پسند ہے۔
۳-       آپ   صلی اللہ علیہ و سلم  کے نقش قدم پر چلنا مجھے بہت پسندہے۔ ( نزہۃ المجالس/ ص: ۹۹/ ج :۱)     
  سچ ہے:{ أُولٰئِکَ حِزْبُ اللّٰہِ أَلاَ إِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ  ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ} (المجادلۃ:۲۲) ’’یہ اللہ تعالیٰ کی جماعت اورگروہ ہے، یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کا گروہ ہی کامیاب ہونے والاہے۔‘‘اوریہ ہے ان کا وہ گلدستۂ محبت وہدایت جس کی خوشبو سے گلشن انسانیت مہکتا رہے گا۔یہ عاجز دست بستہ اپنے مولیٰ کے حضور عرض کرتاہے کہ’’الٰہی ! مجھے۱-توبۃً نصوحاً ۲-اپنی مکمل اصلاح ۳-اور دونوں جہان میں تیری رضا پسندہے، لہٰذا اپنی محبت نصیب فرماکر اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطافرما، آمین۔ وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔یَا رَبِّ صَلِّ وَ سَلِّمْ دَائِماً أَبَدًاعَلٰی حَبِیْبِکَ خَیْرِالْخَلْقِ کُلِّھِمْ٭…٭…٭
بحوالہ گلدستہ حدیث:     ترتیب  اکبر حسین اورکزئی 

پیر، 10 ستمبر، 2018

ایک محرم ۔ یوم شہادت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ تھے۔آپ ان دس صحابہ میں سے ہیں جن کو جنت کی خوشخبری دی گئی۔آپ کے دور میں اسلامی مملکت 28 لاکھ مربع میل کے رقبے پر پھیل گئی۔

نام و*نسب
آپ کا نام مبارک عمر ہے اور لقب فاروق، کنیت ابو حفص، لقب و*کنیت دونوں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عطا کردہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔

ابتدائی زندگی
آپ رضی اللہ تعالی عنہ مکہ میں پید ا ہوۓ اور ان چند لوگوں میں سے تھے جو لکھ پڑھ سکتے تھے۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سخت مخالفت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام قبول کر لیا۔ اس لے آپ کو مراد رسول بھی کہا جاتا ہے.

ہجرت
ہجرت کے موقعے پر کفار مکہ کے شر سے بچنے کے لیے سب نے خاموشی سے ہجرت کی مگر آپ کی غیرت ایمانی نے چھپ کر ہجرت کرنا گوارہ نہیں کیا.آپ نے تلوار ہاتھ میں لی کعبہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کر کے کہا " تم میں سے اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی بیوی بیوہ ہوجائے اس کے بچے يتيم ہوجائیں تو وہ مکہ سے باہر آکر میرا راستہ روک کر دیکھ لے" مگر کسی کافر کی ہممت نہ پڑی کہ آپ کا راستہ روک سکتا
عمر ابن الخطاب ، رسول کريم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں
رسول کريم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک موقع پر فرمايا "اگر میرے بعد کوئی اور نبی مبعوث ہونا ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔" [ جامع ترمذی، ج 2 ، ص 563
]

ایک اور موقع پرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا "جس راستے پر عمر ہو وہاں سے شیطان راستہ بدل لیتا ہے۔" [صحیح بخاری، ج 2 ، رقم الحدیث 880 ]

مزید ایک موقع پر فرمايا " اللہ نے عمر کی زبان پر حق کو جاری کردیا ہے۔

واقعات
آپ ایک انصاف پسند حاکم تھے۔ یک مرتبہ آپ مسجد میں منبر رسول پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور کہا کہ اے عمر ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ زیادہ ہے جبکہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا وہ اس سے بہت کم تھا۔تو عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ مجمع میں میرا بیٹا عبداللہ موجود ہے، عبداللہ بن عمر کھڑے ہوگئے۔ عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ بیٹا بتاؤ کہ تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ بابا کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے ان کا پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا۔ اور ان کے پاس جو پہننے کے لباس تھا وہ بہت خستہ حال ہو چکا تھا۔ اس لئے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد کو دے دیا۔
ابن سعد فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن حضرت امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کے دروازے پن بیٹھے ہوۓ تھے کہ ایک کنیز گزری ۔ بعض کہنے لگے یہ باندی حضرت کی ہے۔ آ پ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ امیر المؤمنین کو کیا حق ہے وہ خدا کے مال میں سے باندی رکھے۔ میرے لیۓ صرف دو جوڑے کپڑے ایک گرمی کا اور دوسرا جھاڑے کا اور اوسط درجے کا کھانا بیت المال سے لینا جائز ہے۔ باقی میری وہی حیثیت ہے جو ایک عام مسلمان کی ہے۔
جب آپ کسی بزرگ کو عامل بنا کر بھیجتے تھے تو یہ شرائط سنا دیتے تھے : 1-گھوڑے پر کبھی مت سوار ہونا۔ 2-عمدہ کھانا نہ کھانا۔ 3-باریک کپڑا نہ پہننا۔ 4-حاجت مندوں کی داد رسی کرنا۔ اگر اس کے خلاف ہوتا تو سزائیں دیتے۔

عادات
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ،حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی دیگر صحابہ کی طرح مشورہ کرتے اور خود حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی جلالت کے معترف تھے چنانچہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ آئے تو فرمایا آپ رضی اللہ تعالی عنہ پر اللہ رحمت بھیجے کوئی شخص مجھے تمہارے درمیان اس ڈھکے ہوئے آدمی (مراد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی میت سے تھی) سے زیادہ پسند نہیں کہ میں اس کے نامہ اعمال کے ساتھ اللہ سے ملوں۔

شہادت
یکم محرم کو ایک ایرانی مجوسی غلام ابولولو فیروز نامی بدبخت نے آپ کو اس وقت شہید کردیا جب آپ نماز پڑھارہے تھے۔آپ کے بعد اتفاق رائے سے حضرت عثمان کو امیر المومنین منتخب کیا گیا۔

اتوار، 2 ستمبر، 2018

میت کے گھرسے کھانہ کھانے کا حکم


الحمد للہ رب العالمین والصلاة والسلام على رسوله الكربم وعلى اله وصحبه اجمعين . امابعد
میں بندہ ناچیز اکبر حسین اورکزئی اپ تمام معزز دوستوں کا شکر گزار ھوں کہ اپ حضرات نے اپنے مابین ایک مسلے پر بحث مباحثے کے بعد ہم ناچیز کو اس پر روشنی ڈالنے کا موقع فراہم کیا ؛ یقین جانئیے کہ سوشل میڈیا پر اگر ھم لایعنی بحث مباحثوں میں پڑنے کی بجائی اس طرح دینی مسائل ڈسکس کریں اور جو بات سمجھ نہ ائے علماء کی طرف رجوع کریں وثوق سے کہتا ھوں کہ ھمارے معاشرے میں مثبت تبدیلی ائی گی ۔ علم حاصل کرنا ھر مسلمان پر فرض ھے؛ یعنی وہ علم جس کے لیے ھم اپنی زندگی میں کم از کم محتاج ہیں جس میں سب سے اول عقائد کو بنیادی حیثیت حاصل ھے ۔ درست اور صحیح عقیدہ قیامت میں ذریعہ نجات ھوگا ۔
محترم دوستو میں اس مسئلہ کی طرف اتا ھوں جو اصل موضوع تھا ؛ اس سلسلے میں میں فتاوی محمودیہ
سے سوال جواب اپ حضرات کے سامنے پیش کرتا ھوں و باللہ التوفیق ۔

سوال: جس گھر میں فوتگی ہو وہاں کھانا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب:جب کسی کی وفات هوجائے تو اس کے گهر والے چونکہ صدمہ  میں مبتلا ہوتے ہیں  اس لئے اہل  محله اور رشتہ دار اهل ” میت ” کا کهانا تیار کریں اور جو نماز جنازه میں شریک نہ ہوسکا وه جاکر تعزیت بهی کرسکتاہے .

لیکن میت کے گهر اجتماع اور اہل  میت کا لوگوں کے لئے کهانا تیار کرنا ایک بهت بڑا گناه ہے اور بہت  سے علاقے اس قبیح حرکت کا شکار ہو  کر مقروض ہوجاتے ہیں  اور بسا اوقات وه تو سود پر قرض لینے پر بهی مجبور ہوجاتے ہیں اس طرح سے وارثوں کا اور بطور خاص یتیموں کا مال برباد کیا جاتا ہے ۔
1: حضرت جریر رضی الله تعالی عنه المتوفی51 هجری ” فرماتے ہیں :
” کنا نری الاجتماع الی اهل المیت وصنعته الطعام من النیاحته “
* ابن ماجه ص117 ، مسند امام احمد ج2 ص204 *
ترجمه: ہم  یعنی حضرات صحابه کرام رضوان الله اجمعین میت کے گهر جمع ہونے کو اور میت کے گهر کهانا تیار کرنے کو نوحہ سمجهتے تهے.
2: مرفوع حدیث میں آیا هے که میت پر آواز کے ساتھ رونا ، بین اور نوحه کرنا اهل جاہلیت کا کام هے اور نوحه کرنا جمہور ر سلف وخلف کر نزدیک حرام ہے .” امام نووی شرح مسلم ج1 ص303 “
اسی طرح میت کے گهر کا کهانا بهی سمجها جائے یہ روایت دوطریق سے مروی هے.
علامه هیثیمی رحمه الله ایک سند کے متعلق لکهتے هیں که یه بخاری کی شرط پر صحیح هے اور دوسری کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ  مسلم کی شرط پر صحیح ہے . * کتاب ، مجمع الزوائد *
3: حضرت علامه ابن امیر الحاج المالکی رحمه الله ” المتوفی 737 ه ” لکهتے هیں که:
” اهل میت کا کهانا تیار کرنا اور لوگوں کا جمع  ہونا اس میں کوئی چیز(سنت سے) منقو ل نہیں  ہے بلکہ  یہ  بدعت غیر مستحب ہے   
بعض لوگوں نے یہ  بدعت نکالی ہے کہ  میت کے تیجہ  پر طعام تیار کرتے ہیں  اوریہ  ان کے نزدیک معمول بہ   کام بن گیا ہے. ” کتاب مدخل ج3 ص275
حضرت علامه محمد بن محمد مبنجی حنبلی رحمه الله ” المتوفی 777هجری ” تسلیته المصائب ص99 ” میں 
اور حضرت امام شمس الدین بن قدامه حنبلی رحمه الله ” المتوفی 682 هجری ” شرح منقنع للکبیر ج2 ص426 میں اور امام موفق الدین بن قدامه حنبلی المتوفی 620هجری ” لکهتے ہیں :

4: ” کہ  اہل  میت جو لوگوں کے لئے کهانا تیار کرتے ہیں  وه مکروه ہے کیونکہ  اس میں اهل میت کو مزید تکلیف اور شغل میں مبتلا کرنا ہے  نیز اس سے مشرکین اہل  جاہلیت  کے ساتھ مشابهت بهی پائی جاتی ہے  ” 
* کتاب المغنی ج2 ص413 

5: حضرت علامه ابن عابدین شامی رحمه الله لکهتے هیں:
مذهبنا ومذهب غیرنا کالشّافعیته والحنابلته …… همارا ( یعنی ہمارے  احناف کے نزدیک ) اور حضرات شوافع اور حضرات حنابله رحمه الله کا یهی مذہب ہے .
” ج1 ص841 “
6: حضرت امام نووی رحمه الله شرح منهاج میں لکهتے ہیں :

” الاجتماع علی مقبرته فی الیوم الثالث وتقسیم الورد والعود والطعام فی الایام المخصوصته کالثالث والخامس والتاسع والعاشر والعشرین والاربعین والشهر السادس والسنة بدعته ممنوعته “

قبر پر تیسرے دن اجمتاع کرنا اور گلاب اور اگر بتیاں تقسیم کرنا اور مخصوص دنوں کے اندر روٹی کهلانا ، مثلاَ ” تیجه ، پانچواں ، نواں ، دسواں ، بیسواں اور چالیسواں ” دن اور چهٹا مهینه اور سال کے بعد یه سب کے سب امور بدعت ممنوعه هے .
* بحواله انوار ساطعه ص105 *
7: اسی طرح سے حضرت ملا علی قاری رحمه الله نے لکهتے ہیں 
همارے مذهب ” حنفی ” کے حضرات فقهاء کرام نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ  میت کے پہلے  اور تیسرے دن اور اسی طرح ہفتہ  کے بعد طعام تیار کرنا مکروهہے .
* مرقاته شریف ج5 ص482 *
* فتاوی محمودیه *
حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوھی دیوبند
والله اعلم بالصواب