بدھ، 31 اگست، 2016

عشرہ ذو الحجہ کے فضائل اور احکام و مسائل


وَالْفَجْرِ   Ǻ۝ۙ وَلَيَالٍ عَشْرٍ Ą۝ۙ وَّالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ Ǽ۝ۙ وَالَّيْلِ اِذَا يَسْرِ Ć۝ۚ
1- فجر کے وقت کي قسم، اور (ذي الحجہ کي ابتدائي) دس راتوں کي قسم، اور ہر جوڑے اور فرد مخلوق کي قسم، اور رات کي قسم جب وہ گزر رہي ہوتي ہے۔ {الفجر}.
اکثر مفسرين کے نزديک آيت ميں دس راتوں سے مراد ذو الحجہ کي ابتدائي دس راتيں ہيں۔
2- مذکورہ آيت کے سياق و سباق ميں اللہ تعالي نے اور بھي چيزوں کي قسم کھائي ہے، جو خود بھي عظيم الشان اہميت کي حامل ہيں، جن سے ان دس راتوں کي اہميت و عظمت کو اور چار چاند لگ جاتے ہيں۔
3- اسي عشرہ ميں اللہ تعالي نے اپنے دين کي تکميل فرمائي۔ چند يہوديوں نے کہا کہ اگر يہ آيت ہمارے يہاں نازل ہوئي ہوتي تو ہم اس دن عيد منايا کرتے۔ حضرت عمر رضي اللہ عنہ نے فرمايا: کون سي آيت؟ انہوں نے کہا: “آج ميں نے تم پر اپنے دين کو کامل کيا اور اپني نعمت تم پر پوري کردي”، اس پر عمر رضي اللہ عنہ نے فرمايا کہ مجھے خوب معلوم ہے کہ يہ آيت کہاں نازل ہوئي تھي۔ جب يہ آيت نازل ہوئي تو ميدان عرفات ميں کھڑے ہوئے تھے۔ (يعني حجۃ الوداع ميں)۔  [بخاري 4407]۔
4- ان دس دنوں ميں اسلام کے تمام ارکان جمع ہوتے ہيں ايسا کسي اور موقعہ پر نہيں ہوتا۔
5- ان دنوں کے اعمال اللہ کو بہت ہي زيادہ پسنديدہ ہيں بہ نسبت دوسرے دنوں کے اعمال کے ۔ حضرت ابن عباس رضي اللہ عنہ سے روايت ہے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اللہ تعالي کو کوئي نيک عمل کسي دن ميں اس قدر زيادہ پسند نہيں ہے جتنا کہ ان دنوں ميں پسنديدہ اور محبوب ہوتا ہے، يعني ذو الحجہ کے پہلے عشرہ ميں، صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کيا جہاد في سبيل اللہ بھي نہيں؟ آپ نے فرمايا: نہيں، جہاد في سبيل اللہ بھي نہيں، مگر جو کوئي شخص اپني جان و مال لے کر نکلا ہو اور پھر کچھ واپس نہ لايا ہو۔ {أبوداود 2438 والترمذي 757 } بخاري [969] ميں افضل کا ذکر ہے۔
حضرت جابر رضي اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: دنيا کے دنوں ميں سب سے افضل ذي الحجہ کے پہلے دس دن ہيں، پوچھا گيا کہ اللہ کے راستے ميں لگانا بھي ان کے برابر نہيں؟ آپ نے فرمايا: اللہ کي راہ ميں لگانا بھي ان کے برابر نہيں، مگر وہ آدمي جو اپني چہرہ مٹي ميں آلودہ کردے۔ {صحيح لغيره في الترغيب 1150}
حضرت ابن عمر رضي اللہ عنہما سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اللہ کے نزديک عشرہ ذي الحجہ سے بڑھ کر زيادہ عظيم (عظمت والے) دن اور عمل کے اعتبار سے بھي ان سے بڑھ کر پسنديدہ دن کوئي اور نہيں ہيں، چنانچہ ان ميں تہليل (لا الہ الا اللہ) و تکبير (اللہ اکبر)اور تحميد (الحمد للہ)کيا کرو۔ {مسند أحمد 6154 ، 10/296 حديث صحيح}
حضرت ابن عباس رضي اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اللہ کے نزديک سب سے زيادہ پاکيزہ اور اجر کے اعتبار سے سب سے زيادہ عظيم وہ عمل خير ہے جو عشرہ ذي الحجہ ميں کيا جائے۔ [ دارمي 1815، صحيح الترغيب 1248]۔
6- انہي ميں سے ايک دن عرفہ کا بھي دن ہے۔ سورہ بروج ميں (وَِمَشْهُود)سے مراد عرفہ کا دن ہے۔
 حاجيوں کے لئے وہ دن حج کي روح ہے، اس کے بغير حج ہي نہيں۔ {الترمذي 889}
اس دن اللہ تعالي جس قدر لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے کسي اور دن نہيں کرتا اور اس دن قريب ہوتا ہے (جيسے اس کي شان کے لائق ہے) پھر فرشتوں کے سامنے ان پر فخر کرتا ہے۔ [مسلم 1348
ƒ اللہ اہل عرفات کو بخش ديتا ہے، چاہے ان کے گناہ ريت کے ذرات، يا بارش کے قطروں يا سمند کے جھاگ کے برابر ہوں، اور ان کو بھي بخش ديتا ہے جن کے لئے انہوں نے دعا کي۔ [صحيح الترغيب 1112]
سب سے بہتر دعا يوم عرفہ کي دعا ہے۔ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ {الترمذي 3585}
7- جو حج نہيں کر رہے ہيں وہ لوگ عرفہ کا دن روزہ رکھيں گے ، جس کے بدلے ميں ان کے دو سال کے گناہ مٹادئيے جائيں گے۔ [مسلم 1162
8- عشرہ ذي الحجہ کا آخري دن يوم النحر ہے جس کے بارے ميں اللہ کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم کا ارشاد ہے: بے شک اللہ تبارک و تعالي کے نزديک سب سے عظيم دن يوم النحر (دس تاريخ قربانيوں والا دن) ہے، پھر اس کے بعد والا دن۔ {أبوداود 1765}
اعمال عشرہ ذي الحجہ 1- تجديد ايمان۔ 2- نماز کي پابندي۔ 3- زکاۃ و صدقات۔ 4- صوم۔ 5- حج و عمرہ۔ 6- قرباني۔ 7- عيد کے لئے جانا حتي کہ عورتيں بھي۔ 8- قرباني کرنے والا اپنے بال ناخن نہ کاٹے۔ 9- ذکر الہي۔ 10-عيد کا چاند ديکھنے سے ليکر 13کي شام تک تکبير کہنا۔ 11- ہر طرح کي برائي سے دوررہنا؛ خصوصا شرک، بے نمازي پن اور قطع رحمي۔ 12- بکثرت توبہ و استغفار کرنا۔ 13- قرآن کريم کي تلاوت بہت زيادہ کرتے رہنا ۔
ختم شدہ

وسوسہ کے بیان میں


 وسوسہ گناہ یا کفر سے متعلق اس خیال کو کہتے ہیں جو دل میں گزرے یا شیطان دل و دماغ میں ڈالے اس کے مقابلہ پر  الہام اس اچھے اور نیک خیال کو فرماتے ہیں جو اللہ کی طرف سے دل و دماغ میں ڈالا جاتا ہے۔


وسوسہ کی قسمیں


وسوسہ کی مختلف صورتیں اور نوعیتیں ہوتی ہیں اور اسی اعتبار سے علماء نے اس کی الگ الگ قسمیں متعین کی ہیں چنانچہ وسوسہ کی ایک قسم تو  ضروری یعنی اضطراری ہے اور دوسری قسم  اختیاری ہے۔ ضروری یا اضطراری وسوسہ اس کو فرماتے ہیں کہ کسی گناہ کا یا ایمان و یقین کے منافی کسی بات کا خیال اچانک اور بے اختیار دل و دماغ میں گزر جائے اس کو اصطلاحی طور پر  ہاجس سے تعبیر کیا جاتا ہے اس (ہاجس) کی معافی گزشتہ امتوں میں بھی رہی ہے اور اس امت میں بھی ہے اور اگر وہی برا خیال دل و دماغ میں ٹھہر جائے اور خلجانی کیفیت پیدا ہو جائے تو اس کو  خاطر سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ (خاطر) بھی امت سے معاف ہے۔  اختیاری وسوسہ اس کو فرماتے ہیں کہ کسی گناہ یا ایمان و یقین کے منافی کسی بات کا خیال دل و دماغ میں پیدا ہو، ٹھہرا رہے ، لگاتار رہے۔ مستقل خلجان کرتا رہے ، طبیعت کی خواہش بھی اس کے کرنے کی ہو اور ایک گونہ لذت و محبت بھی اس کے تئیں محسوس ہو۔ اختیاری وسوسہ کی یہ صورت  ہم کہلاتی ہے اور یہ بھی صرف اس امت سے معاف ہے ، اس پر کوئی مواخذہ نہیں اور جب تک یہ عملی صورت اختیار نہ کرے اس پر کوئی گناہ نامہ اعمال میں نہیں لکھا جاتا۔ بلکہ اگر عمل کا قصد ہو جائے اور پھر اپنے آپ کو عمل سے باز رکھے تو اس کے عوض نیکی لکھی جاتی ہے۔  ہم کے مقابلہ پر اختیاری وسوسہ کی دوسری صورت کا نام عزم ہے یعنی انسانی طبیعت اور نفس کا کسی برے خیال اور بری بات کو اپنے اندر کرنا اور جما لینا اور نہ صرف یہ کہ اس خیال سے نفرت و کراہیت نہ ہو بلکہ اس پر عمل کرنے کا ایسا پختہ ارادہ کر لینا کہ اگر کوئی خارجی مانع نہ ہو اور اسباب و ذرائع مہیا ہوں تو وہ یقینی طور پر عملی صورت اختیار کر لے وسوسہ کی یہ صورت ایسی ہے جو قابل مواخذہ ہے لیکن اس مواخذہ کی نوعیت عملی طور پر ہونے والے مواخذہ سے ہلکی ہو گی، مطلب یہ کہ وسوسہ جب تک اندر رہے گا اس پر کم گناہ ہو گا اور جب اندر سے نکل کر عملی صورت اختیار کرے گا تو گناہ زیادہ ہو گا۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ وسوسہ کی مذکورہ بالا تقسیم ان افعال و اعمال کی نسبت سے ہے جن کے وقوع اور صدور کا تعلق ظاہری اعضاء جسم سے جیسے زنا اور چوری وغیرہ وغیرہ جو باتیں دل و دماغ کا فعل کہلاتی ہیں جیسے برا عقیدہ اور حسد وغیرہ وغیرہ تو وہ اس تقسیم میں داخل نہیں ہیں ان کے ہمیشہ استمرار پر بھی مواخذہ ہوتا ہے

وسوسوں کی معافی


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لوگوں کے ان وسوسوں کو معاف کر دیا ہے جو ان کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں جب تک کہ وہ ان وسوسوں پر عمل نہ کریں اور ان کو زبان پر نہ لائیں۔  (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

جمعہ، 19 اگست، 2016

اسرائیلیات اور اس کا حکم

جب قرآن مجید نازل ہونےلگا اوراس میں حضرات انبیاء کرام کے واقعات اوران کی قوموں کے احوال بیان کیے جانے لگے تو اہل کتاب یہود ونصاری اپنی عبرانی زبان میں موجود کتابوں سے جو تحریف شدہ تھے اس سے واقعات عربی میں حضرات صحابہ کرام ؓسے بیان کرتے تھے جب اس واقعہ کی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ان اہل کتاب کے بیان کردہ واقعات کی نہ ہی تصدیق کرو اورنہ تکذیب ؛بلکہ کہو کہ جو کچھ اللہ تعالی نے نازل کیا ہےہمارا اس پر ایمان ہے؛چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ: "كَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ بِالْعِبْرَانِيَّةِ وَيُفَسِّرُونَهَا بِالْعَرَبِيَّةِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ لَا تُصَدِّقُوا أَهْلَ الْكِتَابِ وَلَا تُكَذِّبُوهُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا"۔ (بخاری، بَاب:قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا،حدیث نمبر:۴۱۲۵)

اہل کتاب تورات عبرانی زبان میں پڑھتے تھے اور اہل اسلام کے لیے اس کی تفسیر عربی زبان میں کرتے تھے،رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب کرو اور کہو کہ ہم اللہ پر اور جو اس نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاتے ہیں۔ بخاري شريف 
 علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ (المتوفی:۸۵۳ ھ) حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد فرمانا کہ نہ تم ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب ، یہ اس وجہ سے ہے کہ جن باتوں کی وہ خبر دے رہے ہیں وہ سچ اورجھوٹ دونوں کا احتمال رکھتی ہیں،اگر فی الواقع وہ سچ ہوں اور تم ان کی تکذیب کردویا اگر وہ جھوٹ ہوں اور تم اس کی تصدیق کردو تو دونوں اعتبار سے حرج اور تنگی میں پڑجانے کا اندیشہ ہے اس لیے ان کی بیان کردہ باتوں کو سن کر نہ تصدیق کی جائے نہ تکذیب؛ تاکہ فتنہ میں نہ پڑو۔ (فتح الباری،حدیث نمبر:۴۱۲۵،شاملہ)

دومتعارض حدیثوں کا جواب:
اسرائیلیات کے عنوان میں دوحدیثیں ہیں ایک جو ابھی اوپر مذکور ہوئی دوسری حدیث ہے کہ: "حَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ"۔ (ابو داؤد،بَاب الْحَدِيثِ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ،حدیث نمبر:۳۱۷۷)
اس حدیث سے یہ معلوم ہورہا ہے کہ بنی اسرائیل کےبیان کردہ واقعات وغیرہ کے ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ پہلی روایت سے معلوم ہورہا ہے کہ بنی اسرائیل کے بیان کردہ واقعات پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے چہ جائیکہ ان کو بیان کیا جائے بظاہر دوحدیثوں میں باہم تعارض دکھائی دے رہا ہے، اس کا جواب دیتے ہوئے علامہ محمد حسین الذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں جو بنی اسرائیل سے بیان کرنے کی اجازت نظر آتی ہے وہ وہ واقعات اور عبرت ونصیحت پر مشتمل حکایات ہیں جن کے بارے میں معلوم بھی ہو کہ وہ سچ ہیں توان کو بیان کیا جاسکتا ہے اورپہلی حدیث میں توقف ہے کہ ان کے بیان کرنے میں احتیاط کی جائے تاکہ سچ اور جھوٹ میں اختلاط نہ ہوجائے اوراس خلط ملط کے نتیجہ میں حرج میں نہ پڑ جائے، خلاصہ یہ ہے کہ دوسری حدیث عبرت ونصیحت پر مشتمل حکایات کی اباحت پردلالت کرتی ہے اورپہلی حدیث ان مضامین کے بارے میں توقف پردلالت کرتی ہے جن میں عبرت ونصیحت سے ہٹ کر دیگر مضامین ہوں؛اس طرح کوئی بھی حدیث متعارض نہیں۔
اسرائیلیات کا حکم
اس سلسلہ میں تقریباً علمائے امت نے ایک ہی جواب دیا ،الفاظ وتعبیرات اگر چہ مختلف ہیں؛ لیکن حکم ایک ہی ہے، آگے ہم مختلف علماء کرام کی تحریریں پیش کریں گے، سب سے پہلے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کے دلنشین اورصاف وشفاف تحریر کو نقل کرتے ہیں جو انہوں نے علامہ ابن کثیرؒ کے حوالہ سے پیش کی ہے؛ چنانچہ رقمطراز ہیں کہ:
(۱)پہلی قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کی تصدیق دوسرے خارجی دلائل سے ہوچکی ہے مثلا: فرعون کا غرق ہونا وغیرہ، ایسی روایات اسی لیے قابلِ اعتبار ہیں کہ قرآن کریم یا صحیح احادیث نے ان کی تصدیق کردی ہے۔
(۲)دوسری قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کا جھوٹ ہونا خارجی دلائل سے ثابت ہوچکا ہے،مثلا: یہ کہانی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام آخر عمر میں (معاذ اللہ) بت پرستی میں مبتلا ہوگئے تھے یہ روایت اس لیے قطعا باطل ہے کہ قرآن کریم نے صراحۃ ًاس کی تردید فرمائی ہے۔
(۳)تیسری قسم ان اسرائیلیات کی ہے جن کے بارے میں خارجی دلائل ہے نہ یہ ثابت ہو تا ہے کہ وہ سچی ہیں اورنہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹ ہیں، مثلا تورات کے احکام وغیرہ ایسی اسرائیلیات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "لا تصدقوھا ولاتکذبوھا"۔ اس قسم کی روایات کو بیان کرنا تو جائز ہے؛ لیکن ان پرنہ کسی دینی مسئلہ کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے نہ ان کی تصدیق یا تکذیب کی جاسکتی ہے اوراس قسم کی روایات کو بیان کرنے کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں۔ (علوم القرآن:۳۶۴)
یہی بات علامہ محمد حسینی ذہبیؒ اور علامہ ابن تیمیہؒ وغیرہ نے بھی کہی ہے۔ (التفسیر و المفسرون للذھبی،باب ثانیا:الااسرائیلیات:۴/۱۴)
مسند الہند حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (المتوفی:۱۱۷۶) نے نہایت اختصار کے ساتھ مگر جامع بات لکھی ہے کہ تفسیر میں اسرائیلی روایتوں کو بیان کرنا دراصل یہ بھی ایک سازش ہے جبکہ یہ قاعدہ مسلم ہے کہ اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو نہ ان کی تکذیب کرو؛ لہٰذا اس قاعدہ کی بنیاد پر دوباتیں نہایت ضروری ہیں:
(۱)جب حدیث میں قرآن کریم کے اشارہ کی تفصیل موجود ہو تو اسرائیلی روایات کو تفسیر میں نقل نہیں کرنا چاہئے۔

(۲)قرآن کریم میں جس واقعہ کی طرف اشارہ آیا ہو اس کی تفصیل ضرورت کے بقدر ہی بیان کرنی چاہئے تاکہ قرآن کریم کی گواہی سے اس کی تصدیق ہو کیونکہ یہ بھی قاعدہ ہے کہ ضروری بات بقدر ضرورت مانی جاتی ہے۔ (الفوزالکبیر مع شرح الخیر الکثیر:۴۵۳)
اسرائیلی روایات کی مثالیں
"وَجَاءُوْ عَلٰی قَمِیْصِہٖ بِدَمٍ کَذِبٍ"۔ (یوسف:۱۸)
اوریوسف کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگاکر لے آئے۔
(۱)اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے والد کو اس بات کا یقین دلانے کےلیے کہ حضرت یوسف کو ایک بھیڑئے نے ہی کھالیا ہے ،ایک بھیڑئےکو باندھ کرحضرت یوسف کے والد حضرت یعقوب کے پاس لے آئے اور کہا کہ: ابا جان! یہی وہ بھیڑیا ہے جو ہماری بکریوں کے ریوڑ میں آتا رہتا ہے اور ان کو چیرتا پھاڑتا ہے،ہمارا خیال ہے کہ اسی نے ہمارے بھائی یوسف کا خون کیا ہے،حضرت یعقوب نے بھیڑئے سے کہا قریب آؤقریب آ ؤ،وہ قریب آگیا ،اس سے کہا تم نے میرے بیٹے کو مار کر تکلیف پہنچائی اور مسلسل غم میں مبتلا کردیا ہے ،پھر حضرت یعقوب نے اللہ سے دعا کی کہ،یا اللہ !تو اس کو گویائی دے،اللہ نے اس کو بولنا سکھادیا، بھیڑئے نے کہا ،اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی بنایا ہے، نہ میں نے اس کا گوشت کھایا نہ میں نے اس کی کھال ادھیڑی ہے، نہ میں نے اس کا ایک بال اکھیڑا ہے،قسم خدا کی آپ کے لڑکے سے میرا کوئی سروکار نہیں ،میں ایک پردیسی بھیڑیا ہوں میں مصر کے اطراف سے اپنے ایک بھائی کی تلاش میں آیا ہوا ہوں،میں اس کی جستجو میں تھا کہ آپ کے لڑکوں نے میرا شکار کرلیا،ہم لوگوں پر انبیاء اوررسولوں کا گوشت حرام کردیا گیا ہے..الخ۔ (تفسیر ثعلبی:۴/۲۱)
"فَاَلْقٰہَا فَاِذَا ہِىَ حَیَّۃٌ تَسْعٰی"۔ (طٰہٰ:۲۰)
انہوں نے اسے پھینک دیا،وہ اچانک ایک دوڑتا ہوا سانپ بن گئی۔
(۲)اس آیت کے سلسلہ میں وہب بن منبہ کی ایک روایت ہے،انہوں نے کہا کہ حضرت موسی نے جب عصا کو زمین پر ڈالا تودیکھا کہ وہ ایک عظیم الجثہ اژدہا بن گیا،لوگ حیرت واستعجاب اور خوف زدہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے،اژدہا اِدھر اُدھر رینگ رہا ہے، جیسے کچھ تلاش کررہا ہو، اژدہا رینگتا ہوا پہاڑ کی چٹانوں کے پاس پہنچ گیا تو بھوکے اونٹ کی طرح بیتابی کے ساتھ پوری چٹان نگل گیا،جب وہ اپنا منھ بڑے سے بڑے تناور درخت کی جڑوں پر لگادیتا تھا تو اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیتا تھا،اس کی دونوں آنکھیں دھکتے ہوئے انگاروں کی طرح تھیں؛اس کے بال نیزوں کی طرح تھے..الخ۔ (تفسیر ابن کثیر:۵/۲۷۹)
"أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْك"۔ (البقرۃ:۲۵۸)
کیا تم نے اس شخص (کے حال) پر غور کیا جس کو اللہ نے سلطنت کیا دے دی تھی کہ وہ اپنے پروردگار( کے وجود ہی) کے بارے میں ابراہیمؑ سے بحث کرنے لگا؟۔
(۳)اس آیت کی تفسیر میں ایک روایت میں نمرود کے بارے میں اس طرح لکھا ہوا ہے:ایک مچھر نمرود کی ناک میں گس گیا اور اس کی ناک میں چار سو سال تک بھنبھناتا رہا،اس مچھر کی اذیت کی وجہ سے نمرود انتہائی بے چین رہتا تھا اور مستقل عذاب میں مبتلا تھا اور جب تکلیف کی شدت اور بے چینی بڑھ جاتی تھی تو لوہے کی سلاخ سے یا ہتھوڑے سے اس کے سر کو ٹھونکا جاتا تھا جس سے مچھر کی اذیت کچھ ہلکی پڑتی تھی ،اسی عذاب میں نمرود چار سو سال زندہ رہا پھر اسی اذیت کی وجہ سے مرگیا۔ (تفسیر ابن کثیر:۱/۳۱۳)
یہ تینوں روایتیں اسرائیلی خرافات میں سے ہیں،جیسا کے علماء امت نے اس کی تصریح کی ہے۔ (تفسیروں میں اسرائیلی روایات:۴۴۴)
قرآن کریم جو اللہ تبارک وتعالی کا عظیم ترین اورمقدس ترین کلام ہےاور رسول کریمﷺ کا حیرت انگیز ابدی ودائمی معجزہ ہے،جو ساری انسانیت کے لیے نسخہ ہدایت اوردستور حیات بنا کر نازل کیا گیا، جس سے مردہ دلوں کی مسیحائی ہوئی اورگم گشتہ راہ لوگوں کومنزلِ مقصود کا پتہ ملا، جس کی علمی ،ادبی حلاوتوں، روحانی راحتوں اور معانی و مفاہیم کے بے پناہ وسعتوں نے ہر زمانہ کے انسانوں کو متاثر کیا اورقلب و نظر کی دنیا میں انقلاب کا ذریعہ ہے، سب سے بڑا اعجاز اس کلام مبارک کا یہ بھی ہے کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے لی ہے جو اس دنیا میں ازل سے کسی اورکتاب یا صحیفہ آسمانی کو نصیب نہیں ہوا اور علوم و معارف کے اس گنجینۂ گراں مایہ کی حفاظت اورخدمت کے لیے انسانوں ہی میں سے مختلف علوم کے مختلف افراد کا انتخاب فرمایا؛ چنانچہ الفاظ قرآنی کے لیے حفاظِ کرام کوسعادت حفظِ قرآن بخشی اورمرادِ ربانی منشائے نبوی کی صحیح تعیین و تشریح کے لیے حضرات مفسرین کو منتخب کیا؛ چنانچہ مفسرین کرام نے اپنی خدادا دذہانت اورتمام تر صلاحیت کو اس کلام الہٰی کی غواصی میں لگادیا؛ لیکن آج کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ تمام تر موتیوں اورعلم وحکمت کے جواہر پاروں کو اکٹھا کیا جاسکا ،یہ کلام ایک بحر بیکراں ہے جس کی مختلف زبانوں میں علمائے امت نے اپنی صبح و شام کی محنتوں کا محور بنایا،آج انہی علماء کرام اورمفسرین عظام کی کوششوں اورکاشوں کا ثمرہ ہے کہ مختلف زبانوں میں قرآن کی تفسیر موجود ہے .
، ذیل میں ہم صرف تفسیر قرآن کی مختلف کتابوں کے نام مع اسمائے مصنفین وسن وفات پیش کرتے ہیں، جو شروع سے لے کر آج تک امت میں مقبول ومتداول ہیں اورلا تعداد انسان ان کتابوں سے استفادہ کررہے ہیں پہلے عربی تفاسیر کے نام بعد ازاں اردو کتب تفاسیر رقم کی جارہی ہیں۔
اہل کتاب کی روایات نقل کرنے والے حضرات
عہد صحابہ اوراس کے بعد کے ادوار میں بھی تفسیر قرآن کے ماخذ کے طورپر یہودونصاریٰ رہے ہیں؛ کیونکہ قرآن کریم بعض مسائل میں عموماً اورقصص انبیاء اور اقوام سابقہ کے کوائف واحوال میں خصوصاً تورات کے ساتھ ہم آہنگ ہے، اسی طرح قرآن کریم کے بعض بیانات انجیل سے بھی ملتے ہیں؛ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا واقعہ اوران کے معجزات وغیرہ۔ البتہ قرآن کریم نے جو طرز و منہاج اختیار کیا ہے وہ تورات وانجیل کے اسلوب بیان سے بڑی حد تک مختلف ہے،قرآن کریم کسی واقعہ کی جزئیات وتفصیلات بیان نہیں کرتا، بلکہ واقعہ کے صرف اسی جز پر اکتفاء کرتا ہے جو عبرت وموعظت کے نقطۂ نظر سے ضروری ہوتا ہے، یہ انسانی فطرت ہے کہ تفصیلی واقعہ کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اسی کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام اوربعد کے ادوار میں تابعین اور تبع تابعین حضرات اہل کتاب کے ان اہل علم سے جو حلقہ بگوش اسلام ہوچکے تھے قرآن میں ذکر کردہ واقعات کی تفصیل کے واسطے رجوع کیا کرتے تھے، اسرائیلی روایات کا مدار وانحصار زیادہ تر حسب ذیل چار راویوں پر ہے: عبداللہ بن سلامؓ، کعب احبار، وھب بن منبہ، عبدالملک بن عبدالعزیزابن جریج .  جہاں تک عبداللہ بن سلامؓ کی بات ہے تو آپ کے علم وفضل میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور ثقاہت و عدالت میں آپ اہل علم صحابہ میں شمار ہوتے ہیں، آپ ؓ کے بارے میں قرآن کریم کی آیات نازل ہوئیں، امام بخاری ؒ اورامام مسلمؒ اوردیگر محدثین نے آپ کی روایات پر اعتماد کیا ہے۔
حضرت کعب احبار بھی ثقہ راویوں میں سے ہیں،ا نہوں نے زمانہ جاہلیت کا زمانہ پایا اورخلافت صدیقی یا فاروقی میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ خلافت فاروقی میں آپ کے اسلام لانے کی بات مشہور تر ہے۔ (فتح الباری ،۱۵۸/۱ حدیث نمبر:۹۵)
آپ کے ثقہ اورعادل ہونے کا واضح ثبوت یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وحضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ اپنی جلالت قدر اورعلمی عظمت کے باوجود آپ سے استفادہ کرتے تھے، امام مسلمؒ نے صحیح مسلم میں کتاب الایمان کے آخر میں کعب سے متعدد روایات نقل کی ہیں، اسی طرح ابوداؤد،ترمذی اورنسائی نے بھی آپ سے روایت کی ہیں؛ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت کعب احبار ان سب محدثین کے نزدیک ثقہ راوی ہیں۔
اسی طرح وھب بن منبہ کی جمہور محدثین اورخصوصاً امام بخاری ؒ نے توثیق وتعدیل کی ہے،ان کے زہد وتقوی کے بارے میں بڑے بلند کلمات ذکر کئے ہیں، فی نفسہ یہ بڑے مضبوط راوی ہیں ؛البتہ بہت سے لوگوں نے ان کی علمی شہرت وعظمت سے غلط فائدہ اٹھایا کہ بہت سی غلط باتوں کو ان کی طرف منسوب کرکے اپنے قد کو اونچا کیا اورلوگوں نےان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
ابن جریج اصلاً رومی تھے،مکہ کے محدثین میں سے تھے ،عہد تابعین میں اسرائیلی روایات کے مرکز ومحور تھے،تفسیر طبری میں نصاری سے متعلق آیات کی تفسیر کا مدار انہی پر ہے، ان کے بارے میں علماء کے خیالات مختلف ہیں، بعض نے توثیق کی ہے تو بعض نے تضعیف بھی کی ہے ،بکثرت علماء آپ کو مدلس قرار دیتے ہیں اورآپ کی مرویات پر اعتماد نہیں کرتے، مگر بایں ہمہ امام احمد بن حنبلؒ ان کوعلم کا خزانہ قرار دیتے ہیں؛ بہرحال ابن جریج سے منقول تفسیری روایات کو حزم واحتیاط کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔
اہل کتاب کی روایات پر مشتمل کتب تفاسیر
کوئی ایسی کتاب جس میں خاص اسرائیلی(اہل کتاب کی) روایات کے جمع کرنے پر توجہ دی گئی ہوایسی توکوئی تفسیر نہیں ہے؛ البتہ آیات کی تفسیر میں عموماً کتب تفاسیر میں اسرائیلی روایات بھی ذکر کی گئی ہیں، جس کا علم راوی کو دیکھ کر یا پھر ان کی بیان کردہ باتوں کو اصول شرعیہ کی روشنی میں پرکھ کر معلوم کیا جاسکتا ہے، مولانا اسیر ادروی صاحب کی ایک کتاب اردو میں" تفسیروں میں اسرائیلی روایات" کے نام سے آچکی ہے ،جس کے مقدمہ میں اسرائیلی روایات سے متعلق عمدہ بحث اکٹھا کردی ہے اورپھر جو اسرائیلی روایات ان کو معلوم ہوسکیں ان پر الگ الگ کلام کیا ہے اورمعتبر تفاسیر سے ان کا اسرائیلی روایات کے قبیل سے ہونا بھی ظاہر کیاہے، تفصیل کے لیے اسی کتاب کی طرف رجوع کیا جائے۔ یہاں پر چند عربی اور اردو تفاسیرکے نام لکھے جارہے ہیں اور اردومیں صرف مستند تفاسیر کے نام لکھے گئے ہیں۔

طالب دعاء اكبر حسين اوركزئي

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنِ سلوک اور اخلاق كي بلندي

عن أنس قال : خدمت النبي صلى الله عليه و سلم عشر سنين فما قال لي : أف ولا : لم صنعت ؟ ولا : ألا صنعت ؟ متفق عليه( بحواله مشكوة)
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال خدمت کی (اس پورے عرصہ میں ) مجھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اف بھی نہیں کہا اور نہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا ، اور یہ کام تم نے کیوں نہیں کیا ۔ (بخاری)
تشریح :
مسلم " کی روایت میں نوسال کے الفاظ ۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر باختلاف روایت آٹھ سال یا دس سال کی تھی ، ان کی والدہ ماجدہ اور ان کے بعض اور رشتہ دار جو انصار میں سے تھے، ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور خدمت مبارک میں دے دیا ، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس دن سے اس وقت تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سالہ قیام کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلسل خدمت کرتے رہے اور اس حدیث میں وہ آنحضرت کے ساتھ اس طویل خادمانہ تعلق کا تجربہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پورے عرصہ میں میری کسی غلطی اور کسی کوتاہی پر ڈانٹنا ڈپٹنا تو کجا کسی بات پر اف تک نہیں کیا ۔ الف کے پیش اور ف کی تشدید اور زیر کے ساتھ ہے ایک نسخہ میں یہ لفظ کے زبر کے ساتھ ایک نسخہ میں تنوین مکسورہ کے ساتھ ہے ، یہ لفظ انسان کی زبان سے اس وقت نکلتا ہے جب وہ کسی ناپسند یا تکلیف دہ صورت حال سے دوچار ہوتا ہے ۔
تم نے یہ کام کیوں کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ ۔" اس جملہ کے ذریعہ بھی حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن سلوک اور کمال خلق کو بیان کیا کہ اس طویل زمانہ میں ایسا کبھی ہوا کہ میں نے از خود کوئی کام کیا ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعتراض فرمایا ہو کہ تم نے میری مرضی کے بغیر یہ کام کیوں کیا ، یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کسی کام کے لئے کہا ہو اور میں اس کام کو نہ کرسکا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب طلب کیا ہو کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا لیکن واضح رہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معاملہ اور سلوک دنیا وی امور یا ذاتی خدمت کے تعلق سے بیان کیا ہے نہ دینی معاملات وامور سے متعلق ، کیونکہ کسی دینی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر اعتراض پر چشم پوشی روا نہیں ہے ۔ علامہ طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ حدیث کے بین السطور سے خود حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خوبی ظاہر ہوتی ہے یا یوں کہے کہ ایک طرح سے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی تعریف بھی بیان کی کہ میں نے ایسا موقع کبھی نہیں آنے دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے کسی کام پر کوئی اعتراض ہوا ہو یا مجھ سے کوئی شکایت پیدا ہوئی ہو لیکن یہ بات کہنا کچھ زیادہ موزوں معلوم نہیں ہوتا ، حدیث کا جو سیاق وسباق ہے اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلق نبوی کے متعلق جن احساسات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں ان کے پیش نظر حدیث کا اصل مفہوم وہی ہے جو پہلے ذکر ہوا ۔

طالب دعاء : اكبر حسين اوركزئي

جزبہ محبت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (اپنا چشم دید واقعہ بیان کرتے ہوئے)کہتے ہیں کہ انصار کا ایک (مخلص محب اور جاں نثار)آدمی بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا تو (آقا علیہ السلام کی رنگت دیکھ کر)اس نے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا وجہ ہے کہ میں جناب کے رنگ میں تبدیلی محسوس کررہا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(رنگت میں تبدیلی کی بڑی وجہ ہے) بھوک۔یہ معلوم کرکے وہ انصاری اپنی قیام گاہ (گھر)پر آیا، مگر اپنے گھرمیں بھی اس نے کوئی چیز نہ پائی(جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بھوک کا سامان کرکے دلی مسرت وسکون حاصل کرتا) چنانچہ وہ کھانے پینے کی کسی چیز کی تلاش میں گھر سے نکل کھڑا ہوا ، تو اس دوران اس نے دیکھا کہ ایک یہودی اپنے باغ کو (کنویں سے ڈول نکال نکال کر)پانی دے رہا ہے۔مذکور صحابی نے پوچھا کیا میں تمہارے باغ کو سینچ (پانی لگا)دوں ؟اس نے کہا ہاں۔انصاری نے کہا تو سن لو ایک ڈول کے بدلے ایک کھجور ہوگی۔علاوہ ازیں اس نے یہ شرط بھی لگائی کہ وہ معاوضے میں نہ اندرسے سیاہ (خراب) کھجورلے گا نہ خشک کھجوراورنہ گری پڑی کھجور بلکہ وہ اس سینچائی کے بدلے میں موٹی تازی کھجور وصول کرے گا۔ اس معاہدہ کے مطابق اس نے تقریباً وہ ساع کھجور کے برابر۔ یہودی کے باغ کی سینچائی کی (پانی لگایا)اورمزدوری سے حاصل شدہ کھجور وں کایہ نذرانہ بارگاہِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش کردیا۔ (ابن ماجہ) بعض روایات میں ا س پر یہ اضافہ ہے کہ جب اس نے کھجوریں لاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھیں اور عرض کیا کہ تناول فرمائیے ۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:تم یہ کھجوریں کہاں سے لائے ہو؟اس نے سارا واقعہ بتایاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرا خیال ہے کہ تم اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے ہو۔اس نے عرض کیا:ہاں!بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی میرے نزدیک میری جان،میری اولاد، میرے اہل وعیال اورمیرے مال سے بھی زیادہ محبوب ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قیمت بتاتے ہوئے ) فرمایا:اگر یہ بات ہے تو پھر فقروفاقہ پر صبر کرنا اورآزمائشوں کے لیے اپنی کمر کس لینا ۔اس ذات کی قسم !جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے، جو شخص میرے ساتھ (سچی محبت رکھتا ہے تو یہ دونوں مذکور ہ چیزیں (فقروفاقہ اورآزمائشیں )اس کی طرف اس پانی سے بھی زیادہ تیز دوڑ کر آتی ہیں جو پہاڑکی چوٹی سے نیچے کی طرف گرتا ہے۔
(الاصابہ، مجمع الزوائد: بحوالہ ،حب رسول اورصحابہ کرام) ۔
 طالب دعاء: اکبر حسین اورکزئی

حسد کی مذمت

تحرير: اكبر حسين اوركزئي
الحمدُ للهِ ربِّ العالمينَ، أحمدُهُ تعالَى حَمداً طيِّباً مُباركاً فيهِ كمَا يُحبُّ ويَرضَى، وأَشهدُ أنْ لاَ إلهَ إِلاَّ اللهُ وحدَهُ لا شَريكَ لَهُ، وأَشهدُ أنَّ سيِّدَنا ومَولَانا وحَبيبَنا وقُرَّةَ أَعيُنِنا محمّداً عَبدُ اللهِ ورسولُه، وصفِيُّهُ مِنْ خَلقِهِ وخَليلُه، اللَّهُمَّ صَلِّ وسلِّمْ وبارِكْ علَى سيّدِنَا محمّدٍ وعلَى آلِهِ وصحبِهِ أجمعينَ، ومَنْ تَبِعَهُمْ بإحسانٍ إلَى يومِ الدِّينِ.
اما بعد : عزیزانِ محترم! انسان کو عام طور پر دو طرح کی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں: ایک جسمانی اور دوسرے روحانی، جسمانی اَمراض جیسے نزلہ، زکام، بخار، دردِ سر، ہائی بلڈ پریشر وغیرہ، اگر ان کا علاج بر وقت ہو جائے تو عام طور پر شفا مل جایا کرتی ہے، نیز جسمانی اَمراض میں مبتلاہونا بعض احوال میں انسان کے لیے فائدہ مند بھی ہوتا ہے، اس سے مسلمان کے گناہ دُھل جاتے ہیں، اور اگر بالفرض علاج کرانے کے باوجود شفا نصیب نہ ہوئی، اگر اسی مرض میں اس کا انتقال ہوگیا، تب بھی مسلمان فائدے ہی میں ہے؛ کہ اس مرض سےمؤمن کےگناہ دُھل جاتے ہیں، درجات بلند ہوتے ہیں، اور یہ آزمائش اس کے لیے بخشش اور اللہ تعالی کی رِضا کا سبب بنتی ہے،
 دوسری قسم کے اَمراض روحانی ہیں، جیسے جھوٹ، غیبت، چغلی، بدگمانی اورتکبر وغیرہ، اگر ان امراض کا علاج بھی بر وقت ہو جائے تو ان سے بھی نجات مل سکتی ہے، یہ روحانی امراض انسان کے لیے انتہائی مضر وخطرناک ہیں، ان میں مبتلا انسان کے گناہوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے، اگر اِن کے علاج کی طرف توجہ نہ دی جائے، اور ان امرض ہی میں کسی کا انتقال ہوگیا، تو اس کی آخرت خراب ہونے کا بھی شدید اندیشہ ہے، ان امرض میں مبتلاہونا اللہ تعالی کی ناراضگی اور غضب کا سبب بنتا ہے، انہی روحانی بیماریوں میں سے ایک مہلک مرض حسد بھی ہے، قرآن وحدیث میں اس مہلک مرض کی سخت مذمت فرمائی ہے، خالقِ کائنات ارشاد فرماتا ہے: ﴿يَوْمَ لاَ يَنفَعُ مَالٌ وَلاَ بَنُونَ* إِلاَّ مَنْ أَتَى اللهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ﴾ "قيامت کے دن نہ مال کام آئے گا نہ بیٹے، مگر وہ جو الله کے حضور دل سلامت لے کر حاضر ہوا"،
 قلبِ سلیم وہ ہے جو بدعقیدگیوں سے پاک وصاف ہو، علمائے کرام فرماتے ہیں کہ قلبِ سلیم وہ ہے جو اللہ تعالی کی محبت میں گم ہو، اس کے ساتھ ساتھ روحانی اَمراض سے پاک وصاف ہو، روحانی اَمراض میں سے ایک بیماری حسد بھی ہے، جو دل کی سلامتی کے لئے انتہائی خطرناک ہے، حاسد شخص دوسرے کی نعمت کے زوال کی تمنا کرتاہے، یہی وہ پہلا مرض ہے جو رب تعالی کی ناراضگی کا سبب بنا؛کہ شیطان نے حضرت سیّدنا آدم عليه السلام سے ان کے مقام ومرتبہ کی وجہ سے حسد کیا، اور اسی وجہ سے اس نے حضرت سیّدنا آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا، جب کہ اللہ تعالی نے اسے سجدہ کرنے کاحکم فرمایا، اسی طرح قابیل نے ہابیل سے حسد کیا، جس وقت اللہ تعالی نے اس کے بھائی سے قربانی قبول فرمائی اور قابیل سے قبول نہیں کی، تو حسد نے اسے اس گناہ میں مبتلا کردیاکہ اس نے اپنے بھائی تک کو قتل کر دیا، اور بالآخر اسے آخرت میں نقصان وہلاکت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
 حسد مسلم معاشر ے کے لیے ایک مہلک بیماری ہے، مسلم معاشرہ آج جن جن روحانی امراض کا شکار ہے، ان میں سے ایک مہلك ترین بيمارى حسد بھی ہے، یہ ايك ایسی بُری عادت ہے جس سے انسان کا جسم تو متاثر ہوتا ہى ہے، لیکن اس سے کہیں زیادہ اس کا دین وایمان بھی متاثر ہوتا ہے، حسد سے عموماً حاسد کے رشتہ دار، دوست واَحباب اور ملنے جلنے والوں کا تعلق بھی متاثر ہوتا ہے، حسد معاشرے میں بغض ، نفرت وعدوات کے بیج بوتا ہے، جس سے نظر ِبد، تعویذ، گنڈا، جادو، ٹونا اور اس جیسے دیگر مکروہ اعمال کرنے کرانے کا بھی ایک دروازہ کھل جاتا ہے، حسد سے محبت، شفقت، صلہ رحمی اور اِیثار وقربانی کے بنیادی اسلامی جذبات بھی فنا ہو جاتے ہیں، اسی لئے دنيا كے تمام اَديان نے حسد کی مذمت کی ہے، اور اسے انسانیت کے لئے زہر قاتل قرار دیا ہے۔
 گرامی قدر! حسد کے انہی خطرات ومضرات کی وجہ سے ہمیں اللہ تعالی نے حکم فرمایا کہ ہم حاسد کے شر سے حفاظتی تدبیر کریں، اس سے اللہ کی پناہ مانگیں، اللہ تعالى فرماتا ہے: ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الفَلَقِ* مِن شَرِّ مَا خَلَقَ * وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ * وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي العُقَدِ* وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ﴾ "تم فرماؤ: میں اُس کی پناہ لیتا ہوں جو صبح کا پیدا کرنے والا ہے، اس کی سب مخلوق کے شر سے، اور اندھیری ڈالنے والے (سورج) کے شر سے جب وہ ڈوبے، اور اُن (جادوگر) عورتوں کے شر سے جو گرہوں میں پھونکتی ہیں، اور حسد والے کے شر سے جب وہ مجھ سے جَلے"، یعنی بعض لوگ ایسے تنگ دل ہوتے ہیں جو دوسروں کی بھلائی اور بہتری کو اچھی نظر سے نہیں دیکھ سکتے، خاص طور پر اپنے رشتہ داروں، عزیزوں، دوستوں اور ہم پیشہ اَفراد کو جب اچھی اور آسودہ حالت میں دیکھتے ہیں تو ان کے سینوں میں حسد کی آگ بھڑک اُٹھتی ہے، اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ خوشحال لوگوں کی نعمتیں اور آسودگی ان سے چِھن کر مجھے مل جائے۔
 میرے عزیز دوستو! حاسد وہ ہے جو دوسرے کی نعمت کا زوال چاہے، حسد ہی وہ پہلا گناہ ہےجو آسمان میں ابلیس سے ہوا اور زمین میں ہابیل کے بھائی قابیل سے ہوا،اس سے معلوم ہوا کہ حسد بدترین جرم ہے جس سے ہر مسلمان کو بچنا بے حد ضروری ہے۔
 حسد ایک ایسی برائی ہے جو کبھی کسی امت کے لئےجائز نہیں ہوئی، جب بھی کوئی قوم اس میں مبتلا ہوئی وہ ہلاکت میں پڑی، نیزحسد ایمان کے بھی منافی ہے، مصطفی جانِ رحمت  نے فرمایا: «لاَ يَجْتَمِعُ فِي جَوْفِ عَبْدٍ الإِيمَانُ وَالْحَسَد» "کسی کے سینے میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوسکتے"، معاشرے کے اَفراد کا آپس میں حسد نہ کرنا اُس معاشرے کی بھلائی کی علامت ہے، مسلمان کے سچے ایمان کی ایک دلیل ہے، سرکارِ دو عالم  نے فرمایا: «لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ» "تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے"۔
 محترم بھائیو! حسدکی کئی صورتیں ہیں، وہ سب کی سب قابل مذمت ہیں، سوائے یہ کہ جس میں بھلائی ہو، اور وہ صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے لئے اس نعمت کی تمنا کرے اور اس میں دوسروں سے اس نعمت کے چِھن جانے کی آرزو نہ ہو، بلکہ ان کے پاس اس نعمت کی بقا کے لیے دعا کرے، اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ہمارے آقا ومولا جناب محمد رسول اللہ  نے فرمایا: «لاَ حَسَدَ إِلاَّ فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللهُ مَالاً فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللهُ الْحِكْمَةَ، فَهْوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا» "حسد صرف دو چیزوں میں جائز ہے: ایک یہ کہ اللہ تعالی کسی کو مال دے اور اسے راہِ حق میں خرچ کرنے کی توفیق بھی دے، دوسرے یہ کہ اللہ تعالی کسی کو دین کا علم عطا فرمائے، پھر وہ اس علم کے مطابق فیصلہ کرے اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دیتا رہے"۔
 دوستو! حسد کے کئی اسباب ہیں: ان میں سے ایک اہم سبب دنیاوی معاملات میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی مذموم کوشش بھی ہے؛ کہ انسان اپنے معاملات کو ایسے ذرائع سے درست کرنے کی کوشش کرتا ہے جو شریعت کی نظر میں جائز نہیں، اس طرح حسد کی ابتداء ہوتی ہے، پھر یہی حسد بڑھتے بڑھتے دشمنی وبغض وعداوت کی شکل اختیار کر لیتا ہے، آپ  نے فرمایا: «وَاللهِ! مَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ، وَلَكِنِّي أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ الدُّنْيَا عَلَيْكُمْ كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا، وَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ» "
خدا کی قسم! مجھے یہ خوف نہیں کہ تم لوگ فقر وفاقہ میں مبتلا ہو جاؤ گے، ہاں مجھے تم پر خوف اس بات کا ہے کہ تم پر دنیا اس طرح کشادہ ہو جائے گی جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ ہوگئی تھی، پھر تم بھی اُن کی طرح دنیا کی محبت میں پڑ جاؤ گے، اور یہ دنیا تمہیں بھی اسی طرح ہلاک وبرباد کردے گی جس طرح تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کر چکی ہے"۔
 بہر حال اچھی باتوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا جائز ودرست ذرائع سے ہو تو یہ مسابقت شریعت میں جائز ومطلوب ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَفِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ المتَنَافِسُونَ﴾ "اسی پر چاہیے کہ تمنا كريں تمناكرنے والے"۔
 اسی طرح تکبر اور خود پسندی بھی کبھی حسد میں مبتلا ہونے کے اسباب بن جایا کرتے ہیں، وہ اس طرح کہ انسان کبھی اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے، تمنا کرتا ہے کہ یہ نعمت صرف میرے پاس رہے، میرے سوا کسی دوسرے کے پاس نہ ہو، اور دوسروں کے یہاں سے اس نعمت کے چِھن جانے کی تمنا کرتا ہے، جبکہ یہ تو ابلیس کا وہ قول ہے کہ جب اس نے کہا: ﴿أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ﴾ "میں اس (آدم) سے بہتر ہوں، مجھے تُو نے آگ سے بنایا، اور اسے مٹی سے بنایا"۔
 محترم دوستو ! كامل مسلمان وہ ہے جو اپنے دل کو اِن امراض سے پاک کرلے، اور اگر کبھی حسد کے مرض میں مبتلا ہو بھی جائےتو اپنا علاج کرے، اس مہلک بیماری سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرے، انسان کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ حکمتِ عملی سے حسد سے چھٹکارا حاصل کرسکتا ہے، لوگوں سے محبت کرے، ان سے اچھی طرح بھائی چارہ قائم کرے، رسول اللہ  نے فرمایا: «لاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَبَاغَضُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَاناً» "كسی سے حسد نہ کرو، کسی سے بغض نہ رکھو، کسی کی غیبت نہ کرو اور الله کے بندو! بھائی بھائی بن کر رہو"۔
 محترم دوستو ! حسد سے نجات وچھٹکارا پانے کی طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان اللہ تعالى کی تقسیم پر راضی رہے، اللہ تعالی کی جو جو نعمتیں اسے حاصل ہیں ان پر قناعت کرے، اللہ کا شکر ادا کرے، جب آدمی قناعت اختیار کرتا ہے، اللہ تعالی کی تقدیر پر راضی رہتا ہے، تو لوگوں کے پاس موجود نعمتوں کی تمنا وآرزو سے آزاد ہو جاتا ہے، رسول اللھ  نے فرمایا: «ارْضَ بِمَا قَسَمَ اللهُ لَكَ، تَكُنْ أَغْنَى النَّاسِ» "الله تعالی كی تقسیم پر راضی رہو، امیر ترین ہو جاؤ گے"، جو کچھ موجود ہے اس پرقناعت ورضا آدمی میں راحت وسکون پیدا کرتا ہے، اور یہ چیز کامیابی کے اَسباب میں سے ایک اہم ترين سبب ہے، آقائے دو جہاں  نے فرمایا: «قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ، وَرُزِقَ كَفَافاً، وَقَنَّعَهُ اللهُ بِمَا آتَاهُ» "جس نے اسلام قبول کرلیا، اور جسے ضرورت کے مطابق روزی مل گئی، اور جسے اللہ نے قناعت کی توفیق دے دی، اس نے فلاح پالی"۔
 دوستو ! یاد رکھنا چاہیے کہ دل کی سلامتی ان اہم چیزوں میں سے ہے جن پر مسلمان کو خاص توجہ کرنا انتہائی ضروری ہے، حضور اکرم  نے فرمایا: «أَلاَ وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلاَ وَهِيَ الْقَلْبُ» "خبر دار! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے کہ جب وہ درست ہو تو پورا جسم درست رہتا ہے اور جب وہ خراب ہوجائے تو پورا جسم خراب ہوجاتا ہے، سُن لو! وہ گوشت کا ٹکڑا انسان کا دل ہے"۔
 اچھا مسلمان اپنے دل کو ان روحانی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے، جیسے حسد، کینہ وبغض، حضرت سیّدنا عبد اللہ بن عمرو رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے: رسول اللہ  سے عرض کی گئی: لوگوں میں سے افضل کون ہے؟، آپ  نے فرمایا: «كُلُّ مَخْمُومِ الْقَلْبِ، صَدُوقِ اللِّسَانِ» "صاف دل اور زبان کا سچا"، صحابۂ کرام علیهم الرضوان نے عرض کی: زبان کا سچّا تو ہم سمجھ گئے، مگر صاف دل سے کیا مراد ہے؟، فرمایا: «هُوَ التَّقِيُّ النَّقِيُّ، لاَ إِثْمَ فِيهِ، وَلاَ بَغْيَ، وَلاَ غِلَّ، وَلاَ حَسَدَ» "وہ پاک باز وپرہیزگار، جس کا دل اتنا پاکیزہ ہو جس میں نہ کوئی گناہ کا خیال ہو، نہ بغاوت، نہ کینہ، نہ حسد"، اللہ تعالی اپنی محبت ورضا سے ہم پر کرم فرمائے، ہمارے دلوں کو ان امراض سے پاک فرمائے۔ أمين ثم أمين
 طلب دعاء : اكبر حسين اوكرزئي دوحه قطر

زبان کی حفاظت

تحرير اكبر حسين اوركزئي  
تمام الوهيت كي تعريفيں اس ذات کیلۓ جس نے هميں بے شمار نعمتوں سے نوازا,اگرهم اس كا شمار كرنے لگ جائيں تو شمار نهيں كر پائيں گے یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہےان بےشمار نعمتوں میں زبان بہت بڑی نعمت ہے جو انسانی قلوب اور ازہان کی ترجمان ہے اس کا صحیح استعمال حصول ثواب اور غلط استعمال پر عذاب کی وعید ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم  نے اصلاحِ زبان کو ضروری قرار دیا ہے چنانچہ آپ  کا ارشاد ہے ،"من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیقل خیراً أولیصمت" (صحیح بخاری:۶۰۱۸، صحیح مسلم۴۷/۷۴
جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے(اسے چاہئے یا تووہ بھلائی کی بات کہے ورنہ خاموش رہے اھل ایمان کی گفتگو پر تاثیر اور بہترین اخلاق پر مبنی ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ فضولیات سے احتراز کرتے ہیں کیونکہ آپ  نے فرمایا "من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ" (مؤطا امام مالک:۹۰۳/۲ ح ۷۳۷ ا وسندہ حسن ) فضول باتوں کو چھوڑ دینا ، آدمی کے اسلام کی اچھائی کی دلیل ہے ۔ موطا امام مالک اور اسی طرح ایک اچھے بہترین مسلمان کی زبان سے دیگر مسلمان محفوظ ہوں ۔چنانچہ سیدنا ابو موسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول !مسلمانوں میں سے کون افضل ہے ؟آپ نے فرمایا: "من سلم المسلمون من لسانہ ویدہجس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ (بخاری : ح ۱۱، مسلم ۴۲/۶۶)کہتے ہیں کہ زبان کا نشتر (لوہے کےنیزے سے زیادہ گہرا زخم کرتا ہے لہذا بہترین مسلمان بننے کے لئے اپنی زبان پر کنٹرول اور دوسرے مسلمان کی عزت نفس کا خیال بہت ضروری ہے ، ،اس لیۓ آپ  نے فرمایا : "إن دماء کم وأموالکم و أعراضکم بینکم حرام۔۔۔۔ الخ")بخاری۶۷(یعنی ایک مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان کا خون، مال اور اس کی عزت آبرو قابل احترام ہیں۔ جو بھی مسمان اپنا زبان اپنے کنٹرول میں رکھے ان کے بارے میں آُپ  نے فرمایا : "من یضمن لي مابین لحییہ ومابین رجلیہ أضمن لہ الجنۃ"جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی ضمانت دے تو میں اس کے لئے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ )بخاری : ۶۴۷۴(جس طرح زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے کی بنا پر جنت کی بشارت دی گئی ہے ٹھیک اسی طرح ان دونوں کی حفاظت کی کوتاہی کرنے 
والوں کے لئے تنبیہ بلیغ بہی ہے ، چنانچہ ، رسول اللہ  نے فرمایا:" أتدرون ما أکثر ما یدخل الناس النار ؟ الأجوفانالفم و الفرجسنن ترمذی ، سنن ابن ماجہ    (  اسنادہ صحیحکیا تم جانتے ہو کہ لوگوں کو کثرت کے ساتھ کون سی چیز جہنم میں داخل کرے گی؟ وہ دو کھوکھلی چیزیں ، زبان اور شرمگاہ ہیں۔ زبان کے خطراتسیدنا سفیان بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم مجھے ایسی بات بتلایئے جس کو میں مضبوطی سے تھام لوں، آپ نے فرمایاقل ربی اللہ ثم استقمتم کہو میرا رب اللہ ہے، پھر اس پر جم جاؤ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ  سب سے زیادہ خطرے والی چیز جس کا آپ کو مجھ سے اندیشہ ہو کیا ہے؟
"
فأخذ بلسان نفسہ ثم قال ھذاآپ نے اپنی زبان پکڑی ، پھر فرمایایہ(زبانہے۔ (سنن ترمذیح۲۴۱۰واسنادہ صحیح(ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوچھنے پر نما ز، زکوۃ ، روزہ، حج بیت اللہ اور جہاد کے متعلق بالتفصیل بیان فرمایاآخر میں فرمایاألا أخبرک بملاک ذلک کلہ؟ کیا میں تجھے ایسی بات نہ بتلاؤں جس پر ان سب کا دار ومدار ہے؟ میں نے کہا : بلی یا رسول اللہ، اے اللہ کے رسول کیوں نہیں۔ آپ  نے اپنی زبان مبارک پکڑی اور فرمایا :"کف علیک ھذااس کو روک کے رکھ، میں عرض کیا، کیا ہم زبان کے ذریعے جو گفتگو کرتے ہیں اس پر بھی ہمار ی گرفت ہوگی؟ آپ نے فرمایا تیری ماں تجھے گم پائے لوگوں کو جہنم میں اوندھے منہ گرانے والی زبان کی کاٹی ہوئی کھیتی (گفتگوکے سوا اور کیا ہے!؟ (سنن ترمذیح ۲۶۱۶وسندہ حسن(
معلوم ہوا کہ زبان کا غلط استعمال آدمی کے اعمال(نماز ، روزہ، زکوۃ، حج، جہادوغیرہ کو برباد کرسکتا ہے اور جنت کی بجائے جہنم کا ایندھن بنا سکتا ہے۔ أعاذنا اللہ منھا
پہلے تولو۔۔۔پھر بولوہمیشہ دوران گفتگو تدبر و تفکر کو ملحوظ رکھنا چاہئے کیونکہ زبان کی ذرا سی بے اعتدالی انسان کو دنیا و آخرت کے آلام و مصائب سےدو چار کر سکتی ہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہےمَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ )سورۃ ق آیت 18(ترجمہانسان جو لفظ بھی بولتا ہے تو اس کے پاس ہی ایک نگران موجود ہوتا ہے۔
یعنی انسان کی ہر بات ریکارڈ ہوتی ہے۔رسول اللہ  نے فرمایا:آدمی ایک بات کرتاہے اس میں غور و فکر نہیں کرتا اور وہ اس بات کی وجہ سے مشرق و مغرب کے درمیان مسافت سے بھی زیادہ جہنم کی طرف گر جاتا ہے ۔ (صحیح بخاری۶۴۷۷، صحیح مسلم:۲۹۸۸/۴۹(نبی کریم  نے فرمایاجب انسان صبح کرتا ہے تو اس کے تمام اعضاء زبان کی منت سماجت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ:"اتق اللہ فیناہمارے بارے میں تجھے اللہ سے ڈرنا چاہئے۔ بلاشبہ ہمارا معاملہ تیرے ساتھ وابستہ ہے، اگر تو درست رہے گی تو ہم بھی درست رہیں گے اور اگر تجھ میں ٹیڑھا پن آگیا تو ہم بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے۔)سنن ترمذی۲۴۰۷ وسندہ حسن(یعنی پہلے زبان درازی ، گالی گلوچ ہوتی ہے پھر لڑائی جھگڑا ہوتا ہے، تو مار جسم کو ہی برداشت کرنی پڑتی ہے اسی لئے جسم کے سارے اعضاء زبان کے سامنے منت سماجت کرتے ہیں، ہر دو احادیث سے زیادہ واضح ہوگیا ہے کہ زبان کا استعمال صحیح نہ کرنے کی وجہ سے دونوں جہانوں میں خسارے کا سامنا ہے۔
خاموشی میں نجات : رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:"من صمت فقد نجا"جو شخص خاموش رہا وہ نجات پاگیا(سنن ترمذی : ۲۵۰۱ وسندہ حسن مزید تحقیق کے لئے دیکھئے "أضواء المصابیحرقم ۳۸۳۶)مزید ارشاد فرمایالا تکثروا الکلام بغیر ذکر اللہ فإن کثرۃ الکلام بغیر ذکر اللہ تعالی قسوۃ للقلبوإن أبعد الناس من اللہ القلب القاسي" (سنن ترمذیح۲۴۱۱ و سندہ حسن )اللہ کے ذکر کے علاوہ زیادہ باتیں نہ کیا کرو اس لئے کہ اللہ کے ذکر کے علاوہ زیادہ باتیں دل کی سختی ہے اور لوگوں میں اللہ سے سب سے زیادہ دور سخت دل (والا آدمیہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جاننا چاہئے کہ ہر مکلّف انسان کے لئے مناسب ہے کہ وہ ہر قسم کی گفتگو سے اپنی زبان کی حفاظت کرے، صرف وہ گفتگو کرے جس میں مصلحت واضح ہو، اور جہاں مصلحت کے اعتبار سے بولنا اور خاموش رہنا برابر ہوں تو پھر خاموش رہنا سنت ہے۔ اس لئے کہ بعض دفعہ جائز گفتگو بھی حرام یا مکروہ تک پہنچا دیتی ہے اور ایسا عام طور پر ہوتا ہے اور سلامتی کے برابر کوئی چیز نہیں (ریاض الصالحین۳۸۹/۲ طبع دار السلام)اور اخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اپنی زبان کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین 
طالب دعا : اکبر حسین اوركزئي