اتوار، 31 دسمبر، 2017

گمراہ علماء دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔


عن اباذر رضی الله عنه قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَغَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَى أُمَّتِي  قَالَهَا ثَلَاثًا. قَالَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا هَذَا الَّذِي غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُكَ عَلَى أُمَّتِكَ قَالَ أَئِمَّةً مُضِلِّينَ . ( مسند امام احمد 20335، 21334 اور 21335]
"ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں ایک دن اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ تھا اور میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :"مجھے میری امت کے لئے دجال سے بھی زیادہ خدشہ (ایک اور چیز کا) ہے"آپ نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا ۔ میں نے کہا ! اے اللہ کے رسول ﷺ ، وہ کیا چیز ہے جس کا آپ دجال کے علاوہ اپنی امت پر خوف کر تے ہیں ؟ تو فرمایا "گمراہ  ائمہ"
( مسند امام احمد 20335، 21334 اور 21335] ۔ شیخ شعيب ارناوط اسے صحیح لغیرہ کہا (مستند شواہد کی وجہ سے) اپنےتحقیق مسند (1999 ء 35:21, 296-97 ) میں) -

------------------------------------------------------------------------------------------------
ف : کیا آپنے کبھی سوچا ہے کہ وہ رسول ﷺ جو دن رات اپنی امّت کو دجال کے فتنے سے خبردار کرتا رہے ، وہ گمراہ علماء کے فتنے کے بارے میں زیادہ فکر مند کیوں تھے؟
تو وضاحت کے لیے ایک مثال ملاحظہ ہوں:
تصور کریں کہ آپ اپنے بیٹے کو پہلی منزل سے نہ کودنے کو مسلسل خبردار کر رہیں ہیں ، لیکن ایک دن آپ اسکو بتاتے ہو کہ بیٹا مجھے پہلی منزل سے زیادہ تمہارے دوسرے منزل سے کودنے کا ڈر ہے- اصل میں اس بات اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دوسری منزل سے کودنے کا خطرہ پہلی منزل سے بھی زیادہ ہے ۔ اس طرح گمراہ علماء دجال کے برابر خطرناک یا اس سے بھی بڑھکر ہیں۔
ابن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
"كيف أنتم إذا لبستكم فتنة يهرم فيها الكبير, ويربو فيها الصغير, ويتخذها الناس سنة, إذا ترك منها شيء" قيل: تركت السنة؟ قالوا: ومتى ذاك؟ قال: "إذا ذهبت علماؤكم, وكثرت قُراؤكم, وقَلَّت فقهاؤكم, وكَثُرت أمراؤكم, وقلَّتْ أمناؤكم, والتُمِسَتِ الدنيا بعمل الآخرة, وتُفُقهَ لغير الدين . رواه الدرامي
 کیا حال ہوگا تمہارا جب تم کو فتنہ (آفت یعنی بدعت) اسطرح گھیر لے گی کہ ایک جوان اسکے ساتھ (یعنی اس کو کرتے کرتے) بوڑھا ہوجائےگا، اور بچوں کی تربیت اسی پر ہوگی، اور لوگ اس بطور سنّت لیں گے- توجب کبھی بھی اس (بدعت) کا کچھ حصہ لوگ چھوڑ دینگے، تو کہا جائے گا: " کیا تم نے سنّت کو چھوڑ دیا؟ انہوں (صحابہ) نے پوچھا: " ایسا کب ہوگا؟" آپﷺ نے فرمایا: جب تمہارے علماء فوت ہو گئے ہونگے ، قرآت کرنے والے کثرت میں ہونگے ، تمہارے فقہاء چند ایک ہونگے، تمہارے سردار کثرت میں ہونگے، ایسے لوگ کم ہونگے جن پر اعتبار کیا جا سکے، آخرت کے کام صرف لوگ دنیوی زندگی کے حصول کے لئے کرینگے، اور حصول علم کی وجہ دین کی بجاۓ کچھ اور ہوگا-
[ دارمی (٦٤/١) نے اسے دو اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے ، پہلی سند صحیح جبکہ دوسری حسن ہے- اسے حاکم ( ٥١٤/4) اور دوسروں نی بھی روایت کیا ہے]
اس حدیث کے بارے میں شیخ البانی رحم الله کہتے ہیں:
قلت:
وهذا الحديث من أعلام نبوته صلى الله عليه وسلم وصدق رسالته, فإن كل فقرةمن فقراته, قد تحقق في العصر الحاضر, ومن ذلك كثرة البدع وافتتانالناس بهاحتى اتخذوها سنة, وجعلوها ديناً يُتَّبع, فإذا أعرض عنها أهل السنة حقيقة, إلى السنة الثابتة عنه صلى الله عليه وسلم قيل: تُركت السنة .( قيام الرمضان )
میں کہتا ہوں : یہ حدیث رسول الله ﷺ کی نبوت و رسالت کی ایک نشانی ہے، کیوں کہ اسکا ایک ایک جز موجودہ دور میں وقوع پذیر ہو چکا ہے- اہل بدعت سے بدعات کے پھیلاؤ جاری ہیں ، اور لوگوں کے لئے یہ ایک امتحان ہے جس سے انکوں آزمایا جا رہا ہے- ان بدعات کو لوگوں نے بطور سنّت اپنا لیا اور دین کا حصہ بنا دیا ہے- پس جب اہل سنہ ان بدعات سے اس سنّت جو رسول الله ﷺ سے ثابت ہے ، کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، تو کہا جائے گا: کیا سنّت کو رد کر دیا گیا ہے؟   [ قیام الرمضان :ص5-4، شیخ البانی رحم الله ]
رسول الله ﷺ کے ہر قول میں لازماً کچھ سیکھنے کےلئے اور غور و فکر کرنے کے لئے ہو گا- اسکی مزید وضاحت اگے اس مکالے میں ہوگی-
نقصان،جو جاہل اور عام لوگ اسلام اور مسلمانوں کو پہنچاتے ہیں۔
اس حدیث سے اور ایک فائدہ، حصول علم کی اہمیت معلوم ہوتا ہے، کہ کوئی شخص بُرائی کے چنگل سے نہیں بچ سکتا جب تک وہ اچھے بُرے کے درمیان فرق نہ جان لے ۔ اگر آپ نہیں جانتے تاریکی کیا ہے تو آپکو ہر طرف روشنی ہی روشنی لگے گی – یہ تا ہم آپکو ایک بےقوف یا دوسرے الفظ میں جاہل بنا دیگا۔ اس طرح ہم (مسلمانوں) کو علم حاصل کرنا چاہیے ، اور عمررضی اللہ عنہ نے اس بارے میں پہلے سے ہم کو خبردار کردیا۔

عَنِ الْمُسْتَظِلِّ بْنِ الْحُصَيْنِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:" قَدْ عَلِمْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ مَتَى تَهْلِكُ الْعَرَبُ: إِذَا وَلِي أَمْرَهُمْ مَنْ لَمْ يَصْحَبِ الرَّسُولَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يُعَالِجْ أَمْرَ الْجَاهِلِيَّةِ۔
المُصتضل بن حُسین سے روائیت ہے میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا :
میں جانتا ہوں اور کعبہ کی رب کی قسم، کہ کب عرب (مطلب کے اسلام) ناش ہو جائے گا : جب صحابہ کرام اُنکےامورکے والی نہیں ہونگے وہ لوگ جنہیں علم نہیں کہ جہالت کیا چیز ہے "۔
[مصنف ابن أبي شيبہ 6/410،طبقات ابن سعد6/129، مستدرك الحاكم، 4/475، الشعب-الإيمان 6/69، أبو نعيم ھلیه7/243، الحارس بن مسكين بدايہو نہایا]11/650
قال ابن تيمية قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إنَّمَا تُنْقَضُ عُرَى الْإِسْلَامِ عُرْوَةً عُرْوَةً إذَا نَشَأَ فِي الْإِسْلَامِ مَنْ لَمْ يَعْرِفْ الْجَاهِلِيَّةَ
ابن تیمیہ فرماتے ہیں ہے :
عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : بے شک اسلام کی بنیادیں ایک کے بعد ایک تباہ و برباد ہو جائےگیں۔ اگر اس میں ایسے لوگ پیدا ہو جائےجو نا واقف ہوں گے کہ جہالت کیا ہے ۔(مجمو'الالفتاوى 10/301،ابن القیم اپنی فوائد میں بھی اسے لائے ہیں)
زبیر بن عدی رحم الله سے روایت ہے:
ہم انس بن ملک رضی الله عنہ کے پاس حاضر ہوئے اور حجاج کے مظالم کی شکایت کی- پس انس رضی الله عنہ نے فرمایا: " ہر آنے والا سال پچھلے سال سے بد تر ہوگا یہاں تک تم آپنے رب سے جا ملو – یہ میں نے تمہارے رسول صلى الله عليه وسلم سے سنا ہے-
ابن مسعود رضی الله عنہ اسکی تشریح کچھ کرتے ہیں :
" قیامت کے دن تک ہر آنے والا دن گزرنے والے دن سے بد تر ہوگا – اس سے میری مراد دولت میں اضافہ یا بے کر معاملات نہیں ہیں- بلکہ میرا مطلب علم کی کمی ہے- جب علماء فوت ہو جاینگے اور لوگ برابر ہوجاینگے ، وہ نا برائی سے روکینگے اور نہ نیکی کی طرف بلائینگے اور یہی انکو تباہی کی طرف لے جاییگی –
[ سنن دارمی (١٩٤)؛ یعقوب بن سفیان نے المعرفه میں اسے روایت کیا ہے ؛ نسائی (٣٩٣/3)، الخطیب اسے فقیه ولمتفقیہ (٤٥٦/١) میںلایے ہیں؛ دیکھئے ؛ فتح الباری (٢٦/١٣)]
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے زیاد رضی اللہ عنہ سے کہا :
عَنْ زِيَادِ بْنِ حُدَيْرٍ، قَالَ: قَالَ لِي عُمَرُ: «هَلْ تَعْرِفُ مَا يَهْدِمُ الْإِسْلَامَ؟» قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: «يَهْدِمُهُ زَلَّةُ الْعَالِمِ، وَجِدَالُ الْمُنَافِقِ بِالْكِتَابِ وَحُكْمُ الْأَئِمَّةِ الْمُضِلِّينَ» مشكوةألمصابیح 89/1حدیث:269
کیا آپ جانتے ہے اسلام کن چیزوں سے تباہ ہوگا؟ میں (زیاد) نے کہا نہیں- انہوں (عمر) نے کہا: اسلام تباہ ہوگا ،علماء کے غلطیوں سے ، الله کی کتاب کے بارے میں منافقین کے بحث و دلائل سے، اور گمراہ ائمہ کے رائے سے ۔
 مشكوةألمصابیح89/1حدیث:269، محض الثواب 2/717، الدارمی1/295، مسند الفاروق 2/536
الفضیل بن عیاض نے فرمایا :
کیا ہو گا جب آپ پر ایسا زمانہ آئے کہ جب لوگ حق اور باطل ، مومن اور کافر، امین اور غدار ، جاہل اور عالم اور نہ ہی صیح اور غلط میں تمیز کر سکیں گے؟ ابن بطاحا لإبانة الکبرہ 1:188
اس روایت کے بعد ابن بطاح نے کہا :
بہ شک ہم اللہ کی طرف لوٹاۓ جائینگے ! آج ہم اس وقت میں پہنچ چکے ہیں، جو ہم نے اسکے بارے میں سنا اور جانا ہے، اسکا بیشتر وقوع پذیر ہو چکا ہے-۔ ایک فرد واحد جسے الله نے سمجھ بوجھ عطا کی ہے، اور اگر جو اسلامی احکامات پر غور و فکر کرتا ہو اور جو صحیح راستے پر مستحکم ہو- تو اس پر یہ بات بلکل واضخ ہو جائیگی کے اکثر لوگوں نے صراط مستقیم اور محکم دلائل سے منه موڑ لیا ہے- اکثر لوگوں نے ان چیزوں کو پسند کرنا شروع کر دیا ہے جن سے وہ کبھی نفرت کرتے تھے، ان امور کو جائز قرار دے دیا جنہیں وہ کبھی حرام کہتے تھے، اور ام امور کو اپنانا شروع کر دیا جنہیں وہ کبھی رد کرتے تھے۔ اللہ تم پر رحم کرے- یہ مسلمانوں کا صیح منشاء نہیں ہے اور نہ اُن لوگوں کا رویہ ہے جو دین جو دین کے سمجھ رکھتے ہیں-
طلق ابن حبيب :
علم اور اہل علم کے لئے ان لوگوں سے زیادہ کوئی خطرناک نہیں جو ان کہ گروہ میں تو شامل ہو جاتے ہیں پر ان سے نہیں ہوتے- یہ جاہل ہوتے ہیں لیکن آپنے آپ کو اہل علم میں سے سمجھتے ہیں- یہ لوگ صرف خرابی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اصلاح کر رہے ہیں-  ( ابن ابی الدنیا، التوبہ مضمون 62 )
شیخ صالح الفوذان حفظہ اللہ نے کہا :
موجودہ وقت میں اس اُمت کو درپیش سب سے زیادہ خطرناک معاملا ان جاہل مبلغین کا ہے جو آپنے آپ کو اہل علم میں سے سمجھتے ہیں، اور لوگوں کو ( اپنےدین کی طرف) جہالت اور گمراہی کے ساتھ بلاتے ہیں- إيعناتول-المستفيد، 887/1
یہاں ایک مثال پیش خدمت ہے کہ کسطرح کم علم لوگ دین کو نقصان اور اسکے ستونوں کو ہلا کہ رکھ دیتے ہیں-:   جسطرح مختلف لوگ مختلف شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں اسی طرح مختلف علماء بھی علوم دین کے مختلف شعبوں میں میں مہارت رکھتے ہیں-۔ تا ہم ان میں سے بعض نے آپنے محنت اور علم کی بدولت ایک الگ، انھوکہ اور اونچا مقاپ حاصل کیا، اور شیخ السلام اور محدث العصر جیسے القاب سے نوازے گیے ۔ اپردیے گیے لنک میں عالم کی تعریف ہو سکتا ہے کہ ان تمام امور جیسے کہ، علماء کے فضائل و برتری، یا ایک عالم بننے کے شرائط یا قوائد و ضوابط، لیکن پھر بھی یہ لنک آپکو ان شرائط کے بارے میں ایک سرسری جائزہ دیتا ہے جس پر ایک عالم کا پورا اترنا لازمی ہے-اور یہ خود ہی ایک عالم کی فوقیت ایک ام آدمی پر ظاہر کرتا ہے-
اور آخر میں دعاء ہے کہ اللہ تعالی پوری امت کی اصلاح  فرمائے اور ہمیں ہر قسم فتنوں سے اپنے حفظ و آمان میں رکھے ۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين وصلى الله على نبينا محمد وسلم تسليماً كثيراً


اکبر حسین اورکزئی :  1 جنوری  2018 

کوئی تبصرے نہیں: