عَنْ أَنَسٍؓ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: یَقُوْلُ اللّٰه جَلَّ ذِکْرُہٗ : ’’أَخْرِجُوْا مِنَ النَّارِ
مَنْ ذَکَرَنِیْ یَوْمًا، أَوْ خَافَنِیْ فِیْ مَقَامٍ۔‘‘(رواہ
الترمذی ، مشکوۃ/ص:
۴۵۷/ باب
البکاء و الخوف/ الفصل الثانی)
ترجمہ : حضرت
انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے مروی ہے، رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ اﷲ جل ذکرہٗ فرمائے گا کہ ’’اس
شخص کوبھی آگ سے نکالو جس نے ایک دن بھی میرا ذکر کیا ہو، یا کسی مقام پر بھی مجھ سے خوف کیاہو۔
تشريح :
ذکر کا ناغہ، روح کا فاقہ : اﷲ جل جلالہٗ نے
حضرت انسان کو دو چیزوں سے بنایا :(۱) جسم۔ (۲) روح۔
فرق اتنا ہے کہ جسم مکان کی حیثیت رکھتاہے تو روح مکین کی،اور جسم
خاکی ہے تو روح افلاکی ، دونوں ہی امانت ِالٰہی ہیں۔ اس لیے دونوں کی صحت و حفاظت
مطلوب ہے، جس کا تقاضہ یہ ہے کہ انہیں ان کی غذا فراہم کی جائے ورنہ صحت برقرار
نہیںرہ سکتی۔پھرجس طرح غذانہ ملنے سے جسم کمزور اوربے کار ہوجاتا ہے، اسی طرح
غذانہ ملنے پر روح بھی کمزور اوربے کار ہو جاتی ہے، اور جسم چوںکہ مٹی سے بنا ہے
اس لیے اس کی غذا بھی مٹی سے نکلتی ہے، اور روح (عرشی ہے جو) آسمان سے آئی ہے یہ
{مِنْ أَمْرِ رَبِّیْ} (بنی اسرائیل : ۸۵)ہے۔
اس لیے اس کی غذا ذکر ِالٰہی ہے۔
حکیم العصرشاہ حکیم اختر صاحب ؒ فرماتے ہیں کہ’’ ذکر کا ناغہ روح کا
فاقہ ‘‘ ہے، ہم جس طرح پیٹ کے فاقے سے ڈرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ روح کے فاقہ سے
ڈرنا چاہیے، اس لیے کہ جب روح نہ رہے گی تو روٹی کیسے کھا سکیں گے؟اﷲ اﷲ ہے تو
یارو! جان ہےورنہ یارو !جان بھی بے جان ہےجب ذکر قلیل کی اتنی عظیم فضیلت ہے تو
کثیر کی کتنی ہوگی؟ اس لیے ذکر
بکثرت کریں، اگر ذکر میں مزاآئے تو غذا سمجھ کرکر یں، اور مزا نہ آئے تو دوا
سمجھ کر کریں،ترک نہ کریں۔ارشادِ ربانی ہے: { یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اذْکُرُوْا اللّٰہَ ذِکْراً
کَثِیْراً} (الأحزاب:۴۱)’’
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت کثرت سے کیاکرو‘‘۔ ورنہ میدانِ محشر میں حسرت ہوگی۔چنانچہ شیخ
الاسلام حضرت مولانامدنیؒ فرماتے ہیں کہ قرآن پاک میں قیامت کاایک نام ’’یوم
الحسرۃ‘‘ ذکر کیاگیاہے۔ کما قال تعالٰی: {وَأَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْحَسْرَۃِ} (مریم : ۹) (اے
پیارے نبی! آپ ان کو ڈرائیے حسرت کے دن یعنی قیامت سے )اب کافر، مشرک اورمنافق کے
لیے تو قیامت کا حسرت والادِن ہوناسمجھ میں آتاہے، مومن کے لیے حسرت
کیوں؟
تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جب حق تعالیٰ اپنے ذکروطاعت پر اجر عظیم عطا
فرمائیں گے تب ذاکر وعامل حسرت کرے گا کہ کاش !میں ذکر قلیل و عمل قلیل پر اکتفا
نہ کرتا ۔کیوںکہ روایت میںہے کہ ’’بالفرض ایک مومن ولادت سے وفات تک بھی اللہ
تعالیٰ کے ذکر و طاعت میںلگارہے تب بھی وہ قیامت کے دن اجر عظیم کو دیکھ کر اپنے
عمل کو قلیل سمجھے گا، او رتمنا کرے گا کہ کاش !پھر ایک موقع مل جاتا تو مزید ذکرو
طاعت کا اہتمام کرتا۔ (مشکوٰۃ/ ص:۴۵۲) .
غرض ذکر ِالٰہی کی بڑی اہمیت ہے، چنانچہ حدیث پاک میں وارد ہے کہ قیامت کے دن حضرت حق تعالیٰ جہنم پر
متعین فرشتوں سے فرمائیں گے: فرشتو ! ’’اخْرِجُوْا
مِنَ النَّارِ مَنْ ذَکَرَنِیْ یَوْماً‘‘ جس
نے ایک دن بھی مجھے یاد کیاہو، میرا ذکر کیا ہو،یا کسی بھی مقام پر مجھ سے خوف
کیاہو(آج میں اسے اپنے عذاب سے نجات دینا چاہتا ہوں، لہٰذا) اسے دوزخ سے نکالو !
یہاں یاد رہے کہ اس جگہ وہ مومن مخلص مراد ہے جو مرتے وقت ایمان پر قائم ہو، لیکن
گناہوں کی وجہ سے دوزخ میں ڈال دیاگیا ہو۔ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں: ’’أَيْ
بِشَرطِ کَوْنِہٖ مُؤْمِناً مُخْلِصاً‘‘ (مرقاۃ المفاتیح/ص : ۸۴/ جلد :۱۰)
صاحبو ! جب ذکر ِقلیل کی اتنی عظیم فضیلت ہے تو
ذکر ِکثیر کی کتنی فضیلت ہوگی؟
ایک واقعہ :ذکر ِقلیل کی عظیم فضیلت پر حضرت حکیم العصر مولانا حکیم اختر صاحب ؒ
نے ایک عجیب و غریب واقعہ بیان فرمایا کہ ’’حضرت سلیمان علیہ السلام کو قرآن کے
بیان کے مطابق اﷲ پاک نے بے مثال حکومت و سلطنت عطا فرمائی تھی، آپ کے پاس ایک
حیرت انگیز اور عظیم الشان معجزانہ تخت تھا، جس میں بعض روایات کے مطابق سونے
چاندی کی کرسیاں سجی ہوئی تھیں، اس پر آپ مع اصحاب واحباب بیٹھا کرتے تھے،
پھرچوںکہ اﷲ رب العزت نے آپ کو ہوا پر بھی حکومت عطا فرمائی تھی، اس لیے جب کہیں
سفر میں جانا ہوتا تو آپ لشکر سمیت تخت پر جلوہ افروز ہو جاتے، پھر جہاں کا ارادہ
ہوتا ہوا کو حکم فرماتے، تووہ نہایت تیز رفتاری کے ساتھ منزلِ مقصود تک پہنچا
دیتی، اس کی تیز رفتاری کو قرآن نے اس طرح بیان کیا: {وَ
لِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ غُدُوُّھَا شَھْرٌوَّرَوَاحُھَا شَھْرٌ} (سبأ : ۱۲) حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوا کو مسخر کر
دیا ،اس (ہوا) کا چلنا صبح میں مہینے بھر کی مسافت تھی ،اسی طرح شام کا چلنا مہینے
بھر کی مسافت تھی۔
مطلب یہ ہے کہ دنیاکی تیز رفتار سواری مہینہ بھر کی مسافت میں جہاں
پہنچتی ہے وہ تخت ِسلیمانی صبح سے شام تک میں طے کر لیتا تھا، مگر اس کے باوجود
حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا ذکر اتنا محبوب تھاکہ آپ ہوائی (جہاز)
تخت پر سفر کے دوران پورے راستے میں سر جھکائے ذکر ِالٰہی میں مشغول رہتے تھے۔ذکر
ِخدا میں ہر دم رہنا، سب کے بس کی بات نہیں خواہش نفس سے بچتے رہنا، سب کے بس کی
بات نہیں .
ہوائی جہاز میں سفر کے دوران
ذکر ِالٰہی کا اہتمام : عاجز کا ناقص خیال یہ ہے کہ ہمیں بھی
اگر اﷲ پاک ہوائی جہاز (Aeroplain) میں سفر کا موقع دے تو سنت ِسلیمانی کے مطابق
ذکر ِالٰہی کا اہتمام کرنا چاہیے، کیونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا ہوائی تخت تو
نورانی و روحانی تھا، جب کہ اِس زمانہ کے ہوائی جہاز میں تو عیش و عیاشی کے سامان
ہوتے ہیں، شراب ا س میں ہوتی ہے (الا ماشا ء اﷲ) ائیر ہوسٹس(Air Hostess) کے فتنہ کا خطرہ اس میں ہوتا ہے، حادثہ پیش
آنے کا امکان اس میں ہے، ایسی صورت میں ظاہری و باطنی خطرات سے بچنے کے لیے ذکر
ِالٰہی کا اہتمام ہوائی جہاز میں سفر کے دوران نہایت ضروری ہے ،تاکہ فضا بھی ہمارے
ذکر کی قیامت کے دن گواہی دے۔
رجوع الی القصہ :الغرض !حضرت سلیمان علیہ السلام ہوائی تخت کے
سفر میں ہمیشہ ذکر ِالٰہی میں منہمک رہتے تھے، اُس سے کبھی غفلت نہ ہوتی تھی، ایک
مرتبہ آپ اپنے احباب و اصحاب کے ساتھ
ہوائی تخت پر کہیں تشریف لے جا رہے تھے، تو آپ کی جلالت ِشان کو دیکھ کر ایک امتی
نے کہا: ’’سبحان اﷲ!کیا اٰلِ داودکی شان و شوکت اور حکومت ہے؟ ‘‘
ہوانے اُس امتی کی بات حضرت سلیمان علیہ السلام تک پہنچادی، گویا اس
نے سی۔آئی۔ڈیD ).I.C.) کا کام کیا، فوراً حضرت نے اُس امتی کو طلب کیا اور ارشاد
فرمایاکہ ’’لَتَسْبِیْحَۃٌ وَّاحِدَۃٌ خَیْرٌمِمَّا أُوْتِيَ
اٰلُ دَاؤدَ‘‘ اﷲ کے بندے !تیرا ایک مرتبہ ’’سبحان اﷲ‘‘ کہنا(اجر ِآخرت کے اعتبار
سے) اٰلِ داود کی تمام دولت و سلطنت سے
کہیں بہتر ہے، اس لیے کہ سلیمان اور اس کی حکومت تو ختم ہو جائے گی ،مگر یہ تسبیح
اور اس کا اجرو ثواب باقی رہے گا۔(باتیں ان کی یاد رہیں گی ۲۲۰) اور خلوص کے ساتھ کیے جانے والا ایک مرتبہ کا ذکر بھی نجات کے لیے
کافی ہوجائے گا۔ چنانچہ فرمایا :’’أَخْرِجُوْا مِنَ النَّارِ مَنْ
َذَکَرْنِیْ یَوْماً۔‘‘
حضرت امام خلیل بن احمد ؒ کا واقعہ :حضرت بصیر حمصی ؒ نے حضرت
امام خلیل بن احمد ؒ کو ان کی وفات کے بعد
خواب میں دیکھا تو کہا :’’اب علمی اشکالا ت کے حل میں ہم کو بڑی دقت پیش آئے گی،
کیوںکہ اب آپ جیسا کوئی عالم نہیں ملتا جو علمی پیچیدگیاں آسانی سے حل کر دے‘‘،
اس پر فرمایا: ’’بھئی! مشکلات کو تو تم ہی حل کروگے، پہلے ذرا یہ تو پوچھو کہ ہم
جن تحقیقاتِ علمیہ کے حامل اور ان پر نازاں تھے اُن کا کیا حشر ہوا؟‘‘ پھر حضرت
امام خلیل احمد ؒ نے فرمایا:’’ہمیں تو صرف یہ کلمہ کام آیا :’’سُبْحَانَ
اﷲِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ، وَلاَ إِلٰہَ إِلاَّاللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ، وَلَا
حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاﷲِ الْعَلِيِّ الْعَظِیْمِ‘‘ باقی تحقیقات کی تو کچھ پوچھ ہی نہیں ہوئی۔‘‘( کشکول /ص :۲۲، مفتی محمد شفیع صاحب
ؒ)
ذکر ِالٰہی کا التزام : ذکر ِالٰہی کے ان
ہی فضائل کے پیش نظر اس کی کثرت کا حکم دیاگیا : { وَ
اذْکُرُوْا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ} (الأنفال : ۴۵) اس کی ترجمانی کرتے ہوئے مولاناجلال الدین رومی
ؒ فرماتے ہیں :مومنا! ذکر خدا بسیار گو تابیابی در دو عالم آبرو اے مومن بندے ! جب ذکر ِالٰہی کی یہ فضیلت ہے تو
تجھے چاہیے کہ بکثرت ذکر ِالٰہی میں مشغول ہو، تاکہ دارین میں تو عزت وراحت پا
جائے۔
ہمارے حضرت شیخ الزماں مدظلہٗ فرماتے ہیں کہ اہل اللہ ذ کر اللہ
کااتنا اہتمام فرماتے تھے کہ بعض اولیاء اللہ بیت الخلاء جاتے وقت زبان کو دانتوں
سے پکڑ لیتے کہ کہیں بیت الخلاء میں ذکر اللہ جاری نہ ہوجائے‘‘۔ مشہور تابعی حضرت
عروہ بن زبیرؒ ایک مرتبہ ولید بن یزید سے
ملنے دمشق روانہ ہوئے، تو راستے میں چوٹ لگ کر پاؤںزخمی ہوگیا، درد کی شدت سے
چلناپھرنادوبھر ہوگیا، سخت تکلیف کے باوجود ہمت نہیں ہاری اوردمشق پہنچ گئے، ولید
نے فوراً طبیبوں کو جمع کیا، انہو ں نے زخم کا بغور جائزہ لینے کے بعد پاؤں کاٹنے
کی رائے پر اتفاق کیا، حضرت عروہؒ کو جب
اطلاع کی گئی ،توانہوں نے منظو رکرلیا،مگر پاؤں کاٹنے سے پہلے بے ہوشی کے لیے نشہ
آور دواکے استعمال سے یہ کہہ کر صاف انکار کردیاکہ میں کوئی لمحہ اللہ تعالیٰ کی
یاد سے غفلت میں نہیں گذارسکتا۔(’’کتابوں کی درسگاہ میں‘‘ص:۳۷).
حضرت حکیم العصر مولانا حکیم
اختر صاحبؒ فرماتے ہیں: ’’ میرا ذوق یہ ہے
کہ جس نے اخلاص کے ساتھ ایک بار بھی اﷲ تعالیٰ کا نام لیا ،اسے یاد کیا ،اﷲ تعالیٰ
اسے جہنم میں نہیں ڈالے گا، اور جس کی آنکھ سے ایک بار بھی اللہ تعالیٰ کی خشیت و
محبت سے آنسو نکلا، اس کا خاتمہ برا نہ ہوگا۔
(مواہب ِربانیہ/ ص: ۹) .
خوفِ الٰہی کی فضیلت : پھریہ اسی خوفِ الٰہی
کانتیجہ ہے کہ اسے دوزخ سے ضرور نجات دی جائے گی۔ فرمایا:’’أَوْخَافَنِیْ
فِیْ مَقَامٍ‘‘۔مطلب یہ ہے کہ اس کی دنیوی زندگی میں کوئی ایساموقع آیاہو کہ جب وہ
کسی گناہ میں مبتلا ہونے سے محض میرے خوف کی وجہ سے باز رہا ہو، تووہ نجات دیاجائے
گا۔ اِس سے خوفِ الٰہی کی زبردست فضیلت ثابت ہوئی۔
صاحبو! اللہ تعالیٰ کی جلالت و عظمت کاحق یہی ہے
کہ اس کی ناراضگی سے انسان ڈرتارہے، او راللہ کاخوف و خشیت دل میں پیدا کرنے کے
لیے اس کی قدرت وعظمت کاخیال دل میں جمایاجائے، اسی کے ساتھ بروں کے انجامِ بد کو
سوچا جائے، نیز قرآن وحدیث میں نافرمانوں
کے لے جن عذابوں کی وعیدیں آئی ہیں اُن کا تصور کیاجائے۔ اہل اللہ کے دل میں کس قدر خوفِ خدا تھا؟ اس کا
اندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ شیخ سعدیؒ نے ’’گلستاں‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک سال
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ حج کے لیے گئے، تو لوگوں نے دیکھا کہ حرمِ کعبہ میں
کنکریوں پر پیشانی رکھ کر دعامیںکہہ رہے تھے: ’’اے اللہ! مجھے بخش دے، اور اگر میں
سزاکامستحق ہوں تو قیامت میں مجھے اندھا اٹھانا، تاکہ نیکوں کے روبرو شرمسار نہ
ہونا پڑے۔‘‘(گلستاں/ ص:۶۷) .
جب اتنے بڑے ولی اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرتے تھے تو ہمیں کتنا
ڈرناچاہیے،جب کہ ارشادِ ربانی بھی ہے:{وَاللّٰہُ أَحَقُّ
أَنْ تَخْشٰہُ} (الأحزاب : ۳۷) اللہ تعالیٰ زیاد ہ
مستحق ہے کہ تم اس سے ڈرو۔ او رجو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں ان کے متعلق قرآن پاک
میں فرمایا: {وَأَمَّا
مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰی فَإِنَّ الْجَنَّۃَ
ہِيَ الْمَأْوٰی} (النازعات :۴۰-۴۱)
یعنی جو شخص دنیا میں اپنے رب کے سامنے کھڑاہونے سے حقیقی معنی میں
ڈرا ہوگا، اور نفس کو حرام خواہش سے روکاہوگا، تو جنت اس کا اصلی ٹھکانا ہوگا۔اور
گناہ سے وہی بچے گاجس کے دل میںاللہ تعالیٰ کاخوف ہوگا، کہ خوفِ الٰہی اجتنابِ
معاصی کاذریعہ ہے، اب جس میں جتنا زیادہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہوگا وہ اتنا ہی گناہ
سے بچے گا۔ایک واقعہ : امام غزالیؒ نے ’’مکاشفۃ القلوب‘‘ میں ایک واقعہ
نقل فرمایاہے کہ’’ ایک نوجوان کسی عورت کی محبت میں مبتلا ہوگیا، ایک مرتبہ وہ
عورت کسی قافلہ کے ساتھ سفر پر روانہ ہوئی،
نوجوان کو جب معلوم ہوا تو وہ بھی اس عورت کی طلب میں ساتھ چل پڑا، رات کے
وقت جب قافلہ کسی منزل پر پہنچا اور قافلہ والے فارغ ہو کر سو گئے، تب نوجوان چپکے
سے عورت کے پاس گیا اور محبت کا اظہار کرنے لگا، عورت نے کہا: ’’جاکر دیکھو! قافلہ
میںکوئی جاگ تو نہیں رہاہے‘‘ نوجوان نے
فرطِ مسرت میں قافلہ کاچکر لگایا اور واپس آکر کہنے لگا: ’’سب غافل سوئے پڑے
ہیں‘‘ تو عورت نے کہا:’’اللہ میاں بھی ؟‘‘ بولا :’’نہیں، وہ تو کبھی نہیں سوتا‘‘
عورت کہنے لگی: ’’لوگ سو گئے تو کیا ہوا،اللہ تعالیٰ تو جاگ رہاہے، لوگ نہیں
دیکھتے ،اللہ تعالیٰ تو دیکھتاہے، لہٰذا اس سے ڈرنا ہمارافرض ہے‘‘ پس نوجوان خوفِ
الٰہی سے لرزہ براندام ہوگیا اورگناہ سے باز آگیا، کہتے ہیں کہ اس کے کچھ وقت کے
بعدنوجوان کا انتقال ہوگیا، بعد میں کسی نے خواب میں پوچھا کہ’’ کیامعاملہ ہوا؟‘‘
تو کہنے لگا: ’’اس دن خوفِ الٰہی کی وجہ سے گناہ سے باز رہا، تو اللہ تعالیٰ نے
میرے سارے گناہ معاف کردیے۔
‘‘حضرت بابا نجم احسن ؒ فرماتے تھے:دولتیں مل گئی ہیں آہوں کی .ایسی
تیسی میرے گناہوں کی
عاجز کا ناقص خیال یہ ہے کہ جو بندہ اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو کر
اپنے رب کے سامنے روتا ہے، اُسے مصیبتوں میں سب کے سامنے رونا نہیں پڑتا۔ شاہ صاحب علامہ سید عبدالمجید ندیمؒؔ فرماتے
ہیں:’’اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کو دنیامیں (اجتنابِ معاصی کے علاوہ)ایک صلہ یہ
بھی ملتاہے کہ دنیا کی ہر چیز اُن سے ڈرتی ہے، اور جو اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرے اسے
دنیا میں یہ سزا ملتی ہے کہ دنیا کی ہر چیز اسے ڈراتی ہے۔ صحابہؓ کی زندگیاں معیار ہیں، انہیں ان کے استاذِ
کامل صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ
سے ڈرنے کا سلیقہ سکھادیا، تو دنیا نے دیکھا اور تاریخ نے نوٹ کیا کہ جنگل کے
درندے ان سے ڈرتے تھے، روم کاقیصر اور ایران کاکسریٰ ان کے قدموں کی چاپ سے لرزہ
براندام رہتا تھا۔
‘‘ذکر ِخدا و خوف ِخدا کا روح پر اثر : صاحبو ! جب بات یہی ہے تو ہمیں چاہیے کہ ذکر
ِالٰہی میں اپنی زندگی کھپا دیں، اللہ
تعالیٰ کی عبادت کرکے اپنے بدن کو تھکا دیں، اور پھر جب اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت
ہم پر پڑے تو ’’ھَلْ مِنْ مَّزِیْدْ‘‘ کہتے ہوئے اپنے قدم کو
آگے بڑھادیں۔
بہر حال! حدیث ِبالا میں ذکر ِالٰہی اور خوفِ
خداوندی پر یہ انعام بیان فرمایا کہ ہم یا تو ایسے شخص کو جہنم سے نجات عطا فرماکر
اول مرحلہ میں ہی جنت میں داخل فرمادیں گے: {یَغْفِرُ
ِلِمَنْ یَّشَائُ وَیُعَذِّبُ مَن یَّشَائُ} (المائدۃ : ۱۸)یا
پھرگناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل کر دیں گے، یہ
صلہ ذکر ِقلیل اور خوفِ قلیل کا ہے، خوفِ الٰہی کی بنیاد پر بہنے والے آنسوؤں کی
برسات سے روح مصفیٰ و منور ہوتی ہے، تو ذکر اللہ سے روح کوغذا اور تقویت ملتی
ہے۔یہ دونوں ہی ضروری ہیں،شایداسی لیے ان دونو ںکو ساتھ ساتھ بیان کیا۔
وَ لَنِعْمَ
مَا قِیْلَ: جنت کا اگر شوق ہو تو یادِ خدا کن دوزخ
کااگر خوف ہو تو خوفِ خدا کن اﷲ پاک ہم سب کو اپنے ذکر سے مناسبت اور اپنی خشیت
نصیب فرمائے، آمین۔و اٰخر دعوانا أن الحمد للّٰہ رب العٰلمینیَا
رَبِّ صَلِّ وَ سَلِّمْ دَائِماً أَبَدًاعَلٰی حَبِیْبِکَ خَیْرِالْخَلْقِ
کُلِّھِمْ .
بحوالہ گلدستہ حدیث : ترتیب اکبر حسین اورکزئی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں