سوال :
بعض لوگ بدعات کی تقسیم کرتے ہیں کہ کچھ بدعتیں حسنہ اور کچھ سیئہ ہوتی ہیں، اچھی بدعت قابل قبول ہے اور بری بدعت قابل رد ہے، کیا شرعی طور پر ایسی تقسیم درست ہے؟ ( ح ۔ م لاہور )
الجواب بعون الوھاب
الحمد للہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ اما بعد !
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ اور آثار صحابہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعی طور پر جو بھی بدعت ہوگی وہ گمراہی اورضلالت ہی ہوگی اور جہنم کی طرف لے جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ مبارکہ میں یہ الفاظ مروی ہیں :
(( اِنَّ اَصْدَقَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہِ وَ اَحْسَنَ الْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍ وَ شَرُّ الْاُمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا وَکَلُّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَ کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ ))
[صحیح ابن خزیمۃ (۳/۱۴۳، ح : ۱۷۸۵)]
’’بے شک سب سے سچی حدیث اللہ کی کتاب ہے اور سب سے بہتر سیرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی سیرت ہے اور تمام کاموں میں سے بدترین کام وہ ہیں جو نئے ایجاد کیے جائیں اور ہر نیا ایجاد کردہ کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں لے جانے والی ہے۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث نے فیصلہ کر دیا کہ ہر نو ایجاد کردہ کام بدعت و گمراہی ہے اور بخاری (۲۶۹۷) اور مسلم (۱۷۱۸) میں حدیث ہے:
’’جس نے ہمارے دین میں ایسا کام ایجاد کیا جو دین میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘
لہٰذا بعض نو ایجاد کردہ کاموں کو حسن کا لبادہ پہنا کر دین شمار کرنا جائز نہیں ہے، عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں الفاظ ہیں:
(( کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَ اِنْ رَأَھَا النَّاسُ حَسَنَۃً )) [الابانۃ لابن بطہ (۱/۹۲)، السنۃ للمروزی (ص۲۹)، المدخل للبیہیقی (۱/۱۸۰)، إعتقاد أہل السنۃ للاکلائی (۱/۹۲)]
’’ہر بدعت گمراہی ہے، اگرچہ لوگ اسے اچھا سمجھیں۔‘‘
اس اثر کی سند بالکل صحیح ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی اس اثر نے تو بدعت حسنہ کو جڑ سے اکھاڑ دیا ہے۔ بہر کیف کتاب و سنت کی رو سے جو چیز دین میں نئی داخل کی جائے اور وہ دین میں سے نہ ہو وہ بدعت اور گمراہی ہے، اگرچہ لوگ اسے اچھا سمجھتے ہوں اور ایسی اشیاء جہنم میں لے جانے کا باعث بنتی ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں