جمعہ، 19 اگست، 2016

مقدمه تفسير القرآن لدروس البرزان ( قسط پنجم )

تحریر : اكبر حسين اوركزئي 

تفسير  کی تعریف
لفظ تفسیر عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادة فسر ہے۔ اس کے معنی ہیں واضح کرنا، کھول کر بیان کرنا، وضاحت کرنا، مراد بتانا اور بے حجاب کرنا کے ہیں۔
اسلامي اصطلاح میں  مسلمان قرآن کی تشریح و وضاحت کے علم کو تفسیر کہتے ہیں تفسیر اصطلاح علماء میں قرآن کریم کے معانی اور اس کی مراد کو واضح کرنے اور بیان کرنے کو کہتے ہیں اورقرآن میں جو بیان کیا گيا ہے اور صحیح سنت میں اس کی تعین کیا گیا ہے اس کو ظاہر کرنا تفسیر ہے۔ جو بیان ظاہر کے مطابق ہو وہ تفسیر ہے۔ اور تفسیر کرنے والے کو  مُفَسِرْ کہتے ہیں , تفسیر کی جمع تفاسیر  اور مفسر کی جمع مفسرین آتی ہے۔
اصطلاحی تعریف
علامہ زرکشی رحمہ اللہ نے اس کی مختصر تعریف یوں نقل کی ہے:
"ھُوَعِلْمٌ یُعْرَفُ بِہٖ فَھْمُ کِتَابِ اللہِ الْمُنَزَّلِ عَلیٰ نَبِیِّہَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَیَانُ مَعَانِیْہِ وَاسْتَخْرَاج أَحْکَامِہٖ وَحِکَمِہٖ"۔ (البرھان فی علوم القرآن:۱۳۱)
وہ (علم تفسیر) ایسا علم ہے جس سے قرآن کریم کی سمجھ حاصل ہو اور اس کے معانی کی وضاحت اور اس کے احکام اور حکمتوں کو نکالا جاسکے.
اور علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تعریف میں مزید عموم پیدا کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"ھُوَعِلْمٌ يُبْحَثُ فِيْهِ عَنْ كَيْفِيَّةِ النُّطْقِ بِأَلْفَاظِ الْقُرْآنِ، وَمَدْلُوْلَاتِهَا، وَأَحْكَامِهَا الْإِفْرَادِيَّةِ وَالتَّرْكِيْبِيَّةِ، وَمَعَانِيْهَا الَّتِيْ تُحْمَلُ عَلَيْهَا حَالَۃِ التَّرْكِيْبِ، وَتَتِمَّاتُ لِذَلِك"۔ (روح المعانی:۴/۱)
(علم تفسیر) وہ علم ہے کہ جس میں قرآن کریم کے الفاظ کی ادائیگی کے طریقے اور ان کے مفہوم اور ان کے افرادی اور ترکیبی احکام اور اُن معانی سے بحث کی جاتی ہو جو کہ ان الفاظ سے جوڑنے کی حالت میں مراد لیے جاتے ہیں اور ان معانی کا تکملہ جو ناسخ و منسوخ اور شان نزول اور غیرواضح مضمون کی وضاحت میں بیان کیا جائے۔
اورتفسیرکی تعلیم واجب ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوْٓا اٰيٰتِهٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ     2٩؀  ص   
یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل فرمایا ہے کہ لوگ اس کی آیتوں پر غور و فکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں .
اور یہ بھی فرمان تعالی ہے کہ: اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا      24؀   محمد
کیا یہ قرآن میں غورو فکر نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر ان کے تالے لگ گئے ہیں .   
پہلی آیت کی وجہ الدلالت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے بیان فرمایا کہ اس مبارک کتاب کو نازل کرنے کی حکمت یہ ہے کہ لوگ اس کی آیات پر غوروفکر وتدبر کریں اور جو کچھ اس میں سے ہے اس سے وعظ ونصیحت حاصل کریں۔  اور تدبر کہتےہیں کہ الفاظ پر غوروفکر کرکے اس کے معانی تک پہنچا جائے۔اور اگر ایسا نہ ہو تو نزول قرآن کی حکمت ہی فوت ہوجائےگی اور بایں صورت وہ ایسے الفاظ بن جائیں گے کہ جن کی کوئی تاثیر ہی نہ ہو۔اوراس لیے بھی کہ قرآن حکیم میں جو کچھ ہے اس سے وعظ ونصیحت حاصل کرنا اس کےمعانی کوسمجھے بغیرممکن ہی نہیں۔
اور دوسری آیت کی وجہ دلالت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کو ملامت کیا ہےکہ جو قرآن مجید پر تدبرنہیں کرتے، اور اشارہ فرمایا ہے کہ یہ ان کے دلوں پر تالے پڑے ہونے اور اس تک خیر کے نہ پہنچ سکنے کی دلیل ہے ۔
تفسیری مآخذ
یعنی وہ ذارئع جن سے قرآن کریم کی تفسیر معلوم ہوسکتی ہے،
اس سلسلے میں ہمارے  شیخ فرماتے تھے    ، لا یصیر رجل بصیر بالقرآن  حتی یعلم اربعا  
 (1) تفسیر القرآن بالقرآن۔(قرآن کریم کی کسی آیت یا لفظ کی تشریح قرآن ہی کی کسی دوسری آیت یا لفظ سے کی جائے)
(2) تفسیر القرآن بالاحادیث النبویہ صلی اللہ علیہ وسلم۔(قرآن مجید کے کسی آیت کی وضاحت آنحضرت کے کسی قول یا فعل سے کی جائے)
(3) تفسیر القرآن باقوال الصحابۃ رضی اللہ عنہم اجمعین۔(قرآن پاک کے کسی آیت کی تشریح حضرات صحابہ کرام میں سے کسی صحابی کے قول سے کی جائے،تفسیری شرائط کے ساتھ)
(4) تفسیر القرآن باقوال التابعین رحمہم اللہ۔(قرآن مجید کے کسی آیت کی وضاحت حضرات تابعین میں سے کسی تابعی کے قول سے کی جائے،تفسیری شرائط کے ساتھ)
اب ہرایک کی تھوڑی سی تفصیل ضروری مثالوں سے ذیل میں ذکر کی جاتی ہے:
پہلا ماخذ، تفسیرالقرآن بالقرآن
اختصار کی غرض سے اس کی صرف ایک مثال پیش کی جاتی ہیں: مثلا سورۃ الفاتحہ کو ہی لیجئے، اِس کی دونوں آیتیں اس طرح ہیں: اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ    Ĉ۝ۙ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ۹   (الفاتحۃ)
ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما،ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا ہے۔
جن پر انعام کیا گیا ہے اس کی تفسیر "سورۃالنساء" کی درجِ ذیل آیت میں کی گئی ہے: وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا     69؀ۭ  النساء
دوسرا ماخذ، تفسیرالقرآن بالحدیث
قرآن پاک کی تفسیررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں کرنا تفسیر القرآن بالحدیث کہلاتا ہے، خود قرآن کریم کی متعدد آیات میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں بھیجےجانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اقوال وافعال اور عملی زندگی سے آیات قرآنیہ کی تفسیر وتشریح فرمائیں۔جیسا کی ارشاد باری تعالی ہے ۔
وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ    44؀ النحل
اور (اے پیغمبر) ہم نے تم پر بھی یہ قرآن اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے ان باتوں کی واضح تشریح کر دو جو ان کے لیے اتاری گئی ہیں اور تاکہ وہ غوروفکر سے کام لیں۔ ( ترجمه  مفتي تقي عثماني )
اس کے لیے ایک  مثال:  سورۂ بقرہ کی آیت شریفہ
وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۠  (البقرۃ:۱۸۷)
اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہوکرتم پر واضح (نہ) ہوجائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیط ابیض اور خیط اسود کی مراد کو اپنے ارشاد مبارک سے واضح فرمایا : " إِنَّمَا ذَلِكَ سَوَادُ اللَّيْلِ وَبَيَاضُ النَّهَار"۔ (بخاری، بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى، وَكُلُوا وَاشْرَبُوا،حدیث نمبر:۱۷۸۳)  کہ خیط ابیض سے مراد صبح صادق اور خیط اسود سے مراد صبح کاذب ہے۔
ایک اور مثال :  سورۃ الفاتحہ میں ارشاد ہے : غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ      Ċ۝ۧ (الفاتحۃ:۷)
 نہ کہ ان لوگوں کے راستے پر جن پر غضب نازل ہوا ہےاور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں۔
ان دونوں کا مصداق متعین کرتے ہوئےحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "إِنَّ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ أَلْيَهُوْدُ وَإِنَّ الضَّالِّيْنَ النَّصَارَىٰ"۔ (مسند احمد بن حنبل،بقیۃ حدیث بن حاتم،حدیث نمبر:۹۴۰۰)جن پر غضب نازل ہوا اس سے مراد یہود ہیں اور جو راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں اس سے مراد نصاری ہیں۔    اس طرح کی بے شمار مثالیں کتب احادیث میں بکثرت موجود ہیں ۔
 تیسرا ماخذ :   تفسیرالقرآن باقوال الصحابۃ رضی اللہ عنہم
حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم چونکہ بجا طور پر خیر امت کہلانے کے مستحق ہیں جنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست قرآن کریم کی تعلیم وتربیت حاصل کی ،ان میں سے بعض وہ ہیں جو اپنی پوری زندگی اس کام کے لیے وقف کردیں کہ قرآن کریم اوراس کی تفسیر وتاویل کو بلاواسطہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کریں ،اہل زبان ہونے کے باوجود ان کو صرف زبان دانی پر بھروسہ نہ تھا؛ چنانچہ بعضے صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سبقاً سبقاً قرآن کریم کو پڑھا، مشہور تابعی ابوعبدالرحمن سلمی فرماتے ہیں: "حَدَّثَنَا الَّذِيْنَ كَانُوْا يَقْرَؤَوْنَ الْقُرَآنَ كَعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَعَبْدِ اللّٰهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ وَغَيْرِهِمَا أَنَّهُمْ كَانُوْا إِذَا تَعَلَّمُوْا مِنَ النَّبِيِّ عَشَرَ آيَاتِ لَمْ يَتَجَاوَزُوْهَا حَتَّى يَعْلَمُوْا مَافِيْهَا مِنَ الْعِلْمِ وَالْعَمَلِ"۔ (الاتقان فی علوم لقرآن)
صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے جو قرآن کی تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا کرتے تھے،مثلاً حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ انہوں نے ہمیں یہ بتایا کہ وہ لوگ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آیتیں سیکھتے تو ان آیتوں سے آگے نہ بڑھتے جب تک ان آیتوں کی تمام علمی وعملی باتوں کو نہ جان لیتے۔
یہ ہے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کا براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم وتربیت کا سیکھنا کہ جتنا سیکھتے اتنا عمل کا بھی اہتمام فرماتےشاید اسی وجہ سے مسند احمد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا یہ اثرمنقول ہے: "كَانَ الرَّجُلُ إِذَاقَرَأ الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ جَدَّ فِيْنَا"۔ (مسند احمد،مسند انس بن مالک،حدیث نمبر:۱۱۷۶۹)
یعنی جب کوئی شخص سورۃ بقرہ وآل عمران کو پڑھ لیتا تووہ ہماری نظروں میں بہت ہی عزت والا سمجھا جاتا.
 اور موطا مالک کی روایت میں ہے: "أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ مَكَثَ عَلَى سُورَةِ الْبَقَرَةِ ثَمَانِيَ سِنِينَ يَتَعَلَّمُهَا"۔ (مؤطا مالک، کِتَابُالنِّداءِ لِلصّلاةِ،بَاب مَاجَاءَ فِي الْقُرْآنِ ،حدیث نمبر:۴۲۸)
حضرت عبداللہ ابنِ عمررضی اللہ عنہ کو سورۂ بقرہ یاد کرنے میں آٹھ سال لگے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اتنے کمزور ذہن والے تھے کہ سورۂ بقرہ یاد کرنے میں آٹھ سال لگے،جبکہ موجودہ دور میں کمزور سے کمزور طالب علم اتنے عرصہ سے کم میں پورا قرآن کریم حفظ کرلیتا ہے،دراصل بات یہ تھی کہ آٹھ سال کی مدت حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو سورۂ بقرہ کے الفاظ اور اسکی تفسیر وتاویل اور اسکے متعلقات کے ساتھ حاصل کرنے میں لگی،اسکی تائید حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس اثر سے ہوتی ہے جسکو ابن کثیر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے: "والذي لا إله غيره، ما نزلت آية من ، كتاب الله إلا وأنا أعلم فيمن نزلت؟ وأين نزلت؟ ولو أعلم أحد اأعلم بکتاب اللہ منی تنالہ المطایا لاتیتہ"۔ (ابن کثیر:۱/۳)
قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نازل نہیں ہوئی جسکے بارے میں مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کس بارے میں اور کہاں نازل ہوئی اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ کوئی شخص ایسی معلومات مجھ سے زیادہ رکھتا ہے اور سواریاں اس شخص تک پہونچاسکتی ہیں تو میں اس کے پاس ضرور جاؤں گا۔
یہ چند نمونے ہیں حضرات صحابہ کی جانفشانی اور ان کی محنت کے جو تفسیر قرآن کے سلسلہ میں پیش کئے گئے ،یوں تو بہت سی آیات کی تفسیر حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال سے ثابت ہیں ہم ان میں سے صرف ایک مثال پیش کرتے ہیں ۔
ایک مثال:   ایک دفعہ حضرت ابن عمر کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور درج ذیل آیت کی تفسیر دریافت کی:
اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا    ۭ   (الانبیاء:۳۰)
کیا کفار نے دیکھا نہیں کہ آسمان وزمین بند تھے پھر ہم نے ان کو کھول دیا۔
 حضرت ابن عمر نے اس سے فرمایا کہ تم ابن عباس  کے پاس جاؤ اور ان سے اس کی تفسیر معلوم کرو اور وہ جو تفسیر بتائیں وہ مجھے بھی بتاتے جانا،وہ شخص ابن عباس کے پاس پہنچااور درج بالا آیت کی تفسیر پوچھی تو ابن عباس  نے فرمایا کہ: آسمان خشک تھے ان سے بارش نہیں ہوتی تھی اور زمین بانجھ تھی اس سے کچھ اُگتا نہیں تھا،بارش کے طفیل یہ پودے اگانے لگی؛گویا آسمان کا فتق(پھٹنا)بارش کے ساتھ ہے اور زمین کا پھل پودے اگانے سے ۔ اس شخص نے حضرت ابن عمر کو جب یہ تفسیر بتائی تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالی کی جانب سے ان کو خصوصی علم عطا ہوا ہے۔ (روح المعانی،۱۲/۳۶۹)
نوٹ :  ایک اہم بات اس بارے میں اہل اصول نے بتلائی ہے کہ جن صحابہ رضی اللہ عنہم کے تفسیری اقوال میں صحیح وسقیم ہر طرح کی روایتیں ملتی ہیں تو ان اقوال کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کئے جانے سے پہلے اصول ِحدیث کے اعتبار سے انکی جانچ ضروری ہے۔
۲۔ نیز دوسرے یہ کہ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال تفسیر اسی وقت حجت ،دلیل سمجھے جائیں گےجبکہ آپﷺ  سے آیت شریفہ کی کوئی صریح تفسیر مستند طورپر ثابت نہ ہو؛چنانچہ اگر آپ  سے تفسیر منقول ہو تو پھر صحابہ رضی اللہ عنہ سے اقوال محض اس تفسیر کی تائید شمار کئے جائنگے اور اگر آپ کے معارض کوئی قول صحابی رضی اللہ عنہ ہوتو اس کو قبول نہ کیا جائےگا۔
 ۳۔تیسرے یہ کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال تفسیر میں اگر تعارض اور ٹکراؤ ہو تو جہاں تک ہوسکے انکے اقوال میں مطابقت پیداکی جائیگی اگر مطابقت نہ ہوسکے تو پھر مجتہد کو اس بات کا اختیار ہوگا کہ دلائل کی روشنی میں جس صحابی رضی اللہ عنہ کا قول مضبوط ہے اسکو اختیار کرلے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے مقدمہ تفسیر ابن کثیر۱/۳)۔ (واللہ تعالی اعلم)
چوتھا ماخذ:   تفسیر القرآن باقوال التابعین
واضح ہونا چاہئے کہ تابعین سے مراد تمام ہی تابعین نہیں ہیں؛ بلکہ وہ حضرات تابعین جنہوں نے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہ کی صحبت اٹھائی ہواور انکی صحبت سے علمی استفادہ کیا ہو، اہل علم میں اس بات پربھی اختلاف ہے کہ تفسیر قرآن کے بارے میں اقوال تابعین حجت ہیں یا نہیں،اس معاملہ میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بہت ہی معتدل بات لکھی ہے کہ اگر کوئی تابعی کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے تفسیر نقل کررہے ہوں تو اس کا حکم صحابی کی تفسیر جیسا ہوگا اور اگر خود تابعی اپنا قول بیان کریں تو دیکھا جائےگا کہ دوسرے کسی تابعی کا قول ان کے خلاف تو نہیں اگر خلاف میں کوئی قول ہو تو پھر اس تابعی کے قول کو حجت نہیں قرار دیا جائےگا؛ بلکہ ایسی آیات کی تفسیر کے لیے قرآن کی دوسری آیتیں احادیث نبویہ آثارصحابہ رضی اللہ عنہم اورلغت عرب جیسے دوسرے دلائل پر غور کرکے فیصلہ کیا جائےگا،ہاں اگر تابعین کے درمیان کوئی اختلاف نہ ہوتو ان کے تفسیری اقوال کو بلاشبہ حجت اورواجب الاتباع قراردیا جائے گا۔ (بحوالہ تفسیر ابن کثیر،ا-۵،مطبوعہ المکتبہ التجاریۃ الکبری)
جب تابعین کے اقوال پر تفسیر کی جاسکتی ہے تو اس کے کچھ نمونےبھی ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں :
پہلی مثال :  ارشاد باری تعالی ہے: وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا  ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ    ١٠٠؁  (التوبہ:۱۰۰)
اور جولوگ قدیم ہیں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور مددکرنے والے اور جو ان کے پیروہوئے نیکی کے ساتھ اللہ تعالی راضی ہوا ان سے اور وہ راضی ہوئے اس سے اور اللہ نے تیار کررکھا ہے ان کے واسطے ایسے باغات کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں رہا کریں ان میں وہ ہمیشہ یہی ہے بڑی کامیابی۔ اس آیت شریفہ میں حضرات صحابہ رضی اللہ عنہ کے مختلف درجاتِ فضیلت بیان کئے گئے ہیں ایک سابقین اولین کا،دوسرے انکے بعد والوں کا ،اب سابقین اولین کون ہیں ،اس میں مفسرین کے مختلف اقوال نقل کئے جاتے ہیں،کبار تابعین حضرت سعید بن المسیب رحمہ اللہ،ابن سیرین رحمہ اللہ اور قتادہ رحمہ اللہ کا یہ قول ہے کہ اس سے مراد وہ صحابہ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی اور عطاء بن ابی رباح کا یہ قول ہے کہ سابقین اولین سے مرادبدرمیں شریک ہونے والےصحابہ ہیں اورشعبی نے فرمایا کہ وہ جو کہ حدیبیہ کے موقع پر بیعت رضوان میں شامل رہے۔ (تفسیرروح المعانی، تفسیر سورۂ توبہ،آیت نمبر۱۰۰)
اس آیت میں تابعین رحمہ اللہ کے مختلف اقوال سامنے آئے ،مفسرین نے کسی قول کو رد نہیں کیااور ان کے درمیان تطبیق دینے کی کوشش کی ہے۔
دوسری مثال :  ارشاد باری تعالی ہے: اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ (التوبہ:60 ) صدقات تو صرف غریبوں کے لیے ہیں..الخ۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے غنی اور فقیر کے درمیان فرق کو واضح کیا ہے،غنی سے متعلق امام ابو حنیفہ  نے فرمایا کہ غنی وہ شخص ہے جس کے پاس اصلی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد بقدر نصاب زکوۃ مال باقی رہے۔ (تفسیر روح المعانی،سورۂ توبہ:آیت نمبر:60)
عام مفسرین نے امام ابو حنیفہ کے ذکر کردہ تعریف غنی کو اپنی تفاسیر میں بلا کسی نکیر کے ذکر فرمایا ہے۔
اسرائیلیات
ان روایتوں کو کہتے ہیں جو اہلِ کتاب ، یعنی یہودیوں اور عیسائیوں سے ہم تک پہنچی ہیں۔
پہلے زمانے کے مفسرین کی عادت تھی کہ وہ کسی آیت کے ذیل میں ہر قسم کی وہ روایات لکھ دیتے تھے جو انہیں سند کے ساتھ پہنچتی تھیں۔ ان میں بہت سی روایتیں اسرائیلیات بھی ہوتی تھیں۔ اس لیے ان کی حقیقت سے واقف ہونا بھی ضروری ہے۔
ان کی حقیقت یہ ہے کہ بعض صحابہ کرام اور تابعین پہلے اہلِ کتاب کے مذہب سے تعلق رکھتے تھے ، بعد میں جب وہ مشرف بہ اسلام ہوئے اور قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی تو انہیں قرآن کریم میں پچھلی امتوں کے بہت سے وہ واقعات نظر آئے جو انہوں نے اپنے سابقہ مذہب کی کتابوں میں بھی پڑھے تھے ، چنانچہ وہ لوگ قرآنی واقعات کے سلسلے میں وہ تفصیلات مسلمانوں کے سامنے بیان کرتے تھے جو انہوں نے اپنے پرانے مذہب کی کتابوں میں دیکھی تھیں۔ یہی تفصیلات "اسرائیلیات" کے نام سے تفسیر کی کتابوں میں داخل ہو گئی ہیں۔ حافظ ابن کثیر (رحمة اللہ علیہ) نے ، جو بڑے محقق مفسرین میں سے ہیں ، لکھا ہے کہ :
اسرائیلیات کی تین قسمیں ہیں۔
(1) 
وہ روایات ، جن کی سچائی قرآن و سنت کے دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔
مثلاً : فرعون کا غرق ہونا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا کوہِ طور پر تشریف لے جانا وغیرہ۔
(2) 
وہ روایات جن کا جھوٹ ہونا قرآن و سنت کے دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔
مثلاً : اسرائیلی روایات میں مذکور ہے کہ ۔۔۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنی آخری عمر میں (معاذاللہ) مرتد ہو گئے تھے۔ جبکہ اس کی تردید قرآن کریم سے ثابت ہے : 
وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّيٰطِيْنُ عَلٰي مُلْكِ سُلَيْمٰنَ ۚ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ وَلٰكِنَّ الشَّيٰطِيْنَ كَفَرُوْا يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ . ( سورة البقرة : 2 ، آیت : 102 )
اور ان چیزوں کے پیچھے پڑ گئے جو سلیمان کے عہد حکومت میں شیاطین پڑھتے پڑھاتے تھے ۔ حالانکہ سلیمان نے کوئی کفر نہیں کیا بلکہ شیطانوں ہی نے کفر کیا ۔ یہی لوگوں کو جادو سکھاتے تھے 
اسی طرح مثلاً : اسرائیلی روایات میں مذکور ہے کہ (معاذ اللہ) حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اپنے سپہ سالار "اوریا" کی بیوی سے زنا کیا ، اسے (اوریا) مختلف تدبیروں سے مروا کر اس کی بیوی سے نکاح کر لیا۔ یہ بھی کھلا جھوٹ ہے اور اس قسم کی روایتوں کو غلط سمجھنا لازم ہے۔
(3) 
وہ روایات جن کے بارے میں قرآن و سنت اور دوسرے شرعی دلائل خاموش ہیں جیسے کہ تورات کے احکام وغیرہ۔ ایسی روایات کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ ان کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے۔ نہ ان کی تصدیق کی جائے اور نہ تکذیب۔
البتہ اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ آیا ایسی روایات کو نقل کرنا جائز بھی ہے یا نہیں؟
حافظ ابن کثیر نے قولِ فیصل یہ بیان کیا ہے کہ :
انہیں نقل کرنا جائز تو ہے ، لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ شرعی اعتبار سے وہ حجت نہیں ہے
آداب القرآن
01 : نیت میں خلوص :
قرآن کی تلاوت کرنے والے کی نیت خالص اللہ کی رضا چاہنے کے لئے ہو، دکھاوا یا شہرت طلبی يا حصول مال کے لئے نہ ہو ، اسلئے کہ اس کی یہ عبادت اللہ کی قربت طلب کرنے کے لئے ہے ۔
02: شروع میں تعوذ :
شروع کرنے سے پہلے اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھے.اورقرآن کی تلاوت اگر سورہ توبہ کے علاوہ کسی اور سورت سے شروع ہو ، تو بسم الله الرحمن الرحيم بھی پڑھے ۔
03 : وضو : قرآن کی تلاوت کرنے والے شخص کا باوضو ہونا مستحب ہے ، اگر وہ قرآن دیکھکر تلاوت کررہا ہو، تو اس کا باوضو ہونا واجب ہے، اسلئے کہ حضوراکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : قرآن کوسوائے پاک شخص کے کوئی اور نہ چھوئے ۔ 
04 :قبلہ رح ہونا :
قرآن کی تلاوت کرنے والے شخص کیلئے بہتر ہے کہ وہ قبلہ رخ ہوکر اچھی حالت اور اچھے کپڑے پہن کر قرآن کے شایان شان مناسب جگہ پر بیٹھے۔
 05 : خشوع اور تدبر :  
خشوع و خضوع کے ساتھ اس کی آیتوں میں غور و فکر کرتے ہوئے قرآن کی تلاوت کرے ، اور اپنے دل و دیگر حواس سے قرآن کے مفہوم کی طرف متوجہ رہے ، اور بلا ضرورت لوگوں کی باتوں کی وجہ سے قرآن کی تلاوت میں خلل پیدا نہ کرے ۔
 06 : تجوید کی رعایت :
حروف اور حرکات کو واضح کرتے ہوئے اچھی آواز ميں نیز اپنی طاقت کے مطابق تجوید کے احکام کے رعایت کرتے ہوئے تلاوت کرنا مستحب ہے۔
 07: تلاوت مناسب آواز میں کرے :
جب کوئی اس کی تلاوت سن رہا ہو ، یا نماز پڑھ رہا ہو ، تو قرآن کی تلاوت کرنے والے شخص کیلئے یہ مناسب ہے کہ وہ اپنی آواز بلند کرکے کسی کو پریشان نہ کرے ، یا اپنی تلاوت سے نمازی کی نماز میں خلل پیدا نہ کرے ۔
آداب المتعلم
(1)   خلوص نيت : نیت اللہ کے لیے خالص کرنا کیونکہ حدیث میں اتا ہے ، انماالاعمال بانيات
(2) ترك المعاصي : یعنی گناہ و معصیت سے بچنا،
یعنی گناہ و معصیت سے بچیں اور ان چیزوں میں دل نہ لگائیں جو ذہن و فکر کو غافل کر دیتی ہیں جیسے دنیا کی سحر آفرینیوں اور خواہشات نفسانی میں دلچسپی لینا اس سے سوء حافظہ یعنی حآفظہ کمزور ہوجاتا ہے .
 چنانچہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون کو اس شعر میں ادا کیا ہے.
شَكَوْتُ إلَى وَكِيعٍ سُوءَ حِفْظِي   **   فَأرْشَدَنِي إلَى تَرْكِ المعَاصي
" میں نے (اپنے استاد)  وکیع سے اپنے حافظہ کی کمزروی کی شکایت کی تو انہوں نے مجھے ترک معصیت(گناہوں کو چھوڑنے) کی نصیحت کی .
وَأخْبَرَنِي بأَنَّ العِلْمَ نُورٌ         ***      ونورُ الله لا يهدى لعاصي
اس خبر دی کہ علم تو نور(روشنی) ہے اور اللہ کا نور گناہ گار کے حصہ میں نہیں آتا۔
(3)  الهمة العالية في طلب العلم : علم طلب كرنےميں بڑی ہمت بہرپور اپنی قوت صرف کرنا ، جسم کی تمام تر توانائی اس کی حصول کے لیے لگا دینا ، بمعنی دیگر وقت کی قدر کرنا مسلسل محنت کرنا .
قرآني علاج :
وَيُنَجِّي اللّٰهُ الَّذِيْنَ اتَّــقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ ۡ لَا يَمَسُّهُمُ السُّوْۗءُ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ   61؀  الزمر ( پ 8 )
اور جو لوگ بچ رہے تھے، اللہ ان لوگوں کو کامیابی کے ساتھ نجات دے گا ان کو نہ تکلیف پہنچے گی اور نہ یہ غمگین ہوں گے .
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَـيِّاٰتِهِمْ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ اَحْسَنَ الَّذِيْ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ   Ċ۝ العنکبوت ( پ 20 )
جو لوگ ایمان لاۓ اور جنہوں نے نیک عمل کیے ان کی برائیاں ہم ان سے دور  کر دیں گے اور ان کو ان  کے اعمال کی بہترین جزا دیں گے.
(4)  استاذہ کی آداب :  علم اسے نصیب ہوگی جو اساتذہ کا آدب کرے .
قرآن كريم کے تراجم
برصغیر میں سب سے پہلے  1150ھـ  میں مولانا  شاہ ولی اللہ نے قرآن کریم کا فارسی میں ترجمہ کیا جس کا نام اس نے فتح الرحمن رکھا .
1205ھ  میں مولانا شاہ عبدالقادر بن شاہ ولی اللہ نے اردو میں ترجمہ کیا  اور ساتھ میں اردو میں مختصر فوائد لکھے جس کا نام موضح القرآن رکھا
دوسرا اردو ترجمہ مولانا شاہ رفیع الدین بن شاہ ولی اللہ نے کیا جو لفظی ترجمہ تھا .
1208ھ میں  مولانا  شاہ عبدالعزیز بن شاہ ولی اللہ نے فارسی میں تفسیر لکھنی شروع کی مگر مکمل نہ ہوسکی انتقال کر گئے صرف 3 پارے لکھے
1325ھ میں مولانا اشرف علی تھانوی نے تفسیر بیان القرآن   اردو میں لکھی  اور اسی زمانے میں مولانا عبد الحق حقانی نے تفسیر فتح المنان لکھی . اور آج الحمد للہ ہمارے پاس اردو میں بےشمار تفاسیر موجود ہیں . وللہ الحمد
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين. وصلى اللَّه وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه والتابعين لهم بإحسان إلى يوم الدين .
یا اللہ  ہمیں اہتمام سے قرآن کریم کی تلاوت کرنے والا بنائے ، اور اس کو سمجھ کر پڑھنے والا بنائے  . 
اور  اس کے احکام ومسائل پر عمل کرنے والا بنائے۔اور اس کے پیغام کو دوسروں تک پہونچانے والا بنائے۔  آمین، ثم آمین۔
*****************************
اکبر حسین اورکزئی

کوئی تبصرے نہیں: