------------------
عَنْ أَبِیْ هرَیْرَۃؓ
قاَلَ : قاَلَ رَسُوْلُ اللّهﷺ
:’’لاَتَدْخُلُوْنَ الْجَنّة حَتّٰی تُؤْمِنُوْا، وَلاَ تُؤْمِنُوْا حَتّٰی
تَحاَبُّوْا، أَوَلاَ أَدُلُّکُمْ عَلیٰ شَيْئٍ إِذَا فَعَلْتُمُوْہٗ تَحاَبَبْتُمْ؟ أَفْشُوْا السَّلاَمَ بَیْنَکُمْ۔‘‘ ( مسلم،مشکوٰۃ/ص:
۳۹۷/کتاب الآداب/ بابُ السّلام/الفصل الأول)
ترجمہ
: حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ
رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: ’’تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے
جب تک (کامل ) ایمان نہ لے آؤ،اور تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب
تک کہ تم (اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے) آپس میں محبت نہ کرنے لگو، اور کیا میں تم کو ایسی چیز نہ بتاؤں جس کو
اختیار کرکے تم باہم محبت کرنے لگو؟ تو وہ یہ ہے کہ تم آپس میں سلام کو خوب پھیلاؤ۔
تشريح : سلام سے سلامتی وجود میں آتی ہے :
قرآن وسنت کی رو سے اسلام ایک مذہب ہی نہیں بلکہ دین ہے ۔مذہب اور
دین میں فرق یہ ہے کہ مذہب تو اسے کہتے ہیں جو چند عقیدوں، عبادتوں اور اخلاقیات
کے مجموعہ پر مشتمل ہو، جب کہ دین ایک مکمل نظامِ حیات، ضابطۂ زندگی اور زندگی کے
تمام شعبوں کو شامل ہوتا ہے ۔اور جہاں کہیں بھی اسلام کو مذہب کہا گیا ہے وہ
مجازاً ہے،ورنہ حقیقتہً اسلام ایک مکمل دین ہے، کیوں کہ اسلام زندگی کے ہر ہر شعبہ کے لیے ایک مکمل دستور
العمل رکھتا ہے، اس نے انسانی زندگی کے ہر ہر شعبہ میں بھر پور رہبری کی ہے،گھریلو
زندگی سے لے کر خاندانی زندگی تک،اور ملکی زندگی سے لے کر بین الاقوامی زندگی تک
کونساایسا شعبہ ہے جو اسلام کی روشن تعلیمات وہدایات سے مربوط اور وابستہ نہیں
ہے؟زندگی کا ہر شعبہ اور ہر پہلو ہر سمت اور ہر جہت اس کی گراں قدر رہنمائیوں سے
لبریز ہے۔ اگر اسلامی تعلیمات و ہدایات
پر بنظرِ عمیق (گہرائی سے) غور کیا جائے تو ظاہر ہوگا کہ اس کی تعلیمات و ہدایات
انسانوں کی سلامتی،خیر خواہی اور بھلائی پر مبنی ہیں،جس کی ایک چھوٹی سی مثال
’’سلام ‘‘ہے، جو مسنون ہے، اور اسلامی تہذیب اور معاشرت کا ایک رکن ہے،سلام اسلام
میں کوئی رسمی اور رواجی چیز نہیں،بلکہ امن و امان کا ایک عظیم الشان پیغام ہے، اس
میں پیار و محبت کا رس بھرا ہوا ہے،اس سے سلامتی،خیر خواہی اور بھلائی وجود میں
آتی ہے،اس لیے آپس کی ملاقات کے وقت پیار و محبت،خیر خواہی و خیررسانی کے اظہار
کے لیے سلام سے بہتر کوئی کلمہ نہیں ہے، نہ کسی مذہب نے اس سلسلہ میں اتنی بہتر
تعلیم دی ہے ۔
اسلامی سلام سے بہتر کوئی سلام نہیں :یوں تو دنیا میں ہر مہذب سمجھی جانے والی قوم
کا تقریباً یہ روا ج ہے کہ آپسی میل ملاپ اور ملاقات کے وقت موانست و محبت کا
کوئی نہ کوئی جملہ اپنے مخاطب کو مانوس و مسرور کرنے کے لیے کہا جاتا ہے،مثلا
ہمارے ہندوستان میں برادران وطن ملاقات کے وقت ’’نمستے‘‘ یا ’’نمسکار ‘‘کہتے
ہیں،اس میں کچھ پرانے قسم کے لوگ ’’رام رام‘‘کہا کرتے ہیں، اور تہذیب نو کے علم
بردار و دعوے دار صبح کی ملاقات کے وقت کہتے ہیں گڈمارننگ، یعنی اچھی صبح، شام کی
ملاقات کے وقت گڈ اوننگ یعنی اچھی شام، اور رات کی ملاقات کے وقت گڈ نائٹ یعنی شب
بخیر، عجیب بات یہ ہے کہ یہ رواج کوئی نیا نہیں، بلکہ زمانۂ جاہلیت میں حضور اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل خود عربوں میں بھی اس طرح کے کلمات کہنے کا
رواج تھا، چناںچہ ابو داود شریف میں حدیث ہے: سیدنا عمران بن حصین ؓ فرماتے ہیں کہ
’’زمانۂ جاہلیت میں ہم جب آپس میں ملتے تو ایک دوسرے کو کہتے:’’حَیَّاکَ
اللّٰه‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں زندہ رکھے،’’أَنْعَمَ اللّٰہُ بِکَ
عَیْنًا‘‘، یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھوں کو ٹھنڈا کرے، یا ’’أَنْعِمْ
صَبَاحاً‘‘یعنی تمہاری صبح اچھی اور خوش گوار ہو،پھر جب اسلام کاآفتاب طلوع
ہوا اور ہم دورِ جاہلیت کی تاریکی سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آئے تو ہمیں حضور
صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرما دیا ۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف/ ص : ۳۹۹) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرزِتحیہ کو بدل
کر ’’السلام علیکم ‘‘ کہنے کا طریقہ جاری فرمایا، اس کے معنیٰ ہیں کہ تم پر اللہ
تعالیٰ کی رحمت اور سلامتی ہو،اللہ اکبر کبیرا
!اسلامی سلام کس قدر جامع دعا بھی ہے،یعنی عرب کے طرز پر صرف زندہ رہنے کی
دعا نہیں،بلکہ حیاتِ طیبہ کی دعا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو تمام
بری چیزوں ،بلاؤں، آفتوں،مصیبتوں اور تکلیفوں سے محفوظ اور سلامت رکھے،پھراسی کے
ساتھ سلام کرنے والا سلامتی کی اس دعا کے ضمن میں گویایہ وعدہ بھی کر رہا ہے کہ تم
خود بھی مجھ سے سلامت ہو،میرے ہاتھ اور زبان کی تکلیف سے محفوظ اور مامون ہو،اور
میں تمہاری جان مال اورآبروکا محافظ ہوں،چنانچہ اسی کو ابن عربی ؒ نے احکام
القرآن میں امام ابن عیینہ ؒ سے نقل کیا کہ’’ أَتَدْرِیْ
مَا السَّلامُ؟ یَقُوْلُ: أَنْتَ آمِنٌ
مِنِّیْ‘‘ یعنی
تم جانتے ہو سلام کیا چیز ہے ؟ سلام کرنے والا یہ کہتا ہے کہ تم مجھ سے مامون
ہو،اسلامی سلام کا ان حقائق کے پیش نظردوسری اقوام کے سلام سے موازنہ کیا جائے تو
واضح ہوگا کہ اس سے بہتر کوئی دوسرا سلام نہیں۔نیز اس کے بہتر ہونے کی ایک او روجہ
بھی ہے،جیساکہ ملا علی قاری ؒ فرماتے ہیں : ’’اَلسَّلاَمُ
اِسْمٌ مِنْ أَسْماَئِ اللّٰہِ، وَضَعَہُ اللّٰہُ فِیْ الأَرْضِ۔‘‘(مرقاۃ/ ص:۴۱۲/ ۸) سلام تو در حقیقت اللہ تعالیٰ کا وہ پیارانام ہے
جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے زمین پر اتارا ہے،لہٰذا اس سے بہتر کوئی سلام
کیسے ہو سکتا ہے ؟اسی لیے حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ کسی صحابی ؓ نے آپ صلی اللہ
علیہ و سلم کو سلام کیا، حضرت شیخ الاسلام
علامہ مفتی محمدتقی عثمانیؔ مدظلہٗ فرماتے ہیںکہ یہ ابتدائِ اسلام کا زمانہ تھا،
اور اس وقت اللہ تعالیٰ کا نام وضو کیے بغیر لینا مکروہ تھا۔ (اصلاحی خطبات ج:۱۱/ص:۱۵۶) (اور اتفاقاًآپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت وضو سے نہ تھے اور نہ وضو
کا موقعہ تھا تو ) آپ صلی اللہ علیہ و
سلم نے پہلے تیمم کیا، پھر جواب دیا،ارشاد
فرمایا: ’’مجھے اچھا نہ معلوم ہوا کہ بغیر تیمم (اور طہارت) کے اللہ تعالیٰ کا نام
لوں‘‘۔ (سلام کروں) (از:’’اللہ اپنے بندوں سے کتنی محبت کرتے ہیں‘‘ /ص:۳۸)سلام کی مشروعیت و
جامعیت : سلام
کی مشروعیت و جامعیت کے متعلق اس نکتہ پر بھی غور کیجئے کہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے سلام کی تعلیم وتاکید بالکل ابتدائی زمانے
میں فرمائی، جس کا اصل مقصد بھی اپنے مخاطب کو سلامتی وخیر خواہی کا پیغام اور دعا
دے کر مانوس اور مطمئن کرنا ہے،اس لیے کہ سلام کی مشروعیت جن حالات میں ہوئی ان
میں بقول علامہ محمد نعیم صاحب ؒ سابق شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند (وقف) اسلام
اور مسلمان نہایت کمزور تھے،مخالفین اور دشمنانِ دین ہر وقت ایذا رسانی اور شرارت
پر کمر بستہ رہتے تھے، مسلمانوں کو جہاں راستہ میں چاہتے مارتے اور تکلیف دیتے، اس
زمانے میں مسلمان ہونا اپنی جان کو ہتھیلی میں رکھنے کے برابر تھا،ان سخت حالات
میں یہ ہدایت ملی کہ جب تم باہم ملو تو سلام کرو،تاکہ سننے والا پہلے ہی مرحلہ میں
یہ معلوم کرکے مطمئن ہو جائے کہ میرا مخاطب مسلمان ہے، اور اس طرح اس کی وحشت
انسیت ومحبت سے بدل جائے ۔
پھر جو کلمہ سلام کے لیے تعلیم وتلقین فرمایااس کے الفاظ کسی بھی وقت
تبدیل نہیں ہوتے، دن ہو یا رات، صبح ہویاشام،خوشی ہو یا غم،کوئی بھی وقت ہو،اسلامی
سلام کے الفاظ ایک ہی طرح ادا کیے جائیں گے،خواہ سلام کرنے والاچھوٹا ہویا بڑا،
امیر ہو یا فقیر، عامی ہویانامی، شہری ہویادیہاتی، عربی بولنے والا ہویاانگریزی،
غرض دنیا بھرکے تمام ہی مسلمان سلام کے لیے ایک ہی طرح کے الفاظ استعمال کرتے ہیں،
اس میںگویا اس طرف اشارہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک ہی امت ہے: { إِنَّ ہٰذِہٖٓ أُمَّتُکُمْ أُمَّۃًّ وَّاحِدَۃً} (المؤمنون : ۵۲) اور ان کے درمیان ایسا دینی رشتہ قائم ہے جسے مٹایا نہیں جاسکتا،
بلکہ سلام اس کو اور بھی مضبوط کرتا ہے۔
سلام کی برکت سے محبت وجنت نصیب ہوگی : ان
حقائق سے ثابت ہوا کہ سلام اسلام کے پیغامِ امن کا نہایت ہی دل کش عنوان اور ایک
سچے مسلمان کا ترجمان اور اس کی پہچان ہے، اس میں صرف اظہارِ محبت ہی نہیں، ادائے
حق ِمحبت بھی ہے، اس لیے محبت و الفت کی عمومی ہوا اس سے پھیلے گی، بلکہ میں تو
کہتاہوں کہ صاحبو ! اسلامی سلام اگر سمجھ کر سنت کے مطابق کیا اور سناجائے تو صاف
معلوم ہوگا کہ اس میں انسانوں کی سلامتی، خیر خواہی اور اتفاقِ باہمی کا درس ہے،
اس لیے اسے اتنا عام کرنا چاہیے کہ پوری کائنات کی فضا سلام کی خوش گوار ہوا اور
لہروں سے معمور ہوجائے،اور انسانی معاشرہ امن و سلامتی کا گہوارہ بن کر دنیا ہی
جنت کا نمونہ ہوجائے۔ اسی کی طرف
رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیثِ مذکور میں اپنی امت کو مخصوص انداز
میں متوجہ فرمایا: ’’لا تَدْخُلُوْنَ الْجَنّةَ حَتّٰی تُؤْمِنُوْا‘‘…الخ یعنی تم جنت میں اس
وقت تک داخل نہیں ہو سکتے یا جنت کا داخلہ اول مرحلہ میں ا س وقت تک تمہیں نصیب
نہیں ہو سکتاجب تک تم مومن کامل نہ ہوجاؤ، اور تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا یا
تمہیں ایمان کی برکتیں اس وقت تک نصیب نہیں ہو سکتیں جب تک تم آپس میں ایک دوسرے
سے محبت نہ کرو، کیا میں تم کو ایسی چیزنہ بتاؤں کہ اگر تم اس پر عمل کرلو تو
تمہارے آپس میں محبت قائم ہو جائے ؟ وہ یہ ہے کہ آپس میں سلام کو عام کرو۔ مطلب یہ کہ ہر مسلمان کو سلام کر و،
خواہ اسے جانتے ہو یا نہ جانتے ہو، وہ امیر ہو یا فقیر ہو، اس حدیث شریف سے صراحۃً
معلوم ہو گیا کہ مومن کو سلام کی برکت سے دنیامیں آپسی محبت اور آخرت میں جنت
نصیب ہوگی، اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ و
سلم نے بڑے اہتمام سے اس طرف توجہ دلائی،
جس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہجرت
فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے تو اپنی پہلی تقریر میں جن باتوں کی تاکید فرمائی
ان میں سب سے پہلی چیز یہی تھی کہ سلام کو عام کرو،چناںچہ فرمایا : ’’ أَیُّھَا النَّاسُ ! أَفْشُوْا السَّلَامَ، وأَطْعِمُوْا الطَّعَامَ،
وَصِلُوْا الأَرْحَامَ، وَ صَلُّوْا
بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ، تَدْخُلُوْا الجَنّةَ بِسَلاَمٍ۔‘‘ (ریاض الصالحین/ص:۳۶۶،
(ترمذی/ص:۷۵/۲، مشکوٰۃ/ص:۱۶۸) لوگو! سلام کو پھیلاؤ،بھوکوں کو کھلاؤ، رشتہ
جوڑو اور رات میں جب لوگ سو ئے ہوئے ہوں تب تم یادِ الٰہی میں کھڑے ہوجائو، ان
اعمال کی بدولت تم سلامتی سے جنت میں داخل ہوجائوگے۔ اور جنت ہمارا اصلی ٹھکانہ
اور وطن ہے۔ علامہ شبیر احمد عثمانیؔ
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیںکہ’’ہر شخص کے تین وطن ہیں: (۱)جسمانی (۲)ایمانی (۳) روحانی۔ وطنِ جسمانی تو وہ جگہ ہے جہاں وہ پیدا ہو ا،اور وطنِ
ایمانی ہر مومن کا مدینۃ الرسول ہے، جہاں سے اسے ایمان نصیب ہوا،اور ہمارا وطن
روحانی واصلی جنت ہے ۔ان شاء اللہ۔ (مفتی
اعظم نمبر/ ص : ۱۳۵) الغرض! حدیث سے معلوم ہواکہ سلام محبت و امن کا پیغام ہونے
کے علاوہ دخولِ دار السلام کا سبب بھی ہے ۔
ایک شعر ہے :
سلام
ہے اسلام کا شعار اور امن کا پیغام ...... سلام سے ہوگا سہل دخولِ دارالسلام
اسلامی سلام واقعات کی روشنی میں : اسلامی
سلام کے متعلق رحمت ِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم
کے اس قسم کے ارشادات کا جو اثر حضراتِ صحابہؓ پر ہوا اس کا اندازہ ایک
واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرتِ ابی بن کعب ؓ کے صاحب زادے حضرت طفیل کا بیان ہے
کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا،ان کا طریقہ تھا کہ
وہ ہمیں لے کر بازار جاتے اور جس دکان دار اور جس فقیر مسکین کے پاس سے گذرتے اس
کو سلام کرتے، اور کچھ خرید و فروخت کے بغیر ہی واپس آجاتے، ایک وقت جب میں ان کی
خدمت میں حاضر ہوا تو حسبِ معمول مجھے ساتھ لے کر بازار جانے لگے، تو میں نے عرض
کیا کہ ’’حضرت! بازار جا کر کیا کریں گے ؟نہ تو آپ کسی دکان پر کھڑے ہوتے ہیں، نہ
کسی چیز کا سودا کرتے ہیں،نہ بھاؤ تال کی کوئی بات کرتے ہیں،اور نہ بازار کی کسی
مجلس میں بیٹھتے ہیں،اس سے تو بہتریہ ہے کہ یہیں بیٹھئے، کچھ باتیں کریں گے، ہمیں
فائدہ ہوجائے گا‘‘اس پر حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ ’’بھائی! ہم تو صرف
اس غرض اور نیت سے بازار جاتے ہیں کہ جو سامنے آئے اسے سلام کریں،اور ہر ہر سلام
پر نیکیاں، اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں کما کر اللہ تعالیٰ کے بندوں کے
جوابی سلام کے ذریعہ دعائیں حاصل کریں۔‘‘
(مشکوٰۃ/ ص:۴۰۰رواہ مالک والبیہقی فی شعب الإیمان) اسی
طرح کا ایک دوسرا واقعہ حضرت معروف کرخی ؒ
کے متعلق منقول ہے کہ ایک مرتبہ آپ کہیں تشریف لے جا رہے تھے، راستے میں ایک سقہ
کو دیکھا جو لوگوں کو پانی پلاتا ہوا آواز دے رہا تھا کہ’’ اللہ اس بندہ پر رحم
کرے جو مجھ سے پانی پئے ‘‘ سن کر آپ اس سقہ کے پاس گئے اور اس سے پانی لے کر پی
لیا،خدام میں سے کسی نے کہا: ’’حضرت ! آپ تو روزے سے تھے، پھر پانی کیسے پی لیا
؟‘‘ فرمایا:’’ بھائی ! بات اصل میں یہ ہے کہ پانی پلانے والا یہ دعا دے رہا تھا
کہ’’ اللہ تعالیٰ اس بندہ پر رحم کرے جو مجھ سے پانی پئے ‘‘ تو مجھے خیال ہوا کہ
معلوم نہیں، اس سقہ کی دعا میرے حق میں قبول ہو جائے، میں نے اس دعا کوحاصل کرنے
کے لیے روزہ جو نفل تھا توڑ دیا، کہ اس کی قضا تو بعد میں بھی ہو سکتی ہے، دعا بعد
میں نہیں مل سکتی ‘‘۔ ( اصلاحی خطبات /ص : ۱۶۹/ ۶) مسنداحمد میں حضرت سعد بن عبادہ رضی
اللہ عنہٗ کا واقعہ اس سے بھی زیادہ عجیب ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں
ایک مرتبہ رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ و
سلم حضرت سعد بن عبادہ ؓ کے مکان پر تشریف
لے گئے، اور اپنے معمول کے مطابق اجازت چاہنے کے لیے سلام کیا،حضرت سعد ؓ نے جواب دیا،مگر اتنا آہستہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نہ سن سکے، آپ صلی اللہ
علیہ و سلم نے دو بارہ سلام کیا، پھر سہ بارہ سلام کیا، ہر بار حضرت سعدؓ سن کر آہستہ سے جواب دیتے رہے،تین مرتبہ ایسا
کرنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم
لوٹنے لگے، جب حضرت سعدؓنے دیکھا تو گھر سے نکل کرپیچھے دوڑے اور عذر پیش کیا کہ
’’یا رسول اللہ! ہر مرتبہ آپ کی آواز سنی اور سلام کا جواب دیا، مگر آہستہ دیا،
تا کہ آپ کی زبانِ مبارک سے سلامتی کی دعا میرے لیے زیادہ سے زیادہ نکلے، جو
موجبِ برکت ورحمت ہے ۔‘‘ علماء نے لکھا ہے کہ حضرت سعدؓ کا یہ عمل تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت اور غلبۂ عشق کی وجہ سے تھا،اسی لیے
ذہن اس طرف نہ گیا کہ غریب خانہ پر سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف فرما ہیں، لہٰذا فوراً مجھے قدم بوسی کر
لینی چاہیے،بلکہ ذہن اس طرف گیا کہ آپ کی زبانِ مبارک سے ’’السلام علیکم ‘‘ جتنی مرتبہ زیادہ سے زیادہ نکلے گا، سلامتی کی
یہی دعا میرے لیے صلاح و فلاح اور نجات کا ذریعہ ہوگی۔ پھر رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی مزاج شناسی کی وجہ سے حضرت سعدؓ کو معلوم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم میرے اس طرزِ عمل سے ناراض
نہیں ہوں گے، چناںچہ ایسا ہی ہوا،حضور صلی
اللہ علیہ و سلم نے کسی ناگواری کا اظہار نہیں کیا،بلکہ اس نیک جذبہ کی قدر
فرمائی،اور حضرت سعدؓ کے گھر تشریف لے جاکر میزبانی قبول فرمائی اور دعا دی : ’’اَللّٰهمَّ
اجْعَلْ صَلَوَاتِکَ وَرَحْمَتَکَ عَلٰی اٰلِ سَعَدٍ‘‘ ’’اله العالمین ! سعد
کے گھر والوں پر اپنی خاص نوازشیں اور رحمتیں نازل فرما ۔‘‘ (معارف حدیث /ص:۱۶۹/۶) اور شرح السنۃ کی روایت میں ہے کہ حضرت سعدؓ نے میزبانی میں خشک انگور
پیش کیے،آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان
کو تناول فرمایا، جب فارغ ہوئے توان کے لیے یہ دعا فرمائی:’’اکَلَ
طَعَامَکُمُ الأَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَیْکُمُ الْملَائِکَة، وَأَفْطَرَ
عِنْدَکُمْ الصَّائِمُوْنَ۔‘‘کہ تمہارا کھانا نیک لوگ کھائیں، اور فرشتے تمہارے لیے دعا کریں،
اور روزے دار تمہارے ہاں افطار کریں۔ (مشکوٰۃ:۳۶۹/ باب الضیافۃ)سلام کے
احکام .
الغرض! سلام ایک بہترین عمل و دعاہے ،او راسلام میں اس کی خاص اہمیت
و فضیلت ہے،لیکن یہ اس وقت ہے کہ جب کہ اس کے احکام و آداب کی رعایت کے ساتھ ہو،
اسلام نے جہاںہر چیز کے احکام و آداب بتلائے وہیں سلام کے بھی احکام بیان فرمائے،
مثلاً :
(۱)سلام کرنا سنت ہے، مگر
اس کا جواب دینا واجب ہے، البتہ فقہی نقطۂ نظر سے پیشہ ور سائل کے سلام کا جواب
دینا واجب نہیں، کیوںکہ بقول فقیہ النفس علامہ سعید احمد پالنپوری مدظلہٗ’’ اس کا
سلام سلا م نہیںہے، بلکہ سوال ہے۔‘‘(تحفۃا لالمعی/ ج:۴/ص:۵۸۵)
(۲) سلام اور اس کا جواب خلوصِ
نیت کے ساتھ سنت کے مطابق سمجھ کر جمع کے صیغہ کے ساتھ دیا جائے،اگر چہ مخاطب فردِ
واحد ہو، تاکہ فرشتے (کراماً کاتبین ) جو ہر ایک کے ساتھ ہیں سلام میں مخاطب کے
ساتھ شامل ہو کر ان کو سلام کرنے کا بھی ثواب مل جائے، اور پھر جب وہ سلام کا جواب
دیں تو ان کی دعا ہمیں مل جائے۔
(۳)سوارشخصپیدل چلنے والے
کو، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور کم تعداد والے زیادہ تعداد والوں کو سلام
کریں، یہ حکم در اصل تواضع و انکساری کی طرف راغب کرنے کے لیے ہے، لیکن اس کا یہ
مطلب نہیں کہ مذکورہ لوگ سلام نہ کریں تو ہم پہل بھی نہ کریں، بلکہ اس وقت ہم سلام
میں پہل کرکے ابتداء بالسلام کی فضیلت کے حقدار بن جائیں ۔ حدیث میں ہے : عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ ؓ عَنِ
النَّبِيِّﷺ قَالَ: اَلْبَادِیُٔ بِالسَّلامِ بَرِیْیٌٔ مِّنَ الْکِبْرِ۔‘‘(مشکوٰۃ/ص
:۴۰۰ ) سلام میں پہل کرنے والا (اس عمل کی وجہ
سے)تکبر سے پاک ہے۔ تکبر کابہترین علاج یہ بھی ہے کہ ہر ملنے والے مسلمان کو سلام
کرنے میںسبقت کرے۔
(۴) آپس میں ملاقات کے وقت بات چیت اور گفتگو سے
قبل سلام کریں، اس لیے کہ حدیث شریف میں یہ ہدایت ہے: عَنْ جَابر ؓ
قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهﷺ
: ’’اَلسَّلاَمُ قَبْلَ الْکَلاَمِ۔‘‘ (مشکوٰۃ/ص
: ۳۹۹) آج کل ٹیلیفون اور موبائل آمنے سامنے کی
ملاقات کا بدل ہے اور ملاقات کا ذریعہ ہے، اس لیے سلام کا جو حکم آپسی ملاقات کا
ہے وہی فون کرتے اور اٹھاتے وقت کا ہوگا، لہٰذا ’’ہیلو ‘‘ کے بجائے ’’السلام
علیکم‘‘ کہنا مسنون ہوگا، اور جہاں تک انجانے میں غیر مسلم کو فون پر سلام کرنے کی
بات ہے تو بقول مفتی شبیر احمد قاسمی مرادآبادی مدظلہٗ اس میں کوئی گناہ نہیں،
اور نہ یہ خلافِ احتیاط ہے، بلکہ اس میں بھی ہمیں سلام کرنے کا ثواب مل جائے گا،
البتہ پہلے سے معلوم ہو کہ غیر مسلم کا فون ہے، یا خود آپ فون کر رہے ہیں، تو
سلام سے ابتدا نہ کریں ۔( از: ’’ انوارِ نبوت‘‘
/ص : ۳۱۶)
(۵)بعض مواقع اور حالتیں
سلام سے مستثنیٰ ہیں، اس سلسلہ میں فقہائِ کرام کی تشریحات کا خلاصہ یہ ہے کہ تین
صورتوں اور حالتوں میں سلام کرنا منع ہے:
(۱) جب کوئی طاعت میں مشغول ہو، مثلاً
نماز،ذکر،دعا، تلاوت،اذان و اقامت،خطبہ یا کسی دینی مجلس کے وقت
(۲) جب کوئی بشری حاجت میں مشغول ہو، مثلاً کھانے پینے،سونے اور پیشاب پاخانہ وغیرہ کے وقت ۔
(۲) جب کوئی بشری حاجت میں مشغول ہو، مثلاً کھانے پینے،سونے اور پیشاب پاخانہ وغیرہ کے وقت ۔
(۳) جب کوئی معصیت میں مشغول ہو، تو اس موقع پر
بھی سلام کی ممانعت ہے۔سلام کے یہ اجمالی احکام ہیں ۔
سلام کی فضیلت : بہر
کیف! حقیقت یہ ہے کہ سلام کے آداب واحکام کی رعایت کرتے ہو ئے اسے عام کیا جائے
تویہ خیر،رحمت،برکت اور آپسی محبت کا بہترین وسیلہ اور ذریعہ ہونے کے ساتھ اسبابِ مغفرت میں سے بھی ہے،کاش!
ہم اس پاکیزہ کلمۂ سلام کو عام لوگوں کی طرح رسمی طور پر ادا نہ کریں، بلکہ حقیقت
کے ساتھ سنت اور خلوصِ نیت سے ادا کریں تو یہی سلام اتحادِ ملت کے لیے جہاں معین
ہوسکتا ہے وہیں مغفرت کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔
حدیث میں ہے: إِنَّماَ
مُوْجِبَاتُ الْمَغْفِرَۃ
بَذْلُ السَّلاَمِ وَ حُسْنُ الْکَلَامِ۔‘‘
(کنز العمال: ۱۱۶/ ۹، از گلدستہ ٔ مغفرت/ ص : ۲۳۶) مغفرت واجب کرنے والے اعمال میں سلام
کو پھیلانا اور کلام کو نرمی و خوبی سے پیش کرنا بھی داخل ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ: ’’ مَنْ سَلَّمَ عَلیٰ
عِشْرِیْنَ رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ فِیْ یَوْمٍ جَمَاعَة أَوْ فُرَادیٰ،
ثُمَّ مَاتَ مِنْ یَوْمِه ذَالِکَ، وَجَبَتْ لَہٗ
الْجَنَّۃُ، وَفِیْ لَیْلَة مِّثْلُ ذَالِکَ۔‘‘
( رواہ الطبرانی، مجمع الزوائد/ص: ۳۰۰/۸،از فیضانِ حلیم).
ترجمہ : جو شخص اپنے مسلمان
بھائیوں میں سے بیس لوگوں کو خواہ وہ مجمع میں ہوںیا فردا ً فرداً ہوں، کسی دن یا
رات میں سلام کر ے،پھر اس دن یا رات میں اس کا انتقال ہوجائے تو اس کے لیے جنت
واجب ہے ۔ غور کیجئے !اسلام میں سلام
کی کس قدر عظمت و فضیلت ہے ۔حق تعالیٰ ہمیں توفیق عمل عطا فرمائے ۔آمین ۔جَزَی
اللّٰه عَنَّا مُحَمَّداً صَلّٰی اللّهٰ عَلَیْه وَسَلَّمَ بِمَا هو أهله ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں