اور نئی سال کی مبارکباد اور اس کا حکم
کل نیا سال شروع
ہونے کو ہے، دنیا کے مختلف ممالک میں نئے سال کا مختلف طریقوں سے استقبال کیا جاتا
ہے، ہر طرف دکانوں میں نیو ایئر کارڈس فروخت ہورہے ہیں، کیلنڈر دیواروں سے اتارے
جارہے ہیں اور سن عیسوی کے ہندسے بدل جائیں گے، نیا سال شروع ہوجائے گا، نئے سال
کی آمد کے موقع پر ہر کوئی جشن کا ماحول بنا رہا ہے، ساری دنیا میں لوگ اس موقع پر
اپنے اپنے انداز سے جشن منانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں، اس موقع پر نوجوان کچھ
زیادہ ہی پرجوش نظر آتے ہیں، کہیں فون وغیرہ کے ذریعہ مبارک بادیاں دی جاتی ہیں تو
کہیں ٹیکسٹ میسیج کے ذریعہ مبارک بادیاںوں کا سلسلہ چلتا ہے، کہیں نئے سال کے موقع
پر پر تکلف جشن منایا جاتا ہے، الغرض غیر مسلم بڑے جوش وخروش سے اس کو مناتے ہیں
اور ہمارے مسلم نوجوان بھی ان سے پیچھے نہیں ہیں، اب آپ خود فیصلہ کریں کہ غیروں
میں اور ہم میں کیا فرق رہ گیا؟؟؟
سوال یہ ہے کہ کیا کبھی کسی غیر مسلم کو مسلمانوں کے تہوار اس زور وشور سے مناتے دیکھا گیا ہے؟؟؟ ہرگز نہیں ہرگز نہیں.
خاص کر اس موقع سے لوگ رقص و سرود کی محفلیں سجاتے ہیں، شراب وکباب جمع کئے جاتے ہیں، نئے سال کا آغاز ہوتے ہی نیو ایئر نائٹ کی محفلیں جمتی ہیں اور لوگ ہیپی نیو ایئر کی مبارک بادیاں پیش کرتے ہیں، ناچ گانے ہوتے ہیں، شراب نوشیاں ہوتی ہیں، بہر حال ہر کوئی اپنے اپنے انداز سے نئے سال کو خوش آمدید ضرور کہتا ہے، اس تیاری میں اربوں کی فضول خرچی ہوتی ہے، در حقیقت نئے سال میں نیا پن کچھ بھی نہیں بلکہ سب کچھ ویسا ہی ہے، دن، رات، زمین، آسمان، سورج اور چاند سب کچھ وہی ہے اور وقت کی کڑوی یادیں بھی اسی طرح ہمارے ساتھ ہیں.
یہ دیکھا جاتا ہے کہ نئے سال کے آغاز کے موقع پر ہمارے بہت سارے مسلم اور غیر مسلم بھائی بالخصوص نوجوان خوشیاں مناتے وقت وہ ناجائز اور نامناسب ایسے کام کرتے ہیں، جنہیں ایک سلیم العقل انسان اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا اور نہ ہی انسانی سماج کیلئے وہ کام کسی طرح مفید ہے بلکہ حد درجہ مضر ہے.
مثال کے طور پر 31 دسمبر اور 1 جنوری کے بیچ کی رات میں نئے عیسوی سال کے آغاز کی خوشی مناتے ہوئے بڑی مقدار میں پٹاخے بجائے جاتے ہیں اور آتش بازیاں کی جاتی ہیں کیک کاٹے جاتے ہیں رقص ہوتا ہے اس کام پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کیا جاتا ہے گویا ہم اپنے خون پسینے کی کمائی کو نذر آتش کررہے ہیں،
میں نہیں سمجھتا کہ شراب نوشی کی کسی بھی مذہب میں کوئی بھی گنجائش ہوگی یہ انسانی عقل کو سلب کرکے آدمی کو بلکل ناکارہ بنادیتی ہے اور اس کے نشہ میں چور آدمی قتل وغارت گری، زنا کاری وبدکاری اور بہت ساری دوسری برائیوں کا بلا جھجھک ارتکاب کرتا ہے،
سال2017 رخصت ہورہا ہے اس لئے ضروری ہے کہ آنے والے سال کے بارے میں تھوڑا وقت نکال کر اپنا محاسبہ کرے کہ میں نے اس سال کیا پایا اور کیا کھویا؟ مجھے اس سال کیا کرنا چاہیئے تھا اور کن چیزوں کو نہ کرنا میرے لئے بہتر تھا، میں نے کن لوگوں کا دل دکھایا؟ اور کس قدر مجھ سے گناہ ہوا؟ میں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر کتنے فیصد عمل کیا؟ مجھ سے کتنے لوگوں کو فائدہ پہنچا، میں نے کن سے ہمدردی کی، کس قدر گناہ مجھ سے ہوئے اور میں نے کن گناہوں کی معافی تلافی کی؟ ان تمام چیزوں کا ہمیں محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے، میری زندگی کا ایک سال کم ہوگیا اور میں نیکیوں سے محروم رہ گیا میرا وقت بے جا ضائع اور صرف ہوگیا.
اور ہر آنے والا سال امیدیں اور توقعات لے کر آتا ہے اور انسان کے عزم کو پھر سے جوان کرتا ہے کہ جو کام پچھلے سال ادھورے رہ گئے انہیں اس سال مکمل کر لینا ہے، افراد کی طرح اقوام کی زندگی میں بھی نیا سال ایک خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے، یہ قوموں کو موقع فراہم کرتا ہے کہ گذشتہ غلطیوں سے سبق سیکھ کر آنے والے سال میں اسکی بھرپائی کرنے کی کوشش کریں.
ایک سال کا مکمل ہونا اور دوسرے سال کا آغاز اس بات کا کھلا پیغام ہے کہ ہماری زندگی میں سے ایک سال کم ہوگیا ہے اور ہم اپنی زندگی کے اختتام کے مزید قریب ہوگئے ہیں.
لہذا ہماری فکر اور بڑھ جانی چاہیئے اور ہمیں بہت ہی زیادہ سنجیدگی کے ساتھ اپنی زندگی اور اپنے وقت کا محاسبہ کرنا چاہیئے کہ ہمارے اندر کیا کمی ہے کیا کمزوری ہے کونسی بری عادت وخصلت ہم میں پائی جاتی ہے اسکو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے،
نیز اچھی عادتیں، عمدہ اخلاق وکردار کا وصف اپنے اندر پیدا کرنے کی مکمل کوشش کرنی چاہیئے.
سوال یہ ہے کہ کیا کبھی کسی غیر مسلم کو مسلمانوں کے تہوار اس زور وشور سے مناتے دیکھا گیا ہے؟؟؟ ہرگز نہیں ہرگز نہیں.
خاص کر اس موقع سے لوگ رقص و سرود کی محفلیں سجاتے ہیں، شراب وکباب جمع کئے جاتے ہیں، نئے سال کا آغاز ہوتے ہی نیو ایئر نائٹ کی محفلیں جمتی ہیں اور لوگ ہیپی نیو ایئر کی مبارک بادیاں پیش کرتے ہیں، ناچ گانے ہوتے ہیں، شراب نوشیاں ہوتی ہیں، بہر حال ہر کوئی اپنے اپنے انداز سے نئے سال کو خوش آمدید ضرور کہتا ہے، اس تیاری میں اربوں کی فضول خرچی ہوتی ہے، در حقیقت نئے سال میں نیا پن کچھ بھی نہیں بلکہ سب کچھ ویسا ہی ہے، دن، رات، زمین، آسمان، سورج اور چاند سب کچھ وہی ہے اور وقت کی کڑوی یادیں بھی اسی طرح ہمارے ساتھ ہیں.
یہ دیکھا جاتا ہے کہ نئے سال کے آغاز کے موقع پر ہمارے بہت سارے مسلم اور غیر مسلم بھائی بالخصوص نوجوان خوشیاں مناتے وقت وہ ناجائز اور نامناسب ایسے کام کرتے ہیں، جنہیں ایک سلیم العقل انسان اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا اور نہ ہی انسانی سماج کیلئے وہ کام کسی طرح مفید ہے بلکہ حد درجہ مضر ہے.
مثال کے طور پر 31 دسمبر اور 1 جنوری کے بیچ کی رات میں نئے عیسوی سال کے آغاز کی خوشی مناتے ہوئے بڑی مقدار میں پٹاخے بجائے جاتے ہیں اور آتش بازیاں کی جاتی ہیں کیک کاٹے جاتے ہیں رقص ہوتا ہے اس کام پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کیا جاتا ہے گویا ہم اپنے خون پسینے کی کمائی کو نذر آتش کررہے ہیں،
میں نہیں سمجھتا کہ شراب نوشی کی کسی بھی مذہب میں کوئی بھی گنجائش ہوگی یہ انسانی عقل کو سلب کرکے آدمی کو بلکل ناکارہ بنادیتی ہے اور اس کے نشہ میں چور آدمی قتل وغارت گری، زنا کاری وبدکاری اور بہت ساری دوسری برائیوں کا بلا جھجھک ارتکاب کرتا ہے،
سال2017 رخصت ہورہا ہے اس لئے ضروری ہے کہ آنے والے سال کے بارے میں تھوڑا وقت نکال کر اپنا محاسبہ کرے کہ میں نے اس سال کیا پایا اور کیا کھویا؟ مجھے اس سال کیا کرنا چاہیئے تھا اور کن چیزوں کو نہ کرنا میرے لئے بہتر تھا، میں نے کن لوگوں کا دل دکھایا؟ اور کس قدر مجھ سے گناہ ہوا؟ میں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر کتنے فیصد عمل کیا؟ مجھ سے کتنے لوگوں کو فائدہ پہنچا، میں نے کن سے ہمدردی کی، کس قدر گناہ مجھ سے ہوئے اور میں نے کن گناہوں کی معافی تلافی کی؟ ان تمام چیزوں کا ہمیں محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے، میری زندگی کا ایک سال کم ہوگیا اور میں نیکیوں سے محروم رہ گیا میرا وقت بے جا ضائع اور صرف ہوگیا.
اور ہر آنے والا سال امیدیں اور توقعات لے کر آتا ہے اور انسان کے عزم کو پھر سے جوان کرتا ہے کہ جو کام پچھلے سال ادھورے رہ گئے انہیں اس سال مکمل کر لینا ہے، افراد کی طرح اقوام کی زندگی میں بھی نیا سال ایک خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے، یہ قوموں کو موقع فراہم کرتا ہے کہ گذشتہ غلطیوں سے سبق سیکھ کر آنے والے سال میں اسکی بھرپائی کرنے کی کوشش کریں.
ایک سال کا مکمل ہونا اور دوسرے سال کا آغاز اس بات کا کھلا پیغام ہے کہ ہماری زندگی میں سے ایک سال کم ہوگیا ہے اور ہم اپنی زندگی کے اختتام کے مزید قریب ہوگئے ہیں.
لہذا ہماری فکر اور بڑھ جانی چاہیئے اور ہمیں بہت ہی زیادہ سنجیدگی کے ساتھ اپنی زندگی اور اپنے وقت کا محاسبہ کرنا چاہیئے کہ ہمارے اندر کیا کمی ہے کیا کمزوری ہے کونسی بری عادت وخصلت ہم میں پائی جاتی ہے اسکو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے،
نیز اچھی عادتیں، عمدہ اخلاق وکردار کا وصف اپنے اندر پیدا کرنے کی مکمل کوشش کرنی چاہیئے.
نئے سال کی مبارکبادی پر علماء کے فتاویٰ
جن معاملات میں آج مسلمانوں کا ایک طبقہ صراط
مستقیم کو چھوڑ کر اللہ تعالی کے دشمنوں اور یہود و نصاری کے طرز پر چل پڑا ہے ان
میں سے ایک عید بھی ہے ، صورت حال یہ ہے کہ آج مسلمانوں نے غیر قوموں کی مشابہت
میں نئی نئی عیدیں ایجاد کرلی ہیں حتی کہ بہت سے لوگوں نے کافروں کی بہت سی عیدوں
کو اپنے شہروں اور ملکوں میں منتقل کرلیا ہے ، جب کہ ان کافروں کی عیدیں ایسی ہوتی
ہیں جو شرک و کفر پر مبنی اور بعض تو فحاشی و بے حیائی کا کھلا پیغام دیتی ہیں
کیونکہ ہر عید اپنے منانے والوں کی تہذیب و ثقافت کی ترجمانی کرتی ہے جیسے بسنت کا
میلہ ، عید عاشقاں اور نیا سال وغیرہ اور بدقسمتی یہ کہ بہت سے نام نہاد مسلمان
کافروں کی عیدوں کی آمد پر اس قدر خوش ہوتے ہیں کہ اپنی شرعی عیدوں کی آمد پر اس خوشی
کا اظہار نہیں کرتے ۔
خصوصی طور " نیاسال " یا عید رأس السنہ منانے کے لئے تو کچھ مسلمان اپنا شہر یا علاقہ چھوڑ کر دوسرے شہروں کا سفر کرتے ہیں اور اس موقعہ سے پیش کئے جانے والے حیا سوز اور بے غیرتی سے بھرے پروگراموں میں شریک بھی ہوتے ہیں اور بعض تو اپنے ساتھ اپنی بیوی بچوں کو بھی لے جاتے ہیں ، کیونکہ یہ عید اصل میں یہود اور نصرانیوں کی عید ہے جو یورپ سے ہمارے اندر آئی ہے اور معلوم ہے کہ رقص و ساز ان کے یہاں فن ہے ، فحاشی و عریانی ان کی تہذیب ہے زناکاری و شراب نوشی ان کا کلچر ہے لہذا ان کی عیدوں میں بھی یہ چیزیں بہت واضح طور پر موجود رہتی ہیں ، بلکہ ان کی عیدوں میں فحاشی و عریانیت کی بعض ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں جو انسانیت و اخلاق سے کوسوں دور ہوتی ہیں خاص کر عید عاشقاں اور نئے سال میں لہذا ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ ان سے پرہیز کرے ذیل میں علمائے امت کے بعض فتاوے نقل کئے جارہے ہیں تاکہ اللہ تعالی کا خوف رکھنے والے لوگ نصیحت و ہدایت حاصل کریں اور اس کے باوجود جو ہلاک ہونا چاہتا ہے وہ دلیل کی بنا پر یعنی حق پہچان کر ہلاک ہو ۔
(۱) خلیفہ راشد حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ کا فتوی
حضرت عطاء بن دینار بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
عجمیوں کی گفتگو نہ سیکھو اور مشرکوں کے تہواروں کے دن ان کی عبادت گاہوں میں نہ جاو کیونکہ ان پر اللہ تعالی کا غضب نازل ہوتا ہے ۔
حضرت ابان کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کے دشمنوں [ کافروں ] کے تہواروں کے دن ان سے دور رہو ۔
{ السنن الکبری للبیھقی :9/234 – اقتضاء الصراط المستقیم :1/455-457 }
(۲)شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے کام میں کافروں کی مشابہت کریں جو ان کے تہواروں [خصوصی ایام ] کے ساتھ خاص ہو ، کھانے میں ، نہ لباس میں ، نہ چراغاں کرنے میں ، نہ کاروبار اور دوسرے دنیاوی امور ترک کرنے میں اور نہ خلاف معمول کوئی کام کرنے میں ۔ اسی طرح اس موقع پر دعوت کرنا جائز نہ ہوگا ۔ اور نہ ہی تحفہ و تحائف [ اس مناسبت سے ] پیش کئے جائیں گے ۔ اسی طرح کوئی ایسی چیز نہ بیچی جائے گی جس سے ان کی عید و تہوار میں ان کی مدد ہوسکے اور نہ ہی بچوں کو ان کے تہوار کے موقع پر کوئی ایسا کھیل کھیلنے دیا جائے گا جو کافروں کے تہواروں کے موقع پر کھیلے جاتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی زیب و زینت کا اظہار کیا جائے گا ، خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ کافروں کے تہواروں کو کسی شعیرہ کے ساتھ خاص کریں ، بلکہ وہ دن بھی مسلمانوں کے لئے عام دنوں کی طرح ہونا چاہئے ۔
(۳) امام ذہبی کا فتوی :
امام ذہبی رحمہ اللہ نے کافروں کے تہواروں سے متعلق ایک مستقل رسالہ تالیف فرمایا ہے اور بڑے ہی سخت انداز میں کافروں کی عیدوں اور تہواروں میں کسی بھی قسم کی شرکت سے روکا ہے ، ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :
" اے مسلمان! اللہ نے تیرے اوپر واجب کیا ہے کہ رات و دن میں سترہ بار اللہ سے دعا کر کہ تجھے صراط مستقیم پر گامزن رکھے جو اس کے انعام یافتہ لوگوں کا راستہ ہے ، اور جن پر اس کا غضب نازل ہوا اور جو لوگ گمراہ ہوئے ایسے لوگوں کے راستے سے بچائے ، تو تیرے دل کو کیسے اچھا لگتا ہے کہ جن کی یہ صفت ہو اور وہ جہنم کا ایندھن ہوں تو ان کی مشابہت کرے ، اگر تجھے کہا جائے کہ کسی بڑھئی یا ہجڑے کی مشابہت کرے تو تو اس کام سے بدکے گا ، جب کہ تو اقلف [یعنی نصاری ] ، عید کے موقع پر صلیب [ کراس نشان ] کی پوجا کرنے والے کی مشابہت کررہا ہے ، اپنے بچوں کو نئے کپڑے پہنا رہا ہے ، انہیں خوشیوں میں شریک کررہا ہے ، ان کے لئے انڈے رنگ رہا ہے ، خوشبو خرید رہا ہے اور اپنے دشمن کی عید کے موقع پر ایسی خوشیاں منا رہا ہے جیسے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عید منایا کرتا ہے ۔
تو سوچ کہ اگر تو نے ایسا کیا تو یہ عمل تجھے کہاں لے جائے گا ؟
اگر اللہ نے معاف نہ کیا تو اللہ کے غضب اور ناراضگی کی طرف لے جائے گا ، کیا تجھے معلوم نہیں ہے کہ تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس کام میں اہل کتاب کی مخالفت پر ابھارا ہے جو ان کے لئے خاص ہے حتی کہ بال کی سفیدی جو مومن کے لئے نور ہے جس سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے "من شاب شیبة فی الاسلام کانت له نورا یوم القیامة "
جس شخص کے بال اسلام میں سفید ہوئے تو یہ بال قیامت کے دن اس کے لئے نور کا سبب بنیں گے ،
لیکن اہل کتاب کی مخالفت کے لئے ہمارے نبی نے ان بالوں پر خضاب لگانے کا حکم دیا ہے چنانچہ اس کی علت بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا : یہود خضاب نہیں لگاتے لہذا تم ان کی مخالفت کرو ۔
ہر وہ مسلمان جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو غیر قوموں کی عیدوں میں حاضر ی سے روکے اور اسے اس انجان اور جھگڑا لو آدمی جیسا نہیں ہوجانا چاہئے کہ جب اسے کسی کام سے روکا جاتا ہے تو کہتا ہے کہ " ہمیں اس سے کیا لینا دینا ہے " اور بہت سے بد کردار اور گمراہ لوگوں کو شیطان نے یہاں تک بہکا دیا ہے کہ وہ اللہ کے دشمنوں اور بد کرداروں کے تہواروں کا میلہ دیکھنے کے لئے ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر کرتے ہیں اور اس طرح ان کی تعداد میں اضافہ کرتے ہیں ، جب کہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ : " من کثر سواد قوم حشر معهم "
جو کسی قوم کی تعداد میں اضافہ کرے قیامت کے دن اسے انہی لوگوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا " ۔
اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا اليَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي القَوْمَ الظَّالِمِينَ] {المائدة:51
اے ایمان والو ! تم یہود و نصاری کو دوست نہ بناو ، یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک انہی میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا " ۔
علماء کا کہنا ہے کہ کفار کے ساتھ مشابہت اور ان کی عیدوں میں حاضری ان سے محبت میں داخل ہے ، جب کہ مسلمانوں کے ملک میں کافروں کو اپنی عیدوں کو کھلے عام منانے کی اجازت نہیں ، پھر اگر مسلمان ان کے تہواروں میں شریک ہورہا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ان کی عیدوں کے اعلان میں ان کی مدد کررہا ہے ، ایسا کرنا دین اسلام میں بدعت کے ایجاد کے مترادف ہے اور بڑا ہی ناپسندیدہ کام ہے ، اور ایسا صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو بڑا ہی بد دین اور ناقص الایمان ہوگا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وعید میں داخل ہوگا : " من تشبه بقوم فهو منهم " جو کسی قوم کی مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہے " ۔
(۴) سماحۃ الشیخ علامہ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا :
س : بعض مسلمان نصاری کی عیدوں میں شریک ہوتے ہیں اس سلسلے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟
جواب : کسی مسلمان مرد و عورت کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ یہود ونصاری یا کسی اور کافر قوم کی عید میں شریک ہو بلکہ ان پر اس سے دور رہنا واجب ہے اس لئے کہ جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے اس کا شمار انہیں کے ساتھ ہوتا ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں غیر قوموں کی مشابہت اور ان کے اخلاق و عادات اپنانے سے منع فرمایا ہے لہذا مسلمان مرد ہو یا عورت ان پر واجب ہے ایسے کاموں سے پرہیز کریں ، اور ان کے لئے کسی بھی طرح جائز نہیں ہے کہ کسی بھی چیز سے اس بارے میں مدد کریں ، اس لئے کہ یہ شریعت کے مخالف عیدیں ہیں ، لہذا نہ ان میں شریک ہونا جائز ہے نہ ان عیدوں کو منانے والوں کے ساتھ تعاون کرنا جائز ہوگا اور نہ ہی چائے ، قہوہ برتن وغیرہ کسی چیز سے ان کی مدد جائز ہوگی کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے :
وَتَعَاوَنُوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ شَدِيدُ العِقَابِ] {المائدة:2}
" نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ اور ظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو بیشک اللہ تعالی سخت سز دینے والا ہے "
اور کافروں کی عیدوں میں شرک ہونا گناہ و ظلم و زیادتی کے کام پر ایک قسم کی ان کی مدد ہے ۔( مجموع فتاوی شیخ ابن باز :6/508)
خصوصی طور " نیاسال " یا عید رأس السنہ منانے کے لئے تو کچھ مسلمان اپنا شہر یا علاقہ چھوڑ کر دوسرے شہروں کا سفر کرتے ہیں اور اس موقعہ سے پیش کئے جانے والے حیا سوز اور بے غیرتی سے بھرے پروگراموں میں شریک بھی ہوتے ہیں اور بعض تو اپنے ساتھ اپنی بیوی بچوں کو بھی لے جاتے ہیں ، کیونکہ یہ عید اصل میں یہود اور نصرانیوں کی عید ہے جو یورپ سے ہمارے اندر آئی ہے اور معلوم ہے کہ رقص و ساز ان کے یہاں فن ہے ، فحاشی و عریانی ان کی تہذیب ہے زناکاری و شراب نوشی ان کا کلچر ہے لہذا ان کی عیدوں میں بھی یہ چیزیں بہت واضح طور پر موجود رہتی ہیں ، بلکہ ان کی عیدوں میں فحاشی و عریانیت کی بعض ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں جو انسانیت و اخلاق سے کوسوں دور ہوتی ہیں خاص کر عید عاشقاں اور نئے سال میں لہذا ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ ان سے پرہیز کرے ذیل میں علمائے امت کے بعض فتاوے نقل کئے جارہے ہیں تاکہ اللہ تعالی کا خوف رکھنے والے لوگ نصیحت و ہدایت حاصل کریں اور اس کے باوجود جو ہلاک ہونا چاہتا ہے وہ دلیل کی بنا پر یعنی حق پہچان کر ہلاک ہو ۔
(۱) خلیفہ راشد حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ کا فتوی
حضرت عطاء بن دینار بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
عجمیوں کی گفتگو نہ سیکھو اور مشرکوں کے تہواروں کے دن ان کی عبادت گاہوں میں نہ جاو کیونکہ ان پر اللہ تعالی کا غضب نازل ہوتا ہے ۔
حضرت ابان کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کے دشمنوں [ کافروں ] کے تہواروں کے دن ان سے دور رہو ۔
{ السنن الکبری للبیھقی :9/234 – اقتضاء الصراط المستقیم :1/455-457 }
(۲)شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے کام میں کافروں کی مشابہت کریں جو ان کے تہواروں [خصوصی ایام ] کے ساتھ خاص ہو ، کھانے میں ، نہ لباس میں ، نہ چراغاں کرنے میں ، نہ کاروبار اور دوسرے دنیاوی امور ترک کرنے میں اور نہ خلاف معمول کوئی کام کرنے میں ۔ اسی طرح اس موقع پر دعوت کرنا جائز نہ ہوگا ۔ اور نہ ہی تحفہ و تحائف [ اس مناسبت سے ] پیش کئے جائیں گے ۔ اسی طرح کوئی ایسی چیز نہ بیچی جائے گی جس سے ان کی عید و تہوار میں ان کی مدد ہوسکے اور نہ ہی بچوں کو ان کے تہوار کے موقع پر کوئی ایسا کھیل کھیلنے دیا جائے گا جو کافروں کے تہواروں کے موقع پر کھیلے جاتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی زیب و زینت کا اظہار کیا جائے گا ، خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ کافروں کے تہواروں کو کسی شعیرہ کے ساتھ خاص کریں ، بلکہ وہ دن بھی مسلمانوں کے لئے عام دنوں کی طرح ہونا چاہئے ۔
(۳) امام ذہبی کا فتوی :
امام ذہبی رحمہ اللہ نے کافروں کے تہواروں سے متعلق ایک مستقل رسالہ تالیف فرمایا ہے اور بڑے ہی سخت انداز میں کافروں کی عیدوں اور تہواروں میں کسی بھی قسم کی شرکت سے روکا ہے ، ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :
" اے مسلمان! اللہ نے تیرے اوپر واجب کیا ہے کہ رات و دن میں سترہ بار اللہ سے دعا کر کہ تجھے صراط مستقیم پر گامزن رکھے جو اس کے انعام یافتہ لوگوں کا راستہ ہے ، اور جن پر اس کا غضب نازل ہوا اور جو لوگ گمراہ ہوئے ایسے لوگوں کے راستے سے بچائے ، تو تیرے دل کو کیسے اچھا لگتا ہے کہ جن کی یہ صفت ہو اور وہ جہنم کا ایندھن ہوں تو ان کی مشابہت کرے ، اگر تجھے کہا جائے کہ کسی بڑھئی یا ہجڑے کی مشابہت کرے تو تو اس کام سے بدکے گا ، جب کہ تو اقلف [یعنی نصاری ] ، عید کے موقع پر صلیب [ کراس نشان ] کی پوجا کرنے والے کی مشابہت کررہا ہے ، اپنے بچوں کو نئے کپڑے پہنا رہا ہے ، انہیں خوشیوں میں شریک کررہا ہے ، ان کے لئے انڈے رنگ رہا ہے ، خوشبو خرید رہا ہے اور اپنے دشمن کی عید کے موقع پر ایسی خوشیاں منا رہا ہے جیسے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عید منایا کرتا ہے ۔
تو سوچ کہ اگر تو نے ایسا کیا تو یہ عمل تجھے کہاں لے جائے گا ؟
اگر اللہ نے معاف نہ کیا تو اللہ کے غضب اور ناراضگی کی طرف لے جائے گا ، کیا تجھے معلوم نہیں ہے کہ تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس کام میں اہل کتاب کی مخالفت پر ابھارا ہے جو ان کے لئے خاص ہے حتی کہ بال کی سفیدی جو مومن کے لئے نور ہے جس سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے "من شاب شیبة فی الاسلام کانت له نورا یوم القیامة "
جس شخص کے بال اسلام میں سفید ہوئے تو یہ بال قیامت کے دن اس کے لئے نور کا سبب بنیں گے ،
لیکن اہل کتاب کی مخالفت کے لئے ہمارے نبی نے ان بالوں پر خضاب لگانے کا حکم دیا ہے چنانچہ اس کی علت بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا : یہود خضاب نہیں لگاتے لہذا تم ان کی مخالفت کرو ۔
ہر وہ مسلمان جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو غیر قوموں کی عیدوں میں حاضر ی سے روکے اور اسے اس انجان اور جھگڑا لو آدمی جیسا نہیں ہوجانا چاہئے کہ جب اسے کسی کام سے روکا جاتا ہے تو کہتا ہے کہ " ہمیں اس سے کیا لینا دینا ہے " اور بہت سے بد کردار اور گمراہ لوگوں کو شیطان نے یہاں تک بہکا دیا ہے کہ وہ اللہ کے دشمنوں اور بد کرداروں کے تہواروں کا میلہ دیکھنے کے لئے ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر کرتے ہیں اور اس طرح ان کی تعداد میں اضافہ کرتے ہیں ، جب کہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ : " من کثر سواد قوم حشر معهم "
جو کسی قوم کی تعداد میں اضافہ کرے قیامت کے دن اسے انہی لوگوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا " ۔
اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا اليَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي القَوْمَ الظَّالِمِينَ] {المائدة:51
اے ایمان والو ! تم یہود و نصاری کو دوست نہ بناو ، یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک انہی میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا " ۔
علماء کا کہنا ہے کہ کفار کے ساتھ مشابہت اور ان کی عیدوں میں حاضری ان سے محبت میں داخل ہے ، جب کہ مسلمانوں کے ملک میں کافروں کو اپنی عیدوں کو کھلے عام منانے کی اجازت نہیں ، پھر اگر مسلمان ان کے تہواروں میں شریک ہورہا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ان کی عیدوں کے اعلان میں ان کی مدد کررہا ہے ، ایسا کرنا دین اسلام میں بدعت کے ایجاد کے مترادف ہے اور بڑا ہی ناپسندیدہ کام ہے ، اور ایسا صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو بڑا ہی بد دین اور ناقص الایمان ہوگا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وعید میں داخل ہوگا : " من تشبه بقوم فهو منهم " جو کسی قوم کی مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہے " ۔
(۴) سماحۃ الشیخ علامہ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا :
س : بعض مسلمان نصاری کی عیدوں میں شریک ہوتے ہیں اس سلسلے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟
جواب : کسی مسلمان مرد و عورت کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ یہود ونصاری یا کسی اور کافر قوم کی عید میں شریک ہو بلکہ ان پر اس سے دور رہنا واجب ہے اس لئے کہ جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے اس کا شمار انہیں کے ساتھ ہوتا ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں غیر قوموں کی مشابہت اور ان کے اخلاق و عادات اپنانے سے منع فرمایا ہے لہذا مسلمان مرد ہو یا عورت ان پر واجب ہے ایسے کاموں سے پرہیز کریں ، اور ان کے لئے کسی بھی طرح جائز نہیں ہے کہ کسی بھی چیز سے اس بارے میں مدد کریں ، اس لئے کہ یہ شریعت کے مخالف عیدیں ہیں ، لہذا نہ ان میں شریک ہونا جائز ہے نہ ان عیدوں کو منانے والوں کے ساتھ تعاون کرنا جائز ہوگا اور نہ ہی چائے ، قہوہ برتن وغیرہ کسی چیز سے ان کی مدد جائز ہوگی کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے :
وَتَعَاوَنُوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ شَدِيدُ العِقَابِ] {المائدة:2}
" نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ اور ظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو بیشک اللہ تعالی سخت سز دینے والا ہے "
اور کافروں کی عیدوں میں شرک ہونا گناہ و ظلم و زیادتی کے کام پر ایک قسم کی ان کی مدد ہے ۔( مجموع فتاوی شیخ ابن باز :6/508)
عیسوی سال کی ابتدا
میں مسلمان ایک دوسرے کو مبارکباد دے سکتے ہیں؟
سوال: نئے عیسوی سال کی ابتدا میں مسلمان ایک
دوسرے کو مبارکباد اور دعائیں دے سکتے ہیں؟ اور یہ بات واضح ہے کہ مسلمان ایک
دوسرے کو نئے سال کی مبارکباد دیتے ہوئے اسے کوئی تہوار سمجھ کر نہیں دیتے۔
الحمد للہ:
مسلمانوں کیلئے عیسوی سال کی ابتدا پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینا جائز نہیں ہے، اور اسی طرح اس دن تہوار کی شکل میں جشن منانا بھی جائز نہیں ہے؛ کیونکہ ہر دو صورت میں کفار کی مشابہت پائی جاتی ہے، اور ہمیں ایسا کرنے سے روکا گیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہیں میں سے ہے) ابو داود: (4031)
اس حدیث کو البانی نے " صحیح ابو داود " میں صحیح قرار دیا ہے۔
اور ویسے بھی ہر سال اسی دن کے آنے پر مبارکباد دینا ہی اسے "عید" [سال کے بعد آنے والا تہوار] بنا دیتا ہے ، اور یہ بھی شریعت میں منع ہے۔ واللہ اعلم.
الحمد للہ:
مسلمانوں کیلئے عیسوی سال کی ابتدا پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینا جائز نہیں ہے، اور اسی طرح اس دن تہوار کی شکل میں جشن منانا بھی جائز نہیں ہے؛ کیونکہ ہر دو صورت میں کفار کی مشابہت پائی جاتی ہے، اور ہمیں ایسا کرنے سے روکا گیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہیں میں سے ہے) ابو داود: (4031)
اس حدیث کو البانی نے " صحیح ابو داود " میں صحیح قرار دیا ہے۔
اور ویسے بھی ہر سال اسی دن کے آنے پر مبارکباد دینا ہی اسے "عید" [سال کے بعد آنے والا تہوار] بنا دیتا ہے ، اور یہ بھی شریعت میں منع ہے۔ واللہ اعلم.
ترتيب بتغير يسير
: أخوكم في الله : اكبر حسين اوركزئي
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں