بابا فرید الدین مسعود کے دربار پر موجود' بہشتی دروازہ 'کی شرعی حیثیت
سوال:پاکستان کے ایک شہر پاکپتن میں بابا فرید الدین مسعود کے دربار پر دو دروازے ہیں جن میں سے ایک دروازہ سارا سال کھلا رہتا ہے جب کہ دوسرا دروازہ ہر سال ۵/ محرم کو صرف پانچ دن کے لیے کھلتا ہے جس کے متعلق خواجہ نظام الدین اولیا کی طرف روایت منسوب کی جاتی ہے کہ جو اس دروازے سے گزرے گا وہ جنتی ہو گا۔ لہٰذا لو گ اسے 'جنتی دروازہ' کہتے ہیں اور اس اعتقاد سے لا کھوں لوگ ہر سال اس دروازے سے گزرتے ہیں...1۔اس دروازے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
2۔اس کے متعلق بہشتی دروازہ ہو نے کا اعتقاد رکھنا کیسا ہے؟ (حافظ مقصود احمد، مدیر ماہنامہ 'توحید')
.......................................................................................................................................................................
جواب: شریعت کی نگاہ میں بہشتی دروازہ
کااِطلاق صرف اُخروی جنت کے دروازہ پر ہوتا ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ
نبی کریم ﷺنے فرمایا: «وأنا أول من يقرع باب الجنة» سب سے پہلے
میں جنت کا دروازہ کھٹکھٹاوٴں گا ۔" (ایمان: ۳۳۱)
اور صحیح مسلم ہی کی دوسری روایت میں الفاظ یوں ہیں:« آتي باب الجنة یوم القیامة»
اور صحیح مسلم ہی کی دوسری روایت میں الفاظ یوں ہیں:« آتي باب الجنة یوم القیامة»
قیامت کے روز میں جنت کے دروازہ پر آوٴں گا" (ایمان: ۴۸۵)
اور صحیحین میں ہے : «في الجنة ثمانیة أبواب» " جنت میں آٹھ دروازے ہیں ۔" (مسلم: ۴۶)
اِن نصوص سے معلوم ہوا کہ بطورِ شعار بہشتی دروازہ کا اِطلاق صرف جناتِ خلد پر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی محترم و مکرم چیز کی طرف منسوب دروازہ کو بابِ جنت نہیں کہا جا سکتا ۔ اگر اس کاجواز ہوتا تو سلف صالحین اس کے زیادہ حقدار تھے۔اسلامی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس سے جواز کا پہلو نکلتا ہو۔ لہٰذا اس خود ساختہ بہشتی دروازہ کا اِنہدام ضروری ہے تا کہ افرادِ اُمت کوشرک کی نجاست سے بچایا جا سکے۔ جس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیعت الرضوان کی طرف منسوب درخت کو کٹوا دیا تھا جبکہ عامة الناس اسے متبرک سمجھ کر اس کی زیارت کا قصد کرنے لگے تھے۔ ( فتح الباری : ۷/۴۴۸)
اسی طرح (مسند احمد :۵/۲۱۸) اور سنن النسائی الکبریٰ (حدیث ۱۱۱۸۵) میں مذکور ہے کہ حنین سے واپسی پر ایک بہت بڑی بیری جسے ذاتِ نواط کہا جاتا تھا اور مشرکین اس کی عبادت کرتے تھے ، کے قریب سے گزرتے ہوئے بعض صحابہ نے آنحضرت ﷺسے درخواست کی کہ ہمارے لیے بھی 'ذاتِ انواط' مقرر کر دیں جیسا کہ کفار کے لیے ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے وہی بات کہی جو موسیٰ علیہ السلام سے ان کی قوم نے کہی تھی: یعنی ﴿اجعَل لَنا إِلـٰهًا كَما لَهُم ءالِهَةٌ ۚ قالَ إِنَّكُم قَومٌ تَجهَلونَ ١٣٨ ﴾... سورة الاعراف
" ہمارے لیے معبود مقرر کر دیجئے جیسے ان کے معبود ہیں، فرمایا: تم جاہل لوگ ہو ۔"
(۲) اس کے متعلق بہشتی دروازہ ہونے کا اعتقاد رکھنا شرکیات وکفریات میں داخل ہے کیونکہ یہ ایسی بات ہے جس کا علم نصوصِ شریعت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا جو یہاں مفقود ہے ۔لہٰذا عزم بالجزم کے ساتھ اس کو بہشتی دروازہ قرار دینا مداخلت فی الدین ہے جس کی جزا وسزا کا معاملہ انتہائی پر خطر ہے ۔ ایسے اعتقاد سے فی الفور تائب ہونا ضروری ہے ۔ورنہ ڈر ہے کہ کہیں جہنم کاایندھن نہ بن جائیں۔اللہ تعالیٰ کتاب وسنت کی روشنی میں صحیح عقائد کی توفیق عطا فرمائے تا کہ حقیقی جنت میں داخلہ ہمارا مقدر ہو ۔ آمین!
اور صحیحین میں ہے : «في الجنة ثمانیة أبواب» " جنت میں آٹھ دروازے ہیں ۔" (مسلم: ۴۶)
اِن نصوص سے معلوم ہوا کہ بطورِ شعار بہشتی دروازہ کا اِطلاق صرف جناتِ خلد پر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی محترم و مکرم چیز کی طرف منسوب دروازہ کو بابِ جنت نہیں کہا جا سکتا ۔ اگر اس کاجواز ہوتا تو سلف صالحین اس کے زیادہ حقدار تھے۔اسلامی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس سے جواز کا پہلو نکلتا ہو۔ لہٰذا اس خود ساختہ بہشتی دروازہ کا اِنہدام ضروری ہے تا کہ افرادِ اُمت کوشرک کی نجاست سے بچایا جا سکے۔ جس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیعت الرضوان کی طرف منسوب درخت کو کٹوا دیا تھا جبکہ عامة الناس اسے متبرک سمجھ کر اس کی زیارت کا قصد کرنے لگے تھے۔ ( فتح الباری : ۷/۴۴۸)
اسی طرح (مسند احمد :۵/۲۱۸) اور سنن النسائی الکبریٰ (حدیث ۱۱۱۸۵) میں مذکور ہے کہ حنین سے واپسی پر ایک بہت بڑی بیری جسے ذاتِ نواط کہا جاتا تھا اور مشرکین اس کی عبادت کرتے تھے ، کے قریب سے گزرتے ہوئے بعض صحابہ نے آنحضرت ﷺسے درخواست کی کہ ہمارے لیے بھی 'ذاتِ انواط' مقرر کر دیں جیسا کہ کفار کے لیے ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے وہی بات کہی جو موسیٰ علیہ السلام سے ان کی قوم نے کہی تھی: یعنی ﴿اجعَل لَنا إِلـٰهًا كَما لَهُم ءالِهَةٌ ۚ قالَ إِنَّكُم قَومٌ تَجهَلونَ ١٣٨ ﴾... سورة الاعراف
" ہمارے لیے معبود مقرر کر دیجئے جیسے ان کے معبود ہیں، فرمایا: تم جاہل لوگ ہو ۔"
(۲) اس کے متعلق بہشتی دروازہ ہونے کا اعتقاد رکھنا شرکیات وکفریات میں داخل ہے کیونکہ یہ ایسی بات ہے جس کا علم نصوصِ شریعت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا جو یہاں مفقود ہے ۔لہٰذا عزم بالجزم کے ساتھ اس کو بہشتی دروازہ قرار دینا مداخلت فی الدین ہے جس کی جزا وسزا کا معاملہ انتہائی پر خطر ہے ۔ ایسے اعتقاد سے فی الفور تائب ہونا ضروری ہے ۔ورنہ ڈر ہے کہ کہیں جہنم کاایندھن نہ بن جائیں۔اللہ تعالیٰ کتاب وسنت کی روشنی میں صحیح عقائد کی توفیق عطا فرمائے تا کہ حقیقی جنت میں داخلہ ہمارا مقدر ہو ۔ آمین!
( بحواله محدث میگزین )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں