تحریر: اكبر حسين اوركزئي
الحمد لله الذی أوحی الی عبدہ ما اوحی کما اوحی الی الرسل من قبله قال الله تعالی
اِنَّآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ كَمَآ اَوْحَيْنَآ اِلٰي نُوْحٍ وَّالنَّـبِيّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖ ۚ
والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين، وعلى آله وأصحابه أجمعين. اما بعد .
اِنَّآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ كَمَآ اَوْحَيْنَآ اِلٰي نُوْحٍ وَّالنَّـبِيّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖ ۚ
والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين، وعلى آله وأصحابه أجمعين. اما بعد .
جان لینا چاہئے کہ تفسیر القرآن اہم علوم میں سے ہیں ۔ جو چیز اہم ہوتی ہے تو اس کی اہمیت کو جاننے کی عرض سے اس کی شروع کرنے سے پہلے کچھ اصول بیان کی جاتی ہیں ۔ لہذا قرآن کی تفسیر شروع کرنے سے پہلے ہمارے مشائخ کا یہ طریقہ ہے کہ وہ کچھ اصول بیان کرتے ہیں تاکہ بعد میں درس کے دوران فہم القرآن کیلئے کارآمد ہوں ۔ اور اسے ہم
تعريف القرآن کریم
لغوی تعریف:مصدر قرأ يعني قرات بمعنی تلا يعني تلاوت یا پھر بمعنی جمع ۔ کہتے ہیں
قرأ قرءاً وقرآناً جیسا کہ کہتے ہیں: غفر غَفْراً وغفرانا پس پہلے معنی کے اعتبار سے "مصدر ہوگا بمعنی اسم مفعول کے یعنی "متلوّ" (جس کی تلاوت کی جاتی ہے)۔اور دوسرے معنی کے اعتبار سے جَمَعَ مصدر ہوگا بمعنی اسم فاعل یعنی جامع( جمع کرنے والا ) کیونکہ قرآن مجید اخبار واحکام کو جمع کرتا ہے:( اور جمع کے تعلق سے بمعنی اسم مفعول بھی ہوسکتا ہے یعنی مجموع کیونکہ اسے مصاحف وسینوں میں جمع وحفظ کیا جاتا ہے۔)
شرعی تعریف:
قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے جو اس نے اپنے رسول اور خاتم الانبیاء محمد ﷺ پر نازل فرمایا۔ جو سورۃ الفاتحہ سے شروع ہوتا ہے اور سورۃ الناس پر ختم ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ تَنْزِيلاً﴾ (الدھر: 23) بیشک ہم نے تجھ پر بتدریج قرآن نازل کیا ہے
اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ (یوسف: 2) یقیناً ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل فرمایا ہے کہ تم سمجھ سکو .
اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ (یوسف: 2) یقیناً ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل فرمایا ہے کہ تم سمجھ سکو .
اور اللہ تعالی نے اس قرآن عظیم کو کسی بھی قسم کے تغیرو تبدیلی، نقص یا زیادتی سے محفوظ رکھا ہے۔ کیونکہ خود اللہ عزوجل نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے، فرمایا: ﴿ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ﴾(الحجر: (
ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں.
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم جو ہمارے پاس ہے فعینہ و جنسیہ وہی ہے جس کو حضرت جبرائیل علیہ السلام اللہ کی طرف سے آپ ﷺ پر لائے تھے اس میں ایک حرف بھی کم زیادہ نہیں ہوا نہ آپ ﷺ کے عھد میں اور نہبعد میں . تفسیر حقانی 95/1
أسماء القرآن
لفظ القرآن کے لغوي و شرعي تعريف کے بعد اب اسکی اسمآء جا ن لیجئے کہ قرآن کریم کے کتنے نا م ہیں جو قرآن میں بیا ن ہوئے ہے تفسیرالنکت والعیون میں امام ابی الحسن علی بن محمد بن حبیب الما و ردی البصریؒ(المتوفی 450 ه) فرماتے ہیں ۔
(سمی اللہ القرآن فی کتابه بأربعة اسماء ۔ ۱/۲۳) اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں قرآن کو چا ر نا موں سے مسمی کیا ہے ۔ (۱) القرآن :(جس کا ذکر قرآن میں 68 دفعہ ہوا ہے ) جيسا کہ
(سمی اللہ القرآن فی کتابه بأربعة اسماء ۔ ۱/۲۳) اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں قرآن کو چا ر نا موں سے مسمی کیا ہے ۔ (۱) القرآن :(جس کا ذکر قرآن میں 68 دفعہ ہوا ہے ) جيسا کہ
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ ڰ وَاِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الْغٰفِلِيْنَ Ǽ يوسف
(2) الفرقان : (جس کا ذکر قرآن میں 4 دفعہ ہوا ہے ) جيسا کہ
تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨا Ǻۙ الفرقآن
(3) الكتاب : (جس کا ذکر قرآن میں 149 دفعہ ہوا ہے ) جيسا کہ
(3) الكتاب : (جس کا ذکر قرآن میں 149 دفعہ ہوا ہے ) جيسا کہ
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا Ǻڸ الكهف
وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ 89ۧ النحل
وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ 89ۧ النحل
(4) الذكر : (جس کا ذکر قرآن میں 14 دفعہ ہوا ہے ) جيسا کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ Ḍ الحجر
علامہ محمد بن احمد جزی الکلبی (المتوفی ۷۴۰ ھ) تسھیل فی علوم القرآن ص۵ پر فرما تے ہیں کہ قرآن کے نام یہی چا ر (قرآن۔ فرقان۔کتاب۔ذکر ،) ہیں باقی اس کے صفات ہیں ۔ شیخ الاسلام ابن تمیہ ؒ نے بھی اسماء القرآن پر الدقائق التفاسیر میں تفصیل کی ہے ۔
نزول القرآن
قرآن کریم دراصل کلام الہی ہے اور لوح محفوظ میں موجود ہے قرآن کریم کا ارشاد ہے ۔
ﭽ
بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِيْدٌ 21ۙ فِيْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ 22ۧ ﭼ البروج: (بلکہ یہ قرآن مجید ہے لوح محفوظ میں )
پھر لوح محفوظ سے اس کا نزول دو مرتبہ ہوا ہے ایک مرتبہ پورے آسمان دنیا کے بیت عزت میں نازل کر دیا گیا تھا بیت عزت (جسے البیت المعمور بھی کہتے ہیں ) کعبة اللہ کے محاذات میں آسمانوں پر فرشتوں کی عبادت گاہ ہے یہ نزول لیلۃ القدر میں ہوا تھا . پھر دوسری مرتبہ آنحضرت ﷺ پر تھوڑا تھوڑا کر کے حسب ضرورت نازل کیا جاتا رہا یہاں تک کے تیئیس سال میں اس کی تکمیل ہوئی نزول قرآن کی یہ دو صورتیں خود قرآن کریم کے انداز بیان سے بھی واضح ہیں اس کے علاوہ نسائی ؒ بیہقی ؒ اور حاکم وغیرہ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے متعدد روایتیں نقل کی ہیں جن کا خلاصہ یہی ہے کہ قرآن کریم کا پہلا نزول یکبار گی آسمان دنیا پر ہوا اور دوسرا نزول بتدریج آنحضرت ﷺ پر (اتقان 1/ 41) ۔
پھر لوح محفوظ سے اس کا نزول دو مرتبہ ہوا ہے ایک مرتبہ پورے آسمان دنیا کے بیت عزت میں نازل کر دیا گیا تھا بیت عزت (جسے البیت المعمور بھی کہتے ہیں ) کعبة اللہ کے محاذات میں آسمانوں پر فرشتوں کی عبادت گاہ ہے یہ نزول لیلۃ القدر میں ہوا تھا . پھر دوسری مرتبہ آنحضرت ﷺ پر تھوڑا تھوڑا کر کے حسب ضرورت نازل کیا جاتا رہا یہاں تک کے تیئیس سال میں اس کی تکمیل ہوئی نزول قرآن کی یہ دو صورتیں خود قرآن کریم کے انداز بیان سے بھی واضح ہیں اس کے علاوہ نسائی ؒ بیہقی ؒ اور حاکم وغیرہ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے متعدد روایتیں نقل کی ہیں جن کا خلاصہ یہی ہے کہ قرآن کریم کا پہلا نزول یکبار گی آسمان دنیا پر ہوا اور دوسرا نزول بتدریج آنحضرت ﷺ پر (اتقان 1/ 41) ۔
وحي كا مفهوم
قرآن مجیدبذریعہ وحی آپﷺ پر نازل ہوا۔ عربی زبان میں وحی کا معنی لطیف اشارہ کرنایا مخفی طور پر انتہائی سرعت کے ساتھ کسی کو کوئی بات یا پیغام بھیجنا یا دل میں کوئی بات ڈال دینے کے ہیں۔(تاج العروس ۱۰؍۳۸۵)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مخفی اور انتہائی سرعت کے ساتھ سونے جاگنے کی قید بھی لگائی ہے۔(مجموع فتاوی۱۲؍۳۹۸)
امام راغب اصفہانی نے وحی کے چار معانی اورطریقے بیان کئے ہیں:۱۔ از راہ رمز وتعریض کوئی بات کرنا۔۲۔ محض آواز کا ہونا جس میں کوئی ترکیب نہ ہو۔۳۔ کسی انسانی عضو سے اشارہ کرنا۔۴۔ کتابت۔
تمهيد : وحي جاننے سے پہلے ایک تمہید
انسان تین ذرائع میں سے کسی ایک ذریعہ سے علم حاصل کرتا ہے۔
(1) حواس خمسة يعني .
(أ ) قوت بصارت , يعني أنكهـ کسی چیز کو دیکھنے سے
(ب) قوت ذائقة . يعني منه کسی چیز چکنے سے
(جـ) قوت سماعت ، یعنی کان کسی خبر کو سننے سے
(د) قوت لامسہ ، کسی چیز کو چونے سے ،جیسے ہاتھ پاوں
(ھ) قوت شامہ ، کسی چیز کو سونگنے سے یعنی ناک
(2) عقل (3) وحی
تو ایک انسان کو حصول علم کے لیے حواس خمسہ ( آنکھ، کان، منہ ، ہاتھ پاؤں، ناک) دوسرا ذریعہ عقل اورتیسرا ذریعہ وحی ہے۔ انسان کو بہت سی باتیں اپنے حواس کے ذریعہ معلوم ہوجاتی ہیں، جبکہ بہت سی عقل کےذریعہ اور جو باتیں ان دونوں ذرائع سے معلوم نہیں ہوسکتیں ان کا علم وحی کے ذریعہ عطا کیا جاتا ہے۔
حواساور عقل کے ذریعہ حاصل شدہ علم میں غلطی کے امکان ہوتے ہیں لیکن وحی کے ذریعہ حاصل شدہ علم میںغلطی کے امکان بالکل نہیں ہوتے کیونکہ یہ علم خالق کائنات کی جانب سے انبیاء کے ذریعہ انسانوں کو پہنچتاہے۔ غرض وحی انسان کے لئے وہ اعلیٰ ترین ذریعہ علم ہے جو اسے اسکی زندگی سے متعلق ان سوالات کا جواب مہیاکرتا ہے جو عقل وحواس کے ذریعہ حل نہیں ہوسکتے۔ یعنی صرف حواس اور عقل اور مشاہدہ انسان کی رہنمائیکے لئے کافی نہیں ہے بلکہ اس کی ہدایت کے لئے وحئ الہی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ چونکہ وحی عقل اور مشاہدہسے بڑھ کر علم ہے لہذا ضروری ہے کہ وحی اور اس کے اقسام کو قرآن کی رو سے سمجھیں .
اقسام وحي
وحی بمعنی الهام : { وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ } النحل 68 اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر الہام کیا
وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓى اُمِّ مُوْسٰٓى اَنْ اَرْضِعِيْهِ ۚ القصص 7 ہم نے موسیٰ کی والدہ کی طرف الہام کیا کہ اس بچے (موسیٰ) کو دودھ پلاتی رہو .
یہ جبلت کی وحی ہے جو جانور اور انسان دونوں کو حاصل ہوتی ہے۔
وحی بمعنی اشارہ :
کسی عضو سے اشارہ کرنا۔ جیسے: فَخَرَجَ عَلٰي قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰٓى اِلَيْهِم ْ 11 مریم :۱۱)
محراب سے نکل کر انہوں (زکریا ؑ)نے اپنی قوم کو اشارہ کیا۔
کیونکہ بولنے سے منع کر دیے گئے تھے اس لئے أوحی إلیھم کا معنی ہے: ان کی طرف اشارہ کیا۔ مجاہد کہتے ہیں کہ انہوں نے زمین پر لکھ کر بات کی تھی اس لئے وحی کا لفظ لکھنے کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔
وحی بمعنی کونی امر يعني حكم :
اللہ تعالی کی طرف سے جامد چیزوں کو حکم ہونا جسے وحی کہا گیا ہے۔ جیسے:
{ يَوْمَىِٕذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَهَا Ćۙ بِاَنَّ رَبَّكَ اَوْحٰى لَهَا } (الزلزلۃ )
جس دن زمین اپنے اندر کی خبریں بیان کرے گی کیونکہ اس کے رب نے اسے حکم دیا ہو گا‘‘ اسی طرح یہ فرمانا: { وَاَوْحٰى فِيْ كُلِّ سَمَاۗءٍ اَمْرَهَا } (فصلت: ۱۲) اور (تیرے رب نے) آسمان کی طرف وحی کی۔
جس دن زمین اپنے اندر کی خبریں بیان کرے گی کیونکہ اس کے رب نے اسے حکم دیا ہو گا‘‘ اسی طرح یہ فرمانا: { وَاَوْحٰى فِيْ كُلِّ سَمَاۗءٍ اَمْرَهَا } (فصلت: ۱۲) اور (تیرے رب نے) آسمان کی طرف وحی کی۔
وحی بمعنی وسوسہ:
شیطان، انسان کے ذہن میں ایسا وسوسہ اور برا خیال لے آئے جو رگوں میں خون کی طرح تیزی سے دوڑے ۔
{ وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا ۭ
}(الأنعام :۱۱۲)
اور اسی طرح ہم نے انسانوں اور جنوں میں سے شیطانوں کو ہر نبی کا دشمن بنا لیا ہے جو فریب دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں خوشنما باتیں ڈالتے ہیں .
}(الأنعام :۱۱۲)
اور اسی طرح ہم نے انسانوں اور جنوں میں سے شیطانوں کو ہر نبی کا دشمن بنا لیا ہے جو فریب دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں خوشنما باتیں ڈالتے ہیں .
وحي كي ان چار اقسام( الھام ، اشارہ، کونی امر حکم، وسوسہ) ایک اور قسم جو وحی بمعنی پیغام الہی ہے .
وحی بمعنی پیغام الہی:
جیسا کہ نبي كريم صلى الله عليه وسلم كے بارے ميں یہ فرمانا: { فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰى 10 }(النجم :۱۰) پھر اپنے بندے کی طرف وحی کی جو کرنی تھی۔
اِنَّآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ كَمَآ اَوْحَيْنَآ اِلٰي نُوْحٍ وَّالنَّـبِيّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖ ۚ وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَعِيْسٰى وَاَيُّوْبَ وَيُوْنُسَ وَهٰرُوْنَ وَسُلَيْمٰنَ ۚ وَاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا ١٦٣ۚ النسائ 163
یہی علم کا حقیقی سرچشمہ ہے۔
شرعاً وحی کا معنی:
وہ وحی جو پیغام الٰہی کے زمرے میں آتی ہے اس کے لئے قرآن میں لفظ وحی دو انداز میں استعمال ہوا ہے۔۱۔ ایحاء :
مصدری معنی میں ۔ وحی کرنا جیسے: إنا أوحینا ’’ہم نے وحی کی‘‘ (مفردات القرآن)۔ اپنے نبی کو کسی حکم شرعی کے بارے میں آگاہ کرنا۔
۲۔ وحی :
اسم مفعول (المُوحٰی)کے معنی میں۔ وہ کلام جو وحی کیا گیا جیسے: وَوَحْیِنَا ’’ اور ہماری وحی کی مطابق‘‘ اپنے نبی پر اپنا کلام نازل فرما کر انہیں غیب کی خبروں اور شریعت کے بارے میں آگاہ کرنا۔ بظاہر اس شرعی معنی کے بھی وحی لغوی معنی سے الگ نہیں ہوتی۔ ان میں فرق صرف عام وخاص کا ہے یعنی وحی لغوی معنی میں عام ہے اور ہر مخفی چیز کی اطلاع کو شامل ہے۔ اور شرعی معنی میں وہ صرف اللہ تعالی کی انبیاء کرام کواطلاع دینے سے خاص ہے۔ ان دونوں حیثیتوں سے لفظ وحی کی متعدد صورتیں ہیں جو قرآنی آیات اور احادیث نبویہ میں درج ذیل ہیں:
شرعی وحی کی اقسام:
اللہ تعالی اپنے رسول اور نبی پر چار صورتوں میں وحی نازل فرماتا ہے۔جس کی وضاحت قرآن مجید میں یوں کی گئی ہے:
اللہ تعالی اپنے رسول اور نبی پر چار صورتوں میں وحی نازل فرماتا ہے۔جس کی وضاحت قرآن مجید میں یوں کی گئی ہے:
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَاۗئِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِاِذْنِهٖ مَا يَشَاۗءُ ۭ اِنَّهٗ عَلِيٌّ حَكِيْمٌ 51 (الشوری : ۵۱ )
کسی بشر کے لئے مناسب نہیں کہ اس سے اللہ بات کرے سوائے وحی کے یا حجاب کے پیچھے سے یا کسی فرستادہ کو بھیجے پھر جو چاہے اسی کے حکم سے وہ وحی کرے۔بلاشبہ وہ بلند تر ہے اور حکمت والا ہے۔
کسی بشر کے لئے مناسب نہیں کہ اس سے اللہ بات کرے سوائے وحی کے یا حجاب کے پیچھے سے یا کسی فرستادہ کو بھیجے پھر جو چاہے اسی کے حکم سے وہ وحی کرے۔بلاشبہ وہ بلند تر ہے اور حکمت والا ہے۔
اس آیت کریمہ میں وحی کی تین صورتیں بیان ہوئی ، تفصیل بعد میں .
لَـقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوْلَهُ الرُّءْيَا بِالْحَقِّ ۚ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ اٰمِنِيْنَ . (الفتح : ۲۷)
اللہ تعالی نے اپنے رسول کا خواب سچا کردکھایا کہ اگر اللہ نے چاہا تو تم سب ضرور مسجد حرام میں داخل ہوگے۔اس آیت کی رو سے وحی کی ایک زائد صورت واضح ہوتی ہیں وہ ہے (الرُّءْيَا) خواب .
اللہ تعالی نے اپنے رسول کا خواب سچا کردکھایا کہ اگر اللہ نے چاہا تو تم سب ضرور مسجد حرام میں داخل ہوگے۔اس آیت کی رو سے وحی کی ایک زائد صورت واضح ہوتی ہیں وہ ہے (الرُّءْيَا) خواب .
۱۔ عالم خواب میں:
یہ وحی کے ابتدائی مراحل تھے جیسا کا حدیث ام المؤمنین میں مذکور ہے: أول ما بدئ بالوحی الرؤیا الصالحۃ۔ اولاً وحی کی ابتداء آپ ﷺ پر رؤیائے صالحہ سے ہوئی۔ جو بھی آپﷺ خواب دیکھتے وہ صبح دن کی طرح روشن ہوتا۔ ان سچے خوابوں کو علماء رؤیائے صادقہ کا نام بھی دیتے ہیں۔یا بقول بعض انہیں ارہاص کہتے ہیں۔ جن کا ذکر ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا یوں کرتی ہیں:
أَوَّلُ مَا بُدِ ئَ مِنَ الْوَحْیِ الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ ، َوعِنْدَ مُسْلِمٍ: الصَّادِقَۃُ فِی النَّوْمِ فَکَانَ لاَ یَرَی رُؤْیَا إِلاَّ جَأء تْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ۔
وحی کی ابتداء اولاً نیند میں نیک یعنی سچے خوابوں(صحیح مسلم کی روایت کے مطابق ) سے ہوئی ۔آپ کوئی خواب ایسا نہ دیکھتے جو صبح کی روشنی کی طرح آپ کے سامنے واضح نہ ہوتا۔
خواب میں وحی کی یہ صورت بعد میں بھی برقرار رہی جو وحی خفی کی حیثیت اختیار کرگئے۔اور اللہ تعالی نے بھی ان کی تائید فرمائی جیسا کہ اوپر مذکورسورہ فتح کی آیت نمبر ۲۷میں بیان ہوا ہے۔ابتداء میں یہ خواب اس لئے آتے تاکہ انبیاء کے دل مانوس ہوجائیں۔ ام المؤمنین کی حدیث کی ترجمانی کرتے ہوئے علقمہ بن قیس جو سیدنا ابنؓمسعود کے شاگرد ہیں۔ فرماتے ہیں: إنَّ أَوَّلَ مَا یُؤتٰی بِہِ الأنْبِیَاءُ فِی الْمَنَامِ حَتّٰی تَہْدَأَ قُلُوْبُہُمْ ، ثُمَّ یَنْزِلُ الْوَحْیُ بَعْدُ فِی الْیَقْظَۃِ۔
انبیاء کرام سب سے پہلے خواب میں وحی دئے جاتے تھے حتی کہ ان کے دل تسکین میں آجاتے۔ پھر جاگتی حالت میں ان پر وحی نازل ہونے لگتی۔
اللہ تعالی نبی کے دل میں اپنا پیغام القاء کرتا جو یقین اور پختہ خیال کی صورت میں اس کے دل میں بیٹھ جاتا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔
مثلاً: لیٹ کربھی اگر آپ اٹھتے تو فرماتے: میں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں کی ایک فوج, یہ وحی ہوتی اور صحابہ اسے تسلیم کرتے۔ اسی لئے نبیﷺ کا خواب بھی وحی ہوتا ہے۔ایسی خوابی وحی ابراہیم علیہ السلام کو بھی آئی تھی۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
انبیاء کرام سب سے پہلے خواب میں وحی دئے جاتے تھے حتی کہ ان کے دل تسکین میں آجاتے۔ پھر جاگتی حالت میں ان پر وحی نازل ہونے لگتی۔
اللہ تعالی نبی کے دل میں اپنا پیغام القاء کرتا جو یقین اور پختہ خیال کی صورت میں اس کے دل میں بیٹھ جاتا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔
مثلاً: لیٹ کربھی اگر آپ اٹھتے تو فرماتے: میں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں کی ایک فوج, یہ وحی ہوتی اور صحابہ اسے تسلیم کرتے۔ اسی لئے نبیﷺ کا خواب بھی وحی ہوتا ہے۔ایسی خوابی وحی ابراہیم علیہ السلام کو بھی آئی تھی۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
فَلَمَّا بَلَــغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يٰبُنَيَّ اِنِّىْٓ اَرٰى فِي الْمَنَامِ اَنِّىْٓ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰى ۭ قَالَ يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ ۡ ١٠٢ الصافات
جب وہ لڑکا(اسماعیل) اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو اس نے کہا اے میرے بیٹھے ! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں تو تمہاری کیا راۓ ہے . اس نے کہا ابا جان! کر گزریے جس کا حکم آپ کو دیا جا رہا ہے .
ظاہر ہے خواب اگر وحی نہ ہوتا تو والد اپنے بیٹے کو اتنی بڑی بات نہ کہتے اور اگر بیٹے کے علم میں یہ ہوتا کہ والد صاحب کا خواب کوئی حیثیت نہیں رکھتا تو وہ فوراً یہی کہتے : اباجان! خواب کی بنیاد میں آپ مجھے ذبح کرنے چلے ہیں؟ مگر بیٹے کے علم میں تھا کہ میرے والد محترم اللہ کے رسول ہیں ۔ ان کا خواب اللہ تعالی کی طرف سے وحی ہے اس لئے جواب بھی فوراً دیا .{ يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ } اباجان آپ وہ کرڈالئے جس کا حکم آپ کو دیا گیا ہے۔ میں تیار ہوں۔
ظاہر ہے خواب اگر وحی نہ ہوتا تو والد اپنے بیٹے کو اتنی بڑی بات نہ کہتے اور اگر بیٹے کے علم میں یہ ہوتا کہ والد صاحب کا خواب کوئی حیثیت نہیں رکھتا تو وہ فوراً یہی کہتے : اباجان! خواب کی بنیاد میں آپ مجھے ذبح کرنے چلے ہیں؟ مگر بیٹے کے علم میں تھا کہ میرے والد محترم اللہ کے رسول ہیں ۔ ان کا خواب اللہ تعالی کی طرف سے وحی ہے اس لئے جواب بھی فوراً دیا .{ يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ } اباجان آپ وہ کرڈالئے جس کا حکم آپ کو دیا گیا ہے۔ میں تیار ہوں۔
یہ تو تھی خواب میں وحی کی حقیقت .
2: براہ راست وحی
خداکی طرف سے براہ راست ملنے والا علم .( وَحْيًا ) جو الہام اور القاء کی صورت میں ہوسکتا ہے .
3: پس پردہ وحی :
یہ اللہ تعالی کا اپنے خاص بندوں سے مکالمہ ہوتا ہے۔ { اَوْ مِنْ وَّرَاۗئِ حِجَابٍ }۔ جیسے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے پس پردہ اللہ تعالی ہمکلام ہوئے۔ وَكَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًا ١٦٤ۚ النساء:
یہ اللہ تعالی کا اپنے خاص بندوں سے مکالمہ ہوتا ہے۔ { اَوْ مِنْ وَّرَاۗئِ حِجَابٍ }۔ جیسے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے پس پردہ اللہ تعالی ہمکلام ہوئے۔ وَكَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًا ١٦٤ۚ النساء:
وَنَادَيْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَيْمَنِ وَقَرَّبْنٰهُ نَجِيًّا 52 مريم
اور ہم نے اسے طور کے دائیں جانب سے پکارا اور اسے سرگوشی میں قربت عطا کی۔
اس وحی میں براہ راست گفتگو ہوتی ہے جس کی صوتی لذت کا سرور رسول ہی جان سکتا ہے۔ اس لئے موسیٰ علیہ السلام جب اللہ تعالی سے ہم کلام ہوئے تو بے ساختہ پکار اٹھے
اس وحی میں براہ راست گفتگو ہوتی ہے جس کی صوتی لذت کا سرور رسول ہی جان سکتا ہے۔ اس لئے موسیٰ علیہ السلام جب اللہ تعالی سے ہم کلام ہوئے تو بے ساختہ پکار اٹھے
وَلَمَّا جَاۗءَ مُوْسٰي لِمِيْقَاتِنَا وَكَلَّمَهٗ رَبُّهٗ ۙ قَالَ رَبِّ اَرِنِيْٓ اَنْظُرْ اِلَيْكَ . الاعراف 143
اے میرے رب! مجھے دکھاکہ میں تجھے ایک نظر دیکھ سکوں۔
اسی طرح آپ ﷺ جب معراج پر تشریف لے گئے تو اللہ تعالی آپﷺ سے بھی ہم کلام ہوئے۔ پھرآپﷺ نے فرمایا: فأَوْحَی اللّٰہُ إِلَیَّ فَفَرَضَ عَلَیَّ خَمْسِیْنَ صَلَاۃً فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ۔‘‘(صحیح مسلم ۱؍۱۴۶کتاب الإیمان)
’’ اللہ تعالی نے میری طرف وحی کی اور پچاس نمازیں دن رات میں فرض کردیں .
اے میرے رب! مجھے دکھاکہ میں تجھے ایک نظر دیکھ سکوں۔
اسی طرح آپ ﷺ جب معراج پر تشریف لے گئے تو اللہ تعالی آپﷺ سے بھی ہم کلام ہوئے۔ پھرآپﷺ نے فرمایا: فأَوْحَی اللّٰہُ إِلَیَّ فَفَرَضَ عَلَیَّ خَمْسِیْنَ صَلَاۃً فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ۔‘‘(صحیح مسلم ۱؍۱۴۶کتاب الإیمان)
’’ اللہ تعالی نے میری طرف وحی کی اور پچاس نمازیں دن رات میں فرض کردیں .
اس وحی میں نبی، اللہ کا کلام سنتا ہے مگر اسے دیکھ نہیں پاتا۔یہ پس پردہ وحی ہوتی ہے۔ { اَوْ مِنْ وَّرَاۗئِ حِجَابٍ }(الشوری: ۵۱) یہ وحی کلام الٰہی کہلاتی ہے۔
4۔ وحی بذریعہ جبریل امین:
یہ وحی جلی کہلاتی ہے جو وحی کی دیگر صورتوں کے مقابلے میں آپ ﷺ پر زیادہ اتری ہے۔بالخصوص قرآن کریم وحی کی اسی صورت میں اور حالت بیداری میں نازل ہوا ہے ۔( اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا)
یہ وحی جلی کہلاتی ہے جو وحی کی دیگر صورتوں کے مقابلے میں آپ ﷺ پر زیادہ اتری ہے۔بالخصوص قرآن کریم وحی کی اسی صورت میں اور حالت بیداری میں نازل ہوا ہے ۔( اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا)
نزول وحی کی اس صورت میں رسول یا نبی کو مکمل وجدان اوریقین ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَاِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١٩٢ۭ نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ ١٩٣ۙ عَلٰي قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ ١٩٤ۙ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ ١٩٥ۭ (الشعراء: ۱۹۲۔۱۹۵)
یہ قرآن یقیناً رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ جسے روح الامین لے کر اترے ہیں۔ آپ کے دل پر تاکہ آپ خبردار کرنے والوں میں سے ہوں۔ واضح عربی زبان میں۔
یہ قرآن یقیناً رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ جسے روح الامین لے کر اترے ہیں۔ آپ کے دل پر تاکہ آپ خبردار کرنے والوں میں سے ہوں۔ واضح عربی زبان میں۔
( جاري )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں