عَنْ أَنَسٍؓ
قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلّٰی اللّٰه عَلَیه وَسَلَّمَ : ’’حُبِّبَ إِلَيَّ
الطِّیْبُ وَ النِّسَائُ، وَ جُعِلَتْ قُرَّۃ
عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃ
۔‘‘ (رواہ أحمد والنسائی، مشکوۃ المصابیح/ص :۴۴۹،
باب فضل الفقراء، الفصل الثالث)
ترجمہ
: حضرت انس رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں
کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’پسندیدہ بنائی گئیں میرے لیے
خوشبو اور عورتیں اور بنائی گئی میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں۔
تمہید :
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی انسان کے طبعی وقلبی رحجان اور فطری ذوق کا اندازہ اس
کی پسند اور چاہت (Choice)سے لگایا جا سکتا ہے، اگرا س کی طبیعت اور فطرت پر
پاکیزگی کاغلبہ ہے تو اس کی پسند و چاہت بھی اعلیٰ اورپاکیزہ ہوگی، عربی کا مقولہ
ہے: ’’کُلُّ إِنَائٍ یَنْضَحُ بِمَا فِیْہِ‘‘۔
(روضۃ الأدب/ص: ۴۷) یعنی برتن میں جو
ہوگا وہی اس سے ٹپکے گا،لہٰذا اگر طبیعت پاکیزہ ہے تو چاہت بھی پاکیزہ ہوگی، اور
اس میں کوئی شک نہیں کہ رحمت ِدو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا ظرف کائنات کی ساری مخلوق میں سب سے اعلیٰ،
مزکیٰ، مصفیٰ اور اﷲ تعالیٰ کی محبت سے لبریز تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و
سلم کی چاہت اور پسند بھی نہایت اعلیٰ
تھی، اور محبت کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ اس میں اپنی پسند پر نظر نہیں ہوتی۔مولانا
محمد احمد پرتاپ گڑھی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر ہے:نظر اُن کی نظر اپنی، پسند اُن
کی پسند اپنی نظر اپنی پسند اپنی، محبت میں نہیں ہوتی .
حضور صلی اللہ علیہ و
سلم کے دل میں تین چیزوں کی محبت ڈالی گئی :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فنا فی اللہ کے اعلیٰ مقام پر تھے، آپ
صلی اللہ علیہ و سلم کے دل میں اﷲ پاک کی
اس قدر محبت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی تمام چاہتوں کو اس کی چاہت کے
سامنے فنا کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی چاہت اور پسند وہی تھی جس کا اﷲ پاک
نے حکم فرمایا، چناںچہ حدیث ِمذکور میں لفظ: ’’حُبِّبَ‘‘ جو بصیغۂ مجہول لایا گیا اس میں یہی راز ہے، مطلب یہ ہے کہ(تین
چیزیں)مجھے پسندکرائی گئیں، یا میرے دل میں ان کی محبت ڈالی گئی، گویا میں نے از
خود کسی چیز کو پسند نہیں کیا، بلکہ میرے مولیٰ نے مجھے ان کی پسند اور محبت کا
حکم فرمایا ۔ فافھم۔
لہٰذ ا اب خلاصہ یہ ہوا کہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں منجانب اﷲتین چیزوں کی محبت ڈالی گئی۔آسمانِ
ہدایت کے سراجِ منیر نے نجومِ ہدایت کے ہجوم میں جب یہ بات ارشاد فرمائی تو صحابۂ
کرامؓ متوجہ ہوئے، یہ معلوم کرنے کے لیے کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا
پسند ہے؟تاکہ ہم بھی ان چیزوں کو پسند کریں، یہ حقیقت ہے نا! کہ چاہنے والو ں کے
لیے محبوب کی چاہت بھی محبوب ہواکرتی ہے، او ریہ بھی محبت کا تقاضا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ و
سلم اور خوشبو :ارشاد ہوا : پہلی چیز جس کی محبت اور پسند
میرے دل میں پیدا کی گئی وہ ہے ’’اَلطِّیْبُ‘‘یعنی عمدہ خوشبو ، جوانسان کے فطری، روحانی او رملکوتی تقاضوں میں
سے ہے، اس سے جسم کے علاوہ روح و قلب کو بھی ایک خاص نشاط حاصل ہوتاہے، عبادت میں
کیف و ذوق اور لذت حاصل ہوتی ہے، اور دوسری بات یہ ہے کہ لوگوں کو بھی اس سے راحت
پہنچتی ہے۔ اس لیے ہر صحیح الفطرت اور سلیم الطبع انسان کوخوشبو سے محبت اور بدبو
سے نفرت ہوتی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو سراپا سلیم الطبع و صحیح الفطرت
ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوخوشبو سے محبت کیوں نہ ہوتی؟
بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم
کا تو جسم اطہر قدرتی طور پر معطر تھا،حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ و
سلم کا پسینہ مبارک مشک و عنبر سے زیادہ
معطر تھا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ
فرماتے ہیں کہ’’ ایک مرتبہ رحمت ِدو عالم صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے گھر تشریف لائے، اور دوپہر کے وقت وہیں
محو ِ خواب ہوگئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم ِاطہر سے پسینہ بہت نکلا،حضرت ام
سلیم (جو حضرت ابوطلحہ انصاریؓ کی بیوی ہیں، نہایت عاقلہ اور آپ صلی اللہ علیہ و
سلم کے رضاعی یانسب مادری کی نسبت سے محرموں میں سے تھیں) (از: مظاہر حق جدید۵/۵۱۷)ام سُلیمؓ نے دیکھا تو ایک
شیشی لاکر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا پسینہ اس میں جمع کرناشروع کردیا، حضور صلی
اللہ علیہ وسلم نے بیدارہوکر پوچھا :ام سُلیم! کیاکر رہی ہو؟ کہنے لگیں: حضور!یہ
آپ کا مبارک پسینہ ہے، ہم اسے اپنی خوشبو میں ملائیں گے، کہ یہ ہر عطر سے زیادہ
خوشبودار ہے۔(حلیۃ الاولیاء، لابی نعیم الاصفہانی/ص:۶۱،:۲ ، از :تراشے ص:۷۵،متفق علیہ، مشکوٰۃ /ص:۵۱۷) پسینہ پونچھ کر رکھتے
صحابہؓ جسمِ اطہر کاجو خوشبو میں گلاب و مشک و عنبر سے بھی بہتر تھافضا ساری مہک
جاتی وہ جس راہ سے جاتےنکلتے جستجو میں جو وہ خوشبوسے پتہ پاتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس راہ سے گذر
جاتے ساری فضا معطر ہو جاتی تھی، تلاش کرنے والا خوشبو سے معلوم کر لیتاکہ ابھی
اللہ تعالیٰ کا محبوب یہاں سے گذراہے۔ (ترمذی، مشکوٰۃ/ ص:۱۵۷) .
ایک اور عاشق نے کہا کہ:جسمِ مطہر کتنا معطر، روئے
مبارک ماہ منوردلکش باتیں، شیریں تبسم، صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ان سب کے
باوجود آپ صلی اللہ علیہ و سلم خوشبو کو
پسند فرماتے،اس لیے معمولِ مبارک تھاکہ تحفہ یاخوشبودار پھول وغیرہ واپس کرنے سے
منع فرماتے، کیوں کہ خوشبو آپ صلی اللہ
علیہ و سلم کی پسندیدہ چیز تھی، بلکہ سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کے مطالعہ کے بعد اس عاجز کا ناقص خیال تو یہ
ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم خوشبو سے
کیا محبت فرماتے خود خوشبو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کرتی تھی۔
عورت قابل نفرت نہیں، لائق محبت ہے : دوسری چیز جس کی محبت میرے دل میں ڈالی گئی وہ
ہے نیک رفیقۂ حیات،فیشن پرست عورت نہیں، بلکہ فرمایا: ’’وَالنِّسَائُ‘‘ ، اور ایک روایت میں ’’المَرْأَۃ الصَّالِحَة‘‘ ہے، یعنی (وہ نیک)عورت جس کا
دل ذوقِ وفا سے سرشار اور جبین اللہ تعالیٰ کے حضور سجدوں سے آباد ہو۔جو عبادت
میں اللہ تعالیٰ سے وفاکرے او رعفت میں شوہر سے وفا کرے۔یہاں کسی اعتراض کا موقع
اس لیے نہیں ہے کہ عورت سے محبت کرنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتی پسند نہیں،
بلکہ منجانب اﷲ اس کی پسند آپ صلی اللہ
علیہ و سلم کے د ل میں پیدا کی گئی۔ اور ا س میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں، عورت
جو زندگی کی ایک بڑی اہم ضرورت ہے ،دورِ جاہلیت میں اس کے وجودہی سے نفرت کی جاتی
تھی ،اس کی ولادت پر مذمت وندامت کی جاتی تھی، قرآنِ نے اسے یوں بیان فرمایا : {وَإِذَابُشِّرَ
أَحَدُہُمْ بِالْأُنْثٰی ظَلَّ وَجْہُہٗ مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیْمٌ} (النحل :۵۸) اور
جب ان میں کسی کو بیٹی کی پیدائش کی خبر دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے،
او ردل ہی دل میں کڑھتارہتاہے۔
بعد میں ساری زندگی اس کا استعمال محض تکمیل شہوت یا ضرورت کے لیے
ہوتا تھا، اُس کے ساتھ عموماًوہ سلوک کیا جاتا کہ انسان تو کیا شیطان بھی شرما
جائے ،زمانۂ جاہلیت میں عورت کی حیثیت کیا تھی؟عورت کنیز بن کر دنیا میں جی رہی
تھی خونِ جگر کے قطرے خاموش پی رہی تھی ایسے سنگین حالات میں حضورِاکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے یہ حقیقت سمجھائی کہ عورت بالخصوص جب کہ وہ نیک ہو، قابل نفرت نہیں،
بلکہ لائق محبت ہے، اور محبت قائم ہونے کا ذریعہ بھی،یہی وجہ ہے کہ میرے د ل میں
اس کی محبت من جانب اللہ ڈالی گئی۔
عورت سے محبت کرنے کا صحیح طریقہ
: اور حضورِاکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں یہ بھی سمجھایا
کہ عورت کی مختلف حیثیتیں ہیں، لہٰذاہر حیثیت سے اس کے ساتھ محبت کا انداز،تقاضا
اور طریقہ بھی مختلف ہوگا، مثلا:
۱- عورت اگر ماں ہے، تو اس
کی ہر ممکن خدمت اور جائز امور میں اس کی مکمل اطاعت کرنا یہ اس کی محبت کا تقاضا ہے۔
۲- عورت اگر بہن ہے، تو
ایک مخلص بھائی کا پیار دے کر اس کے تمام حقوق کو پورا کرنا اس کی محبت کا تقاضا
ہے ۔ ۳- عورت
اگر بیوی ہے، تو شوہر کے لیے ادائے حقوق اور حسن سلوک کا معاملہ کرنا یہ اس کی
محبت کا تقاضا ہے.
۴- عورت اگر بیٹی ہے، تو اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت
سمجھتے ہوئے اس کی تعلیم و تربیت کا پورا پورا خیال رکھنا یہ اس کی محبت کا تقاضا ہے ۔کسی
بزرگ کا مقولہ ہے کہ ’’بیٹی رحمت ہے اور بیٹا نعمت ہے، نعمت زائل ہو سکتی ہے، لیکن
رحمت تو رحمت ہی رہتی ہے۔‘‘
الغرض! حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت سے
محبت بھی فرمائی اور امت کو اس سے محبت کرنے کا صحیح انداز اور طریقہ بھی سکھلایا۔
نماز آپ صلی اللہ علیہ و سلم
کی محبت کا محور و مرکز ہے :
تیسری چیز کے بارے میں فرمایا ’’وَجُعِلَتْ قُرَّۃ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃ‘‘
کہ نماز تو میری آنکھوں کی
ٹھنڈک ہے، کیوں کہ نماز رب العزت کی ملاقات، یاداور محبت حاصل کرنے کا بہترین
ذریعہ ہے، قرآنِ پاک میں فرمایا: {وَأَقِمِ الصَّلٰوۃَ
لِذِکْرِیْ} (طٰہٰ :۱۴) اور مجھے یاد رکھنے کے لیے نماز قائم کرو۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے لبریز تھا، اس
لیے وہ چیز جوبطورِ خاص اس کی یاد اورمحبت
حاصل کرنے کا ذریعہ تھی یعنی نماز، اسے آپ
صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک بتلایا۔ صاحب مظاہر حق نے فرمایا: ’’لفظ
ِ’’قُرَّۃُ‘‘یہ’’قَرَّ‘‘ سے مشتق ہے ، جس کے معنی قرار و ثبات کے ہیں، یہ حقیقت ہے
کہ جب نگاہ کو محبوب کا دیدار نصیب ہوتا ہے تو نہ صرف نظر کو قرار ملتا ہے، بلکہ
دل کو بھی سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے، جس طرح محبوب کا دیدار نہ ہونے سے نظریں
پریشان اور دل بے قرار رہتا ہے، لہٰذا نگاہ اور دل کے اسی قرار کو حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے ’’قُرَّۃٌ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ ( مظاہر حق جدید:۶/۹۵).
بہر حال! نماز،نیک عورت اور خوشبو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت
اور محبت کا مرکز ومحور ہے، لہٰذا آپ
صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ جو چیزیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پسند ہیں وہ ہمیں بھی
پسند ہوں۔
خلفائِ اربعہؓ کی پسند : یہ تین چیزیں وہ تھیں جو حضور صلی اللہ علیہ
وسلم کو پسند کرائی گئیں ،جن کا ذکر اس حدیث میں ہوا۔ دوسری روایت میں ابن حجرؒ نے
اپنی تصنیف ’’المنبہات‘‘ میں مزید تفصیل بیان فرمائی
ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پسندیدہ اشیا ء کاذکر فرمایا، تو سیدنا
صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ نے اجازت لے کرعرض کیا: حضور!مجھے بھی تین چیزیں بہت پسند
ہیں : عرض کیا:
’’ اَلنَّظَرُ إِلٰی وَجْهكَ، وَإِنْفَاقُ مَالِیْ عَلٰی أَمْرِکَ ، وَأَنْ تَکُوْنَ بِنْتِیْ فِیْ بَیْتِکَ ۔
۱- آپ کے چہرۂ انور کی طرف دیکھنادنیا وما
فیہا سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
۲- آپ کے منشا وحکم پر اپنا مال خرچ کرنا
مجھے بڑا پسند ہے۔
۳- آپ کے نکاح میں اپنی بیٹی دینا بھی مجھے
بہت پسندہے۔
صدیق اکبرؓ کے بعد سیدنا عمرؓ نے عرض کیا: حضور! مجھے بھی تین چیزیں بہت پسند ہیں:
صدیق اکبرؓ کے بعد سیدنا عمرؓ نے عرض کیا: حضور! مجھے بھی تین چیزیں بہت پسند ہیں:
’’اَلأَمْرُبِالْمَعْرُوْفِ،
وَالنهىُ عَنِ الْمُنْکَرِ، وَالثَّوْبُ الْخَلَقُ۔‘‘
۱- امر بالمعروف کرنا،حسنات و معروفات کی
اشاعت کرنا مجھے بہت پسند ہے۔
۲- نہی عن المنکر کرنا ،برائیوں کا
خاتمہ کرنا مجھے بہت پسند ہے۔
۳ - پرانے (مگر پاک صاف) کپڑے پہننابھی
مجھے بہت پسند ہے۔
پھر سیدنا عثمان غنی ؓنے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اپنی تین پسندیدہ چیزیں پیش کیں:
’’إِطْعَامُ
الْجِیْعَانِ، وَکِسْوَۃ
العُرْیَانِ، وَتِلَاوَۃ
الْقُرْآنِ‘‘۔
۱- بھوکوں کو کھانا کھلانا پسند ہے۔
۲- ناداراورننگوں کو کپڑا پہناناپسند ہے ۔
۳- قرآن کریم کی تلاوت کرنابھی بہت پسند ہے۔
یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ آخری وقت میں بھی حضرت عثمانؓ نے قرآن کو
اور قرآنِ کریم نے حضرت عثمانؓ کو اپنے سینے سے لگا کریاری پکی کرلی اور آپؓ نے
تلاوتِ قرآن کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرمایا۔
اخیر میں سیدنا علی کرم اﷲ وجہہٗ نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے
اجازت لے کر اپنی تین پسندیدہ چیزیں عرض کیں:
’’اَلْخِدْمة لِلضَّیْفِ، وَالضَّرْبُ بِالسَّیْفِ، وَالصَّوْمُ فِی
الصَّیْفِ‘‘۔
۱- مہمانوں کی خدمت کرنابہت پسند ہے ۔
۲- جہاد بالسیف، یعنی راہِ حق میں تلوار سے
جہاد کرنا بہت پسند ہے۔
۳- شدیدگرمیوں میں روزے رکھنابھی بہت پسند ہے
۔
شمع رسالت کے ان بے لوث پروانوں کی یہ پسندیدہ اشیاء محض زبانی جمع
خرچ نہیں تھیں، بقولِ شاہ صاحب علامہ سید عبدالمجید ندیمؒیہ پسند صرف زبان و بیان
کی حد تک محدود نہیں،بلکہ اُنہوں نے عملی زندگی میں بھی اس کا بھر پور مظاہرہ
فرمایا، جو تاریخ کا زرین باب ہے۔
جبرئیل امین علیہ السلام اور رب العالمین کی پسند : ابھی
حضورصلی اللہ علیہ وسلم اور ان جلیل القدر صحابہؓ کی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ
سیدالملائکہ حضرت روح الامین تشریف لائے اور عرض کیا : ’’رب العالمین نے آپ تمام
کی گفتگو سن کر مجھے بھیجا ،تاکہ میں اپنی اور رب العالمین کی پسند بتلائوں، میری
پسند تو یہ ہے
:إِرْشَادُ
الضَّالِّیْنَ، وَ إِعَانةعِیَالِ الْمُعْسِرِیْنَ، وَمُؤَانَسة الْغُرَبَائِ الْقَانِتِیْنَ‘‘۔ ۱- (دنیوی اور دینی اعتبار سے) بھٹکے ہوؤں کو راہِ راست بتلانامجھے
بہت پسند ہے ۔
۲- عیال دار،تنگ دست کی نصرت کرنا،جس کی جیب تو
خالی ہو، مگر ضمیر محفوظ ہو، مجھے بہت پسندہے۔
۳- عبادت گزار غریبوں سے محبت کرنا،یعنی باضمیر
غریبوں سے دوستی کرنابھی مجھے بہت پسند ہے۔
پھر فرمایا ! اﷲ پاک کو اپنے بندوں سے تین چیزیں بڑی پسند ہیں:
بَذْلُ
الْاِسْتِطَاعة، وَ الصَّبْرُ عِنْدَ الْفَاقة،
وَالْبُکَائُ عِنْدَالنَّدَامة‘‘۔
۱- بندہ کا اپنی طاقت و استطاعت کو اللہ تعالیٰ
کی خوشنودی کے لیے خرچ کرنااللہ تعالیٰ کو بہت پسندہے۔
۲- فاقہ
کے وقت شکوہ کے بجائے صبر کرنا بھی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔
۳- گناہوں پر ندامت کے ساتھ رونابھی اللہ تعالیٰ
کو بہت پسندہے۔
ائمہ اربعہ کی پسند :’’نزھۃ المجالس‘‘ میں علامہ عبدالرحمن صفویؒ نے فرمایا :’’جب یہ حدیث
ائمۂ اربعہ کو پہنچی تو ہر ایک نے اپنی اپنی پسند بیان فرمائی، سب سے پہلے حضرت
امام اعظم ابوحنیفہ ؒالنعمانؒ نے اپنی پسندیدہ چیزیں بیان فرمائیں:
۱- طویل رات میں جاگ کر علم حاصل کرنا مجھے بہت پسندہے۔
۲- تکبر ترک کرنا اور
تواضع اختیار کرنا مجھے بہت پسندہے۔
۳- وہ دل جو دنیا کی محبت سے خالی ہو اور اللہ کی
محبت سے لبریز ہومجھے بہت پسندہے۔
پھر حضرت امام مالک ؒ نے اپنی تین پسندیدہ اشیا ء بیان فرمائیں:
۱- روضۂ اقدس کا قرب
مجھے بہت پسندہے ۔
۲- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاک (مدینہ)
سے چمٹے رہنا بھی مجھے بہت پسندہے۔
۳- اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم
کرنا بھی مجھے بہت پسندہے۔
اس کے بعدحضرت امام شافعی ؒ
نے اپنی تین پسندیدہ چیزیں بیان فرمائیں:
۱- مخلوق
کے ساتھ اخلاق سے پیش آنا مجھے بہت پسندہے۔
۲- ترکِ تکلفات اور سادگی سے زندگی گذارنامجھے بہت پسندہے۔
۳- راہِ تصوف اختیار کرنا بھی مجھے بہت
پسندہے۔
اخیر میں حضرت امام احمد بن حنبل ؒ نے اپنی تین پسندیدہ چیزیں بیان
فرمائیں:
۱- اتباعِ نبی صلی اللہ علیہ و سلم میری پہلی پسندہے۔
۲- آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے انوارات
و ارشادات سے برکت حاصل کرنا بھی مجھے بہت پسند ہے۔
۳- آپ
صلی اللہ علیہ و سلم کے نقش قدم پر
چلنا مجھے بہت پسندہے۔ ( نزہۃ المجالس/ ص: ۹۹/ ج :۱)
سچ ہے:{ أُولٰئِکَ حِزْبُ اللّٰہِ أَلاَ إِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ} (المجادلۃ:۲۲) ’’یہ اللہ تعالیٰ کی جماعت اورگروہ ہے، یاد رکھو
کہ اللہ تعالیٰ کا گروہ ہی کامیاب ہونے والاہے۔‘‘اوریہ ہے ان کا وہ گلدستۂ محبت
وہدایت جس کی خوشبو سے گلشن انسانیت مہکتا رہے گا۔یہ عاجز دست بستہ اپنے مولیٰ کے
حضور عرض کرتاہے کہ’’الٰہی ! مجھے۱-توبۃً نصوحاً ۲-اپنی مکمل اصلاح ۳-اور دونوں جہان میں تیری رضا پسندہے، لہٰذا اپنی محبت نصیب فرماکر
اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطافرما، آمین۔ وَ آخِرُ
دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔یَا رَبِّ صَلِّ وَ
سَلِّمْ دَائِماً أَبَدًاعَلٰی حَبِیْبِکَ خَیْرِالْخَلْقِ کُلِّھِمْ٭…٭…٭
بحوالہ گلدستہ حدیث:
ترتیب اکبر حسین اورکزئی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں