پیر، 4 دسمبر، 2017

ایک اٹل حقیقت


----------------------------------------------------
جب ہم تاریخ عالم پر نظر ڈالتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ دنیا کے اندر جتنے بھی مشاہیر آئے، کوئی فاتح آئے، کوئی سائنس دان بنا، کسی نے چیزوں کو ایجاد کیا، زندگی میں بڑے بڑے کام کیے لیکن ان تمام کی زندگیوں میں ایک بات کامن (Common) ملتی ہے کہ انہوں نے خود اقرار کیا یا بعد والوں نے کہا کہ اگر اس کو اور زندگی مل جاتی تو یہ اور کام کر لیتا یعنی ادھوری زندگیاں اور حسرتیں لے کے قبر میں چلے گئے۔ مثال کے طور پر نیوٹن (Newton) نے لاز آف نیوٹن (Laws Of  Newton) پر اس قدر ٹھوس کام کیا کہ سائنس کی دنیا میں اس کی بہت عرصے  تک اس کی وجہ سے عزت ہوتی  رہی لیکن پھر بھی لوگوں نے کہا کہ نیوٹن کو کچھ اور مہلت مل جاتی تو مزید چیزیں دریافت ہوتیں۔ اور آئن سٹائن (Einstein )کی تو یورپ میں بے پنا ہ عزت ہے اور اس نے بھی ایسی تھیوری پیش کی جس کی وجہ سے آج انسان چاند پہ قدم رکھ رہا ہے۔ اس کے بارے میں بھی یہی کہاگیا کہ اس کو اگر اور وقت ملتا تو مزید بھی راز کھولتا ۔تیمور لنگ ایک بادشاہ کا نام ہے جس کا مزار سمر قند میں ہے ، چونکہ اس نے بہت سی جگہوں اور ملکوں کو فتح کیا اس لیے اسے فاتح عالم بھی کہا جاتا ہے اور یہی لفظ اس کے مزار پر بھی لکھا ہوا ہے ، لیکن اس کے مرنے کے بعد بھی یہی کہا گیاکہ اگر اس کو اور موقع مل جاتاتو اور بھی دنیا کے علاقے فتح کر لیتا۔ شیکسپئر (Shakespeare) نے اپنی زبان میں کتابیں لکھیں اور اپنی زبان کے حساب سے بہت کچھ لکھا ،لیکن اس کے مرنے کے بعد بھی یہ کہا گیاکہ دیکھو! اس کو اور زندگی مل جاتی تو یہ اور کام کرتا۔ مطلب یہ کہ تمام مشاہیرِ عالم کی زندگیاں نامکمل ہیں ادھوری ہیں مشن پورا نہیں کر سکے ۔
صرف ایک ہستی: تاریخِ عالم میں ایک ہی ہستی آپ کو ملے گی جس نے اپنی زندگی کے مقصد کو پورا کیا، وہ صرف رسول اللہ ﷺ کی مبارک ہستی ہے کہ جنہوں نے اپنی آمد کے مقصد کو پورا کیا اور رات کے اندھیرے میں نہیں ،دن کے اُجالے میں، جنگل کے ویرانے میں نہیں ،سوا لاکھ صحابہ کرامj کی موجودگی میں۔ اور پھر نبی ﷺ  نے سب سے پوچھا کہ کیا میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا؟ تو صحابہj نے یک زبان ہو کر عرض کیا: اللہ کے نبیﷺ! پہنچا ہی نہیں دیا بلکہ پہنچانے کا حق ادا کر دیا۔ پھر اللہ کے نبی حضورِ پاک ﷺ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر اللہ تعالیٰ سے عرض کی: اے اللہ! تو گواہ رہنا ۔اللہ! تو گواہ رہنا۔ توہمیں اگر کسی کو آئیڈیل بنانا ہے تو ادھوری زندگی والے کو کیوں آئیڈیل بنائیں، ایسی زندگی والے کو آئیڈیل کیوں نہ بنائیں کہ جس کی زندگی ہر لحاظ اور ہر زاویے سے مکمل ہے تا کہ ہمارا مقصد بھی زندگی کا پورا ہو جائے ۔
نبی کریم ﷺ کی سیرت اور سائنس:
اب امّت کے علماء نے بہت سے انداز سے سیرت کو کھولا۔ حضرت جی دامت برکاتہم(محبوب العلما ء والصلحاء حضرت مولانا پیر ذو الفقار احمد نقشبندی صاحب دامت برکاتہم) نے بھی سیرت کو ایک الگ انداز سے کھولا ہے۔ آج کل سائنس کا زمانہ ہے، گھر گھر میں کمپیوٹرموجود ہیں، چھوٹے چھوٹے بچے بھی انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ تو سُپر کمپیوٹر کے اس دور میں تو لوگوں کی سوچ ہی سائنسی ہو گئی ہے اوروہ ہر بات کو سائنسی نکتہ نظر سے سوچتے اور جانچتے ہیں۔ ایمان والوں کے دلوں میں اب وہ محبت نہیں رہی کہ وہ اس لیے عمل کریںکہ یہ میرے محبوبﷺ کا عمل ہے۔ آج کوئی سائنسی بات آجائے تو بس اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ حضرت جی دامت برکاتہم نے اس سلسلے میں ایک بیان فرمایاتھا توآج وہی آپ کو سنایا جائے گا۔ نبی پاک ﷺ کی مبارک زندگی اور آپ کی مبارک سنتیں سائنسی نکتہ نظر سے ہمیں کیسے معلوم ہوتی ہیں اس کے بارے میں حضرت جی کا ایک نقطہ نظر ہے۔ فرماتے ہیں کہ اگر دل کے کانوں سے ان باتوں کو سنیں گے تو ان شا اللہ دل پر ضرور اثر ہو گا ۔اور اگر سینوں میں سِل ہو اور دل نہ ہو تو پھر اس کا آپ کو فائدہ نہیں ہو گا۔طلب لے کے بیٹھیں گے تو ان شا اللہ العزیز فائدہ ہو گا۔ حضرت فرماتے ہیں کہ یہ باتیں ہم لوگوں کے لیے فکر انگیز (Food Of Thought )ہوں گی۔ یہ باتیں سائنس کے طلبا کو اور پڑھے لکھے لوگوں کو فائدہدیں گی۔ بلکہ حضرت کے لحاظ سے یہ ایک ایسا عنوان اور مضمون ہے اگر اس پہ اسٹوڈنٹس کام کریں تو اسلامک اسٹڈیز کے اندر پی ایچ ڈی(PHD) بھی کر سکتے ہیں۔
 دو درخشاں باب:حضرت جی نے لکھا کہ نبی پاک ﷺ کی سنتوں کے بارے میں دوفیز (Phase)ہیں ۔فیزOne 1 تو یہ کہ جو انسان نبی ﷺ  کی مبارک سنتوں پر عمل کرے گا، اللہ رب العزت کی طرف سے اس کی زندگی میں برکتیں آئیں گی۔وہ دنیا میں بھی کامیاب ہو گا اورآخرت میں بھی کامیاب ہو گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرے گابے شک وہ بہت بڑی کامیابی پانے والا بن جائے گا: ﴿وَ مَنْ یُّطِعِ اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْفَازَفَوْزًا عَظِیْمًا﴾ (سورۃ الاحزاب: 71)’’جو شخص اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرے گا تحقیق وہ بڑی کامیابی کو پہنچے گا‘‘۔ تو نبی ﷺ  کے طریقوں پر عمل کرنا ،آپﷺ کے اخلاق اور عادات کو اپنانا اس کو سنت کی پیروی کہتے ہیں۔ اب سنت کی پیروی عبادات میں ہو،معاشرت میں ہو، معیشت میں ہو، انفرادی یا اجتماعی سطح پر ہو، تمام حالات میں یہ انسان کے لیے نفع بخش ہے اور اس میں انسان کے لیے کامیابی ہے۔ تو پہلا فیز کیا ہے کہ اگر ہم سنت پر عمل کریں گے تو دنیا میں بھی سکون اور آخرت میں بھی سکون اور انسان قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں میں شامل ہو جائے گا۔ اور یہ با ت سو فیصد پکی اور سچی ہے اس موضوع پر تو ہم لوگ باتیں سنتے ہی رہتے ہیں۔آج کی بات سنت کے سیکنڈ فیز کے متعلق ہوگی۔  اس کو ذرا دل کے کانوں سے سنیں۔ وہ کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ جس کام کونبی کریمﷺ نے جس طریقے سے کیا اس کا م کو اس سے بہتر کرنے کا انداز ہو ہی نہیں سکتا۔ جس کام کورسول اللہﷺ نے جس طریقے سے، جس انداز سے کیا وہ کام اس سے بہتر طریقے سے قیامت تک کوئی کر ہی نہیں سکتا، ہو ہی نہیں سکتا، یہ ہمارا عقیدہ ہے۔ اب اس کے بارے میں ہمارا دعویٰ سمجھ لیجئے یا نتیجہ سمجھ لیجئے لیکن یہ اتنا ٹھوس ہے کہ اس بات کو کرتے ہوئے ہمارے پاؤں کے نیچے چٹان ہے۔ جس طرح کسی انجینئر کے سامنے کہا جائے کہ دو جمع دو کتنے ہوتے ہیں کہے گا چار ہوتے ہیں۔ اس کو یقین ہے کہ اِس کے علاوہ کوئی (Answer) ہے ہی نہیں تو ہمیں بھی یقین ہے کہ جس کام کو نبی کریم ﷺ نے جس انداز سے کر لیا اس سے بہتر اس کام کو کرنے کا کوئی دوسرا انداز ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر ہوتا تو نبی ﷺ  کو اللہ تعالیٰ عطا فرما دیتے۔ سب انبیا سے افضل نبیﷺ ہیں اور افضل نبی ﷺ کے لیے اللہ تعالیٰ نے وہ نعمتیں عطا فرمائیں جو کسی کو نہیں دی گئیں ۔
سونے کا مسنون طریقہ اور میڈیکل سائنس: اب رات کو سونے کی چارممکن صورتیں ہو سکتی ہیں اس کے بارے میں ذرا تفصیل سے سنیں۔ انسان روزانہ سوتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ میڈیکلی (Medically) سونے کا انداز کو نسا زیادہ بہتر ہے۔
پہلا انداز:ایک انداز یہ ہے کہ انسان لیٹ جائے کمر نیچے ہو اورسینہ اوپر ہویعنی یہ سیدھا لیٹنا ہو گیا۔
دوسرا انداز:یہ ہو سکتا ہے کہ انسان اوندھا لیٹ جائے کہ چہرہ اور پیٹ بستر کی طرف ہو کمر آسمان کی طرف ہو۔
تیسرا انداز :یہ ہے کہ انسان بائیں طرف لیٹ جائے کہ دل نیچے ہو اور باقی جسم کا حصہ اوپر ہو۔
چوتھا انداز :یہ ہے کہ انسان دائیں کروٹ، سیدھے ہاتھ پر لیٹ جائے۔ تو یہ چار صورتیں ہوسکتی ہیں۔
 سونے کی پہلی صورت:اگر ہم سب سے پہلی صورت پر آئیں یعنی سیدھا سونا کہ انسان کا سینہ اور چہرہ آسمان کی طرف ہو اور کمر بستر کی طرف، تو میڈیکلی یہ صورت انسان کے لیے نقصان دہ ہے ۔ وہ کیسے ؟ اگر آپ انسان کی ریڑھ کی ہڈی کی بناوٹ کے بارے میں سوچیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ بالکل سیدھی نہیں بلکہ خم دار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معدہ کے اندر وزن ہوتا ہے اور اس وزن نے بالآخر کسی جگہ اپنا زورڈالنا ہوتا ہے اور اس مقصد کے لیے کسی نہ کسی ہڈی نے تو اس وزن کو برداشت کرنا تھا، تو اس کے لیے اللہ رب العزت نے اسپائنل کوڈ (Spinal Cord) ریڑھ کی ہڈی بنا دی اور معدہ کا وزن اس کے اوپر ڈالا گیا، اس کو سنبھا لنے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کے اندر تھوڑا سا خم بنا دیا گیا۔ چنانچہ کندھے سے پیچھے سیدھی آتی ہے اور جہاں ہمارا پیٹ ہے وہا ں تھوڑا آگے کو خم کھا کے واپس پیچھے سیدھی ہونے لگتی ہے اور ہم کمر کو ہاتھ لگا کر اس کو محسوس بھی کر سکتے ہیں۔ توجب آدمی سیدھا سویا ہوتا ہے تو ریڑھ کی ہڈی کا خم اوپر کی طرف ہوتا ہے اور اس خم کے اوپر معدہ کا سارا بوجھ آ جاتا ہے۔ اور ماشا ء اللہ کسی کے معدہ پیٹ کا وزن دس کلو کسی کا پچاس کلو تو اب اتنے وزن نے اس کے اوپر اثر توکرنا ہے، تو سائنس کا اصول ہے کہ جب بھی کسی خم دار چیز کے اوپر وزن ڈال دیا جائے تو وہ سیدھا ہونے کی کوشش کرے گی۔اور وہ بوجھ اس کے دونوں سروں کے اوپر پڑے گا۔ تو جب ریڑھ کی ہڈی کے اوپر پچاس کلوکا وزن پڑے گا تو تو ایسی صورت میں نتیجہ کیا ہو گا؟ یہی ہو گا کہ گردن کے مہرے درمیان سے دباؤ میں آجاتے ہیں اور گردن کے پیچھے انجائینا کا پین ہونا شروع ہو جاتا ہے،یا کمر کے نچلے مہرے درمیان میں سے دباؤ میں آجاتے ہیں اور لو ربیک پین (Lower Back Pain) شروع ہو جاتی ہے۔لہذا جو لوگ سیدھا سوتے ہیں انکو گردن کے پیچھے انجائینا کا درد بھی ہوتا ہے یا پھر لور بیک پین بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔اس سے پتا چلا کہ سیدھا سونا انسان کے لیے فائدہ مند نہیں نقصان دہ ہے۔
سونے کی دوسری صورت :یہ ہے کہ انسان الٹا سوئے کہ پیٹ نیچے ہو جائے کمر آسمان کی طرف ہو جائے، اس کو اوندھے منہ سونا بھی کہتے ہیں۔ یہ بھی انسان کے لیے میڈیکلی (Medically) نقصان دہ ہے کیونکہ انسان کے معدہ کیساتھ آنتیں ہوتی ہیں جہاں سے اس کی غذا گزر رہی ہوتی ہے. وہا ں اس کو جسم سے مختلف وائیٹامنز (Vitamins) اور کیمیکلز (chemicals) ملتے ہیں۔ وہ آنتیں دائیں اور بائیں سائیڈ پر ہوتی ہیں اور ان آنتوں میں خوراک بھری ہوتی ہے اور ہر آنت ایک دوسرے کیساتھ چربی کی باریک سی جھلی کے ذریعہ جڑی ہوتی ہے۔ اگر کسی بکری کو ذبح کریں اور آپ اس کی آنتوں کو دیکھیں تو آپ کو اس کی آنتیں ایک دوسرے کیساتھ باریک سی جھلی سے جڑی ہوئی نظرآئیں گی۔ تو جب انسان الٹا سوتا ہے یعنی پیٹ کے بل تو اس کی آنتیں اوپر ہو جاتی ہیں اور وہ دونوں طرف معلق پوزیشن میں لٹک رہی ہوتی ہیں۔ اس کے اندر وزن بھی ہوتا ہے، اس کا اپنا وزن بھی ہوتا ہے آنت کا اور دوسرا ماشا ء اللہ ہم نے بھی مرغے اور چرغے کھائے ہوتے ہیں، تو ان کا بھی اچھا خاصا وزن ہو جاتا ہے۔ اب ایسی صورت میں یہ امکان ہوتا ہے اگر کسی جگہ سے آنتوں کی چربی کمزور ہو اور وہ آنت اوپر سے نیچے گرے گی اور اس میں بل آجائے گا گرہ لگ جائے گی، اور یہ بات چودہ سو سال پہلے نبی کریمﷺ نے بتا دی تھی۔ فرمایا: الٹا مت سویا کرو، اس طرح الٹا سونے سے ممکن ہے آنتوں میں کوئی گانٹھ پڑ جائے۔ جب یہ گرہ لگ جاتی ہے تو ہسپتالوں میں پہنچ کر لمبے لمبے آپریشن کروانے پڑتے ہیں ۔آج ڈاکٹر اس بات کو مانتے ہیں کہ الٹا سونے سے گرہ لگ جاتی ہے اور انسان کو پھر آپریشن کروانا پڑتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ الٹا سونا بھی میڈیکلی (Medically) ٹھیک نہیں ۔
سونے کی تیسری صورت: یہ ہے کہ انسان بائیں کروٹ پر سو جائے۔ جب انسان بائیں کروٹ پر سوتا ہے تو اسکا دل اس وقت نیچے کی طرف ہو جاتا ہے باقی سارا سسٹم اوپر ہوتا ہے۔ اب دیکھیں بھئی! گھروں میں جو پانی کی مشین لگی ہوتی ہے، اگر اس نے دوسری منزل پر پانی پہنچانا ہو اور موٹر نیچے ہے تو اس کو زیادہ پریشر ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اگر مشین اوپر ہو اور پانی نیچے پہنچانا ہو تو پھر مسئلہ ہی کوئی نہیں، جیسے دو منزلہ عمارت ہے اور پمپ نیچے لگا ہوا ہے جب سپلائی کرنے کا سسٹم اوپر ہوتا ہے تو پمپ انڈر پریشر ہوجاتا ہے اور اگر نیچے سپلائی کرنا ہو تو اس کا کوئی ہیڈ ہی نہیں ہوتا۔ اس کے پاس جتنا بھی پانی ہوتا ہے وہ سارا کا ساراخود بخود نیچے چلا جاتا ہے اور جب اس کو کشش ثقل گریوٹی (Gravity)  کے مخالف پمپ کرنا ہوتا ہے تو اسکے او پر لوڈ پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر انسان الٹی طرف بائیں کروٹ پہ سو گیا تو اب ساری رات اس کا سسٹم اوپر ہوتا ہے اور پمپ جو دل ہے وہ نیچے ہوتا ہے تواس طرح دل انڈر پریشر دباؤ میں کام کر رہا ہوتا ہے۔ اس طریقے میں دو خرابیاں بتائی گئیں ہیں۔
پہلا نقصان:انسان کا دل دباؤ میں ہو تا ہے اس کی وجہ سے اس کی نیند بہت زیادہ گہری ہوتی ہے اس کو الارم بھی نہیں اٹھاتے ۔اس کو گھر میں اگراماں اٹھائے کہ بیٹا! فجر کا وقت ہو گیا ہے تو اس کو پتا ہی نہیں چلے گا، اور صبح نو بجے کہے گا کہ مجھے اٹھایا کیوں نہیں۔ بھئی! تمھیں اٹھایا تو تھا، اچھا مجھے پتا ہی نہیں چلا۔ تو اس کی نیند بہت زیادہ گہری ہوتی ہے۔ اور بعض دفع ایسا بھی ہوتا ہے جب یہ سو کے اٹھتا ہے تو ایک دومنٹ تین منٹ تک کہتا ہے: نہیں ابھی ذرا میں پہلے سیٹ ہو جاؤں پھر کھڑا ہوؤں گااور واش روم جاؤں گا۔ تو فوری طور پر فریش (Fresh) ہو کر نہیں اٹھ پاتا بلکہ اسے ویٹ (Wait)کرنا پڑتا ہے۔
 دوسرا نقصان:ایسے لوگ جو الٹی طرف بائیں کروٹ پر سوتے ہیں ،یہ لوگ ڈراؤنے خواب بہت دیکھتے ہیں ،کیونکہ دل پہ دباؤ ہوتا ہے، اس لیے خواب میں دیکھتے ہیں کہ بھینس پیچھے چلی آرہی ہے، سانپ آ کے ان کو کھا رہا ہے، ڈس رہا ہے یا کبھی کوئی کتا آرہا ہے یا کوئی اور چیز۔ تو یہ بائیں کروٹ پر لیٹنے والے ڈراؤنے برے خواب بہت دیکھتے ہیں اور ہڑبڑا کر اٹھتے ہیں۔ حضرت جی کا یہ مضمون پڑھا اور ذہن میں بٹھا لیا ۔ چند دن پہلے ایک عالمہ کا فون آیا انہوں نے دو باتیں مجھے کہیں: پہلی یہ کہ بارہ(12)گھنٹے سے پہلے تو میری  آنکھ ہی نہیں کھلتی ۔ اور دوسر ی یہ کہ فجر کی نماز چھوٹ جاتی ہے۔ الحمد للہ! حضرت جی کی بات پڑھی ہوئی تھی تو ان کو یہ عمل بتایا کہ آپ پوری ہمت کوشش کریں کہ دائیں کروٹ پر سوئیں اور کسی طریقہ پر نہیں سونا۔ الحمد للہ! چند ہی دنوں کے بعد بمشکل چھٹا ساتواں دن ہو گا فون آیا کہ اب میری نیند بھی کم ہو گئی ہے اور نماز کے لیے بھی اللہ نے اٹھانا شروع کر دیا۔
 سونے کی چوتھی صورت :یہی مسنون ہے کہ انسان اپنی دائیں کروٹ پہ سوئے۔ اس صورت میں اس کا پورا سسٹم نیچے ہوتا ہے اور دل اوپر ہوتا ہے گویا اس صورت میں مین پمپ اوپر ہے اور پمپ کو نیچے سپلائی کرنے کے لیے کسی پریشر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اچھا یہ بھی ایک مزے کی بات ہے کہ جب آدمی جاگ رہا ہوتو اس وقت دل کی جو نبض کی رفتار ہوتی ہے، جس کا براہِ راست دل سے تعلق ہوتا ہے، یہ ستّر سے پچھتر ہوتی ہے لیکن سونے کی حالت میں نبض کی رفتار کم سے کم ہونی شروع ہو جاتی ہے گویاگاڑی کی سپیڈ کم ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اگر اس کے اوپر لوڈ ڈال دیا جائے تو وہ بند ہی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اگر بائیں کروٹ سوئے گا تو یہی حال ہو گا کہ گاڑی کی سپیڈ کمتر ہو گئی اور اوپر لوڈ پڑ گیا اور یوں انڈر پریشر رہ کر خون کی سپلائی اوپر کرنی پڑتی ہے۔ لیکن اگر ہم دائیں کروٹ پر سوئیں گے تو ایسے میں انسان کی جیسے ہی نبض کی رفتار کم ہوئی اسی حساب سے اس کے اوپر لوڈ بھی کم ہو گیا۔ یوں سمجھیے کہ نیند کی حالت میں انسان کا دل تقریباً آف لوڈ کنڈیشن میں چل رہا ہوتا ہے اور پورے جسم کو خون کی مطلوبہ مقدار پہنچا رہا ہوتا ہے۔
 دائیں طرف سونے کے تین فائد ے:اب دائیں طرف سونے سے تین فائدے حاصل ہوتے ہیں:
 پہلی بات :ایسے بندے کی نیند بہت گہری نہیں ہوتی، الارم ہو یا کوئی بندہ اس کو فجر کے لیے اٹھا دے تو اس کے لیے اٹھنا آسان ہوجا تا ہے۔
دوسری بات : ایسے بندے کو ڈراؤنے خواب بھی نہیں آتے۔ 
تیسری بات :یہ بندہ جب دائیں کروٹ پر سونا شروع کرتا ہے، تھوڑی دیر کے لیے بھی سوتا ہے تو اپنے آپ کو تازہ دم محسوس کرتا ہے۔ اگر یہ دس منٹ بھی دائیں کروٹ پر سو جائے تو محسوس ہو گا کہ ایک گھنٹا سو گیا ۔تو وقت میں بھی اللہ رب العزت برکت عطا فرما دیتے ہیں۔ لہذا میڈیکلی (Medically) بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ انسان کے لیے سونے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ وہ دائیں کروٹ پر سوئے اور یہی ہمارے محبو ب حضرت محمدﷺ کی مبارک سنت ہے۔ آج سائنس بڑی گھوم پھر کے اس بات کو ثابت کر چکی ہے۔ تو معلوم ہوا کہ سائنس بھی منزل کی تلاش میں بھٹکتی رہتی ہے اور جب کبھی اس کو منزل ملتی ہے تو وہ جگہ وہی ہوتی ہے جہاں ہمارے محبوب ﷺ کے قدموں کے نشان ہوتے ہیں۔ سائنس بالآخر وہیں پہنچتی ہے تو اس سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ جس کام کو نبی ﷺ  نے جس طریقے سے کیا، اس کام کو اس سے بہتر کرنے کا کوئی طریقہ ہوہی نہیں سکتا۔ یہ ہر چیز کے اند ایک رول (Rule) ہے ۔

سورج کی شعاؤں سے متعلق آپﷺ کا ارشاد اور سائنس:اور دیکھئے! کچھ سال پہلے کی بات ہے کہ یورپین لوگ مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے اور کہتے تھے کہ تم کیسے دقیانوسی لوگ ہو تم سن باتھ (Sun Bath) لینے کیوں نہیں جاتے۔ جب وہ لوگ چھٹیوں میں سن باتھ لینے جاتے تو مسلمانوں سے کہتے کہ تم بھی چلو!  تو مسلمان کہتے کہ ہم کیوں جائیں ۔ وہ کہتے کہ بھئی! سائنسی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ سن باتھ لینے سے جسم کے مسام کھل جاتے ہیں اور انسان کو بے حد فائدے ہوتے ہیں، تو مسلمان نہیں جاتے تھے تو انکا مذاق اڑاتے تھے۔ اس کے کچھ عرصے کے بعد پوری دنیا میں تحقیق کی گئی کہ مختلف بیماریاں دنیا کے کن کن ممالک میں کہاں کہاں کیا کیا ہیں۔ اس تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ جلد کا جو کینسر ہے(Skin Cancer) یہ یورپ کے اندر سب سے زیادہ ہے۔ تو جب یہ تحقیق سامنے آئی تو ان کو پریشانی لاحق ہوئی کہ آخر یورپ میں جلد کا کینسر کیوں زیادہ ہے۔ اس پر ریسرچ شروع کی، ریسرچ کر کے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ سن باتھ کی وجہ سے یہ بیماری ہو رہی ہے۔ سورج کے اندر جو الٹرا وائلٹ ریز ( Ultraviolet Rays) ہوتی ہیں وہ جسم کے اوپر ڈائریکٹ پڑتی ہیں اور اسکین کے اندر کینسر کے اثرات کو چھوڑ جاتی ہیں۔ کہرام مچ گیا کہ بھئی! یہ طریقہ تو غلط ہے۔ تو بہت سی کمپنیا ں میدان میں آئیں کہنے لگیں کہ ہم ایسی چھتریاں بنائیں گے جو انسان سن باتھ لینا چاہے،ان چھتریوں کے نیچے آجائے تو اس کو وہ الٹرا وائلٹ ریز نقصان نہیں پہنچائیں گی ۔لہذا اب ڈاکٹر کہتے ہیں کہ جس بندے نے سن باتھ لینا ہو وہ چھتری استعمال کرے۔اب ذرا یہ تو دیکھیں کون کون آدمی ہو گا، کس کس کے ہاتھ میں چھتری پکڑا سکتے ہیں۔  تو اس تحقیق کے بعد ان لوگوں کا ساحل پر جانا مہنگا بھی ہو گیا اور مشکل بھی ہو گیا کہ اپنی جان تو بچانی ہے۔ تو اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو ایک پوائنٹ دے دیا۔ ہم ان سے بات کرتے ہیں کہ دیکھو بھئی! جب تم کہتے تھے کہ تم ساحل پرجاتے ہو اور ہم نہیں جاتے تھے تو تم ہمارا مذاق اڑاتے تھے۔ اب جب سائنس نے تمہیں بتا دیا کہ اس سے تمھیں بیماریاں لاحق ہو تی ہیں تو اپنی چھٹیاں گزارنے کے لیے بجائے سن باتھ لینے کے اب تم کہیں اور جانے کے پروگرام کیوں بناتے ہو؟ تونتیجہ کیا ہو ا کہ بات پھر وہیں گھوم پھر کر آگئی کہ نبی ﷺ  کے طریقوں کے اندر ہی برکت ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جو پانی سورج کی دھوپ سے گرم ہو تم اس سے وضو مت کرو، جو پانی سورج کی شعائوں سے دھوپ کی وجہ سے گرم ہو جائے تم اس سے وضو مت کرو ۔انسان حیران ہوتا ہے کہ آگ کے اوپر پانی گرم کیا جائے تو وضو کرنا منع نہیں۔ نبی ﷺ  نے گرم پانی سے وضوکرنا منع نہیں کیا ، تو سورج کی شعاؤں سے جو پانی گرم ہو اس سے کیوںمنع کیا؟ سائنس نے تو آج بتایاہے کہ الٹرا وائلٹ ریز  ( Ultraviolet Rays) آتی ہیں جو نقصان پہنچاتی ہیں۔ نبی ﷺ  چودہ سو سال پہلے بتا گئے کہ تم ایسے پانی سے وضو نہ کیا کرو یہ جسم کے لیے نقصان دہ ہو گا ۔تو پھر وہی بات آگئی کہ بالآخر سائنس اسی درخت کے نیچے پہنچتی ہے جس درخت پر محبوب ﷺ کی سنتوں کا سایہ ہوتا ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں: