اتوار، 2 ستمبر، 2018

میت کے گھرسے کھانہ کھانے کا حکم


الحمد للہ رب العالمین والصلاة والسلام على رسوله الكربم وعلى اله وصحبه اجمعين . امابعد
میں بندہ ناچیز اکبر حسین اورکزئی اپ تمام معزز دوستوں کا شکر گزار ھوں کہ اپ حضرات نے اپنے مابین ایک مسلے پر بحث مباحثے کے بعد ہم ناچیز کو اس پر روشنی ڈالنے کا موقع فراہم کیا ؛ یقین جانئیے کہ سوشل میڈیا پر اگر ھم لایعنی بحث مباحثوں میں پڑنے کی بجائی اس طرح دینی مسائل ڈسکس کریں اور جو بات سمجھ نہ ائے علماء کی طرف رجوع کریں وثوق سے کہتا ھوں کہ ھمارے معاشرے میں مثبت تبدیلی ائی گی ۔ علم حاصل کرنا ھر مسلمان پر فرض ھے؛ یعنی وہ علم جس کے لیے ھم اپنی زندگی میں کم از کم محتاج ہیں جس میں سب سے اول عقائد کو بنیادی حیثیت حاصل ھے ۔ درست اور صحیح عقیدہ قیامت میں ذریعہ نجات ھوگا ۔
محترم دوستو میں اس مسئلہ کی طرف اتا ھوں جو اصل موضوع تھا ؛ اس سلسلے میں میں فتاوی محمودیہ
سے سوال جواب اپ حضرات کے سامنے پیش کرتا ھوں و باللہ التوفیق ۔

سوال: جس گھر میں فوتگی ہو وہاں کھانا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب:جب کسی کی وفات هوجائے تو اس کے گهر والے چونکہ صدمہ  میں مبتلا ہوتے ہیں  اس لئے اہل  محله اور رشتہ دار اهل ” میت ” کا کهانا تیار کریں اور جو نماز جنازه میں شریک نہ ہوسکا وه جاکر تعزیت بهی کرسکتاہے .

لیکن میت کے گهر اجتماع اور اہل  میت کا لوگوں کے لئے کهانا تیار کرنا ایک بهت بڑا گناه ہے اور بہت  سے علاقے اس قبیح حرکت کا شکار ہو  کر مقروض ہوجاتے ہیں  اور بسا اوقات وه تو سود پر قرض لینے پر بهی مجبور ہوجاتے ہیں اس طرح سے وارثوں کا اور بطور خاص یتیموں کا مال برباد کیا جاتا ہے ۔
1: حضرت جریر رضی الله تعالی عنه المتوفی51 هجری ” فرماتے ہیں :
” کنا نری الاجتماع الی اهل المیت وصنعته الطعام من النیاحته “
* ابن ماجه ص117 ، مسند امام احمد ج2 ص204 *
ترجمه: ہم  یعنی حضرات صحابه کرام رضوان الله اجمعین میت کے گهر جمع ہونے کو اور میت کے گهر کهانا تیار کرنے کو نوحہ سمجهتے تهے.
2: مرفوع حدیث میں آیا هے که میت پر آواز کے ساتھ رونا ، بین اور نوحه کرنا اهل جاہلیت کا کام هے اور نوحه کرنا جمہور ر سلف وخلف کر نزدیک حرام ہے .” امام نووی شرح مسلم ج1 ص303 “
اسی طرح میت کے گهر کا کهانا بهی سمجها جائے یہ روایت دوطریق سے مروی هے.
علامه هیثیمی رحمه الله ایک سند کے متعلق لکهتے هیں که یه بخاری کی شرط پر صحیح هے اور دوسری کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ  مسلم کی شرط پر صحیح ہے . * کتاب ، مجمع الزوائد *
3: حضرت علامه ابن امیر الحاج المالکی رحمه الله ” المتوفی 737 ه ” لکهتے هیں که:
” اهل میت کا کهانا تیار کرنا اور لوگوں کا جمع  ہونا اس میں کوئی چیز(سنت سے) منقو ل نہیں  ہے بلکہ  یہ  بدعت غیر مستحب ہے   
بعض لوگوں نے یہ  بدعت نکالی ہے کہ  میت کے تیجہ  پر طعام تیار کرتے ہیں  اوریہ  ان کے نزدیک معمول بہ   کام بن گیا ہے. ” کتاب مدخل ج3 ص275
حضرت علامه محمد بن محمد مبنجی حنبلی رحمه الله ” المتوفی 777هجری ” تسلیته المصائب ص99 ” میں 
اور حضرت امام شمس الدین بن قدامه حنبلی رحمه الله ” المتوفی 682 هجری ” شرح منقنع للکبیر ج2 ص426 میں اور امام موفق الدین بن قدامه حنبلی المتوفی 620هجری ” لکهتے ہیں :

4: ” کہ  اہل  میت جو لوگوں کے لئے کهانا تیار کرتے ہیں  وه مکروه ہے کیونکہ  اس میں اهل میت کو مزید تکلیف اور شغل میں مبتلا کرنا ہے  نیز اس سے مشرکین اہل  جاہلیت  کے ساتھ مشابهت بهی پائی جاتی ہے  ” 
* کتاب المغنی ج2 ص413 

5: حضرت علامه ابن عابدین شامی رحمه الله لکهتے هیں:
مذهبنا ومذهب غیرنا کالشّافعیته والحنابلته …… همارا ( یعنی ہمارے  احناف کے نزدیک ) اور حضرات شوافع اور حضرات حنابله رحمه الله کا یهی مذہب ہے .
” ج1 ص841 “
6: حضرت امام نووی رحمه الله شرح منهاج میں لکهتے ہیں :

” الاجتماع علی مقبرته فی الیوم الثالث وتقسیم الورد والعود والطعام فی الایام المخصوصته کالثالث والخامس والتاسع والعاشر والعشرین والاربعین والشهر السادس والسنة بدعته ممنوعته “

قبر پر تیسرے دن اجمتاع کرنا اور گلاب اور اگر بتیاں تقسیم کرنا اور مخصوص دنوں کے اندر روٹی کهلانا ، مثلاَ ” تیجه ، پانچواں ، نواں ، دسواں ، بیسواں اور چالیسواں ” دن اور چهٹا مهینه اور سال کے بعد یه سب کے سب امور بدعت ممنوعه هے .
* بحواله انوار ساطعه ص105 *
7: اسی طرح سے حضرت ملا علی قاری رحمه الله نے لکهتے ہیں 
همارے مذهب ” حنفی ” کے حضرات فقهاء کرام نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ  میت کے پہلے  اور تیسرے دن اور اسی طرح ہفتہ  کے بعد طعام تیار کرنا مکروهہے .
* مرقاته شریف ج5 ص482 *
* فتاوی محمودیه *
حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوھی دیوبند
والله اعلم بالصواب

کوئی تبصرے نہیں: