اتوار، 17 دسمبر، 2017

اتفاق کی اہمیت اور اختلاف کی مذمت


 عَنْ أَبِیْ مُوْسٰیؓ عَنِ النَّبِیِّ   قَالَ: اَلْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ کاَلْبُنْیاَنِ یَشُدُّ بَعْضُه بَعْضاً، ثُمَّ شَبَّکَ بَیْنَ أَصاَبِعِه۔‘‘ (متفق علیه، مشکوٰۃ/ص :۴۲۲/باب الشفقة والرحمة علی الخلق/ الفصل الأول)     
ترجمہ  :  حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓنے رحمت عالم   صلی اللہ علیہ و سلم  سے روایت نقل فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے ارشاد فرمایا: ’’(ایک) مسلمان (دوسرے )مسلمان کے لیے ایک مکان (اور اس کی دیوار) کے مانند ہے، جس کا بعض (ایک حصہ) بعض (دوسرے حصہ)کو مضبوط رکھتا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل فرمایا ۔کائنات کا نظام
تشريح :
 انسانوں کے آپسی اتفاق سے چلتا ہے   :           رب کریم کی سجائی ہوئی، بسائی ہوئی اور بنائی ہوئی اس کائنات کے نظام میں ذرا غور کیا جائے تو کسی بھی سمجھدارپر اتفاق کی اہمیت اور اختلاف کی مذمت واضح ہو سکتی ہے۔ وہ اس طرح کہ یہ دنیا چوںکہ دار الاسباب ہے، اس لیے اسباب کے تحت کائنات کا تمام ہی نظم و  نظام اور ضبط و انتظام انسانوں کے آپسی تعاون و تنا صر اور اتفاق و اشتراک سے چلتا ہے، اس دنیا میں ایک شخص خواہ وہ کتنا ہی دانش مند اور دولت مند کیوں نہ ہو ؟ مگر وہ اپنی ساری ضروریات ِ زندگی اکیلا اور تنِ تنہا پوری نہیں کر سکتا، کیا بڑا، کیا چھوٹا، کیا عامی، کیا نامی، کیا پڑھا لکھا، کیا ان پڑھ،کیا امیر، کیا غریب،کیا گورا ،کیا کالا ،کیا لال ،کیا پیلا ،کیا عربی، کیا عجمی، کیا شہری، کیا دیہاتی ،بلا تخصیص ہر ایک کو قدم قدم پر دوسرے کے سہارے اور ساتھ کی ضرورت پڑتی ہے،رعایا کو بادشاہ چاہیے تو بادشاہ سلامت کو رعایا،پبلک لیڈر کے بغیر اگرلا وارث ہے تو خود لیڈر صاحب بھی لوگوں کے بغیر،بغیر بارات کے دولہا ہیں،مزدوروں کو امیروں اور سیٹھوں کی حاجت و ضرورت ہے تو امیروں کے کام بھی ان کے ملازموں کے بغیر رکے ہوئے ہیں،یہی وجہ ہے کہ آج اگر یہ بھنگی،دھوبی،باورچی،موچی،اور منشی یا دیگر ملازمین اپنے اپنے کام کاج چھوڑ کر ہڑتال پر اتر آئیں تب دیکھئے گا کہ منشی صاحب،ڈپٹی صاحب، کلیکٹر صاحب، پروفیسراور ڈاکٹر صاحب،انجینئر اور ایڈوکیٹ کی کیا گت بن کر رہتی ہے، مختصریہ ہے کہ اُن کے کام ان سے وابستہ ہیں، تو اِن کی ضرورتوں کی زنجیر اُن کے دامن سے بندھی ہوئی ہے،اس طرح ربِّ کریم کی جانب سے کائنات کا یہ سارا نظام ایک دوسرے کے تعاون اور اتفاق و اتحاد سے چلتا ہے۔
اتفاق کا اصل مرکز دین ہے  :اس لیے نظامِ کائنات کی بقا اور انسانوں کی صلاح و فلاح کے لیے آپسی اتفاق اور اتحاد نہایت اہم و ضروری ہے۔ پھر اس کائنات میں اگرکوئی نیک جذبہ یا صحیح واسطہ ایسا ہوسکتا ہے جو تمام ہی انسانوں کو رنگ و نسل کے امتیاز اور زبان و ذات کے اختلافات سے نجات دلا کر ہر ایک کو اتفاق اور اتحاد کی لڑی میں پرو سکتا ہے تو بلا شبہ وہ دین حق یعنی اسلام ہی ہے، قرآن کہتا ہے کہ تم سب کا دین تو ایک ہی ہے،فرمایا:           { وَ إِنَّ ھٰذِہٖ أُمَّتُکُمْ أُمَّۃً وَّاحِدَۃً } (المومنون : ۵۲ ) اور حقیقت یہ ہے کہ یہی تمہارادین ہے (سب کے لیے) ایک ہی دین۔اورجب سب کا دین ایک ہے تو صاف ہو گیا کہ سب کے اتفاق کا اصل مرکز بھی دین ہی ہے، اس لیے حکم یہ ہے کہ{ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَتَفَرَّقُوْا} (آل عمران : ۱۰۳)            اللہ کی رسی یعنی دین کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور اختلاف پیدا نہ کرو۔
آیتِ کریمہ میں ’’جَمِیْعًا‘‘ کی قید لگائی، اس کا مطلب یہ ہے کہ دین تو سب کا ایک ہی ہے، اس لیے دینی و اسلامی اصولوں پر سب مل کر جمع ہو جائو، اور انفرادی زندگی میں اپنے مفاد سے بڑھ کر دوسرے کے مفاد کا خیال کرو، اس کی برکت سے تم میں جمعیت اور اجتماعیت خود بخود پیدا ہو جائے گی، اس کے بغیر اتحاد مشکل ہے،شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ نے کہا ہے :فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیںموج ہے دریا میں، بیرونِ دریا کچھ نہیں حضراتِ صحابہؓ  کا اتفاقِ باہمی دین اسلام کے سبب تھا   :           
حیاۃ الصحابہ سے دنیا و انسانیت کو یہی درس ہدایت ملتا ہے، جب صحابۂ کرامؓ کی زندگی میں دین نہیں تھا تو ہر طبقہ میں شدید اختلاف اور انتشار تھا،تاریخ اسلام کا ہر طالب علم اس سے بخوبی واقف ہے، لیکن جب ان کی زندگی میں دین آیا اور صحابہؓ  اللہ تعالیٰ کی توفیق و عنایت اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم  کی دعوت و تر بیت سے دین پرجمے، تو ان کے ما بین اتفاق و اتحاد اور اجتماعیت و اخوت کی ایسی عمومی فضا قائم ہوگئی کہ مختلف علاقوں میں رہنے والے،مختلف قبیلوں سے تعلق رکھنے والے،مختلف حیثیتوں اور زبانوں والے قرنِ اوّل کے تمام ہی مسلمان یک جسم وجان اور باہم شیر و شکر ہوگئے،خود قرآن نے اس کی گواہی دیتے ہوئے فرمایا: { فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ إِخْواَناً } ( آل عمران : ۱۰۳)            پھر اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں کو جوڑدیا او رتم اللہ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے۔ دربار رسالت میں سیدنا بلال حبشی ؓ تھے، سیدنا صہیب ؓ رومی تھے، سیدنا سلمان فارسی ؓ تھے، سیدنا عداس نینوائیؓ تھے، سیدنا ابو ذر غفاریؓ تھے، سیدنا طفیل دوسیؓ تھے، سیدنا حذیفہ سہمیؓ تھے، سیدنا ابو سفیان امویؓ تھے، سیدنا عدی طائیؓ تھے، انصار بھی تھے، مہاجر بھی،جو کچھ بھی تھے،مگر سب نیک اور ایک تھے، اور{إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ } (الحجرات: ۱۰) (بلاشبہ تمام مومن بھائی بھائی ہیں)کی حقیقی،عملی اورسچی تفسیر تھے،اللہ کی قسم ! صحابہ کرامؓ کے پاکیزہ سماج میں جو اتفاق اور اخوت تھی پوری انسانی تاریخ میں کہیں اس کی مثال نہ ملتی ہے اور نہ ملے گی ۔
ایک  ہدایت آموز واقعہ   : چنانچہ ہجرت کے بعد رحمت عالم  صلی اللہ علیہ و سلم نے اتفاق کی اہمیت کے پیش نظر مہاجرینؓ اور انصارؓ میں مواخات قائم فرمائی، تاریخ انسانی میں یہ ایسا عدیم النظیر واقعہ ہے جس میں تمام انسانوں کے لیے عموماً اور مسلمانوں کے لیے خصوصاًسامانِ عبرت ہے، اس سلسلہ کا ایک ہدایت آموز واقعہ یہ ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ  کا بھائی چارہ حضرت سعدؓ بن ربیع سے ہوا، اِن کے آپس میں اخوت قائم ہوجانے کے بعد حضرت سعدؓ نے حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ سے فرمایا : 
أَیْ أَخِیْ! أَناَ أَکْثَرُ أَهل الْمَدِیْنة ماَلاً، فَانْظُرْ شَطْرَ ماَلِیْ، فَخُذْہٗ، وَتَحْتِیْ امْرَأَتاَنِ، فَانْظُرْ أَیَّتهماَ أَعْجَبُ إِلَیْکَ، حَتّٰی أُطَلِّقهاَ۔‘‘اے میرے بھائی! میں مدینہ منورہ میں الحمد للہ سب سے زیادہ مالدار ہوں، لہٰذا دیکھ لو اور اپنی پسند کا میرا آدھا مال لے لو، اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری دو بیویاں ہیں، جن کے ساتھ زندگی خوشی خوشی بسر ہو رہی ہے،لیکن تم میرے ایمانی بھائی ہو اور اب تک بغیر بیوی کے زندگی بسر کر رہے ہو، اس لیے دیکھو،میری دو بیویوں میں سے جو پسند ہو میں اسے طلاق دے دوںگا،پھر عدت کے بعد تم اس سے شادی کر لینا،سبحان اللہ !کیا ایثار اور اخوت تھی؟
لیکن حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ کی غیور طبیعت نے اس پیش کش کو قبول نہ کیا،فرمایا:’’ بَارَکَ اللّٰه لَکَ فِیْ أهلكَ وَ ماَلِکَ، دُلُّوْنِیْ عَلیٰ السُّوْقِ۔‘‘ (حیاۃ الصحابۃ : ۱/۳۶۳)  جزاکم اللّٰہ خیرا فی الدارین  اللہ تعالیٰ تمہارے اہل و عیال اور مال و منال میں بہت ہی زیادہ برکتیں عطافرمائے، آمین۔ آپ مجھے صرف بازار کا راستہ بتلا دیجئے ... آگے اللہ تعالیٰ مالک ہے، تو حضرت سعد ؓ نے بے تکلف ان کی رہبری فرمائی،اس کے بعد حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے بازار جا کر خریدو فروخت شروع کر دی،اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھئے کہ انہیں تجارت میں اتنا نفع ہوا کہ کچھ ہی عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو مال بھی دیا اور شادی بھی کرا دی، ان کی تجارت میں برکت کا حال خود ہی فرماتے ہیں کہ اگر میں کوئی پتھر بھی اٹھاتا تو مجھے اس سے سونا چاندی حاصل ہونے کی امید ہوتی ۔امت مسلمہ ایک وجود بن جائے تو کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا   :   
صاحبو ! یہی تو ایمان اور ایمانی زندگی کی خاصیت ہے،اس سے اجتماعیت بھی نصیب ہوگی اور برکت بھی، حضرات صحابہؓ نے ایمان کے بعد اپنی عملی زندگی سے یہ ثابت کر دیا کہ مسلمان جہاں اور جیسا بھی ہو،جس رنگ و نسل سے بھی تعلق رکھتا ہو، لیکن مومن ہونے کی حیثیت سے وہ دوسرے مومن کا بھائی ہے،اور ساری امت مسلمہ ملت اسلامیہ کے توسط سے مربوط او رمضبوط رشتہ میں بندھی ہوئی ہے،یہی وجہ ہے کہ حدیث پاک میں امت مسلمہ کو ایک مضبوط عمارت اور  دیوارسے تشبیہ دی گئی: ’’ اَلْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ کاَلْبُنْیاَنِ۔‘‘ علماء نے فرمایا کہ یہ حدیث آیت کریمہ { کَأَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَرْصُوْصٌ} (الصف:۴)  (ایمان والے سیسہ پلائی ہوئی دیوا رکی طرح ہیں) کی تفسیر ہے۔ 
مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے جو تعلق ہوتا ہے،اس کی مثال ایک مضبوط عمارت کے مانند ہے، جس کے مختلف حصے باہم مل کر مضبوط ہو جاتے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھائیں،گویا مسلمان کے آپسی تعلق کو مضبوط مکان کے ساتھ تشبیہ دے کر اتفاق کی اہمیت اور اختلاف کی نحوست کو حدیث مذکور میں بہترین انداز سے سمجھایا گیا،کہ جس طرح مکان کے مختلف اجزاء اور حصے اینٹ،لوہا، لکڑی وغیرہ ایک دوسرے سے جڑ کر ایک مضبوط اورپختہ عمارت بن سکتی ہے، مسلمانوں کے بھی مختلف افراد ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک مضبوط جماعت بن سکتے ہیں۔ اس سے معلوم ہواکہ ان کی قوت جمعیت میں ہے، انفرادیت میں نہیں،ورنہ جیسے تعمیر ِ مکان سے پہلے جب اس کے مختلف اجزا ء ایک دوسرے سے علاحدہ تھے،تو حال یہ تھا کہ اینٹوں کا ڈھیر پڑا ہے، الگ الگ انیٹیں لاکھوں کی تعداد میں ہیں، لیکن اس کے باوجود گلی کا معمولی لڑکا بھی ایک اینٹ دوسری اینٹ سے ٹکرا دیتا ہے، لاتعداد اینٹیں بھی اس بے حیثیت لڑکے کے سامنے بے دست وپا ہوتی ہیں،ایسے ہی لوہا اپنی ذات سے کتنا ہی مضبوط سہی،لیکن یہ کسی جگہ الگ سے یونہی پڑا ہواہو تو ایک کمزور شخص بھی اسے چرا سکتا ہے، یہی حال لکڑی کا بھی ہے، مگر جب یہی اینٹیں، لوہا اور لکڑی باہم مل جل کر ایک مضبوط عمارت بن جائیں تو اب بڑی سے بڑی  جماعت مل کر بھی اسے دھکا دے تو ایک اینٹ بھی نہیں ہل سکتی، ٹھیک یہی حالت امت مسلمہ کی ہے، یہ امت مختلف افراد کے مجموعہ سے بنی ہے،اس حقیقت کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مثال دیتے ہوئے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھلایا، جس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ اگر ان میں اتفاق اور جمعیت نہیں،تو پھر اس کے افراد اپنی اپنی جگہ کتنی ہی صلاحیت اور حیثیت کے مالک ہوں،مگر ایک بے حیثیت شخص بھی ان کو آپس میں ٹکرا سکتا ہے،کمزور سے کمزور شخص بھی ان کے ایمان، اعمال اور اخلاق کو برباد کر سکتا ہے،لیکن جب  ایک دوسرے سے مل کر حلال امور اور معاملات میں اتفاق کرکے امت مسلمہ ایک وجود بن جائے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اور حکومت اپنی اکثریت کے باوجود اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی ۔پستی اور ذلت کا سبب اختلافِ باہمی ہے  :  ہماری تاریخ شاہد ہے کہ جب ہمارے ایمان میں قوت اور آپس میں اخوت اورصبر و استقامت کا وصف تھاتو ہم دنیا پر چھائے ہوئے تھے، کامیابی ہمارے قدم چومتی تھی، ہم اقلیت میں تھے تب بھی دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت اکثریت میں ہوتے ہوئے بھی ہمیں شکست نہ دے سکی، بدر کا واقعہ اس کی بہترین مثال ہے، لیکن جب سے ہم میں اختلاف پیدا ہوااور ہم نے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا شروع کیا،تو ہماری جمعیت اور قوت ختم ہو کر ہوا اکھڑ گئی، قرآن نے سمجھایا تھا: {وَلاَتَناَزَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ } (الأنفال : ۴۱) کہ اختلاف اور جھگڑا نہ کرنا، ورنہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔(تمہارا رعب و دبدبہ جاتا رہے گا) .
 افسوس! قرآن کی اس ہدایت کو ہم سمجھ نہ سکے،یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج امت کے ہر طبقہ میں اختلاف اور انتشار کا بول بالا ہونے کی وجہ سے ہمیں قدم قدم پر دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،آج جب کوئی قومی و ملی تحریک چلانے کا مسئلہ آتا ہے تو بد قسمتی سے باطل پرستوں سے پہلے ہی آپسی اختلاف اور مسلکی تفریق ہمیں کچل دیتی ہے اور ہماری صلاحیتیں کالعدم ہو کر رہ جاتی ہیں ۔
                   ہمیں  اپنوں ہی نے لوٹا، غیروں میں کیا دم تھا       *           میری کشتی وہیںڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا.
اور اسی پر بس نہیں، مزید ستم یہ ہے کہ ہمارا جو سرمایہ کفر و شرک،الحاد ومنکرات اور خرافات وبدعات کے خلاف لگنا چاہیے تھا اب وہ ہمارے آپسی اختلاف کے سبب امت مسلمہ پر لگ رہا ہے، ہم نے اپنی توپ وٹینک کے دہانے اپنوں ہی پر کھول دیے ۔    
افسوس! کہ کفار تو مسلمانوں کو ایک ہی گروہ سمجھتے ہیں، مگر ہمارا حال یہ ہے کہ ہم  اپنے علاوہ دوسرے گروہ کو مسلمان سمجھنے کے لیے تیار نہیں، الا ما شاء اللہ۔
اب دوستوں نے فریب دیا تو کیا ہوا؟
٭یہ  حادثے ہم  پہ کئی  بار  ہو گئے اب کیا گرائے گی ہمیں دنیا نگاہ سے
٭اتنے ہوئے ذلیل کہ خود دار ہو گئے .
عالم گیر دعوت اور عالم گیر پیغام و نظام رکھنے والی امت اس وقت عصبیت و اختلافات میں بٹ گئی، إِنَّا لِلّٰہِ وإِنَّا إِلیہ راجعون! ہماری پستی کا بنیادی سبب آپسی اختلاف ہی تو ہے، اس حقیقت کوکاش ہم سمجھ لیں کہ منفعت ایک ہے اس قوم کی،  
نقصان بھی ایک ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک .
اسبابِ زوالِ امت   :  ہمارے بزرگوں نے اسبابِ زوالِ امت کی حقیقت ہمیں سمجھائی؛ تاکہ دیکھ سکیں وہ عروج و زوال، کیاتھا ماضی  اور کیاہے حال؟     چناںچہ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب ؒ مالٹا کی چار سالہ قید سے رہائی کے بعد تشریف لائے تو ایک رات بعد عشاء دارالعلوم دیوبند میں علماء کے بڑے مجمع میں ارشاد فرمایا کہ ’’ہم نے تو مالٹا کی جیل میں دوسبق سیکھے ہیں‘‘ یہ سن کر سارا مجمع ہمہ تن گوش ہو گیا کہ حضرت استاذ العلماء نے اَ سیّ سال علماء کو درس دینے کے بعد اس آخری عمر میں دو سبق سیکھے ہیں وہ کیا ہیں ؟ فرمایا کہ ’’میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی و دنیوی  حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں ؟ تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے: ایک اُن کا قرآن کو چھوڑ دینا،   دو: آپس کا اختلاف اور خانہ جنگی ،اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآنِ کریم کو لفطاً اور معنًی عام کیا جائے،بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب بستی بستی قائم کیے جائیں، اور بڑوں کو عوامی درس (قرآن ) کی صورت میں اس کے معانی سے رو شناس کرایا جائے، اور قرآنی تعلیم پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے،اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے۔
آگے حضرت مفتیٔ اعظم مفتی محمدشفیع صاحب ؒ فرماتے ہیں کہ حضرتؒ نے باقی ایامِ زندگی میں ضعف وعلالت اورہجومِ مشاغل کے باوجود اس کے لیے سعيِ پیہم فرمائی ۔(البلاغ مفتی ٔاعظم  نمبر/ ص : ۲۵۰).
آئیے !بے جا اختلاف ختم کرکے حدیث پاک کا مصداق بنیں   :          عاجز کا خیالِ ناقص یہ ہے کہ امت کا عروج ایمان کی قوت، اسلامی سیاست، حسن تدبیر، آپس کی محبت و اخوت اور صبر و استقامت میں ہے، اور زوال اختلاف میں ہے،امت کو زوال سے بچانے کے لیے ذاتی طور پر ہر ایک کے لیے ضروری ہے کہ اپنے افکار و خیالات کو قرآن وسنت اور مسلَّمہ اسلامی اصولوں سے متصادم ہونے(ٹکرانے) سے بچائے، اختلاف اگر شرعی حدود میں نیک نیتی کے ساتھ ہو تو وہ مذموم نہیں ہے، لیکن اس صورت میں بھی اختلاف رائے کے باوجود فریق ثانی کے احترام سے ہرگز گریز نہیں کرنا چاہیے،پھر ان شاء اللہ وہ اختلاف بھی رحمت ثابت ہوگا،کیوںکہ نہ مطلقاً اتفاق مستحسن ہے اور نہ مطلقاً اختلاف مذموم ہے،بلکہ مقاصد پر نظر کر کے ان کے حسن و قبح (اچھے برے ہونے) کافیصلہ کیاجائے گا، نیکی میں اعتدال کے ساتھ اتفاق اچھا اور اختلاف برا ہے،جب کہ بدی میں اس کے برعکس اختلاف اچھا اور اتفاق براہے۔قرآنِ کریم  نے اصحابِ کہف کے متعلق فرمایا  : { وَرَبَطْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ إِذْ قَامُوْا} (الکہف : ۱۴). جب وہ حق کی دعوت لے کر اٹھے تو ہم نے ان کے دلوں میں ربط و تعلق اور وحدت ویگا نگت پیدا کر کے انہیں کئی قالب ویک جان بنا کر متحد و متفق کر دیا، یہ اس لیے کہ انہیں دنیا کی باطل قوت سے ٹکر لینا تھی، جس کے لیے ایمان کی قوت کے ساتھ آپسی اخوت  اور حسنِ تدبیر یعنی اسلامی سیاست اور صبر و استقامت بہت ضروری ہے ۔           
شاہ صاحب علامہ سید عبد المجید ندیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’احقاقِ حق و ابطالِ باطل کے علم برداروں کے لیے قرآن نے یہ واضح معیار پیش کر دیا کہ موقف کی سچائی کے بعداہلِ حق کی کامیابی کاجوگُر ہے وہ ان کا باہمی اتحاد ہے، اگر اُن میںاتفاق و اتحاد نہیں تو موقف کی سچائی کے باجود کا میابی کی حقیقی منزل سے وہ محروم رہیں گے ۔      
صاحبو !  یقینا ہم ایک دوسرے کے بغیر ناقص ہیں،نہ عزت سے جی سکتے ہیں نہ چین سے مر سکتے ہیں،اس لیے تہیہ وارادہ کی جئیے کہ آپس میں بے جا اختلاف کو ختم کرکے بنیانِ مرصوص بن جائیں، اللہ تعالیٰ کی رسی کو حکم قرآنی کے مطابق مضبوطی سے تھام لیں،اور حدیث مذکورمیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشادکے مصداق بنیں، جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے مضبوط مکان (اور اس کی دیوار)کے مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے سے مل کر تقویت پاتا ہے، اگر معمولی ذرات مل کر بلند پہاڑ بن سکتے ہیں، پانی ایک ایک قطرہ مل کر سمندر بن سکتا ہے،ایک ایک ٹہنی اور شاخ مل کر درخت بن سکتا ہے، جسم کے اعضا مل کر بہترین انسان بن سکتا ہے،تو یقینا امت کے تمام افراد بھی ایک دوسرے سے مل کر بہترین امت بن سکتی ہے ۔ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے انسان کواُخو ّت کا بیاں ہوجا،    محبت کی زباں ہو جاحق تعالیٰ ساری امت کو صراطِ مستقیم پر جمع فرمادے۔ ( آمین ) جَزَی اللّٰہُ عَنَّا مُحَمَّداً صَلّٰی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا ہُوَ أَہْلُہٗ ۔٭…٭…٭

بحوالہ گلدستہ حدیث:        ترتیب اکبر حسین اورکزئی 

کوئی تبصرے نہیں: