ہفتہ، 15 اکتوبر، 2016

مقدمه تفسر القرآن لدروس البرزان ( قسط دوم )

تحریر : اكبر حسين اوركزئي 

كيفيت نزولِ قرآن
قرآن کریم کا نزول دو اقسام میں تقسیم ہوتاہے:   ابتدائي اور سببي
پہلی قسم ابتدائی:
وہ آیات کے جن کے نزول سے پہلے کوئی خاص سبب پیدا نہ ہوا ہو کہ جس کی وجہ سے یہ آیات نازل ہوئی ہوں۔اور قرآن مجید کی غالب آیات اسی قسم سے ہیں۔
دوسری قسم سببی:
جو آیات کسی خاص سبب کےباعث نازل ہوئی ہوں ۔ اور سبب بہت سے ہوں سکتے ہیں جیسے:  1   -   سوال کیا گیا  جس کا جواب اللہ تعالی نے دیا ہوگا جیسے:
﴿ يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ ۭ قُلْ ھِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ   البقرۃ:189
لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں (کی عبادت) کے وقتوں اور حج کے موسم کے لئے ہے .
 2   یا کوئی واقعہ رونما ہوا ہوگا جو محتاج بیان وتحذیر ہوگا جیسے: 
﴿ وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ  ۭ قُلْ اَبِاللّٰهِ وَاٰيٰتِهٖ وَرَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُ وْنَ     65؀﴾ التوبۃ
اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں۔
یہ آیتیں منافقین میں سے ایک شخص کےبارے میں نازل ہوئی تهي جس نے غزوۂ تبوک کے موقع پر ایک مجلس میں کچھ نازیبا اور غیر مناسب الفاظ کہے تھے .
جب وہ باتیں نبی کریم  تک پہنچی اور قرآن کریم نازل ہوگیا اوروہ شخص نبی اکرم کے پاس معذرت کے لیے آیا کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنسی مزاق بول رہے تھے،  تو آپ  نے اس آیت کے ذریعے ہی اسے جواب ارشاد فرمایا کہ:
﴿قُلْ اَبِاللّٰهِ وَاٰيٰتِهٖ وَرَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُ وْنَ     التوبۃ
کہہ دیجئے کہ اللہ اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں۔تم عذر نہ تراشو یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہوگئے .
3 -  یا کوئی ایسا فعل واقع ہو کہ جس کا حکم معلوم کرنے کی احتیاج ہو جیسے:
﴿ قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِيْ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِهَا وَتَشْـتَكِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ڰ وَاللّٰهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ     Ǻ۝المجادلۃ: 1
یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالیٰ تم دونوں کے سوال جواب سن رہا تھا۔
اسباب نزو ل کی معرفت
اسباب نزول کی معرفت بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس کے بہت سے فوائد ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:1:   اس سے بیان ہوتا ہے کہ یہ قرآن واقعی اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔کیونکہ نبی کریم  سے کسی چیز کی بابت پوچھا جاتا تو کبھی کبھار آپ  توقف فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ  پر وحی نازل نہ ہو یا پھر کوئی بات آپ  پر مخفی ہوا کرتی تھی تو وحی نازل ہوکر اسے آپ  پر بیان کردیتی تھی۔   مثلا: اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ  ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا  85؀  الاسراء
اور یہ لوگ آپ سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں، آپ جواب دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے .
صحیح البخاری میں عبداللہ بن مسعود  سے روایت ہے کہ یہود میں سے کسی شخص نے کہا:
يَا أَبَا الْقَاسِمِ، مَا الرُّوحُ ؟ فَسَكَتَ، فَقُلْتُ: إِنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، فَقُمْتُ، فَلَمَّا انْجَلَى عَنْهُ، قَالَ:
﴿ وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ  ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا  
 اے ابو القاسم (رسول اللہ  کی کنیت ہے) روح کیا ہے؟ پس آپ  خاموش ہوگئے۔ میں نے کہا کہ: آپ  پر وحی نازل ہورہی ہے ۔ میں اپنی جگہ کھڑا رہا۔ جب آپ کو نزول وحی والی کیفیت سے افاقہ ہوا تو یہ آیت تلاوت فرمائی: اور یہ لوگ آپ سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں، آپ جواب دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے .
دوسری مثال: اللہ تعالی کا یہ فرمان:
يَقُوْلُوْنَ لَىِٕنْ رَّجَعْنَآ اِلَى الْمَدِيْنَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ    ۭ Ď۝ۧ    المنافقون: 8
یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اب لوٹ کر مدینے جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا .
صحیح البخاری میں ہے کہ سیدنا زید بن ارقم  نے منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے ہوئے سناکہ وہ سب سے بڑا عزت دار ہوگا جبکہ رسول اللہ  اور آپ کے صحابہ کرام  سب سے زیادہ ذلیل ترین ہوں گے۔چناچہ سیدنا زید  نے اپنے چچا کو اس کی خبر دی اور انہوں نے نبی اکرم  کو اس کی خبر دی۔ پس رسول اللہ نے سیدنا زید  کو بلابھیجا اور آپ نے جو کچھ سنا تھا وہ بتادیا۔ پھر عبداللہ بن ابی اور ان کے ساتھیوں کی طرف کسی کو بھیجا تو انہوں نے قسم اٹھائی کہ ہم نے ایسا نہیں کہا اوررسول اللہ  نے ان کی قسم کے سبب ان کی تصدیق کی۔ پھر اللہ تعالی نے سیدنا زید کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی اور یہ معاملہ رسول اللہ ﷺ  پر کھل گیا .
  2:  اللہ تعالی اپنے رسول  کے دفاع میں یا اثبات رسالت فرمانا ،  اس کی مثال اللہ تعالی کا یہ فرمان:
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً        ڔ 32؀ الفرقان
اور کافروں نے کہا اس پر قرآن سارا کا سارا ایک ساتھ ہی کیوں نہ اتارا گیا،
تو اللہ تعالی نے جواب فرمایا کہ﴿ كَذٰلِكَ  ڔ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنٰهُ تَرْتِيْلًا    ﴾.  اسی طرح ہم نے (تھوڑا تھوڑا) کرکے اتارا تاکہ اس سے ہم آپ کا دل قوی رکھیں، ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھ سنایا ہے .
3:   آیت کا صحیح فہم حاصل ہونا۔                    اس کی مثال اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَاۗىِٕرِاللّٰهِ ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ اَنْ يَّطَّوَّفَ بِهِمَا       ۭ ١٥٨؁  البقرة
صحیح البخاری میں سیدنا عاصم بن سلیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا:
سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَقَالَ: كُنَّا نَرَى أَنَّهُمَا مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا كَانَ الْإِسْلَامُ أَمْسَكْنَا عَنْهُمَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿ اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَاۗىِٕرِاللّٰهِ ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ اَنْ يَّطَّوَّفَ بِهِمَا        میں نےسیدنا انس بن مالک  سے صفا اور مروہ کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: دراصل ہم اسے جاہلیت کے کاموں میں سے سمجھتے تھے۔ جب اسلام آیا توہم اس سے رک گئے جس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: (صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں اس لئے بیت اللہ کا حج و عمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کر لینے میں بھی کوئی گناہ نہیں .
اس سےمعلوم ہوا کہ گناہ یا حرج ہونےکی نفی کرنے سے مراد سعی کا حکم بیان کرنا نہیں تھا بلکہ اس حرج کی نفی تھی جسے وہ اپنے اندر پاتے تھے اور اسے جاہلیت کا عمل سمجھ کر رک گئےتھے۔البتہ سعی کے حکم کی جو اصل ہے وہ اللہ تعالی کے اس فرمان سے ظاہر﴿ مِنْ شَعَاىِٕرِاللّٰهِ ﴾ (البقرۃ: 158) (شعائر اللہ میں سے ہیں)۔
ایک قاعدۃ :    عموم ِلفظ اور خصوصِ سبب

اگر کوئی آیت کسی خاص سبب کی وجہ سے نازل ہوئی ہے لیکن اس کے الفاظ عام ہیں تو وہ اس سبب سمیت ان تمام باتوں کو شامل ہے جو اس لفظ کےتحت آسکتے ہیں۔ کیونکہ قرآن مجید پوری امت کےلیے ایک عام شریعت کے بطور نازل ہوا ہے ۔ لہذا اعتبار عموم لفظ کا کیا جاتا ہے ناکہ خصوص سبب کا۔
مکی یا مدنی سورتیں
آپ  نے مکہ مکرمہ میں 13 سال گزارے  اور مدینہ منورۃ میں 10 سال رہے ۔اور قرآن مجید نبی کریم پر تیئس برسوں میں وقتا فوقتا نازل ہوا ہے۔  اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَي النَّاسِ عَلٰي مُكْثٍ وَّنَزَّلْنٰهُ تَنْزِيْلًا  ١٠٦؁ الاسراء: 106
 قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے اس لئے اتارا ہے کہ آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائیں اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا 
ف:   قرآن مجید ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو دھیرے دھیرے پڑھ کر سنائیں کیونکہ ہم نے اسے حسب مواقع تھوڑا تھوڑا کر کے اسی لیے نازل کیا ہے تاکہ لوگ بالتدریج آسانی سے اس کو اپنا سکیں اور اس پر عمل کرسکیں (کبیر ج 5 ص 668)۔
اسی لیے علماء کرام نے قرآن حکیم کو دو اقسام میں تقسیم فرمایا ہے مکی اور مدنی۔
 مکی:   جو سورتیں ہجرت سے قبل نازل ہوئیں مکی کہلاتی ہیں جن کی تعداد 86 ہے  ۔
مدنی:  جو سورتیں ہجرت کے بعد نازل ہوئیں مدنی کہلاتی ہیں جن کی تعداد 28 ہیں ۔
 (جاري)

کوئی تبصرے نہیں: