پیر، 31 اکتوبر، 2016

قضائے حاجت کے شرعی احکام


از: مفتی محمد راشد ڈسکوی‏،  استاذ جامعہ فاروقیہ، کراچی


          جی ہاں ، کیوں نہیں!! ”ہمارے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سب کچھ ہی سکھلایا ہے، اور استنجے سے متعلق بھی ضروری ہدایات دی ہیں“۔یہ تاریخی کلمات حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ان مشرکین کے جواب میں ارشاد فرمائے تھے جو بطورِ استہزاء اور طنز کہہ رہے تھے کہ ”تمہارے نبی تو تمہیں پیشاب پاخانہ کرنے کے طریقے بھی سکھاتے ہیں!“
          حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے مزید یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ہمیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ پاخانہ یا پیشاب کے وقت ہم قبلہ کی طرف رُخ کریں یا یہ کہ ہم داہنے ہاتھ سے استنجا کریں، یا یہ کہ ہم استنجے میں تین پتھرون سے کم استعمال کریں، یا یہ کہ ہم کسی چوپائے (اونٹ، گھوڑے یا بیل وغیرہ ) کے فضلے(گوبر اور لید وغیرہ) یا ہڈی سے استنجا کریں۔
          (صحیح مسلم، کتاب الطھارة، باب الاستطابة، رقم الحدیث:۲۶۲،بیت الأفکار)
حدیثِ مبارکہ سے مستفاد امور
          علامہ طیبی  اس حدیث کے ضمن میں لکھتے ہیں، کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے حکمت سے بھر پورجواب دیا، آپ نے اس کے استہزاء کی کوئی پروا نہ کی اورایسا جواب دیا جو ایک شیخ اپنے مرید کی راہنمائی کرتے ہوئے دیتا ہے، یعنی : اس استہزاء کرنے والے کو یہ فرمایا کہ ”یہ کوئی قابل استہزاء بات نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک اٹل حقیقت اور قابلِ اعزاز بات ہے،اور جب ایسا ہے تو تم پر لازم ہے کہ ہٹ دھرمی چھوڑو اور صراط مستقیم کو اختیار کرو، یہ صراطِ مستقیم تمہارے باطن اور ظاہر کو پلیدگیوں اور نجاستوں سے پاک کر دے گا“۔(فتح الملہم، کتاب الطھارہ، باب الاستطابة،۲/۱۱۵، مکتبہ دار العلوم کراچی)
          مندرجہ بالا حدیث ِ مبارکہ میں پیشاب پاخانہ کرنے سے متعلق چار ہدایات ارشاد فرمائی ہیں:
قضائے حاجت کے وقت کس طرف منہ کیا جائے؟
          (۱ )     قضائے حاجت کے وقت اس طرح بیٹھا جائے کہ قبلے کی طرف نہ منہ ہو اور نہ ہی پیٹھ۔ یہ حکم قبلہ کے ادب و احترام اور تقدس کی خاطر تھا کہ کوئی بھی ذی شعور انسان جو لطیف اور روحانی حقیقتوں کا ادراک کرنے والا ہو وہ اس موقعہ پر کسی مقدس اور محترم چیز کی طرف منہ یا پشت کرنے کو بے ادبی شمار کرتے ہوئے اس طرز کے اپنانے سے گریز کرے گا۔
استنجاء کس ہاتھ سے کیا جائے؟
          (۲)      دوسری ہدایت یہ دی گئی کہ اس عمل کے لیے اپنا دایاں ہاتھ استعمال نہ کیا جائے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر فوقیت دی ہے، اس ہاتھ کو اعلی،محترم ، مقدس، صاف ستھرے اور نفیس کاموں کے لیے تو استعمال کیاجا سکتا ہے ،گھٹیا اور رذیل کاموں کے لیے نہیں؛ چناں چہ ! دائیں ہاتھ کے شرف و احترام کی وجہ سے استنجا کرتے ہوئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔
کتنے ڈھیلوں سے استنجاء کیا جائے؟ 
          (۳)     تیسری ہدایت یہ کی گئی ہے کہ استنجے کے لیے کم از کم تین ڈھیلوں کو استعمال کیا جائے، اس کی وجہ یہ تھی کہ عام طور پر صفائی تین پتھروں سے کم میں پوری طرح نہیں ہوتی؛اس لیے حکم دیا گیا کہ تین پتھر استعمال کر کے اچھی طرح اور مکمل صفائی کی جائے؛چناں چہ اگر کسی شخص کی صفائی تین پتھروں سے حاصل نہ ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ تین سے زائد پتھر استعمال کرے تاکہ کامل صفائی ہو جائے۔نیز حدیثِ مذکور میں پتھر کا ذکر کیا گیا ہے، یہ اس زمانے میں ملنے والی عام چیز کی وجہ سے تھا، موجودہ دور میں شہروں میں بنے ہوئے پختہ بیت الخلاء میں ٹوائلٹ پیپر استعمال کیا جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں؛اسی طرح ہر وہ پاک چیز جس سے صفائی کا مقصد حاصل ہو سکتاہو اور اس کا استعمال اس کام کے لیے موضوع بھی ہو اور جسم کے لیے نقصان دہ بھی نہ ہو۔
جانوروں کے فضلات سے استنجاء کرنے کا حکم
          (۴)     چوتھی ہدایت یہ دی گئی ہے کہ استنجا کے لیے کسی جانور کی گری پڑی ہڈی یا ان کے فضلے (لید، گوبر وغیرہ)کو استعمال نہ کیا جائے، دراصل اس طرح زمانہٴ جاہلیت میں کر لیا جاتا تھا؛ حالانکہ یہ فطرتِ سلیمہ کے خلاف ہے۔احادیثِ مبارکہ میں متفرق طور پر قضائے حاجت سے متعلق بہت سے احکامات مذکور ہیں ، نیز! فقہاء کرام نے ان احادیث کی روشنی میں بہت سے مسائل کتب ِ فقہ میں ذکر کیے ہیں، ذیل میں قضائے حاجت سے متعلق مختلف اہم مسائل نقل کیے جاتے ہیں؛ تاکہ ہم اپنا یہ عمل بھی شریعت کے مطابق انجام دے سکیں۔
 قضائے حاجت سے قبل کی مسنون دعا
          حضر ت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”حاجت کے ان مقامات میں خبیث مخلوق شیاطین وغیرہ رہتے ہیں، پس تم میں سے جب کوئی بیت الخلاء جائے تو چاہیے کہ پہلے یہ دعا پڑھے، أَعُوْذُ بِاللّہِ مِنَ الْخُبُثِ وَ الْخَبائِثِ“(ترجمہ: میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں خبیث جنوں اور خبیث جنّیوں سے۔
          (سنن أبي داوٴد، کتاب الطھارة، باب ما یقول الرجل إذا دخل الخلاء، رقم الحدیث: ۶،۱/۳،دار ابن الحزم)
           اس دعا کی برکت سے انسان شریر جنات کے اثرات سے محفوظ ہو جاتا ہے؛ کیوں کہ یہ گندی جگہیں جنات و شیاطین کا مسکن ہوتی ہیں اور یہ مخلوق ان جگہوں پر آکر فراغت حاصل کرنے والوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتی ہے؛ اسی لیے سرکارِدو عالم  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس بات کی تعلیم دی گئی کہ جب تم قضائے حاجت کے لیے ایسی جگہوں پر جاوٴ تو ان کے شرور سے بچنے کے لیے اللہ کی پنا میں آ جایا کرو؛چناں چہ روایات میں آتا ہے کہ اس دعا کے پڑھنے والا شریر جن اورشریر جنّیوں کے اثرات سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
قضائے حاجت کے بعد کی دعا
           حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جناب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی قضائے حاجت سے فارغ ہوتے تو ”غُفْرَانَکَ“ کہتے تھے(ترجمہ: اے اللہ میں تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتا ہوں۔
          (السننالکبریٰ للنسائي، کتاب الطھارة، ما یقول إذا خرج من الخلاء، رقم الحدیث: ۹۸۲۵، موٴسسة الرسالة)
          ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت سے فارغ ہوتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَذْھَبَ عَنِّيْ الْأَذیٰ وعَافَانِيْ“ (سنن کبریٰ ۹۸۲۵) ترجمہ: تمام تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، جس نے مجھ سے گندگی دور کی اور مجھے تکلیف سے عافیت دی۔ یہ دعا بڑی اہمیت کی حامل ہے؛ اس لیے کہ انسان جو کچھ بھی کھاتا ہے ، اس کا ایک حصہ جسم کے لیے تقویت کا باعث بنتا ہے، اور ایک حصہ بہ طورِ فضلہ جسم سے خارج ہو جاتا ہے، اس غذا کا جسم سے خارج ہونا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے،اگر یہ فُضلہ جسم سے نہ نکلے توانسان بیماریوں میں مبتلا ہوجائے،اس دعا میں اللہ کی اس نعمت پر شکر ادا کرنا ہے، کہ اس نے ہمیں اس گندگی سے نجات دی،اس کو ”أَذْھَبَ عَنِّيْ الْأَذی“سے تعبیر کیا،اسی کے مناسب ”غُفْرانَکَ“ کے ساتھ کی جانے والی دعا ہے ، حکمت اور مقصد اس دعا کا یہ ہے کہ اے اللہ جیسے تو نے میرے جسم سے زائد فضلات کو دور کر کے مجھے گندگی سے نجات عطا فرمائی اور مجھے عافیت جیسی عظیم نعمت نصیب فرمائی ، ایسے ہی تو میرے باطن کو صاف فرمادے اور میرے گناہوں کی مغفرت فرما۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے ہم پر ایک اور انعام کیا کہ اس نے جسم سے ساری کی ساری غذا نہیں نکال دی، اگر ایسا ہو جاتا تو ہم زندہ ہی نہ رہتے، اس نعمت کے شکر کو وعَافَانِيْ“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
          فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ ان دونوں دعاوٴں غُفْرَانَکَ“ اور ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَذْھَبَ عَنِّيْ الْأَذیٰ وعَافَانِيْ کو جمع کر کے پڑھا جائے؛البتہ اگر کسی کو دوسری دعا نہ آتی ہو تو پھر صرف ”غُفْرَانَکَ“ پڑھ لے۔
بیت الخلاء اور غسل خانہ اکٹھا ہونے کی صورت میں دعائیں کس جگہ پڑھی جائیں؟
          آج کل گھروں میں باتھ روم ،حمام ، واش بیسن وغیرہ اکٹھے بنے ہوتے ہیں، اس صورت میں جب قضائے حاجت کے لیے ان جگہوں میں داخل ہو تو غسل خانے میں داخل ہونے سے پہلے دعا پڑھے، اور جب فارغ ہو کر کے نکلے تو نکلنے کے بعد دعا پڑھے۔
          نیز! اگر قضائے حاجت کسی میدان ، جنگل یا صحراء وغیرہ میں کرنی پڑے تو اس صورت میں قضائے حاجت سے پہلے پڑھی جانے والی دعا ستر کھولنے سے قبل پڑھے اور قضائے حاجت کے بعد پڑھی جانے والی دعا ستر چھپالینے کے بعد پڑھے۔
          (ردالمحتار،کتاب الطھارة، مطلب: في دلالة المفھوم، ۱/۲۲۷، دار عالم الکتب)
          اسی کی طرف حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں بھی اشارہ موجود ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعا کے پڑھنے کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ”جب تم بیت الخلاء میں داخل ہو، یا داخل ہونے کا ارادہ کرو تو یہ دعا پڑھ لو(السنن الکبریٰ للنسائي، کتاب الطھارة، ما یقول إذا دخل في الخلاء، رقم الحدیث: ۹۸۲۳، ۹/۳۵،موٴسسة الرسالة)
          البتہ! اس جگہ ایک بات پیش نظر رہنی چاہییے کہ اوپر ذکر کردہ لفظِ ”بیت الخلاء“سے مراد زمانہ ماضی کے وہ بیت الخلاء ہیں ،جہاں قضائے حاجت کر لینے کے بعد گندگی ونجاست پڑی رہتی تھی، بعدمیں اسے اکٹھا کر کے دور جنگل وغیرہ میں جا کر پھینکا جاتا تھا، موجودہ دور کے پختہ اور سنگ مر مر کے بنے ہوئے بیت الخلاء اس مفہوم سے بالا تر ہیں، پس اگراس قسم کے بیت الخلاء میں گندگی وغیرہ پھیلی ہوئی نہ ہو تواس میں دعا ستر کھولنے سے قبل پڑلی جائے، اس کی بھی گنجائش ہے؛ کیوں کہ ان بیت الخلاوٴں میں دعا پڑھنے کی صورت میں وہ خرابی نہیں ہے جو گندگی والے بیت الخلاء میں لازم آتی تھی؛لیکن اس صورت میں بھی بہتر یہی ہے کہ دعا بیت الخلاء سے باہر پڑھ کے داخل ہوا جائے۔
 بیت الخلاء میں زبان سے کلمہ پڑھنے اور قرآنِ پاک کی تلاوت کا حکم:
          بیت الخلاء میں زبان سے کلمہ پڑھنا ،کوئی ذکر کرنا ،قرآنِ پاک کی تلاوت کرنا یا اندر جاکر مسنون دعاپڑھناجائزنہیں؛البتہ دل ہی دل میں ذکر کرنایا چھینک وغیرہ کے جواب میں دل میں ہی ”الحمد للہ“ کہنا جائز ہے۔
          (الفتاوی العالمگیریہ، کتاب الطھارة، الفصل الثالث في الاستنجاء: ۱/۵۰، رشیدیہ)
بیت الخلاء میں لفظِ ”اللہ “ اور حروفِ مقطعات والی انگوٹھی یا لاکٹ پہن کے جانے کا حکم
          بیت الخلاء میں ایسی انگوٹھی یا لاکٹ پہن کے جانا ،جس پر لفظِ اللہ یا حروفِ مقطعات لکھے ہوں جائز نہیں ہے، ایسی انگوٹھی یا لاکٹ باہر رکھ کے پھر داخل ہونا چاہیے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تھے تو اپنی انگوٹھی اتار کر باہر ہی رکھ دیتے تھے۔
          (سنن أبي داوٴد، کتاب الطھارة، باب ما یقول الرجل إذا دخل الخلاء، رقم الحدیث: ۶، ۱/۳،دار ابن الحزم)
          اگر یہ چیزیں کسی چیز میں لپٹی ہوئی ہوں یا جیب میں ہوں یا لاکٹ گریبان میں قمیص کے نیچے چھپا ہوا ہو توان کے ساتھ بیت الخلاء میں جانے کی گنجائش ہے ؛لیکن بہتر پھر بھی یہی ہے کہ یہ اشیاء باہر رکھ کے اندر جائیں۔
کن چیزوں سے استنجاء کرنا جائز ہے اور کن سے ناجائز؟
          کاغذ،کھانے کی چیز،گوشت، درخت کے پتوں ،نجس اشیاء ، ہڈی، لید، گوبر، شیشہ، پختہ اینٹ، کوئلہ،ٹھیکری، بال اور اسی طرح دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنا جائز نہیں، اس کے علاوہ ہرایسی چیز جوقابلِ احترام نہ ہو، خوراک نہ ہو، جسم کے لیے نقصان دہ بھی نہ ہواور قیمتی بھی نہ ہو تو اس سے استنجا کرنا جائز ہے۔
          (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیة)
 ڈھیلوں سے استنجاء کرنے کا حکم
          اگر کوئی شخص پانی سے استنجاء کرنے کے بجائے صرف ڈھیلوں سے استنجاء کرنا چاہے تو اس سلسلے میں تفصیل یہ ہے کہ اگرنجاست مخرج سے تجاوز کرجائے اور زائد کی مقدار ایک درہم سے زائد نہ ہو، تو بغیر دھوئے صرف ڈھیلے کے استعمال کرنے سے طہارت حاصل ہو جائے گی۔
          لیکن مخرج سے تجاوز کرنے والی نجاست اگر درہم کی مقدار سے زائد ہو تو اسے بلا عُذر دھوئے بغیر چھوڑدینا اور اسی طرح نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے اور اگر بقدرِ درہم یا اس سے کم ہو تو مکروہِ تنزیہی ہے۔
          (رد المحتار: کتاب الطھارة، باب الأنجاس:۱/۵۲۲، دار عالم الکتب)
دیر تک قطرے آنے والوں کے لیے طہارت کا طریقہ
          اگر پیشاب کرنے کے بعد کسی کو قطرے آنے کا مرض ہو تو اسے چاہیے کہ پہلے ڈھیلے یا ٹوائلٹ پیپر سے اچھی طرح خشک کر لے،حتی کہ پیشاب کی نالی کو خالی کرنے کی اپنی مقدور بھر کوشش کر لے ، اس کے بعدپانی سے استنجاء کرے۔
          (ردالمحتار، کتاب الطھارة، باب الأنجاس، مطلب في الفرق بین الاستبراء والاستسقاء والاستنجاء:۱/۵۵۸، دارعالم الکتب)
پردے کی عدم موجودگی میں صرف ڈھیلوں کے استعمال کا حکم
          اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ ہو جہاں پردے کے ساتھ استنجاء کرنا ممکن نہ ہو تو وہاں قضائے حاجت کے بعد صرف ڈھیلوں یا ٹوائلٹ پیپر کے ساتھ استنجاء کرنے پر اکتفاء کرے، ایسی جگہ پر دوسروں کے سامنے ستر کھول کر پانی سے استنجاء کرنا جائز نہیں۔
          (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیة)
شلّ ہاتھ والا استنجاء کیسے کرے؟
          اگر کسی شخص کا بایاں ہاتھ شل ہو اور وہ اپنے بائیں ہاتھ سے استنجاء کرنے پر قادر نہ ہو؛ تو دائیں ہاتھ سے استنجاء کرے اور اگر دایاں ہاتھ بھی شل ہو تو پھر ایسے شخص کے لیے حکم یہ ہے کہ کوئی دوسرا شخص (اپنی نظروں کی حفاظت کرتے ہوئے) پانی ڈالے اور اگر کوئی ایسا شخص بھی نہ ہو تو ایسے شخص سے استنجاء معاف ہے۔
          (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیة)
مریض آدمی کے لیے استنجاء کا حکم
          ایسا مریض جو وضو کرنے پر قادر نہ ہو؛لیکن اس کی بیوی موجود ہو تو وہ اسے استنجاء اور وضو کرائے اوراگر اس کی بیوی نہ ہو؛ لیکن بیٹا یا بھائی موجود ہو تواس کا بیٹا یا بھائی اس مریض کو وضو کرائے۔ اسی طرح کوئی عورت مریضہ ہواور اس کا شوہر بھی ہو تو اس کا شوہر اپنی بیوی کو بوقت ضرورت وضو بھی کروائے گا اور استنجاء بھی کروائے گااور اگر اس کا شوہر نہ ہو؛ لیکن اس کی بیٹی یا بہن موجود ہوں تو وہ وضو کرائیں۔
          (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیة)
قضائے حاجت کے وقت باتیں کرنااور ایک دوسرے کے ستر کو دیکھنا
          حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”دو آدمی قضاء حاجت کرتے ہوئے آپس میں باتیں نہ کریں کہ دونوں ایک دوسرے کے ستر کو دیکھ رہے ہوں؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر ناراض ہوتے ہیں“۔
          (سنن ابن ماجة، کتاب الطھارة، باب النھي عن الاجتماع علیٰ الخلاء والحدیث عندہ، رقم الحدیث:۳۴۲، ۱/۷۸،مکتبة المعارف،الریاض)
           انسانی شرافت سے بہت دور اور بڑی بد تہذیی کی بات ہے کہ دو افراد ننگے ہو کر ایک دوسرے کے سامنے اپنی حاجت سے فارغ ہوں اور اس سے بھی بڑی بے حیائی یہ ہے کہ اس دوران وہ دونوں آپس میں بات چیت بھی کرتے رہیں،یہ امر شرعاً جائز نہیں ہے۔
ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کا حکم
          اگر کسی جگہ پانی کھڑا ہو تو اس میں پیشاب کرنا جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس پانی کو بہت سے کاموں میں استعمال کیا جانا ممکن ہے، حدیث پاک میں آتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے“۔ (سنن ابن ماجة، کتاب الطھارة، باب النھي عن البول في الماء الراکد، رقم الحدیث:۳۴۴، ۱/ ۷۸،مکتبة المعارف، الریاض)
کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کا حکم
          آج کل جدید تہذیب کے دلدادے، مغربیت کی تقلید میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کو جدیدیت ، تہذیب اور اسلوب زندگی شمار کرتے ہیں، اس عمل کے لیے نہ بیٹھنے کو ضروری خیال کرتے ہیں اور نہ ہی پانی سے استنجاء کرنے کو کوئی اہمیت دیتے ہیں، اب تو باقاعدہ ہر جگہ پیشاب کے لیے دیواروں میں ایسی جگہیں بنائی جاتی ہیں، جہاں کھڑے ہو کر پیشاب کرنا ممکن ہوتا ہے، اور ایسے بیت الخلاء ائیرپورٹ، ریلوے اسٹیشن، رُوٹ کی بڑی بسوں کے اڈوں اور سعودیہ میں حاجیوں کے لیے تیار کی جانے والی رہائش گاہوں میں تیار کیے گئے ہوتے ہیں؛حالاں کہ کھڑے ہو کر استنجا کرنا شرعاً ممنوع ہے، اس فعل کے مرتکب اپنے کپڑوں کو بھی پاک نہیں رکھ سکتے اور اپنے بدن کو بھی نہیں۔
          حضرت عمر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار (ابتدائے اسلام میں جب مجھے مسئلے کا علم نہیں تھا)مجھے کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہوئے دیکھ لیا، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے عمر! کھڑے ہو کر پیشاب مت کر“، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے (کبھی) کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا۔ (سنن ابن ماجة، کتاب الطھارة، باب في البول قاعداً، رقم الحدیث:۳۰۸، ۱/۱۹۶،)
          درحقیقت یہ دشمنانِ اسلام کی سازش ہے ، کہ مسلمانوں کو ان کے پیغمبر علیہ السلام کی مبارک سنتوں سے اتنا دورکر دیا جائے کہ وہ اپنے ہی مسلم معاشرے میں اپنے نبی کی اتباع میں عار محسوس کریں۔
           ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود اپنی ذات سنت طریقے کے مطابق کرلیں، اور اپنی اولاد بالخصوص نابالغ اولادکی نگرانی کریں، کہ کہیں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی عادی تو نہیں بن رہی ہیں یا وہ پیشاب کرنے کے بعد استنجا لیتی ہے یا نہیں؟! اور اگر ایسا محسوس ہو تو فوراً مناسب تنبیہ کریں۔
پیشاب کی چھینٹوں سے نہ بچنے کا وبال
          کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی صورت میں کپڑوں پر یا بدن پر چھینٹوں کا گرنا ایک یقینی امر ہے، دیکھنے کے اعتبار سے تو یہ چھوٹا اور معمولی عمل ہے؛ لیکن جزا کے اعتبار سے پیشاب کی چھینٹوں سے اپنے آپ کو نہ بچانا بہت بڑے وبال کا سبب ہے۔
          حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک بار نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گذرے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور ان دونوں کو عذاب کوئی بڑے بڑے اور مشکل کاموں کی وجہ سے نہیں ہو رہا؛ بلکہ ان میں سے ایک کو پیشاب کی چھینٹوں سے نہ بچنے کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے اور دوسرے کو غیبت کرنے کی وجہ سے“۔
          (سنن ابن ماجة، کتاب الطھارة، باب: التشدید في البول، رقم الحدیث: ۳۴۹، ۱/۲۱۹، دار المعرفة، بیروت )
          اس لیے پیشاب کرنے کے بعد بہتر یہ ہے کہ پہلے کسی ڈھیلے یا ٹشو پیپر وغیرہ سے قطرات کو خشک کریں ، اس کے بعد پانی کا استعمال کریں۔اس طریقے سے مثانہ اور پیشاب کی نالی اچھی طرح خالی ہو جاتی ہے، فارغ ہونے کے بعد قطرے وغیرہ ٹپکنے سے امن رہتا ہے۔
قبلہ کی طرف منہ یا پشت کر کے پیشاب کرنے کاحکم
          قضائے حاجت کے احکام میں سے ایک حکم یہ بھی ہے کہ اس عمل کے دوران قبلے کی طرف نہ منہ کیا جائے اور نہ ہی پُشت، ایسا کرنا مکروہِ تحریمی ہے، چاہے قضائے حاجت کا وقت ہو یا (ننگے ہو کر)غسل کرنے کی حالت ہو، شہر میں ہو یا دیہات میں ،جنگل میں ہو یا صحرا میں،تمام صورتوں میں یہی حکم ہے۔
          حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنابِ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ جب تم میں سے کوئی پیشاب کرنے کے لیے آئے تو قبلے کی طرف نہ چہرہ کرے اور نہ ہی پشت کرے۔ (صحیح البخاری، کتاب الوضوء، باب لا یستقبل القبلة بغائط أو بولٍ، رقم الحدیث: ۱۴۴، ۱/۶۸، المکتبة السلفیة)
قبلے کی طرف بنے ہوئے بیت الخلاء کا حکم
          اگر کسی گھر میں بیت الخلاء قبلہ ُرو بنا ہوا ہو یا اس طرح بنا ہو کہ قبلہ کی طرف پُشت ہوتا ہو تو اہلِ خانہ پر ٹھیک سمت میں بیت الخلاء بنانا واجب ہے، البتہ اگر اُس بیت الخلاء میں اپنا رُخ قبلہ کی طرف سے پھیر کر بیٹھے تو جائز ہے۔
          (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیة)
دودھ پیتے بچوں کے لیے استقبال قبلہ کا حکم
          والدہ یا ہر ایسا شخص جو بچوں کو قضائے حاجت کروائے، اس کے لیے ان بچوں کو لے کر قبلہ کی طرف رکھ کر کے بیٹھنا یا قبلہ کی طرف پشت کر کے بیٹھنا جائز نہیں؛، بلکہ وہ بھی شمالاً یا جنوباًبیٹھ کے قضائے حاجت کروائیں۔
          (رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الطھارة، باب الأنجاس: ۱/۵۵۵، دار عالم الکتب)
مریض کے لیے استقبال قبلہ اور استدبار قبلہ کا حکم
          جو شخص مرض کی وجہ سے خود اپنا رُخ بدلنے پر قادر نہ ہو تو اس شخص کے تیمار دارقضائے حاجت کے وقت اس کو ایسے طریقے سے اٹھائیں یا لٹائیں کہ بہ وقت قضائے حاجت اس کا رُخ یا پیٹھ قبلہ کی طرف نہ ہو، اسی طرح ہسپتالوں میں بھی انتظامیہ کو چاہیے کہ مریضوں کے بیڈ / بستر قبلہ رُ خ پر حتیٰ الوسع بچھانے سے گُریز کریں۔
بیت الخلاء جاتے ہوئے سر ڈھانپنا
          بیت الخلاء جاتے ہوئے سر ڈھانپ کے جانا بھی سنت ہے، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء میں داخل ہوتے تھے تو اپنے سر کو ڈھانپ لیتے تھے۔
          (السنن الکبریٰ للبیہقي،کتاب الطھارة، باب تغطیة الرأس عند دخول الخلاء، رقم الحدیث: ۴۶۴،۱/۹۶،دائرة المعارف،دکن)
پیشاب پاخانہ کی طرف دیکھنے کی ممانعت
          اپنے بول و براز کی طرف دیکھنا خلاف ادب ہے، علامہ طحطاوی  نے لکھا ہے کہ یہ نسیان کو پیدا کرتا ہے۔(کتاب الطہارة: ۱/۳۱، دارالکتب العلمیة)
قضائے حاجت کے بعد زمین پر ہاتھ ملنے کا حکم
          حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ” نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے جب استنجاء کر لیا تو اپنے ہاتھوں کوزمین پر رگڑا“۔
          (سنن الترمذي، کتاب الطھارة، باب: دلک الید بالأرض بعد الاستنجاء، رقم الحدیث:۵۰، دارالسلام) 
           موجودہ دور میں اس عمل پر قادر شخص کے لیے یہ عمل بھی مسنون ہو گا، بصورت دیگر صابن وغیرہ سے ہاتھوں کو دھو لینا بھی اس کا قائم مقام ہو جائے گا۔
استنجا کے بعد ہاتھ دھونے کا حکم
          استنجاء کرنے کے بعد اگر ظنِ غالب ہو کہ ہاتھ صاف ہوگئے ہیں اور بدبو وغیرہ بھی ختم ہو گئی ہے تو مزید صفائی کے لیے ہاتھ دھونا مسنون ہے؛ لیکن ضروری نہیں ہے، مطلب یہ کہ اگر یہ شخص ہاتھ نہ دھوئے تو عند اللہ مجرم نہیں ہو گا۔
          (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیة)
جن جگہوں میں استنجاء کرنا مکروہ ہے
          جن جگہوں میں استنجاء کرنا مکروہ ہے وہ درج ذیل ہیں:پانی میں، حوض یا چشمے کے کنارے، پھل دار درخت کے نیچے، کھیتی میں ، ہر ایسے سایہ میں جہاں لوگ بیٹھتے ہوں، مساجد اور عید گاہ کے پہلو میں ، قبرستان میں اور مسلمانوں کی گذرگاہ میں، سورج یا چاند کی طرف منہ کر کے، ڈھلوان (نیچے والی سطح) میں بیٹھ کے اوپر کی جانب پیشاب کرنا، ہوا کے رُخ پر پیشاب کرنا، چوہے، سانپ یا چیونٹی کے بل میں پیشاب کرنا۔غرض جس جگہ سے بھی لوگوں کا نفع وابستہ ہو اور وہاں ناپاکی یا گندگی ان کے لیے تکلیف دِہ ہو یا اس عمل کی وجہ سے خود اس کو کسی ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو، وہاں پیشاب پاخانہ کرنا جائز نہیں ہے۔
          (البحر الرائق، کتاب الطھارة، باب الانجاس، ۱/ ۶۵۲، دارالکتب العلمیة)
قضائے حاجت کا مفصل طریقہ
          جب کوئی شخص بیت الخلاء میں جانے کا ارادہ کرے، تو اس کے لیے مناسب ہے کہ ایسے وقت میں ہی چلا جائے جب اس پر قضائے حاجت کا بہت زیادہ تقاضا نہ ہو؛ بلکہ یہ شخص اس حالت کے طاری ہونے سے پہلے پہلے ہی بیت الخلاء میں داخل ہو جائے،اس دوران یہ شخص اپنے ساتھ کوئی ایسی چیزجس پر اللہ کا نام(یا قرآن ِ پاک کی آیت وغیرہ لکھی ہوئی ) ہو ،نہ لے جائے،اور ننگے سر بھی نہ جائے، جب دروازے کے پاس پہنچ جائے تو بیت الخلاء میں داخل ہونے والی دعا پڑھنے سے قبل ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ پڑھے ، پھر دعائے ماثورہ ”اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ“ پڑھے، پھر بایاں پاوٴں اندر داخل کرے،پھر زمین کے قریب ہوکر ستر کھولے، پھر اپنے پاوٴں کو قدرے کشادہ کر کے اس طرح بیٹھے کہ اس کے بدن کا زیادہ وزن بائیں پاوٴں پر ہو، اس حالت میں یہ شخص اُخروی امور (مثلاً: علم دین ،فقہ وغیرہ ) کے بارے میں نہ سوچے، کوئی شخص اِس کو سلام کرے تو اُسے جواب نہ دے، موٴذن کی آواز اس کے کانوں میں پڑے تو اُس کا جواب نہ دے، اس حالت میں اس کو چھینک آئے تو ”الحمد للہ“ نہ کہے، اپنے اعضائے مستورہ کی طرف نظر نہ کرے، بدن سے نکلنے والی گندگی کی طرف بھی نہ دیکھے، پاخانہ پر تھوک، ناک کی رینٹھ، اور بلغم وغیرہ نہ تھوکے، بہت زیادہ دیر تک وہاں نہ بیٹھے، آسمان کی طرف نہ دیکھے، بلکہ معتدل کیفیت کے ساتھ رہے، پھر جسم سے خارج ہونے والی نجاست کوپانی ڈال کر اچھی طرح بہا دے، پھر جب فارغ ہو جائے تو شرمگاہ کے نیچے کی جانب موجود رَگ پر اپنی انگلی پھیر کے اُسے اچھی طرح پیشاب کے قطروں سے خالی کر دے، پھر تین پتھروں سے اپنے عضو سے نجاست دور کرے، پھر فارغ ہو کے سیدھا کھڑا ہو نے سے پہلے پہلے اپنے ستر عورت کو چھپالے، پھر اپنا دایاں پاوٴں بیت الخلاء سے باہر نکال کر قضائے حاجت کے بعد کی دعا پڑھے غُفْرَانَکَ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَذْھَبَ عَنِّيْ الْأَذیٰ وعَافَانِيْ“۔(ردالمحتار مع الدرالمختار،کتاب الطھارة، باب الأنجاس: ۱/۹۵۵، دارعالم الکتب)
قضائے حاجت کے وقت کی احتیاطیں
          تکمیل عبادات کے لیے چوں کہ طہارتِ کاملہ ضروری ہے؛ اس لیے قضائے حاجت سے فراغت پر استنجاء کرتے وقت مبالغے کی حد تک اپنے آپ کو پیشاب کے قطروں اور ناپاکی سے بچانا ضروری ہے، بالخصوص موجودہ دور میں جب کہ پختہ بیت الخلاء اور پانی سے استنجا ء کرنے کا معمول عام ہو چکا ہے، احتیاط لازم ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جیسے ہی بیت الخلاء میں داخل ہو، اسی وقت ٹونٹی کھول کے پانی کے ہونے یا نہ ہونے کا اندازہ کرلے ، اس کے علاوہ بیٹ الخلاء میں ٹشوپیپر بھی ضرور رکھنے چاہئیں؛ تا کہ بوقت ضرورت ان کو استعمال کیا جا سکے۔
          جن مقامات میں ٹونٹیوں کی حالت معلوم نہ ہو وہاں لوٹے کو اوپر اٹھا کر ٹونٹی کے قریب کر کے پانی بھریں ، پھر نیچے رکھ دیں، اسی طرح پیشاب کرنے میں احتیاط اس طرح برتی جائے کہ پیشاب فلش میں سامنے کی ٹھوس جگہ میں قوت سے نہ ٹکرائے؛کیوں کہ اس صورت میں اسی قوت کے ساتھ چھینٹیں اڑنے کا قوی امکان ہوتاہے، اس سے حفاظت اسی صورت میں ممکن ہے کہ پیشاب فلش کی سائڈوں میں گرے نہ کہ سامنے والے حصے میں۔
          آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں دین کے اس اہم اور عظیم الشان حکم کو نہایت کامل اور احسن طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
***

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 2 ‏، جلد: 97 ‏، ربیع الثانی 1434 ہجری مطابق فروری 2013ء



فلٹر شدہ پانی

( تحقيقى مقاله  :  جامعه دار تقوى لاهور )

فلٹرشدہ ناپاک پانی کاحکم آج کے مشینی دور میں جہاں ہر ہر چیز کو کارآمد بنانے کا رجحان پایا جاتاہے،وہیں گندے پانی کو جوہڑوں نالوں وغیرہ سے لے کراسے صاف کرکے دوبارہ قابل استعمال بنایا جاتا ہے ۔پانی کی قلت کی وجہ سے خاص طور سے متمدن ممالک کےبڑے شہروں میں یہ کام بڑے پیمانے پر ہوتاہے ۔پانی کی صفائی کے اس عمل کو فلٹریشن اور صاف کیے ہوئے پانی کو فلٹرڈ یا فلٹر شدہ پانی کہاجاتا ہے۔ فلٹریشن کاطریقہ کار : فلٹریشن کے مروجہ طریقے میں ایسے گندے پانی کو درج ذیل چار مراحل سے گذار کرصاف کیا جاتاہے :
 1: پہلے مرحلے میں ایسے پانی کو ایک جگہ جمع کیا جاتاہے تاکہ گندگی کے کثیف اجزاء نیچے بیٹھ جائیں۔
 2: پھر اوپر سے قدرے صاف پانی کونکال (نتھار) لیا جاتاہے۔
 3: پھر ایسے پانی میں سے جراثیم اور بیکٹیریا کو ختم کیا جاتاہے۔
 4: چوتھے مرحلے میں اس کے اندر کلورین ملائی جاتی ہے ،تاکہ اس میں نئے جراثیم پیدا ہونے کی صلاحیت ختم ہوجائے ۔(بحوالہ:جدید فقہی مباحث :ص۴۸) مذكوره پانی کاشرعی حکم : ان مراحل سے گذرنے کے بعد وہ پانی دیکھنے میں بالکل صاف ہوجاتاہے اور پہلے کی طرح معلوم ہوتاہے۔ ان مراحل میں پانی کو صاف توکیا جاتا ہے،اس کی تطہیر(یعنی اسے پاک کرنے ) کااہتمام نہیں کیا جاتا،اس لیے ایسا پانی صاف تو ہوجاتا ہے لیکن پاک نہیں ہوتا ۔چنانچہ اس پانی کے ذریعے پاکی حاصل کرنا یا اسے کھانے پینے میں استعما ل کرنا درست نہیں ،تاہم اسے جانوروں کوپلانے ،کھیتوں کوسیراب کرنے اور زمین کو گیلا کرنے یاچھڑکاؤ کرنے کے لیے استعمال کیاجاسکتاہے۔ *فی البدائع: وهل یجوز الانتفاع بالغسالة( من النجاسة الحقیقیة:ناقل)فیماسو ی الشرب والتطهیر من بل الطین وسقی الدواب ونحو ذلک ؟فان کان قد تغیر طعمها اولونها اور یحها لایجوز الانتفاع لانه لماتغیر دل ان النجس غالب فالتحق بالبول.وان لم یتغیر شیء من ذلک یجوز لانه لمالم تتغیر دل ان النجس لم یغلب علی الطاهر والانتفاع بمالیس بنجس العین مباح فی الجملة ۔(بدائع الصنائع:ج/۱ص ۲۰۷) *فان وقع النجس فی الماء فان کان جاریا فان کان النجس غیرمرئی کالبول والخمر ونحوهما لاینجس مالم یتغیر لونهاوطعمها اوریحها .ویتوضاء منه من ای موضع کان من الجانب الذی وقع فیه النجس او من جانب آخر.........وان کانت النجاسة مرئیة کالجیفة ونحوها فان کان جمیع الماء یجری علی الجیفة لایجوز التوضوء من اسفل الجیفة لانه نجس بیقین. والنجس لایطهربالجریان ،وان کان اکثره یجری علی الجیفة فکذلک لان العبرة للغالب.(بدائع الصنائع:ج/۱ص۲۱۶) *لوتنجس حوض صغیر بوقوع النجاسة فیه ثم بسط مائه حتی صار لایخلص بعضه الی بعض فهو نجس لان المبسوط هوالماء النجس.(بدائع) *قال الرازی فی احکام القرآن (فی سورۃ الفرقان ) ان مذهب اصحابنا ان کل ماتیقنا فیه جزءامن النجاسة اوغلب علی الظن ذلک لایجوز الوضوء به سواء کان جاریا اولا.(البحرالرائق) *اذارسب الزبل فی القساطل ولم یظهر اثره فالماء طاهر واذاوصل الی الحیاض فی البیوت متغیرا ونزل فی حوض صغیر اوکبیر فهونجس،وان زال تغیره بنفسه لان الماء النجس لایطهر بتغیره بنفسه. (ردالمحتار) مذکورہ بالاعبارات سے معلوم ہوا کہ جس پانی کا ایک دفعہ نجس ہونا یقینی ہو: *اس کے اند ر اگر نجاست کے اثرات نظر نہ بھی آئیں تب بھی اسے پاک نہیں سمجھا جائے گا (اگرچہ بالکلیہ نجس والامعاملہ بھی نہیں کیا جائے گا)۔ * ایسا پانی جاری ہونے سے بھی پاک نہیں ہوگا۔ *ایسا پانی ماء کثیر کی شکل اختیار کرنے سے بھی پاک نہیں ہوگا۔ *ایسے پانی کے اند ر سے اوصاف نجاست اگر از خود بھی زائل ہوجائیں تب بھی اسے پاک نہیں سمجھا جائے گا۔ مذکورہ پانی کی تطہیر کا طریقہ: ایسے پانی کی تطہیر کا طریقہ یہ ہے کہ اس کوکسی دوسرے بڑی مقدار کے پانی میں ملایا جائے(یہ ایسے ہی ہوجائے گا جیسے زمین میں پانی کاانجذاب ہوتاہے)یادوسرے پاک پانی کے ساتھ ملاکر بہایا جائے جس سے وہ دونوں جاری ہوجائیں ۔اس طریقے سے دونوں ہی پاک ہوجائیں گے ۔کیونکہ ایسی صور ت میں دو پانی آپس میں ملے ہیں اور طاہرپانی کے اوصاف نہیں بدلے اس لیے سارا پانی پاک سمجھاجائے گا۔ * اناءان ماء احدهما طاهر والآخر نجس ،فصبامن مکان عالی فاختلطا فی الهواء ثم نزلاطهر کله ولو اجری ماء الانائین فی الارض صار بمنزلة ماء جاری.....وفی الذخیرة لواصابت الارض نجاسة فصب علیهاالماء وجری قدر ذراع طهرت الارض والماء طاهر بمنزلة الماء الجاری.... ولواصابها المطر وجری علیها طهرت ولو کان قلیلا لم یجر فلا.(شامی) * اذارسب الزبل فی القساطل ولم یظهر اثره فالماء طاهر واذاوصل الی الحیاض فی البیوت متغیرا ونزل فی حوض صغیر اوکبیر فهونجس،وان زال تغیره بنفسه لان الماء النجس لایطهر بتغیره بنفسه الااذا جری بعد ذلک بماء صافی فانه حینئذ یطهر فاذاانقطع الجریان بعد ذلک فان کان الحوض صغیرا والزبل راسب فی اسفله تنجس مالم یصر الزبل حماٰة،فانه اذاجری بعد ذلک بماء صافی ثم انقطع لاینجس، (شامی) ساتھ ملائے جانے والے پاک پانی کی مقدار کیا ہو اس کے بارے میں فقہاء کی عبارات میں کوئی تحدید نہیں صرف جاری ہونے کاذکرہے۔بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ طاہرپانی کی مقدار کم ازکم برابر یازیادہ ہو نی چاہیے۔تاکہ ایک تواجز اء کے اعتبار سے طاہر کو غلبہ حاصل ہو دوسر ے طبیعت کو بھی استخباث(گھن )نہ ہو۔ كچھ دیگر آراء اور ان کا تجزیہ: مذکورہ پانی کے بارے میں یہ ہماری رائے ہے ،مفتی رشید احمد صاحب نے بھی احسن الفتاوی جلد دہم میں اصولی طور سے یہی رائے ذکر کی ہے ۔البتہ کچھ دیگر اہل علم کی اس بارے میں آراءمختلف ہیں ،وہ ایسے پانی پر علی الاطلاق نجاست کا حکم نہیں لگاتے ۔ذیل میں ان حضرات کی آراء اور اس پر تبصر ہ پیش خدمت ہے۔یہ آراء جدید فقہی مباحث ، سے لی گئی ہیں۔ فلٹریشن اور قلب ماہیت بعض حضرات نے فلٹریشن کے ذریعے صاف شدہ پانی کو قلب ماہیت کے تحت شامل کر کے اسے پاک قراردیا ہے، کیونکہ قلب ماہیت تطہیر کا ایک طریقہ ہے چنانچہ مولانا اختر امام عادل لکھتے ہیں: " آج کل شہروں میں پانی کو فلٹر کرنے کا رواج عام ہے غلیظ اور گندے پانی کو بھی فلٹر کر کے اس کے گندے عناصر کو الگ کر دیا جاتا ہے۔ اور پانی کو استعمال کیا جاتا ہے۔ انقلاب ماہیت کے ضابطے کے مطابق اس کی گنجائش نظر آتی ہے، بشرطیکہ اس میں گندگی کے اثرات محسوس نہ ہوں اور ابتلاء عام ہو۔ اس لیے کہ بقول امام محمد رحمہ اللہ :جب نجاست متغیر ہوجائے اور اس کے اوصاف و معانی تبدیل ہوجائیں تو وہ نجاست باقی نہیں رہتی اس لیے کہ نجاست ایک خاص صفت والی چیز کا نام ہے جب وہ وصف ختم ہوگا تو نجاست کا نام بھی ختم ہو جائے گا"۔ بحوالہ بدائع بدائع کی اصل عربی عبارت ایک مسئلے کی دلیل ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ زمین پر نجاست گرنے اور زمین کے اس کو چوس لینے کے بعد زمین کی طہارت و نجاست کے بارے میں امام محمد و ابویوسف رحمہما اللہ کا اختلاف ہے۔ اس پس منظر میں امام محمد رحمہ اللہ کی دلیل یہ ہے: وجه قول محمد أن النجاسة (المتشربة في الأرض)لما استحالت و تبدلت أوصافها و معانيها خرجت عن كونها نجاسة لأنها اسم لذات موصوفة فتنعدم بانعدام الوصف و صارت كالخمر إذا تخللت.( بدائع: 1/ ۔۔۔) خود ہی مولانا اختر صاحب انقلاب ماہیت کے بارے میں لکھتے ہیں: واضح رہے کہ کسی چیز کا معمولی تغیر یہاں زیر بحث نہیں ہے بلکہ ایسا غیر معمولی تغیر جس کے نتیجے میں کوئی چیز اپنا نام یا اپنے بنیادی عناصر کا زیادہ تر حصہ یا اپنے ذاتی اوصاف کا بیشتر حصہ کھودے اور اس کی جگہ دوسرا نام یا دوسرے اوصاف کا غلبہ ہو جائے۔(جدید فقہی مباحث: 134) لیکن اگر غور کیا جائے تو فلٹریشن ک انقلاب ماہیت کے تحت شمار کرنا مشکل ہے کیونکہ فلٹریشن میں تحلیل و تجزیہ ہوتا ہے کہ گندگی کے اجزاء الگ کر لیے جاتے ہیں اور صاف پانی کے اجزاء الگ کرلیے جاتے ہیں، انقلاب اور قلب حقیقت نہیں ہوتا۔ پانی اپنی جس طبعی اور فطری خوبی اور بنیادی اوصاف اور نام کے ساتھ ہوتا ہے انہی پر باقی رہتا ہے۔ خود اس میں کوئی جوہر ی تبدیلی نہیں آتی۔ جبکہ قلب ماہیت میں چیز کی ذات کے اندر تبدیلی ہوتی ہے اور وہ تبدیلی ایسی ہوتی ہے کہ جس سے اس کا نام تک بدل جاتا ہے۔ نجس اور متنجس کا فرق: بعض حضرات نے فلٹریشن میں ایک تفصیل کی ہے۔مولانا خالد سیف اللہ رحمانی لکھتے ہیں: " جو اشیاء بذات خود نجس نہیں بلکہ نجس ہوگئی ہیں اور متنجس میں اگر کیمیائی عمل کے ذریعے اس کے ناپاک اجزاء کو نکال لیا جائے تو وہ شے پاک ہوجائے گی لیکن فضلات یا جو بذات خو نجس ہیں اس لیے ان کو بعض اجزاء کو کشید کرلیا جائے پھر بھی یہ ناپاک ہی ہوں گے کیونکہ ان کا ہر جرو اپنی ذات میں ناپاک ہے اور اس کے اجزاء تحلیل نہیں ہوئے ہیں۔ بلکہ ان کا وجود باقی ہے صرف ان کو ایک دوسرے سےالگ کیا گیا ہے۔ دوسری جگہ لکھتے ہیں: جو شے بعینہ نجس نہ ہو بلکہ متنجس ہو اس میں سے نجس جزء کو نکال دیا جائے تو پاک ہونے کے لیے کافی ہے اور جو شے بعینہ نجس ہے اس کے بعض اجزاء کو نکال دینا قلب ماہیت نہیں بلکہ وہ اب بھی ناپاک باقی رہیں گے۔(جدید فقہی مباحث: 120) لیکن یہ تفصیل اور تقسیم نظریاتی طور پر یا سوچنے کی حد تک درست ہوسکتی ہے لیکن عملی طور پر یہ تقسیم مفید نہیں۔ کیونکہ گندے نالوں اور جوہڑں کا پانی عموماً ایسا ہوتا ہے کہ اس میں پیشاب ملا ہوتا ہے، اور جب پیشاب پانی کے ساتھ مل جاتا ہے تو اس میں یہ ت ہوتا نہیں کہ پیشاب کا اپنا دائرہ وجود ہو اور متنجس پانی ک اپنا، بلکہ دونوں چیزیں طبعاً سیال ہونے کی وجہ سے باہم ممتزج ہوجاتی ہیں۔ گندگی اور فضلات کے ساتھ ملتے ہیں اور سیال مواد ایک دوسرے کے ساتھ ملتے ہیں۔اب جب اس پانی کو کشید کیا جائے تو فضلات نکالنے کے باوجود پیشاب کے سیال اور پانی والے اجزاء صاف پانی کے ساتھ موجود رہیں گے اور ان کا امتیاز ہونا ممکن بھی نہیں کیونکہ ان کی طبیعت اور پانی کے اصل اجزاء کی طبیعت یکساں ہے۔ ایسی صورت میں مذکورہ تفصیل کے باوجود بھی گندے نالوں کے پانی کو فلٹریشن کے بعد پاک کہنا ممکن نہیں ہوگا۔دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ تفصیل ہمارے زیر نظر مسئلے سے متعلق یا مفید نہیں۔ فلٹریشن اور بخارات: بعض حضرات نے فلٹریشن کے ذریعے حاصل ہونے والے صاف پانی کو بخارات کی قبیل سے قرار دیتے ہوئے پاک قرار دینے کی رائے ظاہر کی ہے۔ مولانا برہان الدین سنھبلی ( استاذ حدیث و تفسیر ندوة العلماء) لکھتے ہیں: اگر فلٹر کرنے یا کشید کرنے کو بخار ( یا بخار کے مشابہ) کہنا درست ہو تو اس کا حکم کتب فقہ میں مذکور ہے، وہ یہ ہے :و مايصيب الثوب من بخارات النجاسة قيل ينجسه و قيل لا و هو الصحيح. و أماالنوشادر المستجمع من دخان النجاسة فهو طاهر.( رد المحتار:1/ 116) لیکن اس بات پر یہ اشکال ہے کہ فلٹریشن کو بخارات کے مشابہ قرار دینا درست نہیں کیونکہ بخارات قلب ماہیت کی شکل ہے کہ ان میں پانی ایک طبعی شکل سے دوسرے شکل میں بدلتا ہے حتی کہ اس کا نام بھی بدل جاتا ہے جبکہ فلٹریشن صرف تحلیل و تجزیہ ہے، یا تنقیہ ہے تطہیر نہیں۔ پانی کی طبعی طہارت سے استدلال: مولانا برہان الدین صاحب آگے لکھتے ہیں: "گندے پانی کو گندگی سے الگے کردینے سے کیا پانی پاک ہو جائے گا ؟ اس کے بارے میں اگرچہ کوئی صریح جزئیہ تو راقم کی نظر سے گذرنا یاد نہیں ہے البتہ حدیث نبوی جو سنن میں ملتی ہے" الماء طهور لا ينجسه شيئ" کے ذیل میں بعض کبار اساتذہ حدیث کی تقاریر سے معلوم ہوتا ہے ۔ اصل بت یہ ہے کہ پاک پانی کے اجزاء میں نجاست کے اجزاء ( پانی میں نجاست پڑجانے سے) مخلوط ہوجاتے ہیں۔ اس طرح ناپاک پانی کے استعمال کرنے سے پانی کے ساتھ نجاست کے اجزاء بھی مستعمل ہوجاتے ہیں، اس لیے ایسے پانی سے طہارت حاصل نہیں ہوتی بلکہ نجاست سے تلوث کی بناء پر وہ جگہ یا چیز بھی ناااپاک ہو جاتی ہے، جہاں یہ پانی لگ گیا ورنہ خالص پانی تو ناپاااک ہوتا ہی نہیں۔ علامہ کشمیری کی العرف الشذی کی حسب ذیل عبارت سے یہ مستفاد ہوتا ہے:أي الماء طهور لا يبقى نجساً أبداً بحيث لا يكون بطهارته سبيل فإن هذا التغير أقرب إلى لفظ الحديث.اس سے یہ بھی نکلتا ہے کہ اگر پانی سے گندگی کے اجزاء نکل جائیں یانکال دیے جائیں تو پانی پاک ہو جائے گا۔ نیز کنویں میں سے نجاست نکالنے اور اسے پاک کرنے کے جو مسائل عام طور پر کتب فقہ میں ملتے ہیں ان میں بعض سے اس سوال کا بھی جواب ملنے پر کچھ مدد مل سکتی ہے۔ و اللہ تعالیٰ اعلم۔ (جدید فقہی مباحث: 358) مولانا کی اس بات کا حاصل یہ ہے کہ پانی کی اصل طبیعت اور فطرت طہارت کی ہے، اور پانی ہر حال میں اپنی اس اصل اور فطرت پر باقی رہتا ہے، چاہے نجاست کے اثرات اس پر غلبہ بھی کر جائیں۔ ہاں! غلبے کی صورت میں چونکہ امتزاج ہوتا ہے اور علیحدگی ممکن نہیں ہوتی اس لیے اس پورے مجموعے (پانی +نجاست) پرنجاست ہونے کا حکم غالب کے اعتبار سے لگایا جاتا ہے لیکن اگر وہ نجس اجزاء کسی بھی طریقے سے علیحدہ ہوجائیں یا ختم ہو جائیں تو پانی اپنی اصل طہارت فطرت کی وجہ سے طاہر ہو جائے گا بلکہ طاہر رہے گا۔نیز مولانا نے کنویں کے مسئلے پر بھی قیاس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کنویں والی بات پر تو اشکال اس وجہ سے ہے کہ کنویں کا مسئلہ تعبدی اور غیر معقول المعنی ہے۔ اور اس میں پانی نکالنے کی مقدار طے ہے جس میں اپنی رائے سے کمی بیشی بھی نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ نجاست نکالنے کے بعد کچھ ہی پانی نکالنے سے اگر پانی بالکل صاف بھی ہو جائے تب بھی اس میں سے ڈولوں کی تعداد پوری کرنا ضروری ہے۔اور کنویں میں صرف نجاست کے نکالنے پر اکتفا نہیں کیا جاتا، جبکہ فلٹریشن میں صرف نجاست کو ختم کرنے پر انحصار کیا جاتا ہے پانی جوں کا توں رہتا ہے۔ چنانچہ فلٹریشن کو کنویں ( نزح البئر) پر قیاس کرنا مشکل ہے۔ اور باقی ر ہے حدیث کے الفاظ، تو ان الفاظ کو ظاہرپر رکھنا مشکل ہے کیونکہ ظاہر پر رکھنے کا متبادر مفہوم یہ ہے کہ پانی چاہے نجاسات سے اٹ جائے تب بھی نجس نہیں ہوتا جبکہ ایسا ہونا بدیہی طور سے غلط ہے، اس لیے لا محالہ حدیث کا محمل دوسری صورت ہے اور وہ یہی ہے کہ جب پانی کثیر ہو اور نجاست اتنی قلیل ہو کہ اس پر اثر انداز نہ ہو تو پھر نجاست خواہ کوئی بھی چیز ہو، وہ پانی کو نجس نہیں کرتی۔ باقی رہا یہ مطلب کہ پانی کی اصل فطرت طہارت اور نجاست خواہ کسی بھی طریقے سے اس کے ساتھ اور نجاست خواہ کیسی بھی ہو وہ اس کی طہوریت پر اثر انداز نہیں ہوتی اور یہ کہ آس پاس چاہے کیسی گہری نجاست ہو پانی کے اجزاء اپنے اندر وہی پاکی باقی رکھےرہتے ہیں یہ مفہوم اس حدیث کا نہیں اور نہ اس پس منظر میں یہ بات ہے، اور نہ ہی کس نے اس حدیث کا یہ مفہوم لیا ہے۔ مولانا کشمیریؒ کی عبارت کا حاصل یہ ہے کہ پانی چونکہ نجس العین نہیں بلکہ متنجس ہے اس لیے لا محالہ اس کی تطہیر کا امکان اور احتمال باقی رہتا ہے۔ ایسا نہیں کہ جب ایک دفعہ نجس ہوگیا تو اب ہمیشہ کے لیے نجس ہی رہے گا بلکہ اس کی تطہیر کا اگر کوئی معتبر طریقہ استعمال کیا جائے تو باقی اشیاء متنجسہ (نجس بالعرض) کی طرح وہ پاک ہو سکتا ہے ۔ پھر اس کی تطہیر کا طریقہ کیا ہے؟ اور یہ کہ صرف تجزیے و تتنقیے سے وہ پاک ہو جائے گا یا کچھ اور بھی کرناپڑے گا ؟ یہ ایک علیحدہ سوال ہے جس سے علامہ کشمیریؒ کی عبارت خاموش ہے۔ نیز مولانا سنھبلی صاحب کی یہ بات تب کار آمد ہے جب پانی میں کوئی نجس العین سیال چیز مثلاً خون، پیشاب، شراب وغیرہ نہ ہو۔ اگر یہ اشیاء ہوں تو پھر پانی کی اصل فطرت کی طہوریت والی بات نہیں چلے گی کیونکہ مذکورہ چیزوں کی رطوبت ( جیسا کہ پہلے بیان ہوا) پانی ے ساتھ ملے گی تو دو رطوبتیں ( نجس العین۔ نجس العرض) اکٹھی ہوں گی اب ان میں سے کون سی رطوبت خالص ماء کی ہے اور کون سی دوسری اشیاء کی یہ امتیاز ممکن نہیں رہے گا۔الا یہ کہ ہر سیال چیز میں ( خواہ نجس العین ہو) خالص رطوبت کو اصل فطری پانی کا ہی حکم دے دیا جائے۔ جو کہ مشکل ہے۔ اس لیے کہ پھر تو ہر نجس العین سےنجس العین چیز،مثلا خون، شراب، پیشاب، سور کی لعاب وغیرہ میں سے خالص رطوبت پاک ہونی چاہیےاوراگرتجزیہ وتنقیہ سےاس کے کثیف اجزاء الگ کرلیے جائیں تو اسے بھی پاک ہوجانا چاہیے۔وهو بعید جدا تغیر اوصاف سے استدلال: بعض حضرات نے فلٹریشن والے پانی کے بارے میں طہارت کا حکم اس وجہ سے لگایا ہے کہ اس میں پانی کے اوصاف بدل جاتے ہیں۔ اور ماء کثیر میں طہارت و نجاست کا مدار اوصاف کے تغیر پر ہے۔ مولانا مصطفی عبد القدوس ندوی لکھتے ہیں: "ماء جاری اور اس کے حکم میں ماء کثیر کے ناپاک ہونے کے بارے میں فقہاء لکھتے ہیں کہ نجاست ظاہر ہو جائے: لو وقع بول في عصير عشر في عشر لم يفسد أي ما لم يظهر أثر النجاسة و لو سال دم رجله مع العصير و لم يظهر في أثر الدم.( در مختار1/ 232)، یا اس کے اوصاف ثلاثہ رنگ، بو، مزہ میں سے ایک وصف بھی ظاہر ہوجائے تو پانی ناپک ہو جائےگا۔و بتغير أحد أوصافه من لون أو طعم أو ريح ينجس الكثير و لو جارياً إجماعاً.(در مختار مع الرد: 1/ 232)لہذا صورت مسئولہ میں اگر گندہ پانی جاری ہو یا ماء کثیر ہو اس سےبذریعہ فلٹریشن یا کسی مشین سے گندگی کے عناصر اس طرح الگ کر دیے جائیں کہ اس میں نجاست نظر نہ آئے اور نہ ہی اوصاف ثلاثہ (رنگ، بو، مزہ) میں سے کوئی وصف باقی ہو تو پانی پاک ہو جائے گا، اور اگر ماء قلیل ہے تو بغیر قلب ماہیت کے پانی پاک نہیں ہوگا"۔(جدید فقہی مباحث: 245) مولانا کا یہ استدلال اشکال سے خالی نہیں کیونکہ مذکورہ نتیجہ دو مقدمات پر مبنی ہے (۱) ماء جاری و کثیر کے نجس ہونے کا مدار اوصاف کے تغیر پر ہے۔ (۲) ایسے پانی کے نجس ہو جانے کے بعد طاہر ہونے کا مدار بھی اوصاف کے تغیر پر ہے۔ ان میں سے پہلا مقدمہ تو عبارات سے ثابت ہے اور بے غبار ہے۔ البتہ دوسرا مقدمے کے بارے میں نہ صرف یہ کہ عبارات خاموش ہیں بلکہ اس کے خلاف تصریحات موجود ہیں۔ ماء جاری کے بارے میں تویہ وضاحت ملتی ہے کہ اگر اس کے اوصاف متغیر ہوگئے تو نجس ہوجائے گا اور پھراز خود اگر وہ تغیر ختم ہوگیاتو وہ طاہر ہوجائے گا۔چنانچہ علامہ شامیؒ نے اپنے علاقے کی ایک چھوٹی نہر یا نالے کے بارے میں لکھا ہے کہ اس میں دن کو لوگ نجاسات ڈالتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے اس کے پانی میں نجاسات کا اثر آجاتا ہے جس کی وجہ سے یہ پانی بلاشبہ نجس باوجود جاری ہونے کے نجس ہوجاتاہے۔ ہاں! البتہ رات میں وہ نجاسات وغیرہ نیچے بیٹھ جاتی ہیں اور اوپر کا پانی صاف ہو جاتا ہے اس لیے اس وقت اس سے وضو کرنا درست ہے۔ وعلى هذا الخلاف ما في ديارنا من أنهار المساقط التي تجري بالنجاسات وترسب فيها لكنها في النهار يظهرأثر النجاسة وتتغير ، ولا كلام في نجاستها حينئذ.وأما في الليل فإنه يزول تغيرها فيجري فيها الخلاف المذكور لجريان الماء فيها فوق النجاسة . قال في خزانة الفتاوى : ولوكان جميع بطن النهر نجسا، فإن كان الماء كثيرا لا يرى ما تحته فهو طاهر وإلا فلا.وفي الملتقط قال بعض المشايخ : الماء طاهر وإن قل إذا كان جاريا. خلاصہ یہ ہے کہ ماء جاری کے بارے میں تو یہ تصریح مل گئی باقی رہا ماء راکد تو اس کے بارے میں یہ تصریح نہیں۔ کہ وہ پہلے ایک دفعہ یقینی طور سے نجس ہو اور نجاست اس کے تمام اجزاء اور حصول میں سرایت کیے ہوئے ہو پھر اس کے اوصاف بدل جائیں یا بدل دیے جائیں تو وہ بھی طاہر ہو جائے گا۔ بلکہ فقہاء نے اس کی بجائے اس کے جاری کرنے کے طریقے تجویز کیے ہیں جن میں اس کو دوسرے پانی سے ملا کر بہانے کا طریقہ بتلایا ہے۔ ایک تو ایسی تصریح نہیں ملی، دوسرے جب ماء کثیر، یا جاری کے تھوڑی نجاست سے نجس نہ ہونے کی حقیقت پر غور کیا جائے تب بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ فلٹر شدہ پانی کو پاک نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ جب ماء کثیر یا ماء جاری میں تھوڑی نجاست گرتی ہے تو اس وقت فقہاء یہ کہتے ہیں کہ اگر نجاست مرئی ہے تو اس سے قدرے دور سے پانی استعمال کرو۔ اور اگر غیر مرئی ہے تو جہاں سے چاہیے کر لو۔ اس اجازت کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ پانی کثیر ہے نجاست قلیل ہے۔ ظاہر ہے کہ نجاست کے اجزاء پانی کے سارے اجزاء سے نہیں ملے ہوں گے۔ ہم پانی کے جن اجزاء کو استعمال کریں گے ان کے بارے میں نجاست سے تلوث کا یقین نہیں بلکہ جب پانی کے اجزاء غالب ہیں تو ظن غالب یہ ہے کہ ہم پانی کے وہ اجزاء استعمال کر رہے ہیں جو نجاست سے متلبس نہیں ہوئے۔(اور احکام میں الغالب کا لمتيقن ہے)یہی وجہ ہے کہ جب نجاست غالب ہو جائے تو پھر ماء کثیر اور جاری ہونے کے باوجود اجازت نہیں ہوتی جیسا کہ ابھی شامی کا جزئیہ گذرا ہے۔ نیز بدائع میں ہے: و إن كانت النجاسة مرئية كالجيفة و نحوها فإن كان جميع الماء يجري علي الجيفة لايجوز التوضئ من أسفل الجيفة لأنه نجس بيقين و النجس لا يطهر بالجريان و إن كان أكثره يجري على الجيفة فكذلك لأن العبرة للغالب. واضح رہے کہ مذکورہ جزئیہ اس صورت میں ہے کہ جب رنگ، مزہ نہ بدلہ ہو۔ کیونکہ یہ تفصیل کہ اکثر پانی گذرتا ہے یا اقل تب ہی معقول ہے ورنہ اگر تغیر ہو تو پھر چاہے اقل گذرے یا اکثر گذرے برابر ہے۔ بہر حال یہ سمجھنا پڑے گا کہ جب پانی کے اوصاف نہ بدلے ہوںلیکن یہ یقینی ہو کہ اس پانی کے تمام اجزاء یا اکثر اجزاء نجاست کے ساتھ تلبس رکھے ہوئے ہیں تب بھی اس پانی کے استعمال کی گنجائش نہیں اور یہ حکم ماء جاری میں ہے جو کہ کثیر کے لیے بھی بمنزلہ اصل اور مقیس علیہ کے ہے۔ جب جاری میں یہ حکم ہے تو راکد میں بطریق اولیٰ ہوگا۔اس تفصیل کی روشنی میں دیکھا جائے تو فلٹر شدہ پانی نالوں اور جوہڑوں میں ہوتا ہے اس کے تمام اجزاء یا اکثر اجزاء نجاسات سے متلوث ہوتے ہیں اب بعد کو اگر اس کے نجس اوصاف چلے بھی جائیں تب بھی اسے پاک نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس کے ہر ہر یا اکثر جزء سے نجاست کے تلبس کا تحقق اور یقینی موجود ہے۔ اس وجہ سے تغیر اوصاف والے ضابطے کے تحت لا کر فلٹر شدہ پانی کو پاک کہنا بھی اشکال سے خالی نہیں۔ فلٹریشن اور زمینی انجذاب: بعض حضرات نے واٹر فلٹریشن کے حوالے سے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ زمین کی فلٹریشن قبول اور معتبر ہے تو مصنوعی فلٹریشن کیوں قابل قبول نہیں؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ زمینی فلٹریشن سے کیا مراد ہے؟ جب پانی زمین پر پڑتا ہے تو زمین اس کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔ اگر پانی زیادہ مقدار میں ہو وہ زمین کے نیچے سےنیچے چلا جاتا ہے۔ پھر وہاں کنوؤں یا نلکوں اور موٹروں کے واسطے سے دوبارہ واپس نکالا جاتا ہے۔ اب اگر ایک پانی نجس ہو اور وہ زمین میں جذب ہو جائے، تو کیا اس پانی کو نیچے سے نکال کر استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ جواب اثبات میں ہے۔ واٹر فلٹریشن میں بھی یہی ہوتا ہے کہ پانی الگ ہو جاتا ہے اور متلوثات الگ کرلیے جاتے ہیں۔ جب ایک جگہ قابل قبول ہے تو دوسری جگہ کیوں نہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اول تو زمین کا عمل ایک فطری عمل ہےاور فلٹریشن مصنوعی طریقہ ہےجسے فطری عمل پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرے یہاں فارق موجود ہے وہ یہ ہے کہ زمین میں جذب ہونے والا پانی بعینہ(یعنی صرف وہی پانی)واپس نہیں آتا بلکہ وہ پانی نیچےجاکر اپنےسے کئی گناہ زیادہ پانی میں مل جاتا ہے۔ اور اس پانی کے مقابلے میں اس نجس پانی کی حیثیت معدوم کی سی ہوتی ہے۔اس کوایسےسمجھاجائےجیسے نہت بڑے تالاب میں ایک بالٹی نجس پانی کی ڈالی جائے، یا جیسے سمندر میں نجس چیز ڈالی جائے۔ ظاہر جب تک نجس اس پر اوصاف کے اعتبار سے غالب نہیں آئے گا اس کا اعتبار نہیں ہوگا۔جبکہ فلٹریشن میں ایسا نہیں ہوتا، بلکہ صرف وہی محدود پانی صاف کیا جاتا ہے۔ حاصل بحث: اب تک کی تفصیل کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی کہ نالوں وغیرہ کے فلٹر شدہ پانی کے بارے میں بنیادی طور پر دو رائے ہیں: پہلی یہ ہے کہ یہ پانی ناپاک ہے جس سے نہ طہارت حاصل ہوسکتی ہے اور نہ کھانے پینے میں استعمال ہوسکتا ہے ،البتہ بدائع کے جزئیے کے مطابق پودوں کو دینے یا جانوروں کو پلانے کی گنجائش ہے۔ اور دوسری رائے یہ ہے کہ یہ پانی پاک ہے۔پھراس دوسری رائے کے قائلین میں سے بعض حضرات صرف طہارت کے قائل ہیں، طہوریت کے نہیں، کیونکہ یہ ماء مستعمل ہے۔ اور بعض طہارت اور طہوریت دونوں کے قائل ہیں۔اپنے موقف پر استدلال کے حوالے سے ،عدم طہارت قائلین تو اصل سے متمسک ہیں، کہ ایک دفعہ اس پانی کا نجس ہونا مسلم اور یقینی تھا، اس کے بعد کوئی قابل اعتبار تطہیر کا سبب نہیں پایا گیا۔ لہذا وہ اصل پر باقی رہتے ہوئے نجس رہے گا،جبکہ طہارت کے قائلین نے درج ذیل مختلف طریقوں سے استدلال کیا ہے: • قلب ماہیت۔پانی کی اصل فطرت طہارت ہے، لہذا قلب ماہیت نہ سہی تحلیل و تجزیہ کا طریقہ کار آمد ہے۔بخارات بن کراڑنےوالے پانی پر قیاس۔کنویں پر قیاس۔ • تغیر اوصاف پر مدار۔زمینی انجذاب پر قیاس۔ ہمارے خیال میں ان وجوہات میں کوئی وجہ بھی اشکال سے خالی نہیں۔ اور اس مسئلے میں ایسا اضطرار اور مجبوری بھی نہیں کہ بعید احتمالات کا سہارا لیا جائے۔ نیز فطرت سلیمہ ( بشرط علم) ایسے پانی سے استعمال سے اباء اور اس کے ساتھ استخباث کا مظاہرہ کرتی ہے۔ لہذا ایسے پانی کو انسانی ضروریات مثلاً کھانے پینے، اور طہارت میں استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہاں! ایسے پانی کو جانوروں کو پلانے ، کھیتوں کو سیراب کرنے یا چھڑکاؤ کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

( دار الافتاء و التحقيق  , جامعه دار تقوى لاهور )