تحریر: اكبر حسين اوركزئي
حکمت نزول یا مقاصد القرآن
قرآن کی تعریف کے بعد یہ جان لیجئے کہ کہ نزول قرآن کی کیا حکمت ہے اللہ تعالی نے اپنے کلام پا ک میں اسکی نزول حکمت بھی بیان فرمائی ہے ۔ وہ یہ کہ لوگوں کو شرک وکفر وضلا لت اور عقائد فاسدہ بدعا ت کی اندھیروں سے تو حید وسنت کی اجالوں کی طرف نکا ل لیا جائے ۔ جیسا کہ سورہ ابراھیم ۱ میں ہے ۔
(۱)الۗرٰ ۣ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ ڏ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ اِلٰي صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ ۙ ابراہیم
ترجمہ :۔ یہ ایک کتاب ہے کہ ہم نے اتاری تیری طرف کہ تو نکا لے لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف انکی رب کی حکم سے راہ کی طرف اس زبردست خوبیوں والے ۔
اور سورۃ یونس۵۷ میں قرآن کی نزو ل حکمت یوں بیان کی گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(2) پند و نصیحت : يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ ڏ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ 57 یونس
اور سورۃ یونس۵۷ میں قرآن کی نزو ل حکمت یوں بیان کی گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(2) پند و نصیحت : يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ ڏ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ 57 یونس
اے لو گوں تمھارے پاس آئی ہے نصیحت تمھا رے رب کی طرف سے اور شفا ء دلوں کی روگ کی اور ہدایت اور رحمت مسلما نوں کے واسطے۔
اللہ تعالی نے عام لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ اے لوگو تمھا رے پاس ایک ایسی کتاب آئی ہے جو برائیوں سے روکنے اورنیکیوں کی طرف ترغیب دینے کیلئے نصیحت نا مہ ہے ، جس میں شفا ہے ان امراض کیلئے جو سینوں میں ہوتے ہیں۔ اور ہدایت اور رحمت ہے مو منوں کیلئے ۔ (ف) یہا ں (للمؤ منین) کی قید اس لئے لگا ئی کہ استفا دہ مومن ہی کریں گے۔
﴿ كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِيْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنْذِرَ بِهٖ وَذِكْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ Ą﴾(الاعراف 2)۔
﴿ كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِيْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنْذِرَ بِهٖ وَذِكْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ Ą﴾(الاعراف 2)۔
یہ کتاب تیری طرف بھیجی گئی ہے، تاکہ تو اس کے ذریعے ڈرائے، اس سے تیرے دل میں تنگی نہ ہونی چاہیے، یہ ایمان والوں کے لیے نصیحت ہے“۔(3) انذار : وَاَنْذِرْ بِهِ الَّذِيْنَ يَخَافُوْنَ اَنْ يُّحْشَرُوْٓا اِلٰى رَبِّهِمْ لَيْسَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ وَلِيٌّ وَّلَا شَفِيْعٌ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ 51 الانعامترجمہ :۔اور خبر دار کر دے اس قرآن سے ان لوگون کو جن کو ڈر ہے، اسکا کہ وہ جمع ہو نگے اپنے رب کے سا منے اس طرح پر کہ اللہ کے سوا نہ کوئی ان کا حمایتی ہو گا اور نہ سفا رش کرنے والا تاکہ وہ بچتے رہیں ۔
ف: یعنی اے پغمبر آپ ﷺ اس قرآن کے ذریعے سے ان لوگوں ڈرا دے جو اپنے رب کے پا س اکھٹا ہونے کا ڈر رکھتے ہیں تو اس آیت کر یمہ میں قرآن کی نزول حکمت انذار بیا ن کی گئی ہے۔
اور سورۃ الشورۃ (۷) میں بھی قرآن کی نزول حکمت یہی بیا ن کی گئی ہے کہ آپ پر بز باں عربی قرآن نا زل کی گئی ہے تاکہ آپ ﷺ ام القریٰ (مکے والے )اور اس کے گرد یعنی تمام جہان کو ڈرا دے اس دن سے جس دن تمام لوگ اکھٹے ہوں گے (قیا مت کے دن )اس میں کو ئی شک نہیں اور وہاں دوہی فریق ہونگے ایک فرقہ جنت میں اور دوسرہ دوزخ میں ۔ وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى وَمَنْ حَوْلَهَا وَتُنْذِرَ يَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَيْبَ فِيْهِ ۭ فَرِيْقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيْقٌ فِي السَّعِيْرِ الشورة
ترجمہ:۔ اور اسی طرح اتارہ ہم نے تجھ پر قرآن عربی زبان کا ،کہ تو ڈر سنا دے بڑے گا ؤں اور اس کے آس پا س والوں کو اور خبر سنا دے جمع ہونے کے دن کی اس میں دھوکا نہیں ایک فرقہ بہشت میں اور ایک فرقہ آگ میں وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ ۔ الایۃ ‘‘ کاف بیان کمال کے لیے ہے یعنی ہم نے یوں اس قدر واضح کر کے یہ مضمون عربی زبان میں نازل کیا ہے تاکہ مکہ اور اس کے گرد و نواح کے لوگوں کو اس کے احکام سے خبردار کریں اور ان کو قیامت کے دن سے ڈرائیں جس میں سب لوگوں کو اکٹھا کیا جائیگا اور جس کی آمد میں کوئی شک نہیں۔ اس دن تمام انسان دو جماعتوں میں تقسیم ہوں گے ایک ایمان والوں کی جماعت یہ جنت میں جائیگی اور دوسری کفار و مشرکین کی جماعت یہ جہنم کا ایندھن ہوگی۔ یہ مشرکین اگر ایسا واضح قرآن بھی نہیں مانتے، تو جہنم کے لیے تیار رہیں۔
(4) ہدایت : یعنی لوگوں کو سیدھا راستہ بتانا، جیسے کہ ارشاد باری ہے :﴿ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ ٻ فِيْهِ ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ ﴾(البقرہ 2)․ ﴿ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ﴾(البقرہ 185)․
﴿ اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَهْدِيْ لِلَّتِيْ ھِيَ اَقْوَمُ﴾(بنی اسرائیل 9)۔(5) تحکیم بین الناس . مقصد یہ کہ قرآن کے ذریعہ لوگوں کے دعووں کا انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ ﴾(النساء 105)
بے شک ہم نے تیری طرف سچی کتاب اتاردی ہے، تاکہ لوگوں میں (انصاف کے ساتھ )فیصلے کرے۔
موضوع القرآن
حکمت نزول قرآن جاننے کے بعد یہ جان لو کہ قرآن کا موضوع کیا ہے ۔تو حضرت شیخ نے( ہمارے استاذ محترم شیخ القرآن علامہ خان بادشاہ مدظلہ ) فرما یا ہے کہ دراصل قرآن کا موضو ع حضرت انسان ہے، یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ قرآن میں تو حید بیان ہوا ہے اور وعد وعید قصص یہ سب بیان ہوتے ہیں مگر قرآن کا اصل مو ضوع حضرت انسان ہے، کیو نکہ یہی انسان جب اللہ تعالی کی وحد انیت کا اقرارکرتا ہو اور اسکے احکام پر کا ر بند ہو اور فرا ئض بجا لاتا ہو اور اسکے رسول ﷺ کی سنت مطہرہ پر عمل پیرا ہو اور شرک و عقاید فا سدہ اور بدعات سے اجتنا ب کر تا ہو ، اور قرآن میں بیان شدہ قصص سے عبرت حا صل کرتا ہو تو یہی انسان کا میاب اور جنت کا مستحق ہو جاتا ہے,لكن اگر یہی انسان اللہ تعالی کی وحدانیت سے منکر ہو شرک اور بدعت کا مر تکب ہو، اور انبیاء علیہم السلام کا منکر ہو، یعنی ان کی تصدیق نہ کر تا ہو تو یہی انسان خسارے میں پڑ کر دوزخ کا مستحق ہو جا تا ہے . اور قرآن کریم نے انسان کو ہی مخاطب کیا ہے .
قرآن کریم کا انداز خطاب عموماً مجموعی ہے ، لکن جب تمام عالم انسانیت کو مخاطب کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ تمام لوگوںکو (يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ) یعنی اے تمام کے تمام لوگوں۔ سے خطاب فرماتا ہے(اور یہ قرآن میںض 172 دفعہ ایا ہے ) جیسا کہ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ 21ۙ البقرہ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا ڮ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ۭ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ ١٦٨ البقرہ
يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ نُوْرًا مُّبِيْنًا ١٧٤ النساء
اے تمام لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل آ چکی ہے اور ہم نےتمہاری طرف ایک ظاہر روشنی اتاری ہے . سورۃ النساء 174اور کبھی خطاب ایمان والوں سے، اسی طرح(يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا) وہ لوگ جو ایمان لائے، یعنی اس ہدایت کی روشنی کو مان لیا، ان کو اس طرح مخاطب کیا جاتا ہے۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّةً ۠وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ۭ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ ٢٠٨ البقرہ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ Ą الصف
اے تمام ایمان والو! تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو
اور کبھی خطاب صرف کافروں سے کیاجاتا ہے یعنی وہ لوگ جو اس ہدایت کو نہیں مانتے، ان کو اے تمام رد کرنے والوں یعنی اے تمام کافرو سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ قُلْ يٰٓاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ Ǻۙ الکافرون . آپ فرما دیجئے: اے تمام کافرو!
علوم القرآن
الفوز الکبیر کے پہلے باب میں قرآن مجید کے مضامین کو شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے پانچ علوم میں تقسیم کیا ہے۔جو ان کے نزدیک قرآن مجید کا لب لباب ہیں۔ یہ علوم انہیں کے متعین کردہ ہیں جودرج ذیل ہیں:(1) علم الاحکام: یعنی عبادات، معاملات اور معاشرتی وسیاسی مسائل؛ نیزعلمی زندگی کے متعلق احکام وہدایات.
(2) علم المخاصمہ: یعنی یہود ونصاری، مشرکین ومنافقین اور مذاہب باطلہ کی تردید اور اسلام کی تائید اور حقانیت کے ثبوت پر مشتمل آیات.
(3) علم تذکیر بآلاء اللہ : یعنی اللہ کی نعمتوں، قدرتوں اور اس کے نوازشات وانعامات، نیزجنت جیسی آرامگاہ میں قیام کا تذکرہ اور مجرموں کی سزاؤں پرمشتمل آیات.
(4) علم التذکیر بالموت
یعنی وہ آیات جوموت اور مابعدالموت، حساب کتاب اور نیک اور برے اعمال کے بدلے پر مشتمل ہیں.
(5) علم التذکیر بایام اللہ
یعنی وہ آیات جو سابقہ امتوں کی معاشرتی ومعاملاتی حالات ، انبیاء کی تعلیم سے اعراض وسرکشی پر عذاب خداوندی وغیرہ ، سب امت محمدیہ صلى الله عليه وسلم کی عبرت وموعظت کے لیے تفصیل کے ساتھ مذکورہ ہیں.
( جاري )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں