( تحقيقى مقاله : جامعه دار تقوى لاهور )
فلٹرشدہ ناپاک پانی کاحکم آج
کے مشینی دور میں جہاں ہر ہر چیز کو کارآمد بنانے کا رجحان پایا جاتاہے،وہیں گندے
پانی کو جوہڑوں نالوں وغیرہ سے لے کراسے صاف کرکے دوبارہ قابل استعمال بنایا جاتا
ہے ۔پانی کی قلت کی وجہ سے خاص طور سے متمدن ممالک کےبڑے شہروں میں یہ کام بڑے
پیمانے پر ہوتاہے ۔پانی کی صفائی کے اس عمل کو فلٹریشن اور صاف کیے ہوئے پانی کو
فلٹرڈ یا فلٹر شدہ پانی کہاجاتا ہے۔ فلٹریشن کاطریقہ کار : فلٹریشن کے مروجہ طریقے
میں ایسے گندے پانی کو درج ذیل چار مراحل سے گذار کرصاف کیا جاتاہے :
1: پہلے مرحلے میں ایسے پانی کو ایک جگہ جمع کیا
جاتاہے تاکہ گندگی کے کثیف اجزاء نیچے بیٹھ جائیں۔
2: پھر اوپر سے قدرے صاف پانی کونکال (نتھار)
لیا جاتاہے۔
3: پھر ایسے پانی میں سے جراثیم اور بیکٹیریا کو
ختم کیا جاتاہے۔
4: چوتھے مرحلے میں اس کے اندر کلورین ملائی
جاتی ہے ،تاکہ اس میں نئے جراثیم پیدا ہونے کی صلاحیت ختم ہوجائے ۔(بحوالہ:جدید
فقہی مباحث :ص۴۸) مذكوره پانی کاشرعی حکم
: ان مراحل سے گذرنے کے بعد وہ پانی دیکھنے میں بالکل صاف ہوجاتاہے اور پہلے کی
طرح معلوم ہوتاہے۔ ان مراحل میں پانی کو صاف توکیا جاتا ہے،اس کی تطہیر(یعنی اسے
پاک کرنے ) کااہتمام نہیں کیا جاتا،اس لیے ایسا پانی صاف تو ہوجاتا ہے لیکن پاک
نہیں ہوتا ۔چنانچہ اس پانی کے ذریعے پاکی حاصل کرنا یا اسے کھانے پینے میں استعما
ل کرنا درست نہیں ،تاہم اسے جانوروں کوپلانے ،کھیتوں کوسیراب کرنے اور زمین کو
گیلا کرنے یاچھڑکاؤ کرنے کے لیے استعمال کیاجاسکتاہے۔ *فی البدائع:
وهل یجوز الانتفاع بالغسالة( من النجاسة الحقیقیة:ناقل)فیماسو ی الشرب والتطهیر من
بل الطین وسقی الدواب ونحو ذلک ؟فان کان قد تغیر طعمها اولونها اور یحها لایجوز
الانتفاع لانه لماتغیر دل ان النجس غالب فالتحق بالبول.وان لم یتغیر شیء من ذلک
یجوز لانه لمالم تتغیر دل ان النجس لم یغلب علی الطاهر والانتفاع بمالیس بنجس
العین مباح فی الجملة ۔(بدائع الصنائع:ج/۱ص
۲۰۷) *فان وقع
النجس فی الماء فان کان جاریا فان کان النجس غیرمرئی کالبول والخمر ونحوهما لاینجس
مالم یتغیر لونهاوطعمها اوریحها .ویتوضاء منه من ای موضع کان من الجانب الذی وقع
فیه النجس او من جانب آخر.........وان کانت النجاسة مرئیة کالجیفة ونحوها فان کان
جمیع الماء یجری علی الجیفة لایجوز التوضوء من اسفل الجیفة لانه نجس بیقین. والنجس
لایطهربالجریان ،وان کان اکثره یجری علی الجیفة فکذلک لان العبرة للغالب.(بدائع
الصنائع:ج/۱ص۲۱۶) *لوتنجس حوض صغیر بوقوع النجاسة فیه ثم بسط مائه حتی صار لایخلص بعضه
الی بعض فهو نجس لان المبسوط هوالماء النجس.(بدائع) *قال الرازی فی احکام القرآن
(فی سورۃ الفرقان ) ان مذهب اصحابنا ان کل ماتیقنا فیه جزءامن النجاسة اوغلب علی
الظن ذلک لایجوز الوضوء به سواء کان جاریا اولا.(البحرالرائق) *اذارسب الزبل فی
القساطل ولم یظهر اثره فالماء طاهر واذاوصل الی الحیاض فی البیوت متغیرا ونزل فی
حوض صغیر اوکبیر فهونجس،وان زال تغیره بنفسه لان الماء النجس لایطهر بتغیره بنفسه.
(ردالمحتار) مذکورہ بالاعبارات سے معلوم ہوا کہ جس پانی کا ایک دفعہ نجس ہونا
یقینی ہو: *اس کے اند ر اگر نجاست کے اثرات نظر نہ بھی آئیں تب بھی اسے پاک نہیں
سمجھا جائے گا (اگرچہ بالکلیہ نجس والامعاملہ بھی نہیں کیا جائے گا)۔ * ایسا پانی
جاری ہونے سے بھی پاک نہیں ہوگا۔ *ایسا پانی ماء کثیر کی شکل اختیار کرنے سے بھی
پاک نہیں ہوگا۔ *ایسے پانی کے اند ر سے اوصاف نجاست اگر از خود بھی زائل ہوجائیں
تب بھی اسے پاک نہیں سمجھا جائے گا۔ مذکورہ پانی کی تطہیر کا طریقہ: ایسے پانی کی
تطہیر کا طریقہ یہ ہے کہ اس کوکسی دوسرے بڑی مقدار کے پانی میں ملایا جائے(یہ ایسے
ہی ہوجائے گا جیسے زمین میں پانی کاانجذاب ہوتاہے)یادوسرے پاک پانی کے ساتھ ملاکر
بہایا جائے جس سے وہ دونوں جاری ہوجائیں ۔اس طریقے سے دونوں ہی پاک ہوجائیں گے
۔کیونکہ ایسی صور ت میں دو پانی آپس میں ملے ہیں اور طاہرپانی کے اوصاف نہیں بدلے
اس لیے سارا پانی پاک سمجھاجائے گا۔ * اناءان ماء احدهما طاهر
والآخر نجس ،فصبامن مکان عالی فاختلطا فی الهواء ثم نزلاطهر کله ولو اجری ماء
الانائین فی الارض صار بمنزلة ماء جاری.....وفی الذخیرة لواصابت الارض نجاسة فصب
علیهاالماء وجری قدر ذراع طهرت الارض والماء طاهر بمنزلة الماء الجاری....
ولواصابها المطر وجری علیها طهرت ولو کان قلیلا لم یجر فلا.(شامی) * اذارسب الزبل
فی القساطل ولم یظهر اثره فالماء طاهر واذاوصل الی الحیاض فی البیوت متغیرا ونزل
فی حوض صغیر اوکبیر فهونجس،وان زال تغیره بنفسه لان الماء النجس لایطهر بتغیره
بنفسه الااذا جری بعد ذلک بماء صافی فانه حینئذ یطهر فاذاانقطع الجریان بعد ذلک
فان کان الحوض صغیرا والزبل راسب فی اسفله تنجس مالم یصر الزبل حماٰة،فانه اذاجری
بعد ذلک بماء صافی ثم انقطع لاینجس، (شامی) ساتھ
ملائے جانے والے پاک پانی کی مقدار کیا ہو اس کے بارے میں فقہاء کی عبارات میں
کوئی تحدید نہیں صرف جاری ہونے کاذکرہے۔بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ طاہرپانی کی
مقدار کم ازکم برابر یازیادہ ہو نی چاہیے۔تاکہ ایک تواجز اء کے اعتبار سے طاہر کو
غلبہ حاصل ہو دوسر ے طبیعت کو بھی استخباث(گھن )نہ ہو۔ كچھ دیگر آراء اور ان کا
تجزیہ: مذکورہ پانی کے بارے میں یہ ہماری رائے ہے ،مفتی رشید احمد صاحب نے بھی
احسن الفتاوی جلد دہم میں اصولی طور سے یہی رائے ذکر کی ہے ۔البتہ کچھ دیگر اہل
علم کی اس بارے میں آراءمختلف ہیں ،وہ ایسے پانی پر علی الاطلاق نجاست کا حکم نہیں
لگاتے ۔ذیل میں ان حضرات کی آراء اور اس پر تبصر ہ پیش خدمت ہے۔یہ آراء جدید فقہی
مباحث ، سے لی گئی ہیں۔ فلٹریشن اور قلب ماہیت بعض حضرات نے فلٹریشن کے ذریعے صاف
شدہ پانی کو قلب ماہیت کے تحت شامل کر کے اسے پاک قراردیا ہے، کیونکہ قلب ماہیت
تطہیر کا ایک طریقہ ہے چنانچہ مولانا اختر امام عادل لکھتے ہیں: " آج کل
شہروں میں پانی کو فلٹر کرنے کا رواج عام ہے غلیظ اور گندے پانی کو بھی فلٹر کر کے
اس کے گندے عناصر کو الگ کر دیا جاتا ہے۔ اور پانی کو استعمال کیا جاتا ہے۔ انقلاب
ماہیت کے ضابطے کے مطابق اس کی گنجائش نظر آتی ہے، بشرطیکہ اس میں گندگی کے اثرات
محسوس نہ ہوں اور ابتلاء عام ہو۔ اس لیے کہ بقول امام محمد رحمہ اللہ :جب نجاست
متغیر ہوجائے اور اس کے اوصاف و معانی تبدیل ہوجائیں تو وہ نجاست باقی نہیں رہتی
اس لیے کہ نجاست ایک خاص صفت والی چیز کا نام ہے جب وہ وصف ختم ہوگا تو نجاست کا
نام بھی ختم ہو جائے گا"۔ بحوالہ بدائع بدائع کی اصل عربی عبارت ایک مسئلے کی
دلیل ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ زمین پر نجاست گرنے اور زمین کے اس کو چوس لینے کے بعد
زمین کی طہارت و نجاست کے بارے میں امام محمد و ابویوسف رحمہما اللہ کا اختلاف ہے۔
اس پس منظر میں امام محمد رحمہ اللہ کی دلیل یہ ہے: وجه قول
محمد أن النجاسة (المتشربة في الأرض)لما استحالت و تبدلت أوصافها و معانيها خرجت
عن كونها نجاسة لأنها اسم لذات موصوفة فتنعدم بانعدام الوصف و صارت كالخمر إذا
تخللت.( بدائع: 1/ ۔۔۔) خود ہی مولانا اختر صاحب
انقلاب ماہیت کے بارے میں لکھتے ہیں: واضح رہے کہ کسی چیز کا معمولی تغیر یہاں زیر
بحث نہیں ہے بلکہ ایسا غیر معمولی تغیر جس کے نتیجے میں کوئی چیز اپنا نام یا اپنے
بنیادی عناصر کا زیادہ تر حصہ یا اپنے ذاتی اوصاف کا بیشتر حصہ کھودے اور اس کی
جگہ دوسرا نام یا دوسرے اوصاف کا غلبہ ہو جائے۔(جدید فقہی مباحث: 134) لیکن اگر
غور کیا جائے تو فلٹریشن ک انقلاب ماہیت کے تحت شمار کرنا مشکل ہے کیونکہ فلٹریشن
میں تحلیل و تجزیہ ہوتا ہے کہ گندگی کے اجزاء الگ کر لیے جاتے ہیں اور صاف پانی کے
اجزاء الگ کرلیے جاتے ہیں، انقلاب اور قلب حقیقت نہیں ہوتا۔ پانی اپنی جس طبعی اور
فطری خوبی اور بنیادی اوصاف اور نام کے ساتھ ہوتا ہے انہی پر باقی رہتا ہے۔ خود اس
میں کوئی جوہر ی تبدیلی نہیں آتی۔ جبکہ قلب ماہیت میں چیز کی ذات کے اندر تبدیلی
ہوتی ہے اور وہ تبدیلی ایسی ہوتی ہے کہ جس سے اس کا نام تک بدل جاتا ہے۔ نجس اور
متنجس کا فرق: بعض حضرات نے فلٹریشن میں ایک تفصیل کی ہے۔مولانا خالد سیف اللہ
رحمانی لکھتے ہیں: " جو اشیاء بذات خود نجس نہیں بلکہ نجس ہوگئی ہیں اور
متنجس میں اگر کیمیائی عمل کے ذریعے اس کے ناپاک اجزاء کو نکال لیا جائے تو وہ شے
پاک ہوجائے گی لیکن فضلات یا جو بذات خو نجس ہیں اس لیے ان کو بعض اجزاء کو کشید
کرلیا جائے پھر بھی یہ ناپاک ہی ہوں گے کیونکہ ان کا ہر جرو اپنی ذات میں ناپاک ہے اور اس کے اجزاء تحلیل
نہیں ہوئے ہیں۔ بلکہ ان کا وجود باقی ہے صرف ان کو ایک دوسرے سےالگ کیا گیا ہے۔
دوسری جگہ لکھتے ہیں: جو شے بعینہ نجس نہ ہو بلکہ متنجس ہو اس میں سے نجس جزء کو
نکال دیا جائے تو پاک ہونے کے لیے کافی ہے اور جو شے بعینہ نجس ہے اس کے بعض اجزاء
کو نکال دینا قلب ماہیت نہیں بلکہ وہ اب بھی ناپاک باقی رہیں گے۔(جدید فقہی مباحث:
120) لیکن یہ تفصیل اور تقسیم نظریاتی طور پر یا سوچنے کی حد تک درست ہوسکتی ہے
لیکن عملی طور پر یہ تقسیم مفید نہیں۔ کیونکہ گندے نالوں اور جوہڑں کا پانی عموماً
ایسا ہوتا ہے کہ اس میں پیشاب ملا ہوتا ہے، اور جب پیشاب پانی کے ساتھ مل جاتا ہے
تو اس میں یہ ت ہوتا نہیں کہ پیشاب کا اپنا دائرہ وجود ہو اور متنجس پانی ک اپنا،
بلکہ دونوں چیزیں طبعاً سیال ہونے کی وجہ سے باہم ممتزج ہوجاتی ہیں۔ گندگی اور
فضلات کے ساتھ ملتے ہیں اور سیال مواد ایک دوسرے کے ساتھ ملتے ہیں۔اب جب اس پانی
کو کشید کیا جائے تو فضلات نکالنے کے باوجود پیشاب کے سیال اور پانی والے اجزاء
صاف پانی کے ساتھ موجود رہیں گے اور ان کا امتیاز ہونا ممکن بھی نہیں کیونکہ ان کی
طبیعت اور پانی کے اصل اجزاء کی طبیعت یکساں ہے۔ ایسی صورت میں مذکورہ تفصیل کے
باوجود بھی گندے نالوں کے پانی کو فلٹریشن کے بعد پاک کہنا ممکن نہیں ہوگا۔دوسرے
لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ تفصیل ہمارے زیر نظر مسئلے سے متعلق یا مفید
نہیں۔ فلٹریشن اور بخارات: بعض حضرات نے فلٹریشن کے ذریعے حاصل ہونے والے صاف پانی
کو بخارات کی قبیل سے قرار دیتے ہوئے پاک قرار دینے کی رائے ظاہر کی ہے۔ مولانا
برہان الدین سنھبلی ( استاذ حدیث و تفسیر ندوة العلماء) لکھتے ہیں: اگر فلٹر کرنے
یا کشید کرنے کو بخار ( یا بخار کے مشابہ) کہنا درست ہو تو اس کا حکم کتب فقہ میں
مذکور ہے، وہ یہ ہے :و مايصيب الثوب من بخارات النجاسة قيل ينجسه و
قيل لا و هو الصحيح. و أماالنوشادر المستجمع من دخان النجاسة فهو طاهر.( رد
المحتار:1/ 116) لیکن اس بات پر یہ اشکال ہے کہ فلٹریشن کو
بخارات کے مشابہ قرار دینا درست نہیں کیونکہ بخارات قلب ماہیت کی شکل ہے کہ ان میں
پانی ایک طبعی شکل سے دوسرے شکل میں بدلتا ہے حتی کہ اس کا نام بھی بدل جاتا ہے
جبکہ فلٹریشن صرف تحلیل و تجزیہ ہے، یا تنقیہ ہے تطہیر نہیں۔ پانی کی طبعی طہارت
سے استدلال: مولانا برہان الدین صاحب آگے لکھتے ہیں: "گندے پانی کو گندگی سے
الگے کردینے سے کیا پانی پاک ہو جائے گا ؟ اس کے بارے میں اگرچہ کوئی صریح جزئیہ
تو راقم کی نظر سے گذرنا یاد نہیں ہے البتہ حدیث نبوی جو سنن میں ملتی ہے"
الماء طهور لا ينجسه شيئ" کے ذیل میں بعض کبار اساتذہ حدیث کی تقاریر سے
معلوم ہوتا ہے ۔ اصل بت یہ ہے کہ پاک پانی کے اجزاء میں نجاست کے اجزاء ( پانی میں
نجاست پڑجانے سے) مخلوط ہوجاتے ہیں۔ اس طرح ناپاک پانی کے استعمال کرنے سے پانی کے
ساتھ نجاست کے اجزاء بھی مستعمل ہوجاتے ہیں، اس لیے ایسے پانی سے طہارت حاصل نہیں
ہوتی بلکہ نجاست سے تلوث کی بناء پر وہ جگہ یا چیز بھی ناااپاک ہو جاتی ہے، جہاں
یہ پانی لگ گیا ورنہ خالص پانی تو ناپاااک ہوتا ہی نہیں۔ علامہ کشمیری کی العرف
الشذی کی حسب ذیل عبارت سے یہ مستفاد ہوتا ہے:أي الماء
طهور لا يبقى نجساً أبداً بحيث لا يكون بطهارته سبيل فإن هذا التغير أقرب إلى لفظ
الحديث.اس سے یہ بھی نکلتا ہے کہ اگر پانی سے گندگی کے اجزاء نکل جائیں
یانکال دیے جائیں تو پانی پاک ہو جائے گا۔ نیز کنویں میں سے نجاست نکالنے اور اسے
پاک کرنے کے جو مسائل عام طور پر کتب فقہ میں ملتے ہیں ان میں بعض سے اس سوال کا
بھی جواب ملنے پر کچھ مدد مل سکتی ہے۔ و اللہ تعالیٰ اعلم۔ (جدید فقہی مباحث: 358)
مولانا کی اس بات کا حاصل یہ ہے کہ پانی کی اصل طبیعت اور فطرت طہارت کی ہے، اور
پانی ہر حال میں اپنی اس اصل اور فطرت پر باقی رہتا ہے، چاہے نجاست کے اثرات اس پر
غلبہ بھی کر جائیں۔ ہاں! غلبے کی صورت میں چونکہ امتزاج ہوتا ہے اور علیحدگی ممکن
نہیں ہوتی اس لیے اس پورے مجموعے (پانی +نجاست) پرنجاست ہونے کا حکم غالب کے
اعتبار سے لگایا جاتا ہے لیکن اگر وہ نجس اجزاء کسی بھی طریقے سے علیحدہ ہوجائیں
یا ختم ہو جائیں تو پانی اپنی اصل طہارت فطرت کی وجہ سے طاہر ہو جائے گا بلکہ طاہر
رہے گا۔نیز مولانا نے کنویں کے مسئلے پر بھی قیاس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کنویں والی
بات پر تو اشکال اس وجہ سے ہے کہ کنویں کا مسئلہ تعبدی اور غیر معقول المعنی ہے۔
اور اس میں پانی نکالنے کی مقدار طے ہے جس میں اپنی رائے سے کمی بیشی بھی نہیں
ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ نجاست نکالنے کے بعد کچھ ہی پانی نکالنے سے اگر پانی بالکل
صاف بھی ہو جائے تب بھی اس میں سے ڈولوں کی تعداد پوری کرنا ضروری ہے۔اور کنویں
میں صرف نجاست کے نکالنے پر اکتفا نہیں کیا جاتا، جبکہ فلٹریشن میں صرف نجاست کو
ختم کرنے پر انحصار کیا جاتا ہے پانی جوں کا توں رہتا ہے۔ چنانچہ فلٹریشن کو کنویں
( نزح البئر) پر قیاس کرنا مشکل ہے۔ اور باقی ر ہے حدیث کے الفاظ، تو ان الفاظ کو
ظاہرپر رکھنا مشکل ہے کیونکہ ظاہر پر رکھنے کا متبادر مفہوم یہ ہے کہ پانی چاہے
نجاسات سے اٹ جائے تب بھی نجس نہیں ہوتا جبکہ ایسا ہونا بدیہی طور سے غلط ہے، اس
لیے لا محالہ حدیث کا محمل دوسری صورت ہے اور وہ یہی ہے کہ جب پانی کثیر ہو اور
نجاست اتنی قلیل ہو کہ اس پر اثر انداز نہ ہو تو پھر نجاست خواہ کوئی بھی چیز ہو،
وہ پانی کو نجس نہیں کرتی۔ باقی رہا یہ مطلب کہ پانی کی اصل فطرت طہارت اور نجاست
خواہ کسی بھی طریقے سے اس کے ساتھ اور نجاست خواہ کیسی بھی ہو وہ اس کی طہوریت پر
اثر انداز نہیں ہوتی اور یہ کہ آس پاس چاہے کیسی گہری نجاست ہو پانی کے اجزاء اپنے
اندر وہی پاکی باقی رکھےرہتے ہیں یہ مفہوم اس حدیث کا نہیں اور نہ اس پس منظر میں
یہ بات ہے، اور نہ ہی کس نے اس حدیث کا یہ مفہوم لیا ہے۔ مولانا کشمیریؒ کی عبارت
کا حاصل یہ ہے کہ پانی چونکہ نجس العین نہیں بلکہ متنجس ہے اس لیے لا محالہ اس کی
تطہیر کا امکان اور احتمال باقی رہتا ہے۔ ایسا نہیں کہ جب ایک دفعہ نجس ہوگیا تو
اب ہمیشہ کے لیے نجس ہی رہے گا بلکہ اس کی تطہیر کا اگر کوئی معتبر طریقہ استعمال
کیا جائے تو باقی اشیاء متنجسہ (نجس بالعرض) کی طرح وہ پاک ہو سکتا ہے ۔ پھر اس کی
تطہیر کا طریقہ کیا ہے؟ اور یہ کہ صرف تجزیے و تتنقیے سے وہ پاک ہو جائے گا یا کچھ
اور بھی کرناپڑے گا ؟ یہ ایک علیحدہ سوال ہے جس سے علامہ کشمیریؒ کی عبارت خاموش
ہے۔ نیز مولانا سنھبلی صاحب کی یہ بات تب کار آمد ہے جب پانی میں کوئی نجس العین
سیال چیز مثلاً خون، پیشاب، شراب وغیرہ نہ ہو۔ اگر یہ اشیاء ہوں تو پھر پانی کی
اصل فطرت کی طہوریت والی بات نہیں چلے گی کیونکہ مذکورہ چیزوں کی رطوبت ( جیسا کہ
پہلے بیان ہوا) پانی ے ساتھ ملے گی تو دو رطوبتیں ( نجس العین۔ نجس العرض) اکٹھی
ہوں گی اب ان میں سے کون سی رطوبت خالص ماء کی ہے اور کون سی دوسری اشیاء کی یہ
امتیاز ممکن نہیں رہے گا۔الا یہ کہ ہر سیال چیز میں ( خواہ نجس العین ہو) خالص
رطوبت کو اصل فطری پانی کا ہی حکم دے دیا جائے۔ جو کہ مشکل ہے۔ اس لیے کہ پھر تو
ہر نجس العین سےنجس العین چیز،مثلا خون، شراب، پیشاب، سور کی لعاب وغیرہ میں سے
خالص رطوبت پاک ہونی چاہیےاوراگرتجزیہ وتنقیہ سےاس کے کثیف اجزاء الگ کرلیے جائیں
تو اسے بھی پاک ہوجانا چاہیے۔وهو بعید جدا تغیر اوصاف سے استدلال: بعض حضرات نے
فلٹریشن والے پانی کے بارے میں طہارت کا حکم اس وجہ سے لگایا ہے کہ اس میں پانی کے
اوصاف بدل جاتے ہیں۔ اور ماء کثیر میں طہارت و نجاست کا مدار اوصاف کے تغیر پر ہے۔
مولانا مصطفی عبد القدوس ندوی لکھتے ہیں: "ماء جاری اور اس کے حکم میں ماء
کثیر کے ناپاک ہونے کے بارے میں فقہاء لکھتے ہیں کہ نجاست ظاہر ہو جائے:
لو وقع بول في عصير عشر في عشر لم يفسد أي ما لم يظهر أثر النجاسة و لو سال دم
رجله مع العصير و لم يظهر في أثر الدم.( در مختار1/ 232)، یا
اس کے اوصاف ثلاثہ رنگ، بو، مزہ میں سے ایک وصف بھی ظاہر ہوجائے تو پانی ناپک ہو
جائےگا۔و بتغير أحد أوصافه من لون أو طعم أو ريح ينجس الكثير و لو جارياً
إجماعاً.(در مختار مع الرد: 1/ 232)لہذا صورت مسئولہ میں
اگر گندہ پانی جاری ہو یا ماء کثیر ہو اس سےبذریعہ فلٹریشن یا کسی مشین سے گندگی
کے عناصر اس طرح الگ کر دیے جائیں کہ اس میں نجاست نظر نہ آئے اور نہ ہی اوصاف
ثلاثہ (رنگ، بو، مزہ) میں سے کوئی وصف باقی ہو تو پانی پاک ہو جائے گا، اور اگر
ماء قلیل ہے تو بغیر قلب ماہیت کے پانی پاک نہیں ہوگا"۔(جدید فقہی مباحث:
245) مولانا کا یہ استدلال اشکال سے خالی نہیں کیونکہ مذکورہ نتیجہ دو مقدمات پر
مبنی ہے (۱) ماء جاری و کثیر کے نجس
ہونے کا مدار اوصاف کے تغیر پر ہے۔ (۲) ایسے پانی کے نجس ہو جانے کے بعد طاہر ہونے کا مدار بھی اوصاف کے
تغیر پر ہے۔ ان میں سے پہلا مقدمہ تو عبارات سے ثابت ہے اور بے غبار ہے۔ البتہ
دوسرا مقدمے کے بارے میں نہ صرف یہ کہ عبارات خاموش ہیں بلکہ اس کے خلاف تصریحات
موجود ہیں۔ ماء جاری کے بارے میں تویہ وضاحت ملتی ہے کہ اگر اس کے اوصاف متغیر
ہوگئے تو نجس ہوجائے گا اور پھراز خود اگر وہ تغیر ختم ہوگیاتو وہ طاہر ہوجائے
گا۔چنانچہ علامہ شامیؒ نے اپنے علاقے کی ایک چھوٹی نہر یا نالے کے بارے میں لکھا
ہے کہ اس میں دن کو لوگ نجاسات ڈالتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے اس کے پانی میں نجاسات
کا اثر آجاتا ہے جس کی وجہ سے یہ پانی بلاشبہ نجس باوجود جاری ہونے کے نجس
ہوجاتاہے۔ ہاں! البتہ رات میں وہ نجاسات وغیرہ نیچے بیٹھ جاتی ہیں اور اوپر کا
پانی صاف ہو جاتا ہے اس لیے اس وقت اس سے وضو کرنا درست ہے۔
وعلى هذا الخلاف ما في ديارنا من أنهار المساقط التي تجري بالنجاسات وترسب فيها
لكنها في النهار يظهرأثر النجاسة وتتغير ، ولا كلام في نجاستها حينئذ.وأما في
الليل فإنه يزول تغيرها فيجري فيها الخلاف المذكور لجريان الماء فيها فوق النجاسة
. قال في خزانة الفتاوى : ولوكان جميع بطن النهر نجسا، فإن كان الماء كثيرا لا يرى
ما تحته فهو طاهر وإلا فلا.وفي الملتقط قال بعض المشايخ : الماء طاهر وإن قل إذا
كان جاريا. خلاصہ یہ ہے کہ ماء جاری کے بارے میں تو یہ تصریح مل گئی باقی رہا
ماء راکد تو اس کے بارے میں یہ تصریح نہیں۔ کہ وہ پہلے ایک دفعہ یقینی طور سے نجس
ہو اور نجاست اس کے تمام اجزاء اور حصول میں سرایت کیے ہوئے ہو پھر اس کے اوصاف
بدل جائیں یا بدل دیے جائیں تو وہ بھی طاہر ہو جائے گا۔ بلکہ فقہاء نے اس کی بجائے
اس کے جاری کرنے کے طریقے تجویز کیے ہیں جن میں اس کو دوسرے پانی سے ملا کر بہانے کا
طریقہ بتلایا ہے۔ ایک تو ایسی تصریح نہیں ملی، دوسرے جب ماء کثیر، یا جاری کے
تھوڑی نجاست سے نجس نہ ہونے کی حقیقت پر غور کیا جائے تب بھی یہ بات سمجھ میں آتی
ہے کہ فلٹر شدہ پانی کو پاک نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ جب ماء کثیر یا ماء جاری میں
تھوڑی نجاست گرتی ہے تو اس وقت فقہاء یہ کہتے ہیں کہ اگر نجاست مرئی ہے تو اس سے
قدرے دور سے پانی استعمال کرو۔ اور اگر غیر مرئی ہے تو جہاں سے چاہیے کر لو۔ اس
اجازت کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ پانی کثیر ہے نجاست قلیل ہے۔ ظاہر ہے کہ نجاست کے
اجزاء پانی کے سارے اجزاء سے نہیں ملے ہوں گے۔ ہم پانی کے جن اجزاء کو استعمال
کریں گے ان کے بارے میں نجاست سے تلوث کا یقین نہیں بلکہ جب پانی کے اجزاء غالب
ہیں تو ظن غالب یہ ہے کہ ہم پانی کے وہ اجزاء استعمال کر رہے ہیں جو نجاست سے
متلبس نہیں ہوئے۔(اور احکام میں الغالب کا لمتيقن ہے)یہی وجہ ہے کہ جب نجاست غالب
ہو جائے تو پھر ماء کثیر اور جاری ہونے کے باوجود اجازت نہیں ہوتی جیسا کہ ابھی
شامی کا جزئیہ گذرا ہے۔ نیز بدائع میں ہے: و إن كانت
النجاسة مرئية كالجيفة و نحوها فإن كان جميع الماء يجري علي الجيفة لايجوز التوضئ
من أسفل الجيفة لأنه نجس بيقين و النجس لا يطهر بالجريان و إن كان أكثره يجري على
الجيفة فكذلك لأن العبرة للغالب. واضح رہے کہ مذکورہ جزئیہ اس
صورت میں ہے کہ جب رنگ، مزہ نہ بدلہ ہو۔ کیونکہ یہ تفصیل کہ اکثر پانی گذرتا ہے یا
اقل تب ہی معقول ہے ورنہ اگر تغیر ہو تو پھر چاہے اقل گذرے یا اکثر گذرے برابر ہے۔
بہر حال یہ سمجھنا پڑے گا کہ جب پانی کے اوصاف نہ بدلے ہوںلیکن یہ یقینی ہو کہ اس
پانی کے تمام اجزاء یا اکثر اجزاء نجاست کے ساتھ تلبس رکھے ہوئے ہیں تب بھی اس
پانی کے استعمال کی گنجائش نہیں اور یہ حکم ماء جاری میں ہے جو کہ کثیر کے لیے بھی
بمنزلہ اصل اور مقیس علیہ کے ہے۔ جب جاری میں یہ حکم ہے تو راکد میں بطریق اولیٰ
ہوگا۔اس تفصیل کی روشنی میں دیکھا جائے تو فلٹر شدہ پانی نالوں اور جوہڑوں میں
ہوتا ہے اس کے تمام اجزاء یا اکثر اجزاء نجاسات سے متلوث ہوتے ہیں اب بعد کو اگر
اس کے نجس اوصاف چلے بھی جائیں تب بھی اسے پاک نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس کے ہر
ہر یا اکثر جزء سے نجاست کے تلبس کا تحقق اور یقینی موجود ہے۔ اس وجہ سے تغیر
اوصاف والے ضابطے کے تحت لا کر فلٹر شدہ پانی کو پاک کہنا بھی اشکال سے خالی نہیں۔
فلٹریشن اور زمینی انجذاب: بعض حضرات نے واٹر فلٹریشن کے حوالے سے یہ نکتہ اٹھایا
ہے کہ زمین کی فلٹریشن قبول اور معتبر ہے تو مصنوعی فلٹریشن کیوں قابل قبول نہیں؟
اس سوال کا جواب دینے سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ زمینی فلٹریشن سے کیا
مراد ہے؟ جب پانی زمین پر پڑتا ہے تو زمین اس کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔ اگر
پانی زیادہ مقدار میں ہو وہ زمین کے نیچے سےنیچے چلا جاتا ہے۔ پھر وہاں کنوؤں یا
نلکوں اور موٹروں کے واسطے سے دوبارہ واپس نکالا جاتا ہے۔ اب اگر ایک پانی نجس ہو
اور وہ زمین میں جذب ہو جائے، تو کیا اس پانی کو نیچے سے نکال کر استعمال کیا
جاسکتا ہے یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ جواب اثبات میں ہے۔ واٹر فلٹریشن میں بھی یہی ہوتا
ہے کہ پانی الگ ہو جاتا ہے اور متلوثات الگ کرلیے جاتے ہیں۔ جب ایک جگہ قابل قبول
ہے تو دوسری جگہ کیوں نہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اول تو زمین کا عمل ایک فطری
عمل ہےاور فلٹریشن مصنوعی طریقہ ہےجسے فطری عمل پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرے
یہاں فارق موجود ہے وہ یہ ہے کہ زمین میں جذب ہونے والا پانی بعینہ(یعنی صرف وہی
پانی)واپس نہیں آتا بلکہ وہ پانی نیچےجاکر اپنےسے کئی گناہ زیادہ پانی میں مل جاتا
ہے۔ اور اس پانی کے مقابلے میں اس نجس پانی کی حیثیت معدوم کی سی ہوتی ہے۔اس کوایسےسمجھاجائےجیسے
نہت بڑے تالاب میں ایک بالٹی نجس پانی کی ڈالی جائے، یا جیسے سمندر میں نجس چیز
ڈالی جائے۔ ظاہر جب تک نجس اس پر اوصاف کے اعتبار سے غالب نہیں آئے گا اس کا
اعتبار نہیں ہوگا۔جبکہ فلٹریشن میں ایسا نہیں ہوتا، بلکہ صرف وہی محدود پانی صاف
کیا جاتا ہے۔ حاصل بحث: اب تک کی تفصیل کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی کہ نالوں
وغیرہ کے فلٹر شدہ پانی کے بارے میں بنیادی طور پر دو رائے ہیں: پہلی یہ ہے کہ یہ
پانی ناپاک ہے جس سے نہ طہارت حاصل ہوسکتی ہے اور نہ کھانے پینے میں استعمال
ہوسکتا ہے ،البتہ بدائع کے جزئیے کے مطابق پودوں کو دینے یا جانوروں کو پلانے کی
گنجائش ہے۔ اور دوسری رائے یہ ہے کہ یہ پانی پاک ہے۔پھراس دوسری رائے کے قائلین
میں سے بعض حضرات صرف طہارت کے قائل ہیں، طہوریت کے نہیں، کیونکہ یہ ماء مستعمل
ہے۔ اور بعض طہارت اور طہوریت دونوں کے قائل ہیں۔اپنے موقف پر استدلال کے حوالے سے
،عدم طہارت قائلین تو اصل سے متمسک ہیں، کہ ایک دفعہ اس پانی کا نجس ہونا مسلم اور
یقینی تھا، اس کے بعد کوئی قابل اعتبار تطہیر کا سبب نہیں پایا گیا۔ لہذا وہ اصل
پر باقی رہتے ہوئے نجس رہے گا،جبکہ طہارت کے قائلین نے درج ذیل مختلف طریقوں سے
استدلال کیا ہے: • قلب
ماہیت۔ • پانی
کی اصل فطرت طہارت ہے، لہذا قلب ماہیت نہ سہی تحلیل و تجزیہ کا طریقہ کار آمد ہے۔ • بخارات بن کراڑنےوالے پانی پر قیاس۔ • کنویں پر قیاس۔ • تغیر اوصاف پر مدار۔ • زمینی انجذاب پر قیاس۔ ہمارے خیال میں ان
وجوہات میں کوئی وجہ بھی اشکال سے خالی نہیں۔ اور اس مسئلے میں ایسا اضطرار اور
مجبوری بھی نہیں کہ بعید احتمالات کا سہارا لیا جائے۔ نیز فطرت سلیمہ ( بشرط علم)
ایسے پانی سے استعمال سے اباء اور اس کے ساتھ استخباث کا مظاہرہ کرتی ہے۔ لہذا
ایسے پانی کو انسانی ضروریات مثلاً کھانے پینے، اور طہارت میں استعمال نہیں کیا
جاسکتا ہے۔ ہاں! ایسے پانی کو جانوروں کو پلانے ، کھیتوں کو سیراب کرنے یا چھڑکاؤ
کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
( دار
الافتاء و التحقيق , جامعه دار تقوى لاهور
)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں